لندن میں موجود نواز شریف کو مریم نواز نے چچا شہباز شریف کی شکایت ؟ پھر کیا ہوا دیکھیں خبر

 اسلام آباد(ویب ڈسک)نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا کہ نواز شریف جدہ تو گئے لیکن جدہ سے مزید زیاددہ ذہنی تنا کا شکار ہو کر واپس آئے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا ذہنی تناو مزید بڑھ گیا ہے۔ لندن میں ہونے والے اجلاس میں سلمان شہباز کو بھی نہیں بٹھایا گیا۔ میاں صاحب نے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں سوچا کہ اگر میں باہر رہوں رو میں بھی مستقل یو ٹیوب پر چلا جاﺅں گا۔ڈاکٹر شاہد مسعود کا کہنا تھا کہ لندن ملاقات میں نواز شریف نے شہباز شریف پر شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے انہیں ڈانٹا۔ شہباز شریف حسب عادت ہمیشہ کی طرح نواز شریف کے سامنے ٹھس ہو جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں یہ بار ہا کہہ چکا ہوں کہ نواز شریف پارٹی کی صدارت کبھی بھی شہباز شریف کو نہیں دیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ میاں صاحب کو فون کر کے مریم نواز نے ان کو شکایت کی ہے اور کہا کہ میں انکل کے گھر گئی ، چاچو کو ہیرو کہا لیکن اس کے باوجود چاچو نے جواب نہیں دیا۔ حمزہ شہباز نے بھی میری کسی بات کا کوئی جواب نہیں دیا ، یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف پر نواز شریف اس مرتبہ زیادہ غصہ تھے۔

مجید نظامی کے بعد پیدا ہونے والا خلا ضیا شاہد نے پورا کیا


لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے مختلف موضوعات کا احاطہ کرنے والے پروگرام ”کالم نگار“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی اور تجزیہ کار توصیف احمد خان نے کہا ہے کہ لیگی رہنما لندن میں سرجوڑے بیٹھے ہیں۔ نواز شریف کی عدالت میں پیشی اس وقت ان کےلئے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ لیگی رہنما ذاتی خرچے پر تو لندن نہیں گئے ہونگے۔ پاکستان کے فیصلے تو عموماً امریکہ میں ہوتے ہیں تاہم ان پر عملدرآمد کی ڈیوٹی شاید برطانیہ کی لگائی جاتی ہے۔ اسی لئے ہمارے رہنما برطانیہ جاتے اور وہیں جائیدادیں بنانا پسند کرتے ہیں۔ 1970ءمیں پہلا لندن پلان سامنے آیا تھا جب انٹی بھٹو گروپ وہاں جمع ہوا تھا۔ موجودہ حالات میں وزیراعظم شاہد خاقان کے اعصاب جواب دینا شروع ہو گئے ہیں۔ روزنامہ ”خبریں“ کے قیام کو 25 سال مکمل ہو چکے ہیں۔ ضیاشاہد ایک ورکنگ جرنلسٹ تھے اور ایک ورکنگ جرنلسٹ کا پاکستان میں اخبار نکالنا اور اسے کامیابی سے چلانا ناممکن تھا جسے ضیاشاہد نے ممکن کر دکھایا۔ ضیاشاہد کی حال ہی میں چار پانچ کتابیں شائع ہوئی ہیں ایک کتاب ”قلم چہرے“ تکمیل کے مراحل میں ہے جو تاریخ کے طالبعلموں کےلئے نادر تحفہ ہوگی۔ ضیاشاہد نے زندگی میں بڑے حادثات کا سامنا کیا۔ بیٹا اور داماد دنیا سے رخصت ہوگئے خود انہوں نے طویل بیماری کاٹی مگر کبھی حوصلہ اور ہمیت نہ ہاری اور عزم کے ساتھ صحافتی زندگی کا سفر جاری رکھا۔ معروف کالم نویس اسلم خان نے کہا کہ لندن میں لیگی رہنما اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ نواز شریف کی عدالت سے جان کیسے چھڑائی جائے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کو نواز دور میں عدالتوں کے چکر لگوائے جاتے رہے تاہم انہوں نے ہمیشہ عدالتوں کا احترام کیا اور پیشیاں بھگتتی رہیں۔ نواز شریف بھی اب اسی طرح ہمت کریں اور عدالتوں کا سامنا کریں۔ مریم نواز 4 سال تک بغیر کسی عہدے کے حرکت کرتی رہیں ہیں۔ غیر فطری چیزیں نہیں چل سکتیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شاہد خاقان کب تک معاملات کو لیکر چلتے ہیں۔ نواز شریف اللہ کی پکڑ میں آئے ہیں۔ نواز شریف، شاہد خاقان اور جنرل باجوہ کی بھی تثلیث ہے۔ شاہد خاقان کے سسر جنرل (ر) ریاض جنرل باجوہ کا رشتہ لیکر جنرل (ر) اعجاز عظیم کے گھر گئے تھے اور رشتہ کرایا تھا۔ شاہد خاقان کے برادر نسبتی عابد ریاض اور جنرل قمر جاوید میں گہری دوستی ہے۔ نواز شریف نے شاہد خاقان کو وزیراعظم بھی اسی لئے بنایا کہ وہ فوج سے معاملات کو ٹھیک چلا سکتے ہیں۔ ضیاشاہد سے میرا بڑی محبت کا ر شتہ رہا ہے وہ بڑے فراخ دل، محبت کرنے والے اور پناہ دینے والے ہیں۔ موجودہ وقت میں بھی ضیاشاہد ہی ہیں جنہوں نے پاکستان کا جھنڈا تھام رکھا ہے کسی اور میں یہ ہمت دکھائی نہیں دیتی۔ مجید نظامی کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو ضیاشاہد نے پر کیا ہے۔ چیئرپرسن پلاک ڈاکٹر صغریٰ صدف نے کہا کہ لندن میں پہلی بار سیاسی رہنما اکٹھے نہیں ہوئے ماضی میں کئی بار لندن میں پلان بنتے رہے ہیں۔ لیگی رہنماﺅں کا وہاں اکٹھے ہوننا اچنبھے کی بات نہیں ہے ان کا لیڈر وہاں ہے تو اس سے مشاورت تو کرینگے۔ عدالتوں کو ڈکٹیٹروں نے بھی کبھی سنجیدہ نہیں لیا۔ انصاف سب کےلئے برابر ہونا چاہیے۔ احتساب وزیراعظم سے شروع ہوا ہے تو باقی سب کو بھی پکڑا جانا چاہیے۔ پھر ہی عوام کا اعتماد بحال ہو گا صرف ایک شخص کا احتساب ہوا تو عوام میں اس کےلئے ہمدردی پیدا ہوگی۔ عمران کی کوشش ہے کہ حکومت رخصت ہو جائے اور انہیں موقع مل جائے۔ ان کے جلسوں کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے۔ ضیاشاہد کی کتاب ”امی جان“ پڑھی تو پتہ چلا کہ ان کا تعلق ایک پڑھے لکھے اور معتبر گھرانے سے ہے۔ وہ ایک ذہین و فطین آدمی ہیں جنہیں اپنے اخبار اور چینل سے جنون کی حد تک محبت ہے۔ ضیاشاہد نے بیٹے اور داماد کے غم کے باوجود اپنا صحافتی مشن جاری رکھا۔ وہ جس طرح مختلف محاذوں پر ڈٹے نظر آتے ہیں اس طرح کوئی اور صحافی نظر نہیں آتا۔ ضیاشاہد کی شخصیت میں منافقت نہیں ہے اگر وہ ناراض ہوں تو چھپاتے نہیں ہیں۔ معروف تجزیہ کار سجاد بخاری نے کہا کہ اگر لندن میں بیٹھ کر ہی پاکستان کے فیصلے کرنے ہیں تو پھر آزادی حاصل کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ نواز شریف کو بچانے کےلئے نہیں ان سے جان چھڑانے کےلئے لندن میں اکٹھے ہوئے ہیں کیونکہ نواز شریف کی وجہ سے حکومت خطرے میں پڑ گئی ہے۔ اگر لیگی رہنما سرکاری خرچ پر وہاں گئے ہیں تو یہ قوم کے ساتھ زیادتی ہے۔ لندن عالمی سیاست کا مرکز ہے۔ نواز شریف تاخیری حربے استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے خود کو مشکل کا شکار خود ہی کیا ہے۔ الیکشن جلد ہونے کے امکانات موجود ہیں، پیپلز پارٹی کی بیڈ گورننس کے باعث تحریک ا نصاف کو ا بھرنے کا موقع ملا اور اس نے ا پنے لئے چانس پیدا کر لیا ہے۔ ضیاشاہد کو صحافتی خدمات پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے جرنلزم میں نئے ٹرینڈ متعارف کرائے۔ ایک عام صحافی کو طاقتور بنایا۔ ہمیشہ جرا¿ت و بہادری کا مظاہرہ کیا اور جدوجہد کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ اپنی جرا¿ت بہادری اور دلیری سے جرنلزم کے شعبہ کو عزت دلوائی۔ ان سے پہلے جرنلزم کا تاثر مختلف تھا۔ ضیاشاہد کی تحریریں بڑی جاندار اور پرتاثیر ہوتی ہیں۔ ان کی کتابیں پاکستان کی تاریخ ہیں۔ ضیاشاہد کو اپنی بائیوگرافی بھی لکھنی چاہیے۔ وہ ایک سچے اور کھرے آدمی ہیں جنہوں نے زندگی میں سخت محنت کر کے اپنا ایک مقام بنایا ہے۔ ضیاشاہد نے زندگی کے کٹھن سفر میں عام آدمی کی حیثیت سے سفر شروع کیا۔ معمولی کام بھی کئے تاہم آج جب وہ ایک بڑے مقام پر ہیں پھر بھی کبھی ماضی کو چھپانے کی کوشش نہیں کی اور یہی ایک بڑے آدمی کی پہچان ہے۔

مقدمے ختم نہ ہوئے تو شہباز شریف وزیر اعظم،مریم نواز وزیر اعلیٰ پنجاب ہونگی:ضیا شاہد


لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ میاں نوازشریف پچھلے 35 سال سے اپنی پارٹی کی سربراہی کر رہے ہیں۔ پہلے وہ رسمی صدر نہیں بھی تھے تو بھی قیادت انہی کے پاس تھی اب وہ باقاعدہ پارٹی صدر منتخب ہو چکے ہیں۔ وہ ایک لمبے عرصے سے اقتدار میں ہیں۔ وہ وزیراعلیٰ بھی رہے۔ پھر وزیراعظم بنے پرویز مشرف نے فوج کی مدد سے انہیں نکال دیا۔ کچھ عرصہ جیل میں گزارنے کے بعد وہ سعودی عرب چلے گئے۔ آٹھ سال وہاں گزارے پھر واپس آئے اور جیت کر دوبارہ حکومت بنائی۔ اب دوبارہ وہ مسائل کا شکار ہیں۔ انہیں عدالت نے صادق اور امین نہ رہنے پر اقامہ کی بنیاد پر نااہل کر دیا سابقہ ریفرنسز کے بعد آج کی خبر یہ ہے کہ ان پر مزید ریفرنسز بھی بھیجے جائیں گے انہیں نیب عدالت میں مقدمات کا سامنا ہے۔ ایک مقدمہ میں پیش نہ ہونے کی وجہ سے قابل ضمانت وارنٹ بھی جاری ہو چکے ہیں۔ ان کے بیٹوں کے بھی وارنٹ جاری ہو چکے ہیں لیکن وہ پاکستان میں موجود نہیں ہیں۔ ان کی صاحبزادی مریم نواز کے خلاف اور ان کے داماد کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف بھی ریفرنس عدالت میں ہیں۔ مقدمات کا سلسلہ پھیلتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ نااہلی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم بنا دیا گیا۔ تاہم وہ نوازشریف کو ہی اپنا وزیراعظم مانتے ہیں۔ مخالفین کی جانب سے دعوﺅں کے باوجود مسلم لیگ (ن) کے 60 یا 70 (پرندے) ایم این اے ابھی تک ان کی شاخ سے اُڑے نہیں ہیں۔ میاں شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف اور دیگر رہنما لندن گئے تھے۔ میٹنگ کے اعلامیہ کے طور پر انہوں نے کہا ہے کہ ”مائنس نواز“ فارمولا زیر غور تک نہیں ہے۔ نوازشریف تمام تر کرائسز کے باوجود سیاست میں ”گرپ“ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور ان کے مخالفین کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ عوام نے انہیں منتخب کیا ہے۔ چند لوگوں کے بیان سے نہیں کہا جا سکتا کہ ن لیگ ٹوٹ گئی ہے۔ ان کی پارٹی کی اکثریت موجود ہے۔ وہ مزید ترامیم بھی کروا سکتے ہیں۔ نوازشریف کو جتنی بھی سزا ہو جائے۔ آئین پاکستان کی رو سے صدر پاکستان ان کی سزا معاف کر سکتے ہیں۔ قتل کے ملزم کو تمام عدالتیں مل کر پھانسی کی سزا دے دیں اور سپریم کورٹ میں اپیل بھی خارج ہو جائے تو بھی صدر پاکستان رحم کی اپیل برائے سزا معاف کر سکتا ہے۔ بھٹو کی پھانسی کو جب صدر ضیاءالحق کے اپیل مسترد کی تو اسے پھانسی دی گئی۔ نوازشریف کے خلاف مالی بے ضابطگی کے کیسز ہیں۔ انہوں نے کسی کو قتل نہیں کیا۔ صدر ممنون حسین انہیں ملنے والی ہر سزا کو معاف کر سکتے ہیں۔ اور اگر وہ ترامیم کے ذریعے نااہلی بھی ختم کروا سکیں تو پھر اقتدار کا راستہ نکال سکتے ہیں۔ عمران خان اور تمام سیاسی پارٹیاں مل کر اگر شور مچاتی رہیں اور صدر سے معافی کی درخواست مسترد کروانے کی کوشش کرتی رہیں اور وہ مسترد کروانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو انتشار کا خطرہ بن سکتا ہے۔ آصف زرداری مفاہمت کے بادشاہ ہیں وہ کسی وقت بھی بدل جاتے ہیں۔ پاکستان میں بادشاہت ہے۔ جمہوریت تو یہاں ہے ہی نہیں۔ ولی خان کے بعد ان کے رشتہ دار اقتدار میں آئے اسی طرح فضل الرحمن نے اپنے والد کی گدی سنبھال لی۔ اسی طرح سمیع الحق اپنی پارٹی کے صدر ہیں۔ اسی طرح نوازشریف اور شہباز شریف کے بچے، سیاست سے متحرک ہیں۔ مریم نواز کے بارے کہا جا رہا ہے کہ اگلی وزیراعظم وہ ہوں گی۔ اطلاع ملی ہے کہ شہباز شریف اور نوازشریف میں صلح ہو گئی ہے پچھلے دنوں کچھ تناﺅ تھا۔ لیکن سنا ہے کہ وہ تناﺅ آج ختم ہو گیا ہے فیصلہ ہوا ہے کہ اگر نوازشریف مقدمات سے نہ بچ سکے تو شہبازشریف اگلے وزیراعظم اور مریم نواز وزیراعلیٰ پنجاب ہوں گی۔ بڑے اخبارات، جنگ، نوائے وقت کے مقابلے میں کہا جاتا تھا کہ نیا اخبار نکالنا مشکل ہے۔ جنگ کراچی سے لاہور آیا، اسلام آباد گیا،راولپنڈی گیا اسی طرح نوائے وقت اسلام آباد، لاہور سے کراچی تک گیا۔ اس زمانے میں روزنامہ مشرق نکلا۔ وہ این پی ٹی کا اخبار تھا، اس نے سرکاری اخبار کی حیثیت سے بہت زور پکڑا۔ لوگ تصویر کا دوسرا رخ دیکھنا چاہتے ہیں۔ سرکاری خبریں تو ریڈیو، ٹی وی پر مل جاتی تھیں۔ یہ حکومت کے پاس تھے۔ 14 سال نوائے وقت اور جنگ میں رہنے کے بعد میں نے روزنامہ پاکستان نکالا۔ پہلا کمرشل کامیاب اخبار ثابت ہوا۔ تقریباً 5 ماہ میں اس کی سرکولیشن ایک لاکھ تک پہنچ گئی۔ چیف ایڈیٹر کے طور پر میرا نام چھپتا تھا۔ انہوں نے مجھے علیحدہ کر دیا میں عدالت بھی نہیں گیا۔ اس کے فنانسر اکبر علی بھٹی ایم این اے تھے۔ انہیں میڈیسن کنگ کہا جاتا تھا۔ ”خبریں“ کا تجربہ تلخ تھا۔ میرے پاس فنانسر نہیں تھے۔ ورکنگ صحافی ہونے کے سبب وسائل اتنے موجود نہیں تھے۔ اخبار نکالنے کیلئے اس وقت 20 کروڑ درکار تھے۔ یہ تجربہ بہت مختلف تھا۔ لاکھانی صاحب نے ”ایکسپریس“ نکالا۔ میاں عامر نے ”دنیا“ اخبار نکالا۔ وہ بھی بہت بڑے کاروباری انسان ہیں۔ میاں حنیف صاحب فیصل آباد کے صنعت کار ہیں انہوں نے 92 اخبار نکالا۔ لاہور یونیورسٹی والے رﺅف صاحب نے ”جہان پاکستان“ نکالا سپیریئر یونیورسٹی والوں نے ”نئی بات“ نکالا۔ مختلف تجارتی گروپوں نے اپنے اپنے اخبار نکالے۔ بعض کامیاب بھی ہوئے۔ میرے جاسے کم آمدن والے صحافی جس کے پاس تنخواہ کے سوا کچھ نہ ۔ پبلک لمیٹڈ سیکٹر میں تھوڑے تھوڑے سرمائے اکٹھے کئے گئے جوڑ جوڑ کر تین یا پانچ کروڑ اکٹھے ہوئے۔ اتنے ہی بینک کے لون لے کر ہم نے خبریں لاہور اور اسلام آباد 10 یا 12 کروڑ روپے سے نکال دیا۔ اس کے ڈائریکٹر تھے۔ ہارون آباد کی زمین میں نے بیچی۔ لاہور کا پلاٹ بیچا۔ عزیز رشتہ داروں سے پیسے اکٹھے کئے ایک ساتھی نے پلاٹ بیچ کر اس میں ڈالے۔ حًریں لوگوں سے اکٹھے کئے ہوئے پیسوں سے نکالا جانے والا واحد پبلک لمیٹڈ سیکٹر کا اخبار تھا۔ میں اس کا مالک نہیں ہوں۔ پس شیئر ہولڈر ہوں ہر تین سال کے بعد الیکشن ہوتا ہے۔ یہ نئے تجربے کا اخبار تھا۔ یہی تجربہ صنعتوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ خبریں لاہور اور اسلام آباد سے نکالا پھر ملتان اور پشاور سے نکالا۔ پھر کراچی اور حیدرآباد سے نکالا۔ سکھر اور کراچی سے ”خبرون“ سندھی کا اخبار نکالا کراچی سے اب بھی نکل رہا ہے۔ ”خبراں“ کے نام سے پنجابی اخبار نکالا۔ پنجابی کی ریڈر شپ کم ہے۔ اس میں دو کروڑ کا نقصان کرنے کے بعد اسے بند کر دیا۔ میرے بیٹے عدنان شاہد ”مرحوم“ نے بڑی محنت سے لاہوہر اور اسلام آباد سے ”دی پوسٹ“ کے نام سے خوبصورت انگریزی اخبار نکالا۔ نصرت جاوید صاحب اسلام آباد میں ریذیڈنٹ ایڈیٹر بنے۔ عمر چیمہ ہمارے چیف رپورٹر تھے۔ امریکہ سے واپسی پر لندن میں 36 سال کی عمر میں عدنان شاہد کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ فوت ہو گئے۔ وہ اخبار نہیں چل سکا۔ ان کی بیگم نے تھوڑی دیر چلانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ ہم کوئٹہ سے خبریں شروع کر رہے ہیں۔ تقریباً ایک ماہ میں سامنے آ جائے گا۔ اس کے علاوہ گوادر سے روزنامہ خبریں کا آغاز کرنے جا رہے ہیں۔ اگلے تین مہینوں میں یہ شروع ہو ج ائے گا۔ اس کی پالیسی ”جہاں ظلم وہاں خبریں“ رکھی تھی۔ محروم طبقے کی نمائندگی کے لئے ہم غریب اور نادار لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ ان کی خبریں چھاپتے ہیں میری بیٹی ڈاکٹر نوشین اور امتنان شاہد اس کے ایڈیٹر ہیں۔ خبریں ہیلپ لائن نہ صرف ان لوگوں کی مدد کرنی ہے۔ ٹیمیں جا کر ان کی حبریں لیتی ہیں اور لیگل ہیلپ کے لئے نوجوان وکلاءان کے کیس بھی لڑتے ہیں۔ خبریں جنوبی پنجاب میں لاہور میں اور کے پی کے میں بھی یہی پریکٹس شروع کرنے والی ہیں۔ ایک خدمت کا جذبہ لئے ہم (25) سلور جوبلی منا رہے ہیں۔ ہم نے پرانے دوستو ںکو آج کے ڈنر پر بلایا ہے۔ بڑی کوشش کی ہے کہ دوسرے شہروں سے بھی لوگ آ کر اس میں شریک ہوں۔ بہت دوستوں نے ہمارے ساتھ تعاون کیا، لیاقت بلوچ صاحب نے پہلا دفتر لے کر دیا اسی طرح اس بلڈنگ کی پہلی منزل انہوں نے لے کر دی پھر ہم آہستہ آہستہ پیسے دیتے گئے اور ساتوں منزلیں خرید لیں۔ دُعا ہے کہ یہ پھلے پھولے اور آگے بڑھے۔

مائنس نواز فارمولا ،لندن پلان میں اہم فیصلے ،وزیر اعظم نے بھی اہم اعلان کردیا

لندن(ویب ڈیسک) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہاہے کہ نوازشریف جلد پاکستان آئیں گے۔نوازشریف 3نومبرکواحتساب عدالت میں پیش ہوں گے، نوازشریف سے ذاتی نوعیت کی ملاقات تھی،ملاقات کیلئے حکومت سے ایک دن کی چھٹی لی۔ انہوں نے سابق وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات کے بعد میڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ سابق وزیراعظم نوازشریف سے ذاتی نوعیت کی ملاقات تھی ۔یہ حکومتی ملاقات نہیں تھی۔نوازشریف سے ملاقات کیلئے حکومت سے ایک دن کی چھٹی لی۔انہوں نے ایک سوال پرکہا کہ ناقدین کاکام تنقید کرناہوتاہے۔فیئرٹرائل عدالت میں جاکردیکھیں۔ وزیراعظم نے صرف ایک صوبے کے وزیراعلیٰ اجلاس میں شریک تھے؟ کے سوال پرکہاکہ یہ ذاتی نوعیت کی ملاقات تھی کوئی وزراء اعلیٰ کانفرنس نہیں تھی۔انہوں نے کہا کہ احتساب عدالت میں اگلی پیشی3نومبرکوہے۔نوازشریف اگلی پیشی پراحتساب عدالت میں پیش ہوں گے۔ انہوں نے کہاکہ مسلم لیگ ن کوتوڑنے اور شہبازشریف کوپارٹی صدربنانے کی باتیں افواہیں ہیں۔  انہوں نے کہا کہ امریکا کیلئے پی آئی اے کی پرواز پہلے ہی بند ہوجانی چاہیے تھی لیکن دیر بند ہوئی ہے۔لندن میں مسلم لیگ (ن) کا اہم اجلاس جاری ہے جس میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف اور وزیر خارجہ خواجہ آصف سمیت دیگر اہم پارٹی رہنما شریک ہیں۔شاہد خاقان عباسی اور شہبازشریف اجلاس میں شرکت کے لیے اچانک لندن پہنچے ہیں جب کہ وزیر خارجہ خواجہ آصف سعودی عرب سے لندن پہنچے۔ذرائع کے مطابق اجلاس کے شرکا میں اتفاق ہوا ہےکہ کوئی مائنس نواز فارمولا کسی صورت قبول نہیں ہے اور ملک میں کوئی ماورائے آئین اقدام بھی قبول نہیں ہوگا۔اجلاس میں شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز سے متعلق بھی اہم فیصلے متوقع ہیں۔ذرائع کے مطابق (ن) لیگ کے پارٹی اجلاس میں نیب ریفرنسز پر حکمت عملی تشکیل دی جائے گی اور نیب ریفرنس میں نواز شریف کی 3 نومبر کو پیشی کا انحصار اجلاس کےفیصلے پر ہوگا۔اجلاس سے قبل میاں نوازشریف اور شاہد خاقان عباسی کے درمیان حسن نواز کے دفتر میں اہم ملاقات ہوئی جس میں شہبازشریف بھی شریک تھے۔ذرائع کے مطابق وزیراعظم کے سیکریٹری فواد حسن فواد نے بھی سابق وزیراعظم میاں نوازشریف سے ملاقات کی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم اور میاں نوازشریف کے درمیان ملاقات میں نیب ریفرنسز سمیت دیگر امور پر بات چیت کی گئی۔نوازشریف سے ملاقات کے لیے پہنچنے پر میڈیا نمائندوں سے غیر رسمی گفتگو میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی حیثیت نہیں آیا اور یہ کوئی سرکاری دورہ بھی نہیں، نجی دورے پر آیا ہوں۔دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہےکہ میاں نوازشریف نے نیب ریفرنس میں 3 نومبر کو پیشی کے لیے وطن واپسی کا فیصلہ کرلیا ہے اور وہ جمعرات کے روز وطن واپس پہنچ جائیں گے۔ اس سے قبل لندن پہنچنے پر ہیتھرو ایئرپورٹ پر میڈیا نمائندوں سے غیر رسمی گفتگو میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ان کے پاس قبل از وقت انتخابات کی کوئی تجویز نہیں آئی جب کہ ٹیکنوکریٹ حکومت سے متعلق کوئی چیز آئین میں نہیں دیکھی۔انہوں نے کہا کہ ملک اور حکومت چل رہے ہیں، کونسپریسی تھیوری پر یقین نہیں کرتا۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کوئی ٹکراؤ نہیں، امریکیوں کے سامنے سب ایک ساتھ بیٹھے تھے، سب مل کر یکجہتی سے کام کررہے ہیں۔

مسعود اظہر کے خلاف بھارتی قرارداد کو دوبارہ ویٹو کردیں گے، چین

چینی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ارکان کا مسعود اظہار پر پابندی لگانے کے معاملے پر اختلاف ہے۔ بیجنگ میں پریس بریفنگ کے دوران وزارت خارجہ کے ترجمان ہوا شن ینگ نے مسعود اظہر پر پابندی سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ فی الوقت سلامتی کونسل کے ارکان کا اس معاملے پر اختلاف ہے اور چین نے مزید غور و خوض کرنے کے لیے تکنیکی طور پر اس معاملے کو روکا ہے۔واضح رہے کہ چین نے اگست میں سلامتی کونسل میں مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دینے کی بھارتی قرارداد تکنیکی بنیادوں پر روک تھی جس کی مدت میں اس جمعرات کو ختم ہوجائے گی۔ یاد رہے کہ عسکری تنظیم جیش محمد پر پاکستان میں پابندی عائد ہے۔

فریا ل مخدوم کا نیا روپ ، تصویر نے سوشل میڈیا پر تہلکہ مچا دیا

لاہور (ویب ڈسک ) باکسر عامر خان کی اہلیہ فریال مخدوم سوشل میڈیا ویب سائٹس پر بہت سرگرم رہتی ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی تصاویر جاری کر تی ہیں۔چند روز قبل انہوں نے اپنی ایک تصویر اپ لوڈ کی تھی جس سے مداحوں کو یہ معلوم ہوا تھا کہ وہ تین ماہ کی حاملہ ہیں اور اس پر انہیں مبارکباد کے پیغامات ملنے شروع ہو گئے۔لیکن اب انہوں نے جو تصویر جاری کی ہے اسے دیکھ کر مبارکباد تو کوئی نہیں دے گا البتہ جو بھی دیکھے گا وہ واقعی میں ڈر جائے گا۔فریال مخدوم نے جیسے ہی تصویر اپ لوڈ کی تو سوشل میڈیا صارفین نے کمنٹس کی بوچھاڑ کر دی۔ کسی نے انہیں پسندیدگی کا ووٹ دیا تو کوئی حالت بدلنے کا مشورہ دیتا رہا۔”بھابھی مجھے معاف کر دیں“ شاداب خان نے گزشتہ رات گرا?نڈ میں ایسی حرکت کر دی کہ ثانیہ مرزا ”ناراض“ ہو گئیں، پھر شادب خان کو معافی مانگنا پڑ گئی کیونکہ۔۔۔فریال مخدوم کا یہ نیا روپ مشہور تہوار ہالووین کیلئے ہو سکتا ہے کیونکہ اس تہوار پر لوگ ڈرا?نے اور عجیب و غریب روپ دھار کر سکوں پر نکلتے ہیں اور ہر کوئی اس دوڑ میں بازی لے جانے کی کوشش میں مصروف ہوتا ہے۔faryal

حکومت سے الگ کیوں ہوا ؟چوہدری نثار کی مسلم لیگ ن کی موجودہ پارٹی بارے حیران کن باتیں

 اسلام آباد(ویب ڈیسک)اسلام آباد میں میڈیا سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ میں آج پاکستان کے حالات 1970 سے زیادہ مشکل دیکھ رہا ہوں کیونکہ اُس وقت ایک ملک سے خطرہ تھا اب ہمیں بہت سارے ملکوں سے خطرہ ہے، ان میں سے کچھ سامنے اور کچھ خفیہ ہیں۔ اس وقت ہمیں متحد ہونا پڑے گا کیوں کہ  خطرات کا مقابلہ اتحاد اور اندرونی استحکام سے کیا جا سکتا ہے اگر ہم ایک آواز بنیں تو چیلنجز کا سامنا کر سکتے ہیں۔ اگر ہم نے انفرادی طور پر سوچا تو سب کو نقصان ہوگا، ٹرمپ کی پالیسی پر پہلی دفعہ ہم نے متحد ہوکر موقف دیا تو انہیں اپنی پالیسی بدلنی پڑی۔چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ میں نے پاناما معاملے پر نواز شریف کو تقریر نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا، انہیں سپریم کورٹ کو کمیشن کے لئے خط بھی نہیں لکھنا چاہئے تھا، ہمیں عدالتوں سمیت ملک کے دیگر اداروں کا احترام کرنا ہوگا، عدالت کے فیصلوں پر اعتراض کیا جاسکتا ہے ہم کسی صورت  محاذ آرائی کے متحمل نہیں، مجھے پہلے پتہ تھا کہ اگر عدالتی فیصلہ خلاف آیا تو پارٹی محاذ آرائی کرے گی، اسی وجہ سے میں نے فیصلہ کیا کہ حکومت سے الگ ہو جاؤں۔ وزیراعظم شاہد خاقان کو بطور وزیراعظم ٹیکنوکریٹ حکومت سے متعلق بات نہیں کرنی چاہیے۔سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ  ہم الیکشن کی طرف جا رہے ہیں اور ہمارے سیاسی مخالفین نے انتخابی مہم شروع کررکھی ہے، مسلم لیگ (ن) سیاسی جماعت ہے، پارٹی کے اندر کوئی تقسیم نہیں بس اختلاف رائے ہے جو کہ جمہوری نظام کا حصہ ہے، میں نے اپنے تحفظات بیچ سڑک پر نہیں بلکہ پارٹی کے اجلاسوں میں بیان کئے۔ اس وقت پارٹی میں صرف ذاتیات پرتوجہ دی جا رہی ہے، ہمیں ذاتیات سے نکل کر پارٹی کے مفاد کو دیکھنا ہوگا، اگر ایسا کیا تو ذاتیات کے ساتھ پارٹی کو بھی فائدہ ہوگا۔ خدانخواستہ مسلم لیگ کوکوئی نقصان پہنچا توبہت بڑا سیاسی خلا پیدا ہوجائے گا۔