ن لیگ نے پی ٹی آئی کی بڑی وکٹ گرا دی ، ساتھ ہی ٹکٹ بھی جاری کر دیا

جھنگ (ویب ڈیسک)پاکستان تحریک انصاف کے ضلعی سینئر نائب صدر آصف علی ڈھڈی نے ن لیگ میں شمولیت کا اعلان کر دیاہے۔تفصیلات کے مطابق ن لیگ نے جھنگ کے حلقہ پی پی 126 سے آصف علی ڈھڈی کو ٹکٹ بھی جاری کر دیاہے۔ واضح رہے کہ 25 جولائی کو عام انتخابات ہونے جارہے ہیں اور اس حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے امیدواروں کو ٹکٹیں جاری کر دیں جبکہ الیکشن مہم کا آغاز کر دیا گیاہے۔

پریانکا چوپڑا چوتھی بار دنیا کی پرکشش ترین خاتون قرار

ممبئی( ویب ڈیسک )بالی وڈ اداکارہ پریانکا چوپڑا کو جریدے ‘میگزم’ نے چوتھی مرتبہ دنیا کی پرکشش ترین خاتون قرار دے دیا۔پریانکا چوپڑا نہ صرف بالی وڈ میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھا رہی ہیں بلکہ انہوں نے ہالی وڈ میں بھی امریکن ٹی وی سیریز کوائنٹکو کے ذریعے اپنی کامیابی کا لوہا منوالیا ہے۔بین الاقوامی جریدے میگزم کی ہاٹ 100 فہرست میں پریانکا چوتھی بار بھی اپنی جگہ بنانے میں کامیاب رہیں، جس میں انہیں دنیا کی سب سے پرکشش خاتون قرار دیا ہے۔اس سے قبل 2011، 2013 اور 2016 کی فہرست میں بھی پریانکا کا نام شامل تھا۔میگزم میگزین کے خصوصی شمارے کے سرورق پر بھی پریانکا منفرد انداز میں جلوے بکھیرتی نظر آرہی ہیں۔

نابینا امام مسجد کی بیوی سے اجتماعی زیادتی ، ویڈیو ، تصاویر بنا لیں ، متاثرہ نے ” خبریں ہیلپ لائن “ سے مدد مانگ لی

پتوکی (تحصیل رپورٹر) پتوکی کے نواحی گاﺅں داﺅ کے چک9میں مسجد کے نابینا امام مسجد کی بیوی 6بچوں کی ماں سے چارافراد کا گینگ ریپ ۔ ملزمان نے بلیک میل کرنے کیلئے ویڈیو اور تصاویر بھی بنا لیں ۔مقدمہ درج۔تفصیلات کے مطابق تھانہ صدر کے علاقے داﺅ کے میں نابینا امام مسجد مولوی عمر کی بیوی اپنی بھتیجی کے گھر جارہی تھی کہ جب وہ دکان کے قریب پہنچی تو مسلح ملزمان عبدالحمید ، محمد صدیق ،شکیل اور اسکے نامعلوم ساتھی نے روک لیا۔مزاحمت اور انکار پر ملزمان نے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں اور کہا کہ وہ تجھے گولی مار کر دفن کر دیں گے ملزمان خاتون کو اٹھا کر قریبی حویلی میں لے گئے وہاں لے جاکر ملزم عبدالحمید ، محمد صدیق ، شکیل نے زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا جبکہ ان کا ایک نامعلوم ساتھی تصویریں اور مووی بناتا رہا ۔ملزمان نے گینگ ریپ کا شکار ہونے والی خاتون کو دھمکی دی کہ اگر شور مچایا یا اگر کسی کو بتایا تو پورے گاﺅں میں تمہاری تصویریں اور موووی دکھا دیں گے تم کہیں بھی منہ دکھانے کے قابل نہ رہو گی اور جب تمہیں ہم بلائیں گے تمہیں آنا پڑے گا ملزمان نے اگلے روز پھر روکنے کی کوشش کی اس کے انکار پر ملزمان نے پورے گاﺅں میں امام مسجد کی بیوی کی تصویریں اور مووی پوری گاﺅں کو دکھا دی ۔خاتون اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کی داستان لیکر تھانہ صدر پتوکی پہنچ گئی پولیس نے خاتون کی تحریری درخواست پر چاروں ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے ۔نابینا امام مسجد کی بیوی نے چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی ہے کہ میرے ساتھ درندگی کا کھیل کھیلنے والے ملزمان کو جلد ازجلد گرفتار کر کے انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں درندوں نے میری زندگی برباد کر دی اب وہ مجھے مقدمات کی پیروی سے روکنے کیلئے سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہے ہیں لہذا حکومت مجھے فوری تحفظ فراہم کرے۔

پنجاب بھر میں ایک ماہ کیلئے دفعہ 144 نافذ کردی گئی

لاہور (ویب ڈیسک)پنجاب حکومت نے صوبے بھر ایک ماہ کیلئے دفعہ 144 نافذ کر دی،صوبے میں وال چاکنگ، اسلحے کی نمائش، لاوڈ سپیکر کے غیر ضروری استعمال اور پٹاخے چلانے پر 28 جولائی تک پابندی ہو گی۔پولنگ سٹیشنز پر 5 سے زائد افراد کے اکٹھے ہونے پر پابندی ہو گی اور الیکشن آفس کے باہر جشن بھی نہیں منایا جا سکے گا۔نگران وزارت داخلہ کے نوٹیفکیشن کے مطابق ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر کارروائی کی جائے گی۔

جنرل احسان کی بات میں وز ن کہ آئندہ وزیر اعظم شاہد خاقان ہونگے : توصیف خان ، ادارے ن لیگ کے مفاد میں کام کر رہے ہیں : خالد چودھری ، نگران حکومت فنانشل ٹاسک فورس کو فائنل نہیں کر سکی : ضمیر آفاقی ، ملک کے مفاد کی بات کرنے والا لیڈر آگے آنا چاہیے : مریم راشد ، چینل ۵ کے پروگرام ” کالم نگار “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل چینل فائیو کے پروگرام ”کالم نگار“ میں گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ نگار خالد چوہدری نے کہا ہے کہ عمران خان وزیر اعظم نہیں بن سکتے۔ ملک میں خطرناک اور خوفناک گیم کھیلی جارہی ہے۔ عام آدمی کے پارلیمنٹ میں آنے تک کوئی پسے ہوئے عوام کی آواز نہیں بنے گا۔ تمام سیاسی جماعتیں سیٹیس کی نمائندہ ہیں۔ الیکشن کمیشن اور دیگر ادارے (ن) لیگ کے مفاد میں کام کررہے ہیں۔ تاہم خوبصورتی یہ ہے کہ عوام میں شعور آیا ہے اور وہ سوال کررہے ہیں۔ میرے ہمسائے فواد چودھری کی دوسری بیوی نکل آئی ہے جو مجھے بھی معلوم نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم آئی ایم ایف کے پاس جانے پر مجبور ہورہے ہیں۔ ایف اے کی ایف میں برادر ملک بھی شامل ہیں جنہوں نے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالا کوئی ہمالیہ سے اونچی دوستی اور چین وعرب ہمارا نہیں۔ صرف مفادات میں ہمیں گمراہ کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکا لنے کے لیے ٹھوس اقدامات ہونے چاہیں۔ پاکستان کا مقدمہ شمشاد اختر نے ٹھیک پیش کیا ہمارے کرتوت نہیں اچھے۔ پروگرام میں تجزیہ نگار ضمیر آفاقی نے کہا کہ ایف اے کی ایف 1989میں 7بڑوں نے قائم کی۔ پاکستان نے نیشنل ایکشن پلان پر کام کیا مگر نگران حکومت پاکستان کے اقدامات پر ایف اے کی ایف کو قائل نہیںکرسکی۔ اب ستمبر 2019تک مزید 26نقاط پر پاکستان کو عمل کرنا ہوگا ورنہ بلیک لسٹ میں جاسکتے ہیں۔ نئی حکومت کو خارجہ وداخلی پالیسی واضع کرنا ہوگی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ شاہد خاقان عباسی کی نااہلی ختم ہونے کے باوجود توہین عدالت کیس میں سزا ہو سکتی ہے۔ ن لیگ حق بجانب ہے کہ زیادتی صرف انکے ساتھ ہورہی ہے۔ تجزیہ نگار مریم ارشد نے کہا کہ پاکستان کے پاس قدرتی ذخائر کی کمی نہیں اور قربانیاں بھی بہت دی ہیں۔ پاکستان کو ملکی مفاد کی بات کرنیوالا لیڈر چاہیے۔ مجاہدین سے دہشتگرد بننے والوں کی طرح چینیوں کو بھی ہم پاکستانی شہریت دےکر غلطی کررہے ہیں۔ وہ ہمارے ساتھ سخت سلوک کرینگے۔ میزبان تجزیہ نگار توصیف احمد خان نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کو اکثریت بھی مل جائے تو وہ وزیر اعظم نہیں بن سکتے۔ جنرل احسان کی بات میں وزن لگتا ہے کہ اگلے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں مڈل کلاس بلکہ 10کروڑ رکھنے والا شخص بھی الیکشن لڑنے کا اہل نہیں ہے۔ شادیوں کی طرح سینیٹ میں بھی ہر طرح کے موقف آگئے ہیں۔

بشریٰ بی بی نے پی ٹی آئی کی ناراض خواتین کارکنوں کو منا لیا، عمران خان کی اہلیہ کی پہلی انٹری، کپتان کی جدوجہد بارے متاثر کن انداز میں آگاہ کیا

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) غیر سیاسی بشریٰ کا پہلا سیاسی اقدام منظر عام پر آگیا، عمران خان کی اہلیہ تحریک انصاف کی روٹھی خواتین کو منانے میں کامیاب ہوگئیں،کپتان کی جدوجہد کے واقعات سن کر خواتین رہنما متاثر ہوگئیں، نجی ٹی وی کے مطابق تحریک انصاف کی روٹھی سیاسی خواتین جو کئی دنوں سے مسلسل احتجاج کررہی تھیں ان کو غیر سیاسی بشریٰ نے اس انداز سے اپنا بیان سنایا کہ سب ہی انکی مطیع ہوگئیں اور انکے گن گانے لگیں، ناراض خواتین نے اعتراف کیا کہ اب وہ کھل کر پارٹی کمپئن چلائیں گی، انکا کہناتھا کہ بشریٰ بی بی نے عمران خان کی جدوجہد اور دیگر معاملات پر ہمیں اس انداز سے وعظ دیا پیار دیا کہ ہماری آنکھوں میں آنسو آگئے ، تحریک انصاف کی سرگرم ناراض رکن فاطمہ عثمان کا کہناتھا کہ وہ بشریٰ بی بی کا خطاب سن کر رو پڑیں، پارٹی انہیں کوئی عہدہ یا منصب نہ دے وہ پھر بھی پارٹی کی کمپئن چلائیں گی۔

مینگوفورم کے شرکاءکاشکریہ”خبریں“ باغبانوں کے مسائل اجاگرکرنے میں کردارادا کرتارہے گا: چیف ایڈیٹرضیا شاہد

ملتان (اہتمام:سجاد بخاری، رپورٹ:طارق اسماعیل، رانا طارق، تصاویر:خالد اسماعیل) آم کا دارالخلافہ سمجھے جانے والے ملتان سمیت مرکزی علاقوں میں آم کی پیداوار اور ایکسپورٹ میں کمی کی وجوہات جاننے کیلئے عدنان شاہد فورم ہال میں ”مینگو فورم“ کا انعقاد کیا گیا۔ ”خبریں“ گروپ آف نیوز پیپرز کے زیر اہتمام ہونے والے مینگو فورم کی صدارت چیف ایڈیٹر ”خبریں“ جناب ضیاشاہد نے کی۔ مینگو فورم میں گفتگو کرتے ہوئے مینگو گروورز اور ماہرین نے کہا کہ باغات کے علاقوں میں رہائشی کالونیاں بنانے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ زرعی زمینوں پر نئی کالونیاں بنانے والوں کی حوصلہ شکنی کیلئے مو¿ثر قانون سازی کی جائے۔ بے ہنگم اربنائزیشن بند کی جائے۔ مینگو فورم کے شرکاءنے کہا کہ آم کی پیداوار، ایکسپورٹ بڑھانے اور باغبانوں کی بہتری کیلئے مو¿ثر اور دیرپا ہارٹیکلچر پالیسی بنائی جائے جس میں تمام سٹیک ہولڈرز کے مفادات کا تحفظ ہو۔ مینگو گروورز نے کہا کہ بیورو کریسی بند کمروں میں بیٹھ کر متنازعہ پالیسیاں بنانے سے باز رہے۔ آم کی پیداوار بڑھانے کیلئے جدید زرعی پیداواری ٹیکنالوجی کو فروغ دیا جائے۔ آم کی پیداوار اور ایکسپورٹ میں کمی کے عنوان سے ہونے والے مینگو فورم میں محمد نوازشریف زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر آصف علی، پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد رجوانہ، ڈائریکٹر مینگو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ڈاکٹر اللہ بخش ملک، ترقی پسند مینگو گروور میجر (ر) طارق خان، ملک جہانزیب دھرالہ، مظفر حیات خاکوانی، زاہد حسین گردیزی، میاں نور الحق جھنڈیر، پروفیسر ڈاکٹر ناظم حسین لابر، خواجہ محمد شعیب، ملک سرفراز بھٹی، نوید عصمت کاہلوں، میاں سلیم محمود کملانہ، ڈاکٹر طارق ملک، رازش لیاقت پوری، ملک عامر نذیر بُچہ، ناصر عباس جعفری، رانا آصف، اعظم صابری، پروفیسر ڈاکٹر شفقت سعید، ڈاکٹر سجاد حسین، ڈاکٹر محمد امین، محمد شہزاد ظفر، عبدالمعید اور ڈاکٹر جام نیاز سمیت شرکاءنے شرکت کی۔ روزنامہ ”خبریں“ ملتان کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر میاں غفار احمد نے میزبانی کے فرائض انجام دیئے۔ محمد نواز شریف زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر آصف علی نے مینگو فورم میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں آم کے نئے باغات جدید پیداواری ٹیکنالوجی کے مطابق لگا کر ان کی مینجمنٹ کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ آم کی پیداوار، ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے ریسرچ ڈویلپمنٹ، سپلائی چین، ویلیو ایڈیشن اور باغبانوں کی تربیت سمیت تمام امور پر توجہ دینا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ مسائل بہت زیادہ ہیں اور مل کر حل کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ملتان سمیت خطے کے آم کے باغبانوں کے کاروباری رابطے تیز کرنے سمیت مختلف امور کیلئے ملتان میں14 جولائی سے 3روزہ مینگو فیسٹیول کا انعقاد کرایا جا رہا ہے جس میں غیر ملکی سفیر بھی شریک ہوں گے۔ انہوں نے بتایا کہ رواں سال مینگو فیسٹیول میں محمد نوازشریف زرعی یونیورسٹی کے ساتھ بہاءالدین زکریا یونیورسٹی بھی شامل ہوئی ہے۔ محمد نوازشریف زرعی یونیورسٹی ملتان کے پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد رجوانہ نے مینگو فورم میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ باغات کو کاٹ کر ہاﺅسنگ کالونیاں بنائی جا رہی ہیں جس سے درخت کٹنے کا سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئے شہر آباد کئے جائیں اور رہائشی کالونیاں آم کے باغات سے 15کلومیٹر دور کے علاقوں میں بنائی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈی ایچ اے سمیت تمام نئی کالونیاں ہیڈ محمد والا سمیت ریت کے ٹیلوں کے علاقوں میں بنائی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ باغات اور زرعی زمینوں پر رہائشی کالونیوں کے حوالے سے قانون سازی کی جائے۔ ڈاکٹر اشتیاق رجوانہ نے کہا کہ ان کے خاندان کی چوتھی نسل آم کے باغات اور تحقیق میں ہے اور حکومت نے ان کے باغ کی جگہ رہائشی کالونی بنانے کیلئے کیس کیا ہوا ہے اور وہ اپنے باغات بچانے کیلئے عدالت میں کیس لڑ رہے ہیں۔ مینگو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ملتان کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اللہ بخش ملک نے کہا کہ آم کی پیداوار بڑھانے کیلئے ہمیں باغات میں کام کرنے والوں کی تربیت کے ساتھ نرسری پر توجہ دینا ہوگی تاکہ صحت مند پودے فراہم کرکے ہم بہتر پیداوار حاصل کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم صرف آم توڑنے والوں کی تربیت کرکے تین ارب روپے اضافی کما سکتے ہیں۔ ڈاکٹر اللہ بخش ملک نے کہا کہ مینگو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے باغبانوں کو بہترین اقسام کے پودے فراہم کرنے کا ہدف 4 ہزار سے بڑھا کر 50 ہزار کر دیا ہے اور باغبانوں کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرنے کو تیار ہیں۔ ترقی پسند باغبان ایکسپورٹر ملک جہانزیب دھرالہ نے کہا کہ ہمیں آم ایکسپورٹ کرنے سے پہلے اس کی پیداوار پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ باغبانوں کو باغات کے پتے اور زمینوں کی مٹی کے تجزیئے کی سہولت نہیں ہے صرف پتوں کا ٹیسٹ20ہزار روپے میں ہو رہا ہے۔ معیاری کھادیں مقررہ وقت پر نہیں ملتیں۔ آم کے باغات پر حملہ آور ہونے والی فروٹ فلائی کو کنٹرول کرنے کیلئے اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی سطح پر باغات کی زمینیں اور دوسری اشیاءکے تجزیئے کی سہولت دی جائے۔ کاشتکار میاں نور الحق جھنڈیر نے مینگو فورم میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب سے زیر زمین پانی کی سطح گرنا شروع ہوئی ہے آم کے باغات تباہی کا شکار ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ باغات کو بچانے کیلئے واٹر ٹیبل اپ کرنے کیلئے پانی کی کمی کا مسئلہ سنجیدگی سے لیا جائے۔ زرعی ماہرین اور سائنسدان کم اخراجات اور وقت میں زیادہ پیداوار دینے والی اقسام تیار کریں۔ باغات کی بیماریوں کو کنٹرول کرنے کیلئے سنجیدگی سے منصوبہ شروع کیا جائے۔ معروف پلانٹ پیتھالوجسٹ اور سینئر زرعی سائنسدان ملک عامر نذیر بُچہ نے کہا کہ ہمیں آم کی پیداوار لینے کے فوری بعد ہی اگلے فروٹنگ سیزن کی تیاری شروع کردینی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے باغات بوران کی شدید کمی کا شکار ہیں۔ ہمیں باغات کے اجزائے خوراکی وقت پر دینا ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ باغات کی بہتر مینجمنٹ کرکے باغبان آم کی بھرپور پیداوار لے سکتا ہے۔ ترقی پسند باغبان میجر (ر) طارق خان نے ”مینگو فورم“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم 18 لاکھ ٹن آم پیدا کرنے کے باوجود صرف نصف فیصد ایکسپورٹ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا آم کے علاقے میں ایکسپورٹ کی سہولیات نہیں ہیں۔ آم سے دوسری مصنوعات کی تیاری کی بھی سہولیات نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت میں تحفظ خوراک اور تحقیق اور تجارت کی وزارتوں کی عدم توجہی اور ناقص منصوبہ بندی نے آم کی ایکسپورٹ کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحفظ خوراک اور تحقیق کے وفاقی وزیر سکندر حیات بوسن کا تعلق ناصرف اس خطے کی کاشتکار فیملی سے ہے بلکہ ان کے باغات بھی ہیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے باغات کے علاقوں کی ترقی اور باغبانوں کی بہتری کیلئے اقدامات نہیں کئے۔ انہوں نے کہا کہ آم کی ایکسپورٹ میں ہماری قومی ائیر لائن پی آئی اے نے سب سے پہلے فی کلو سرکاری کرایوں کا شیڈول جاری کر دیا تھا جس کے بعد دوسری کمپنیوں نے بھی قیمتیں بڑھا دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بیوروکریسی بند کمروں میں بیٹھ کر باغات سے متعلق پالیسی بنانے سے باز رہے بلکہ اس میں باغبانوں کو اہم سٹیک ہولڈرز سمجھا جائے اور انہیں پالیسی بناتے وقت شامل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ سٹیک ہولڈرز کو کبھی نہیں پوچھا گیا ہم تمام باغبان مسائل حل کرانے کیلئے یکجا ہیں مگر ہماری آواز ایوانوں میں دب جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابق وفاقی وزیر سکندر حیات بوسن کے دور میں سب سے زیادہ نقصان آم کے باغبان کو ہوا ہے اور آم کی ایکسپورٹ میں بھی ریکارڈ کمی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آم سے متعلق چھوٹی صنعتیں لگانے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ ترقی پسند مینگو گروور زاہد حسین گردیزی نے کہا کہ کبھی کبھی باغبانوں کو دبئی سے زیادہ لاہور کی مارکیٹ میں بھی آم کی زیادہ قیمت مل جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ باغبانوں کو تمام زرعی مداخل پر سبسڈی دی جائے۔ ایکسپورٹ پر مراعات دی جائیں اور ایکسپورٹ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ باغات کے علاقوں میں رہائشی کالونیاں بنانے پر پابندی عائد کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت مو¿ثر ہارٹیکلچر پالیسی بنائے جس میں تمام سٹیک ہولڈرز کو شامل رکھا جائے۔ ترقی پسند‘ باغبان‘ مینگو گروور ملک سرفراز بھٹی نے ”مینگو فورم“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں صاف پانی ضائع کرنے سے بچانا ہوگا۔ باغات کو ڈرپ اری گیشن پر منتقل کیا جائے اور حکومت اس سلسلے میں باغبانوں کو سبسڈی دے۔ مینگو ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے سینئر پلانٹ پتھالوجسٹ ڈاکٹر طارق ملک نے کہا کہ باغبانوں کو چاہےے کہ وہ ماہرین کی سفارشات پر عمل پیرا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ آم کے باغات کو نقصان سے دوچار کرنے والی سڈنی ڈیتھ (کوئیک ڈیکلائن) کی وجوہات 10سال کی تحقیق کے بعد قابو پالیا گیا ہے اور اب اس سلسلے میں باغبانوں کا بھی تعاون درکار ہے۔ مینگو ایکسپورٹر اعظم صابری نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آم کی ایکسپورٹ کرنے والوں کو حکومت کی طرف سے کسی قسم کا تعاون نہیں ہے انہیں قدم قدم پر رشوت دے کر اپنے ملک کی عزت اور مال بچانا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سٹیٹ بینک ایکسپورٹرز کے لئے زرمبادلہ جمع کرانے کی مدت 30روز سے بڑھاکر 90روز کرے۔ شپنگ لائنز کو مانیٹر کیا جائے۔ انجینئر ممتاز احمد خان نے کہا کہ پانی کی کمی کا مسئلہ حل کیا جائے اور زراعت‘ باغات کی بقاءکے لئے پانی کو محفوظ کیا جائے اور اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جائے۔ ترقی پسند مینگو گروورمظفرحیات خاکوانی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے کبھی بھی کسی فورم پر کاشتکاروں کو سپورٹ نہ کیا۔ کسی بھی جگہ کھاد اور زرعی ادویات پر سبسڈی نہ دی۔ اگر اعلان کیا گیا تو سبسڈی حاصل کرنے کے لئے اس عمل کو اتنا مشکل بنادیا گیا کہ وہ کسان کو مل ہی نہ سکی جبکہ فصل آنے پر حکومت کی عدم توجہی کی وجہ کسان کو فصل کا صحیح ریٹ نہ مل سکا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک حکومت کسانوں کو سپورٹ نہیں کرے گی اور واضح پالیسی نہیں دیتی کسان کو کسی بھی فصل میں فائدہ نہیں مل سکتا چاہے وہ آم کی فصل ہو یا کوئی اور فصل آم کی ایکسپورٹ بغیر حکومت کے کامیاب نہیں ہوسکتی اور نہ ہی بڑھ سکتی ہے۔ ترقی پسند مینگو گروور میاں سلیم محمود کملانہ نے کہا کہ حکومت کی کسی بھی شعبہ میں پالیسی واضح نہ ہے جن کی وجہ سے کوئی بھی ادارہ اپنی پالیسی نافذ کرنے میں ناکام نظر آتا ہے۔ آم سے متعلق ایکسپورٹ کے مراحل اتنے تکلیف دہ ہیں کہ آم کی فصل کاشت کرنے کو دل نہیں چاہتا۔ نہ تو آم کی بہتر فصل کے لئے شعبہ زراعت کی طرف سے مدد ملتی ہے اور نہ ہی کسی اور ادارے کی طرف سے۔خواجہ محمد شعیب نے کہا کہ آم کی کاشت اور جدید کاشت کے لئے ملک میں کوئی ریسرچ نہیں ہوتی۔ اگر کوئی ریسرچ ہوتی ہے تو وہ دفتر تک محدود رہتی ہے۔ افسران ٹھنڈے کمروں سے نکلیں گے تو کاشتکاروں کو کچھ معلوم ہوگا۔ سرکاری اہلکار کاشتکاروں کی مدد کریں گے تو کسان کو معلوم ہوسکے گا کہ اسے کس فصل میں فائدہ ہوگا۔
حنیف کھوکھر کے مطابق پاکستان کے اکثر علاقوں میں پانی کی صورتحال ابتر ہے۔ پانی کی سطح نیچے جانے کی وجہ سے آم کی فصل کو مطلوبہ پانی نہیں ملتا ہے جس کی وجہ سے فصل متاثر ہورہی ہے اور آم کی جدید ورائٹیوں کے بارے کسانوں کو کوئی علم نہ ہے اور اس کے بارے میں نہیں جانتے جس سے آم کی فصل دن بدن کم ہورہی ہے اور اس سے ایکسپورٹ پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
ناصر عباس جعفری جنرل سیکرٹری مینگو گروور نے کہا کہ آم کی ایکسپورٹ میں کمی کی ایک وجہ یہ ہے کہ پی آئی اے نے اپنے ریٹ اتنے زیادہ کررکھے ہیں کہ خرچ زیادہ آتا ہے اور منافع نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ ہر انسان اور کسان منافع کے لئے فصل کاشت کرتا ہے اگر نہ ملے تو اس کا کیا فائدہ۔ پی آئی اے کے زیادہ کرایے کی وجہ سے دوسری ایئرلائنز بھی کرایہ جات بڑھا دیتی ہیں جس پر آم بھیجنے پر نقصان ہوتا ہے۔
جہانزیب خالد نے کہا کہ وہ عرصہ دراز سے آم کی کاشت کرتے چلے آرہے ہیں لیکن آم کی نشوونما کے لئے استعمال ہونے والی زرعی ادویات ناقص اور نچلے گریڈ کی ہوتی ہیں۔ ادویات فروخت کرنے والی کمپنیاں چائنہ سے ایسی ادویات منگواتی ہیں جوکہ قیمت میں سستی ہوں اور کوالٹی میں نچلے درجے کی ہوں۔ ادویات فروخت کرنے والی کمپنیاں اپنا تو منافع کما لیتی ہیں لیکن کسانوں کو نقصان پہنچاتی ہیں جبکہ حکومت بھی ان کے خلاف کارروائی نہیں کرتی۔
محمد عبداﷲ جوکہ ملتان کے مشہور آم ایکسپورٹر ہیں‘ نے کہا کہ ملتان انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے بتائے وقت پر گیا تھا کہ آم کی ایکسپورٹ کے لئے یہاں پر باہر آم بھجوانے کے لئے ہر قسم کی سہولت دی جائے گی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا اور نہ ہی کوئی ایسی سہولت یہاں پر دی گئی جس سے آم ایکسپورٹ کرنے میں آسانی ہو اور اخراجات کم ہوں۔ حکومت نے کبھی بھی ایکسپورٹ کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی نہ دی صرف لفظوں کے ذریعے سے کسانوں کو ٹھنڈا کیا گیا۔
زرعی یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد امین نے کہا کہ جنوبی پنجاب سے 70فیصد آم حاصل ہوتا ہے‘ سندھ سے 28فیصد اور باقی صوبوں سے 2فیصد فصل آم کی ہوتی ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ایکسپورٹ میں ہر سال کمی ہورہی ہے۔ یونیورسٹی کے لیول پر ہر سال آم کی ایکسپورٹ کے حوالے سے سیمینارز اور آگاہی پروگرامز کررہے ہیں اور اس سلسلہ میں کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں کہ آم کی ایکسپورٹ بڑھے۔
شکیل نیازی نے آم کی کاشت اور ایکسپورٹ کے حوالے سے کہا کہ اربنائزیشن کی وجہ سے آم کی فصل برباد ہورہی ہے۔ جب آم کی پروڈکشن ہی نہ ہوگی تو ایکسپورٹ کیسے ممکن ہوگی اور ایکسپورٹ کیسے بڑھ سکے گی۔ مختلف ہاو¿سنگ کالونیوں کی وجہ سے ہزاروں ایکڑ پر مشتمل آم کی فصل کٹ چکی ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر جام نیاز احمد نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آم کے پودوں میں خوراک کی کمی اور متوازن کھادوں کی فراہمی کے حوالے سے ایک پروگرام شروع کیا جارہا ہے جس میں ملتان‘ مظفرگڑھ سمیت آم کے باغات کے علاقوں کو شامل کیا جارہا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر ناظم حسین لابر نے کہا کہ باغبانوں کو اپنی ترجیحات تبدیل کرکے ماہرین کے مشورہ پر عمل کرنا ہوگا۔
مینگو پلپ پلانٹ کے انچارج عبدالمعید نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ باغبانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے باغات کی پیداوار مینگو پلپ پلانٹس پر لے آئیں اور کئی گنا زیادہ آمدنی کمائیں۔ انہوں نے کہا کہ ترقی پسند باغبان مل کر بھی اس طرح کے پلانٹس لگاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مینگو پلپ پلانٹ کی استعداد کار بڑھائی جارہی ہے۔
روزنامہ ”خبریں“ کے چیف ایڈیٹر جناب ضیاشاہد نے مینگو فورم کے شرکاءکا شکریہ ادا کیا اور گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”خبریں“ باغبانوں کے مسائل ایوانوں اور پالیسی سازوں تک پہنچانے کے لئے اپنا کردارادا کرتا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ”خبریں“ نے پہلے بھی کاشتکار کی آواز کھیت کھلیانوں سے ایوانوں تک پہنچائی ہے اور آئندہ بھی اپنا کردارادا کرتا رہے گا۔
محکمہ زرعی اطلاعات کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر نوید عصمت کاہلوں نے مینگو فورم میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پنجاب کی طرف سے باغات کی بحالی اور باغبانوں کی بہتری کے لئے مختلف منصوبے شروع کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ باغبانوں کو جدید زرعی پیداواری ٹیکنالوجی اپنانے کے لئے زرعی مشینری اور آلات پر سبسڈی فراہم کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

صبور علی ‘ ہانیہ عامر کی سیریل ”وصال“اہم موڑپر پہنچ گئی

کراچی (شوبزڈیسک)ڈرامہ سیریل “وصال”ایک ایسا ڈرامہ ہے جس نے پہلے ہی دن سے اپنے ناظرین کی تمام تر توجہ حاصل کررکھی ہے، جس کی وجہ نہ صرف ڈرامے کی بہترین کہانی ہے بلکہ اس میں کام کرنے والی کاسٹ کی بہترین اداکاری بھی ہے، صبور علی سے ہانیہ عامر تک ڈرامے میں موجود بہترین اداکار اپنی اداکاری کی اپنے ناظرین کو نہ صرف ڈرامے کی ہرقسط دیکھنے پر مجبور کرتے ہیں بلکہ نئی قسط کامنتظر بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں، ڈرامہ اپنی چودہویں قسط کی جانب سفر کررہا ہے ناظرین کے ذہن میں کچھ سوالات اٹھنا شروع ہوچکے ہیں۔ کیا پری یہ جان پائے گی کہ اس کی سب سے بہترین دوست اسکی ترقی میں رکاوٹ کا باعث بن چکی ہے۔

رنبیر اور انوشکا کی فلم ” سنجو“ پاکستانی سنیماﺅں میں ریلیز

لاہور(شوبزڈیسک )بالی وڈ فنکار سنجے دت کی زندگی پر مبنی فلم ” سنجو“ کو سنسر سرٹیفیکیٹ ملنے کے بعدپاکستانی سنیماﺅں میں ریلیز کر دیا گیا۔پنجاب اور سندھ بورڈکے بعد مرکزی سنسر بورڈ کے اراکین نے بھی بغیر کسی اعتراض کے فلم کو عام نمائش کی اجازت دے دی ۔بھارتی فلمی صنعت کے پروڈیوسر ودھو ونود چوپڑہ اورسٹار ڈائریکٹر راج کمار ہیرانی کی نئی پیشکش ” سنجو“ڈسٹری بیوشن کلب کے زیر اہتمام لاہور ، کراچی اور اسلام آباد سمیت سرکٹ کے دیگر شہروں کے سنیما گھروںمیں ریلیز کر دی گئی ۔ فلم بالی وڈ کے منا بھائی سنجے دت کی زندگی میں پیش آنے والے حقیقی واقعات پر مبنی ہے جس میں نوجوان نسل کے مقبول فنکار رنبیر کپور نے سنجے دت کا مرکزی کردار ادا کیا ہے جبکہ دیا مرزا، سونم کپور، انوشکا شرما، منشیا کوئرالہ ، پاریش راول اوربومن ایرانی سمیت کئی نامور فنکار فلم میں انتہائی اہم کرداروں میں جلوہ گر ہوئے ہیں ۔فلمی حلقوں کے مطابق راج کمار ہیرانی بالی وڈ کے سب سے کامیاب ڈائریکٹر ہیں جن کی پچھلی تمام فلموںمنابھائی ایم بی بی ایس، لگے رہو منابھائی، تھری ایڈیٹس اورپی کے نے بے مثال کامیابی حاصل کر رکھی ہے۔ اور انکا نام ہی فلم کی کامیابی کی ضنمانت بن چکا ہے چنانچہ انکی نئی ڈائریکشن’ سنجو“ نہ صرف شائقین کو سنجے دت کی زندگی کے نشیب و فراز سے آگاہ کرے گی بلکہ باکس آفس پر کامیابی کے نئے ریکارڈ بھی بنانے میںکامیاب رہے گی ۔

پاکستانی فلم میکنگ میں بہتری آ رہی ہے: زارا شیخ

لاہور(شوبزڈیسک) اداکارہ زارا شیخ نے کہا ہے کہ پاکستانی فلم میکرز وقت کے ساتھ بہتری کی طرف جارہے ہیںاگر کوئی اچھی آفر ہوئی تو ضرور فلم کروں گی۔اپنے ایک انٹر ویو میں اداکارہ زارا شیخ نے کہا کہ جب تک فلم میکر باکس آفس کے تقاضوں اور فلم بینوں کے مزاج کو سمجھ کر فلم نہیں بنائے گا اسے کامیابی نہیں مل سکتی۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں بہت عرصہ پہلے ہی فلمساز اور ہدایتکاروں نے فلم میکنگ کے حوالے سے وقت کے ساتھ بدلتی ٹیکنالوجی پر توجہ ہی نہیں دی۔، جس کا خمیازہ ہمیں فلم انڈسٹری کے ایسے شدید بحران کی صورت میں بھگتنا پڑا کہ اسٹوڈیوز کے ساتھ سینما انڈسٹری بھی زوال پذیر ہوگئی ابھی فلم میکنگ بہتری کی طرف گامزن ضرور ہوئی ہے مگر اس کا مطلب ہرگز نہیں لینا چاہیے کہ ہم اپنی منزل پا چکے ہیں ابھی بہت کچھ مزید کر نے کی بھی ضرورت ہے ۔

بھارت ہمارے دریاﺅں کا پانی استعمال کرتا ، اپنا روک رکھا ہے، رٹ میں میراموقف ہے کہ سپریم کورٹ حکومت پاکستان کو مجبور کرے کہ بھارت کیخلاف پانی کا مسئلہ عالمی مصالحتی عدالت میں لے کر جائے ، معروف صحافی ضیا شاہدکی چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ بڑا مشہور لطیفہ ہے کہ دلی میں دو مشہور شاعر تھے وہ مرثیہ کے بڑے ماسٹر تھے۔ ایک میر انیس تھے۔ دوسرے میر دبیر تھے۔ نے کہا کہ میر انیس کی کیا میر دبیر کی کیا پوچھتے ہیں۔ ایک آہ ہے دوسرا واہ ہے۔ ہم کیا کہہ سکتے ہیں کہ سجاد علی شاہ کے رول میں ہمارے چیف جسٹس صاحب ہوں گے یا کوئٹہ بنچ کے لوگوں کی جگہ ہمارے پنڈی کے ہائی کورٹ کے سربراہ ہوں گے تو اس لئے بھائی ہم تو یہی کہہ سکتے ہیں ایک آہ ہے اور دوسرے واہ یہی بلکہ چیف جسٹس صاحب بڑے ہیں وہ آہ ہیں اورجو اسلام والے ہیں واہ ہیں۔ یہ فیصلہ تو حفظ مراتب اس کی بنیادپر ہو گا۔ میاں غفار نے کہا کہ ابھی تو یہ طے ہونا باقی ہے کہ جسٹس تارڑ کون ہوں گے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ جسٹس تارڑ کا بڑا مقام ہے۔ اگر آپ جسٹس تارڑ صاحب سیاست میں کس طرح آئے اور وزیراعظم اور ان کی فیملی کے حق میں کتنے مقدمات کئے۔ ان کی قدر و منزلت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔ چنانچہ انہیں تارڑ صاحب کو پہلے سینٹ کا ممبر بنایا گیا پھر وقت آیا تو ان کو ملک کا صدر بنا دیا گیا حالانکہ آپ کو یاد ہو گا۔ اس وقت بڑے اعتراضات ہوئے تھے پوری قیادت لاہور میں مرکوز تھی بلکہ صرف ماڈل ٹاﺅن میں مرکوز تھا۔ وسیم سجاد چیئرمین سینٹ ہوتے تھے وہ بھی گلبرگ اور ماڈل ٹاﺅن کے رہنے والے تھے۔ تارڑ صاحب ماڈل ٹاﺅن کے ساتھ ہی ملحقہ جوہر ٹاﺅن میں رہتے تھے وہ صدر تھے۔ جناب نوازشریف صاحب وزیراعظم تھے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ یوں لگتا ہے کہ آنکھ مچولی ہے۔ ایک دن ایک بندہ اہل دوسرے دن ساتھ والی عدالت سے اہل ہو جاتا۔ جو ہو رہا ہے اسے دیکھتے جائیں۔ضیا شاہد نے کہا کہ خود چیف جسٹس آج کل بہت سنجیدگی سے پانی کی کمی کے مسئلے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں انہوں نے میری رٹ کے ساتھ ہی پانی کے ایشو پر اوپر نیچے دو رٹیں تھیں۔ ایک کالا باغ ڈیم کے سلسلے میں تھی اس میں بڑی سنجیدگی سے انہوں نے شمس الملک صاحب کو بلا کر سنا ہے اور لوگوں کو بھی بلایا ہے اور انہوں نے ایک کمیٹی بھی بنا دی ہے ہمارے محترم اعتزاز احسن صاحب کو انہوں نے پانی کے مسئلے پر خصوصی معاون مقرر کیا ہے۔ اور اعتزاز احسن صاحب بڑے فاضل آدمی ہیں۔ میرا کیس ڈیڑھ سال سے یہی لگا ہوا ہے وہ سادہ سا ہے میری درخواست یہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں میری جو رٹ منظور ہوئی ہے اس میں پانچ لوگوں کو فریق بنایا گیا ہے یعنی وفاق پاکستان، نمبر2وزارت خارجہ بذریعہ سیکرٹری خارجہ کیونکر اس خارجہ معاملات بھی کرتے ہیں انڈیا آتا ہے۔ نمبر3 آبی وسائل کی وزارت جو تازہ تازہ بنی تھی جاوید علی شاہ ہمارے دوست ملتان سے اس کے وزیر بنے تھے۔ جاوید علی شاہ بادشاہ آدمی ہیں کل ان سے ملاقات کرتے ہیں ان سے پوچھتے ہیں کہ ادر آ کر ہمیں جواب دیں۔ انہوں مجھے یہی بتایا تھا کہ بڑا پیسہ ہے میں تو بڑا خوش ہوا تھا کہ ہمارے دوست کے پاس بڑا پیسہ آ گیا اور بالکل مسئلہ ہی کوئی نہیں ہے آبی وسائل کی وزارت پہلی دفعہ بنی ہے بلکہ میں تو ان سے کہتا تھا کہ دو تین ماہ الیکشن میں باقی ہیں آپ نے گھر چلے جانا ہے انہوں نے کہا کہ میں واٹر پالیسی بنا کر جاﺅں گا۔ پھر جناب یہ عجیب و غریب بات ہے کہ دوست سے پوچھیں گے کہ جس دن واٹر پالیسی کا اعلان ہو رہا تھا اس میں سارے لوگ موجود تھے سوائے ہمارے دوست جاوید علی شاہ کے۔ پتہ کیا باہمی ناراضی تھی ان سے پوچھتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا بھی تھا کہ آپ کے پاس اتنے ہی پیسے ہیں تو پچو¿ھلے سات سال سے بقول مرزا آصف بیگ جو سابق کمشنر ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ سات سال سے ہم پی سی ون بنا کر بھیج رہے ہیں کہ ہمیں اتنے پیسے چاہئیں ہم نے ریسرچ کرنی ہے وکلاءکی خدمات حاصل کرنی ہیں انٹرنیشنل آبی ماہرین کی خدمات حاصل کرنی ہے کیونکہ ہم عالمی مصالحتی عدالت میں جانا چاہتے ہیں۔ اور آپ کو معلوم ہے کہ کشن گنگا کے سلسلے میں ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی پچھلے دنوں اس کا افتتاح کرنے آئے جب وہ آئے تو ہماری ایجنسیوں کے کان کھڑے ہوئے کہ یہ کیا ہو گیا۔ اور فوری طور پر ایک وفد اٹارنی جنرل کی سربراہی میں ورلڈ بینک بھیجا گیا اور حسب معمول بغیر تیاری کے وہاں سے وہ ٹکہ سا جواب لے کر واپس آ گئے کہ انہوں نے اجازت نہیں دی۔ میں معمولی سا آدمی ہوں مجھے قانون دانی کا دعویٰ نہیں لیکن میں نے پڑھا بہت ہے۔ ایک دو سال ہو گئے اس پر کھپتے ہوئے۔ پاکستان کا کوئی ایڈیٹر نہیں ہے اخبار کا جس نے اس معاملے میں سلیمانکی جا کر دیکھا ہو کہ لکڑی کے شٹر ڈال کر ٹوٹل پانی بند کر دیا گیا ہے ایک قطرہ پانی اس طرف نہیں آتا۔ ہم جسڑ بھی گئے راوی بھی جہاں سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے اور بیاس جو ہے اسے پاکستان میں داخل ہونے سے پہلے ہی غائب کر دیا گیا۔ بھارت نے اس کا سارا پانی روک کر راجستھان کو دے کر نہریں بنا دی ہیں بیاسا اس کو کہتے تھے (جو اب مکمل طور پر پیاسا دکھائی دیتا ہے) یہاں ملتان میں بھی اس کے آثار نظر آ جائیں گے۔ میاں غفار نے کہا کہ جی وہاڑی سے گزرتا ہے۔ضیا شاہد نے کہا کہ یہ بیاسا سرے سے غائب ہی ہو گیا ہے صفحہ ہستی سے ہی غائب ہو گیا۔ مسئلہ بیاس تھا۔ ہمارا نقطہ نظر یہ تھا دیکھیں انڈس واٹر ٹریٹی 1960ءمیں ہوا۔ ایوب خان کا دور تھا جی معین الدین ان کے سیکرٹری تھے جنہوں نے ہماری طرف سے جو کیس تیار کیا۔ دو، 2½ سال کام کیا وہ تھک گئے وہاں۔ بوڑھے آدمی تھے انہوں نے امریکن خاتون سے جو پہلے انہوں نے کہا تھا کہ میری پی اے ہے ٹائب کرتی ہے اس سے شادی کر لی۔ وہ 2، 2½ سال ادھورے اور اس معاہدے کی میم میخ درست کی۔ اس معاہدے میں ایک ہی پوائنٹ ہے جس پر میں رٹ میں گیا ہوں۔ وہ پوائنٹ یہ ہے کہ یہ دریائی پانی کا معاہدہ نہیں ہے یہ دریاﺅں کے نہری پانی کا معاہدہ ہے جس کو زرعی پانی کہتتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی درج ہے کہ There are other usages of wager یعنی زرعی پانی کے علاوہ بھی چار اور پانی کے استعمال ہیں اس میں پہلا استعمال پینے کا پانی، گھریلو استعمال کا پانی، دوسرا ماحولیات کا پانی، تیسرا آبی حیات جھیلوں وغیرہ کا پانی، چوتھا ہے بجلی بنانے کا پانی، پن بجلی بنانے کا پانی اور پانچواں ہے جسے اتلافی پانی یہ انگریزی ٹرم کا ترجمہ: انڈیا نے چالاکی کی کہ تین دریا پاکستان کے حصے میں آئے جہلم، چناب اور سندھ ان کا پانی پاکستان کے حصے میں زرعی پانی آیا۔ اور تین دریا یعنی ستلج، بیاس اور راوی۔ ان کا زرعی پانی انڈیا کے حصے میں آیا۔ جو ٹرم ہے وہ یہ ہے کہ جہلم جناب اور سندھ جب تک انڈیا کے علاقے سے گزرتے ہیں یہ اس کی کلاز ہے تو ان دریاﺅں میں بھارت یہ چار استعمال کا پانی لے سکتا ہے یعنی پینے کا پانی، ہاﺅس ہولڈ کا پانی، ماحولیات کا پانی، پن بجلی کا پانی اور اتلافی پانی اصولاً تو ہونا یہ چاہئے تھا میں آپ ایک معاہدہ کرتے ہیں ایک کو ملتا ہے دوسرے کو کیوں نہیں مل سکتا۔ ہم نے اس کلیہ کو بنیاد بنا کر یہ کہ اگرچہ چناب اور سندھ میں یہ چار استعمال کا پانی انڈیا حق بجانب ہے اور معاہدے میں لکھوا لیا ہے تو میرا یہ کہنا حق ہے کہ پاکستان کو بھی حق حاصل ہے کہ ہمیں بھی یہ چار قسم کے استعمال کا پانی جو ہے جو راوی ستلج اور بیاس میں ہمیں بھی دیا جائے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ انہوں نے پھٹے ڈال کر ٹوٹل بند کر دیا ہوا ہے کیا ہمیں پینے کے پانی، کیا ہمیں ہاﺅس ہولڈ، پن بجلی کی ضرورت نہیں ہے۔ کیا ہمیں ماحولیات یا جھیلوں کے پانی کی ضرورت نہیں ہے۔ جب 1960ءمیں یہ معاہدہ ہوا اور 63,62 میں جب اس پر عملدرآمد شروع ہوا تو صرف سلیمانکی سے لے کر پنجند ایک لاکھ 72 ہزار کیوسک چھوٹے حصہ کے جھونپڑوں میں رہنے والے ستلج کے دونوں طرف بہاولپور کی سائیڈ پر بھی جو ایک لاکھ 72 ہزار ماہی گیر بیروز گار ہو گئے تھے۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں انڈس بیسن کے پاکستانی کمشنر جماعت علی شاہ تھے، جن پر الزام تھا کہ وہ انڈین مفادات کی ترجمانی کرتے تھے وہ پھر فرار ہو گئے۔ سالانہ 25 بلین انڈین روپے فنڈ ملے جو یہ خرچ نہیں کر سکتے، 5 ارب خرچ کرنے ہیں تو سنٹرل بینک آف انڈیا فوراب 5 ارب جمع کروا کر 25 ملین پورا کر دیتا ہے۔ انڈین واٹر کمیشن والے ہر سال پاکستان کے پاس منتیں سماجتیں کرتے ہیں۔ لاہور میں انڈس واٹر کمیشن کا چھوٹا سا دفتر ہے، میرے خیال میں اس کا سٹاف ڈیڑھ دو سو افراد پر مشتمل ہونا چاہئے جس میں ماہرین شامل ہوں۔ مجھے ایک افسر نے بتایا کہ بھارت اپنے مختلف ایجنڈوں میں ہمارے خاص جگہوں پر بیٹھے لوگوں کو ماہانہ پیسے دیتا ہے جس کی وجہ سے وہ خاموش رہتے ہیں۔پانی کے معاہدے کو 58 برس ہو چکے، کبھی کسی نے نہیں پڑھا اور سوچا کہ اگر انڈیا ہمارے دریاﺅں پر حق رکھتا ہے تو اپنے دریاﺅں کا پانی ہمارے لئے کیوں بند کر رکھا ہے۔ سابق ریاست بہاولپور کے نواب نے جب چولستان کا علاقہ آباد کرنا شروع کیا تو وہاں مٹی کے کشتے تھے یعنی نہریں بننا تھیں۔ سلیمانکی سے جو نہریں آتی تھیں وہ آگے چولستان جانی تھیں۔ بہاولپور میں چولستان کے بارے میں جو دستاویزات ہیں اس میں درج ہے کہ یہاں ”فوڈ باسکٹ آف پاکستان“ بن رہا ہے جب ستلج سے پانی آ جائے گا۔ جب میں ملتان سے میٹرک کر کے لاہور آیا تھا تو راوی میں بے تحاشا پانی آتا تھا، میں خود اس میں بوٹنگ کرتا رہا ہوں۔ اس زمانے میں زیر زمین 12 سے 14 فٹ پر پینے کا میٹھا پانی مل جاتا تھا۔ اب سارے لاہور کے ٹیوب ویل ساڑھے 6 سو فٹ اور آخری ٹیوب ویل پنجاب اسمبلی کے عقب میں 1350 فٹ نیچے سے پانی لے رہا ہے۔ دریاﺅں کے چارج نہ ہونے کے باعث پانی اتنا نیچے چلا گیا ہے، اگر دریاﺅں کی ری چارجنگ نہیں کرتے تو 15 برسوں میں پاکستان دنیا کے ان 5 ممالک میں شامل ہو گا جہاں پینے کے پانی کی قلت ہے۔ میری رٹ ذاتی نہیں، بہت مطالعہ و ریسرچ کی، کبھی کسی کو پانی کے حوالے سے بات کرتے نہیں سنا۔ میرا موقف ہے کہ سپریم کورٹ حکومت پاکستان کو مجبور کرے، یہ معاملہ عالمی مصالحتی عدالت میں پہنچے اس سے پہلے بھارت سے مذاکرات ہوں اگر راوی و ستلج میں 15 سے 20 فیصد پانی بھی آ جائے تو ملک کا مستقبل بچ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سنکیا دنیا کا خطرناک ترین زہر ہے جسے زیر زمین پانی آئے ہوئے 11 واں سال ہے۔ ہیپاٹائٹس، کینسر، جلدی امراض سمیت مختلف بیماریاں پھوٹ پڑی ہیں۔ راوی میں پورے لاہور کے سیوریج کا پانی آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کی پانی کی 56 کمپنیوں کے حقائق بھی سامنے آ جائیں گے، اگر یہ کام کر رہی ہوتیں تو شہباز شریف صاحب سب سے پہلے میں آپ کو سلیوٹ کرتا کہ آپ نے لاہور کو بچا لیا ہے۔