تازہ تر ین

بھارت ہمارے دریاﺅں کا پانی استعمال کرتا ، اپنا روک رکھا ہے، رٹ میں میراموقف ہے کہ سپریم کورٹ حکومت پاکستان کو مجبور کرے کہ بھارت کیخلاف پانی کا مسئلہ عالمی مصالحتی عدالت میں لے کر جائے ، معروف صحافی ضیا شاہدکی چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ بڑا مشہور لطیفہ ہے کہ دلی میں دو مشہور شاعر تھے وہ مرثیہ کے بڑے ماسٹر تھے۔ ایک میر انیس تھے۔ دوسرے میر دبیر تھے۔ نے کہا کہ میر انیس کی کیا میر دبیر کی کیا پوچھتے ہیں۔ ایک آہ ہے دوسرا واہ ہے۔ ہم کیا کہہ سکتے ہیں کہ سجاد علی شاہ کے رول میں ہمارے چیف جسٹس صاحب ہوں گے یا کوئٹہ بنچ کے لوگوں کی جگہ ہمارے پنڈی کے ہائی کورٹ کے سربراہ ہوں گے تو اس لئے بھائی ہم تو یہی کہہ سکتے ہیں ایک آہ ہے اور دوسرے واہ یہی بلکہ چیف جسٹس صاحب بڑے ہیں وہ آہ ہیں اورجو اسلام والے ہیں واہ ہیں۔ یہ فیصلہ تو حفظ مراتب اس کی بنیادپر ہو گا۔ میاں غفار نے کہا کہ ابھی تو یہ طے ہونا باقی ہے کہ جسٹس تارڑ کون ہوں گے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ جسٹس تارڑ کا بڑا مقام ہے۔ اگر آپ جسٹس تارڑ صاحب سیاست میں کس طرح آئے اور وزیراعظم اور ان کی فیملی کے حق میں کتنے مقدمات کئے۔ ان کی قدر و منزلت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔ چنانچہ انہیں تارڑ صاحب کو پہلے سینٹ کا ممبر بنایا گیا پھر وقت آیا تو ان کو ملک کا صدر بنا دیا گیا حالانکہ آپ کو یاد ہو گا۔ اس وقت بڑے اعتراضات ہوئے تھے پوری قیادت لاہور میں مرکوز تھی بلکہ صرف ماڈل ٹاﺅن میں مرکوز تھا۔ وسیم سجاد چیئرمین سینٹ ہوتے تھے وہ بھی گلبرگ اور ماڈل ٹاﺅن کے رہنے والے تھے۔ تارڑ صاحب ماڈل ٹاﺅن کے ساتھ ہی ملحقہ جوہر ٹاﺅن میں رہتے تھے وہ صدر تھے۔ جناب نوازشریف صاحب وزیراعظم تھے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ یوں لگتا ہے کہ آنکھ مچولی ہے۔ ایک دن ایک بندہ اہل دوسرے دن ساتھ والی عدالت سے اہل ہو جاتا۔ جو ہو رہا ہے اسے دیکھتے جائیں۔ضیا شاہد نے کہا کہ خود چیف جسٹس آج کل بہت سنجیدگی سے پانی کی کمی کے مسئلے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں انہوں نے میری رٹ کے ساتھ ہی پانی کے ایشو پر اوپر نیچے دو رٹیں تھیں۔ ایک کالا باغ ڈیم کے سلسلے میں تھی اس میں بڑی سنجیدگی سے انہوں نے شمس الملک صاحب کو بلا کر سنا ہے اور لوگوں کو بھی بلایا ہے اور انہوں نے ایک کمیٹی بھی بنا دی ہے ہمارے محترم اعتزاز احسن صاحب کو انہوں نے پانی کے مسئلے پر خصوصی معاون مقرر کیا ہے۔ اور اعتزاز احسن صاحب بڑے فاضل آدمی ہیں۔ میرا کیس ڈیڑھ سال سے یہی لگا ہوا ہے وہ سادہ سا ہے میری درخواست یہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں میری جو رٹ منظور ہوئی ہے اس میں پانچ لوگوں کو فریق بنایا گیا ہے یعنی وفاق پاکستان، نمبر2وزارت خارجہ بذریعہ سیکرٹری خارجہ کیونکر اس خارجہ معاملات بھی کرتے ہیں انڈیا آتا ہے۔ نمبر3 آبی وسائل کی وزارت جو تازہ تازہ بنی تھی جاوید علی شاہ ہمارے دوست ملتان سے اس کے وزیر بنے تھے۔ جاوید علی شاہ بادشاہ آدمی ہیں کل ان سے ملاقات کرتے ہیں ان سے پوچھتے ہیں کہ ادر آ کر ہمیں جواب دیں۔ انہوں مجھے یہی بتایا تھا کہ بڑا پیسہ ہے میں تو بڑا خوش ہوا تھا کہ ہمارے دوست کے پاس بڑا پیسہ آ گیا اور بالکل مسئلہ ہی کوئی نہیں ہے آبی وسائل کی وزارت پہلی دفعہ بنی ہے بلکہ میں تو ان سے کہتا تھا کہ دو تین ماہ الیکشن میں باقی ہیں آپ نے گھر چلے جانا ہے انہوں نے کہا کہ میں واٹر پالیسی بنا کر جاﺅں گا۔ پھر جناب یہ عجیب و غریب بات ہے کہ دوست سے پوچھیں گے کہ جس دن واٹر پالیسی کا اعلان ہو رہا تھا اس میں سارے لوگ موجود تھے سوائے ہمارے دوست جاوید علی شاہ کے۔ پتہ کیا باہمی ناراضی تھی ان سے پوچھتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا بھی تھا کہ آپ کے پاس اتنے ہی پیسے ہیں تو پچو¿ھلے سات سال سے بقول مرزا آصف بیگ جو سابق کمشنر ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ سات سال سے ہم پی سی ون بنا کر بھیج رہے ہیں کہ ہمیں اتنے پیسے چاہئیں ہم نے ریسرچ کرنی ہے وکلاءکی خدمات حاصل کرنی ہیں انٹرنیشنل آبی ماہرین کی خدمات حاصل کرنی ہے کیونکہ ہم عالمی مصالحتی عدالت میں جانا چاہتے ہیں۔ اور آپ کو معلوم ہے کہ کشن گنگا کے سلسلے میں ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی پچھلے دنوں اس کا افتتاح کرنے آئے جب وہ آئے تو ہماری ایجنسیوں کے کان کھڑے ہوئے کہ یہ کیا ہو گیا۔ اور فوری طور پر ایک وفد اٹارنی جنرل کی سربراہی میں ورلڈ بینک بھیجا گیا اور حسب معمول بغیر تیاری کے وہاں سے وہ ٹکہ سا جواب لے کر واپس آ گئے کہ انہوں نے اجازت نہیں دی۔ میں معمولی سا آدمی ہوں مجھے قانون دانی کا دعویٰ نہیں لیکن میں نے پڑھا بہت ہے۔ ایک دو سال ہو گئے اس پر کھپتے ہوئے۔ پاکستان کا کوئی ایڈیٹر نہیں ہے اخبار کا جس نے اس معاملے میں سلیمانکی جا کر دیکھا ہو کہ لکڑی کے شٹر ڈال کر ٹوٹل پانی بند کر دیا گیا ہے ایک قطرہ پانی اس طرف نہیں آتا۔ ہم جسڑ بھی گئے راوی بھی جہاں سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے اور بیاس جو ہے اسے پاکستان میں داخل ہونے سے پہلے ہی غائب کر دیا گیا۔ بھارت نے اس کا سارا پانی روک کر راجستھان کو دے کر نہریں بنا دی ہیں بیاسا اس کو کہتے تھے (جو اب مکمل طور پر پیاسا دکھائی دیتا ہے) یہاں ملتان میں بھی اس کے آثار نظر آ جائیں گے۔ میاں غفار نے کہا کہ جی وہاڑی سے گزرتا ہے۔ضیا شاہد نے کہا کہ یہ بیاسا سرے سے غائب ہی ہو گیا ہے صفحہ ہستی سے ہی غائب ہو گیا۔ مسئلہ بیاس تھا۔ ہمارا نقطہ نظر یہ تھا دیکھیں انڈس واٹر ٹریٹی 1960ءمیں ہوا۔ ایوب خان کا دور تھا جی معین الدین ان کے سیکرٹری تھے جنہوں نے ہماری طرف سے جو کیس تیار کیا۔ دو، 2½ سال کام کیا وہ تھک گئے وہاں۔ بوڑھے آدمی تھے انہوں نے امریکن خاتون سے جو پہلے انہوں نے کہا تھا کہ میری پی اے ہے ٹائب کرتی ہے اس سے شادی کر لی۔ وہ 2، 2½ سال ادھورے اور اس معاہدے کی میم میخ درست کی۔ اس معاہدے میں ایک ہی پوائنٹ ہے جس پر میں رٹ میں گیا ہوں۔ وہ پوائنٹ یہ ہے کہ یہ دریائی پانی کا معاہدہ نہیں ہے یہ دریاﺅں کے نہری پانی کا معاہدہ ہے جس کو زرعی پانی کہتتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی درج ہے کہ There are other usages of wager یعنی زرعی پانی کے علاوہ بھی چار اور پانی کے استعمال ہیں اس میں پہلا استعمال پینے کا پانی، گھریلو استعمال کا پانی، دوسرا ماحولیات کا پانی، تیسرا آبی حیات جھیلوں وغیرہ کا پانی، چوتھا ہے بجلی بنانے کا پانی، پن بجلی بنانے کا پانی اور پانچواں ہے جسے اتلافی پانی یہ انگریزی ٹرم کا ترجمہ: انڈیا نے چالاکی کی کہ تین دریا پاکستان کے حصے میں آئے جہلم، چناب اور سندھ ان کا پانی پاکستان کے حصے میں زرعی پانی آیا۔ اور تین دریا یعنی ستلج، بیاس اور راوی۔ ان کا زرعی پانی انڈیا کے حصے میں آیا۔ جو ٹرم ہے وہ یہ ہے کہ جہلم جناب اور سندھ جب تک انڈیا کے علاقے سے گزرتے ہیں یہ اس کی کلاز ہے تو ان دریاﺅں میں بھارت یہ چار استعمال کا پانی لے سکتا ہے یعنی پینے کا پانی، ہاﺅس ہولڈ کا پانی، ماحولیات کا پانی، پن بجلی کا پانی اور اتلافی پانی اصولاً تو ہونا یہ چاہئے تھا میں آپ ایک معاہدہ کرتے ہیں ایک کو ملتا ہے دوسرے کو کیوں نہیں مل سکتا۔ ہم نے اس کلیہ کو بنیاد بنا کر یہ کہ اگرچہ چناب اور سندھ میں یہ چار استعمال کا پانی انڈیا حق بجانب ہے اور معاہدے میں لکھوا لیا ہے تو میرا یہ کہنا حق ہے کہ پاکستان کو بھی حق حاصل ہے کہ ہمیں بھی یہ چار قسم کے استعمال کا پانی جو ہے جو راوی ستلج اور بیاس میں ہمیں بھی دیا جائے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ انہوں نے پھٹے ڈال کر ٹوٹل بند کر دیا ہوا ہے کیا ہمیں پینے کے پانی، کیا ہمیں ہاﺅس ہولڈ، پن بجلی کی ضرورت نہیں ہے۔ کیا ہمیں ماحولیات یا جھیلوں کے پانی کی ضرورت نہیں ہے۔ جب 1960ءمیں یہ معاہدہ ہوا اور 63,62 میں جب اس پر عملدرآمد شروع ہوا تو صرف سلیمانکی سے لے کر پنجند ایک لاکھ 72 ہزار کیوسک چھوٹے حصہ کے جھونپڑوں میں رہنے والے ستلج کے دونوں طرف بہاولپور کی سائیڈ پر بھی جو ایک لاکھ 72 ہزار ماہی گیر بیروز گار ہو گئے تھے۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں انڈس بیسن کے پاکستانی کمشنر جماعت علی شاہ تھے، جن پر الزام تھا کہ وہ انڈین مفادات کی ترجمانی کرتے تھے وہ پھر فرار ہو گئے۔ سالانہ 25 بلین انڈین روپے فنڈ ملے جو یہ خرچ نہیں کر سکتے، 5 ارب خرچ کرنے ہیں تو سنٹرل بینک آف انڈیا فوراب 5 ارب جمع کروا کر 25 ملین پورا کر دیتا ہے۔ انڈین واٹر کمیشن والے ہر سال پاکستان کے پاس منتیں سماجتیں کرتے ہیں۔ لاہور میں انڈس واٹر کمیشن کا چھوٹا سا دفتر ہے، میرے خیال میں اس کا سٹاف ڈیڑھ دو سو افراد پر مشتمل ہونا چاہئے جس میں ماہرین شامل ہوں۔ مجھے ایک افسر نے بتایا کہ بھارت اپنے مختلف ایجنڈوں میں ہمارے خاص جگہوں پر بیٹھے لوگوں کو ماہانہ پیسے دیتا ہے جس کی وجہ سے وہ خاموش رہتے ہیں۔پانی کے معاہدے کو 58 برس ہو چکے، کبھی کسی نے نہیں پڑھا اور سوچا کہ اگر انڈیا ہمارے دریاﺅں پر حق رکھتا ہے تو اپنے دریاﺅں کا پانی ہمارے لئے کیوں بند کر رکھا ہے۔ سابق ریاست بہاولپور کے نواب نے جب چولستان کا علاقہ آباد کرنا شروع کیا تو وہاں مٹی کے کشتے تھے یعنی نہریں بننا تھیں۔ سلیمانکی سے جو نہریں آتی تھیں وہ آگے چولستان جانی تھیں۔ بہاولپور میں چولستان کے بارے میں جو دستاویزات ہیں اس میں درج ہے کہ یہاں ”فوڈ باسکٹ آف پاکستان“ بن رہا ہے جب ستلج سے پانی آ جائے گا۔ جب میں ملتان سے میٹرک کر کے لاہور آیا تھا تو راوی میں بے تحاشا پانی آتا تھا، میں خود اس میں بوٹنگ کرتا رہا ہوں۔ اس زمانے میں زیر زمین 12 سے 14 فٹ پر پینے کا میٹھا پانی مل جاتا تھا۔ اب سارے لاہور کے ٹیوب ویل ساڑھے 6 سو فٹ اور آخری ٹیوب ویل پنجاب اسمبلی کے عقب میں 1350 فٹ نیچے سے پانی لے رہا ہے۔ دریاﺅں کے چارج نہ ہونے کے باعث پانی اتنا نیچے چلا گیا ہے، اگر دریاﺅں کی ری چارجنگ نہیں کرتے تو 15 برسوں میں پاکستان دنیا کے ان 5 ممالک میں شامل ہو گا جہاں پینے کے پانی کی قلت ہے۔ میری رٹ ذاتی نہیں، بہت مطالعہ و ریسرچ کی، کبھی کسی کو پانی کے حوالے سے بات کرتے نہیں سنا۔ میرا موقف ہے کہ سپریم کورٹ حکومت پاکستان کو مجبور کرے، یہ معاملہ عالمی مصالحتی عدالت میں پہنچے اس سے پہلے بھارت سے مذاکرات ہوں اگر راوی و ستلج میں 15 سے 20 فیصد پانی بھی آ جائے تو ملک کا مستقبل بچ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سنکیا دنیا کا خطرناک ترین زہر ہے جسے زیر زمین پانی آئے ہوئے 11 واں سال ہے۔ ہیپاٹائٹس، کینسر، جلدی امراض سمیت مختلف بیماریاں پھوٹ پڑی ہیں۔ راوی میں پورے لاہور کے سیوریج کا پانی آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کی پانی کی 56 کمپنیوں کے حقائق بھی سامنے آ جائیں گے، اگر یہ کام کر رہی ہوتیں تو شہباز شریف صاحب سب سے پہلے میں آپ کو سلیوٹ کرتا کہ آپ نے لاہور کو بچا لیا ہے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv