تازہ تر ین

ایم کیو ایم ،پیپلز پارٹی کے ساتھ ملے گی تو اختیارات اور گارنٹی مانگے گی،ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک ) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں کرتے ہوئے معروف سینئر صحافی ضیا شاہد نے کہا ہے کہ یہ بھی طریقہ کار وہی ہے جو انڈیا نے اختیار کیا ہے پہلے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی گئی۔ اب ہمارے ہاں اس پر چونکہ سپریم کورٹ رائے دے چکی ہے۔ اس لئے اس پر نئی قانون سازی ضروری ہے قانون سازی کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ پہلے آرمی ایکٹ میں ترمیم کر لی جائے۔ بعد میں اس ترمیم شدہ ایکٹ کو پارلیمنٹ میں پیش کر کے منظور کروا لیا جائے۔ اس کے بعد اس پر عملدرآمد کروا لیا جائے۔ ہمارے ہاں تھوڑا سا مشکل ہے۔ انڈیا نے تو پیشتر اس کے کہ بحث مباحثہ شروع ہو انہوں نے اس مرحلے کو طے کر لیا۔ میرا خیال ہے کہ یہ ترمیم ہو جائے گی۔ قومی اسمبلی سے تو یہ ہو جائے گا مشکل سینٹ سے پیش آئے گی لیکن بالآخر یہ مسئلہ حل ہو جائے گا کیونکہ شاید ہی کسی جماعت کو آرمی پر اختلاف ہو یا اگر ہے بھی تو وہ اسے ظاہر نہیں کریں گے جہاں تک پاکستان میں انتشار اور اضطراب کا فائدہ تو انڈیا کو ہو سکتا ہے اور پاکستان میں اس قسم کا حلفشار یعنی حکومت اور اپوزیشن میں خلیج بڑھےے اس کا فائدہ اپوزیشن کو ہو سکتا ہے تینوں سروسز چیفس کی مدت ملازمت 64 سال کا کہا جا رہا ہے۔ اس پر ضیا شاہد نے کہا ہے کہ پاکستان کی پوزیشن پہلے ہی خراب اور جگ ہنسائی ہو چکی ہے آرمی چیف کی مدت ملازمت کے حوالے سے جو بحثیں شروع ہوئی ہیں اس سے ہمیں فائدے کی بجائے پاکستان کو نقصان پہنچا ہے۔ اگر جلد از جلد اس مسئلہ کو سلجھا لیا جائے تو اتنا ہی اس ملک کے لئے بہتر ہے۔ 2019ءگزر چکا ہے۔ 2020ءمیں ملک میں اس سال سیاسی استحکام پچھلے سال کی نسبت بہتر ہو گا۔ حکومت کے خیال میں یہ مسئلہ جتنا تعطل میں ڈالا جائے گا نئی نئی موشگافیاں سامنے آئیں گی اور نئی سے نئی بحثیں شروع ہوتی رہیں گی۔ جتنی جلدی مسئلہ حل ہو جائے ملک کے لئے بہتر ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک میں اسی مسئلہ کو جس طریقے سے سلجھایا گیا اس سے اندازہ ہوا ہے کہ ہماری نسبت انڈیا میں میں داخلی انتشار کے باوجود یہ مسئلہ بہتر طریقے سے حل کیا گیا ہے۔ میں امریکہ کی مثال دیتا ہوں نیویارک ہو واشنگٹن ہو یا کوئی دوسرا شہر ہو اس میں ہمیشہ پاکستان کی داخلی سیاست پر پارٹیاں لڑتی جھگڑتی رہتی ہیں اسی طرح انڈیا کے بھی وہاں بڑے لوگ رہتے ہیں۔ اس کے باوجود میں نے امریکہ کے کسی شہر میں یہ تضاد نہیں دیکھا۔ میں نے وہاں ایم کیو ایم کو پیپلزپارٹی سے، پیپلزپارٹی کو مسلم لیگ ن سے اور مسلم لیگ ن کو پی ٹی آئی کی طرح لڑتے جھگڑتے نہیں دیکھا۔ اس کی ایک بنیادی وجہ ہے جب 1940ءمیں قرارداد پاکستان منظور ہوئی تو اس وقت کے بعد مسلم لیگ کا پرائم پریڈ شروع ہوا ہے جبکہ کانگریس اس سے سو سال پہلے سے اپنے طریقے سے کام کر رہی تھی۔ انڈیا میں جو سیاسی تحریکیں بہت پرانی، سیاسی روایات بھی مستحکم ہیں۔ وہ آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں لیکن میں نے کبھی ان کو پاکستان کے باہر کبھی آپس میں لڑتے جھگڑتے نہیں دیکھا جبکہ ہمارے ہاں سر پھٹول ہر وقت جاری رہتی ہیں۔ وہاں سیاسی ادارے زیادہ مستحکم ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے دعوے کئے جا رہے ہیں کہ 2020ءترقی کا سال ہوگا، خوشحالی کا سال ہو گا۔ ضیا شاہد نے کہا کہ میں اس بارے کوئی پیش گوئی نہیں کر سکتا میں صرف ان باتوں پر غور کر رہا ہوں جو وہ حکومت گزشتہ ایک سال سے کہہ رہی ہے۔ پہلے دن 6 مہینے کی کہہ رہی ہے بعد میں پھر چھ ماہ کا اضافہ کیا اور اب وہ اشارے دے رہی ہے کہ بہت سارے معاملات میں ہماری پوزیشن بہتر ہوئی ہے اور اب ان کا خیال ہے کہ اس سال میں حالات اور بہتر ہو جائیں گے لہٰدا سے میری مراد پیش گوئی کی بنیاد پر نہیں بلکہ حکومتی دعوﺅں کے اعتبار سے ہے جس کا خیال ہے کہ پچھلے سال کی نسبت اس سال معاملات بہتر ہوں گے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ اس میں شبہ نہیں مہنگائی بڑھی ہے تین بڑی چیزیں جن کی بنیاد پر پورے ملک کی معیشت کا انحصار ہوتا ہے تینوں کی قیمتوں میں سال کے شروع میں ہی اضافہ ہو گیا پچھلی حکومتوں کی نسبت اس حکومت کی پالیسی بالکل اس معاملہ میں مختلف ہے ایک زمانے اسحق ڈار کی وزارت خزانہ اکثر اوقات بینکوں سے کہیں پیسوں سے وہ ڈالرز خرید کر ڈالر کی قیمت کو کم کرنے کی کوشش کرتے تھے کہا جاتا ہے کہ وہ باہر سے بہت پیسہ لیتے تھے لیکن وہ مصنوعی طور پر ڈالر کی قیمت کم رکھنے کے لئے حتی المقدورکوشش کرتے تھے۔ اسی طریقے سے مجھے یہ بھی یاد ہے کہ اکثر اوقات بجلی یا گیس کی قیمتوں میں اضافہ کی بات ہوتی تو وزیراعظم اس کی اجازت نہیں دیتے تھے اور وہ یہ کہتے تھے کہ نہیں اس سے عوام میں بہت بے چینی پھیل جائے گی جو کہ ہمارا مقصد نہیں ہے لہٰذا وہ اور طریقے سے اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ موجودہ حکومت کی پالیسی پہلے دن سے ہے کہ سبسڈی نہ دی جائے اور کسی بھی جگہ پر جو اصل قیمتوں کو ہی چلنے دیا جائے اور کسی بھی طریقے سے ان کو کھینچ تان کر ان کو کم نہیں کرنی چاہئے اور اس کے لئے باہر سے قرضے نہیں لینے چاہئیں جو ایک بنیادی فرق ہے جو موجودہ حکومت اور پچھلی حکومتوں میں تھا۔ میں نے بیسویں مرتبہ دیکھا ہے کہ مختلف چیزوں کی قیمتیں جو ان کی سمری نہیں کہ قیمتیں بڑھا دی جائیں گی لیکن عان وقت پر حکومت نے فیصلہ کیا کہ سبسڈی دے کر اپنی جیب سے پیسے ڈال کر جس طریقے سے وہ یہاں میٹرو بس اگر 20 روپے کی تھی تو انہوں نے یہ دیکھ کر کہ اس میں نقصان ہوتا ہے اور اس کو حساب لگا کر اس کا ٹکٹ 30 روپے کر دیا۔ یہ ان کو پتہ تھا کہ 20 روپے میں وارا نہیں کھاتے لیکن وہ لاہور کو موٹر کمپنی دینے کے لئے اپنی جیب سے پیسے ڈال کر جو لوگوں کو سہولت دیتے تھے موجودہ حکومت کی یہ پالیسی نہیں ہے یہ ٹرانسفر کر دیتے ہیں۔ مہنگائی براہ راست لوگوں کے سر پر ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو تکلیف پیش آتی ہے۔ طویل مدت کے لئے شاید موجودہ حکومت کی پالیسی ٹھیک ہو کہ جو اصل خرچہ ہے اس کو رہنے دیا جائے اپنی جیب سے پیسہ خرچ نہ کیا جائے لیکن میں محسوس کرتا ہوں وقتی ریلیف کے لئے پچھلی حکومت کی پالیسی صحیح تھی۔ آپ یہ دیکھیں کہ کل نئے سال کے جشن منائے جا رہے تھے۔ حکومت نے 3 بنیادی چیزوں کی قیمتیں بڑھا دیں۔ بے شک وہ بوجھ پاکستانی عوام پر پڑتا ہے یہی موجودہ حکومت دلیل دیتی ہے کہ وہ قرضے لے کر عوام کو ریلیف دیتے تھے۔
قرض کی پیتے تھے اور کہتے تھے ہاں
رنگ لائے گی یہ فاقہ مستی ایک دن
کسی بھی طریقے سے قرضے لے کر، اللوں تللوں سے مزید اور قرض لے کر ملک کو مقروض کر کے بھی عوام کو خوش رکھتے تھے۔ اس بات سے قطع نظر کہ حالات اس قدر خراب ہیں کہ ڈھکنا اٹھے گا کہ اتنے پیسے ہیں اور اتنے لینے ہیں تو بھی ہمیں اتنی ہی مشکل پیش آئے گی۔ پیپلزپارٹی اور متحدہ دونوں طرف سے کوششیں جاری ہیں، بلاول نے متحدہ کو سندھ حکومت میں شامل ہونے کی پیش کش کی ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما بھی متحدہ سے رابطہ میں ہیں۔ بلاول سمجھتے ہیں کہ متحدہ اگر وفاق کا ساتھ چھوڑ دے تو حکومت کمزور ہو کر گر جائے گی۔ متحدہ کی شہروں میں تعداد زیادہ ہے وہ بلدیاتی اداروں پر تسلط چاہتی ہے زیادہ سے زیادہ اختیارات کی خواہش مند ہے جبکہ صوبائی حکومت کی خواہش ہے کہ زیادہ اختیارات اس کے پاس رہیں کراچی حیدرآباد و دیگر شہروں میں بلدیاتی اختیار متحدہ کو دینے کی تیار نہیں ہے۔ دونوں پارٹیاں ماضی میں اتنی بار ملنے کے بعد الگ ہوئی ہیں کہ اب جب تک مکمل یقین دہانی نہ ہوئی تو آپس میں نہیں مل سکتی۔ یہ یقین دہانی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بھی کرائی جا سکتی ہے پی پی اور متحدہ کی سیاسی مجبوریاں انہیں اکٹھا کرنے پر مجبور کر سکتی ہیں سیاست میں کچھ بھی ممکن ہے۔ ایم کیو ایم پی پی سے ملنے کے لئے کوئی گارنٹی ضرور چاہے گی۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv