تازہ تر ین

مقدمہ جھوٹا ،تفتیش نہ بیان ریکارڈ ،مستقبل ن لیگ کا ،مریم ،حمزہ ،باہر نکلے تو لوگ بینظیر بھٹو کا استقبال بھول جائینگے ،رانا ثناءاللہ سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناءاللہ چیف ایڈیٹر خبریں ضیا شاہد کے ساتھ گفتگو

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) رہنما مسلم لیگ ن رانا ثناءاللہ نے کہا ہے کہ مجھ پر منشیات کا جھوٹا مقدمہ بنایا گیا۔ پہلے مجھے ماڈل ٹاﺅن کیس میں پھنچانے کی کوشش ہوئی، پھر نیب کو سامنے لیا گیا، کچھ نہ نکلا تو منشیات کا جھوٹا مقدمہ بنا دیا گیا یہ سیاسی انتقام کی بدترین مثال ہے۔ انہوں نے کہا مستقبل مسلم لیگ ن کا ہے اور پارٹی میں دھڑے بندی کی بات مخالف پھیلا رہے ہیں۔ ہمارے قائد شہباز شریف ہم سب ورکر ہیں۔ پارٹی متحد ہے اور جب بھی الیکشن ہوا تو مریم نواز اور حمزہ شہباز جب سڑکوں پر نکلیں گے تو لوگ بے نظیر بھٹو کے استقبال کو بھول جائیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے چینل ۵ کے پروگرام ضیا شاہد کے ساتھ میں خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کیا جو سوالاً جواباً پیش خدمت ہے:
ضیا شاہد:مجھے کوئی کہہ رہا تھا کہ رانا صاحب پر جو ڈرگ سمگلنگ کا الزام لگا اس سلسلے میں جو یقینی طور پر ماڈل ٹاﺅن کے جو 14 شہدا ہیں ان کے گھر والوںکی دعائیں تھیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ واقعہ رانا ثناءاللہ صاحب کی وجہ سے ہوا تھا۔ رانا صاحب آج مشکل اور ابتلاءسے گزرے ہیں بذریعہ عدالت رہائی پر آپ کو مبارک پیش کرتا ہوں لیکن یہ بتایئے جب یہ خبریںچھپی تھیں تب بھی یقین نہیں آتا تھا باقی کوئی الزام ہوتا کوئی مالی بدعنوانی، کرپشن کا الزام ہوتا تو شاید تسلیم کر لیا جاتا لیکن آپ پورا کیریئر سیاسی ورکر ہے اس میں ڈرگ کا دور دراز تک معاملہ کیسے آ سکتا۔ یہ کیسے ہو گیا اس کے لئے اب آپ نے کیا حکمت عملی اختیار کی ہے عدالتوں سے کیا طلب کیا ہے آپ کے ساتھ جو زیادتی ہوئی اور اس پر آپ کیا قانونی کارروائی کر رہے ہیں۔
رانا ثناءاللہ: میں آپ کے پاس حاضر ہونا چاہتا تھا۔ آپ ساری زندگی سیاست میں نہ سہی صحافت میں ایک جدوجہد کی علامت رہے ہیں۔ ماصی میں پاکستان میں جتنے بھی ادوار گزرے ہیں جن میں سیاسی حکومتیں یا آمریت پر مبنی حکومت اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف گھٹیا ترین اور بدترین سیاسی انتقام کے لئے حربے اختیار کرتی رہی ہیں آپ اس ساری تاریخ کے گواہ ہیں اوراب بھی شاید اس کی مثال پہلے اس حد تک موجود نہ ہو کوئی چھوٹے موٹے کیسز بنائے جاتے رہے ہیں کہ کتنا سنگین کیس سیاسی طور پر بدترین سیاسی انتقام بنانے کے لئے میرے خلاف بنایا گیا۔ ہوا یہ کہ ماڈل ٹاﺅن کے کیس میں سب سے پہلے کوشش کی کہ اس میں ملوث کیا جائے لیکن پروپیگنڈا اور چیز ہے حقیقت اور چیز ہے۔ پروپیگنڈا جو ہے مرصی کرتا رہے لیکن معاملہ حقیقت پر آئے گا پھر تو حقیقت ہی سامنے آئے گی۔ ماڈل ٹاﺅن کیس میں جو اس وقت مقدمہ ہے جو استغاثہ ہے مدعی تھا وہ تقریباً 126 لوگوں کے خلاف زیر سماعت ہے اس پر اوپر دو انکوائریاں یا انویسٹی گیشن ہمارے دور میں ہوئیں اس کے بعد ایک انکوائری اب ہوئی تو جب اس میں کوئی بات نہیں بن پڑی تو پھر اس کے بعد نیب کو سامنے لایا گیا نیب نے پہلا کام جو ہے بھرپور اپنی کوشش کی کوئی چیز نہ ملی تو اس کے ہم پھر ایک حربہ ان کے پاس رہ گیا تھا کہ اپنے گودام سے ڈرگ نکالیں اور نکال کے وہ کہیں کہ یہ برآمد ہوئی ہے کیس بنایا گیا اس میں نہ صرف میرے حمایتی یا جاننے والوں نے تسلیم نہیں بلکہ جو برے بدترین مخالف جو ہیں انہوں نے بھی اس بات کو تسلیم نہیں کیا کہ اس بات میں کوئی حقیقت، یہ ایک اوپن سیکرٹ ہے کہ ایک جھوٹا بے بنیاد کیس ساسی انتقام کے نقطہ نظر سے بنایا گیا ہے اس پر میرا موقف سب سے پہلے تو یہ ہے کہ پہلے دیکھیں جب ایک کیس درج ہوتا ہے ایف آئی آر درج ہوتی ہے سب سے پہلے اس کی انویسٹی گیشن ہوتی ہے اس سے اگلا مرحلہ ٹرائل کا ہوتا ہے یہ وہ کیس ہے جس میں انویسٹی گیشن ہی نہیں ہوئی یعنی ایف آئی آر درج ہوئی اور اگلے دن ڈی جی ایف اور انچارج منسٹر شہریار آفریدی نے جناب پریس کانفرنس کر دی کہ بالکل درست کیس ہے اس کی ویڈیو ہمارے پاس ہے۔ رانا صاحب تو خود بیگ سے نکال کر ڈرگ پیش کر رہے ہیں ہیروئن۔ یہ تو بالکل صحیح کیس ہے آپ مجھے بتائیں کہ ایک انچارج منسٹر اور ڈی جی این ایف بیٹھ کر یہ پریس کانفرنس کریں گے تو اس ایف آئی آر میں کون انویسٹی گیشن کرے گا ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی یہ جرا¿ت ہے کہ وہ کوئی انویسٹی گیشن کرے۔ اس میں میرا بیان ریکارڈ کرے اس میں جو ہے وہ ڈیفنس کی طرف سے یا پراسیکیوشن کی طرف سے کوئی شہادت ریکارڈ کرے۔ انہوں نے مجھے اگلے دن عدالت میں پیش کیا اور جیل بھیج دیا۔کوئی میرے ساتھ انویسٹی گیشن آفیسر کی گفتگو تک نہیں ہوئی۔ میں نے ان کو کہا کہ آپ اتنی بڑی ویڈیو کی بات کر رہے ہیں آپ انویسٹی گیشن کو میرے آمنے سامنے بیٹھا دکھا دیں۔ کوئی انویسٹی گیشن کوئی گفتگو نہیں ہوئی میرا بیان تک ریکارڈ نہیں ہوا۔ اس لئے میں نے آن فلو آف دی ہاﺅس بھی یہ موقف احتیار کیا کہ اس میں تفتیش تو پہلے کریں اب آپ کہتے ہیں آپ عدالت میں جائیں اور انصاف ڈھونڈیں کس قدالت میں جاﺅں وہی عدالت وہی سپیشل کورٹ جس میں ضمانت کی درخواست لگی تھی اور شک پڑا حکومت کو کہ اب یہ ضمانت کہیں پر نہ جائے تو آپ 25 منٹ میں اس جج کو واٹس ایب کے اوپر 25 منٹ میں تبدیل کر دیا۔ وہاں سے میں انصاف ڈھونڈوں۔ مجھے جج صاحب کی ذات پر جو پہلے جج صاحب تھے جنہوں نے میری ضمانت کی سماعت کی اور اس سماعت کے دوران شاید پراسیکیوشن کو پتہ چلا کہ رانا ثناءاللہ کی یہ ضمانت لے نہ لیں تو انہوں نے آدھے گھنٹے کا ٹائم مانگا اور 25 منٹ کے بعد ان کو لیٹر تھما دیا اور واٹس ایپ پر میسج دے دیا کہ آپ اٹھیں آپ گھر جائیں۔ مجھے اب جج ہیں شاکر حسن صاحب مجھے ان کی دیانتداری پر مجھے کوئی شک ہے یا میں کوئی سوال اٹھاتا ہوں۔ لیکن سپیشل کورٹس کی ترتیب یہ ہے کہ جب چاہے حکومت واٹس ایپ پر 10 منٹ میں فارغ کر دے۔ تو وہاںسے میں انصاف مانگوں۔ کیوں نہ اس کیس میں ایک ایسی کمیٹی وہ پارلیمانی ہو وہ جوڈیشل ہو وہ ایگزیکٹو ہو میں نے تو یہاں تک کہا کہ آپ کینٹ کی کمیٹی بنا دیں وہ فیکٹ فائنڈنگ کرے۔ پتہ تو کرے یہ ہوا کیا ہے۔ جنہوں نے بدترین سیاسی انتقام اور بلنڈر کیا ہے۔ یہ میری کوشش ہے عدلیہ سے پاس یہی کوشش ہے اور باقی بھی جتنے ادارے ہیں ہیومن رائٹس کے ان سب کو میں نے پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین عابد ساقی صاحب کو میں نے تحریری درخواست کی میں نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بھی لکھا۔ انٹر پارلیمنٹ یونین ہے ان کو بھی لکھا۔ صحافی تنظیموں کو میں نے کہا ہے کہ ایک فرد ایک فرد کے خلاف جھوٹا مقدمہ کرا سکتا ہے تو مقابلہ ہو سکتا ہے لیکن اگر ریاست خود ایک فرد واحد کے خلاف مدعی بن کے کھڑی ہو جائے اور اس ادارے کا سربراہ اور ساتھ انچارج منسٹر جو بیٹھ کر پریس کانفرنس کر دیں کہ یہ بالکل سچ ہے کہ پھر اس میں کیا انصاف ہو گا۔ میں پوری سٹرگل کر رہا ہوں اپنی ذات کے لئے نہیں کر رہا۔ اب میری ضمانت ہو گئی ہے۔ یہ راستہ رکھنا چاہئے۔
سوال:جو الزام انہوں نے لگایا اس کی تو آپ تردید کرتے ہیں اس فیصلے سے ہی تردید ثابت ہو گئی ہے لیکن شیخ رشید کا دو دن پہلے انٹرویو کیا ان سے بات ہو رہی تھی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اے این ایف کا جو متعلقہ سیکشن ہے وہ بہت ذمہ دار لوگ ہیں اور ایک افسر کا تو کیریئر خراب ہو گیا رانا ثناءاللہ صاحب کی وجہ سے۔ رانا صاحب کا مسئلہ مس ہینڈل ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ کس طرح سے مس ہینڈل ہوا ہے جو الزامات لگائے گئے تھے اس وقت کہا گیا تھا کہ اس کی ویڈیو موجود ہیں ثبوت ہیں بعض میں چیزیں تو کوئی ثبوت تو سامنے نہیں آئے۔ اس کے باوجود سارا قصہ گھڑا گیا اس کا مقصد کیا تھا۔ کیا آپ کے خلاف کوئی اور کیس کرپشن مالی بدعنوانی کا یا سرکاری اختیارات سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا سو کیس نکل سکتے تھے؟
جواب: جو بشیر میمن صاحب تھے میں سمجھتا ہوں کہ بالواسطہ ان پر بھی ذمہ داری آتی ہے کہ ان کو وزیراعظم عمران خان ایک سال کہتے رہے کہ رانا ثناءاللہ کے خلاف کچھ نہ کچھ نہ نکالو وہ یہی کہتے رہے ہاں نکال رہے ہیں ہاں نکال رہے ہیں۔ لیکن اگر کوئی سچ نہیں نکلتا تھا تو کوئی جھوٹ موٹ ہی نکال دیتے۔ تو جب کوئی مقدمہ نہیں مل سکا تو پھر یہ بڑا آسان ہے کہ آپ گودام سے کوئی چیز پکڑیں اور کہہ دیں کہ رانا ثناءاللہ کی گاڑی میں سے برآمد ہوئی ہے۔
سوال: انہوں نے کوئی چیز برآمد کی آپ سے؟
جواب: انہوں نے میرے ساتھ بات تک نہیں کی۔ مجھے ٹول پلازہ سے گاڑی روکی۔ میری گاڑی سے ڈرائیور کو نکالا خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے 3 لوگ اور میرے ساتھ بیٹھے اور ایک دو منٹ کے اندر گاڑی وہاں سے بھگا دی۔ تھانے میں لے آئے تھانے میں 16 گھنٹے رہا ہوں۔ 16 گھنٹے میرے ساتھ گفتگو تک نہیں کی۔ مجھے یہ بھی نہیں بتایا کہ ہم آپ کے اوپر یہ کیس ڈال رہے ہیں۔ برآمدگی کرنا تو دور کی بات ہے میرے پورے کیس کی ویڈیو سنی گرفتاری لے کر تھانے میں میرا جتنا ٹائم گزرا پورے کی ویڈیو نہیں کیونکر سنائی ہے انہوں نے کیونکہ ہائی پروفائل گرفتاری تھی تو سمجھتے تھے کہ کچھ ہو نہ جائے بعد میں ہمارے لئے بڑا مسئلہ بنے گا لیکن وہ ویڈیو ان کے موقف کی تائید نہیں کرتی۔ یہ کہتے ہیں برآمدگی ہوئی ویڈیو بتائے گی کچھ برآمد نہیں ہوا۔ اب ایسی کوشش نہیں کر رہے اگر ویڈیو میرے خلاف ہوتی تو پیش کر دیتے۔ حق میں کوششیں نہیں کر رہے۔ میں عدالت سے بھی استدعا کر رہا ہوں کہ اسے پیش کروائیں یا بیان حلفی دیں کہ ہم نے کوئی ریڈیو نہیں بنائی۔
سوال: اب عدالت میں معاملہ کہاں تک ہے۔
جواب: یہی سپیشل نارکوٹکس کورٹ ہے اس کا تو میں نے بتا دیا وہاں گورنمنٹ کلیئرنس کے بعد جج لگاتی ہے اور اس کے بعد ان جج صاحب سے حکومت ناراض ہے۔ یا حکومت یہ چاہے کہ یہ کیس نہ سنے۔ جو فیصلہ کرنے جا رہے ہیں نہ کریں تو 20 منٹ چاہے حکومت کو اس کو گھر بھیجنے میں۔ وہاں کوئی دیانتدار سے فیصلہ کرنے پر مصر ہو کر یا سٹینڈ کر کے اپنے لئے مشکلات پیدا کر سکتا۔ اور کچھ نہیں کر سکتا۔
سوال: آپ کو رہائی کس عدالت سے ملی۔
جواب: وہ تو ہائی کورٹ سے ملی۔ ٹرائل کورٹ سے ممکن نہیں ہے پہلے جج ارشد مسعود تھے جو غیر جانبدار جج تھے ان کو انہوں نے دبایا کہ جی آپ ضمانت مسترد کر دیں انہوں نے یہ نہیں کہا کہ میں ضمانت مسترد نہیں کروں گا انہوں نے کہا میں میرٹ پر فیصلہ کروں گا ان کو شک پڑ گیا تو انہوں نے ان کو ری ہسٹری ایٹ کر دیا۔ در بدر کر دیا۔ اس طرح اگر حکومت اپنے مخالفین کے خلاف کیس بنائے گی۔ اب شیخ رشید صاحب کہہ رہے ہیں کہ مس ہینڈل ہوا ہے تو میں ان سے پوچھنا چاہوں گا کہ کیا کلاشنکوف والا کیس مس ہینڈل نہیں ہوا تھا۔ اور وہ جج جو سزا کا فیصلہ لکھ کر گورنر صاحب کو دکھانے کے لئے آیا تھا کہ یعنی میں یہ سزا دے رہا ہوں شیخ رشید صاحب کو اور کوئی بات کرے نہ کرے شیخ رشید کو اس کیس میں بات کرنی چاہئے تھی۔
سوال: اے این ایف کی ساکھ تو بہت اچھی ہے۔
جواب: یہ ملزم کو پکڑتے ہی نہیں۔ اے این ایف جو میں نے قریب سے دیکھا ہے یہ صرف ملزم کے کارندوں کو پکڑتے ہیں۔ وہ سمگلر جو نارکوٹکس میں کام کرتا ہے۔ وہ بیٹھا ہوتا ہے مگر کارندوں کا چالان کر دیتے ہیں وہ آگے جا کر اقبال جرم کر لیتے ہیں ان کو چھوٹی موٹی سزا ہو جاتی ہے جو کام کرنے والا ہے وہ گھروں میں بیٹھے ہیں۔ اصل منصوبوں کو پکڑے تو منشیات کی بیماری اس ملک میں اس طرح سرائیت کرتی۔
انہوں نے کہا یہ بہت بڑا نیٹ ورک ہے اس کو رانا صاحب چلا رہے ہیں۔ ہیروئن افغانستان سے آتی ہے وہ چلی جاتی ہے فیصل آباد۔ ہیروئن اتنی سمجھدار ہے کہ لاہور آنے کی بجائے فیصل آباد چلی جاتی ہے اور رانا صاحب اپنی گاڑی رکھ کر اسے لاہور پہنچاتے ہیں۔ میں 6 ماہ جیل میں رہا ہوں انہوں نے اس دوران متلی ممبرز کے علاوہ کوئی بندے ملے۔ نہیں وہاں کہاں ہیں وہ کارندے۔ صرف زبانی کلامی بات کر کے کردار کشی کی گئی۔ اس ماحول میں میڈیا اپنا رول کر رہا ہے۔ عدالتیں بھی اس کو کردار ادا کروا رہی ہیں لیکن میڈیا جو حالت انہوں نے کر دی جس طرح سے ان کو پابند کیا گیا ہے جس طرح سے لوگوں کو بے روزگار کیا گیا ہے اس کی جتنی صحافت ہے وہ کام کر رہا ہے۔
س:بیریئرز یا رکاوٹیں تو شہر میں جگہ جگہ نظر آتی ہیں ڈاکٹر طاہر القادری سے لیگی حکومت یاآپ کی مخالفت تھی؟
ج:طاہر القادری کے حملے کے لوگوں نے بیریئرز بارے شکایت کی تھی جس پر ڈسٹرکٹ مینجمنٹ نے کارروائی کی اور رپورٹ لی کہ رکاوٹیں ہٹائی جائیں۔ اجلاس میں میرے سمیت چیف سیکرٹری‘ ہوم سیکرٹری‘ آئی جی اور ایجنسیوں کے لوگ شامل تھے۔ اس کیس کو خاص اہمیت نہیں د ی گئی۔ اہمیت اسے جگڑے کی وجہ سے ہیں۔ پولیس رکاوٹیں ہٹانے گئی تو مزاحمت کی گئی۔ ہائی کورٹ کی طرف سے بیریئر لگانے کی کوئی اجازت نہ تھی اس بارے میں بھی جھوٹ بولا گیا۔ مزاحمت کے دوران لڑائی ہوئی جس میں دونوں فریق کے لوگ زخمی ہوئے اور ہلاکتیں ہوئیں۔
س:شہبازشریف کہتے ہیں وہ واقعہ کا 2 بجے تک پتہ نہ چلا جبکہ سارا میڈیا لائیو کوریج کر رہا تھا۔ سیاستدان بدمعاشوں کو پالتے ہیں جس کی مثال گلو بٹ کی شکل میں نظر آئی؟
ج:گلو بٹ کا ن لیگ سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ شہبازشریف سے اس کی کبھی ملاقات نہیں ہوئی سب کہانیاں ہیں۔
س:ایسا تھا تو پولیس افسر گلو بٹ کو شاباش کیوں دے رہے تھے؟ واقعہ کیا تھا بعد میں کیا ہوا؟
ج:پولیس کا اپنا موقف ہے کہ وہ واقعہ پہلے کا تھا جس بعد میں دکھایا گیا۔ پولیس کا کارکنوں سے تصادم ہوا جو دوطرفہ تھا۔ عوامی تحریک نے تحقیقات اور شہادتیں اکٹھی نہ کرنے دیں۔ جے یو آئی بنی تو اس سے بھی تعاون نہ کیا۔ ان دنوں اسلام آباد‘ لانگ مارچ پروگرام بن رہا تھا اس لئے ساری سیاسی کہانی بنائی گئی۔ واقعہ کی تحقیقات میں ہمیں بے گناہ قرار دیا گیا۔ عدالت میں پولیس اور عوامی تحریک کے ورکرز کیخلاف چالان پیش ہوا۔ ڈیڑھ سال بعد استغاثہ لے آئے کہ اس کی سماعت کریں شہادتیں پیش کریں گے۔ اگلے ڈیڑھ سال شہادتیں قلم بند کراتے رہے جس کے نتیجہ میں دہشت گردی عدالت نے 126 افراد کو طلب کیا۔ اس وقت بھی استغاثہ چل رہا ہے اور یہ اگر شہادتیں پیش کر رہے ہیں جن 15 افراد کیخلاف الزام لگایا گیا اس بارے عدالت نے کہا ایسی کوئی سازش نہیں ہوئی پھر یہ اگر ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ گئے دونوں بڑی عدالتوںنے فیصلہ برقرار رکھا۔
س:ن لیگ اور تحریک انصاف کے قائدین میں سخت مخالفت ہے۔ شیخ رشید کہتے ہیں کہ ا صل اپوزیشن مہنگائی ہے لوگ نالاں ہیں مگر نفرت نہیں کرتے۔ کرپشن کے بڑے بڑے الزامات لگائے گئے۔ لوگ پکڑے گئے مگر کوئی ریکوری نہ ہوسکی نہ توقع نظر آتی‘آپ کیا کہتے ہیں؟
ج: تحریک انصاف نے کرپشن اور ریکوری کا جھوٹا بیانیہ بنایا‘ نوازشریف پر کون سی کرپشن ثابت ہوئی سوائے اس بات کے وہ لندن فلیٹس کی منی ٹریل نہیں دے سکے۔ نوازشریف کسی ریڑھی بان کے بیٹے نہیں تھے ان کے والد کی انڈسٹری تھی۔ جہاں ہزارں مزدور کام کرتے تھے۔ نواز دور میں پندرہ بیس ہزار ارب کے ترقیاتی کام ہوئے۔ کسی ایک منصوبہ میں کرپشن ثابت نہ ہوئی صرف جھوٹا پراپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ شہبازشریف نے پنجاب میں 10 سال حکومت کی۔ ایک روپے کی کرپشن ثابت نہ ہوسکی۔ ان پر کمپنیاں بنا کر افسروں کو بھاری تنخواہیں دینے کا الزام لگاتے ہیں تو اب کیوں 30,30 لاکھ روپے تنخواہیں دی جارہی ہیں۔ ان کی بنائی کمپنیاں بہترین کام کر رہی تھیں۔ ہماری درخواست پر بیرون ممالک سے ماہرین بھاری مشاہرے چھوڑ کو یہاں آئے انہیں بھی نہ بخشا گیا۔ کڈنی سنٹر کو مکمل نہ ہونے دیا جہاں غریبوں کا مفت میں ٹرانسپلانٹ ہونا تھے۔فرانزک لیبارٹری بنائی جو دنیا کی دوسری بڑی لیبارٹری ہے۔
س:شہبازشریف کے بیٹوں کے اثاثوں میں چند سال میں 700 گنا اضافہ کیسے ہوگیا؟
ج:سب جھوٹا پرواپیگنڈا کیا گیا۔ شریف خاندان کی فیکٹریاں اور ملز آج کی تو نہیں ہیں۔ قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی گئی۔ احد چیمہ جس نے 11 ماہ میں میٹرو بنا دی دو سال جیل میں رکھا گیا کچھ ثابت نہ ہوا۔ فواد حسن فواد کو دو سال بند رکھا کچھ ثابت نہ ہوا۔ حکومت کا سارا پراپیگنڈا جھوٹ پر مبنی ہے۔ اب کچھ لوگوں کی آنکھیں کھل رہی ہیں مگر ملکی معیشت اور اداروں کا بیڑہ غرق ہوچکا۔ حکومت نے سیاسی رواداری ختم کر دی ہے صرف دشمنی باقی رہ گئی ہے۔
س: موجودہ حکمران کہتے ہیں کہ ن لیگ پیپلز پارٹی نے اتنے قرضے لئے کہ ملک ڈیفالٹ ہورہا تھا جسے بچایا ہے ڈالر کا ریٹ اوقر گیا ڈار نے کیا نسخہ استعمال کیا کہ ڈالر ریٹ نہ بڑھنے دیا؟
ج:اسحاق ڈار کا نسخہ یہ تھا کہ ہمارے پاس اے ٹی ایمز نہیں تھیں‘ حکومت کی اے ٹی ایمز نے خود ڈالر خریدا مہنگا کیا اور اربوں روپے کمائے۔ حالیہ واردات یہ کی کہ گندم‘ چینی بحران پیدا کرکے عوام کی جیب سے 100 سے 200 ارب روپے نکلوالئے۔ عوام کو کنفیوزڈ کرنے کیلئے جھوٹ بولتے ہیں۔ ہم نے 5 سال میں 10 ہزار ارب قرض لیا جسے کرپشن کہتے ہیں تو تحریک انصاف حکومت نے تو ڈیڑھ سال میں 10 ہزار ارب قرض لیا۔
س:نوازشریف علاج کیلئے لندن گئے ہسپتال داخل نہ ہوئے بضد ہیں کہ بیٹی کو بھی باہر بھجوایا جائے تو آپریشن کراﺅں گا۔ پنجاب حکومت نے ان کی رپورٹ مسترد کر دی۔ کیا بیماری پر بھی سیاست ہورہی ہے؟
ج: کسی بھی شخص یک بیماری پر سیاست کرنا انتہائی گھٹیا عمل ہے۔ یہ بیمار والد کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے بچے پاس ہوں۔ مریم نواز کی سزا معطل ہے وہ قانونی طور پر آزاد ہیں انہیں باہر جانے کی اجازت دینی چاہیے۔ ہزاروں لوگ ہیں جن کی سزا معطل ہے اور وہ بیرون ملک کاروبار کیلئے آتے جاتے ہیں۔ مریم نواز کو باہر جانے سے روکنا بدترین سیاسی انتقال ہے۔ نوازشریف کی رپورٹس نارمل تھیں تو بیرون ملک کیوں بھیجا گیا۔ ان کی رپورٹس کو تو شوکت خام کے ڈاکٹرز سے بھی چیک کرایا گیا تھا۔ نوازشریف کا دوبار دل کا بائی پاس ہوچکا ہے اب ان کے ڈاکٹرز کی مرضی ہے کہ کب آپریشن ہونا چاہیے یہ طے کرنا پنجاب حکومت یا بورڈ کا مسئلہ نہیں ہے۔
س:ن لیگ اب پنجاب تک محدود نظر آتی ہے اس کا کیا مستقبل دیکھتے ہیں؟
ج:ن لیگ کا مستقبل روشن اور شاندار ہے کیونکہ اس نے ملک کو ایٹمی طاقت بنای۔ بجلی کے کارخانے لگائے‘ میٹرو ‘ موٹرویز اور سی پیک دیا۔ شہبازشریف پارٹی کو لیڈ کر رہے ہیں سب کو ان پر اعتماد ہے۔ جب بھی الیکشن آیا یا سیاسی تحریک چلی۔ مریم اور حمزہ باہر نکلیں گے تو ایسا استقبال ہوگا کہ لوگ محترمہ بینظیر بھٹو کا استقبال بھول جائیں گے۔
س:نیب کی خبریں میڈیا پر چلتی ہیں کہ شہبازشریف خاندان نے اتنی منی لانڈرنگ کی جب رہنا ملک میں ہے تو اتنا پیسہ باہر کیوں بھیجا گیا؟
ج:شہبازشریف فیملی نے ایک پیسہ بھی باہر نہیں بھیجا۔ نیب کے الزامات جھوٹ پر مبنی ہیں۔ شریف خاندان نے کبھی منی لانڈرنگ نہیں کی ہمیشہ پیسے باہر سے پاکستان منگوائے ہیں۔ حمزہ شہباز پر بھی الزام ہے کہ ٹی ٹی کے ذریعے 18 کروڑ روپے اپنے اکاﺅنٹ میں منگوائے یعنی پیسہ باہر نہیں بھجوایا بلکہ پاکستان منگوایا ہے۔ ڈرا دھمکا کر لوگوں سے اعترافی بیان لئے جاتے ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
س:کہا جاتا ہے ن لیگ دو دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ شہبازشریف اور مریم نواز کے الگ الگ دھڑے ہیں دونوں وزیراعظم بننا چاہتے ہیں آپ کس کے ساتھ ہیں؟
ج:پارٹی قائد شہبازشریف ہیں‘ مریم نواز اور مجھ سمیت باقی سب کارکن ہیں۔ الیکشن یمں پارٹی کو اکثریت ملی تو نوازشریف فیصلہ کریں گے جس کے سر پر ہاتھ رکھیں گے وہ وزیر اعظم بنے گا۔ وہ شہبازشریف ہوں‘ مریم ہوں یا حمزہ یہ اصل فیصلہ نوازشریف کا ہوگا جس کو جو ذمہ داری ملے گی پوری کرے گا سب ان کے ساتھ چلیں گے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv