عمران خان میرے کرکٹ ہیروز میں سے ایک ہیں: شین واٹسن

اسلام آباد(نیٹ نیوز) آسٹریلوی کھلاڑی شین واٹسن نے کہاہے کہ عمران خان میرے کرکٹ ہیروز میں سے ایک ہیں۔ آسٹریلوی کرکٹ اسٹار شین واٹسن نے ٹوئٹر پر وزیراعظم عمران خان نے ملاقات کی۔ ویڈیو شیئر کرائی اور کہا کہ عمران خان سے ملاقات اور بات چیت یادگار لمحات تھے، عمران خان میرے کرکٹ ہیروز میں سے ایک ہیں، عمران خاں نے کرکٹ اور آف دی فیلڈ میں متاثر کن زندگی کی مثال قائم کی جبکہ گریگ چیپل، ویون رچرڈز اور عمران خان کا یادیں تازہ کرنا بہت اچھا لگا۔

لاہور: پڑوسی خاتون نے بچے کو قتل کرکے لاش صندوق میں چھپادی

لاہور: شاہدرہ میں گزشتہ روز سے لاپتا بچے کی لاش پڑوسن کے صندوق سے  برآمد کرلی گئی۔پولیس کےمطابق  لاہور کے علاقے شاہدرہ کا رہائشی 10سالہ تنزیل گزشتہ روز پڑوسن کے گھر گیا تھا جس کے بعد وہ لاپتا ہوگیا۔پولیس نے بتایا کہ تنزیل کے اغوا کا مقدمہ تھانہ شاہدرہ میں درج کیاگیا جس کے بعد پولیس نے بچے کی تلاش کا کام شروع کیا تو شک کی بناء پر پڑوسن کے گھر کارروائی کی گئی جہاں صندوق سے بچے کی لاش برآمد ہوگئی۔پولیس کے مطابق  زینب نامی خاتون نے بچے کو قتل کرکے صندوق میں بند کیا، بچے کو منہ پر کپڑا ڈال  قتل کیا گیا۔پولیس نے لاش قبضے میں لے کر ملزمہ کو گرفتار کرلیا اور واقعے کی مزید تحقیقات شروع کردی

کینیڈا کا شہزادہ ہیری اور میگھن سے سیکیورٹی واپس لینے کا اعلان

کینیڈا نے شاہی خاندان سے راہیں جدا کرنے والے برطانوی شہزادہ ہیری اوران کی اہلیہ میگھن مارکل کو مزید سیکیورٹی فراہم نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔برطانوی شہزادے ہیری اور میگھن مارکل شاہی خاندان سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد سے کینیڈا میں مقیم ہیں جہاں نہیں نومبر 2019 سے کینیڈین پولیس کی جانب سے سیکیورٹی فراہم کی جا رہی ہے۔خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق کینیڈا کی عوامی تحفظ کی وزارت نے اعلان کیا ہے کہ ہیری اور میگھن کو اب شاہی خاندان کا سینئر فرد نہیں سمجھا جاتا تو وہ عوام کے فنڈز سے سیکیورٹی کے بھی حقدار نہیں ہیں۔کینیڈین حکومت کے مطابق “شہزادے ہیری اور میگھن نے کینیڈا میں وقت گزارنے کا اعلان کیا تھا جس کے باعث ذمہ داری بنتی تھی کہ ہم انہیں تحفظ فراہم کریں تاہم اب ان کی حیثیت کی تبدیلی کو مد نظر رکھتے ہوئے آئندہ ہفتوں میں ان کو فراہم کی گئی سیکیورٹی ختم کردی جائے گی۔واضح رہے کہ چند ماہ قبل برطانوی شہزادہ ہیری اور ان کی اہلیہ میگھن مارکل نے شاہی خاندان کے سینئر فرد کی حیثیت سے دستبرداری کا اعلان کیا تھا۔شاہی جوڑے کے ہاں 8 ماہ قبل بیٹے کی پیدائش ہوئی تھی جس کا نام آرچی رکھا گیا۔ دونوں نے فیصلہ کیا تھا کہ اب وہ معاشی طورپر بھی خود مختار زندگی گزاریں گے اور برطانیہ کے ساتھ ستھ کینیڈا میں زندگی بسر کریں گے۔شہزادہ ہیری اور میگھن مارکل کے بیان کے مطابق اس دوران وہ ملکہ برطانیہ، دولت مشترکہ اور اپنے بڑوں کے لیے خدمات سرانجام دیتے رہیں گے جو کہ ان کے لیے باعث فخر ہے۔

پی ایس ایل میں آج ملتان سلطانز اور کراچی کنگز مدمقابل

پاکستان سپر لیگ میں آج دو میچ کھیلے جائیں گے جہاں پہلے میچ میں ملتان سلطانز اور کراچی کنگز مدمقابل ہوں گی جبکہ دوسرے میچ میں لاہور قلندرز کا مقابلہ پشاور زلمی سے ہو گا۔پاکستان کے سپر لیگ کے دوسرے مرحلے میں آج دو میچز کھیلے جائیں گے اور ملتان اور راولپنڈی ایک، ایک میچ کی میزبانی کریں گے۔پہلے میچ میں ملتان سلطانز کا مقابلہ کراچی کنگز سے ہو گا اور یہ میچ ملتان کرکٹ اسٹیڈیم میں کھیلا جائے گا۔راولپنڈی میں شیڈول دوسرے میچ یں لاہور قلندرز کا مقابلہ پشاور زلمی سے ہو گا۔تحریر جاری ہے‎راولپنڈی میں آج بارش کا امکان ہے جس کے سبب میچ کے بارش سے متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ممکنہ بارش کے پیش نظر راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں نکاسی آب کے لیے ٹیمیں متحرک ہیں تاکہ میچ کو بارش کی صورت میں میچ کو متاثر ہونے سے بچایا جا سکے۔پاکستان کرکٹ بورڈ کا کہنا ہے کہ میدان اور پچ کی کنڈیشن دیکھ کر آج کا میچ کھیلے جانے کا فیصلہ کیا جائے گا

مقدمہ جھوٹا ،تفتیش نہ بیان ریکارڈ ،مستقبل ن لیگ کا ،مریم ،حمزہ ،باہر نکلے تو لوگ بینظیر بھٹو کا استقبال بھول جائینگے ،رانا ثناءاللہ سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناءاللہ چیف ایڈیٹر خبریں ضیا شاہد کے ساتھ گفتگو

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) رہنما مسلم لیگ ن رانا ثناءاللہ نے کہا ہے کہ مجھ پر منشیات کا جھوٹا مقدمہ بنایا گیا۔ پہلے مجھے ماڈل ٹاﺅن کیس میں پھنچانے کی کوشش ہوئی، پھر نیب کو سامنے لیا گیا، کچھ نہ نکلا تو منشیات کا جھوٹا مقدمہ بنا دیا گیا یہ سیاسی انتقام کی بدترین مثال ہے۔ انہوں نے کہا مستقبل مسلم لیگ ن کا ہے اور پارٹی میں دھڑے بندی کی بات مخالف پھیلا رہے ہیں۔ ہمارے قائد شہباز شریف ہم سب ورکر ہیں۔ پارٹی متحد ہے اور جب بھی الیکشن ہوا تو مریم نواز اور حمزہ شہباز جب سڑکوں پر نکلیں گے تو لوگ بے نظیر بھٹو کے استقبال کو بھول جائیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے چینل ۵ کے پروگرام ضیا شاہد کے ساتھ میں خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کیا جو سوالاً جواباً پیش خدمت ہے:
ضیا شاہد:مجھے کوئی کہہ رہا تھا کہ رانا صاحب پر جو ڈرگ سمگلنگ کا الزام لگا اس سلسلے میں جو یقینی طور پر ماڈل ٹاﺅن کے جو 14 شہدا ہیں ان کے گھر والوںکی دعائیں تھیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ واقعہ رانا ثناءاللہ صاحب کی وجہ سے ہوا تھا۔ رانا صاحب آج مشکل اور ابتلاءسے گزرے ہیں بذریعہ عدالت رہائی پر آپ کو مبارک پیش کرتا ہوں لیکن یہ بتایئے جب یہ خبریںچھپی تھیں تب بھی یقین نہیں آتا تھا باقی کوئی الزام ہوتا کوئی مالی بدعنوانی، کرپشن کا الزام ہوتا تو شاید تسلیم کر لیا جاتا لیکن آپ پورا کیریئر سیاسی ورکر ہے اس میں ڈرگ کا دور دراز تک معاملہ کیسے آ سکتا۔ یہ کیسے ہو گیا اس کے لئے اب آپ نے کیا حکمت عملی اختیار کی ہے عدالتوں سے کیا طلب کیا ہے آپ کے ساتھ جو زیادتی ہوئی اور اس پر آپ کیا قانونی کارروائی کر رہے ہیں۔
رانا ثناءاللہ: میں آپ کے پاس حاضر ہونا چاہتا تھا۔ آپ ساری زندگی سیاست میں نہ سہی صحافت میں ایک جدوجہد کی علامت رہے ہیں۔ ماصی میں پاکستان میں جتنے بھی ادوار گزرے ہیں جن میں سیاسی حکومتیں یا آمریت پر مبنی حکومت اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف گھٹیا ترین اور بدترین سیاسی انتقام کے لئے حربے اختیار کرتی رہی ہیں آپ اس ساری تاریخ کے گواہ ہیں اوراب بھی شاید اس کی مثال پہلے اس حد تک موجود نہ ہو کوئی چھوٹے موٹے کیسز بنائے جاتے رہے ہیں کہ کتنا سنگین کیس سیاسی طور پر بدترین سیاسی انتقام بنانے کے لئے میرے خلاف بنایا گیا۔ ہوا یہ کہ ماڈل ٹاﺅن کے کیس میں سب سے پہلے کوشش کی کہ اس میں ملوث کیا جائے لیکن پروپیگنڈا اور چیز ہے حقیقت اور چیز ہے۔ پروپیگنڈا جو ہے مرصی کرتا رہے لیکن معاملہ حقیقت پر آئے گا پھر تو حقیقت ہی سامنے آئے گی۔ ماڈل ٹاﺅن کیس میں جو اس وقت مقدمہ ہے جو استغاثہ ہے مدعی تھا وہ تقریباً 126 لوگوں کے خلاف زیر سماعت ہے اس پر اوپر دو انکوائریاں یا انویسٹی گیشن ہمارے دور میں ہوئیں اس کے بعد ایک انکوائری اب ہوئی تو جب اس میں کوئی بات نہیں بن پڑی تو پھر اس کے بعد نیب کو سامنے لایا گیا نیب نے پہلا کام جو ہے بھرپور اپنی کوشش کی کوئی چیز نہ ملی تو اس کے ہم پھر ایک حربہ ان کے پاس رہ گیا تھا کہ اپنے گودام سے ڈرگ نکالیں اور نکال کے وہ کہیں کہ یہ برآمد ہوئی ہے کیس بنایا گیا اس میں نہ صرف میرے حمایتی یا جاننے والوں نے تسلیم نہیں بلکہ جو برے بدترین مخالف جو ہیں انہوں نے بھی اس بات کو تسلیم نہیں کیا کہ اس بات میں کوئی حقیقت، یہ ایک اوپن سیکرٹ ہے کہ ایک جھوٹا بے بنیاد کیس ساسی انتقام کے نقطہ نظر سے بنایا گیا ہے اس پر میرا موقف سب سے پہلے تو یہ ہے کہ پہلے دیکھیں جب ایک کیس درج ہوتا ہے ایف آئی آر درج ہوتی ہے سب سے پہلے اس کی انویسٹی گیشن ہوتی ہے اس سے اگلا مرحلہ ٹرائل کا ہوتا ہے یہ وہ کیس ہے جس میں انویسٹی گیشن ہی نہیں ہوئی یعنی ایف آئی آر درج ہوئی اور اگلے دن ڈی جی ایف اور انچارج منسٹر شہریار آفریدی نے جناب پریس کانفرنس کر دی کہ بالکل درست کیس ہے اس کی ویڈیو ہمارے پاس ہے۔ رانا صاحب تو خود بیگ سے نکال کر ڈرگ پیش کر رہے ہیں ہیروئن۔ یہ تو بالکل صحیح کیس ہے آپ مجھے بتائیں کہ ایک انچارج منسٹر اور ڈی جی این ایف بیٹھ کر یہ پریس کانفرنس کریں گے تو اس ایف آئی آر میں کون انویسٹی گیشن کرے گا ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی یہ جرا¿ت ہے کہ وہ کوئی انویسٹی گیشن کرے۔ اس میں میرا بیان ریکارڈ کرے اس میں جو ہے وہ ڈیفنس کی طرف سے یا پراسیکیوشن کی طرف سے کوئی شہادت ریکارڈ کرے۔ انہوں نے مجھے اگلے دن عدالت میں پیش کیا اور جیل بھیج دیا۔کوئی میرے ساتھ انویسٹی گیشن آفیسر کی گفتگو تک نہیں ہوئی۔ میں نے ان کو کہا کہ آپ اتنی بڑی ویڈیو کی بات کر رہے ہیں آپ انویسٹی گیشن کو میرے آمنے سامنے بیٹھا دکھا دیں۔ کوئی انویسٹی گیشن کوئی گفتگو نہیں ہوئی میرا بیان تک ریکارڈ نہیں ہوا۔ اس لئے میں نے آن فلو آف دی ہاﺅس بھی یہ موقف احتیار کیا کہ اس میں تفتیش تو پہلے کریں اب آپ کہتے ہیں آپ عدالت میں جائیں اور انصاف ڈھونڈیں کس قدالت میں جاﺅں وہی عدالت وہی سپیشل کورٹ جس میں ضمانت کی درخواست لگی تھی اور شک پڑا حکومت کو کہ اب یہ ضمانت کہیں پر نہ جائے تو آپ 25 منٹ میں اس جج کو واٹس ایب کے اوپر 25 منٹ میں تبدیل کر دیا۔ وہاں سے میں انصاف ڈھونڈوں۔ مجھے جج صاحب کی ذات پر جو پہلے جج صاحب تھے جنہوں نے میری ضمانت کی سماعت کی اور اس سماعت کے دوران شاید پراسیکیوشن کو پتہ چلا کہ رانا ثناءاللہ کی یہ ضمانت لے نہ لیں تو انہوں نے آدھے گھنٹے کا ٹائم مانگا اور 25 منٹ کے بعد ان کو لیٹر تھما دیا اور واٹس ایپ پر میسج دے دیا کہ آپ اٹھیں آپ گھر جائیں۔ مجھے اب جج ہیں شاکر حسن صاحب مجھے ان کی دیانتداری پر مجھے کوئی شک ہے یا میں کوئی سوال اٹھاتا ہوں۔ لیکن سپیشل کورٹس کی ترتیب یہ ہے کہ جب چاہے حکومت واٹس ایپ پر 10 منٹ میں فارغ کر دے۔ تو وہاںسے میں انصاف مانگوں۔ کیوں نہ اس کیس میں ایک ایسی کمیٹی وہ پارلیمانی ہو وہ جوڈیشل ہو وہ ایگزیکٹو ہو میں نے تو یہاں تک کہا کہ آپ کینٹ کی کمیٹی بنا دیں وہ فیکٹ فائنڈنگ کرے۔ پتہ تو کرے یہ ہوا کیا ہے۔ جنہوں نے بدترین سیاسی انتقام اور بلنڈر کیا ہے۔ یہ میری کوشش ہے عدلیہ سے پاس یہی کوشش ہے اور باقی بھی جتنے ادارے ہیں ہیومن رائٹس کے ان سب کو میں نے پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین عابد ساقی صاحب کو میں نے تحریری درخواست کی میں نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بھی لکھا۔ انٹر پارلیمنٹ یونین ہے ان کو بھی لکھا۔ صحافی تنظیموں کو میں نے کہا ہے کہ ایک فرد ایک فرد کے خلاف جھوٹا مقدمہ کرا سکتا ہے تو مقابلہ ہو سکتا ہے لیکن اگر ریاست خود ایک فرد واحد کے خلاف مدعی بن کے کھڑی ہو جائے اور اس ادارے کا سربراہ اور ساتھ انچارج منسٹر جو بیٹھ کر پریس کانفرنس کر دیں کہ یہ بالکل سچ ہے کہ پھر اس میں کیا انصاف ہو گا۔ میں پوری سٹرگل کر رہا ہوں اپنی ذات کے لئے نہیں کر رہا۔ اب میری ضمانت ہو گئی ہے۔ یہ راستہ رکھنا چاہئے۔
سوال:جو الزام انہوں نے لگایا اس کی تو آپ تردید کرتے ہیں اس فیصلے سے ہی تردید ثابت ہو گئی ہے لیکن شیخ رشید کا دو دن پہلے انٹرویو کیا ان سے بات ہو رہی تھی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اے این ایف کا جو متعلقہ سیکشن ہے وہ بہت ذمہ دار لوگ ہیں اور ایک افسر کا تو کیریئر خراب ہو گیا رانا ثناءاللہ صاحب کی وجہ سے۔ رانا صاحب کا مسئلہ مس ہینڈل ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ کس طرح سے مس ہینڈل ہوا ہے جو الزامات لگائے گئے تھے اس وقت کہا گیا تھا کہ اس کی ویڈیو موجود ہیں ثبوت ہیں بعض میں چیزیں تو کوئی ثبوت تو سامنے نہیں آئے۔ اس کے باوجود سارا قصہ گھڑا گیا اس کا مقصد کیا تھا۔ کیا آپ کے خلاف کوئی اور کیس کرپشن مالی بدعنوانی کا یا سرکاری اختیارات سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا سو کیس نکل سکتے تھے؟
جواب: جو بشیر میمن صاحب تھے میں سمجھتا ہوں کہ بالواسطہ ان پر بھی ذمہ داری آتی ہے کہ ان کو وزیراعظم عمران خان ایک سال کہتے رہے کہ رانا ثناءاللہ کے خلاف کچھ نہ کچھ نہ نکالو وہ یہی کہتے رہے ہاں نکال رہے ہیں ہاں نکال رہے ہیں۔ لیکن اگر کوئی سچ نہیں نکلتا تھا تو کوئی جھوٹ موٹ ہی نکال دیتے۔ تو جب کوئی مقدمہ نہیں مل سکا تو پھر یہ بڑا آسان ہے کہ آپ گودام سے کوئی چیز پکڑیں اور کہہ دیں کہ رانا ثناءاللہ کی گاڑی میں سے برآمد ہوئی ہے۔
سوال: انہوں نے کوئی چیز برآمد کی آپ سے؟
جواب: انہوں نے میرے ساتھ بات تک نہیں کی۔ مجھے ٹول پلازہ سے گاڑی روکی۔ میری گاڑی سے ڈرائیور کو نکالا خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے 3 لوگ اور میرے ساتھ بیٹھے اور ایک دو منٹ کے اندر گاڑی وہاں سے بھگا دی۔ تھانے میں لے آئے تھانے میں 16 گھنٹے رہا ہوں۔ 16 گھنٹے میرے ساتھ گفتگو تک نہیں کی۔ مجھے یہ بھی نہیں بتایا کہ ہم آپ کے اوپر یہ کیس ڈال رہے ہیں۔ برآمدگی کرنا تو دور کی بات ہے میرے پورے کیس کی ویڈیو سنی گرفتاری لے کر تھانے میں میرا جتنا ٹائم گزرا پورے کی ویڈیو نہیں کیونکر سنائی ہے انہوں نے کیونکہ ہائی پروفائل گرفتاری تھی تو سمجھتے تھے کہ کچھ ہو نہ جائے بعد میں ہمارے لئے بڑا مسئلہ بنے گا لیکن وہ ویڈیو ان کے موقف کی تائید نہیں کرتی۔ یہ کہتے ہیں برآمدگی ہوئی ویڈیو بتائے گی کچھ برآمد نہیں ہوا۔ اب ایسی کوشش نہیں کر رہے اگر ویڈیو میرے خلاف ہوتی تو پیش کر دیتے۔ حق میں کوششیں نہیں کر رہے۔ میں عدالت سے بھی استدعا کر رہا ہوں کہ اسے پیش کروائیں یا بیان حلفی دیں کہ ہم نے کوئی ریڈیو نہیں بنائی۔
سوال: اب عدالت میں معاملہ کہاں تک ہے۔
جواب: یہی سپیشل نارکوٹکس کورٹ ہے اس کا تو میں نے بتا دیا وہاں گورنمنٹ کلیئرنس کے بعد جج لگاتی ہے اور اس کے بعد ان جج صاحب سے حکومت ناراض ہے۔ یا حکومت یہ چاہے کہ یہ کیس نہ سنے۔ جو فیصلہ کرنے جا رہے ہیں نہ کریں تو 20 منٹ چاہے حکومت کو اس کو گھر بھیجنے میں۔ وہاں کوئی دیانتدار سے فیصلہ کرنے پر مصر ہو کر یا سٹینڈ کر کے اپنے لئے مشکلات پیدا کر سکتا۔ اور کچھ نہیں کر سکتا۔
سوال: آپ کو رہائی کس عدالت سے ملی۔
جواب: وہ تو ہائی کورٹ سے ملی۔ ٹرائل کورٹ سے ممکن نہیں ہے پہلے جج ارشد مسعود تھے جو غیر جانبدار جج تھے ان کو انہوں نے دبایا کہ جی آپ ضمانت مسترد کر دیں انہوں نے یہ نہیں کہا کہ میں ضمانت مسترد نہیں کروں گا انہوں نے کہا میں میرٹ پر فیصلہ کروں گا ان کو شک پڑ گیا تو انہوں نے ان کو ری ہسٹری ایٹ کر دیا۔ در بدر کر دیا۔ اس طرح اگر حکومت اپنے مخالفین کے خلاف کیس بنائے گی۔ اب شیخ رشید صاحب کہہ رہے ہیں کہ مس ہینڈل ہوا ہے تو میں ان سے پوچھنا چاہوں گا کہ کیا کلاشنکوف والا کیس مس ہینڈل نہیں ہوا تھا۔ اور وہ جج جو سزا کا فیصلہ لکھ کر گورنر صاحب کو دکھانے کے لئے آیا تھا کہ یعنی میں یہ سزا دے رہا ہوں شیخ رشید صاحب کو اور کوئی بات کرے نہ کرے شیخ رشید کو اس کیس میں بات کرنی چاہئے تھی۔
سوال: اے این ایف کی ساکھ تو بہت اچھی ہے۔
جواب: یہ ملزم کو پکڑتے ہی نہیں۔ اے این ایف جو میں نے قریب سے دیکھا ہے یہ صرف ملزم کے کارندوں کو پکڑتے ہیں۔ وہ سمگلر جو نارکوٹکس میں کام کرتا ہے۔ وہ بیٹھا ہوتا ہے مگر کارندوں کا چالان کر دیتے ہیں وہ آگے جا کر اقبال جرم کر لیتے ہیں ان کو چھوٹی موٹی سزا ہو جاتی ہے جو کام کرنے والا ہے وہ گھروں میں بیٹھے ہیں۔ اصل منصوبوں کو پکڑے تو منشیات کی بیماری اس ملک میں اس طرح سرائیت کرتی۔
انہوں نے کہا یہ بہت بڑا نیٹ ورک ہے اس کو رانا صاحب چلا رہے ہیں۔ ہیروئن افغانستان سے آتی ہے وہ چلی جاتی ہے فیصل آباد۔ ہیروئن اتنی سمجھدار ہے کہ لاہور آنے کی بجائے فیصل آباد چلی جاتی ہے اور رانا صاحب اپنی گاڑی رکھ کر اسے لاہور پہنچاتے ہیں۔ میں 6 ماہ جیل میں رہا ہوں انہوں نے اس دوران متلی ممبرز کے علاوہ کوئی بندے ملے۔ نہیں وہاں کہاں ہیں وہ کارندے۔ صرف زبانی کلامی بات کر کے کردار کشی کی گئی۔ اس ماحول میں میڈیا اپنا رول کر رہا ہے۔ عدالتیں بھی اس کو کردار ادا کروا رہی ہیں لیکن میڈیا جو حالت انہوں نے کر دی جس طرح سے ان کو پابند کیا گیا ہے جس طرح سے لوگوں کو بے روزگار کیا گیا ہے اس کی جتنی صحافت ہے وہ کام کر رہا ہے۔
س:بیریئرز یا رکاوٹیں تو شہر میں جگہ جگہ نظر آتی ہیں ڈاکٹر طاہر القادری سے لیگی حکومت یاآپ کی مخالفت تھی؟
ج:طاہر القادری کے حملے کے لوگوں نے بیریئرز بارے شکایت کی تھی جس پر ڈسٹرکٹ مینجمنٹ نے کارروائی کی اور رپورٹ لی کہ رکاوٹیں ہٹائی جائیں۔ اجلاس میں میرے سمیت چیف سیکرٹری‘ ہوم سیکرٹری‘ آئی جی اور ایجنسیوں کے لوگ شامل تھے۔ اس کیس کو خاص اہمیت نہیں د ی گئی۔ اہمیت اسے جگڑے کی وجہ سے ہیں۔ پولیس رکاوٹیں ہٹانے گئی تو مزاحمت کی گئی۔ ہائی کورٹ کی طرف سے بیریئر لگانے کی کوئی اجازت نہ تھی اس بارے میں بھی جھوٹ بولا گیا۔ مزاحمت کے دوران لڑائی ہوئی جس میں دونوں فریق کے لوگ زخمی ہوئے اور ہلاکتیں ہوئیں۔
س:شہبازشریف کہتے ہیں وہ واقعہ کا 2 بجے تک پتہ نہ چلا جبکہ سارا میڈیا لائیو کوریج کر رہا تھا۔ سیاستدان بدمعاشوں کو پالتے ہیں جس کی مثال گلو بٹ کی شکل میں نظر آئی؟
ج:گلو بٹ کا ن لیگ سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ شہبازشریف سے اس کی کبھی ملاقات نہیں ہوئی سب کہانیاں ہیں۔
س:ایسا تھا تو پولیس افسر گلو بٹ کو شاباش کیوں دے رہے تھے؟ واقعہ کیا تھا بعد میں کیا ہوا؟
ج:پولیس کا اپنا موقف ہے کہ وہ واقعہ پہلے کا تھا جس بعد میں دکھایا گیا۔ پولیس کا کارکنوں سے تصادم ہوا جو دوطرفہ تھا۔ عوامی تحریک نے تحقیقات اور شہادتیں اکٹھی نہ کرنے دیں۔ جے یو آئی بنی تو اس سے بھی تعاون نہ کیا۔ ان دنوں اسلام آباد‘ لانگ مارچ پروگرام بن رہا تھا اس لئے ساری سیاسی کہانی بنائی گئی۔ واقعہ کی تحقیقات میں ہمیں بے گناہ قرار دیا گیا۔ عدالت میں پولیس اور عوامی تحریک کے ورکرز کیخلاف چالان پیش ہوا۔ ڈیڑھ سال بعد استغاثہ لے آئے کہ اس کی سماعت کریں شہادتیں پیش کریں گے۔ اگلے ڈیڑھ سال شہادتیں قلم بند کراتے رہے جس کے نتیجہ میں دہشت گردی عدالت نے 126 افراد کو طلب کیا۔ اس وقت بھی استغاثہ چل رہا ہے اور یہ اگر شہادتیں پیش کر رہے ہیں جن 15 افراد کیخلاف الزام لگایا گیا اس بارے عدالت نے کہا ایسی کوئی سازش نہیں ہوئی پھر یہ اگر ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ گئے دونوں بڑی عدالتوںنے فیصلہ برقرار رکھا۔
س:ن لیگ اور تحریک انصاف کے قائدین میں سخت مخالفت ہے۔ شیخ رشید کہتے ہیں کہ ا صل اپوزیشن مہنگائی ہے لوگ نالاں ہیں مگر نفرت نہیں کرتے۔ کرپشن کے بڑے بڑے الزامات لگائے گئے۔ لوگ پکڑے گئے مگر کوئی ریکوری نہ ہوسکی نہ توقع نظر آتی‘آپ کیا کہتے ہیں؟
ج: تحریک انصاف نے کرپشن اور ریکوری کا جھوٹا بیانیہ بنایا‘ نوازشریف پر کون سی کرپشن ثابت ہوئی سوائے اس بات کے وہ لندن فلیٹس کی منی ٹریل نہیں دے سکے۔ نوازشریف کسی ریڑھی بان کے بیٹے نہیں تھے ان کے والد کی انڈسٹری تھی۔ جہاں ہزارں مزدور کام کرتے تھے۔ نواز دور میں پندرہ بیس ہزار ارب کے ترقیاتی کام ہوئے۔ کسی ایک منصوبہ میں کرپشن ثابت نہ ہوئی صرف جھوٹا پراپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ شہبازشریف نے پنجاب میں 10 سال حکومت کی۔ ایک روپے کی کرپشن ثابت نہ ہوسکی۔ ان پر کمپنیاں بنا کر افسروں کو بھاری تنخواہیں دینے کا الزام لگاتے ہیں تو اب کیوں 30,30 لاکھ روپے تنخواہیں دی جارہی ہیں۔ ان کی بنائی کمپنیاں بہترین کام کر رہی تھیں۔ ہماری درخواست پر بیرون ممالک سے ماہرین بھاری مشاہرے چھوڑ کو یہاں آئے انہیں بھی نہ بخشا گیا۔ کڈنی سنٹر کو مکمل نہ ہونے دیا جہاں غریبوں کا مفت میں ٹرانسپلانٹ ہونا تھے۔فرانزک لیبارٹری بنائی جو دنیا کی دوسری بڑی لیبارٹری ہے۔
س:شہبازشریف کے بیٹوں کے اثاثوں میں چند سال میں 700 گنا اضافہ کیسے ہوگیا؟
ج:سب جھوٹا پرواپیگنڈا کیا گیا۔ شریف خاندان کی فیکٹریاں اور ملز آج کی تو نہیں ہیں۔ قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی گئی۔ احد چیمہ جس نے 11 ماہ میں میٹرو بنا دی دو سال جیل میں رکھا گیا کچھ ثابت نہ ہوا۔ فواد حسن فواد کو دو سال بند رکھا کچھ ثابت نہ ہوا۔ حکومت کا سارا پراپیگنڈا جھوٹ پر مبنی ہے۔ اب کچھ لوگوں کی آنکھیں کھل رہی ہیں مگر ملکی معیشت اور اداروں کا بیڑہ غرق ہوچکا۔ حکومت نے سیاسی رواداری ختم کر دی ہے صرف دشمنی باقی رہ گئی ہے۔
س: موجودہ حکمران کہتے ہیں کہ ن لیگ پیپلز پارٹی نے اتنے قرضے لئے کہ ملک ڈیفالٹ ہورہا تھا جسے بچایا ہے ڈالر کا ریٹ اوقر گیا ڈار نے کیا نسخہ استعمال کیا کہ ڈالر ریٹ نہ بڑھنے دیا؟
ج:اسحاق ڈار کا نسخہ یہ تھا کہ ہمارے پاس اے ٹی ایمز نہیں تھیں‘ حکومت کی اے ٹی ایمز نے خود ڈالر خریدا مہنگا کیا اور اربوں روپے کمائے۔ حالیہ واردات یہ کی کہ گندم‘ چینی بحران پیدا کرکے عوام کی جیب سے 100 سے 200 ارب روپے نکلوالئے۔ عوام کو کنفیوزڈ کرنے کیلئے جھوٹ بولتے ہیں۔ ہم نے 5 سال میں 10 ہزار ارب قرض لیا جسے کرپشن کہتے ہیں تو تحریک انصاف حکومت نے تو ڈیڑھ سال میں 10 ہزار ارب قرض لیا۔
س:نوازشریف علاج کیلئے لندن گئے ہسپتال داخل نہ ہوئے بضد ہیں کہ بیٹی کو بھی باہر بھجوایا جائے تو آپریشن کراﺅں گا۔ پنجاب حکومت نے ان کی رپورٹ مسترد کر دی۔ کیا بیماری پر بھی سیاست ہورہی ہے؟
ج: کسی بھی شخص یک بیماری پر سیاست کرنا انتہائی گھٹیا عمل ہے۔ یہ بیمار والد کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے بچے پاس ہوں۔ مریم نواز کی سزا معطل ہے وہ قانونی طور پر آزاد ہیں انہیں باہر جانے کی اجازت دینی چاہیے۔ ہزاروں لوگ ہیں جن کی سزا معطل ہے اور وہ بیرون ملک کاروبار کیلئے آتے جاتے ہیں۔ مریم نواز کو باہر جانے سے روکنا بدترین سیاسی انتقال ہے۔ نوازشریف کی رپورٹس نارمل تھیں تو بیرون ملک کیوں بھیجا گیا۔ ان کی رپورٹس کو تو شوکت خام کے ڈاکٹرز سے بھی چیک کرایا گیا تھا۔ نوازشریف کا دوبار دل کا بائی پاس ہوچکا ہے اب ان کے ڈاکٹرز کی مرضی ہے کہ کب آپریشن ہونا چاہیے یہ طے کرنا پنجاب حکومت یا بورڈ کا مسئلہ نہیں ہے۔
س:ن لیگ اب پنجاب تک محدود نظر آتی ہے اس کا کیا مستقبل دیکھتے ہیں؟
ج:ن لیگ کا مستقبل روشن اور شاندار ہے کیونکہ اس نے ملک کو ایٹمی طاقت بنای۔ بجلی کے کارخانے لگائے‘ میٹرو ‘ موٹرویز اور سی پیک دیا۔ شہبازشریف پارٹی کو لیڈ کر رہے ہیں سب کو ان پر اعتماد ہے۔ جب بھی الیکشن آیا یا سیاسی تحریک چلی۔ مریم اور حمزہ باہر نکلیں گے تو ایسا استقبال ہوگا کہ لوگ محترمہ بینظیر بھٹو کا استقبال بھول جائیں گے۔
س:نیب کی خبریں میڈیا پر چلتی ہیں کہ شہبازشریف خاندان نے اتنی منی لانڈرنگ کی جب رہنا ملک میں ہے تو اتنا پیسہ باہر کیوں بھیجا گیا؟
ج:شہبازشریف فیملی نے ایک پیسہ بھی باہر نہیں بھیجا۔ نیب کے الزامات جھوٹ پر مبنی ہیں۔ شریف خاندان نے کبھی منی لانڈرنگ نہیں کی ہمیشہ پیسے باہر سے پاکستان منگوائے ہیں۔ حمزہ شہباز پر بھی الزام ہے کہ ٹی ٹی کے ذریعے 18 کروڑ روپے اپنے اکاﺅنٹ میں منگوائے یعنی پیسہ باہر نہیں بھجوایا بلکہ پاکستان منگوایا ہے۔ ڈرا دھمکا کر لوگوں سے اعترافی بیان لئے جاتے ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
س:کہا جاتا ہے ن لیگ دو دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ شہبازشریف اور مریم نواز کے الگ الگ دھڑے ہیں دونوں وزیراعظم بننا چاہتے ہیں آپ کس کے ساتھ ہیں؟
ج:پارٹی قائد شہبازشریف ہیں‘ مریم نواز اور مجھ سمیت باقی سب کارکن ہیں۔ الیکشن یمں پارٹی کو اکثریت ملی تو نوازشریف فیصلہ کریں گے جس کے سر پر ہاتھ رکھیں گے وہ وزیر اعظم بنے گا۔ وہ شہبازشریف ہوں‘ مریم ہوں یا حمزہ یہ اصل فیصلہ نوازشریف کا ہوگا جس کو جو ذمہ داری ملے گی پوری کرے گا سب ان کے ساتھ چلیں گے۔

بھارت ، مسلم کش فسادات ،مرنے والوں کی تعداد 40ہو گئی ،ہر طرف تباہی ،بھارت نے ذمہ داری امریکہ پر ڈال دی

نئی دہلی،قاہرہ، نیویارک، اسلام آباد( نیٹ نیوز) دہلی میں مسلم کش فسادات میں مرنے والوں کی تعداد 40 ہو گئی، 200 سے زائد زخمی ہیں، متعد د کی حالت تشویش ناک ہے۔ ہسپتال انتظامیہ نے ہلاکتوں میں اضافے کے خدشے کا اظہار کیا ہے، دہلی فسادات کیس کی سماعت کرنے والے جج کا راتوں رات تبادلہ کر دیا گیا۔میڈیارپورٹس کے مطابق دہلی میں فسادات پر ہر طرف تباہی کے مناظر ہیں، مسلم علاقوں میں اجڑے اور خالی گھر ظلم کی داستان سنا رہے ہیں۔ دہلی فسادات کیس کی سماعت کرنے والے جج کا راتوں رات تبادلہ کر دیا گیا، جسٹس مورالی دھر کو پنجاب ہائی کورٹ بھیج دیا گیا۔فسادات میں زخمی ہونے والوں میں سے متعدد کی حالت تشوش ناک ہے، ہسپتال انتظامیہ نے ہلاکتوں میں اضافے کے خدشے کا اظہار کیا ، مودی کے مشیر اجیت دوول کے متاثرہ علاقوں کے دورے کے بعد حالات مزید کشیدہ ہو گئے۔شمال مشرقی دلی کے علاقے بھجن پورہ، موج پور، کروال نگر میں مزید فسادات ہوئے۔ پولیس نے 18 رپورٹ درج کر کے اب تک 106 افراد کو گرفتار کیا ہے۔کانگریس رہنما سونیا گاندھی نے وزیر داخلہ امیت شاہ کو ذمہ دار ٹھراتے ہوئے ان کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے، نوجوان کئی راتوں سے گلیوں کے باہر پہرے دے رہے ہیں، خواتین بھی اپنی جانیں بچانے کے لئے کئی راتوں سے جاگ رہی ہیں۔ادھر براہم پوری کے علاقے میں سینکڑوں غنڈوں نے نوجوان کے ہاتھ پاو¿ں باندھ کر بدترین تشدد کیا، بھارتی پولیس نے سڑک پر نصب کیمرے بھی توڑ ڈالے لیکن فوٹیج منظر عام پر آگئی۔اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھانے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے ، جدہ سے جاری بیان میں او آئی سی نے کہا ہے کہ بھارت مسلمانوں کی جان و مال اور مذہبی مقامات کی حفاظت کو یقینی بنائے۔ترک صدرطیب ایردوان نے بھارت میں مسلم کش فسادات کی شدیدمذمت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں ہندووں کے ہاتھوں مسلمانوں کاقتل عام ہورہاہے، بھارت میں مشتعل ہجوم بچوں کوسریوں اورڈنڈوں سے ماررہے ہیں۔ جمعرات کو اپنے ایک بیان میں ترک صدر نے کہاکہ ہندوستان میں قتل عام اب ایک بن گیا ہے۔ مسلمان مسلسل قتل کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہندو انتہاپسند یہ کر رہے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ ہندوستان کیسے دنیا میں امن کی حمایت کرے گا۔ صدر رجب طیب ایردوان نے کہاکہ ترکی نفرت اور ناانصافی کے خلاف اور مظلوموں کے حق میں آواز اٹھاتا رہے گا۔امریکی صدارتی امیدوا اور کانگریس ارکان نے بھارت میں مسلم کش فسادات اور مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جانے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے، ہمیں بھارت میں پرامن مظاہرین پر بے رحمانہ تشدد پر کھل کر بات کرنا ہوگی، کمشنر انوریمابھرگاوا نے کہا کہ حکومت شہریوں کے تھفظ کے اپنے بنیادی کام میں بری طرح ناکام رہی ، اہم بھارتی کی وزارت خارجہ نے امریکی کمیشن کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ رپورٹ حقائق کے منافی اور گمراہ کن ہیں، اور اسکا مقصد معاملے کو سیاسی رنگ دینا ہے، دوسری جانب بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے فسادات کے تین دن بعد محض ایک ٹویٹ پر اکتفا کرتے ہوئے روائتی بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ امن اور یکجہتی برقرار رکھنے کا مطالبہ کیا ، انہوں نے کہا کہ میں دہلی میں پنے بہن بھائیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ امن اور بھائی چارے کو یقینی بنائیں ، سکون اور معمولات زندگی کو جلد از جلد بھال کرنا انتہائی اہم ہے، بھارتی وزیراعظم کے اس بیان پر جنوب و وسط ایشیائی ممالک کے امور کی امریکی سیکرٹری خارجہ ایلس ویلز نے نئی دہلی میں ہونیوالے فسادات میں ہلاک اور زخمی ہونیوالوں سے تعزیت کی، انہوں نے بھارتی وزیراعظم کے موقف کی تائید کرتے ہوئے تمام فریقین سے مطالبہ کیا کہ وہ تشدد سے بار رہتے ہوئے امن کا قیام یقینی بنائیں، بھارتی دارالحکومت دہلی میں مسلم کش فسادات کے نتیجے میں درجنوں افراد کی ہلاکت و مالی نقصان پر جہاں دیگر بالی ووڈ فنکار بول پڑے اور متنازعہ شہریت قانون کو مسلم مخالف قرار دیدیا وہیں بالی ووڈ کے بڑے نام کہلائے جانے والے فنکار وں تینوں خانز اور بگ بی کی خاموشی بھی ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ امریکہ نے انتہائی محتاط انداز میں بھارت پر زور دیا ہے کہ جو لوگ مذہبی فسادات کے پیچھے ہیں وہ خود کو تشدد سے دور کھیں، امریکی نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی وسطی ایشیائی امور ایلس ویلز نے ٹویٹ میں کہا نئی دہلی میں مقتولین اور زخمیوں کے ساتھ ہماری ہمدردیاں ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے امن کی بحالی کا تقاضہ کرتے ہیں، ایلس ویلز نے زور دیا کہ تمام فریقین امن برقرار رکھیں اور تشدد کا راستہ اپنانے سے گریز کریں۔

دشمن کو حیران کرنے اور ملکی دفاع کے لیے ہر وقت تیار ہیں ،ڈی جی آئی ایس پی آر

راولپنڈی (نیوز ایجنسیاں) ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخارنے کہا ہے کہ 27فروری کسی بھی جارحیت کیخلاف پاک فوج کے عزم کا دن ہے، ہمارے جوان دشمن کوحیرت زدہ کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں۔تفصیلات کے مطابق پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر)کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر سرپرائزڈے کے ہیش ٹیگ کےساتھ اپنے پیغام میں کہا 27فروری کسی بھی جارحیت کیخلاف پاک فوج کے عزم کادن ہے، اس دن ہم نے جس طرح سے جواب دیا، دشمن کوسمجھ لیناچاہیے پاکستان ہرجارحانہ عزائم کوشکست دے گا، ہمارے جوان دشمن کوحیرت زدہ کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں۔پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ ہم ہر قیمت پر اپنی سالمیت اور خودمختاری کے دفاع کیلئے تیار ہیں، عزت و وقار کی کوئی قیمت نہیں ہوتی، ہم اپنے دشمن کی ہر سازش سے بخوبی آگاہ ہیں،بھارتی طرز عمل خطے میں قیام امن کیلئے خطرہ ہے ،دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری کامیابیوں کو سبوتاژ کرنے کے لیے ایل او سی پر بھارتی شرانگیزی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے،پاک فوج نے ایل او سی پر بڑھتی بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا ہے اور دیتے رہیں گے، 27 فروری کو دشمن سرپرائز ہو کر ناکام واپس لوٹا،یہ دن ہماری تاریخ میں ایک روشن باب ہے اور اس پر ہر پاکستانی کو فخر ہے،بھارت کی سول و عسکری قیادت کے حالیہ غیر ذمہ دارانہ بیانات کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں، اگر خطے میں جنگ چھڑی تو غیرارادی اور بے قابو نتائج ہوں گے،مسئلہ کشمیر کا حل ہمارا قومی مفاد اور سلامتی کا ضامن ہے، آزادی کی اس جدوجہد میں ہم کشمیریوں کے ساتھ تھے، ہیں اور رہیں گے،خطہ اور دنیادو جوہری طاقتوں کے درمیان جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتیں،افغان مفاہمتی عمل پر کرنا دفتر خارجہ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے ، میری معلومات کے مطابق افغان مفاہمتی عمل کسی بھی قسم کے تعطل کا شکار نہیں ہے ،جو معاہدہ ہونے جا رہا ہے اس کے بہت مثبت نتائج آئیں گے ۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل بابر افتخار نے اپنی تعیناتی کے بعد پہلی مرتبہ میڈیا بریفنگ میں 27 فروری کو پیش آنے والے واقعے، لائن آف کنٹرول (ایل او سی)، مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور آپریشن ردالفسار کے 3 سال مکمل ہونے سمیت مختلف معاملات پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان کی 73 سالہ تاریخ میں جب بھی مشکل وقت آیا پاکستان کے عوام اور افواج نے اس کا بہادری سے مقابلہ کیا۔انہوں نے ایک سال قبل فروری کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پاک بھارت جنگ دستک دے چکی تھی، 14 فروری کو پلوامہ کا واقعہ ہوا اور بھارت نے بغیر کسی تحقیق کے پاکستان پر بے جا الزامات لگائے تاہم حقیقت یہ ہے کہ سچ صرف ایک بار بولنا پڑتا ہے، پاکستان نے ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر ہر طرح کے تعاون کی پیش کش کی۔انہوں نے کہا کہ تاہم انتہا پسند بھارتی قیادت نے 25 اور 26 فروری کی درمیانی شب ایک ناکام اور بزدلانہ کارروائی کی، ہم مکمل طور پر تیار تھے اور جو سرپرائز دشمن ہمیں دینا چاہ رہا تھا وہ خود سرپرائز ہوکر ناکام لوٹ گیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اس کے جواب میں دشمن کو دن کی روشنی میں نہ صرف مو¿ثر جواب دیا بلکہ اس کے 2 لڑاکا طیارے بھی مار گرائے اور ان کا ایک ونگ کمانڈر ابھی نندن کو گرفتار کیا، بھارت کی اسی بھوکلاہٹ کے دوران بھارت نے اپنا ہی ایک ہیلی کاپٹر مار گرایا۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہاکہ 27 فروری کا دن اب ہماری تاریخ میں ایک روشن باب ہے اور اس پر ہر پاکستانی کو فخر ہے، ایک سال قبل آج کے دن افواج پاکستان نے قوم کی امنگوں پر پورا اترکر دکھایا، ہم نے ناصرف وطن کی سرحدوں کا کامیاب دفاع کیا بلکہ دشمن کے عزائم کو بھی خاک میں ملایا، آج کا دن ان شہدا کے نام جنہوں نے 1947 سے دفاع وطن کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔انہوں نے کہا کہ ہم ان تمام ماو¿ں، بہنوں، بیٹیوں اور شہدا کے لواحقین کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے اپنے پیاروں کو اس وطن کے تحفظ کے لیے قربان کردیا، ہم تمام غازیوں کی بہادری کو بھی سلام پیش کرتے ہیں جو وطن کے دفاع کے لیے دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے لڑ رہے ہیں۔آج کے دن کو یوم تشکر اور یوم عزم قرار دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اللہ کے شکر سے افواج پاکستان قوم کے غیرمتزلزل اعتماد پر اس عزم کے ساتھ پوری اتری کہ خطرات اندرونی ہوں یا بیرونی جنگیں حب الوطنی، عوام کے اعتماد اور سپاہ کی قابلیت پر لڑی جاتی ہیں۔میجر جنرل بابر افتخار نے کہاکہ عزت و وقار کی کوئی قیمت نہیں ہوتی، ہم اپنے دشمن کی ہر سازش سے بخوبی آگاہ ہیں، پاکستان کی مسلح افواج ہر میدان میں دفاع وطن کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔لائن آف کنٹرول کی صورتحال سے متعلق بات کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہماری مشرقی سرحد پر بھارت کی جانب سے لگاتار خطرات درپیش ہیں، بھارت اپنی بوکھلاہٹ اور اندرونی انتشار سے توجہ ہٹانے کے لیے جو کھیل، کھیل رہا ہے اس سے پاکستان کی سول و ملٹری قیادت بخوبی آگاہ ہے۔انہوںنے کہاکہ بھارت کا یہ طرز عمل خطے میں قیام امن کے لیے شدید خطرہ ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری کامیابیوں کو سبوتاژ کرنے کے لیے ایل او سی پر بھارتی شر انگیزی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، رواں سال اب تک 384 مرتبہ سیز فائر کی خلاف ورزی ہوئی جس میں ہمارے 2 شہری شہید اور 30 افراد زخمی ہوچکے ہیں۔میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ گزشتہ 17برسوں میں ایل او سی پر سب سے زیادہ اموات ریکارڈ کی گئیں جبکہ 2019 میں سب سے زیادہ سیز فائر کی خلاف ورزی ریکارڈ کی گئی اور ان خلاف ورزیوں میں 2014 میں آنے والی بھارتی حکومت کے بعد اضافہ ہوا۔انہوں نے کہا کہ پاک فوج نے ایل او سی پر بڑھتی بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا ہے اور دیتے رہیں گے، ہماری بھرپور جوابی کارروائی کی بدولت بھارت کو جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم ایک ذمہ دار اور پروفیشنل فورس ہیں، جب ہمیں مجبور کیا جاتا ہے تو ہم صرف فوجی اہداف کو نشانہ بناتے ہیں لیکن بھارتی فوج نہتے شہریوں پر فائرنگ کرتی ہے۔پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ بھارت کی سول و عسکری قیادت کے حالیہ غیر ذمہ دارانہ بیانات کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں، اگر اس خطے میں جنگ چھڑی تو اس کے غیر ارادی اور بے قابو نتائج ہوں گے مگر یہ طے ہے کہ ہم ہر قیمت پر اپنی سالمیت اور خودمختاری کے دفاع کے لیے تیار ہیں۔مسئلہ کشمیر کے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر، پاکستان اور بھارت کے درمیان بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تنازع ہے جس کے پرامن حل کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ بھارت نے 1947 میں ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کو آج تک دل سے تسلیم نہیں کیا، بھارت نے 73 سال سے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور 5 اگست 2019 کو بھارتی حکومت کے غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدام سے مقبوضہ کشمیر کی پہلے سے متنازع حیثیت کو اقوام متحدہ کی قراردوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مزید خراب کردیا ہے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ 207 دنوں میں مقبوضہ کشمیر کے عوام گزشتہ 73 برسوں سے جاری ظلم و ستم کی انتہا پر ہیں، وہاں زندگی پوری طرح مفلوج ہے اور کشمیریوں کی نسل کشی کی جارہی ہے ایک مکمل لاک ڈاو¿ن کی صورتحال ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب یہ مسئلہ پاکستان اور بھارت کے درمیان صرف نظریاتی یا جغرافیائی تنازع نہیں رہا بلکہ عالمی تاریخ میں انسانی حقوق کی پامالی کا سب سے بڑا المیہ بنتا جارہا ہے۔پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ دنیا بھر میں اور بھارت میں اس پر مظاہرے ہورہے ہیں، ظلم کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبایا نہیں جاسکتا، مسئلہ کشمیر ایک مرتبہ پھر بین الاقوامی توجہ کا مرکز بن چکا ہے، اقوام متحدہ نے ایک مرتبہ پھر اپنے مو¿قف کا اعادہ کیا ہے کہ اس مسئلے کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہونا چاہیے، عالمی طاقتوں اور اہم عالمی سربراہان نے بھارت میں اس ظلم و ستم پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پاسداری پر زور دیا جبکہ ہیومن رائٹس واچ کی مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم سے متعلق رپورٹ کو وہاں کی اصل عکاسی قرار دیا۔میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل نہ صرف ہمارا قومی مفاد ہے بلکہ ہماری قومی سلامتی کا ضامن بھی ہے، آزادی کی اس جدوجہد میں ہم کشمیریوں کے ساتھ تھے، ہیں اور رہیں گے۔دہشت گردی کے خلاف گزشتہ 20 برسوں سے جاری جنگ اور آپریشن ردالفساد سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوںنے کہا کہ 20 سال میں افواج پاکستان، پوری قوم، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور انٹیلی جنس ایجنسیز نے دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ لڑی، ہم دنیا کا وہ ملک، قوم اور افواج ہیں جس نے دہشتگردی کا بھرپور مقابلہ کیا اور اس کے خاتمے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔دہشت گردی کے خلاف کیے گئے اقدامات سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کائنیٹک ڈومین میں 12سو سے زائد چھوٹے و بڑے آپریشن کیے گئے، ڈیڑھ لاکھ سے زائد خفیہ بنیادوں پر آپریشن کیے گئے، دہشت گردوں کی تربیت گاہوں اور مراکز کو تباہ کیا گیا، 17 ہزار دہشت گرد مارے گئے اور 450 ٹن سے بھی زیادہ بارودی مواد قبضے میں لیا گیا جبکہ بہت اہم قانون سازی بھی عمل میں لائی گئی۔انہوں نے کہا کہ ان آپریشن کے دوران ایک ہزار سے زائد القاعدہ کے دہشت گرد پکڑے یا مارے گئے، 70 سے زائد ممالک کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ کی اور کئی نیٹ ورکس کا خاتمہ کیا اور آپریشن ردالفساد اسی طویل جنگ کی حالیہ کڑی ہے جسے 3 سال مکمل ہوئے ہیں۔دہشت گردی کے خلاف آپریشن میں ہم نے اپنے ملک میں 46 ہزار مربع کلومیٹر رقبہ دہشت گردوں سے آزاد کروایا، ریاست کی رٹ بحال کی، آج وطن عزیر کا کوئی ایسا کونا نہیں جہاں پاکستان کا پرچم نہ لہرا رہا ہو، ہم نے اس کامیابی کی بہت بھاری قیمت ادا کی، 80 ہزار سے زائد قربانیاں دیں اور 180 ارب ڈالر کا معاشی نقصان برداشت کیا۔ڈی جی آئی ایس پی آرنے کہا کہ دہشت گردی سے سیاحت کا سفر انتہائی متاثر کن اور صبر آزما تھا، امن کی جانب اس سفر میں پوری قوم اور میڈیا نے دہشتگردوں کے نظریے کو شکست دینے میں اہم کردار ادار کیا، آج پاکستان میں کھیل کے میدان آباد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف جہاں ہمارے پڑوسی ملک میں مسلمان اور دیگر اقلیتیں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں وہیں پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل آزادی اور ترقی کے مواقع حاصل ہیں، جس کا اعتراف اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے دورہ کرتارپور میں بھی کیا۔میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ پاکستان نے ایک طویل سفر طے کیا، ہم نے اس مشکل سفر میں بہت کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں اور قربانیاں بھی دی ہیں، لہٰذا اگر پاکستان کی سلامتی اور علاقائی سالمیات کو چیلنج کیا گیا تو افواج پاکستان کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گی، ہماری صلاحیت اور عزم کو ‘ٹیسٹ’ نہ کیا جائے، ہم سب کی منزل ایک پرامن پاکستان ہے اور ہم اسی کی جانب گامزن ہیں۔دوران گفتگو سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ خطہ اور دنیا دو جوہری طاقتوں کے درمیان جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتیں کیونکہ اگر دو جوہری طاقتیں جنگ میں چلی جائیں تو اس کے نتائج کسی کے بھی قابو میں نہیں ہوں گے، اشتعال انگیزی پر کسی کا بھی کنٹرول نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک بھارتی قیادت کے حالیہ بیانات کی بات ہے تو ہم اپنی تیاری ارادوں پر نہیں بلکہ صلاحیت کے مطابق کرتے ہیں کیونکہ ارادے راتوں رات بدل سکتے ہیں لیکن صلاحیت اپنی جگہ پر موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارت کی تمام تر صلاحیت کر مرکز پاکستان ہے، ہم بھارت کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ہر وقت تیار ہیں، بھارت نے جب بھی کوئی ایسا قدم اٹھایا ہے تو ہم نے اس کا بھرپور جواب دیا ہے لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ کیا یہ خطہ جنگ کا متحمل ہو سکتا ہے اور اگر یہ دو طاقتیں جنگ کریں گی تو اس میں کس کا نقصان ہے، یہ دونوں کے لیے تباہی کا باعث ہو گا۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہماری کوشش یہی ہے کہ امن کا راستہ اپنایا جائے لیکن بدقسمتی سے جس قسم کے بیانات وہاں سے آرہے ہیں ہم انہیں بہت سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور اس کے لیے ہر قسم کا جواب تیار ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم مکمل طور پر تیار ہیں اور بھارت کی تمام دفاعی تیاریوں پر مکمل طور پر نظر رکھے ہوئے ہیں، بھارت اس وقت دنیا میں فوج پر اخراجات کرنے والے ملکوں میں پہلے تین ممالک میں آتا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کا دفاع مضبوط ہے اور ہم 100فیصد تیار ہیں۔بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوںنے کہاکہ بھارت نے اگر کبھی بھی کسی قسم کی جرات کی تو پاکستان کی مسلح افواج ہر طریقے سے تیار ہیں، ان کے اور ہمارے دفاعی بجٹ میں بہت فرق ہے لیکن آپ نے دیکھا ہو گا کہ پچھلے سال اسی بجٹ کے ساتھ ان کو کیا جواب ملا تھا، ہم اسی طرح ہر وقت تیار ہیں اور انشااللہ اپنے ملک پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوںنے کہاکہ مقبوضہ کشمیر کے حالات سے پوری دنیا واقف ہے اور وہاں کے عوام جس کرب سے گزر رہے ہیں اس کرب کا پورا احساس سب کو ہے اور ہمیں سب سے زیادہ ہے، اس سلسلے میں تمام تر آپشن میز پر موجود ہیں، ہمارے ملک کی قیادت نے ہر جگہ پر اس مسئلے کو اجاگر کیا ہے، مسئلہ کشمیر اب بھرپور بین الاقوامی توجہ کا مرکز بن چکا ہے، اس مسئلے کو بطور فلیش پوائنٹ دیکھا جا رہا ہے اور پوری دنیا میں اسے تسلیم کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کی جانب قدم بڑھ رہے ہیں لیکن ان کی رفتار وہ نہیں ہے جو ہونی چاہیے، مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے دنیا اسے دیکھ رہی ہے اور ہمارے ملک کی قیادت نے اس مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے بہترین کردار ادا کیا اور دنیا کو بتایا کہ اس کے کیا نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان ہر طرح سے تیار ہے اور اس بات کا فیصلہ ہماری حکومت نے کرنا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے آگے کیسے بڑھنا ہے لیکن جو ممکن ہو سکتا تھا وہ ہم کر چکے ہیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ افغان مفاہمتی عمل پر کرنا دفتر خارجہ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے لیکن میری معلومات کے مطابق افغان مفاہمتی عمل کسی بھی قسم کے تعطل کا شکار نہیں ہے اور جو معاہدہ ہونے جا رہا ہے اس کے بہت مثبت نتائج آئیں گے اور افغانستان میں امن کا پاکستان سے زیادہ کوئی بھی خواہاں نہیں ہو سکتا۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے واضح کیا کہ افغانستان سے تعلقات میں کوئی مسئلہ نہیں، ہمارے بہت دیرینہ اور اچھے تعلقات ہیں اور جہاں تک اس امن معاہدے کی بات ہے تو پاکستان نے اس معاہدے میں سہولت کردار ادا کرنے کے لیے اپنی بہترین کوشش کی، ہمارے اس کردار کو تمام فریقین کی جانب سے متفقہ طور پر تسلیم کیا گیا لہٰذا مجھے افغانستان سے تعلقات خراب ہونے کی کوئی وجہ نظر نہیں آ رہی۔انہوں نے کہا کہ پاک بھارت کشیدگی پر پوری عالمی برادری کا بہت واضح موقف ہے، حالیہ دورہ بھارت کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی خطے میں پاکستان کے کردار کو سراہا تو پوری عالمی برادری پاکستان کے موقف کو تسلیم کرتی ہے اور وہ صورتحال سے مکمل طور پر باخبر ہیں اور اپنے طور پر ہماری مدد بھی کر رہے ہیں۔

کروناکا خطرہ ،عمرہ زائرین پر پابندی ،ویزے منسوخ ،سعودیہ جانے والے 857مسافر جہازوں سے اُتار دئیے گئے

ووہان، بیجنگ، ویانا، بغداد، ماسکو، ٹوکیو، بخارسٹ، سیول، روم (نیٹ نیوز) نوول کرونا وائرس کے مرکز صوبہ ہوبے سے بدھ کے روز کرونا وبائی مرض کے 409نئے مصدقہ مریضوں اور 26نئی اموات کی اطلاعات ملی ہیں۔یہ بات صوبائی صحت کمیشن نے جمعرات کے روز بتائی ۔تازہ ترین رپورٹ کے مطا بق وائرس سے بری طرح متاثرہ صوبہ میں کل مصدقہ مریضوں کی تعداد 65ہزار 596 تک بڑھ گئی ہیں۔ چین کے محکمہ صحت نے جمعرات کے روز کہا ہے کہ نوول کروناوائرس سے متاثرہ مجموعی طور پر32ہزار495 مریضوں کو بدھ کے اختتام تک صحت یاب ہونے کے بعد ہسپتال سے فارغ کیا گیا ہے ۔قومی صحت کمیشن نے اپنے روزانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ بدھ کے روز 2750 افراد صحت یاب ہونے کے بعد ہسپتال سے فارغ ہوکر چلے گئے ۔بدھ کے اختتام تک چینی مین لینڈ کے 31 صوبائی سطح کے علاقوں سے مجموعی طور پر نوول کرونا وائرس کے 78 ہزار 497 مصدقہ کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ اس مرض سے مرنے والوں کی تعداد 2744 ہوگئی ہے ۔ برازیل کے محکمہ صحت نے ملک میں پہلے کرونا وائرس کے مریض کی تصدیق کردی ۔برازیل کے وزیرصحت لوئز مینڈیٹا نے ایک پریس کانفرنس کو بتایا کہ ایک 61 سالہ شخص کے کووڈ۔19 کے ٹیسٹ مثبت آئے ہیں جو کہ لا طینی امریکہ کا پہلا مصدقہ کیس بن گیا ۔ چین اور جمہوریہ کوریا کو کووڈ-19 وبائی مرض کے باہمی رابطوں سمیت معاشی و تجا رتی تعاون پر اثرات کو کم کر نے کیلئے مشترکہ کاوشیں کرنا ہو ں گی، یہ بات چین کے ریاستی قو نصلر اور وزیر خارجہ وانگ اِی نے بدھ کے روز کہی ہے۔ عراق میں نوول کرونا وائرس کے پھیلا کے خدشہ کے پیش نظر تمام اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو 7 مارچ تک بند کردیا گیا ہے ۔ اس بات کا اعلان عراقی وزیرصحت نے بدھ کے روز کیا ۔وزیرصحت جعفر صادق علوی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو بند کرنے کے ساتھ ساتھ سینما گھر ، کیفے ، کلبز اور دیگر عوامی اجتماعات کے مقامات کو 27 فروری سے 7 مارچ تک بند کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں ۔ عراقی حکام نجف اور کرکو ک صوبوں میں وبائی مرض کے 5 کیسز کی تصدیق کے بعد نوول کرونا وائرس کے پھیلا کو روکنے کے لئے بہت سارے حفاظتی اقدامات کررہے ہیں ۔ رومانیہ کے وزیر صحت وکٹر کوسٹاچے نے رومانیہ کے 20 سالہ نوجوان میں نوول کرونا وائرس کی تصدیق کی ہے۔ کرونا وائرس کی موجودگی کی وجہ سے جاپان میں جمعرات کو مسافروں سے خالی کرا لیے جانے کے بعد سیاحتی بحری جہاز کے عملے کو بھی قرنطینہ میں بھیج دیا گیا ہے۔ اس کشتی پر عملے کے دو سو چالیس اراکین کو بھی نکال لیا گیا ہے۔ اس کشتی پر سوار متعدد افراد میں کورونا وائرس کی تشخیص ہو چکی ہے۔ آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں اقوام متحدہ کے دفتر میں کورونا وائرس کا کیس سامنے آگیا۔ اقوام متحدہ کے دفتر میں مختلف ممالک کے تقریباً 5 ہزار لوگ کام کرتے ہیں۔برازیل، ناروے اور جارجیا میں کورونا وائرس کے پہلے کیس رپورٹ ہو گئے ہیں جبکہ کویت میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 25 اور بحرین میں 26 ہوگئی۔ ایران میں حکام نے کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی اندرون ملک نقل و حرکت کی آزادی پر پابندیاں لگانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ پابندی ا±ن افراد پر بھی لاگو ہو گی جن کے اس وائرس سے متاثر ہونے کا شبہ ہے۔ اسی طرح مذہبی مقامات کے حامل شہر بالخصوص ق±م میں قیود عائد کی گئی ہیں اور یہاں عارضی طور پر نماز جمعہ کے اجتماعات روک دیے گئے۔ جاپان میں کرونا وائرس سے متعلق منفرد کیس سامنے آ گیا۔ ایک ہی خاتون میں وائرس کی دوسری مرتبہ تصدیق کی گئی ہے۔ کرونا وائرس پھیلنے کے خدشے کے باعث سعودی عرب نے عمرہ اور مسجد نبوی کی زیارت کے لیے آنے والوں کے لیے داخلہ عارضی طور پر بند کر دیا ہے۔ وائرس پھیلنے کے خدشات کے حامل ممالک کے شہریوں کے سیاحتی ویزا پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ ایران میں بھی کرونا کے خدشے کی وجہ سے مشہد اور قم شہر جانے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ جنوبی کوریا میں کرونا سے تیرہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔اٹلی میں کرونا سے 12 افراد ہلاک ہوئے جبکہ 400 نئے کیس سامنے آئے ہیں۔ دنیا بھرکے چالیس ممالک میں 88ہزار افراد کرونا کا شکار ہو چکے ہیں۔