تازہ تر ین

مینگوفورم کے شرکاءکاشکریہ”خبریں“ باغبانوں کے مسائل اجاگرکرنے میں کردارادا کرتارہے گا: چیف ایڈیٹرضیا شاہد

ملتان (اہتمام:سجاد بخاری، رپورٹ:طارق اسماعیل، رانا طارق، تصاویر:خالد اسماعیل) آم کا دارالخلافہ سمجھے جانے والے ملتان سمیت مرکزی علاقوں میں آم کی پیداوار اور ایکسپورٹ میں کمی کی وجوہات جاننے کیلئے عدنان شاہد فورم ہال میں ”مینگو فورم“ کا انعقاد کیا گیا۔ ”خبریں“ گروپ آف نیوز پیپرز کے زیر اہتمام ہونے والے مینگو فورم کی صدارت چیف ایڈیٹر ”خبریں“ جناب ضیاشاہد نے کی۔ مینگو فورم میں گفتگو کرتے ہوئے مینگو گروورز اور ماہرین نے کہا کہ باغات کے علاقوں میں رہائشی کالونیاں بنانے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ زرعی زمینوں پر نئی کالونیاں بنانے والوں کی حوصلہ شکنی کیلئے مو¿ثر قانون سازی کی جائے۔ بے ہنگم اربنائزیشن بند کی جائے۔ مینگو فورم کے شرکاءنے کہا کہ آم کی پیداوار، ایکسپورٹ بڑھانے اور باغبانوں کی بہتری کیلئے مو¿ثر اور دیرپا ہارٹیکلچر پالیسی بنائی جائے جس میں تمام سٹیک ہولڈرز کے مفادات کا تحفظ ہو۔ مینگو گروورز نے کہا کہ بیورو کریسی بند کمروں میں بیٹھ کر متنازعہ پالیسیاں بنانے سے باز رہے۔ آم کی پیداوار بڑھانے کیلئے جدید زرعی پیداواری ٹیکنالوجی کو فروغ دیا جائے۔ آم کی پیداوار اور ایکسپورٹ میں کمی کے عنوان سے ہونے والے مینگو فورم میں محمد نوازشریف زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر آصف علی، پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد رجوانہ، ڈائریکٹر مینگو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ڈاکٹر اللہ بخش ملک، ترقی پسند مینگو گروور میجر (ر) طارق خان، ملک جہانزیب دھرالہ، مظفر حیات خاکوانی، زاہد حسین گردیزی، میاں نور الحق جھنڈیر، پروفیسر ڈاکٹر ناظم حسین لابر، خواجہ محمد شعیب، ملک سرفراز بھٹی، نوید عصمت کاہلوں، میاں سلیم محمود کملانہ، ڈاکٹر طارق ملک، رازش لیاقت پوری، ملک عامر نذیر بُچہ، ناصر عباس جعفری، رانا آصف، اعظم صابری، پروفیسر ڈاکٹر شفقت سعید، ڈاکٹر سجاد حسین، ڈاکٹر محمد امین، محمد شہزاد ظفر، عبدالمعید اور ڈاکٹر جام نیاز سمیت شرکاءنے شرکت کی۔ روزنامہ ”خبریں“ ملتان کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر میاں غفار احمد نے میزبانی کے فرائض انجام دیئے۔ محمد نواز شریف زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر آصف علی نے مینگو فورم میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں آم کے نئے باغات جدید پیداواری ٹیکنالوجی کے مطابق لگا کر ان کی مینجمنٹ کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ آم کی پیداوار، ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے ریسرچ ڈویلپمنٹ، سپلائی چین، ویلیو ایڈیشن اور باغبانوں کی تربیت سمیت تمام امور پر توجہ دینا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ مسائل بہت زیادہ ہیں اور مل کر حل کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ملتان سمیت خطے کے آم کے باغبانوں کے کاروباری رابطے تیز کرنے سمیت مختلف امور کیلئے ملتان میں14 جولائی سے 3روزہ مینگو فیسٹیول کا انعقاد کرایا جا رہا ہے جس میں غیر ملکی سفیر بھی شریک ہوں گے۔ انہوں نے بتایا کہ رواں سال مینگو فیسٹیول میں محمد نوازشریف زرعی یونیورسٹی کے ساتھ بہاءالدین زکریا یونیورسٹی بھی شامل ہوئی ہے۔ محمد نوازشریف زرعی یونیورسٹی ملتان کے پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد رجوانہ نے مینگو فورم میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ باغات کو کاٹ کر ہاﺅسنگ کالونیاں بنائی جا رہی ہیں جس سے درخت کٹنے کا سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئے شہر آباد کئے جائیں اور رہائشی کالونیاں آم کے باغات سے 15کلومیٹر دور کے علاقوں میں بنائی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈی ایچ اے سمیت تمام نئی کالونیاں ہیڈ محمد والا سمیت ریت کے ٹیلوں کے علاقوں میں بنائی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ باغات اور زرعی زمینوں پر رہائشی کالونیوں کے حوالے سے قانون سازی کی جائے۔ ڈاکٹر اشتیاق رجوانہ نے کہا کہ ان کے خاندان کی چوتھی نسل آم کے باغات اور تحقیق میں ہے اور حکومت نے ان کے باغ کی جگہ رہائشی کالونی بنانے کیلئے کیس کیا ہوا ہے اور وہ اپنے باغات بچانے کیلئے عدالت میں کیس لڑ رہے ہیں۔ مینگو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ملتان کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اللہ بخش ملک نے کہا کہ آم کی پیداوار بڑھانے کیلئے ہمیں باغات میں کام کرنے والوں کی تربیت کے ساتھ نرسری پر توجہ دینا ہوگی تاکہ صحت مند پودے فراہم کرکے ہم بہتر پیداوار حاصل کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم صرف آم توڑنے والوں کی تربیت کرکے تین ارب روپے اضافی کما سکتے ہیں۔ ڈاکٹر اللہ بخش ملک نے کہا کہ مینگو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے باغبانوں کو بہترین اقسام کے پودے فراہم کرنے کا ہدف 4 ہزار سے بڑھا کر 50 ہزار کر دیا ہے اور باغبانوں کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرنے کو تیار ہیں۔ ترقی پسند باغبان ایکسپورٹر ملک جہانزیب دھرالہ نے کہا کہ ہمیں آم ایکسپورٹ کرنے سے پہلے اس کی پیداوار پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ باغبانوں کو باغات کے پتے اور زمینوں کی مٹی کے تجزیئے کی سہولت نہیں ہے صرف پتوں کا ٹیسٹ20ہزار روپے میں ہو رہا ہے۔ معیاری کھادیں مقررہ وقت پر نہیں ملتیں۔ آم کے باغات پر حملہ آور ہونے والی فروٹ فلائی کو کنٹرول کرنے کیلئے اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی سطح پر باغات کی زمینیں اور دوسری اشیاءکے تجزیئے کی سہولت دی جائے۔ کاشتکار میاں نور الحق جھنڈیر نے مینگو فورم میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب سے زیر زمین پانی کی سطح گرنا شروع ہوئی ہے آم کے باغات تباہی کا شکار ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ باغات کو بچانے کیلئے واٹر ٹیبل اپ کرنے کیلئے پانی کی کمی کا مسئلہ سنجیدگی سے لیا جائے۔ زرعی ماہرین اور سائنسدان کم اخراجات اور وقت میں زیادہ پیداوار دینے والی اقسام تیار کریں۔ باغات کی بیماریوں کو کنٹرول کرنے کیلئے سنجیدگی سے منصوبہ شروع کیا جائے۔ معروف پلانٹ پیتھالوجسٹ اور سینئر زرعی سائنسدان ملک عامر نذیر بُچہ نے کہا کہ ہمیں آم کی پیداوار لینے کے فوری بعد ہی اگلے فروٹنگ سیزن کی تیاری شروع کردینی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے باغات بوران کی شدید کمی کا شکار ہیں۔ ہمیں باغات کے اجزائے خوراکی وقت پر دینا ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ باغات کی بہتر مینجمنٹ کرکے باغبان آم کی بھرپور پیداوار لے سکتا ہے۔ ترقی پسند باغبان میجر (ر) طارق خان نے ”مینگو فورم“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم 18 لاکھ ٹن آم پیدا کرنے کے باوجود صرف نصف فیصد ایکسپورٹ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا آم کے علاقے میں ایکسپورٹ کی سہولیات نہیں ہیں۔ آم سے دوسری مصنوعات کی تیاری کی بھی سہولیات نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت میں تحفظ خوراک اور تحقیق اور تجارت کی وزارتوں کی عدم توجہی اور ناقص منصوبہ بندی نے آم کی ایکسپورٹ کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحفظ خوراک اور تحقیق کے وفاقی وزیر سکندر حیات بوسن کا تعلق ناصرف اس خطے کی کاشتکار فیملی سے ہے بلکہ ان کے باغات بھی ہیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے باغات کے علاقوں کی ترقی اور باغبانوں کی بہتری کیلئے اقدامات نہیں کئے۔ انہوں نے کہا کہ آم کی ایکسپورٹ میں ہماری قومی ائیر لائن پی آئی اے نے سب سے پہلے فی کلو سرکاری کرایوں کا شیڈول جاری کر دیا تھا جس کے بعد دوسری کمپنیوں نے بھی قیمتیں بڑھا دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بیوروکریسی بند کمروں میں بیٹھ کر باغات سے متعلق پالیسی بنانے سے باز رہے بلکہ اس میں باغبانوں کو اہم سٹیک ہولڈرز سمجھا جائے اور انہیں پالیسی بناتے وقت شامل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ سٹیک ہولڈرز کو کبھی نہیں پوچھا گیا ہم تمام باغبان مسائل حل کرانے کیلئے یکجا ہیں مگر ہماری آواز ایوانوں میں دب جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابق وفاقی وزیر سکندر حیات بوسن کے دور میں سب سے زیادہ نقصان آم کے باغبان کو ہوا ہے اور آم کی ایکسپورٹ میں بھی ریکارڈ کمی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آم سے متعلق چھوٹی صنعتیں لگانے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ ترقی پسند مینگو گروور زاہد حسین گردیزی نے کہا کہ کبھی کبھی باغبانوں کو دبئی سے زیادہ لاہور کی مارکیٹ میں بھی آم کی زیادہ قیمت مل جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ باغبانوں کو تمام زرعی مداخل پر سبسڈی دی جائے۔ ایکسپورٹ پر مراعات دی جائیں اور ایکسپورٹ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ باغات کے علاقوں میں رہائشی کالونیاں بنانے پر پابندی عائد کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت مو¿ثر ہارٹیکلچر پالیسی بنائے جس میں تمام سٹیک ہولڈرز کو شامل رکھا جائے۔ ترقی پسند‘ باغبان‘ مینگو گروور ملک سرفراز بھٹی نے ”مینگو فورم“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں صاف پانی ضائع کرنے سے بچانا ہوگا۔ باغات کو ڈرپ اری گیشن پر منتقل کیا جائے اور حکومت اس سلسلے میں باغبانوں کو سبسڈی دے۔ مینگو ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے سینئر پلانٹ پتھالوجسٹ ڈاکٹر طارق ملک نے کہا کہ باغبانوں کو چاہےے کہ وہ ماہرین کی سفارشات پر عمل پیرا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ آم کے باغات کو نقصان سے دوچار کرنے والی سڈنی ڈیتھ (کوئیک ڈیکلائن) کی وجوہات 10سال کی تحقیق کے بعد قابو پالیا گیا ہے اور اب اس سلسلے میں باغبانوں کا بھی تعاون درکار ہے۔ مینگو ایکسپورٹر اعظم صابری نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آم کی ایکسپورٹ کرنے والوں کو حکومت کی طرف سے کسی قسم کا تعاون نہیں ہے انہیں قدم قدم پر رشوت دے کر اپنے ملک کی عزت اور مال بچانا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سٹیٹ بینک ایکسپورٹرز کے لئے زرمبادلہ جمع کرانے کی مدت 30روز سے بڑھاکر 90روز کرے۔ شپنگ لائنز کو مانیٹر کیا جائے۔ انجینئر ممتاز احمد خان نے کہا کہ پانی کی کمی کا مسئلہ حل کیا جائے اور زراعت‘ باغات کی بقاءکے لئے پانی کو محفوظ کیا جائے اور اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جائے۔ ترقی پسند مینگو گروورمظفرحیات خاکوانی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے کبھی بھی کسی فورم پر کاشتکاروں کو سپورٹ نہ کیا۔ کسی بھی جگہ کھاد اور زرعی ادویات پر سبسڈی نہ دی۔ اگر اعلان کیا گیا تو سبسڈی حاصل کرنے کے لئے اس عمل کو اتنا مشکل بنادیا گیا کہ وہ کسان کو مل ہی نہ سکی جبکہ فصل آنے پر حکومت کی عدم توجہی کی وجہ کسان کو فصل کا صحیح ریٹ نہ مل سکا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک حکومت کسانوں کو سپورٹ نہیں کرے گی اور واضح پالیسی نہیں دیتی کسان کو کسی بھی فصل میں فائدہ نہیں مل سکتا چاہے وہ آم کی فصل ہو یا کوئی اور فصل آم کی ایکسپورٹ بغیر حکومت کے کامیاب نہیں ہوسکتی اور نہ ہی بڑھ سکتی ہے۔ ترقی پسند مینگو گروور میاں سلیم محمود کملانہ نے کہا کہ حکومت کی کسی بھی شعبہ میں پالیسی واضح نہ ہے جن کی وجہ سے کوئی بھی ادارہ اپنی پالیسی نافذ کرنے میں ناکام نظر آتا ہے۔ آم سے متعلق ایکسپورٹ کے مراحل اتنے تکلیف دہ ہیں کہ آم کی فصل کاشت کرنے کو دل نہیں چاہتا۔ نہ تو آم کی بہتر فصل کے لئے شعبہ زراعت کی طرف سے مدد ملتی ہے اور نہ ہی کسی اور ادارے کی طرف سے۔خواجہ محمد شعیب نے کہا کہ آم کی کاشت اور جدید کاشت کے لئے ملک میں کوئی ریسرچ نہیں ہوتی۔ اگر کوئی ریسرچ ہوتی ہے تو وہ دفتر تک محدود رہتی ہے۔ افسران ٹھنڈے کمروں سے نکلیں گے تو کاشتکاروں کو کچھ معلوم ہوگا۔ سرکاری اہلکار کاشتکاروں کی مدد کریں گے تو کسان کو معلوم ہوسکے گا کہ اسے کس فصل میں فائدہ ہوگا۔
حنیف کھوکھر کے مطابق پاکستان کے اکثر علاقوں میں پانی کی صورتحال ابتر ہے۔ پانی کی سطح نیچے جانے کی وجہ سے آم کی فصل کو مطلوبہ پانی نہیں ملتا ہے جس کی وجہ سے فصل متاثر ہورہی ہے اور آم کی جدید ورائٹیوں کے بارے کسانوں کو کوئی علم نہ ہے اور اس کے بارے میں نہیں جانتے جس سے آم کی فصل دن بدن کم ہورہی ہے اور اس سے ایکسپورٹ پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
ناصر عباس جعفری جنرل سیکرٹری مینگو گروور نے کہا کہ آم کی ایکسپورٹ میں کمی کی ایک وجہ یہ ہے کہ پی آئی اے نے اپنے ریٹ اتنے زیادہ کررکھے ہیں کہ خرچ زیادہ آتا ہے اور منافع نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ ہر انسان اور کسان منافع کے لئے فصل کاشت کرتا ہے اگر نہ ملے تو اس کا کیا فائدہ۔ پی آئی اے کے زیادہ کرایے کی وجہ سے دوسری ایئرلائنز بھی کرایہ جات بڑھا دیتی ہیں جس پر آم بھیجنے پر نقصان ہوتا ہے۔
جہانزیب خالد نے کہا کہ وہ عرصہ دراز سے آم کی کاشت کرتے چلے آرہے ہیں لیکن آم کی نشوونما کے لئے استعمال ہونے والی زرعی ادویات ناقص اور نچلے گریڈ کی ہوتی ہیں۔ ادویات فروخت کرنے والی کمپنیاں چائنہ سے ایسی ادویات منگواتی ہیں جوکہ قیمت میں سستی ہوں اور کوالٹی میں نچلے درجے کی ہوں۔ ادویات فروخت کرنے والی کمپنیاں اپنا تو منافع کما لیتی ہیں لیکن کسانوں کو نقصان پہنچاتی ہیں جبکہ حکومت بھی ان کے خلاف کارروائی نہیں کرتی۔
