اسلام آباد(نامہ نگار خصوصی) آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر حکومت اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان مذاکرات ہوئے س میںمسلم لیگ (ن) نے حمایت کا فیصلہ کرلیا ۔حکومتی وفد نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرکے چیمبر میں مسلم لیگ (ن) کے وفد سے ملاقات کی۔ حکومت کی نمائندگی پرویز خٹک، قائد ایوان سینیٹ شبلی فراز اوراعظم سواتی نے کی جبکہ مسلم لیگ (ن )کی جانب سے خواجہ آصف، سردار ایاز صادق، رانا تنویر سمیت دیگر رہنما ملاقات میں شریک ہوئے۔حکومتی وفدنے مسلم لیگ ن سے آرمی چیف کی مدت ملازمت سے متعلق قانون سازی پر حمایت کی درخواست کی۔نجی ٹی وی کے مطابق مسلم لیگ (ن)نے آرمی چیف کی مد ت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے ترمیم کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے اور یہ فیصلہ قیادت کی طرف سے پیغام میں ملنے کے بعد کیا گیا ۔بعدازاں پرویز خٹک نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پراپوزیشن سے رابطے جاری ہیں، ن لیگ کے بعد دیگر اپوزیشن سے بھی رابطے کریں گے، امید ہے شام تک مشاورت مکمل کرلیں گے جس کے بعد معاملے کو پارلیمنٹ میں اٹھائیں گے۔دوسری جانب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق آرمی ایکٹ میں ترمیم کا بل آج قومی اسمبلی میں پیش کئے جانے کا امکان ہے۔ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ آرمی ایکٹ پر ممکنہ قانون سازی کے تناظر میں پارلیمانی قواعد وضوابط پر عمل نہیں کیا جارہا، پیپلزپارٹی جمہوری قانون سازی کو مثبت طریقے سے کرنا چاہتی ہے ،کچھ سیاسی جماعتیں قانون سازی کے قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھنا چاہتی ہیں۔جمعرات کو آرمی ایکٹ میں ترمیم کے معاملے پر تین رکنی حکومتی وفد پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت سے ملاقات کےلئے زرداری ہاو¿س پہنچا، وفد کی سربراہی وفاقی وزیر پرویز خٹک کررہے تھے جبکہ وفد میں قاسم سوری اور علی محمد خان شامل تھے، حکومتی وفد نے پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو آرمی ایکٹ کے حوالے سے قانون سازی سمیت اس سے متعلقہ صورت حال پر بریفنگ دی۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے ملاقات کرنے والوں میں راجہ پرویزاشرف، نیئر بخاری شیری رحمان، رضا ربانی، شازیہ مری اور نوید قمر بھی شامل تھے، پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ آرمی ایکٹ پر ممکنہ قانون سازی کے تناظر میں پارلیمانی قواعد وضوابط پر عمل نہیں کیا جارہا، پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حکومتی وفد کے اراکین سے کہا کہ آرمی ایکٹ پر قانون سازی کے سلسلے میں پارلیمانی قواعد و ضوابط کو بروئے کار لایا جائے، پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سماجی رابطے کی ایک ویب سائٹ پر اپنے پیغام میں کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی جمہوری قانون سازی کو مثبت طریقے سے کرنا چاہتی ہے جبکہ کچھ سیاسی جماعتیں قانون سازی کے قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھنا چاہتی ہیں، پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ جتنی اہم قانون سازی ہے، اتنا ہی اہم ہمارے لئے جمہوری عمل کی پاسداری ہے، انہوں نے بتایا کہ پاکستان پیپلزپارٹی اس معاملے پر دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لے گی۔ حکومت نے پیپلز پارٹی سے آرمی ایکٹ میں ترمیم پر حمایت مانگ لی۔حکومتی وفد نے پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرادری سے ملاقات کی اور آرمی ایکٹ کے حوالے سے قانون سازی سمیت اس سے متعلقہ صورت حال پر بریفنگ دی۔پیپلزپارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بل پاس کرانے کے حکومتی طریقہ کارپرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ پر ممکنہ قانون سازی کے تناظر میں پارلیمانی قواعد وضوابط پر عمل نہیں کیا جارہا، پیپلزپارٹی جمہوری قانون سازی کو مثبت طریقے سے کرنا چاہتی ہے، کچھ سیاسی جماعتیں قانون سازی کے قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھنا چاہتی ہیں،جتنی اہم قانون سازی ہے، اتنا ہی اہم ہمارے لئے جمہوری عمل کی پاسداری ہے،پیپلزپارٹی اس معاملے پر دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لے گی۔ آرمی ایکٹ میں ترمیم کا بل (آج)جمعہ کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں (قومی اسمبلی ،سینیٹ) میں پیش کیا جائیگا۔وزیراعظم عمران خان قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت کریں گے،عمران خان پارلیمنٹ ہاﺅس میں تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی اجلاس کی صدارت بھی کرینگے۔ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان(آج)جمعہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔وزیراعظم قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت سے پہلے پارلیمنٹ ہاﺅس میں صبح 10بجے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی صدارت کریں گے۔، اجلاس میں آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی پارلیمنٹ سے منظوری کی حکمت عملی طے ہوگی۔وزیراعظم نے پارلیمانی پارٹی میں شامل تمام ارکان کو حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کر دی ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں آرمی ایکٹ میں ترمیم کے حوالے سے حکومت کی جانب مسودہ پیشقومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش کیا جائیگا۔آرمی ایکٹ میں ترمیم کے حکومتی مسودے کو پاکستان آرمی ترمیمی ایکٹ 2020کا نام دیا گیا ہے۔مسودے کے مطابق آرمی چیف کی مدت ملازمت تین برس ہو گی جس میں مزید تین سال کی توسیع کی جا سکے گی۔پاک فوج کے سربراہ کی تعیناتی یا توسیع صدر پاکستان وزیراعظم کے مشورے پر کریں گے اور اسے عدالت میں کسی صورت چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ وفاقی وزیر برائے دفاع پریز خٹک نے اہم ورک مکمل کرلیا ہے اہم جماعتیں سرکاری بل کے تحت آرمی ایکٹ میں ترامیم پر آمادہ ہوگئی ہیں ۔ قانون سازی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی 33ارکان پر مشتمل ہے اہم نشست ہوئی ہے ۔کمیٹی ممبران میں وفاقی وزرا ، حکومت اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی و سینٹ شامل ہیں۔سینیٹ سے شبلی فراز ، راجہ محمد ظفر الحق ، مشاہد اللہ خان،شیری رحمان ، مولانا عبدالغور حیدری، سراج الحق، قومی اسمبلی سے رانا تنویر حسین، سردار ایاز صادق، مرتضی جاوید عباسی ، راجہ پرویز اشرف ، سیدنوید قمر،غوث بخش مہر، خالد مگسی ، شاہدہ اختر علی، امیرحیدر خان ہوتی ، محسن داوڑ وزیر دفاع پرویز خٹک کے علاوہ وفاقی وزرا شاہ محمود قریشی ، اسد عمر، چوہدری طارق بشیر چیمہ ، ڈاکٹر محمد فروغ نسیم ، اعظم خان سواتی، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی شامل، وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان ملک محمد عامر ڈوگر شامل ہیں۔اسی طرح سینیٹ سے ستارہ ایاز، بیرسٹر محمدعلی خان سیف، انوار الحق کاکڑ ، مظفر حسین شاہ، جہانزیب جمال الدینی ،اورنگزیب خان، میر قدیر احمد محمد ساہی بھی کمیٹی میں شامل ہیں۔کمیٹی نے ایجنڈاطے کرلیا ہے اہم جماعتیں سرکاری بل کے تحت آرمی ایکٹ میں ترامیم پر آمادہ ہوگئی ہیں۔ وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا ہے کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کے حوالے سے اپوزیشن کی ہر طرح سے تسلی ہوگئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے آرمی ایکٹ میں ترمیمی بل پر پارلیمانی جماعتوں کا مشاورتی اجلاس ہوا جس میں وفاقی وزیر فروغ نسیم نے شرکاء کو بریف کیا۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے مختصر بات چیت میں فروغ نسیم نے بتایا کہ آرمی ایکٹ پر تمام سیاسی جماعتوں کو بریفنگ دی ہے جو سوالات تھے ان کے جوابات دیئے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے حساب سے اپوزیشن کی ہرطرح سے تسلی ہوئی تاہم کل صبح ساڑھے 10بجے دوبارہ پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ہوگا۔
Monthly Archives: January 2020
سکھر میں عمارت گرنے سے 3 افراد زخمی
سکھر (ویب ڈیسک)سندھ کے ضلع سکھر کے اسٹیشن روڈ پر تین منزلہ عمارت گرنے سے 3 افراد زخمی ہوگئے جبکہ 10 سے زائد افراد کے ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ ہے۔ریسکیو ذرائع نے کہا کہ عمارت کے ملبے سے ایک بچے سمیت 3 افراد کو زخمی حال میں نکال لیا گیا ہے۔ذرائع نے کہا کہ 15 سے 17 افراد کے اب بھی عمارت کے ملبے تلے دبے ہونے کا خطرہ ہے۔تاہم انتظامیہ نے اب تک اس حوالے سے کچھ نہیں بتایا کہ عمارت گرنے کے وقت اس میں کتنے افراد موجود تھے۔گرنے والی تین منزلہ عمارت کے نچلے حصے میں دکانیں قائم تھیں جبکہ عمارت میں 4 سے 5 خاندان مقیم تھے۔عمارت کا ملبہ ہٹانے کے لیے کرین بلالی گئی ہے جبکہ عمارت گرنے سے علاقے کو بجلی کی فراہمی معطل ہو گئی۔وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے عمارت گرنے کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے کمشنر سکھر کو ٹیلی فون کرکے ملبے تلے پھنسے لوگوں کو فوری نکالنے کی ہدایت کی۔انہوں نے کمشنر سکھر کو عمارت گرنے کے اسباب پر تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی۔واضح رہے کہ 30 دسمبر کو کراچی کے علاقے رنچھوڑ لائن میں تقریباً 15 سال قبل تعمیر کی گئی 6 منزلہ رہائشی عمارت زمین بوس ہوگئی تھی، تاہم خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔عمارت ایک طرف جھک گئی تھی جس کے بعد سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کے حکام نے عمارت کو مخدوش قرار دیتے ہوئے اسے مکینوں سے خالی کروا دیا تھا۔پیر کی صبح عمارت کے ایک حصے کے جھکنے کی وجہ سے مکینوں کے ساتھ ساتھ اطراف میں موجود دکانوں کو بھی خالی کرا لیا گیا تھا اور پولیس اور رینجرز نے گلی کو دونوں طرف سے بند کرکے آمد و رفت کا سلسلہ منقطع کردیا تھا۔رپورٹس کے مطابق مذکورہ عمارت میں 18 فلیٹس تھے اور زمین بوس ہونے سے قبل عمارت کی بجلی اور گیس بھی منقطع کر دی گئی تھی۔
وزیراعظم عمران خان سے ابوظبی کے ولی عہد کی ملاقات
اسلام آباد (ویب ڈیسک)ابوظبی کے ولی عہد و متحدہ عرب امارات کے ڈپٹی سپریم کمانڈر شیخ محمد بن زاید النہیان اعلیٰ سطح وفد کے ہمراہ ایک روزہ دورے پر پاکستان پہنچ گئے، جہاں انہوں نے وزیر اعظم عمران خان سے ون آن ون ملاقات بھی کی۔وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے نور خان ایئربیس پر ابوظبی کے ولی عہد کا طیارہ لینڈ کیا، جہاں وزیراعظم عمران خان نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔اس موقع پر انہیں گلدستہ پیش کیا گیا، جس کے بعد وزیراعظم عمران خان، ابوظبی کے ولی عہد کے لیے گاڑی خود چلاتے ہوئے ایئرپورٹ سے روانہ ہوئے۔واضح رہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان کا دورہ کرنے والے کسی مہمان کے لیے خود گاڑی چلائی، اس سے قبل بھی وہ متعدد مرتبہ ایسا کرچکے ہیں۔بعد ازاں عمران خان اور ابوظبی کے ولی عہد کی ون آن ون ملاقات ہوئی، جس میں باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔اس حوالے سے ولی عہد نے ایک ٹوئٹ بھی کی اور اس میں لکھا کہ وہ اپنے ‘دوست عمران خان’ سے ملے اور ‘دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعلقات کو بڑھانے اور مشترکہ علاقائی اور عالمی معاملات’ پر تبادلہ خیال کیا۔خیال رہے کہ روسی ٹوڈے ٹی وی کی جانب سے عرب دنیا کی 2019 کی سب سے بااثر شخصیت قرار دیے گئے ولی عہد شیخ محمد زاید بن النہیان کے دورے کا اعلان گزشتہ روز کیا گیا تھا۔اس ملاقات کے دوران دوطرفہ تعلقات سمیت باہمی دلچسپی کے امور کے علاقائی اور بین الاقوامی معاملات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔وزیر اعظم عمران خان نے ابوظبی کے ولی عہد اور یو اے ای کی مسلح افواج کے ڈپٹی سپریم کمانڈر شیخ محمد بن زاید النہیان کے اعزاز میں ظہرانہ بھی دیا۔اس موقع پر وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر اور وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب اور یو اے ای کے وفد کے ارکان بھی موجود تھے۔اماراتی ولی عہد شیخ محمد بن زاید النہیان اپنا ایک روزہ دورہ مکمل کر کے واپس وطن روانہ ہو گئے۔خیال رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد میں متحدہ عرب امارات کے سفیر نے بیان میں کہا تھا کہ ولی عہد کے اس دورے کا مقصد دونوں برادر ممالک کے درمیان دوستی کے رشتے کو مزید مضبوط کرنا ہے۔پاکستان پہنچنے والے اماراتی حکمران نے اس سے قبل 6 جنوری 2019 کو پاکستان کا دورہ کیا تھا جبکہ یہ دورہ یو اے ای کی جانب سے پاکستان کی معیشت کی بہتری کے لیے دیے گئے 3 ارب ڈالر کے چند ہفتوں بعد سامنے آیا تھا۔
انڈونیشیا: طوفانی بارشوں اور سیلاب سے 23 افراد ہلاک
انڈونیشیا (ویب ڈیسک)انڈونیشیا میں طوفانی بارشوں کے بعد مٹی کے تودے گرنے اور سیلاب سے 23 افراد ہلاک ہوگئے۔غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق حالیہ چند روز میں آنے والی طوفانی بارشوں کے باعث وسطی جکارتہ میں 3 کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے۔انڈونیشیا کی ڈیزاسٹر ایجنسی نے خبردار کیا کہ مسلسل بارشوں کے باعث مزید سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کا خدشہ ہے اور اموات میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔ڈیزاسٹر ایجنسی کے مطابق لاکھوں مقامی افراد محفوظ مقامات پر نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں۔پورے خطے سے نشر ہونے والی تصویروں میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گھر اور کارویں کیچڑ سے بھر گئیں جبکہ کچھ لوگ ربر کی چھوٹی چھوٹی کشتیوں یا ٹائر ٹیوبوں کے ذریعے محفوظ مقام پر جارہے ہیں۔شہر کے مضافات بیکسی میں پانی عمارتوں کی دوسری منزل تک پہنچ گیا تھا۔امدادی کارکنوں نے گھروں میں پھنسے افراد کو بچانے کے لیے انفلٹیبل کشتیاں استعمال کیں جن میں بچے اور بزرگ بھی شامل تھے۔اس ضمن میں بتایا گیا کہ جکارتہ میں کم از کم 21 افراد ہلاک ہوئے جبکہ جاوا جزیرے کے جنوبی حصہ پر پڑوسی ملک لِبک میں عیاری کے سیلاب سے 2 افراد ہلاک ہوگئے۔علاوہ ازیں سماجی امور کے وزیر جولاری پیٹر بتوبارا نے بتایا کہ ‘ہم امید کرتے ہیں کہ اموات کی تعداد اس سے زیادہ نہیں ہوگی’۔مقامی ڈیزاسٹر ایجنسی نے لیبک نامی مقام پر دو رہائشیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی۔تاہم ڈیزاسٹر ایجنسی ان اطلاعات کی تحقیقات کر رہی ہے کہ کیا 3 افراد مزید ہلاک ہوئے۔لیبک میں پولیس نے بتایا کہ وہ 8 افراد کی تلاش کر رہے ہیں جو ابھی تک لاپتہ ہیں۔واضح رہے کہ انڈونیشیا میں مسلسل بارشوں کے بعد لوگوں کو اکثر طوفان کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ تودے گرنے کے واقعات بھی پیش آتے ہیں۔انڈونیشیا میں لاکھوں لوگ پہاڑی علاقوں اور دریا کے کنارے آباد ہیں، جس کے باعث بارشوں کے موسم میں کئی بار بڑا جانی و مالی نقصان ہوتا ہے۔
کاغذ پر تھری ڈی تصویریں بنانے والا مصور
برلن(ویب ڈیسک) ان سے ملیے، یہ ہیں اسٹیفان پابسٹ۔ یہ کاغذ پر ایسی تھری ڈی تصاویر بنانے میں مہارت رکھتے ہیں جنہیں دیکھ کر حقیقت کا گمان ہوتا ہے۔39 سالہ اسٹیفان پابسٹ کہتے ہیں کہ انہوں نے مصوری کا ہنر کہیں سے نہیں سیکھا، بلکہ صرف 5 سال کی عمر سے انہوں نے کاغذ پر آڑی ترچھی لکیریں کھینچ کر ڈرائنگز بنانا شروع کیں اور پھر ذاتی مشاہدے اور مشق سے اپنا ہنر نکھارتے چلے گئے۔وہ سابق سوویت یونین میں پیدا ہوئے لیکن جب وہ 15 سال کے ہوئے تو ان کے والدین انہیں اپنے ساتھ لے کر جرمنی چلے آئے۔ تب سے وہ یہیں کے ہو رہے۔2007 سے انہوں نے کمرشل آرٹسٹ کے طور پر لوگوں کی تصویریں اور پورٹریٹس بنانا شروع کردیں لیکن جلد ہی وہ اس لگے بندھے کام سے اکتا گئے۔ لہذا انہوں نے کچھ الگ کرنے کا سوچا۔مصوری میں انہیں ایسی تصویریں زیادہ پسند ہیں جو کسی خاص زاویئے سے دیکھنے پر تھری ڈی (یعنی پس منظر سے باہر نکلتی ہوئی) دکھائی دیتی ہیں۔ مصوری کی تکنیکی زبان میں ایسی تصویروں کو ”اینامورفک الیوڑن“ کہا جاتا ہے۔
اسٹیفان کے کچھ اور فن پارے ملاحظہ کیجئے۔
ان کی بنائی ہوئی تھری ڈی تصاویر حقیقت سے اتنی قریب ہوتی ہیں کہ بعض لوگوں نے ان کے ”فوٹوشاپ“ ہونے کا الزام بھی۔ اس کے جواب میں اسٹیفان نے مذاقاً کہا کہ خود انہیں بھی حیرت ہوتی ہے کہ وہ ایسی حقیقت سے بھرپور تصویریں کیسے بنا لیتے ہیں۔البتہ، اپنے ناقدین کو جواب دینے کےلیے وہ گاہے گاہے اپنے فیس ب±ک اور انسٹاگرام پیج پر تصویریں بناتے ہوئے اپنی ویڈیوز بھی شیئر کرتے رہتے ہیں تاکہ اعتراض کرنے والوں کو یقین آجائے۔
نیب ترمیمی آرڈیننس کا دفاع، جموریت میں سیاسی مشاورت سے چلنا ہوتا ہے،وزیراعظم عمران خان
اسلام آباد (ویب ڈیسک)وزیر اعظم عمران خان نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے ترمیمی آرڈیننس کو مشکل فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ جمہوریت میں سیاسی مشاورت اور اتفاق رائے سے چلنا ہوتا ہے۔اسلام آباد میں سول سروس سرونٹس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے بتایا کہ نیب کے چیئرمین کو سمجھایا گیا کہ نیب کا مینڈیٹ کرپشن کیسز کو پکڑنا ہوتا ہے اور عالمی سطح پر کریشن کی تعریف صرف اور صرف پبلک آفس کا ناجائز اور ذاتی مفاد کے لیے استعمال ہے۔عمران خان نے کہا کہ نیب کے خوف سے ترقیاتی منصوبوں میں بیوروکریسی کا کردار محدود ہوگیا تھا تاہم نیب میں ترمیم کے ذریعے بیوروکریسی کو ضابطے کی غلطیوں پرنیب کے شکنجے سے بچانا مقصود تھا۔انہوں نے ایک مرتبہ پھر دہرایا کہ ٹیکس کیسز فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے دائرے کار میں آتا ہے جس میں نیب کا عمل دخل نہیں بنتا۔تاجر برادری سے متعلق عمران خان نے کہا کہ تاجر برادری کسی بھی صورت پبلک آفس کو ہولڈ نہیں کرتی، جب وہ کسی پبلک آفس کے ساتھ مل کر اس سے فائدہ اٹھائے تب نیب انہیں اپنی گرفت میں لے سکتا ہے۔وزیراعظم عمران خان نے ملکی قرضوں سے متعلق بتایا کہ ملک میں اس وقت قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ 2008 کے بعد ملک پر 24 ہزار ارب روپے کا قرضہ چڑھا اور ملکی آمدن کا آدھا حصہ قرضوں پر سود کی مد میں چلا جاتا ہے۔علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ ملک میں پیسہ اس وقت آئے گا جب صنعتیں چلیں گی اور معاشی استحکام کے لیے گورننس کے نظام کو بہتر کرنا ہوگا۔وزیراعظم عمران خان نے 2020 کو پاکستان میں ترقی اور خوشحالی کا سال قرار دیا۔واضح رہے کہ 21 اگست کو وفاقی کابینہ نے نیب کے قوانین میں تبدیلی کا فیصلہ کیا تھا۔نیب آرڈیننس میں کی گئیں کچھ ترامیم کے مطابق پراسیکیوٹر جنرل کی تعیناتی میں چیئرمین نیب کا کردار ختم کردیا گیا، نیب انکوائری اور تحقیقات کے مراحل میں عوامی سطح پر کوئی بیان نہیں دے سکتا۔ترامیم کے مطابق نیب اب 90 روز تک کسی مشتبہ شخص کو تحویل میں نہیں لے سکتا کیونکہ اس مدت کو کم کرکے 14 روز کردیا گیا ہے جبکہ ماضی میں مشتبہ شخص پر پڑنے والا ثبوتوں کا بوجھ اب پروسیکیوشن پر ڈال دیا گیا ہے۔اس کے ساتھ ایک ترمیم کے ذریعے احتساب قانون میں انکوائری کی تکمیل کے لیے 60 ماہ کے عرصے کی مہلت شامل کی گئی ہے جبکہ ایک اور شق کے ذریعے نیب کو پابند کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ کارروائی مکمل ہونے کے بعد قومی احتساب بیورو کسی شکایت پر انکوائری / تحقیقات کا دوبارہ آغاز نہیں کرسکتا۔خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے 27 دسمبر کو کراچی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں تاجر برادری کا ایک بڑا مسئلہ قومی احتساب بیورو کی مداخلت تھی تاہم آرڈیننس کے ذریعے نیب کو تاجر برادری سے علیحدہ کر دیا۔ان کا کہنا تھا کہ ‘نیب کو صرف پبلک آفس ہولڈرز کی اسکروٹنی کرنی چاہیے، نیب تاجر برادری کے لیے بہت بڑی رکاوٹ تھی’۔علاوہ ازیں نیب قانون میں ترمیم کے مطابق بیوروکریٹس کی پروسیکیوشن کے لیے چیئرمین نیب، کابینہ اور اسٹیبلشمنٹ سیکریٹریز، فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین اور سیکیورٹز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان اور ڈویڑن برائے قانون و انصاف کے نمائندے پر مشتمل 6 رکنی اسکروٹنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اور ان کی منظوری کے بغیر نیب کسی سرکاری ملازم کے خلاف انکوائری تحقیقات کا آغاز نہیں کرسکتا نہ ہی انہیں گرفتار کرسکتا ہے۔علاوہ ازیں ایک اور ترمیم کے ذریعے نیب کو اسکروٹنی کمیٹی کی پیشگی منظوری کے بغیر کسی پبلک آفس ہولڈر کی جائیداد ضبط کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ایک ترمیم کے مطابق ’ متعلقہ حکام یا محکموں کو انکوائریاں اور تحقیقات منتقل کی جائیں گے‘۔اس کے ساتھ ہی ‘ ٹرائلز کو متعلقہ احتساب عدالتوں سے ٹیکس، لیویز اور محصولات کے متعلقہ قوانین کے تحت نمٹنے والی کرمنل کورٹس میں منتقل کیا جائے گا‘۔
قومی اسمبلی ،گیس کی لوڈشیڈنگ پر اپوزیشن کا احتجاج ،عمر ایوب سے تلخ کلامی
اسلام آ باد ( آ ئی این پی ) قومی اسمبلی میں گیس کی لوڈشیڈنگ اور پریشر میں کمی پر اپوزیشن ارکان نے شدید ج کیا، وزیر توانائی عمر ایوب خان اور اپوزیشن ارکان کی تلخ کلامی ہوئی، اپوزیشن ارکان نے جھوٹا جھوٹا کے نعرے لگائے، انہوں نے مطالبہ کیاکہ جھوٹے وعدے کے بجائے گیس فراہم کی جائے،ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے وزیر توانائی سے استفسار کیا کہ میرے حلقہ میں گیس نہیں ہے، شکایات آرہی ہیں یہاں سے گیس پیدا ہوتی ہے لوگوں کو کیوں نہیں مل رہی وضاحت کریں، پاکستان تحریک انصاف کے رکن جنید اکبر نے بات کرنے کے لئے فلور نہ ملنے پر کھڑے ہو کر احتجا ج کیا اور کہا ہم یہا ں کس لئے آتے ہیں اگر موقع نہیں دیا جاتا ،انہوں نے کاغذات پھاڑ کر پھینک دئیے جبکہ وزیر توانائی عمر ایوب نے کہا کہ موجودہ گیس بحران کی ذمہ دار مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں ہیں،انہوں نے اپنے دور حکومت کے دوران گیس کے تلاش کے منصوبوں پر کوئی کام نہیں کیا اور مہنگی درآمدی گیس پر انحصار بڑھایا،گزشتہ دونوں حکومتوں نے گیس کی پیداوار پر کام نہیں کیا اس کا خمیازہ آج بھگت رہے ہیں، رواں سال تاریخ سازسردی پڑی ہے، سی این جی سیکٹر کو گیس کی فراہمی میں مسائل ایک ماہ تک حل کر لیں گے،بعض علاقوں میں گیس چوری کی وجہ سے گیس کے پریشر میں کمی آئی ہے، سوئی سدرن کو احکامات دیئے ہیں کہ بلوچستان میں پائپ لائن تبدیل کریں ،سوئی سدرن کا ریونیو بلوچستان 6 ارب کا ہے ، 12 ارب کی گیس ضائع ہو رہی ہے ۔ لوگوں کو بل ادا کرنے کے لئے مہم چلا رہے ہیں ۔ بدھ کو قومی اسمبلی میں توجہ دلاﺅ نوٹس پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر توانائی عمر ایوب خان نے کہا کہ پاکستان میں گیس کی طلب زیادہ ہے ۔ طلب اور سپلائی میں فرق بڑھتا جا رہا ہے ۔ گزشتہ دونوں حکومتوں نے گیس کی پیداوار پر کام نہیں کیا اس کا خمیازہ آج بھگت رہے ہیں ۔ درآمدی گیس پر انہوں نے انحصار کیا ۔ گزشتہ 12 ماہ میں 8بلاکس گیس کی تلاش کے لئے دیئے ہیں 18 بلاکس کی نیلامی مزید کرنے جا رہے ہیں ۔ اس وقت تک گزشتہ سال کی نسبت 50 فیصد زیادہ گیس سسٹم میں لائی ہے ۔ رواں سال تاریخ سازسردی پڑی ہے سی این جی سیکٹر ایک ماہ تک قدرتی فلو میں آئے گی۔ موسم کی شدت کی وجہ سے مقامی صارفین کو ترجیح دی ۔ بعض علاقوں میں گیس چوری کی وجہ سے گیس کے پریشر میں کمی آئی ہے ۔ سندھ حکومت معاملہ پر سیاست نہ کرتی تو وہاں کے صارفین کو مشکلات نہ آتی ۔ اس وقت 1950 فی ایم ایم بی ٹی یو مقامی صارفین کو ایل این جی گیس منتقل کی ہے ۔ آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے گیس کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ دسمبر میں 500 ایم ایم سی ایف ڈی مقامی نیٹ ورک میں ڈالی ہے ۔ گیس بحران کی ذمہ دار مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں ہیں۔ عمران خان کی حکومت نے آکر لوڈ شیڈنگ ختم کی ۔ انہوں نے کہا کہ لوڈ شیڈنگ ختم نہیں کر سکتا ۔ اپوزیشن ے ان کی تقریر کے دوران جھوٹا جھوٹا کے نعرے لگائے ۔ عمر ایوب نے کہا کہ گیس کی طلب اور سپلائی کے فرق میں کمی پر کام کر رہے ہیں ۔سید محمود شاہ نے کہا کہ بلوچستان میں گیس نہیں آرہی ہے ۔ ڈیڑھ لاکھ کے بل آرہے ہیں ۔ ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ میرے حلقہ میں گیس نہیں ہے شکایات آرہی ہیں یہاں سے گیس پیدا ہوتی ہے لوگوں کو کیوں نہیں مل رہی وضاحت کریں عمر ایوب نے کہا کہ سوئی سدرن کو احکامات دیئے ہیں کہ سوئی میں پائپ لائن تبدیل کریں ۔ سوئی سدرن کا ریونیو بلوچستان 6 ارب کا ہے ۔ 12 ارب کی گیس ضائع ہو رہی ہے ۔ لوگوں کو بل ادا کرنے کے لئے مہم چلا رہے ہیں ۔ گزشتہ حکومتوں نے گیس پیدا کرنے والے اضلاع کو گیس نہیں دی ۔ سندھ حکومت گیس پائپ لائن بچھانے کے لئے اجازت نہیں دے رہی ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن شازیہ مری نے کہا کہ سندھ کا گیس کا حصہ اس کا حق ہے ۔ وزیر آئین کو عزت دیں ۔ صوبوں کو لڑانے کی بات نہ کریں ۔ سندھ 2500 ایم سی ایف ڈی مل رہی ہے ۔ وزیر سیاسی بیانات دے رہے ہیں ۔ جو حشر بلوچستان کا ہے وہ سندھ کا نہ کریں غلط بیانی نہ کریں اور دیوار سے نہ لگائیں ۔ عمر ایوب نے کہا کہ وسائل پر پورے پاکستان کا یکساں ہے ۔ سندھ کے ارکان نے احتجاج کیا ۔ ڈپٹی سپیکر کی جانب سے اجلاس ملتوی کرنے کے اعلان پر پاکستان تحریک انصاف کے رکن جنید اکبر نے بات کرنے کے لئے فلور نہ ملنے پر کھڑے ہو کر احتجا ج کیا اور کہا ہم یہا ں کس لئے آتے ہیں اگر موقع نہیں دیا جاتا ،انہوں نے کاغذات پھاڑ کر پھینک دئیے۔ قومی اسمبلی میں حکومت نے انکشاف کیا ہے کہ نیکٹا کی مالی تحقیقات کی سخت پالیسی کی وجہ سے ڈیڑھ سال میں دہشتگردوں کے منجمد اور ضبط کئے گئے فنڈز میں 10ہزار فیصد اضافہ ہوا،دہشتگردوں کی مالی معاونت میں جرم ثابت ہونے کے عمل میں 480فیصد،مالیاتی تحقیقات میں 540 فیصد اضافہ ہوا،پنجاب اور سندھ میں11لاکھ 42ہزار 736 لوگوں کے پاس نادرا کی جانب سے جاری کردہ اسلحہ لائسنس ہیں،گزشتہ تین سالوں کے دوران نادرا نے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈز کی فیس کی مد میں 47ارب 33کروڑ سے زائدرقم وصول کی جبکہ تین سالوں کے دوران نادرا کے ملازمین کو تنخواہ اور مراعات کی مد میں 43ارب13روپے ادا کئے گئے،کچھ لوگوں نے جان اللہ کو حسین کی طرح دینی ہے اور کچھ لوگوں نے شمر اور فرعون کی طرح۔ان خیالات کا اظہارقومی اسمبلی میں وزیرمملکت شہریار آفریدی اوروزارت داخلہ کی جانب سے ارکان کے سوالوں کے تحریری جواب میں کیا۔رکن چوہدری حامد حمید کے سوال کے جواب میں وزارت بین الصوبائی رابطہ نے اپنے تحریری جواب میں ایوان کو آگاہ کیا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے حکام کے بیرون ملک دوروں پر گزشتہ سال کے مقابلے میں انتظامی بیرون ملک سفری اخراجات میں 6۔5 ملین روپے اضافہ ہوا ہے_رکن شمس النساء کے سوال کے جواب میں وزارت داخلہ نے اپنے تحریری جواب میں ایوان کو آگاہ کیاکہ نیکٹا کی جانب سے 2018میں دہشت گردی سے متعلق 664 انٹیلی جنس رپورٹس جاری کی گئیں جبکہ 25 نومبر 2019تک 559 انٹیلی جنس رپورٹس جاری کی گئیں،نیکٹا ہیلپ لائن 1717 پر اوسطا روزانہ 1900 کالز وصول کی جاتی ہیں ،2019 میں ہیلپ لائن پر 597 قابل کارروائی ٹیلی فون کالز موصول ہوئیں،جن پر 21 مقدمات درج کئے گئے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کیلئے پالیسی ترتیب دی ہے،جس کے نتیجے میں جون 2018 سے ملک میں مالیاتی تحقیقات اور مقدمات میں540فیصد غیر معمولی اضافہ ہوا ہے ،گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کی مالی معاونت میں جرم ثابت ہونے کے عمل میں 480 فیصد اضافہ ہوا،گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران دہشت گردوں کے منجمند اور ضبط کئے گئے فنڈز میں 10ہزار فیصد اضافہ ہوا ہے۔ وفاقی وزیر مراد سعید نے خواجہ آصف کے موقف کی حمایت کردی۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے دور ان پاکستان مسلم (ن) کے خواجہ آصف نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں کہا تھا کہ اگر اجلاس بلانے سے پہلے سب کو آگاہ کیا جائے تو بہتر رہے گا۔جس پر مراد سعید نے کہا کہ پارلیمنٹ چلانا ہے تو سب کو اجلاس کے بارے میں آگاہی ہونی چاہیے ہم ان کی بات سے اتفاق کرتے ہیں۔مراد سعید نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے اسمبلی اجلاس میں آنے کا کہا تھا ہم اس پر بھی قائم ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ایک وقت تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے ہر بدھ کو خود سوالوں کے جواب دینے آنا تھا، مگر اب بالکل بھی نہیں آتے۔قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ وزیراعظم پچھلے سال میں شاید ہی اسمبلی میں آئے ہوں۔انہوں نے کہا کہ اگر ہاﺅس قانون و قاعدے کے مطابق چلے گا تو ہاﺅس کا وقار بلند ہوگا، حکومت کو بھی فائدہ ہوگا۔خواجہ آصف نے ڈپٹی اسپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ایک دم اجلاس بلالیا جس کا کوئی نوٹس نہیں تھا۔رہنما ن لیگ کا کہنا تھا کہ ہم تو چاہتے ہیں کہ ایوان کو قاعدے و قانون کے مطابق چلا جائے۔انہوںنے کہاکہ میڈیا پر رپورٹ ہوا ہے کہ ایک سال ہوا وزیراعظم ایوان میں ہی نہیں آئے،اجلاس کو قانون قائدے کے مطابق چلنا چاہیے۔
ایم کیو ایم ،پیپلز پارٹی کے ساتھ ملے گی تو اختیارات اور گارنٹی مانگے گی،ضیا شاہد
لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک ) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں کرتے ہوئے معروف سینئر صحافی ضیا شاہد نے کہا ہے کہ یہ بھی طریقہ کار وہی ہے جو انڈیا نے اختیار کیا ہے پہلے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی گئی۔ اب ہمارے ہاں اس پر چونکہ سپریم کورٹ رائے دے چکی ہے۔ اس لئے اس پر نئی قانون سازی ضروری ہے قانون سازی کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ پہلے آرمی ایکٹ میں ترمیم کر لی جائے۔ بعد میں اس ترمیم شدہ ایکٹ کو پارلیمنٹ میں پیش کر کے منظور کروا لیا جائے۔ اس کے بعد اس پر عملدرآمد کروا لیا جائے۔ ہمارے ہاں تھوڑا سا مشکل ہے۔ انڈیا نے تو پیشتر اس کے کہ بحث مباحثہ شروع ہو انہوں نے اس مرحلے کو طے کر لیا۔ میرا خیال ہے کہ یہ ترمیم ہو جائے گی۔ قومی اسمبلی سے تو یہ ہو جائے گا مشکل سینٹ سے پیش آئے گی لیکن بالآخر یہ مسئلہ حل ہو جائے گا کیونکہ شاید ہی کسی جماعت کو آرمی پر اختلاف ہو یا اگر ہے بھی تو وہ اسے ظاہر نہیں کریں گے جہاں تک پاکستان میں انتشار اور اضطراب کا فائدہ تو انڈیا کو ہو سکتا ہے اور پاکستان میں اس قسم کا حلفشار یعنی حکومت اور اپوزیشن میں خلیج بڑھےے اس کا فائدہ اپوزیشن کو ہو سکتا ہے تینوں سروسز چیفس کی مدت ملازمت 64 سال کا کہا جا رہا ہے۔ اس پر ضیا شاہد نے کہا ہے کہ پاکستان کی پوزیشن پہلے ہی خراب اور جگ ہنسائی ہو چکی ہے آرمی چیف کی مدت ملازمت کے حوالے سے جو بحثیں شروع ہوئی ہیں اس سے ہمیں فائدے کی بجائے پاکستان کو نقصان پہنچا ہے۔ اگر جلد از جلد اس مسئلہ کو سلجھا لیا جائے تو اتنا ہی اس ملک کے لئے بہتر ہے۔ 2019ءگزر چکا ہے۔ 2020ءمیں ملک میں اس سال سیاسی استحکام پچھلے سال کی نسبت بہتر ہو گا۔ حکومت کے خیال میں یہ مسئلہ جتنا تعطل میں ڈالا جائے گا نئی نئی موشگافیاں سامنے آئیں گی اور نئی سے نئی بحثیں شروع ہوتی رہیں گی۔ جتنی جلدی مسئلہ حل ہو جائے ملک کے لئے بہتر ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک میں اسی مسئلہ کو جس طریقے سے سلجھایا گیا اس سے اندازہ ہوا ہے کہ ہماری نسبت انڈیا میں میں داخلی انتشار کے باوجود یہ مسئلہ بہتر طریقے سے حل کیا گیا ہے۔ میں امریکہ کی مثال دیتا ہوں نیویارک ہو واشنگٹن ہو یا کوئی دوسرا شہر ہو اس میں ہمیشہ پاکستان کی داخلی سیاست پر پارٹیاں لڑتی جھگڑتی رہتی ہیں اسی طرح انڈیا کے بھی وہاں بڑے لوگ رہتے ہیں۔ اس کے باوجود میں نے امریکہ کے کسی شہر میں یہ تضاد نہیں دیکھا۔ میں نے وہاں ایم کیو ایم کو پیپلزپارٹی سے، پیپلزپارٹی کو مسلم لیگ ن سے اور مسلم لیگ ن کو پی ٹی آئی کی طرح لڑتے جھگڑتے نہیں دیکھا۔ اس کی ایک بنیادی وجہ ہے جب 1940ءمیں قرارداد پاکستان منظور ہوئی تو اس وقت کے بعد مسلم لیگ کا پرائم پریڈ شروع ہوا ہے جبکہ کانگریس اس سے سو سال پہلے سے اپنے طریقے سے کام کر رہی تھی۔ انڈیا میں جو سیاسی تحریکیں بہت پرانی، سیاسی روایات بھی مستحکم ہیں۔ وہ آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں لیکن میں نے کبھی ان کو پاکستان کے باہر کبھی آپس میں لڑتے جھگڑتے نہیں دیکھا جبکہ ہمارے ہاں سر پھٹول ہر وقت جاری رہتی ہیں۔ وہاں سیاسی ادارے زیادہ مستحکم ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے دعوے کئے جا رہے ہیں کہ 2020ءترقی کا سال ہوگا، خوشحالی کا سال ہو گا۔ ضیا شاہد نے کہا کہ میں اس بارے کوئی پیش گوئی نہیں کر سکتا میں صرف ان باتوں پر غور کر رہا ہوں جو وہ حکومت گزشتہ ایک سال سے کہہ رہی ہے۔ پہلے دن 6 مہینے کی کہہ رہی ہے بعد میں پھر چھ ماہ کا اضافہ کیا اور اب وہ اشارے دے رہی ہے کہ بہت سارے معاملات میں ہماری پوزیشن بہتر ہوئی ہے اور اب ان کا خیال ہے کہ اس سال میں حالات اور بہتر ہو جائیں گے لہٰدا سے میری مراد پیش گوئی کی بنیاد پر نہیں بلکہ حکومتی دعوﺅں کے اعتبار سے ہے جس کا خیال ہے کہ پچھلے سال کی نسبت اس سال معاملات بہتر ہوں گے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ اس میں شبہ نہیں مہنگائی بڑھی ہے تین بڑی چیزیں جن کی بنیاد پر پورے ملک کی معیشت کا انحصار ہوتا ہے تینوں کی قیمتوں میں سال کے شروع میں ہی اضافہ ہو گیا پچھلی حکومتوں کی نسبت اس حکومت کی پالیسی بالکل اس معاملہ میں مختلف ہے ایک زمانے اسحق ڈار کی وزارت خزانہ اکثر اوقات بینکوں سے کہیں پیسوں سے وہ ڈالرز خرید کر ڈالر کی قیمت کو کم کرنے کی کوشش کرتے تھے کہا جاتا ہے کہ وہ باہر سے بہت پیسہ لیتے تھے لیکن وہ مصنوعی طور پر ڈالر کی قیمت کم رکھنے کے لئے حتی المقدورکوشش کرتے تھے۔ اسی طریقے سے مجھے یہ بھی یاد ہے کہ اکثر اوقات بجلی یا گیس کی قیمتوں میں اضافہ کی بات ہوتی تو وزیراعظم اس کی اجازت نہیں دیتے تھے اور وہ یہ کہتے تھے کہ نہیں اس سے عوام میں بہت بے چینی پھیل جائے گی جو کہ ہمارا مقصد نہیں ہے لہٰذا وہ اور طریقے سے اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ موجودہ حکومت کی پالیسی پہلے دن سے ہے کہ سبسڈی نہ دی جائے اور کسی بھی جگہ پر جو اصل قیمتوں کو ہی چلنے دیا جائے اور کسی بھی طریقے سے ان کو کھینچ تان کر ان کو کم نہیں کرنی چاہئے اور اس کے لئے باہر سے قرضے نہیں لینے چاہئیں جو ایک بنیادی فرق ہے جو موجودہ حکومت اور پچھلی حکومتوں میں تھا۔ میں نے بیسویں مرتبہ دیکھا ہے کہ مختلف چیزوں کی قیمتیں جو ان کی سمری نہیں کہ قیمتیں بڑھا دی جائیں گی لیکن عان وقت پر حکومت نے فیصلہ کیا کہ سبسڈی دے کر اپنی جیب سے پیسے ڈال کر جس طریقے سے وہ یہاں میٹرو بس اگر 20 روپے کی تھی تو انہوں نے یہ دیکھ کر کہ اس میں نقصان ہوتا ہے اور اس کو حساب لگا کر اس کا ٹکٹ 30 روپے کر دیا۔ یہ ان کو پتہ تھا کہ 20 روپے میں وارا نہیں کھاتے لیکن وہ لاہور کو موٹر کمپنی دینے کے لئے اپنی جیب سے پیسے ڈال کر جو لوگوں کو سہولت دیتے تھے موجودہ حکومت کی یہ پالیسی نہیں ہے یہ ٹرانسفر کر دیتے ہیں۔ مہنگائی براہ راست لوگوں کے سر پر ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو تکلیف پیش آتی ہے۔ طویل مدت کے لئے شاید موجودہ حکومت کی پالیسی ٹھیک ہو کہ جو اصل خرچہ ہے اس کو رہنے دیا جائے اپنی جیب سے پیسہ خرچ نہ کیا جائے لیکن میں محسوس کرتا ہوں وقتی ریلیف کے لئے پچھلی حکومت کی پالیسی صحیح تھی۔ آپ یہ دیکھیں کہ کل نئے سال کے جشن منائے جا رہے تھے۔ حکومت نے 3 بنیادی چیزوں کی قیمتیں بڑھا دیں۔ بے شک وہ بوجھ پاکستانی عوام پر پڑتا ہے یہی موجودہ حکومت دلیل دیتی ہے کہ وہ قرضے لے کر عوام کو ریلیف دیتے تھے۔
قرض کی پیتے تھے اور کہتے تھے ہاں
رنگ لائے گی یہ فاقہ مستی ایک دن
کسی بھی طریقے سے قرضے لے کر، اللوں تللوں سے مزید اور قرض لے کر ملک کو مقروض کر کے بھی عوام کو خوش رکھتے تھے۔ اس بات سے قطع نظر کہ حالات اس قدر خراب ہیں کہ ڈھکنا اٹھے گا کہ اتنے پیسے ہیں اور اتنے لینے ہیں تو بھی ہمیں اتنی ہی مشکل پیش آئے گی۔ پیپلزپارٹی اور متحدہ دونوں طرف سے کوششیں جاری ہیں، بلاول نے متحدہ کو سندھ حکومت میں شامل ہونے کی پیش کش کی ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما بھی متحدہ سے رابطہ میں ہیں۔ بلاول سمجھتے ہیں کہ متحدہ اگر وفاق کا ساتھ چھوڑ دے تو حکومت کمزور ہو کر گر جائے گی۔ متحدہ کی شہروں میں تعداد زیادہ ہے وہ بلدیاتی اداروں پر تسلط چاہتی ہے زیادہ سے زیادہ اختیارات کی خواہش مند ہے جبکہ صوبائی حکومت کی خواہش ہے کہ زیادہ اختیارات اس کے پاس رہیں کراچی حیدرآباد و دیگر شہروں میں بلدیاتی اختیار متحدہ کو دینے کی تیار نہیں ہے۔ دونوں پارٹیاں ماضی میں اتنی بار ملنے کے بعد الگ ہوئی ہیں کہ اب جب تک مکمل یقین دہانی نہ ہوئی تو آپس میں نہیں مل سکتی۔ یہ یقین دہانی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بھی کرائی جا سکتی ہے پی پی اور متحدہ کی سیاسی مجبوریاں انہیں اکٹھا کرنے پر مجبور کر سکتی ہیں سیاست میں کچھ بھی ممکن ہے۔ ایم کیو ایم پی پی سے ملنے کے لئے کوئی گارنٹی ضرور چاہے گی۔
نیپرا نے بھی عوام پر بم گرا دیا، بجلی1.56 روپے یونٹ مہنگی
اسلام آباد(نامہ نگار خصوصی) نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی(نیپرا)کی جانب سے بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ رواں سال اکتوبر کے فیول ایڈجسٹمنٹ ی مد میں کیا گیا ہے۔نیپرا کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق اس فیصلے کا اطلاق کے الیکٹرک اور لائف لائن صارفین پر نہیں ہوگا۔ اکتوبر کے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں حالیہ اضافی رقم صارفین کو آئندہ ماہ کے بلوں میں ادا کرنا ہوگی۔نیپرا کی جانب سے بجلی قیمتوں میں اضافہ سے صارفین پر 14 ارب 50 کروڑ روپے کا بوجھ پڑے گا۔خیال رہے کہ نیپرا نے گزشتہ روز کے الیکٹرک صارفین کے لیے بجلی 4 روپے 70 پیسے فی یونٹ مہنگی کر دی تھی۔ نیپرا کی جانب سے کے الیکٹرک کا 11 سہ ماہی کا ٹیرف ایڈجسٹمنٹ فیصلہ جاری کیا گیا ہے۔ نیپرا نے کے الیکٹرک صارفین سے 106 ارب روپے وصول کرنے کی اجازت دیدی ہے۔کے الیکڑک صارفین کے لیے بجلی 4 روپے 70 پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے اور ٹیرف 12 روپے 81 سے بڑھا کر 17 روپے 69 پیسے فی یونٹ کرنے کی منظوری دی ہے۔ نیپرا نے جولائی 2016 سے مارچ 2019 کے عرصہ کے لیے فیصلہ جاری کیا ہے۔
ملکی معیشیت مستحکم کرنے میں کا میاب ہو گئے ،جلد مشکل دن گزر جائینگے،عمران خان
اسلام آباد (نامہ نگار خصوصی) وزیرِ اعظم عمران خان نے اشیائے خورودونوش میں ملاوٹ پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملاوٹ کے مرتکب عناصر کسی رعایت کے مستحق نہیں، ایسے افراد محض چندسکوں کے عوض عوام کی زندگیوں اور صحت کے ساتھ کھیل رہے ہیں ایسے عناصر کے خلاف بھرپور ایکشن لیا جائے ، ملاوٹ کے خاتمے کےلئے ہر ممکنہ کوشش کی جائے اور جدید ٹیکنالوجی کو برو¿ے کار لایا جائے، وہ ہر ہفتے اس حوالے ے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے پیش رفت کا جائزہ لیں گے جبکہ وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت اجلا س میں شہری علاقوں میں دودھ میں 44.2فیصد اور دیہی علاقوں میں 50.5فیصد پانی اور کیمیکل کی ملاوٹ کا انکشاف کیا گیا ہے ۔ بدھ کو یہاں وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت ملک بھر میں اشیائے ضروریہ (آٹا، چاول، گھی، چینی، دالیں، سبزی وغیرہ) کی قیمتوں کو قابو میں رکھنے کے حوالے سے اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جس میں مشیر تجارت عبدالرزاق داو¿د، معاون ِ خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان، وزیرِ اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار، وزیرِ اعلیٰ خیبرپختونخواہ محمود خان، وفاقی سیکرٹری صاحبان، پنجاب، خیبرپختونخواہ اور سندھ کے چیف سیکرٹری صاحبان و دیگر سینئر افسران شریک ہوئے ۔ اجلاس میں وفاقی حکومت میں رائج ”درست دام“اپلیکیشن کے نظام کو صوبوں کے بڑے شہروں میں متعارف کرانے میں پیش رفت، دودھ، ملاوٹ، خوردنی تیل، گوشت، مصالحوں، دالوں، چائے کی پتی و دیگر کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ کے خلاف کریک ڈاو¿ن، اشیائے ضروریہ کی طلب و رسد پر نظر رکھنے اور مستقبل کی ضروریات کے مدنظر تخمینوں کے حوالے سے خصوصی سیل کے قیام،اجناس کی براہ راست فروخت اور کسانوں کی سہولت کے لئے تحصیل کی سطح پر ”کسان مارکیٹ“کے قیام کے حوالے سے پیش رفت اور شہری اور دیہی علاقوں میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کا تقابلی جائزہ جیسے معاملات پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ وزیراعظم عمران خان سے مسلم لیگ ق کے رہنما مونس الہی نے بھی ملاقات کی۔ ملکی اور پنجاب کی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔وزیراعظم آفس سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم عمران خان اور ق لیگ رہنما مونس الہی کے درمیان ہونے والی ملاقات میں وفاقی وزیر فیصل واوڈا بھی شریک تھے۔ ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ ملکی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ملاقات میں پنجاب کے سیاسی معاملات پر بھی تفصیلی مشاورت کی گئی۔ وزیراعظم نے مونس الہی سے گفتگو میں حکومتی معاملات میں ق لیگ کے مثبت کردار اور تعاون کی تعریف کی۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ملک کو مستحکم کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں نیا سال ترقی و خوشحالی کا سال ہوگا۔ ایئریونیورسٹی ساو¿تھ کیمپس کے سنگ بنیاد کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ 60 کی دہائی کا ایک دور تھا جب مشرق وسطیٰ سے لوگ پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے آتے تھے، لیکن پھر ماضی میں ہم نے تعلیم کے شعبے پر توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے ہم جدید دور میں وہ کامیابیاں حاصل نہیں کرسکے جو کر سکتے تھے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ٹیکنالوجی سے مستفید ہونا ضروری ہے، مصنوعی انٹیلی جنس سے انقلاب آنے والا ہے جس کے لئے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا معیار بڑھانا انتہائی ناگزیر ہے، محدود وسائل کے باوجود تعلیم کو ترجیح دینا ہوگی، ہم نے اداروں کومضبوط کرنا ہے ہمارا ہدف سسٹم کو ٹھیک کر کے میرٹ سسٹم لانا ہے۔ عمران خان نے کہا کہ برے دن آزمائش کے لیے آتے ہیں اور آزمائشوں سے نکل کر قومیں مٹتی نہیں مضبوط بن کرابھرتی ہیں، انشا اللہ پاکستان برے دنوں سے جلد نکل جائے گا، تعلیم کے شعبے میں درپیش مالی رکاوٹیں عارضی ہیں، پچھلا سال بڑا مشکل سال تھا ہماری عوام کو مشکل وقت سے گزرنا پڑا لیکن اب معیشت استحکام کی جانب گامزن ہے اور ہم ملک کو مستحکم کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں، 2020 ترقی اور خوشحالی کا سال ہے۔ بڑے انسان کےخواب بھی بڑے ہوتے ہیں لیکن ہم بڑی سوچ سوچنے سے ڈرتے ہیں، انسان جو چیز تصور کر سکتا ہے وہ اسے بنا بھی سکتا ہے، اگر پاکستان کے نوجوانوں کو مواقع ملیں تو یہ بہت تیزی سے ترقی کرسکتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ معاشی مشکلات پر قابو پالیا گیا ہے، 2020 خوشحالی اور ترقی کا سال ہوگا۔ماضی کے حکمرانوں کا پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کا ویژ ن تھا جو بہت چھوٹا تھا۔ عمران خان نے کہا کہ برے وقت میں اللہ تعالیٰ ایک قوم کوآزماتا ہے اور جیسے ہی قوم بُرے وقت کی آزمائش سے نکلتی ہے تو اور مضبوط ہوجاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری قوم میں بہت زیادہ پوٹینشل ہے، ملک میں وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے ، اوورسیز پاکستانیوں کوجب مواقع ملتے ہیں تو بڑی تیز ی سے کامیابیاں حاصل کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا ٹارگٹ پاکستان کا نظام ٹھیک کرکے میرٹ لے کرآنا ہے، تعلیم کو وہ توجہ دینی ہے جو ماضی میں نہیں دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ساٹھ کی دہائی میں ہماری یونیورسٹیاں عالمی معیار کی تھیں ، مڈل ایسٹ سے بچے ادھر پڑھنے آیا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد ہم نے اس طرف توجہ نہیں دی جس کے بعد ہمارا تعلیمی معیارگرتا گیا۔انہوں نے کہا کہ بڑے انسانوں کا ویژن بڑا ہوتا ہے ، ایک انسان کا جتنا بڑا خواب ہو ، اتنا بڑا انسان بنتا ہے ، اسی طرح قوموں کا ویژن ہوتا ہے ، ماضی میں جب ہمارے حکمران کہتے تھے کہ ہم نے ایشین ٹائیگر بننا ہے تو وہ چھوٹا سا ویژن ہے میرا ویژن اس بھی بڑا ہے ، میں یہ کہتا تھا کہ ہم نے ریاست مدینہ کا ماڈل بنانا ہے کہ وہ چھوٹی سے قوم جوعرب تھے جن کو کوئی پوچھتا نہیں تھا۔ وہ اٹھے کھڑے ہوئے اوردنیا کی دو بڑی سپر پاورز کو روند ڈالا۔
بلاول حکومتی اتحاد توڑنے کے لیے سر گرم ،حکومت کے اتحادیوں سے رابطے تیز
کراچی(وقائع نگار خصوصی)پاکستان پیپلزپارٹی نے متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیو ایم )پاکستان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا فیصلہ کرلیا۔بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی رہنماﺅں کو ایم کیو ایم کے ساتھ مذاکرات کا ٹاسک دے دیا۔ تفصیلات کے مطابق پیپلزپارٹی کی اعلی قیادت ے ایم کیوایم کے ساتھ مسلسل مذاکراتی عمل شروع کرنے کی ہدایت کردی پیپلزپارٹی کے مطابق ایم کیوایم کے ساتھ مذاکرات میں آئینی، سیاسی ،انتظامی پیکج پر بات ہوگی اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج کو میئر کے ماتحت کرنے پر بھی غور ہوسکتا ہے۔پیپلزپارٹی سندھ میں نیابلدیاتی ایکٹ لانے کو تیار ہے اور بلدیاتی کونسلز کے میئرز، چیئرمینز کو مزید مالی وانتظامی اختیارات دئیے جائیں گے۔ پیپلزپارٹی کا وفد اس ضمن میں جلد ایم کیوایم کے مرکز کا دورہ کرے گا۔ذرائع نے دعوی کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی سندھ میں نیا بلدیاتی ایکٹ لانے کو تیار ہوچکی ہے ، جس کے تحت میئرز،چیئرمینز کو مزید مالی وانتظامی اختیارات دیئے جائیں گے۔ذرائع پیپلزپارٹی کا کہنا ہے کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج کو میئر کے ماتحت کرنے پر بھی غور ہوسکتا ہے،یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی اعلی قیادت نے ایم کیوایم کے ساتھ مسلسل مذاکراتی عمل شروع کرنے کی ہدایت کی ہے جس میں ایم کیوایم کے ساتھ مذاکرات میں آئینی،سیاسی،انتظامی پیکج پر بات ہوگی۔
سفارتخانے پر حملے کی بھاری قیمت چکانا پڑیگی ،ٹرمپ کی دھمکی ،منہ توڑ جواب ملے گا ،آیت اللہ حامنہ ای
تہران‘ نیویارک (نیٹ نیوز) آیت اللہ خامنہ ای نے اجتماع سے خطاب میںکہا کہ میں اور ایران کی حکومت اورعوام الحشدالشعبی پرامریکی حملے کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکا سے اس خطے، باالخصوص عراق کے عوام کی نفرت امریکی جرائم پر ان کا فطری ردعمل ہے۔انہوں نے کہا کہ الحشد الشعبی ے اڈے پر امریکی حملہ ، داعش کی شکست کا انتقام ہے کیونکہ الحشد الشعبی نے ہی عراق میں داعش کو شکست دے کر اس کو ختم کیا ہے۔ایرانی صدر نے عراق کے واقعات میں ایران کو قصور وار ٹھہرانے سے متعلق امریکی صدر کے بیان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات سراسر غلط ہے کیونکہ عراق کے معاملات کا ایران سے کوئی تعلق نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ساری دنیا جان لے کہ اسلامی جمہوریہ ایران جنگ نہیں چاہتا لیکن ایرانی عوام کے مفادات و مصلحت، عزت و عظمت اور ترقی و پیشرفت کے لیے خطرہ بننے والوں پر کاری ضرب لگائے گا اور اس میں کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔آیت اللہ خامنہ ای نے عراق اور افغانستان میں امریکہ کے مجرمانہ اقدامات اور خاص طور پر بدنام زمانہ امریکی ایجنسی بلیک واٹر کے ہاتھوں ہزاروں عراقی دانشوروں اور عام شہریوں کے قتل عام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ خطے کے بعض ملکوں کی اجازت کے بغیر امریکی حکام کے دورے اور ان ملکوں میں قائم اپنے فوجی اڈوں میں ان کی غیر اعلانیہ آمد، اس خطے کے ملکوں اور قوموں کے خلاف امریکہ کے تحقیر آمیز رویئے کا ایک اور نمونہ ہے۔ایرانی صدرنے ایران کے عوام کو بہادر، با بصیرت اور ہر میدان میں ڈٹ جانے والی قوم قرار دیا اور فرمایا کہ کامیابی ملت ایران کے قدم چومے گی اور ملک کا مستقبل آج سے زیادہ روشن اور تابناک ہوگا۔ جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عراق میں امریکی سفارت خانے پر حملے کا ذمہ دار ایران کو ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ تہران کو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی، عراق میں امریکی سفارت خانہ محفوظ ہے اور تھا، ہمارے کئی فوجی انتہائی خطرناک ہتھیاروں کے ساتھ فوری طور پر عراق پہنچ چکے ہیں۔ٹرمپ نے فوری فوجیوں کی تعیناتی کی درخواست منظور کرنے پر عراقی صدر اور وزیراعظم کا شکریہ بھی ادا کیا۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عراق میں امریکی سفارت خانے پر حملے کا ذمہ دار ایران کو ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ تہران کو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔دو روز قبل امریکی فورسز نے عراق میں مقامی ملیشیا کتائب حزب اللہ کے ٹھکانوں پر فضائی حملہ کیا تھا جس میں کئی جنگجو ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔ان حملوں کے خلاف گزشتہ روز عراقی دارالحکومت میں سیکڑوں کی تعداد میں مظاہرین نے امریکی سفارت خانے پر دھاوا بول کر توڑ پھوڑ کی اور املاک کو نقصان پہنچایا۔امریکی سفارت خانے پر حملے کے ردعمل میں ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں کہا کہ ہماری املاک میں ہونے والے جانی و مالی نقصان کا ذمہ دار مکمل طور پر ایران ہے اور اسے اس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا کہ یہ تنبیہ نہیں بلکہ دھمکی ہے۔ ساتھ ہی امریکی صدر نے نئے سال کی مبارکباد بھی دی۔امریکی صدر نے اپنے پیغام میں مزید کہا کہ عراق میں امریکی سفارت خانہ محفوظ ہے اور تھا، ہمارے کئی فوجی انتہائی خطرناک ہتھیاروں کے ساتھ فوری طور پر عراق پہنچ چکے ہیں۔ٹرمپ نے فوری فوجیوں کی تعیناتی کی درخواست منظور کرنے پر عراقی صدر اور وزیراعظم کا شکریہ بھی ادا کیا۔
بھارتی شہریت کے لیے نیا فارم تیار،11ریاستوں کا مودی کے کالے قانون کو ماننے سے انکار
نئی دہلی‘ کولکتہ‘ ممبئی‘ کیرالہ (نیٹ نیوز)مودی حکومت نے این پی آر کا نیا فارم تیار کر لیا ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق این پی آر کے نئے ڈیٹا بیس میں آدھار نمبر، پین نمبر، ووٹر شناختی نمبر سمیت تقریباً 7 نئے نکات کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ این پی آر کے تحت کوئی شناختی کارڈ جاری نہیں کئے جائیں گے اور نہ ہی کوئی بائیومیٹرک جمع کیا جا رہا ہے۔ وزارت داخلہ نے اس بارے میں آخری پروفائل بنا لی ہے۔ قومی آبادی رجسٹر (این پی آر) ملک کے عام اشندوں کی ایک وسیع ڈیٹا بیس ہے۔ اسے شہریت ایکٹ 1955 ءکی دفعات کے تحت اور شہریت اور شہریوں کی رجسٹریشن اور قومی شناختی کارڈ جاری کرنا) دستور العمل، 2003 ءمیں موجود طریقہ کار کی طرف سے تیار کیا جا رہا ہے۔ این پی آر کے تحت کوئی شناختی کارڈ جاری نہیں کئے جائیں گے۔این پی آر 2010 ءمیں جو معلومات طلب کی گئی تھیں وہ یہ ہیں : 1 آدمی کا نام۔2 : سربراہ سے تعلق۔3: والد کا نام۔4: ماں کا نام۔5: شوہر / بیوی کا نام (اگر شادی شدہ ہے)۔6: جنس۔7: تاریخ پیدائش۔8: ازدواجی حیثیت۔9- جائے پیدائش۔10: بتائی گئی شہریت۔11: عام رہائشی موجودہ پتہ۔12:موجودہ پتہ پر رہنے کی مدت۔13: مستقل رہائشی پتہ۔14ذریعہ معاش۔15: تعلیمی قابلیت۔16: آدھار کارڈ کے ذریعہ اعادہ کو روکنے اور آدھار نمبر بنانے کے مقصد کیلئے 5 سال اور اس سے اوپر کے افراد کے لئے او آر جی آئیک کو مختص ریاستوں میں تین بائیومیٹرک جیسے فوٹو، 10 انگلیوں کے پرنٹ اور 02 آئرس بھی جمع کئے گئے تھے۔ این پی آر 2020 میں بھی کئی اضافی نکات شامل کئے گئے ہیں۔جس میں 1: آدھار نمبر۔2: موبائل نمبر۔3: پین کارڈ۔4: ووٹر شناختی نمبر۔5: ڈرائیونگ لائسنس۔6: پاسپورٹ نمبر (صرف ہندوستانی پاسپورٹ)۔7: گزشتہ مسکن، شہری کے والدین کی جائے پیدائش اور پیدائش کی تاریخ۔نوٹ: این پی آر کے دوران کوئی بایومیٹرک جمع نہیں کیا جا رہا ہے۔این پی آر کو 2010 میں پہلی بار تیار کیا گیا تھا۔ اس کے بعد ہوئے پیدائش، موت اور قیام کی وجہ تبدیلی کو شمار کرنے کے لئے، اسے دوبارہ اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے۔ 2015 میں چند اجزاءکو شامل کیا گیا تھا۔ این پی آر کے اعداد و شمار کے ذریعے عام آدمی کو کئی منصوبوں کا بھی فائدہ مل سکے گا۔ بھارتی ریاست کیرالہ کے وزیراعلیٰ نے شہریت کے متنازع قانون کو نافذ کرنے سے انکار کرتے ہوئے قانون کے خلاف اسمبلی میں قرار داد پیش کردی جسے منظور کرلیا گیا۔ا±دھرمتنازع قانون کے خلاف احتجاج میں شہریوں کے بعد حکام بھی میدان میں آگئے ،بھارتی ٹی وی کے مطابق ریاستی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پینارائے وجے یان کا کہنا تھا کہ شہریت کا ترمیمی قانون بھارتی آئین کی بنیادی اقدار اور اصولوں کے خلاف ہے، اس لیے مرکزی حکومت ایکٹ کو واپس لے۔کیرالہ سے قبل بھارتی پنجاب، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ سمیت 6 بھارتی ریاستیں متنازع قانون نافذ کرنے سے انکار کرچکی ہیں۔ کانگریس کی رہنما پریانکا گاندھی نے کہا کہ جن ریاستوں میں ان کی پارٹی کی حکومت ہے وہاں متنازع شہریت قانون نافذ نہیں ہونے دیں گے۔ان ریاستوں میں مہاراشٹرا، دہلی، کیرالہ، مغربی بنگال ، آندھرا پردیش، راجستھان ، بہار، مدھیہ پردیش، پنجاب، اڑیسہ اور چھتیس گڑھ شامل ہیں۔ ایک سو سے زائد پجاریوں نے شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف گاندھی مورتی کے قریب احتجاج کیا۔ پچھم بنگا سناتن برہمن ٹرسٹکے زیر اہتمام ان پجاریوں اور پنڈتوں نے کلکتہ میں میوروڈ میں واقع گاندھی مورتی کے قریب شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ امن وامان کا قیام ہماری ترجیحات میں ہونا چاہئے۔ پجاریوں نے کہا کہ نئے قانون کی وجہ سے ملک خلفشارکا شکار ہوجائے گا۔ٹرسٹ کے جنرل سیکریٹری سریدھر مشرا نے کہا کہ اس قانون کے ذریعے ملک کے عوام کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سی اے اے اور این آر سی کا مقصد ایک خاص کمیونٹی کو نشانہ بنانا ہے۔ یہ بہت ہی افسوس ناک ہے۔اگر اسی طرح ایک خاص کمیونٹی کونشانہ بنایا جاتا ہے تو اس سے ملک میں خلفشار پھیلنا فطری ہے۔ دہلی سمیت ملک بھر میں عوام نے شہریت ترمیمی ایکٹ،این آرسی اور این پی آر کے خلاف مظاہروں اور دھرنوں سے سن دو ہزار بیس کا آغاز کیا ۔نئے عیسوی سال کی آمد کے موقع پر ہندوستان کے دارالحکومت دہلی کے مختلف علاقوں، خاص طور پر شاہین باغ میں دھرنے پر بیٹھی خواتین نے، اکتیس دسمبر کی رات بھی سخت سردی کے باوجود اپنے دھرنوں کا سلسلہ جاری رکھا میڈیا رپورٹ کے مطابق شاہین باغ ہائی وے پر دھرنے پر بیٹھی خواتین اور مردوں نے اکتس دسمبر کی رات بارہ بجتے ہی شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی کے خلاف زبردست نعرے لگائے اور مرکزی حکومت سے ان دونوں متنازعہ قوانین کے ساتھ ہی، این پی آر کو بھی واپس لینے کا مطالبہ کیا ۔اسی کے ساتھ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سامنے بدھ یکم جنوری دو ہزار بیس کو زبردست احتجاجی مظاہرے کا اہتمام کیا گیا جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سامنے شہریت ترمیمی ایکٹ ، این آر سی اور این پی آر کے خلاف یکم جنوری کے مظاہرے شروع ہوچکے ہیں۔ ان مظاہروں میں جامعہ ملیہ کے ساتھ ہی دہلی کی مختلف دیگر یونیورسٹیوں کے طلبا اور سماجی تنظیموں، سول سوسائٹی اور مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندے بھی شریک ہیں ۔اسی کے ساتھ اطلاعات ہیں کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبا نے اکتیس دسمبر کی رات بھی کیمپس میں کھلے آسمان کے نیچے گزاری ۔اس رپورٹ کے مطابق اے ایم یو کے طلبانے باب سید پر اپنا دھرنا جاری رکھنے کے ساتھ ہی گزشتہ راتوں کی طرح اکتیس دسمبر کی رات بھی کیمپس کے اندر جلوس نکالے اور شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آرسی کی مخالفت کا اعلان کیا ۔اکتیس دسمبر کی رات بارہ بجتے ہی نیا عیسوی سال شروع ہونے پر اے ایم یو کے طلبانے زبردست نعرے بازی کی اور آئین سے متصادم شہریت ترمیمی ایکٹ اور این سی آر واپس لئے جانے تک اپنی تحریک جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ مغربی بنگال کی وزیرا علی ممتا بنرجی نے پرولیا میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف ایک جلوس کی قیادت کرتے ہوئے ملک کے تمام شہریوں سے متحد ہوکر بی جے پی کے ایجنڈے کو ناکام بنانے کی اپیل کی۔ ممتا بنرجی نے کہا کہ بی جے پی اس ملک کے عوام کے حقوق کو چھیننے کی کوشش کررہی ہے اور ہمیں حقوق کی حفاظت کیلئے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعلی ممتا بنرجی نے کہا کہ ہندوستان ہم سب کا ہے،بنگال میں بہار، اترپردیش، راجستھان اور دیگر ریاستوں سے بڑی تعداد میں آکر آباد ہوگئے ہیں۔ یہاں ہرایک شخص کو یکساں حقوق حاصل ہے۔ کسی کو بھی کسی بھی شہری کو ملک سے بے دخل کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ ممتا بنرجی نے کہاکہ بی جے پی گجرات،کرناٹک اور اترپردیش میں برسراقتدار ہے۔ کیا سارے ہندوستان کو وہاں بسائیں گے۔ ممتا بنرجی نے ہر ایک شہری سے اپیل کی کہ ووٹر لسٹ میں صحیح نام ہو۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے گا۔یہ ہمارا وعدہ ہے کہ اس ملک سے کسی بھی شہری کو نکال باہر نہیں کیا جائے گا۔ ممتا بنرجی نے کہاکہ شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی ملک کو تقسیم کردینے والے اقدامات ہیں اس لیے ہم کسی بھی صورت میں بنگال میں نافذ نہیں ہونے دیں گے۔ شہریت ترمیمی ایکٹ، این آر سی اور این پی آر کے خلاف ملک کی سیاسی پارٹیوں اور سماجی تنظیموں نےتازہ دم ہوکر ایک بار پھر اپنے مظاہروں میں شدت پیدا کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ بائیں بازو کی پارٹیوں نے بدھ یکم جنوری سے 7 روزہ ملک گیر مظاہروں کا اعلان کیا ہے جبکہ ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والی 100 سے زائد تنظیموں نے بھی ایک پلیٹ فارم پر آکر جمعہ3 جنوری سے ملک گیر احتجاج شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دونوں ہی نے8جنوری کو ملک کی ٹریڈ یونینوں کے اعلان کردہ بھارت بند میں بھی شامل ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ جنوری سے بی جے پی شہریت ترمیمی ایکٹ کی حمایت میں ملک گیر تحریک شروع کرنے جارہی ہے۔ ایسے میں اپوزیشن پارٹیاں اور سماجی تنظیمیں بھی کمر کس رہی ہیں۔ مرکز کی ظالم حکومت کے خلاف ممتا بنرجی نے اپوزیشن کے اتحاد کا جونعرہ دیاتھا اور شہریت ایکٹ، این آر سی نیز این پی آر کیلئے مشترکہ حکمت عملی بنانے کی جو اپیل کی تھی اس پر بھی مثبت پیش رفت کی امید ظاہر کی جارہی ہے۔