آنیوالے 3 مہینوں میں بڑے بڑے مقدمات چلیں گے خوفناک احتساب شروع


لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئےمعروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ لندن پلان کی ”ٹرم“ پرانی ہے۔ سیاسی ماحول میں جب بھی چند لیڈران لندن جمع ہو کر بات چیت کرتے ہیں تو اسے ”لندن پلان“ کا نام دے دیا جاتا ہے۔ لندن کو ایک محفوظ مقام تصور کیا جاتا ہے۔ اس لئے لیڈران وہاں جا کر میٹنگ کرتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے لیڈران لندن میں جمع ہوئے اور انہوں نے میٹنگ کی۔ ہمارے نمائندگان وجاہت علی خان اور شمع جونیجو جو لندن میں موجود ہیں۔ ہم ان سے بات کر کے وہاں کی موجودہ صورتحال جان لیتے ہیں۔ اطلاع یہ ہے کہ مائنس نواز فارمولا فیل ہو گیا ہے۔ مریم نواز کو نرم ہاتھ رکھنے کا کہا گیا ہے اور اداروں کے ساتھ ٹکراﺅ کی پالیسی کو ختم کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ ہمارے نمائندگان مسلم لیگ (ن) کے قریبی حلقوں سے انٹرویو کر کے ”فرسٹ ہینڈ انفارمیشن“ دیں گے مسلم لیگ نے فیصلہ کیا ہے کہ شہبازشریف کو وزیراعظم اور مریم نواز کو وزیراعلیٰ پنجاب بنا دیا جائے گا۔ نواز شریف کے وطن واپسی رویے سے فیصلہ ہو گا کہ ان کی سوچ تبدیل ہوئی ہے یا نہیں اطلاع یہ ہے کہ بہت تیزی کے ساتھ ہمارے ملک کے حالات تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔ چند ماہ کے دوران وسیع پیمانے پر مقدمات کے اندراج ہوں گے صف اول، بلکہ صف دوئم کے لوگوں کے خلاف بھی کارروائی ہو گی۔ قرقی کرنا عدالت کا پہلا قدم ہوتا ہے۔ حسین اور حسن نواز کی جائیداد منجمد کر دی جاتی ہے تو پیغام یہ جائے گا کہ نوازشریف کے خلاف عدالتی گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ میاں صداقت قانونی جنگ لڑیں تو بہتر ہے۔ عدالتی ٹیم کے سامنے سرنڈر کریں۔ اور دوبارہ عوام کے پاس جائیں اور ان سے فیصلہ لیں۔ اگر عوام انہیں مینڈیٹ دیں تو وہ دوبارہ آ جائیں۔ ہم الیکشن کمیشن کا احترام کرتے ہیں۔ ہم نے عمران کو دوستانہ مشورہ دیا کہ وہ ادارے کے سامنے پیش ہوں۔ وہ پیش ہو گئے۔ اس سے ادارے کا وقار بھی قائم رہا اور انہیں بھی معافی مل گئی۔ معذرت کے ساتھ الیکشن کمیشن کے دو طرح کے بیانات سامنے آئے ہیں کہ ایک تو یہ کہ 5 جون کو اسمبلیاں تحلیل ہوں گی اور الیکشن جولائی میں ہوں گے۔ سیکرٹری صاحب کہہ رہے ہیں نئی حلقہ بندیوں سے پہلے الیکشن نہیں ہو سکتے حلقہ بندیاں ایک لمبا کام ہے۔ ادارہ واضح کرے کہ نئے الیکشن کن حلقہ بندیوں پر ہوں گے۔ ان کے فیصلے پر بہت سے لوگ تو سپریم کورٹ چلے جائیں گے۔ بالآحر حتمی حکم نامہ سپریم کورٹ سے لیا جائے گا کہ کتنے عرصہ میں الیکشن کروائے جائیں ضیاءالحق نے 3 ماہ میں الیکشن کروانے کا کہہ کر 10 سال لے لئے۔ چیف الیکشن کمشنر صاحب بہت اہل انسان ہیں۔ وہ یقینا ادارے کو مذاق نہیں بننے دیں گے۔ الیکشن آگے لے کر جانا یا کچھ عرصہ کیلئے ملتوی کرنے کا فیصلہ صرف سپریم کورٹ ہی کرے گا ہمارے سیاسی حلقے اسی طرف بحث کو بڑھاتے ہیں بالآخر کوئی نہ کوئی سپریم کورٹ کے پاس چلا جاتا ہے اور وہاں سے اس کا فیصلہ لیا جاتا ہے۔ الیکشن آگے جانے سے حکومتی پارٹی کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ چودھویں ترمیم کے ذریعے ارکان کو پابند بنایا گیا تھا کہ وہ پارٹی فیصلوں کے خلاف نہیں جا سکیں گے۔ ایسا کرنے پر پارٹی سربراہ اس رکن کو ”ڈی سیٹ“ کروا سکتا ہے اس لئے اسے الیکشن کمیشن کو لکھنا پڑے گا۔ مہذب ممالک میں ارکان اپنی پارٹی کے خلاف ووٹ دے سکتے ہیں حتیٰ کہ بھارت جیسے ملک میں بھی کانگریسی رکن اپنی پارٹی کے خلاف ووٹ دے سکتا ہے۔ ہمارے ملک میں عائشہ گلا لئی کے معاملے نے اس ترمیم کا خانہ خراب کر دیا ہے۔ اب یہ راستہ کھل گیا ہے۔ تحریک انصاف نے عائشہ کو پارٹی سے نکالنے کا فیصلہ لکھ کر الیکشن کمیشن کو بھیج دیا جسے الیکشن کمیشن نے مسترد کر دیا۔ اس کا شدید نقصان مسلم لیگ (ن) کو ہو سکتا ہے۔ 80,70 ارکان اگر علیحدہ ہو جاتے ہیں تو وہ اہل پارلیمنٹ ہی رہیں گے۔ عائشہ کے فیصلے نے سب کے لئے راہ کھول دی ہے۔ کراچی میں وہرا صاحب پارٹی تبدیل کر کے پی ایس پی میں چلے گئے۔ آج جس طرح اجلاس میں ہنگامہ آرائی ہوئی ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ وہرا کے ساتھ بھی بہت سارے ارکان کھڑے ہیں۔ اگر وہ تنہا ہوتا تو ان کے خلاف شور شرابا ہوتا۔ آج کی فضا سے ظاہر ہوا ہے کہ ایم کیو ایم میں بھی اب دو دھڑے سامنے آ چکے ہیں۔ وہرا اکیلے نہیں ہیں۔ ان کے ساتھ بھی لوگ کھڑے ہیں۔ فاروق ستار کی مضبوط اپوزیشن پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ انہوں نے زبردست ڈرامہ کیا اور بیان دے ڈالا کہ اگر کوئی پارٹی چھوڑ کر گیا تو وہ بھی استعفیٰ دے دیں گے۔ وہرا کے حامی ان کے ساتھ ڈٹ گئے ہیں ایسا لگتا ہے کہ ایک ”آہ“ اور دوسرا ”واہ“ کی اصطلاح یہاں کام کر گئی ہے۔ اگر وہرا کی علیحدگی پر دیگر ارکان ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے اور انہیں مجبور کر دیتے کہ پارٹی کو خیرباد کہہ کر باہر چلا جائیں تو فاروق ستار کے موقف کی جیت ہو جاتی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اور واضح دو دھڑے سامنے آ گئے ہیں۔ تجزیہ کار لندن شمع جونیجو نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے لندن آنے والے تمام رہنماﺅں نے نوازشریف پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ چودھری نثار لندن نہیں آئے۔ ان کی تنقید کو زیادہ اہمیت نہیں دی جا رہی ہے۔ (ن) لیگ اسٹیبلشمنٹ کی بنائی ہوئی پارٹی سمجھی جاتی ہے۔ لہٰذا زیادہ تر اس میں حکمران ہی پسند کرتے ہیں۔ ان پر اپوزیشن برداشت کرنے کی کم ہی قوت ہوتی ہے اب ان میں ایک اینٹی اسٹیبلشمنٹ گروپ سامنے آیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ لندن میٹنگ میں طے ہوا ہے کہ مریم نواز اور دیگر خواتین کو ذرا پیچھے رکھا جائے۔ اس کے بعد بات دو بھائیوں کی آ گئی ہے۔ شہباز شریف اگر وزیراعظم بھی بن جاتے ہیں تو نوازشریف پیچھے رہ کر پارٹی چلائیں گے۔ لگتا ہے۔ پارٹی کا ”رفٹ“ ابھی آگے چلے گا مریم ابھر کر آگے آ رہی ہیں۔ طلال چودھری، دانیال عزیز وغیرہ ان کے ہم خیال بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسے میں مریم کو کیسے خاموش کروایا جا سکتا ہے۔ ان کا نیا میڈیا سیل ہے۔ جی ٹی روڈ پر انہو ںنے اپنے والد کو بہت سپورٹ کیا۔ یہ چاہ رہے ہیں کہ آصف زرداری سے بھی ملا جائے۔ خبر یہ ہے کہ میاں نواز شریف کی اپنی طبیعت بہت خراب ہے۔ میٹنگ میں اکثر الفاظ بھول بھی رہے تھے۔ ساتھی انہیں یاد کروا رہے تھے۔ وہ ”اسٹریس“ ہی دکھائی دے رہے تھے۔ نمائندہ لندن، وجاہت علی خان نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنماﺅں نے ایک ہی موقف اپنائے رکھا ہے کہ وہ یہاں طویل گفتگو ہوئی ہے۔ اور اس میں اہم فیصلے بھی کئے گئے ہیں۔

مائنس نواز شریف خود کو پلس کرنے کی کوشش کر رہے ہیں


لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے پروگرام ”کالم نگار“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی اسلم خان نے کہا ہے کہ نوازشریف کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا اس لئے وہ مائنس ہو گئے ہیں اور خود کو پلس کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نوازشریف خوش نصیب ہیں کہ انہیں شہباز شریف جیسا بھائی ملا ہے ورنہ برادران یوسف کی کمی تو نہیں ہے۔ نوازشریف اپنی ذات اور پنے بچوں کے علاوہ کچھ دیکھنا نہیں چاہتے۔ شہباز شریف کو خود ہمت کر کے آگے بڑھنا ہو گا کیونکہ مسئلہ اس وقت ایک خاندان کا نہیں ملک کا ہے۔ نئے الیکشن کی جانب سفر بڑھے گا تو اول پارٹی پھر شروع ہو گی۔ ٹیکنو کریٹ حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی کیئر ٹیکر حکومت بنے گی تو پھر اصل معاملات سامنے آئیں گے۔ سیاسی جماعتیں کیئر ٹیکر حکومت بنانے میں ناکام رہیں تو سپریم کورٹ بنائے گی۔ اصل کھیل پھر شروع ہو گا جب آئینی ریفرنس داخل کئے جائیں گے کہ 90 دن میں الیکشن ممکن نہیں ہیں۔ سپریم کورٹ مدت میں اضافہ کرے۔ سیاسی پارٹی کے پاس سٹریٹ پاور نہ ہو تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ کوئی پارٹی اس وقت لاہور جام کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ معروف صحافی خالد فاروقی نے کہا کہ نوازشریف کی خود کو پلس کرنے کی کوشش کی وجہ اقتدار کی لت ہے، اقتدار کو صرف خاندان تک محدود رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں خاندانی سیاست چل رہی ہے۔ سپریم کورٹ کی حکم عدولی کی روش خطرناک ثابت ہو گی۔ لندن اجلاس میں نوازشریف نے لیگی رہنماﺅں کی بات ماننے سے انکار کیا ہے۔ ٹیکنوکریٹ یا قومی حکومت کی کوئی گنجائش نہیں ہے یہ باتیں صرف الجھاﺅ پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ نوازشریف کی عوامی ریلی ناکام ہوئی تھی سیاسی جماعتوں کو پڑھے لکھے ارکان کو عہدے دینے چاہئیں۔ پاکستان اس وقت کسی مہم جوئی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اداروں کو مضبوط بنانا وقت کی ضرورت ہے، الیکشن میں تاخیر کسی طرح مناسب نہ ہو گی۔ ملک میں شفاف الیکشن اور ایماندار قیادت کی ضرورت ہے۔ ٹیکس جمع کرنا تو ایک طرف کوئی حکومت منی لانڈرنگ ہی روک لے تو ملک کی قسمت سنور سکتی ہے۔ بلوچستان میں عام آدمی کی حالت بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ الیکشن کمیشن حلقہ بندی میں تاخیر کیوں کر رہا ہے۔ تجزیہ کار انجینئر افتخار نے کہا کہ اقتدار بڑی ظالم چیز ہے بھائی بھائی کو مروا دیتا ہے۔ ن لیگ پارٹی نہیں رہی صرف نوازشریف کی ذات کے گرد گھوم رہی ہے۔ پیپلزپارٹی کو ماضی سے سبق سیکھنا چاہئے سارا بھٹو خاندان ختم ہو گیا اور زرداری جیسے لوگ لوٹ مار کرتے پھر رہے ہیں۔ آصف زرداری نے خیبر پختونخوا کا نام دے کر اپنے باپ کا خواب پورا کیا۔ لیگی حکومت کی بیڈ گورننس اور مہنگائی کے باعث عوام پریشان ہیں وہ نوازشریف کے لئے باہر کیوں نکلتے۔ سول حکمران اقتدار ملتے ہی آمر بن جاتے ہیں۔ صوبوں کے تحفظات دور کئے جانے چاہئیں۔ بلوچستان میں عام آدمی کی حالت بہتر اور قومی اسمبلی کی نشستیں بڑھانی چاہئیں۔ تجزیہ کار مکرم خان کہا کہ پنجاب میں ن لیگ کی یہ صورتحال ہے کہ جنوبی پنجاب سے آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ شہباز شریف پنجاب میں مائنس نواز گروپ بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ بلاول نجانے کس بات سے خائف ہیں انہیں کوئی سیاسی سوجھ بوجھ نہیں ہے، آصف زرداری نے ملک اور اداروں کو برباد کیا ہے۔ سندھ میں ایک نیا اتحاد سامنے آ رہا ہے اور نظریہ ضرورت کے تحت زرداری کا ساتھ دینے والے بھی اسے چھوڑ رہے ہیں۔ سندھ کے علاوہ تینوں صوبوں میں پیپلزپارٹی ختم ہو چکی ہے۔ نوازشریف ریلی ناکام رہی۔ ملک میں ٹیکنوکریٹ حکومت کی بازگشت سنائی دے رہی ہے جو اصل میں الیکشن کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے۔ قومی اسمبلی میں نشستوں کی کمی بیشی کے اعداد و شمار جس طرح بتائے جا رہے ہیں ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔

غزہ پر اسرائیلی بمباری سے 8 فلسطینی شہید

غزہ:(ویب ڈیسک) فلسطینی علاقے میں اسرائیلی دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے اور صہیونی فوج کی بمباری سے 8 فلسطینی شہید ہوگئے۔
اسرائیل فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ غزہ کے جنوبی علاقے خان یونس سے اسرائیلی علاقوں میں نکلنے والی غیرقانونی سرنگ کو فضائی حملے میں نشانہ بنایا گیا ہے۔ شہید ہونے والے پانچ فلسطینی نوجوانوں کی شناخت احمد ابو عرمانہ ، عمر نصار الفلیت ، عرفات ابو مرشد ، حسن حسنین اور مصباح شبیر کے نام سے ہوئی۔ صہیونی فوج نے دعویٰ کیا کہ تباہ کی گئی سرنگ اسرائیل کے خلاف استعمال کی جاتی تھی۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل جوناتھن کونکریکس کا کہنا ہے کہ تباہ کی جانے والی سرنگ اسرائیلی علاقے کسوفیم سے تقریبا ایک کلومیٹر کے فاصلے پرتھی۔ ایک سوال کے جواب میں اسرائیلی فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ حملے میں کسی حماس کے سنیئررہنما کو نشانہ نہیں بنایا گیا اور نا ہی اس کا کوئی ارادہ ہے۔

سنجے دت دھمال کے تیسرے سیکوئل سے آﺅٹ

ممبئی: سنجو بابا جب سے جیل سے آئے ہیں فلمی دنیا میں ان کی مشکلات ختم ہی نہیں ہورہیں پہلے فلم ”بھومی“ کے ذریعے ان کی دوبارہ انٹری ناکامی سے دوچار ہوئی اور اب ان کے لیے ب±ری خبر یہ ہے کہ انہیں دھمال سیریز کی تیسری فلم سے باہر کردیا گیا ہے۔دھمال سیریز کی 2 فلموں میں سنجے دت، رتیش دیش م±کھ اور ارشد وارثی کی جاندار اداکاری اورفیملی کامیڈی نے مداحوں کو بہت محظوظ کیا تھا۔ دھمال سیریز کا اب تیسرا سیکوئل تیار کیا جارہا ہے جس کا نام ”ٹوٹل دھمال“ ہوگا۔ لیکن اس بار فلم کے پروڈیوسر نے اسٹار کاسٹ میں تبدیلی کا فیصلہ کیا ہے، خبریں ہیں کہ تیسرے سیکوئل میں سنجے دت اور رتیش دیش مکھ فلم کا حصہ نہیں ہوں گے۔اس خبر کو بھی پڑھیں :سنجے دت کی فلم ”بھومی“ ناکامبھارتی میڈیا کے مطابق ”ٹوٹل دھمال“ میں کام کے حوالے سے فلم پروڈیوسر نے سنجے دت سے بات کی لیکن دونوں کے درمیان معاملات طے نہ ہوسکے، اس کے علاوہ رتیش دیش مکھ بھی اپنی دیگر زیر تکمیل فلموں میں مصروف ہیں۔ اس لئے اب ان دونوں اداکاروں کی جگہ انیل کپور اور اجے دیوگن کام کریں گے۔اس خبر کو بھی پڑھیں :جادو کی جھپی نے سنجو بابا کو مشکل میں ڈال دیاواضح رہے کہ سنجے دت کو جیل سے آنے کے بعد کئی مہینوں تک فلموں میں کام کی پیشکش نہیں ہوئی اور پھر انہیں فلم þ’ب±ھومی“ ملی لیکن وہ بھی کوئی خاص تاثر نہ چھوڑ سکی۔