محمد عبداﷲ جوکہ ملتان کے مشہور آم ایکسپورٹر ہیں‘ نے کہا کہ ملتان انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے بتائے وقت پر گیا تھا کہ آم کی ایکسپورٹ کے لئے یہاں پر باہر آم بھجوانے کے لئے ہر قسم کی سہولت دی جائے گی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا اور نہ ہی کوئی ایسی سہولت یہاں پر دی گئی جس سے آم ایکسپورٹ کرنے میں آسانی ہو اور اخراجات کم ہوں۔ حکومت نے کبھی بھی ایکسپورٹ کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی نہ دی صرف لفظوں کے ذریعے سے کسانوں کو ٹھنڈا کیا گیا۔
زرعی یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد امین نے کہا کہ جنوبی پنجاب سے 70فیصد آم حاصل ہوتا ہے‘ سندھ سے 28فیصد اور باقی صوبوں سے 2فیصد فصل آم کی ہوتی ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ایکسپورٹ میں ہر سال کمی ہورہی ہے۔ یونیورسٹی کے لیول پر ہر سال آم کی ایکسپورٹ کے حوالے سے سیمینارز اور آگاہی پروگرامز کررہے ہیں اور اس سلسلہ میں کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں کہ آم کی ایکسپورٹ بڑھے۔
شکیل نیازی نے آم کی کاشت اور ایکسپورٹ کے حوالے سے کہا کہ اربنائزیشن کی وجہ سے آم کی فصل برباد ہورہی ہے۔ جب آم کی پروڈکشن ہی نہ ہوگی تو ایکسپورٹ کیسے ممکن ہوگی اور ایکسپورٹ کیسے بڑھ سکے گی۔ مختلف ہاو¿سنگ کالونیوں کی وجہ سے ہزاروں ایکڑ پر مشتمل آم کی فصل کٹ چکی ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر جام نیاز احمد نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آم کے پودوں میں خوراک کی کمی اور متوازن کھادوں کی فراہمی کے حوالے سے ایک پروگرام شروع کیا جارہا ہے جس میں ملتان‘ مظفرگڑھ سمیت آم کے باغات کے علاقوں کو شامل کیا جارہا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر ناظم حسین لابر نے کہا کہ باغبانوں کو اپنی ترجیحات تبدیل کرکے ماہرین کے مشورہ پر عمل کرنا ہوگا۔
مینگو پلپ پلانٹ کے انچارج عبدالمعید نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ باغبانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے باغات کی پیداوار مینگو پلپ پلانٹس پر لے آئیں اور کئی گنا زیادہ آمدنی کمائیں۔ انہوں نے کہا کہ ترقی پسند باغبان مل کر بھی اس طرح کے پلانٹس لگاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مینگو پلپ پلانٹ کی استعداد کار بڑھائی جارہی ہے۔
روزنامہ ”خبریں“ کے چیف ایڈیٹر جناب ضیاشاہد نے مینگو فورم کے شرکاءکا شکریہ ادا کیا اور گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”خبریں“ باغبانوں کے مسائل ایوانوں اور پالیسی سازوں تک پہنچانے کے لئے اپنا کردارادا کرتا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ”خبریں“ نے پہلے بھی کاشتکار کی آواز کھیت کھلیانوں سے ایوانوں تک پہنچائی ہے اور آئندہ بھی اپنا کردارادا کرتا رہے گا۔
محکمہ زرعی اطلاعات کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر نوید عصمت کاہلوں نے مینگو فورم میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پنجاب کی طرف سے باغات کی بحالی اور باغبانوں کی بہتری کے لئے مختلف منصوبے شروع کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ باغبانوں کو جدید زرعی پیداواری ٹیکنالوجی اپنانے کے لئے زرعی مشینری اور آلات پر سبسڈی فراہم کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv