حادثے کا شکار تیزگام ایکسپریس میں سوار مسافروں کی تفصیلات سامنے آگئیں

کراچی:  رحیم یار خان کے علاقے لیاقت پور کے قریب گیس سلینڈر   پھٹنے سے حادثے کا شکار ہونے والی  تیز گام ایکسپریس میں سوار مسافروں کی تفصیلات سامنے آگئیں۔

ریلوے ذرائع کے مطابق کراچی سے چلنے والی تیزگام ایکسپریس میں مجموعی طور پر 865 مسافر سوار تھے۔

ذرائع نے بتایا کہ تیزگام ایکسپریس میں  610 مسافر کراچی کینٹ اسٹیشن سے سوار ہوئے تھے جب کہ حیدرآباد سے  91 مسافر  سوار ہوئے۔

اس کے علاوہ  ٹنڈو محمد خان سے 106 مسافر، شہداد پور سے 15 مسافر،  نواب شاہ سے 5، محراب پور سے 16، خیر پور سے 5 اور روہڑی سے 17 مسافر سوار ہوئے تھے۔

وزیر ریلوے شیخ رشید نے حادثے کی ذمہ داری مسافروں پر ڈال دی ہے جب کہ ریلوے انتظامیہ نے سانحے کی تحقیقات شروع کر دی ہے جس کی سربراہی فیڈرل گورنمنٹ انسپکٹر آف ریلویز دوست علی لغاری کریں گے۔

تیز گام ٹرین حادثے کے حوالے سے چونکا دینے والے حقائق سامنے آ گئے

لاہورکراچی سے لاہور آنے والی تیز گام ٹرین کو رحیم یار خان کے علاقے لیاقت پور میں خوفناک حادثہ پیش آیا جب ٹرین کی تین بوگیوں میں آگ بھڑکنے سے 65 افراد کی ہلاکت ہو چکی ہے، جب کہ 32 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں جن میں سے 12 کی حالت تشویشناک ہے۔ اس ٹرین حادثے کے حوالے سے ایک انتہائی خوفناک حقیقت یہ سامنے آئی ہے کہ تینوں بوگیوں میں زیادہ تر تبلیغی جماعت کے مسافر سوار تھے، جن کی تعداد ڈیڑھ سو کے لگ بھگ بتائی جا رہی ہے۔ حیران کُن بات یہ ہے کہ ان تمام افراد کی بکنگ ایک ہی شخص کے شناختی کارڈ پر کرائی گئی جس کا نام امیر حُسین بتایا جا رہا ہے۔ ریلوے ذرائع کے مطابق حادثے کے شکار ہونے والی تینوں بوگیوں میں 207 مسافر سوار تھے۔بوگی نمبر 2 میں 77،بوگی نمبر 3میں 76 جبکہ بوگی نمبر 3 میں 54 مسافر سوار تھے۔ریلوے کے مطابق دو بوگیاں اکانومی کلاس کی تھیں اورتیسری بزنس کلاس سے تعلق رکھتی تھی۔تینوں بوگیوں میں سوار مسافروں کے زیادہ تر ٹکٹس امیر حُسین کے نام سے بُک کروائے گئے تھے۔بوگی نمبر 3اور 4 میں تبلیغی جماعت کے لوگ سوار تھے۔ جبکہ بوگی نمبر 5 یعنی بزنس کلاس میں بھی تبلیغی جماعت کے ساتھ ساتھ عام مسافر بھی سوار تھے۔ریسکیو حکام کے مطابق اکثر افراد کی لاشیں پُوری طرح جھُلس چکی ہیں، جس کے باعث اُن کی شناخت میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

رات سے ہی بوگی سے بدبو آ رہی تھی، انتظامیہ کو آگاہ کیا تھا

رحیم یار خان (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 31 اکتوبر 2019ء) : سانحی تیز گام ایکسپریس کے عینی شاہد کا دعویٰ سامنے آگیا ۔ تفصیلات کے مطابق سانحہ کے عینی شاہد نے کہا کہ رات سے ہی بوگی سے بدبو آ رہی تھی ۔ بدبو آنے پر ٹرین انتظامیہ کو آگاہ کیا تھا لیکن کوئی ازالہ نہیں ہو سکا۔ عینی شاہد نے دعویٰ کیا کہ آگ شارٹ سرکٹ کے باعث لگی۔ یاد رہے کہ آج علی الصبح کراچی سے راولپنڈی جانے والی تیز گام ایکسپریس میں رحیم یار خان میں لیاقت پور کے قریب حادثہ پیش آیا اور ٹرین میں گیس سلنڈر پھٹنے سے اس کی تین بوگیوں میں آگ لگ گئی۔ حادثے کے نتیجے میں 65 افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق ہوگئی ہے جب کہ حادثے میں 200 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے ہیں جن میں سے بیشتر کی حالت تشویشناک ہے۔ ڈی پی او رحیم یار خان امیر تیمور خان اور ریسکیو ہیڈ بہاولپور باقر حسین نے حادثے میں 65 افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے مزید ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کیا ۔

سانحہ پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری پیغام میں بتایا گیا کہ پاک فوج کے جوانوں نے سانحے کے مقام پر پہنچ کر سول انتظامیہ کے ساتھ امدادی کارروائیاں شروع کردی ہیں جب کہ آرمی ایوی ایشن کا ہیلی کاپٹر بھی سانحے کی جگہ پہنچ گیا ہے جس کے ذریعے زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا جارہا ہے۔آئی ایس پی آر نے بتایا کہ پاک فوج کےڈاکٹرز اورپیرا میڈیکس بھی امدادی کارروائیوں مصروف ہیں۔ جبکہ سی ای او ریلوے اعجاز احمد کے مطابق مسافر ٹرین میں سلنڈر دھماکے سے تین بوگیوں کو آگ لگی جس میں دو اکنامی اور ایک بزنس کلاس بوگی شامل ہے جب کہ حادثے سے کوئی ٹریک متاثر نہیں ہوا اور ٹرینیں شیڈول کے مطابق چل رہی ہیں۔ ریلوے حکام نے مزید بتایا کہ آگ ٹرین کی بوگی نمبر 3،4،5 میں لگی، تینوں متاثرہ بوگیوں کے زیادہ تر ٹکٹس ایک ہی مسافر کے نام پر بک کروائےگئےتھے جس وجہ سے انفرادی نام نکالنےمیں مشکل ہورہی ہے۔ ریلوے حکام کے مطابق متاثرہ ٹرین سےجلی ہوئی بوگیاں الگ کرکے ٹرین روانہ کر دی گئی ہے۔ دوسری جانب وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے حادثے کی تمام تر ذمہ داری مسافروں پر عائد کر دی اور کہا کہ اس واقعے میں ریلوے کی غلطی نہیں بلکہ مسافروں کی غلطی ہے، مسافروں نے ناشتہ بنانے کے لیے سلنڈر جلایا جس کے بعد چلتی ٹرین میں آگ لگ گئی۔چیئرمین ریلوے سکندر سلطان راجہ نے بتایا کہ انسپکٹر آف ریلوے کی سربراہی میں تحقیقات کا حکم دے دیا ہے اور وہ اس بات کا تعین کریں گے کہ سلنڈر کس طرح ٹرین میں لے جانے کی اجازت دی گئی ہے۔

مقبوضہ کشمیر آج دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گا

مقبوضہ کشمیر آج دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گا جس کے لیے تیاریاں مکمل کر لی گئ ہیں۔تفصیلات کے مطابق مودی حکومت کی طرف سے بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر کو تقسیم کرنے کے منصوبے پر  آج 31 اکتوبر 2019 کو باضابطہ طور  پر عمل درآمد کر دیا جائے گا۔اس عمل کو کامیاب بنانے کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی نے بڑے پیمانے پر جشن کا پروگرام ترتیب دیا ہے۔ جموں اور وادی کے لیے گریش چندر مرمو کو اور لداخ کے لیے آر کے ماتھر کو گورنر مقرر کیا ہے۔جبکہ پہلے سے جموں کشمیر میں تعینات گورنر ستیا پال ملک کو گواکا نیا گورنر مقرر کر دیا گیا ہے۔بھارتی اقدام کے بعد لداخ کے بُدھ باشندوں کے لیے تشویش شدت اختیار کر گئی ہے۔

تیزگام ایکسپریس میں آتشزدگی، ہلاکتوں کی تعداد 65 ہوگئی

حیم یار خان: لیاقت پور کے قریب گیس سلینڈر  پھٹنے سے  تیز  گام ایکسپریس کی بوگیوں میں آگ لگ گئی جس کے نتیجے میں 65 افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق ہوگئی ہے جب کہ حادثے میں  متعدد افراد زخمی بھی ہوئے ہیں جن میں سے بیشتر کی حالت تشویشناک ہے۔جیونیوز کے مطابق جمعرات کی علی الصبح کراچی سے راولپنڈی جانے والی تیز گام ایکسپریس میں رحیم یار خان میں لیاقت پور کے قریب حادثہ پیش آیا اور ٹرین میں  گیس سلینڈر پھٹنے سے اس کی تین بوگیوں میں آگ لگ گئی۔ڈی پی او رحیم یار خان امیر تیمور خان اور ریسکیو ہیڈ بہاولپور باقر حسین نے حادثے میں 65 افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے مزید ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

آزادی مارچ: جڑواں شہروں کے کون سے راستے کھلے رہیں گے؟

اسلام آباد: جمعیت علمائے اسلام (ف) کے آزادی مارچ کی آمد سے قبل جڑواں شہروں کی انتظامیہ اور ٹریفک پولیس نے شرکا کو احتجاج کے مقام ایچ -9 تک لے جانے کے لیے ٹریفک پلان تیار کرلیا۔ وفاقی دارالحکومت کے نصف سے زائد علاقے کنٹینرز اور خار دار تاروں سے سیل کیے گیے ہیں جس کے باعث شہر کے رہائشی پریشانی کا شکار ہیں۔آزادی مارچ آج (31 اکتوبر) شام شہر میں داخل ہونے کا امکان ہے لیکن انتظامیہ اور پولیس نے شرکا کی آمد سے ایک روز قبل ہی شہر کو سیل کرنا شروع کردیا۔اس سلسلے میں ریڈزون، فیض آباد اور زیر پوائںٹ انٹرچینجز سمیت مختلف سڑکوں کو کنٹینر لگا کر بند کردیا گیا ہے۔پولیس نے کہا کہ ‘ ریڈ زون جانے والے راستوں کو جمیعت علمائے اسلام (ف) کے آزادی مارچ کی جانب سے حساس مقامات پر جانے کی کسی کوشش روکنے کے لیے احتیاطاً بلاک کیا گیا ہے’۔ابھی تک راستے جزوی طور پر بند کیے گئے ہیں اور ٹریف کے لیے کم جگہ چھوڑی گئی ہے کہ ایک وقت میں صرف ایک ہی گاڑی گزر سکتی ہے جس سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوسکتی ہے۔

آج سقوط کشمیر ،جموں کشمیر ،لداح میں مرکزی قوانین نافذ ،ریڈ الرٹ جاری

سرینگر(آئی این پی)31اکتوبر کو جموں و کشمیر اور لداخ کو بھارتی حکومت کے زیر انتظام دوعلاقوں میں باضابطہ طور تقسیم کیا جارہا ہے۔ حکام کو خدشہ ہے کہ اس مرحلے پر قانون و انتظام کے مسائل دوبارہ پیدا ہوسکتے ہیں ۔ لہٰذا حفاظتی انتظامات سخت کئے جارہے ہیں۔اس قسیم میں وادی جموں اور لداخ کے بارے میں بھارتی حکومت نے اپنے آئین میں جو ترمیم اور تبدیلی کی ہے اس پر اب اگلے مرحلے میں مزید پیش رفت ہورہی ہے۔ بین الاقوامی میڈیا کے مطابق تقسیم کے اس پس منظر میں مودی سرکار نے بھارت کے ہوائی اڈوں اورریلوے اسٹیشنز پرہائی الرٹ جاری کردیا ہے۔سری نگر، امرتسر اور پٹھان کوٹ ،اونتی پورہ ،جموں اور دیگر ایئر بیسز پر اورنج الرٹ جاری کیا گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں دہلی سرکار کے تقریبا 3ماہ قبل کئے گئے اقدامات کے بعد اب اس متنازع خطے کے ایک حصے لداخ میں بھی نئی کشیدگی اور سماجی تناﺅ پیدا ہوگیا ہے۔31اکتوبر سے جموں، کشمیر و لداخ میں مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے قوانین نافذ کیے جائیں گے۔جموں و کشمیر کی باضابطہ تقسیم کے موقع پریکم نومبر تک وادی میں دفعہ144کا نفاذ کیا جارہا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق 28اکتوبر سے چند دنوں کے لیے ایک بار پھر پوسٹ پیڈ موبائل سروس معطل رکھے جانے کے امکانات ہیں۔اطلاعات کے مطابق جموں، کشمیر و لداخ کو مرکزی زیر انتظام علاقے قرار دیے جانے کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی جشن کا پروگرام بھی منعقد کررہی ہے۔31اکتوبر سے قبل ہی دونوں مرکزی زیر انتظام علاقوں کے لیے لیفٹنٹ گورنرز کی تقرری کا حکمنامہ بھی جاری کیا گیا ہے جس میں جموں و کشمیر کے لیے گریش چندر مرمو اور لداخ کے لیے آر کے ماتھر کو لیفٹیننٹ گورنر تعینات کیا گیا ہے جبکہ موجودہ گورنر ستیہ پال ملک کو گوا کا نیا گورنر مقرر کیا گیا ہے ۔5 اگست سے سیاسی رہنماﺅںکے ساتھ ساتھ علیحدگی پسند رہنما یا تو حراست میں ہیں یا انہیں گھروں میں ہی نظر بند رکھا گیا ہے۔ بھارتی اقدام لداخ کے بودھ باشندوں کیلئے بھی تشویش کا باعث بن گیا ہے کہ ان کے اکثریتی علاقے لیہہ کی منفرد ثقافتی اور سماجی حیثیت بھی اس وقت خطرے میں پڑ جائیگی جس کے بعد ہندو لیہہ میں املاک خریدنے اور وہاں رہائش اختیار کرنے کے حقدار ہوجائینگے۔

پاک فوج دہشتگردی کے خلاف صومالیہ کی فورسز کو ٹریننگ دے رہی ہے

اسلام آباد ( انٹر ویو : ملک منظور احمد ،تصاویر : نکلس جان ) پاکستان میں تعینات صومالیہ کی سفیر خدیجہ محمد المخزومی نے کہا کہ صومالیہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کی حمایت کرتا ہے اور اس مسئلہ کو انسانی حقوق کا مسئلہ سمجھتاہے ، صومالیہ بطور او آئی سی ممبر اس حوالے سے پاکستان کو ہی ووٹ دیتا ہے ۔پاکستان کی مسلح افواج نہایت ہی باصلاحیت اور اعلیٰ پیشہ ورانہ معیار کی حامل ہیں اور افواج پاکستان نے پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے بہترین کام کیا ہے ۔پاکستانی افواج اقوام متحدہ کے امن مشن کے تحت 93ءسے 95ءتک صومالیہ میں تعینات رہیں اور صومالیہ میں امن و امان کے قیام کے حوالے سے گراں قدر خدمات سر انجام دیں ۔ پاکستان کی مسلح افواج دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے صومالیہ کی افواج کو تربیت بھی فراہم کر رہی ہیں۔ پاکستان کا افغان امن عمل کے حوالے سے اہم کردار ہے امید ہے اس معاملہ میں پاکستان کی امن کو ششیں بارآور ثابت ہوں گی ۔اگر پاکستان امت مسلمہ کے دو اہم ممالک کے درمیان معاملات کو حل اور کشیدگی کو ختم کروانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ پوری امت مسلمہ کے لیے بہت مثبت بات ہو گی ۔حکومت کے اقدامات کے نتیجے میں پاکستان جلد ہی معاشی بحران سے کامیابی سے نکل جائے گا ۔ ۔حالیہ برسوں کے دوران پاکستان اور صومالیہ کے درمیان دو طرفہ تجارتی حجم میں اضافہ ہوا ہے ۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے چینل فائیو کے پروگرام ڈپلومیٹک انکلیو میں خصوصی انٹر ویو دیتے ہوئے کیا ۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور صومالیہ کے درمیان سفارتی تعلقات بہت پرانے ہیں ۔1969ءمیں پاکستان اور صومالیہ دونوں ممالک او آئی سی کے بانی ممبرز میں شامل تھے ،لیکن صومالیہ کا پاکستان میں باقاعدہ سفارت خانہ 1976ءمیں قائم ہوا ۔میں پاکستان میں صومالیہ کی چوتھی اور پہلی خاتون سفیر ہوں ۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ صوما لیہ گزشتہ 28سال سے خانہ جنگی کا شکار ہا ہے۔ ۔صومالیہ اور پاکستان کے درمیان بہت اچھے تعلقات پائے جاتے ہیں ۔دونوں ممالک مختلف شعبوں میں باہمی تعاون جاری رکھے ہوئے ہیں ۔دونوں ممالک کے درمیان ملٹری تعاون اور تربیت کے شعبے میں کافی کام ہو رہا ہے ۔ایک سوال کے جواب میں صومالیہ کی سفیر کا کہنا تھا کہ میں پاکستان اور صومالیہ کے درمیان موجودہ تجارتی حجم سے مطمئن نہیں ہوں لیکن گزشتہ 3برس کے دوران دونوں مما لک کے درمیان تجارتی حجم میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔ہماری پاکستان کو برآمدات 3ملین ڈالر ہیں اور پاکستان صومالیہ کو 12ملین ڈالر کی برآمدات کرتا ہے ۔یہ حجم کم ہے لیکن اس میں اضافہ ہورہا ہے ۔پاکستانی حکومت لک افریقہ پروگرام کے تحت افریقی ممالک کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو وسعت دینے کی خواہش مند ہے افریقہ ایک بڑی مارکیٹ ہے اور صومایہ افریقہ کا اہم ملک ہے جو کہ ہارن آف افریقہ پر واقع ہے ۔اس سے صومالیہ کی تجارتی اہمیت بڑھ جاتی ہے ۔پاکستان کے صومالیہ کے تعلقات ویسے ہی قریبی ہیں امید ہے مستقبل میں تجارت بڑھے گی ۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ صومالیہ میں گزشتہ 28سال سے خانہ جنگی جاری ہے کچھ عرصہ قبل ہی صومالیہ میں ایک نئی حکومت قائم ہو ئی ہے ۔اور ملک میں معاملات کو بہتر کرنے کے حوالے سے بہت محنت کر رہی ہے ۔سیکورٹی کی صوررتحال میں نمایاں بہتری دیکھی جارہی ہے ابھی حال ہی میں ہماری حکومت نے او آئی سی ممبرز ممالک کی ایک میٹنگ بھی کروائی ہے جوکہ صومالیہ میں امن و امان کی بہتر صورتحال کا ثبوت ہے ۔ہم صومالیہ میںا بھی بھی دہشت گردی اور انتہا پسندی کا سامنا کرررہے ہیں ۔ہمیں اب بھی الشباب جیسی دہشت گر د تنظیموں سے خطرات لاحق ہیں لیکن جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ صومالیہ کی حکومت اس حوالے سے بہت محنت کر رہی ہے اورامن و امان کی صورتحال پہلے سے بہت بہتر ہے ۔پاکستان کی مسلح افواج نے دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے بہترین کردار ادا کیا ہے اور افواج پاکستان بہترین پیشہ وارانہ صلاحیت کی حامل افواج ہیں پاکستان کی فوج نے صومالیہ کی خانہ جنگی کے دوران بھی بہت ہی شاندار خدمات سر انجام دیں ۔اقوام متحدہ کے امن مشن کے تحت 93ءسے 95ءتک 5,700پاکستانی فوجیوں نے صومالیہ میں امن و امان کے قیام کے لیے گراں قدر خدمات سر نجام دیں ہیں ۔ پاکستانی فوجیوں کا صومالیہ کی عوام کے ساتھ انتہائی برادرانہ روایہ تھا اور انھوں نے صومالیہ میں جنگ کا شکار کئی خاندانوں کو بھی صومایہ سے نکل کر پاکستان میں آباد ہونے میں مدد بھی فراہم کی اور ان خاندانوں کے کئی افراد آج بھی پاکستان میں مقیم ہیں ۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ہمارا ملٹری اتاشی جلدپاکستان رہا ہے ہم پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے مدد لے رہے ہیں ۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ گزشتہ چند سال میں پاکستان اور صومالیہ کے درمیان تجارت میں اضافہ ہوا ہے دونوں ممالک اس تجارت کو بڑھانے کے حوالے سے کام کررہے ہیں ۔پاکستان اور صومالیہ کے درمیان عوامی سطح پر پی ٹو پی اور جی ٹو جی رابطے بڑھانے کی ضرورت ہے میں نے پاکستان میں دیکھا ہے کہ اکثر لوگوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ صومالیہ کہاں ہے جبکہ صومالیہ کے عوام پاکستان کے بارے میں کافی کچھ جانتے ہیں ۔اس وقت بھی 2000کے لگ بھگ صومالی طلبا ءپاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے مقیم ہیں ۔ان میں کئی اسکالر شپس اور کئی سیلف فنانس کے تحت تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ صومالیہ کے پروفیسر اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اور اہم عہدوں پر فائز افراد نے پاکستان سے ہی تعلیم حاصل کی ہے ہمارے موجودہ وزیر خارجہ کی اہلیہ کا تعلق بھی پاکستان سے ہی ہیں ۔پاکستان میں ایچ ای سی کا ادارہ بہت ہی بہترین کام کر رہا ہے اور صومالیہ کی حکومت ایچ ای سی کی طرز پر ایک ادارہ صومالیہ میں قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اور اس حوالے سے ہم پاکستانی ماہرین کی خدمات بھی حاصل کرر ہے ہیں ۔فی لحال کسی پاکستانی یو نیور سٹی کا کوئی کیمپس صومالیہ میں موجود نہیں ہے لیکن اس معاملے پر کام جاری ہے ۔پاکستان کے امن عمل میں کردار کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے خدیجہ محمد نے کہا کہ پاکستان افغان امن عمل کے حوالے سے نہایت اہم کردار ادا کر رہاہے افغا نستان ،پاکستان کا برادر سلامی ملک اور ہمسایہ ہے ۔افغانستان میں امن سے پاکستان کو بھی بہت فائدہ ہو گا ۔پاکستان کی کوششیں اس حوالے سے اخلاس اور نیک نیتی پر مبنی ہیں انشا اللہ پاکستان کی کوششوں سے جلد ہی افغانستان میں امن آجائے گا ۔پاکستان نے افغان جنگ کے تمام سٹیک ہولڈرز کو اکٹھا کرنے کو کوششیں کیں ہیں امید ہے ان کوششوں کا کوئی نہ ہو ئی مثبت نتیجہ ضرور نکلے گا انشاللہ ۔پاک بھارت کشیدگی اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے صوما لیہ کی سفیر نے کہا کہ صومالیہ کشمیر کو ایک انسانی مسئلہ کے طور پر دیکھتا ہے اور اس حوالے سے پاکستان کے موقف کی حمایت کرتا ہے ۔بطور مسلمان اور بطور او آئی سی ممبر ہم نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے حق میں ووٹ دیا ۔قطر میں او آئی سی ممالک کی میٹنگ بھی جلد ہی ہونے والی ہے امید ہے کہ اس میٹنگ کے دوران مسئلہ کشمیر پر پیشرفت ہو گی ۔ایک سوال کے جواب میں کہا کہ کئی افریقی ممالک سی پیک کے منصوبے میں دلچسپی کا اظہار کررہے ہیں صومالیہ بھی اس منصوبے میں دلچسپی رکھتا ہے امید ہے مستقبل میں اس حوالے سے کوئی پیشرفت ہوگی ۔پاکستان کئی شعبوں میں ہماری مدد کررہا ہے ہم صومالیہ میں نادرا کے تعاون اپنا قومی نیشنل ڈیٹا بیس بنانے جارہے ہیں ۔اس حوالے سے حکومت پاکستان نے نادرا کے لیے فنڈنگ کی بھی منظوری دی ہے ۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے بہت محنت کررہے ہیں امید ہے حکومت کے اقدامات کے نتیجے میں پاکستان جلد ہی معاشی بحران سے کامیابی سے نکل جائے گا ۔ایک سوال کے جواب میںانھوںنے کہا کہ صومالیہ کے وزیر خارجہ ،وزیر کامرس ،وزیر تجارت جلد پاکستان کے دورے پر آئیں گے ۔ایم اﺅ یوز کے حوالے سے معاملات پر پیشرفت ہو گی ۔گزشتہ 28سالوں کے دوران صومالیہ میں خانہ جنگی کے باعث ان معاملات پر زیادہ پیشرفت نہیں ہو سکی لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے ،ان معاملات پر پیشرفت کرنے کی ضرورت ہے ۔خانہ جنگی کی وجہ سے صومالیہ میں سب کچھ تباہ ہو گیا اب ہم نئے سرے سے معاملات کو آگے بڑھا رہے ہیں ۔نیشنل ڈیٹا بیس بھی ایک مرتبہ پھر نئے سرے سے مرتب کیا جارہا ہے ۔کرپشن کے خاتمے کے حوالے سے بھی کام کیا جارہا ہے ۔صومالیہ کے صدر اس حوالے سے خصوصی توجہ دے رہے ہیں ۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ پاکستان کے سپیکر نے 2016ءمیں صومالیہ کی قومی اسمبلی کے سپیکر کو دورہ پاکستان کی دعوت دی تھی لیکن اس وقت صومالیہ کے انتخابات قریب تھے اس لیے یہ دورہ نہ ہو سکا ۔ پھر 2018ءمیں صومالیہ کے سپیکر نے پاکستان کے سپیکر کو دورہ صومالیہ کی دعوت دی لیکن اس وقت پاکستان میں الیکشن قریب تھے اس کی وجہ سے یہ دورہ بھی نہ ہو سکا ۔امید ہے جلد ہی کوئی پیشررفت ہو گی ۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہ پاکستان میں خواتین مختلف شعبوں میں بہت اچھا کام کررہی ہیں ۔مجھے ان خواتین کو کام کرتا دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے ۔خواتین اب لیڈر شپ کے رول میں بھی کام کررہی ہیں ۔امید ہے مستقبل میں مزید خواتین اہم عہدوں پر نظر آئیں گی ۔اس حوالے سے خواتین کی تعلیم بھی اہمیت رکھتی ہے اور خواتین کے باپ اور شوہروں کوبھی اس معاملہ میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے ۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک پر امن اور خوبصورت ملک ہے،میں نے گلگت بلتستان کا بھی دورہ کیا ہے ،پاکستان اور صومالیہ کے درمیان عوامی رابطے بڑھانے کی ضرورت ہے ۔صومالیہ میں پاکستان کا سفارت خانہ موجود نہیں ہے ۔صومالیہ کے شہریوں کو پاکستان تک رسائی میں آسانی ہو جائے تو وہ بھی پاکستان کا بڑی تعدادمیں رخ کریں گے ۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ پاکستان ایک اہم سلامی ملک ہے اور پاکستان کی مختلف اسلای ممالک کے درمیان معاملات حل کروانے اور امن لانے کی کاوشیں قابل قدر ہیں،اگرپاکستان امن لانے میںمیں کامیاب ہوجاتا ہے تو یہ امت مسلمہ کے لیے نہایت ہی مثبت بات ہو گی ۔پروگرام کے آخرمیں خدیجہ محمد کا پاکستانی عوام کے نام پیغام دیتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان کے لوگ بہت اچھے اور مہمان نواز ہیں ،پاکستان کا مستقبل روشن ہے پاکستان ایک عظیم ملک بنے گا ،انشاللہ ،اللہ کستان کو عظیم ملک بنائے گا مسکراتے رہیں اور معاملات کو اللہ کے ہاتھ میںچھوڑ دیں انشا اللہ ،اللہ سب بہتر کرے گا ۔

ثانیہ مرزا نے اپنے بیٹے کی پہلی سالگرہ پر سوشل میڈیا پر شیئر کی تصویر۔

حیدرآباد(آئی این پی)قومی کرکٹر شعیب ملک کی اہلیہ و بھارتی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا نے بیٹے اذہان کی پہلی پر مداحوں سے جذباتی پوسٹ شیئر کی۔ثانیہ مرزا نے بیٹے اذہان کی پیدائش کے بعد لی گئی ایک یادگار تصویر انسٹاگرام پر شیئر کی جس میں انہوں نے بیٹے کو دعائیں اور پہلی سالگرہ کی مبارک باد پیش کی۔ثانیہ نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ جس ایک برس سے تم دنیا میں آئے تب سے تم میری دنیا بن گئے۔ جس دن تم پیدا ہوئے تم مسکرائے اور جب سے تمہاری مسکراہٹ ہر جگہ بکھر جاتی ہے جہاں تم جاتے ہو۔بیٹے سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے ثانیہ مرزا نے لکھا کہ میں وعدہ کرتی ہوں کہ میں اپنی زندگی کے آخری سانس تک تمہارے ساتھ رہوں گی۔آخر میں ثانیہ مرزا نے بیٹے کو مستقبل کے لیے دعائیں بھی لکھیں۔ علاوہ ازیں ثانیہ مرزا نے انسٹاگرام پر بھی ایک ویڈیو شیئر کی جس میں ان کی بہن اذہان کو گود میں لے کر بیٹھی ہیں اور پوچھتی ہیں کہ اذہان آپ کس برس میں داخل ہونے جارہے ہیں؟ جس پر ننھے اذہان نے بڑی معصومیت سے انگلی کو اٹھا کر اشارہ کیا۔ تاہم آج شعیب ملک اور ثانیہ مرزا کی جانب سے بیٹے اذہان کی پہلی سالگرہ کا جشن متوقع ہے۔

اسلام آباد پہنچ کر مطالبات پیش کرینگے ،نہ مانے گئے تو تحریک تیز کر دینگے

لاہور (وقائع نگار) کراچی سے شروع ہونے والا جمعیت علمائے اسلام کا آزادی مارچ لاہور سے روانہ ہو کر آج وفاقی دارالحکومت میں داخل ہوگا۔آزادی مارچ کا قافلہ ٹھوکر نیاز بیگ چوک سے ملتان روڈ کھاڑک نالہ، سکیم موڑ، یتیم خانہ چوک، موڑ سمن آباد، چوبرجی چوک، ایم اے او کالج چوک، سیکرٹریٹ سے کچری چوک، داتا حضور لوئر مال سے آزادی فلائی اور نیازی شہید چوک سے براستہ شاہدرہ جی ٹی روڈ اسلام آباد کیلئے روانہ ہوا ۔مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے ٹھوکر نیاز بیگ چوک، چوک یتم خانہ، موڑ سمن آباد، چوبرجی، داتا صاحب، آزادی فلائی اوور اور نیازی شہید چوک میں استقبالیہ کیمپ لگائے گئے تھے۔اسلام آباد کے راستوں میں مختلف مقامات پر حلیف جماعتوں کی جانب سے استقبالیہ کیمپ بھی لگادیئے گئے ۔ ن لیگ، پیپلپزپارٹی اور جے یو آئی کا بڑا استقبالیہ کیمپ روات ٹی چوک پر قائم جہاں سے قافلہ اسلام آباد میں داخل ہوگا۔ روات میں مسلم لیگ ن کے رہنما طارق فضل چودھری شرکائے آزادی مارچ کا استقبال کریں گے۔دوسرا استقبالیہ کیمپ 26 نمبر چنگی پر قائم کیا جائے گا جہاں ن لیگی رہنما انجم عقیل سمیت دیگر رہنما آزادی مارچ کے شرکا کا استقبال کریں گے۔آزادی مارچ کے شرکا آج شام ٹی چوک میں قیام کریں گے اور آج بروز جمعرات اسلام آباد میں داخل ہوں گے۔تا دم تحریرموصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اسلام آباد کے تمام داخلی اور خارجی راستے ٹریفک کے لیے کھلے ہیں تاہم اہم گزرگاہوں کے کناروں پر کنٹینر رکھے ہوئے ہیں۔مارچ کے دوران کسی بھی ناگہانی صورت حال سے نمٹنے کے لیے وفاقی دارالحکومت کے تمام سرکاری اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے اور ڈاکٹروں کی چھٹیاں بھی منسوخ کر دی گئی ہیں۔مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وزیراعظم عمران خان استعفیٰ دیں گے،اسلام آباد پہنچنے پر عوامی رائے کا احترام نہ کیا تو آزادی مارچ مزید سخت ہو گا،اسلام آباد میں ہم اپنے مطالبات رکھیں گے، ایسا نہیں کہ اسلام آباد پہنچنے پرنتائج نہ ملنے پر تحریک رکے گی بلکہ تحریک کی کامیابی کی جدوجہد جاری رہے گی، صحافی نے سوال کیا کہ اسلام آباد میں دھرنا ہو گا یا دوستی ہو گی؟جس پر مولانا فضل الرحمان نے جواب دیا کہ اسلام آباد میں ہم اپنے مطالبات رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وزیراعظم عمران خان استعفیٰ دیں گے،اسلام آباد دھرنے کا نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ اسلام آباد پہنچنے پرنتائج نہ ملنے پر تحریک رکے گی بلکہ تحریک کی کامیابی کی جدوجہد جاری رکھوں گا،اگر اسلام آباد پہنچنے پر عوامی رائے کا احترام نہ کیا گیا تو آزادی مارچ مزید سخت ہو گا، کون کہتا ہے کہ فضل الرحمان اسلام آباد نہیں پہنچے گا۔جمعیت علماءاسلام (ف) کے سربراہ اور آزادی مارچ کے قائد مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ آج کا آزادی مارچ قومی تحریک کی شکل اختیار کر چکا ہے اور ہم اسی جذبہ سے آگے بڑھیں گے۔ ہم آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کو جیل کی سلاخوں سے جلد باہر لا کر عوام میں دیکھنا چاہتے ہیں۔اسلام آباد روانگی سے قبل آزادی چوک میں آزادی مارچ کے شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے ملک بھر کے تاجروں کے مطالبات کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ آزادی مارچ ملک کے ہر مظلوم طبقہ کی آواز ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا بنیادی مطالبہ یہی ہے کہ 2018ءکے الیکشن میں بدترین دھاندلی ہوئی جس کے نتائج ہم تسلیم نہیں کرتے، اول دن سے ہمارا موقف یہی رہا ہے کہ ووٹ قوم کی امانت ہے اور ہم قوم کی امانت قوم کو واپس لوٹانا چاہتے ہیں، انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت ناجائز ہے اور موجودہ حکومت ایک سالہ کارکردگی کی بنیاد پر بھی نااہل ہو چکی ہے۔ آج کے آزادی مارچ کو پاکستان کے ہر شہری کی حمایت حاصل ہے، آج پاکستان کے عوام پاکستان بقاءکی جنگ لڑنا پڑے گی اور ہم پاکستان کی بقاءکی جنگ لڑیں گے، انہوں نے کہا کہ آج ڈاکٹرز سڑکوں پر ہیں، اساتذہ کو اسلام آباد کی سڑکوں پر گھسیٹا گیا ہے، ملک بھر کے تاجر ہڑتال پر ہیں، لوگ مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، حکومت نے پچاس لاکھ گھر بنانے کا وعدہ کیا اور کسی گھر پر ایک اینٹ بھی نہیں رکھی، حکومت نے نوجوانوں کو روزگار دکھانے کا خواب دکھایا اور لاکھوں نوجوانوں کو بے روزگار کر دیا، آج مغربی معیشت کے وفادار پاکستان کی معیشت کو مغرب کے ہاتھوں میں گروی رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ وہ پاکستان کی بقاءاور سلامتی کے لئے جان سے گزرنے والوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔ ہم نے 9 ماہ میں پندرہ ملین مارچ کئے جن میں امن آشتی کا مظاہرہ کیا جو قابل ستائش ہے۔ 27 اکتوبر سے کراچی سے یہ امن مارچ چلا ہے اور آج لاہور پہنچا ہے پورے راستے میں کسی ایک شخص کو خراش تک نہیں آئی جو ثابت کرتا ہے کہ ہمارے کارکن پرامن ہیں اور امن پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے آزادی جلسے میں مختلف اپوزیشن جماعتوں رہنماﺅں کی شرکت پر ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ کسی وجہ سے جو لوگ گھروں میں رہ گئے ہیں وہ بھی اس امن مارچ کا حصہ ہیں۔

نواز شریف کی حالت بد ستور تشویشناک ،میڈیکل بورڈ بیماری کی تشخیص میں ناکام

لاہور(جنرل رپورٹر)سابق وزیراعظم کے علاج و معالجے کے لیے بنایا گیا میڈیکل بورڈ نواز شریف کے پلیٹ لیٹس میں کمی کی وجوہات جاننے میں تاحال ناکام ۔ذرائع کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف کی صحت کا جائزہ لینے کے لیے سروسز اسپتال کے پروفیسر محمود ایاز کی سربراہی میں میڈیکل بورڈ کا اجلاس ہوا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ میڈیکل بورڈ نے نواز شریف کے پلیٹ لیٹس کی تعداد نہ بڑھنے پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف کے خون میں پلیٹ لیٹس کی تعداد بڑھ کر 35 ہزار ہو گئی ہے تاہم ادویات اور انجکشن کے باوجود نواز شریف کے پلیٹ لیٹس کا مناسب تعداد میں نہ بڑھنا خطرناک ہے۔ذرائع کا بتانا ہے کہ میڈیکل بورڈ نواز شریف پلیٹ لیٹس کی کمی کی وجوہات جاننے میں تاحال ناکام ہے اور بورڈ نے دنیا بھر کے ممتاز طبی ماہرین سے مشاورت کرنے کی تجویز پر اتفاق کیا ہے۔ذرائع کے مطابق بورڈ نے نواز شریف کے بون میرو، پٹ اسکین اور لمپف نوڈز بائیوپسی کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف کے خون میں شوگر کی مقدار بہت زیادہ آ رہی ہے، ذیابیطس اور دل کے عارضے سے طبی پیچیدگیاں بڑھ رہی ہیں۔ذرائع کا بتانا ہے کہ میڈیکل بورڈ نے نواز شریف کی ادویات میں ردوبدل کا فیصلہ بھی کیا ہے۔

زرداری پر کمزوری کی وجہ سے رعشہ طاری‘ دل کے قریب خون کا لوتھڑا

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) میں زیر علاج سابق صدر آصف علی زرداری کے دل کے وال میں کلاٹ (خون کا لوتھڑا) بن گیا ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری ایک ہفتے سے پمز ہسپتال اسلام آباد میں زیر علاج ہیں اور ڈاکٹروں کے مطابق ان کے پلیٹ لیٹس 1 لاکھ 35 ہزار تک پہنچ گئے ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ سابق صدر کو کمزوری اور شوگر کی وجہ سے ہاتھوں میں کپکپاہٹ کی شکایت ہے جبکہ ان کے پرانے اسسٹنٹ کی وجہ سے دل کے وال میں کلاٹ بھی پیدا ہو گیا ہے۔ ہسپتال ذرائع کے مطابق ڈاکٹروں نے آصف علی زرداری کے لیے تھیلیئم اسکین کو لازمی قرار دیا ہے اور آصف زرداری کو تمام ٹیسٹ کلیئر ہونے تک اسپتال میں رکھے جانے کا امکان ہے۔ نیب راولپنڈی کی حراست میں موجود پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کو 23 اکتوبر کی رات کمر اور گردن کی تکلیف کے باعث پمز اسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ آصف زرداری کو ڈپریشن، جسمانی کمزوری، گردن اور مہروں میں شدید درد کی بھی شکایت ہے۔ اس کے علاوہ ان کے غدود میں غیر معمولی اضافے کی تشخیص بھی ہوئی ہے جسے خطرناک قرار دیا گیا ہے۔ پمز ہسپتال میں آصف علی زرداری کے وارڈ کو ہی سب جیل کا درجہ دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ سابق صدر اور ان کی بہن فریال تالپور جعلی اکانٹس کیس میں قومی احتساب بیورو(نیب) راولپنڈی کی حراست میں ہیں۔

دھرنے والوں سے مذاکرات کرینگے

اسلام آباد(نامہ نگار خصوصی) وزیر اعظم عمران خان نے حکومتی اور پارٹی ترجمانوں کو ہدایت کی ہے کہ آزادی مارچ پاکستان کو عدم استحکام کی طرف لے جانے کا مارچ ہے، اپوزیشن کے مارچ کا بھرپور سیاسی مقابلہ کیا جائے۔تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں وزیر اعظم کی زیر صدارت پارٹی اور حکومتی ترجمانوں کا اجلاس بلایا گیا، جس میں اپوزیشن کے آزادی مارچ کا بھرپور سیاسی مقابلہ کرنے کا عزم دہرایا گیا، اور مارچ کے پس پردہ اپوزیشن کے مقاصد میڈیا میں بے نقاب کرنے پر اتفاق یا گیا۔ترجمانوں کے اجلاس میں شرکا نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آزادی مارچ سے سیاسی عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے، وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ عوام کو حکومت کی معاشی کامیابیوں سے آگاہ کیا جائے، اس دوران نواز شریف کی بیماری کو موضوع نہ بنایا جائے، جب کہ حکومتی اور پارٹی ترجمان مارچ کے دوران اسلام آباد میں رہیں۔وزیر اعظم عمران خان نے اجلاس میں موجودہ میڈیا حکمت عملی پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ وزرا میڈیا پر اپنی وزارتوں سے متعلق شرکت یقینی بنائیں، ذاتی ایجنڈے کی بہ جائے حکومتی پالیسی کا دفاع کیا جائے، اور حکومتی اقدامات اور پالیسی کو مثر انداز میں اجاگر کیا جائے۔وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ آزادی مارچ کا پارٹی بیانیے سے مقابلہ کیا جائے، ملک معاشی خوش حالی کی جانب بڑھ رہا ہے، لیکن کچھ عناصر ملکی ترقی کے سفر میں رکاوٹیں ڈالنے پر تلے ہیں، کوشش ہے کہ سیاسی طور پر معاملہ حل کیا جائے۔ آزادی مارچ کے شرکا نے دھرنا دیا تو مذاکرات ہوں گے، انتشار کی صورت میں طاقت کا استعمال آخری آپشن ہوگا۔مذاکرانی کمیٹی کو آئندہ کے لائحہ عمل پر وزیراعظم نے ہدایت بھی دیں۔وزیر اعظم عمران خان نے پرویز خٹک کمیٹی کو مکمل اختیار دے دیا۔ وفاقی حکومت آزادی مارچ سے سیاسی حکمت عملی اپنائے گی، کسی بھی انتشار کی صورت میں طاقت کا استعمال آخری آپشن ہوگا، مارچ کے شرکا نے معاہدہ توڑا یا ریڈ زون داخل ہوئے تو سختی سے نمٹا جائے گا۔حکومت نے فیصلہ کیا ہے آزادی مارچ کے شرکا نے دھرنا دیا تو بھی مذاکرات ہونگے، اپوزیشن کے لیے تشکیل کی گئی حکومتی مذاکراتی کمیٹی ہی آئندہ مذاکرات کرے گی اور پرویز خٹک ہی کمیٹی کی سربراہی کریں گے۔وزیر اعظم عمران خان نے کہاہے کہ چھوٹے کسانوں کو ہر ممکنہ سہولت فراہم کرنا حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے، چھوٹے کسانوں کی سہولت کاری سے نہ صرف مقامی زرعی پیداوار میں اضافہ ہوگا بلکہ اس سے غربت کے خاتمے اور معاشی حالات میں بہتری آئے گی، صوبوں کے درمیان روابط کو مزید بڑھایا جائے تاکہ زرعی شعبے میں اہداف کے حصول کو یقینی بنایا جا سکے۔بدھ کو وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت ملک میں زرعی پیداوار خصوصا چھوٹے کسانوں کی سہولت کاری کے حوالے سے اقدامات پر جائزہ اجلاس ہوا۔ اجلاس میں وفاقی وزیر فوڈ سکیورٹی صاحبزادہ محبوب سلطان، وزیر توانائی عمر ایوب خان، مشیر تجارت عبدالرزاق داود، معاونین خصوصی ندیم بابر، ڈاکٹر فردوس عاشق عوان، یوسف بیگ مرزا، ممبر قومی اسمبلی اسد عمر اور سینئر افسران شریک ہوئے۔اس موقع پر وزیر اعظم نے کہا کہ چھوٹے کسانوں کو ہر ممکنہ سہولت فراہم کرنا حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ حکومت کی زرعی پالیسی کسانوں اور خاص طور پر چھوٹے کسانوں کو سہولت فراہم کرنے میں حکومت کے اس عزم کی مظہر ہے۔ وزیرِ اعظم نے کہا کہ چھوٹے کسانوں کی سہولت کاری سے نہ صرف مقامی زرعی پیداوار میں اضافہ ہوگا بلکہ اس سے غربت کے خاتمے اور معاشی حالات میں بہتری آئے گی۔ وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ صوبوں کے درمیان روابط کو مزید بڑھایا جائے تاکہ زرعی شعبے میں اہداف کے حصول کو یقینی بنایا جا سکے۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے اسلام آباد پہنچنے پر مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کا فیصلہ کیا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے مذاکراتی کمیٹی کو معاملے کو سیاسی طور پر حل کرنے کی ہدایت دی تھی، جس پر حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے اسلام آباد پہنچنے پرمولانا فضل الرحمان سے ملاقات کا فیصلہ کیا ہے، جب کہ معاہدہ کی پاسداری یقینی بنانے کے لیے اپوزیشن سے مسلسل رابطے رکھے جائیں گے۔