قندیل بلوچ کے باپ نے چپ کا روزہ توڑ دیا‘بیٹی کے قاتل کا نام بتادیا

ملتان(آئی این پی ) پاکستانی سوشل میڈیا اسٹار قندیل بلوچ کے والد نے کہا ہے کہ میری بیٹی کو مفتی عبدالقوی کے کہنے پر قتل کیا گیا،میں مفتی قوی کو کبھی معاف نہیں کروں گا،مفتی عبدالقوی نے مجھے پیسوں کی آفرکی کہ میں ان کانام کیس سے نکلوادوں۔ تفصیلات
کے مطابق ملتان میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت کے جج امیر محمد خان نے قندیل بلوچ قتل کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران قندیل بلوچ قتل کیس میں گرفتار ملزمان وسیم اور حق نواز عدالت میں پیش ہوئے جب کہ قندیل بلوچ کے والد عظیم ماہڑہ بھی عدالت پہنچے۔ سماعت کے دوران قندیل بلوچ قتل کیس کے تفتیشی افسر نے چالان مکمل کرنے کے لیے مہلت مانگ لی، عدالت نے 20 نومبر کو حتمی چالان پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 20 نومبر تک ملتوی کردی۔اس موقع پر قندیل بلوچ کے والد عظیم ماہڑہ نے کہا کہ ان کی بیٹی کو مفتی عبدالقوی کے کہنے پر قتل کیا گیا، میں مفتی قوی کو کبھی معاف نہیں کروں گا۔ انہوں نے مزید انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ مفتی قوی نے مجھے پیسوں کی پیشکش کی کہ میں ان کا نام کیس سے نکلوادوں لیکن میں نے انکار کردیا کیونکہ میں اپنی بیٹی کے قاتلوں کو سزا دلوانا چاہتاتھا۔عظیم ماہڑہ نے قندیل کے قاتلوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا وسیم اور حق نواز نے جو گناہ کیا ہے اس کی سزا انہیں ضرور ملے گی۔ آخر میں انہوں نے عدالت سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ مفتی قوی کو سزا دے کر مجھے انصاف دلایاجائے۔

جے آئی ٹی بارے چودھری نثار کا تہلکہ خیز انکشاف

اسلام آباد (آئی این پی) مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنماو سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ پانامہ پیپرز پر سپریم کورٹ جانا، نواز شریف کا قوم سے خطاب کرنا، جے آئی ٹی کو قبول کرنا یہ سب مسلم لیگ (ن) کے اپنے فیصلے ہیں اس لئے کسی دوسرے پر سازش کرنے کا الزام لگانا درست نہیں، میں نے مشورہ دیا تھا کہ اگرجے آئی ٹی پر تحفظات ہیں تو حکومت کو فوجی قیادت سے بات کرنی چاہیے، تمام سیاسی جماعتوں نے الیکشن مہم شروع کر دی لیکن مسلم لیگ (ن) گومگو کی صورتحال سے دوچار ہے، (ن) لیگ میں پارٹی کے وسیع مفاد کی بجائے ذاتیات پر فوکس ہو رہا ہے، ہمیں ذاتیات کی بجائے پارٹی، جمہوریت اور ملکی مفاد پر فوکس کرنا ہو گا، عدلیہ سمیت کسی بھی ادارے سے محاذ آرائی نہیں کرنی چاہیے، کوئی اور ٹیکنو کریٹ کی بات کرتا ہے تو اسے کرنے دیں وزیراعظم بار بار ٹیکنوکریٹ حکومت کا ذکر کیوں کرتے ہیں، سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی، راحیل شریف اور موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے مجھے کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہا، امریکی صدر ٹرمپ کے بیان پر متحد ہو کر بیان دیا گیا جس پر امریکہ کو پالیسی بدلنا پڑی، پاکستان 1970سے زیادہ مشکلات کا شکار ہے، درپیش خطرات کے حوالے سے کوئی اقدامات نہیں کئے جا رہے، لندن میں پارٹی کی کوئی باضابطہ میٹنگ نہیں ہو رہی جو برطانیہ جاتا ہے نواز شریف سے ضرور ملاقات کرتا ہے۔ پیر کویہاں پنجاب ہاﺅس میں صحافیوں سے غیر رسمی بات چیت کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنماءو سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ ملک کو 1970سے زیادہ خطرات لاحق ہیںسکیورٹی کے حوالے سے بھی ملکی حالات ٹھیک نہیں، ملک کو آج مختلف سمتوں سے خطرات درپیش ہیں، بدقسمتی سے ہر طرف معمول کے مطابق بزنس نظر آرہا ہے، سکیورٹی کے معاملات پر سب کو متحد ہونا چائیے، ٹرمپ کی طرف سے پالیسی ہمارے اتحاد کی وجہ سے تبدیل ہوئی، امریکی انتظامیہ کی طرف سے جو تھوڑی سے بہتری آئی ہے وہ ہمارے باہمی اتحاد کی وجہ سے آئی، اگر ہم ایک آواز بنیں تو چیلنجز کا سامنا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ذاتیات سے نکلنا ہو گا، ہمیں پارٹی کے مفاد کو دیکھنا ہوگا، اس وقت مسلم لیگ(ن) میں ذاتیات پر توجہ دی جا رہی ہے، اگر پارٹی کا مفاد دیکھا جا ئے تو ذاتیات کو بھی فائدہ ہوگا اور پارٹی کو بھی۔ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ انتخابات کو وقت پر منعقد ہونا چاہئے، مجھے مفاہمتی اور مزاحمتی گروپس کے الفاظ سے چڑہے۔ انہوں نے کہا کہ دیگر سیاسی جماعتیں الیکشن مہم میں چلی گئی ہیں اور سب جماعتوں نے الیکشن مہم شروع کر رکھی ہے لیکن مسلم لیگ (ن) گومگو کی کیفیت سے دوچار ہے، ہمیں اس کیفیت اور ذاتیات سے باہر نکلنا پڑے گا، پارٹی جمہوریت اور ملک کے مجموعی مفاد پر فوکس کرنا ہو گا، جب ہم پارٹی کا وسیع مفاد دیکھیں گے تو اس میں پارٹی کی بقائ، بہتری اور افراد کی بھی بہتری ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں آخری شخص ہوں گاجو اس بیانیے کا حصہ بنے گا کہ الیکشن بروقت ہونے چاہئیں، مجھے نہیں معلوم کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بار بار ٹیکنوکریٹ حکومت کا ذکر کیوں کرتے ہیں، شاہد خاقان عباسی کو بطور وزیراعظم ٹیکنوکریٹ حکومت کے حوالے سے بات نہیں کرنی چاہیے تھی، اگر کوئی اور ٹیکنو کریٹ حکومت کی بات کرتا ہے تو اسے کرنے دیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن)کو 1999سے بڑے چیلنجز ہیں، پارٹی میں تقسیم نہیں ہے اختلاف رائے ہے، بطور لیڈرز ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے جیالوں کا تحفظ کریں، یہ مارشل لا کی حکومت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانامہ پیپرز پر ہم خود سپریم کورٹ گئے اور کمیشن بنانے کی بات بھی ہم نے خود کی، سپریم کورٹ کو ہم نے خط لکھا جس میں کہا کہ جس طرح کی بھی تحقیقات عدالت کرے ہمیں کوئی اعتراض نہیں، اب یہ کہنا کہ ہمارے خلاف کسی نے سازش کی ہے یہ بات صحیح نہیں ہے، سابق وزیراعظم نواز شریف کے قوم سے خطاب کا مسئلہ بھی ہوا، میں نے اس کی مخالفت بھی کی، سپریم کورٹ کو خط لکھنے کی بھی میں نے مخالفت کی۔ انہوں نے کہا کہ پانامہ پیپرز پر سپریم کورٹ جانا، نواز شریف کا خطاب کرنا، جے آئی ٹی کو قبول کرنا یہ سب مسلم لیگ (ن) کے اپنے فیصلے ہیں اور ان فیصلوں کے بعد جو کچھ بھی ہوا وہ سب کے سامنے ہے اور اب پارٹی اور حکومت کو جو نقصان ہو رہا ہے اس پر ٹھنڈے انداز میں سوچ و بچار کرنی ہے۔ انہوںنے کہا کہ فیصلے عدالتوں نے کرنے ہیں ہمیں عدالتوں سے کسی صورت بھی محاذ آرائی نہیں کرنی چاہیے، عدالتی فیصلوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے وہ بھی قانونی دائرے میں رہ کر مگر محاذ آرائی نہیں کی جا سکتی، ہمیں ریلیف عدالتوں سے ہی مل سکتا ہے، مجھے محاز آرائی کے آثار نظر آرہے تھے اسی لئے حکومت میں شامل نہیں ہوا، دوسرے اداروں سے بھی محاز آرائی نہیں کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ جب حکومت میں تھے تو میں نے حکومت میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ پانامہ کیس میں عدالتی جدوجہد جاری رہنی چاہیے اور سیاسی میدان میں الیکشن کے حوالے سے تیاری شروع کر دینی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں مسلم لیگ (ن) کے رہنماﺅں کا اکٹھا ہونا محض حسن اتفاق ہے، وہاں پارٹی کی کوئی باضابطہ میٹنگ نہیں ہو رہی تاہم جو بھی برطانیہ جاتا ہے وہ سابق وزیراعظم نواز شریف سے ضرور ملاقات کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کے حوالے سے جو تحفظات تھے اس پر میں نے مشورہ دیا تھا کہ ہمیں ان تحفظات پر فوجی قیادت سے بات کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی آپریشن میں نے شروع کیا تھا اور فوج سمیت میں نے کسی سے بھی اس کی اجازت نہیں لی، میرے دور میں وزارت داخلہ میں سول عام فورسز کے شعبوں کے سربراہان کی تقرریاں وزارت داخلہ کی سفارش پر ہوتی رہیں۔ سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی، راحیل شریف اورموجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے مجھے کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہا۔

اہم مذ ہبی تنظیم نے جیل بھرو تحریک کا اعلان کر دیا۔

اسلام آباد‘ لاہور (خصوصی رپورٹ) تحریک لبیک یا رسول اللہ کا پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا چھٹے روز میں داخل ہو گیا ہے جبکہ تحریک کے مرکزی سربراہ ڈاکٹر محمداشرف آصف جلالی نے مطالبہ کیا ہے کہ وزیر داخلہ ختم نبوت کے حلف میںترمیم کے ذمہ داروں کو آج بروز منگل 12بجے تک پیش کریں اور پارلیمنٹ کے چوک میں انہیں پھانسی دی جائے۔ تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ راجہ ظفرالحق نے آج کے اخبارات میں چھپے ہوئے بیان میں اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ انتخابی اصلاحات بل میں ختم نبوت سے متعلق جو آرٹیکل نکالے گئے یہ قادیانیوں کی سازش تھی اور ختم نبوت والی شقیں ابھی تک مکمل بحال نہیں ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ انتخابی اصلاحات کے ساتھ ان آرٹیکلز کا کوئی لنک بھی نہیں تھا چنانچہ بلاضرورت جان بوجھ کر عقیدہ ختم نبوت سے چھیڑچھاڑ کرتے ہوئے انہیں نکالا گیا۔ وزیر داخلہ احسن اقبال کا یہ بیان بھی چھپا کہ پارلیمنٹ میں عقیدہ ختم نبوت کے لحاظ سے تبدیلی کے متعلق رپورٹ تیار ہے اور ایک ہفتہ کے اندر ذمہ داروں کا نام بھی سامنے لائیں گے اور کارروائی بھی ہو گی۔ بعض قومی اخبارات نے ذرائع کے مطابق خبر دی کہ رپورٹ میں ختم نبوت کے حلف نامے میں تبدیلی کے ذمہ دار وزیر قانون زاہد حامد اور ایک خاتون وزیر ہیں۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک کا وفاقی وزیر قانون اور صوبائی وزیر قانون دونوں ہی قادیانیوں کے سہولت کار ہیں تو پاکستان کے مسائل حل کیسے ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹر محمداشرف آصف جلالی نے کہا کہ ملک بھر کے عاشقان رسول آج شہیدناموس رسالت غازی علم الدین شہید کو خراج تحسین پیش کریں اور ان کی روح کو ایصال ثواب کیا جائے۔ پاکستان غازی علم الدین جیسے شہیدوں کے خون کی خیرات ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ظلم بالائے ظلم کر رہی ہے۔ آج بھی 24گھنٹے کے بعد ہمارا کھانا لانے والی گاڑی علامہ اشفاق صابری سمیت پکڑ کر تھانہ کوہسار پہنچا دی گئی ہے۔ شرکاءدھرنا سے اظہار یکجہتی اور 6نکاتی مطالبات کی حمایت میں اسلام آباد ایکسپریس وے پر دوسرے روز بھی تنظیمات اہلسنت کے زیراہتمام سڑک کو بند کر کے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس کے باعث ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا۔ ہائی وے پر مظاہرہ کرنے والے کارکنوں کا مطالبہ تھا کہ جناح ایونیو کے شرکاءدھرنا پر پانی اور اشیاءخورونوش پہنچانے پر پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے پابندی ختم کی جائے۔ اس دوران ایکسپریس ہائی وے پر پولیس اور کارکنوں میں تلخ کلامی بھی ہوئی۔ ادھر لاہور میں بابو صابو انٹرچینج پر بھی دھرنا جاری رہا جس کے باعث ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو گیا اور کئی گاڑیاں اور ایمبولینسیں بھی پھنسی رہیں۔ اس صورتحال میں عوام اور مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انٹرچینج سے ملحقہ سڑکیں ٹریفک کیلئے بلاک کر دی گئیں اور مظاہرین نے حکومت اور صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ کے خلاف زبردست نعرے بازی کی۔ ادھر مظفرآباد‘ میرپور‘ کراچی‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ ملتان‘ فیصل آباد‘ گجرات اور دیگر شہروں میں بھی احتجاج جاری رہا۔ ختم نبوت دھرنا تحریک لبیک یا رسول اللہ کے چیئرمین مولانا اشرف آصف جلالی نے کہا ہے کہ ملک کی بنیادوں میں ہمارا خون ہے اور ہم اسے جلتا نہیں دیکھ سکتے۔ ہمیں گرفتار کرلو پھر بھی ہم اپنے مطالبات سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ آج سے جیل بھرو تحریک شروع کرینگے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز ڈی چوک میں پریس کانفرنس میں کیا۔ اس موقع پر آصف جلالی نے کہا کہ ختم نبوت قانون کے تحفظ کیلئے جیل کو جنت کا راستہ سمجھتے ہیں۔ ختم نبوت قانون میں ترمیم کرنے والوں کو بے نقاب اور ملعون آسیہ کو بیرون ملک فرار نہ کرانے کی گارنٹی پر دھرنا ختم کردیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت مطالبات ماننے کو تیار نہیں ۔ ایک سوال پر حکومت نے دھرنا کے شرکاءبھوکے پیاسے بیٹھے ہیں اور فورسز نے آپریشن کی تیاری مکمل کرلی ہے بتیاں بند کرکے حکمران اپنا ظلم و ستم چھپانا چاہتے ہیں۔ ہمارے کارکنان کو پکڑا جا رہا ہے ایک سوال پر کہا پہلے مرحلے میں مخصوص لوگوں کو بلایا تھا اور میری گرفتاری پر لاکھوں کارکن سڑکوں پر ہیں۔

 

خبر دار ہو جاہیں کیونکہ ڈینگی سے متاثر ایک مر یض دم تور گیا جبکہ کتنے متاثر ہیں‘ دیکھیے خبر

لاہور (خصوصی رپورٹ) خیبر پختونخوا میں ڈینگی مچھر نے ایسا سر اٹھایا کہ اس سے پیدا شدہ تشویشناک صورت حال سے چھٹکارا پانا صوبائی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ ہر روز ایک آدھ موت اس کے باعث واقع ہو رہی ہے۔ ہفتے کے روز بھی پشاور کے دو بڑے ہسپتالوں میں مقامی اور مضافات سے تعلق رکھنے والے شہروں کے دومریض چل بسے اور صوبے میں ہلاکتوں کی تعداد63تک پہنچ گئی۔ پنجاب میں جہاں سخت حکومتی اقدامات کے باعث گزشتہ تین چار سال سے صورتحال بڑی حد تک اطمینان بخش تھی، نارووال شہر کے ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں تحصیل شکرگڑھ کے مضافات سے 200مریض لاکر داخل کئے جا چکے ہیں‘ ان میں سے ایک خاتون کی ہلاکت خطرے کی گھنٹی ہے۔ مجموعی طور پر ملک بھر میں شہریوں اور انتظامیہ کو باخبر رہنا چاہئے کیونکہ سردی کا موسم اب تک شروع نہیں ہوا جس میں ڈینگی مچھر سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔ جغرافیائی طور پر پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا میں آبادیاں ایک دوسرے کے قریب اور گنجان ہیں جس سے صورتحال گمبھیر ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ ایشیائی اورلاطینی امریکہ سے تعلق رکھنے والے ممالک میں ڈینگی مچھر کی موجودگی کی وجہ ہی ان ملکوں کا گنجان ہونا ہے جہاں گزشتہ پانچ دہائیوں میں یہ وائرس ابھر کر سامنے آیا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے 100سے زیادہ ممالک میں پھیل گیا۔ تاہم بیشتر ممالک حفاظتی اقدامات سے اپنے شہریوں کی جانیں بچانے میں کامیاب رہے ہیں۔ پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو بھی چاہئے کہ ان ممالک کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔ شہریوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ اپنی انتظامیہ اور محکمہ صحت کی ٹیموں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تعاون کریں اور از خود اپنے گھروں کو ڈینگی کی آماجگاہ بننے سے محفوظ رکھیں۔ اکثر تعلیمی اداروں میں انتظامیہ کی غفلت کے باعث مچھروں کی بہتات پائی جاتی ہے ہر شہر کی مقامی انتظامیہ کو اس صورتحال پر نظر رکھنی چاہئے۔

پنجاب کے سکول بند کرنے بارے تہلکہ خیز خبر‘وجہ کیا بنی؟

لاہور (خصوصی رپورٹ) محکمہ داخلہ نے بھی سموگ کے خلاف دفعہ 144 کے نفاذ کا نوٹیفکیشن جاری کردیا‘ جس کے مطابق سموگ کے دوران فصل جلانے‘ کارخانوں سے دھواں
چھوڑنے‘ ٹائر جلانے اور پلاسٹک بیگ جلانے کی ممانعت ہوگی۔ اس قسم کی سرگرمی کی روک تھام کیلئے شہر سمیت صوبے بھر میں پابندی لگا دی گئی۔ محکمہ داخلہ کا کہنا ہے کہ سموگ سرگرمیوں کی خلاف ورزی پر 90 فیکٹریوں کو سیل کیا گیا اور 100 سے زائد مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ متعلقہ حکام کو فیصلے پر سختی سے عمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ دریں اثنا محکمہ تحفظ ماحولیات میں صوبائی وزیر تحفظ ماحولیات ذکیہ شاہنواز کی زیرصدارت فضائی آلودگی سموگ کے حوالے سے اہم اجلاس ہوا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ سموگ اور بڑھتی ہوئی۔ فضائی آلودگی کو کنٹرول کرنے کیلئے عوام میں زیادہ سے زیادہ آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔ صوبائی وزیر ذکیہ شاہنواز نے کہا کہ نوجوانوں اور موٹرسائیکل سواروں کو ماسک‘ ہیلمٹ اور پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا چاہئے۔ بچوں اور بزرگوں کو سموگ میں گھروں میں نہیں نکلنا چاہئے۔ ٹریفک پولیس اور محکمہ ٹرانسپورٹر دھواں چھوڑتی گاڑیوں کو بند کرنے کے لئے ان کے زیادہ سے زیادہ چالان کرے تاکہ فضائی آلودگی پر قابو پایا جاسکے۔ اجلاس کو بتایا کہ صورتحال یہی رہی تو نہ صرف سکولوں کے اوقات کار تبدیل کئے جاسکتے ہیںبلکہ ایک مخصوص مدت تک بند کیا جا سکتا ہے۔ اجلاس میں سپارکو کے نمائندوں نے صوبائی وزیر کو سموگ کی موجودہ صورتحال اور فضائی آلودگی کے حوالے بریفنگ دی۔ اس موقع پر سیکرٹری تحفظ ماحولیات کیپٹن (ر) سیف انجم اور متعلقہ اداروں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ چیف میٹرولوجسٹ محمد ریاض نے کہا ہے کہ اس وقت درجہ حرارت نارمل سے دو ڈگری زیادہ ہے جبکہ دو ماہ سے بارش نہ ہونے کی وجہ سے فضاءمیں سموگ کی مقدار بہت زیادہ ہے تاہم گزشتہ سال والی صورتحال ابھی تک رپورٹ نہیں ہوئی نیز آئندہ ایک ہفتہ تک بارش کا کوئی امکان نہیں۔ دو ماہ سے یہاں بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے سموگ کی مقدار بڑھی اور یہ صورتحال بارش ہونے تک برقرار رہے گی۔انہوں نے کہا کہ اس وقت درجہ حرارت نارمل سے دو ڈگری زیادہ ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں چاہئے کہ ہم ماحول کو صاف رکھیں اور اسے آلودہ ہونے سے بچائیں۔انہوں نے کہا کہ اس سلسلہ میں متعلقہ محکمے اقدامات کر رہے ہیں تاہم ہمیں بھی انفرادی طور پر اس میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ ایک سوال کے جواب میں محمد ریاض نے کہا کہ اگرچہ فضاءمیں سموگ کی مقدار زیادہ ہے تاہم ابھی تک گزشتہ سال والی صورتحال رپورٹ نہیں ہوئی تاہم عوام کو چاہئے کہ وہ احتیاطی تدابیر اپنائیں۔

گاڑیوں کا دھواں سموگ میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی نے 70سال کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے۔ سانس‘ گلے کی بیماریوں کے ساتھ ساتھ کینسر جیسی بیماریاں بھی عام ہونے لگیں۔ شہری سخت پریشان‘ ماہرین نے ماسک پہننے کا مشورہ دے دیا۔ شہر میں ٹریفک کے بہاﺅ میں اضافہ ہونے کے باعث جہاں ماحولیاتی آلودگی بڑھ رہی ہے اس کے ساتھ ساتھ سموگ میں بھی کافی حد تک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جبکہ محکمہ موسمیات نے ایک ہفتہ تک سموگ کی زیادتی کی پیش گوئی کر دی ہے۔ ماہرین طب نے گاڑیوں کے دھوئیں کو انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ فضائی آلودگی مختلف خطرناک بیماریوں کا باعث بن رہی ہے اور فضائی آلودگی کے خاتمہ کیلئے اقدامات نہ کئے گئے تو آئندہ سالوں میں کینسر جیسی خطرناک بیماریوں میں کافی حد تک اضافہ ہو جائے گا۔ معروف کنسلٹنٹ ڈاکٹر طاہر رسول نے کہا کہ ٹریفک کے بہاﺅ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فضائی آلودگی سے سموگ پھیل رہی ہے جبکہ کینسر سمیت سانس اور گلے کی بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ شہری گھر سے باہر جاتے ہوئے ماسک کے استعمال کو یقینی بنائیں تاکہ آلودگی سے بچاﺅ ممکن ہو سکے۔ سموگ (آلودہ دھند) نے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہوا میں مٹی کے ذرات‘ زہریلے مادوں کی بھرمار‘ جگہ جگہ ٹریفک کی روانی میں رکاوٹ‘ کھٹارہ گاڑیوں سے خارج ہونے والا دھواں‘ صنعتوں آلودگی نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ ٹریفک حادثات بھی بڑھ گئے۔ صوبائی دارالحکومت میں محکمہ ماحولیات‘ ٹریفک پولیس‘ صفائی ستھرائی کے ذمہ دار محکموں اور متعلقہ اداروں کی مجرمانہ غفلت کے سبب شہر کو آلودہ دھند نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ سموگ میں اضافہ کی وجہ سے ٹریفک کی روانی میں رکاوٹ اور منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہونا‘ گردآلود علاقوں میں پانی کی سپرنکلنگ نہ ہونا‘ فضا میں کاربن اور زہریلا دھواں خارج کرنے والی فیکٹریوں اور اینٹوں کے بھٹوں سے اٹھنے والے دھوئیں نے سموگ میں شدید اضافہ کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ فضائی آلودگی میں چالیس سے پچاس فیصد آلودگی شہر میں کھٹارہ گاڑیوں‘ موٹرسائیکلوں‘ رکشوں سے خارج ہوتی ہے جبکہ ٹریفک پولیس نہ تو ان گاڑیوں کے خلاف کارروائی کرتی ہے اور نہ ہی ٹریفک کی روانی کی طرف توجہ دیتی ہے جس کی وجہ سے منٹوں کا سفر گھنٹوں میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ٹریفک جام میں گاڑیوں سے خارج ہونے والا دھواں سموگ میں اضافہ کی وجہ بن گیا ہے۔ ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ سموگ کا مسئلہ ایک دن میں پیدا نہیں ہوا۔ یہ متعلقہ اداروں کی عدم توجہی کا نتیجہ ہے جس کو شہری سموگ کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ دھند قدرتی عمل ہے جو سورج نکلتے ہی ختم ہو جاتی ہے مگر سموگ سورج نکلنے پر بھی ختم نہیں ہوتی۔ ہوا میں مٹی کے باریک ذرات‘ فیکٹریوں‘ کارخانوں اور گاڑیوں سے خارج ہونے والے زہریلے دھویں کی آمیزش سموگ کی بڑی وجہ ہے۔ سموگ کی روک تھام کیلئے متعلقہ محکموں کو مو¿ثر حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی۔ چیف میٹرولوجسٹ محمد ریاض نے کہا ہے کہ اس وقت درجہ حرارت نارمل سے دو ڈگری زیادہ ہے جبکہ دو ماہ سے بارش نہ ہونے کی وجہ سے فضا میں سموگ کی مقدار بہت زیادہ ہے‘ نیز آئندہ ایک ہفتہ تک بارش کا کوئی امکان نہیں۔ انہوں نے کہا کہ دن کو گرمی اور رات کو ٹھنڈ کی بڑی وجہ فضا میں گرد کا موجود ہونا ہے جو ماحول کو گرم رکھتی ہے جس کے نتیجہ میں دن کے وقت گرمی کی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ سموگ کی صورتحال بارش ہونے تک برقرار رہے گی۔ ڈائریکٹر ماحولیات پنجاب نسیم الرحمن شاہ نے بتایا کہ محکمہ ماحولیات نے سموگ کی روک تھام کیلئے آلودگی خارج کرنے والے صنعتی یونٹس کے خلاف کارروائی شروع کی جا چکی ہے جبکہ سموگ کی روک تھام کیلئے محکمہ ٹریفک‘ زراعت‘ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ‘ انڈسٹری‘ محکمہ موسمیات اور دیگراداروں کو بھی سموگ کی روک تھام کیلئے کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے بتایاکہ تحفظ ماحولیات نے کارروائیاں تیز کر دیں۔ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف بھی کارروائی شروع کر دی۔ آگاہی کے ساتھ ساتھ چالان بھی کئے جا رہے ہیں۔ زہریلا دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے مالکان انجن ٹھیک کرا لیں کیونکہ اب ماحولیاتی آلودگی کا سبب بننے والی گاڑیوں کے چالان ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ فضائی آلودگی اور حالیہ سموگ کے پیش نظر محکمہ ماحولیات کی ٹیمیں مختلف سڑکوں پر متحرک ہیں۔ ڈائریکٹر ایئر پالوشن توقیر قریشی نے بتایا کہ محکمہ ماحول کے پاس برسوں کی نسبت اس وقت 6مانٹیرنگ سٹیشن بڑی مستعدی سے مانیٹرنگ کر رہے ہیں‘ انہیں ٹھوکر نیاز بیگ‘ انجینئرنگ یونیورسٹی‘ جیل روڈ پر نصب کیا گیا ہے۔ محکمہ ماحولیات میں جونیئر افسر اہم عہدوں پر تعینات ہیں اور سینئر اور تجربہ کار افسران کو کھڈے لائن لگا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے ماحولیاتی قوانین پر عملدرآمد سموکنگ ایکٹ بن چکا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل ماحولیات کا عہدہ ڈیڑھ سال سے اضافی چارج پر سیکرٹری ماحولیات کے پاس ہے۔ چیئرمین ماحولیات ٹربیونل کا عہدہ تین ماہ جبکہ ٹیکنیکل ممبر کی وفات سے یہ سیٹ بھی خالی پڑی ہے‘ جبکہ کئی سینئر اور تجربہ کار افسران گروپ بندی کی وجہ سے پنجاب کے دوردراز اضلاع میں فارغ بیٹھے ہیں۔
سموگ

پنجاب کے صوبائی وزیر کہ خلاف شکنجہ تیار‘گرفتاری کا امکان

لاہور (خصوصی رپورٹ) قومی احتساب بیورو نے پنجاب سپورٹس بورڈ کے تحت یوتھ فیسٹیول میں ہونے والی مبینہ کرپشن کی ازسرنو انکوائری کا فیصلہ کر لیا۔ انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش نہ ہونے پر صوبائی وزیر تعلیم رانا مشہود کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ مختلف پہلوﺅں پر تحقیقات کے لیے نئے افسران کو تعینات کیا گیا۔ رانا مشہود کے ساتھ ساتھ سابق ڈی جی سپورٹس بورڈ عثمان انور کے خلاف بھی تحقیقات دوبارہ شروع کر دی گئیں۔ نیب کی طرف سے انکوائری التواءکا شکار تھی جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ کیس کے تمام گواہوں نے گواہی دینے سے انکار کر دیا تھا۔ درخواست گزار بھی کیس کی پیروی سے گریزاں تھا۔ مدعی اور گواہوں کی عدم حاضری پر کیس سابق ڈی جی نیب کو بھجوا دیا گیا۔ نیب کے ایک اجلاس کے بعد ازسرنو انکوائری کا فیصلہ کیا گیا۔ یاد رہے کہ اس حوالے سے نیب کی طرف سے پہلے سپورٹس بورڈ سے تمام ریکارڈ حاصل کیا جا چکا ہے۔
رانا مشہود گرفتاری

خشک سالی کے منحوس با دل چھا گئے‘ کاشتکاروں کےلئے بُری خبر

لاہور (خصوصی رپورٹ) لاہور اور ملحقہ علاقوں کی فضاﺅں میں سموگ نے شہریوں کو پریشان کر کے رکھ دیا۔ محکمہ موسمیات نے اس کی وجہ آلودگی اور بارشوں کی کمی کو قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ آئندہ دنوں میں اس کے مزید بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ لاہور اور گرد ونواح میں خشک موسم کا عرصہ طویل ہونے لگا، راتوں کو سردی کا احساس بھی بڑھ گیا جبکہ فضا میں موجود آلودگی نے نمی سےمل کر سموگ کی شکل اختیار کر لی ہے۔ چیف میٹرولو جسٹ محمد ریاض نے بارشیں نہ ہونے کے ساتھ ساتھ گردو غبار، آلودگی، گاڑیوں اور فیکٹریوں کے دھوئیں اور دھان کی مڈھیوں کو لگائی جانے والی آگ کو اس کی وجہ قرار دیاہے۔ طبی ماہرین نے بچوں، بوڑھوں اور مریضوں کو غیر ضروری کام سے باہر نہ نکلنے کی تاکید کی ہے، خصوصا دمے کے مریضوں کو خصوصی احتیاط برتنے کا مشورہ دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ باہر نکلنا مقصود ہو تو ماسک ضرور لگائیں اور آئی ڈراپس استعمال کریں۔ محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ سموگ کا خاتمہ بارشوں سے ہی ممکن ہے تاہم بارش کا ابھی کوئی امکان نہیں۔

پنجاب کے صوبائی وریزکے خلاف شکنجہ تیار، گر فتاری کا امکان

لاہور (خصوصی رپورٹ) قومی احتساب بیورو نے پنجاب سپورٹس بورڈ کے تحت یوتھ فیسٹیول میں ہونے والی مبینہ کرپشن کی ازسرنو انکوائری ا فیصلہ کر لیا۔ انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش نہ ہونے پر صوبائی وزیر تعلیم رانا مشہود کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ مختلف پہلوﺅں پر تحقیقات کے لیے نئے افسران کو تعینات کیا گیا۔ رانا مشہود کے ساتھ ساتھ سابق ڈی جی سپورٹس بورڈ عثمان انور کے خلاف بھی تحقیقات دوبارہ شروع کر دی گئیں۔ نیب کی طرف سے انکوائری التواءکا شکار تھی جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ کیس کے تمام گواہوں نے گواہی دینے سے انکار کر دیا تھا۔ درخواست گزار بھی کیس کی پیروی سے گریزاں تھا۔ مدعی اور گواہوں کی عدم حاضری پر کیس سابق ڈی جی نیب کو بھجوا دیا گیا۔ نیب کے ایک اجلاس کے بعد ازسرنو انکوائری کا فیصلہ کیا گیا۔ یاد رہے کہ اس حوالے سے نیب کی طرف سے پہلے سپورٹس بورڈ سے تمام ریکارڈ حاصل کیا جا چکا ہے۔

مقدمے ختم نہ ہوئے تو شہباز شریف وزیر اعظم ،مریم نواز وزیر اعلیٰ پنجاب ہونگی:ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ میاں نوازشریف پچھلے 35 سال سے اپنی پارٹی کی سربراہی کر رہے ہیں۔ پہلے وہ رسمی صدر نہیں بھی تھے تو بھی قیادت انہی کے پاس تھی اب وہ باقاعدہ پارٹی صدر منتخب ہو چکے ہیں۔ وہ ایک لمبے عرصے سے اقتدار میں ہیں۔ وہ وزیراعلیٰ بھی رہے۔ پھر وزیراعظم بنے پرویز مشرف نے فوج کی مدد سے انہیں نکال دیا۔ کچھ عرصہ جیل میں گزارنے کے بعد وہ سعودی عرب چلے گئے۔ آٹھ سال وہاں گزارے پھر واپس آئے اور جیت کر دوبارہ حکومت بنائی۔ اب دوبارہ وہ مسائل کا شکار ہیں۔ انہیں عدالت نے صادق اور امین نہ رہنے پر اقامہ کی بنیاد پر نااہل کر دیا سابقہ ریفرنسز کے بعد آج کی خبر یہ ہے کہ ان پر مزید ریفرنسز بھی بھیجے جائیں گے انہیں نیب عدالت میں مقدمات کا سامنا ہے۔ ایک مقدمہ میں پیش نہ ہونے کی وجہ سے قابل ضمانت وارنٹ بھی جاری ہو چکے ہیں۔ ان کے بیٹوں کے بھی وارنٹ جاری ہو چکے ہیں لیکن وہ پاکستان میں موجود نہیں ہیں۔ ان کی صاحبزادی مریم نواز کے خلاف اور ان کے داماد کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف بھی ریفرنس عدالت میں ہیں۔ مقدمات کا سلسلہ پھیلتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ نااہلی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم بنا دیا گیا۔ تاہم وہ نوازشریف کو ہی اپنا وزیراعظم مانتے ہیں۔ مخالفین کی جانب سے دعوﺅں کے باوجود مسلم لیگ (ن) کے 60 یا 70 (پرندے) ایم این اے ابھی تک ان کی شاخ سے اُڑے نہیں ہیں۔ میاں شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف اور دیگر رہنما لندن گئے تھے۔ میٹنگ کے اعلامیہ کے طور پر انہوں نے کہا ہے کہ ”مائنس نواز“ فارمولا زیر غور تک نہیں ہے۔ نوازشریف تمام تر کرائسز کے باوجود سیاست میں ”گرپ“ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور ان کے مخالفین کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ عوام نے انہیں منتخب کیا ہے۔ چند لوگوں کے بیان سے نہیں کہا جا سکتا کہ ن لیگ ٹوٹ گئی ہے۔ ان کی پارٹی کی اکثریت موجود ہے۔ وہ مزید ترامیم بھی کروا سکتے ہیں۔ نوازشریف کو جتنی بھی سزا ہو جائے۔ آئین پاکستان کی رو سے صدر پاکستان ان کی سزا معاف کر سکتے ہیں۔ قتل کے ملزم کو تمام عدالتیں مل کر پھانسی کی سزا دے دیں اور سپریم کورٹ میں اپیل بھی خارج ہو جائے تو بھی صدر پاکستان رحم کی اپیل برائے سزا معاف کر سکتا ہے۔ بھٹو کی پھانسی کو جب صدر ضیاءالحق کے اپیل مسترد کی تو اسے پھانسی دی گئی۔ نوازشریف کے خلاف مالی بے ضابطگی کے کیسز ہیں۔ انہوں نے کسی کو قتل نہیں کیا۔ صدر ممنون حسین انہیں ملنے والی ہر سزا کو معاف کر سکتے ہیں۔ اور اگر وہ ترامیم کے ذریعے نااہلی بھی ختم کروا سکیں تو پھر اقتدار کا راستہ نکال سکتے ہیں۔ عمران خان اور تمام سیاسی پارٹیاں مل کر اگر شور مچاتی رہیں اور صدر سے معافی کی درخواست مسترد کروانے کی کوشش کرتی رہیں اور وہ مسترد کروانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو انتشار کا خطرہ بن سکتا ہے۔ آصف زرداری مفاہمت کے بادشاہ ہیں وہ کسی وقت بھی بدل جاتے ہیں۔ پاکستان میں بادشاہت ہے۔ جمہوریت تو یہاں ہے ہی نہیں۔ ولی خان کے بعد ان کے رشتہ دار اقتدار میں آئے اسی طرح فضل الرحمن نے اپنے والد کی گدی سنبھال لی۔ اسی طرح سمیع الحق اپنی پارٹی کے صدر ہیں۔ اسی طرح نوازشریف اور شہباز شریف کے بچے، سیاست سے متحرک ہیں۔ مریم نواز کے بارے کہا جا رہا ہے کہ اگلی وزیراعظم وہ ہوں گی۔ اطلاع ملی ہے کہ شہباز شریف اور نوازشریف میں صلح ہو گئی ہے پچھلے دنوں کچھ تناﺅ تھا۔ لیکن سنا ہے کہ وہ تناﺅ آج ختم ہو گیا ہے فیصلہ ہوا ہے کہ اگر نوازشریف مقدمات سے نہ بچ سکے تو شہبازشریف اگلے وزیراعظم اور مریم نواز وزیراعلیٰ پنجاب ہوں گی۔ بڑے اخبارات، جنگ، نوائے وقت کے مقابلے میں کہا جاتا تھا کہ نیا اخبار نکالنا مشکل ہے۔ جنگ کراچی سے لاہور آیا، اسلام آباد گیا،راولپنڈی گیا اسی طرح نوائے وقت اسلام آباد، لاہور سے کراچی تک گیا۔ اس زمانے میں روزنامہ مشرق نکلا۔ وہ این پی ٹی کا اخبار تھا، اس نے سرکاری اخبار کی حیثیت سے بہت زور پکڑا۔ لوگ تصویر کا دوسرا رخ دیکھنا چاہتے ہیں۔ سرکاری خبریں تو ریڈیو، ٹی وی پر مل جاتی تھیں۔ یہ حکومت کے پاس تھے۔ 14 سال نوائے وقت اور جنگ میں رہنے کے بعد میں نے روزنامہ پاکستان نکالا۔ پہلا کمرشل کامیاب اخبار ثابت ہوا۔ تقریباً 5 ماہ میں اس کی سرکولیشن ایک لاکھ تک پہنچ گئی۔ چیف ایڈیٹر کے طور پر میرا نام چھپتا تھا۔ انہوں نے مجھے علیحدہ کر دیا میں عدالت بھی نہیں گیا۔ اس کے فنانسر اکبر علی بھٹی ایم این اے تھے۔ انہیں میڈیسن کنگ کہا جاتا تھا۔ ”خبریں“ کا تجربہ تلخ تھا۔ میرے پاس فنانسر نہیں تھے۔ ورکنگ صحافی ہونے کے سبب وسائل اتنے موجود نہیں تھے۔ اخبار نکالنے کیلئے اس وقت 20 کروڑ درکار تھے۔ یہ تجربہ بہت مختلف تھا۔ لاکھانی صاحب نے ”ایکسپریس“ نکالا۔ میاں عامر نے ”دنیا“ اخبار نکالا۔ وہ بھی بہت بڑے کاروباری انسان ہیں۔ میاں حنیف صاحب فیصل آباد کے صنعت کار ہیں انہوں نے 92 اخبار نکالا۔ لاہور یونیورسٹی والے رﺅف صاحب نے ”جہان پاکستان“ نکالا سپیریئر یونیورسٹی والوں نے ”نئی بات“ نکالا۔ مختلف تجارتی گروپوں نے اپنے اپنے اخبار نکالے۔ بعض کامیاب بھی ہوئے۔ میرے جاسے کم آمدن والے صحافی جس کے پاس تنخواہ کے سوا کچھ نہ ۔ پبلک لمیٹڈ سیکٹر میں تھوڑے تھوڑے سرمائے اکٹھے کئے گئے جوڑ جوڑ کر تین یا پانچ کروڑ اکٹھے ہوئے۔ اتنے ہی بینک کے لون لے کر ہم نے خبریں لاہور اور اسلام آباد 10 یا 12 کروڑ روپے سے نکال دیا۔ اس کے ڈائریکٹر تھے۔ ہارون آباد کی زمین میں نے بیچی۔ لاہور کا پلاٹ بیچا۔ عزیز رشتہ داروں سے پیسے اکٹھے کئے ایک ساتھی نے پلاٹ بیچ کر اس میں ڈالے۔ حًریں لوگوں سے اکٹھے کئے ہوئے پیسوں سے نکالا جانے والا واحد پبلک لمیٹڈ سیکٹر کا اخبار تھا۔ میں اس کا مالک نہیں ہوں۔ پس شیئر ہولڈر ہوں ہر تین سال کے بعد الیکشن ہوتا ہے۔ یہ نئے تجربے کا اخبار تھا۔ یہی تجربہ صنعتوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ خبریں لاہور اور اسلام آباد سے نکالا پھر ملتان اور پشاور سے نکالا۔ پھر کراچی اور حیدرآباد سے نکالا۔ سکھر اور کراچی سے ”خبرون“ سندھی کا اخبار نکالا کراچی سے اب بھی نکل رہا ہے۔ ”خبراں“ کے نام سے پنجابی اخبار نکالا۔ پنجابی کی ریڈر شپ کم ہے۔ اس میں دو کروڑ کا نقصان کرنے کے بعد اسے بند کر دیا۔ میرے بیٹے عدنان شاہد ”مرحوم“ نے بڑی محنت سے لاہوہر اور اسلام آباد سے ”دی پوسٹ“ کے نام سے خوبصورت انگریزی اخبار نکالا۔ نصرت جاوید صاحب اسلام آباد میں ریذیڈنٹ ایڈیٹر بنے۔ عمر چیمہ ہمارے چیف رپورٹر تھے۔ امریکہ سے واپسی پر لندن میں 36 سال کی عمر میں عدنان شاہد کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ فوت ہو گئے۔ وہ اخبار نہیں چل سکا۔ ان کی بیگم نے تھوڑی دیر چلانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ ہم کوئٹہ سے خبریں شروع کر رہے ہیں۔ تقریباً ایک ماہ میں سامنے آ جائے گا۔ اس کے علاوہ گوادر سے روزنامہ خبریں کا آغاز کرنے جا رہے ہیں۔ اگلے تین مہینوں میں یہ شروع ہو ج ائے گا۔ اس کی پالیسی ”جہاں ظلم وہاں خبریں“ رکھی تھی۔ محروم طبقے کی نمائندگی کے لئے ہم غریب اور نادار لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ ان کی خبریں چھاپتے ہیں میری بیٹی ڈاکٹر نوشین اور امتنان شاہد اس کے ایڈیٹر ہیں۔ خبریں ہیلپ لائن نہ صرف ان لوگوں کی مدد کرنی ہے۔ ٹیمیں جا کر ان کی حبریں لیتی ہیں اور لیگل ہیلپ کے لئے نوجوان وکلاءان کے کیس بھی لڑتے ہیں۔ خبریں جنوبی پنجاب میں لاہور میں اور کے پی کے میں بھی یہی پریکٹس شروع کرنے والی ہیں۔ ایک خدمت کا جذبہ لئے ہم (25) سلور جوبلی منا رہے ہیں۔ ہم نے پرانے دوستو ںکو آج کے ڈنر پر بلایا ہے۔ بڑی کوشش کی ہے کہ دوسرے شہروں سے بھی لوگ آ کر اس میں شریک ہوں۔ بہت دوستوں نے ہمارے ساتھ تعاون کیا، لیاقت بلوچ صاحب نے پہلا دفتر لے کر دیا اسی طرح اس بلڈنگ کی پہلی منزل انہوں نے لے کر دی پھر ہم آہستہ آہستہ پیسے دیتے گئے اور ساتوں منزلیں خرید لیں۔ دُعا ہے کہ یہ پھلے پھولے اور آگے بڑھے۔

مجید نظامی کے بعد پیدا ہونے والا خلا ضیا شاہد نے پورا کیا

 لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے مختلف موضوعات کا احاطہ کرنے والے پروگرام ”کالم نگار“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی اور تجزیہ کار توصیف احمد خان نے کہا ہے کہ لیگی رہنما لندن میں سرجوڑے بیٹھے ہیں۔ نواز شریف کی عدالت میں پیشی اس وقت ان کےلئے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ لیگی رہنما ذاتی خرچے پر تو لندن نہیں گئے ہونگے۔ پاکستان کے فیصلے تو عموماً امریکہ میں ہوتے ہیں تاہم ان پر عملدرآمد کی ڈیوٹی شاید برطانیہ کی لگائی جاتی ہے۔ اسی لئے ہمارے رہنما برطانیہ جاتے اور وہیں جائیدادیں بنانا پسند کرتے ہیں۔ 1970ءمیں پہلا لندن پلان سامنے آیا تھا جب انٹی بھٹو گروپ وہاں جمع ہوا تھا۔ موجودہ حالات میں وزیراعظم شاہد خاقان کے اعصاب جواب دینا شروع ہو گئے ہیں۔ روزنامہ ”خبریں“ کے قیام کو 25 سال مکمل ہو چکے ہیں۔ ضیاشاہد ایک ورکنگ جرنلسٹ تھے اور ایک ورکنگ جرنلسٹ کا پاکستان میں اخبار نکالنا اور اسے کامیابی سے چلانا ناممکن تھا جسے ضیاشاہد نے ممکن کر دکھایا۔ ضیاشاہد کی حال ہی میں چار پانچ کتابیں شائع ہوئی ہیں ایک کتاب ”قلم چہرے“ تکمیل کے مراحل میں ہے جو تاریخ کے طالبعلموں کےلئے نادر تحفہ ہوگی۔ ضیاشاہد نے زندگی میں بڑے حادثات کا سامنا کیا۔ بیٹا اور داماد دنیا سے رخصت ہوگئے خود انہوں نے طویل بیماری کاٹی مگر کبھی حوصلہ اور ہمیت نہ ہاری اور عزم کے ساتھ صحافتی زندگی کا سفر جاری رکھا۔ معروف کالم نویس اسلم خان نے کہا کہ لندن میں لیگی رہنما اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ نواز شریف کی عدالت سے جان کیسے چھڑائی جائے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کو نواز دور میں عدالتوں کے چکر لگوائے جاتے رہے تاہم انہوں نے ہمیشہ عدالتوں کا احترام کیا اور پیشیاں بھگتتی رہیں۔ نواز شریف بھی اب اسی طرح ہمت کریں اور عدالتوں کا سامنا کریں۔ مریم نواز 4 سال تک بغیر کسی عہدے کے حرکت کرتی رہیں ہیں۔ غیر فطری چیزیں نہیں چل سکتیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شاہد خاقان کب تک معاملات کو لیکر چلتے ہیں۔ نواز شریف اللہ کی پکڑ میں آئے ہیں۔ نواز شریف، شاہد خاقان اور جنرل باجوہ کی بھی تثلیث ہے۔ شاہد خاقان کے سسر جنرل (ر) ریاض جنرل باجوہ کا رشتہ لیکر جنرل (ر) اعجاز عظیم کے گھر گئے تھے اور رشتہ کرایا تھا۔ شاہد خاقان کے برادر نسبتی عابد ریاض اور جنرل قمر جاوید میں گہری دوستی ہے۔ نواز شریف نے شاہد خاقان کو وزیراعظم بھی اسی لئے بنایا کہ وہ فوج سے معاملات کو ٹھیک چلا سکتے ہیں۔ ضیاشاہد سے میرا بڑی محبت کا ر شتہ رہا ہے وہ بڑے فراخ دل، محبت کرنے والے اور پناہ دینے والے ہیں۔ موجودہ وقت میں بھی ضیاشاہد ہی ہیں جنہوں نے پاکستان کا جھنڈا تھام رکھا ہے کسی اور میں یہ ہمت دکھائی نہیں دیتی۔ مجید نظامی کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو ضیاشاہد نے پر کیا ہے۔ چیئرپرسن پلاک ڈاکٹر صغریٰ صدف نے کہا کہ لندن میں پہلی بار سیاسی رہنما اکٹھے نہیں ہوئے ماضی میں کئی بار لندن میں پلان بنتے رہے ہیں۔ لیگی رہنماﺅں کا وہاں اکٹھے ہوننا اچنبھے کی بات نہیں ہے ان کا لیڈر وہاں ہے تو اس سے مشاورت تو کرینگے۔ عدالتوں کو ڈکٹیٹروں نے بھی کبھی سنجیدہ نہیں لیا۔ انصاف سب کےلئے برابر ہونا چاہیے۔ احتساب وزیراعظم سے شروع ہوا ہے تو باقی سب کو بھی پکڑا جانا چاہیے۔ پھر ہی عوام کا اعتماد بحال ہو گا صرف ایک شخص کا احتساب ہوا تو عوام میں اس کےلئے ہمدردی پیدا ہوگی۔ عمران کی کوشش ہے کہ حکومت رخصت ہو جائے اور انہیں موقع مل جائے۔ ان کے جلسوں کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے۔ ضیاشاہد کی کتاب ”امی جان“ پڑھی تو پتہ چلا کہ ان کا تعلق ایک پڑھے لکھے اور معتبر گھرانے سے ہے۔ وہ ایک ذہین و فطین آدمی ہیں جنہیں اپنے اخبار اور چینل سے جنون کی حد تک محبت ہے۔ ضیاشاہد نے بیٹے اور داماد کے غم کے باوجود اپنا صحافتی مشن جاری رکھا۔ وہ جس طرح مختلف محاذوں پر ڈٹے نظر آتے ہیں اس طرح کوئی اور صحافی نظر نہیں آتا۔ ضیاشاہد کی شخصیت میں منافقت نہیں ہے اگر وہ ناراض ہوں تو چھپاتے نہیں ہیں۔ معروف تجزیہ کار سجاد بخاری نے کہا کہ اگر لندن میں بیٹھ کر ہی پاکستان کے فیصلے کرنے ہیں تو پھر آزادی حاصل کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ نواز شریف کو بچانے کےلئے نہیں ان سے جان چھڑانے کےلئے لندن میں اکٹھے ہوئے ہیں کیونکہ نواز شریف کی وجہ سے حکومت خطرے میں پڑ گئی ہے۔ اگر لیگی رہنما سرکاری خرچ پر وہاں گئے ہیں تو یہ قوم کے ساتھ زیادتی ہے۔ لندن عالمی سیاست کا مرکز ہے۔ نواز شریف تاخیری حربے استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے خود کو مشکل کا شکار خود ہی کیا ہے۔ الیکشن جلد ہونے کے امکانات موجود ہیں، پیپلز پارٹی کی بیڈ گورننس کے باعث تحریک ا نصاف کو ا بھرنے کا موقع ملا اور اس نے ا پنے لئے چانس پیدا کر لیا ہے۔ ضیاشاہد کو صحافتی خدمات پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے جرنلزم میں نئے ٹرینڈ متعارف کرائے۔ ایک عام صحافی کو طاقتور بنایا۔ ہمیشہ جرا¿ت و بہادری کا مظاہرہ کیا اور جدوجہد کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ اپنی جرا¿ت بہادری اور دلیری سے جرنلزم کے شعبہ کو عزت دلوائی۔ ان سے پہلے جرنلزم کا تاثر مختلف تھا۔ ضیاشاہد کی تحریریں بڑی جاندار اور پرتاثیر ہوتی ہیں۔ ان کی کتابیں پاکستان کی تاریخ ہیں۔ ضیاشاہد کو اپنی بائیوگرافی بھی لکھنی چاہیے۔ وہ ایک سچے اور کھرے آدمی ہیں جنہوں نے زندگی میں سخت محنت کر کے اپنا ایک مقام بنایا ہے۔ ضیاشاہد نے زندگی کے کٹھن سفر میں عام آدمی کی حیثیت سے سفر شروع کیا۔ معمولی کام بھی کئے تاہم آج جب وہ ایک بڑے مقام پر ہیں پھر بھی کبھی ماضی کو چھپانے کی کوشش نہیں کی اور یہی ایک بڑے آدمی کی پہچان ہے۔

گلا لئی “ بن گئے۔۔

اسلام آباد (آئی این پی) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے الزام عائد کیاہے کہ عمران خان نے لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمید گل کے ساتھ مل کربے نظیر بھٹو کی حکومت گرانے کی منصوبہ بندی کی اور ایدھیصاحب کو یرغمال بنانے کی کوشش کی، عمران خان واحد سیاستدان ہے جس نے بے نظیر بھٹو کی موت پر تعزیت بھی نہیں کی، جتنا لوگ عمران خان سے امید کرتے ہیں شاید وہ اتنا ڈلیور نہیں کر سکیں گے،نواز شریف کی باتوں پریقین نہیں کرتا،وہ جمہوریت کے خلاف ہر سازش میں شامل ہے،جو لوگ کرپشن کی بات کرتے ہیں وہ اس کا حل نہیں چاہتے،کسی ایسے شخص کے ساتھ نہیں کھڑا ہوں گا جس نے کرپشن کی ہو،پیپلز پارٹی جمہوریت کے ساتھ ہے، بلاول بھٹواور پیپلز پارٹی کسی ٹیکنوکریٹ حکومت یا قومی حکومت کو برداشت نہیں کرے گی،اداروں کی صوبوں کو منتقلی ابھی کچھ عرصہ پہلے ہوئی ،تنقید کرنا آپ کا حق ہے مگر ہم نے جو کام کئے ان کی بھی تعریف کر دیا کریں،سیاستدانوں نے خارجہ پالیسی پراپنا کردارادا نہیں کیا،چار سال میں وزیر خارجہ تک نہیں لگ سکا،افغانستان بہت اہم ملک ہے جس کے ساتھ تعلقات بہت خراب ہیں، حکومت نے خارجہ پالیسی پر غلط طریقہ اپنایا ، جس طریقے سے کہا گیا کہ پاکستان کا تجارتی راستہ روک دیا جائے گا یہ بالکل مناسب نہیں اور یہ خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے،نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کو جو اہمیت ملنی چاہیے(ن) لیگ اس کو وہ اہمیت نہیں دے رہی،2002میں مشرف نے عمران خان کے فائدے کےلئے ووٹ ڈالنے کی عمر 18سال کی مگر اسکافائدہ پیپلز پارٹی کو ہوا،نوجوانوں میں عمران خان کی مقبولیت کا تاثر غلط ہے، میں سیاست میں اقدار واپس لانا چاہتا ہوں، پر امید ہوں کہ پارٹی دوبارہ سر اٹھائے گی،سیاستدان نفرت کی سیاست کرتے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے کبھی نفرت کی سیاست نہیں کی۔ پیر کو نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا کہ 2013کے انتخابات میں ہماری کارکردگی صحیح نہیں تھی،1997میں ہمارے پاس قومی اسمبلی میں صرف 17سیٹیں تھیں جبکہ 2002میں ہم سب سے زیادہ ووٹ لے کر واپس آئے تھے، سیاست میں اونچ نیچ چلتی رہتی ہے، ہم نے متعدد ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے، میں پر امید ہوں کہ پارٹی دوبارہ سر اٹھائے گی، 2002کے الیکشن میں مشرف نے ووٹ ڈالنے کی عمر 18سال کر دی تھی تا کہ فائدہ عمران خان کو ہو مگر اس کا فائدہ پیپلز پارٹی کو ہوا۔ انہوں نے کہا کہ سیاستدان ایک خطرناک گیم کھیل رہے ہیں، وہ نفرت کی سیاست کرتے ہیں، نوجوانوں میں عمران خان کی مقبولیت کا تاثر غلط ہے، میں سیاست میں اقدار واپس لانا چاہتا ہوں، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے کبھی نفرت کی سیاست نہیں کی۔بلاول بھٹو نے کہا کہ کرپشن کے خلاف جنگ کا پیغام بہت طاقتور ہے،جو لوگ کرپشن کی بات کرتے ہیں وہ اس کا حل نہیں چاہتے،میں کرپشن پر 0تحمل کی پالیسی رکھتا ہوں،قانون سب کےلئے برابر ہونا چاہیے، میں اپنے کسی ایسے بندے کے ساتھ نہیں کھڑا ہوں گا جس نے کرپشن کی ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے خلاف ہی کرپشن کیسز میں کارروائی کی جاتی ہے جبکہ دوسرے صوبوں میں ایسا نہیں ہوتا اور اس معاملے پر ججز بھی کچھ نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے،ہم نے بے نظیر بھٹو کی شہادت کے معاملے پر اقوام متحدہ کا کمیشن بھی بنوایا اور عدالت میں گئے مگر عدالتوں نے کیا فیصلہ کیا اور ان پولیس والوں کو رہا کر دیا گیا،عمران خان اس ملک کا واحد سیاستدان ہے جس نے محرتمہ بے نظیر بھٹو کی موت پر تعزیت بھی نہیں کی، بے نظیر بھٹو کی حکومت کو گرانے کےلئے عمران خان نے حمید گل کے ساتھ مل کر پلاننگ کی اور اس منصوبے کےلئے ایدھی صاحب کو یرغمال بنانے کی کوشش کی۔

پی پی نے بھی ٹیکنوکریٹس حکومت بارے اعلان کردیا

اسلام آباد (آئی این پی) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے الزام عائد کیاہے کہ عمران خان نے لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمید گل کے ساتھ مل کربے نظیر بھٹو کی حکومت گرانے کی منصوبہ بندی کی اور ایدھیصاحب کو یرغمال بنانے کی کوشش کی، عمران خان واحد سیاستدان ہے جس نے بے نظیر بھٹو کی موت پر تعزیت بھی نہیں کی، جتنا لوگ عمران خان سے امید کرتے ہیں شاید وہ اتنا ڈلیور نہیں کر سکیں گے،نواز شریف کی باتوں پریقین نہیں کرتا،وہ جمہوریت کے خلاف ہر سازش میں شامل ہے،جو لوگ کرپشن کی بات کرتے ہیں وہ اس کا حل نہیں چاہتے،کسی ایسے شخص کے ساتھ نہیں کھڑا ہوں گا جس نے کرپشن کی ہو،پیپلز پارٹی جمہوریت کے ساتھ ہے، بلاول بھٹواور پیپلز پارٹی کسی ٹیکنوکریٹ حکومت یا قومی حکومت کو برداشت نہیں کرے گی،اداروں کی صوبوں کو منتقلی ابھی کچھ عرصہ پہلے ہوئی ،تنقید کرنا آپ کا حق ہے مگر ہم نے جو کام کئے ان کی بھی تعریف کر دیا کریں،سیاستدانوں نے خارجہ پالیسی پراپنا کردارادا نہیں کیا،چار سال میں وزیر خارجہ تک نہیں لگ سکا،افغانستان بہت اہم ملک ہے جس کے ساتھ تعلقات بہت خراب ہیں، حکومت نے خارجہ پالیسی پر غلط طریقہ اپنایا ، جس طریقے سے کہا گیا کہ پاکستان کا تجارتی راستہ روک دیا جائے گا یہ بالکل مناسب نہیں اور یہ خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے،نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کو جو اہمیت ملنی چاہیے(ن) لیگ اس کو وہ اہمیت نہیں دے رہی،2002میں مشرف نے عمران خان کے فائدے کےلئے ووٹ ڈالنے کی عمر 18سال کی مگر اسکافائدہ پیپلز پارٹی کو ہوا،نوجوانوں میں عمران خان کی مقبولیت کا تاثر غلط ہے، میں سیاست میں اقدار واپس لانا چاہتا ہوں، پر امید ہوں کہ پارٹی دوبارہ سر اٹھائے گی،سیاستدان نفرت کی سیاست کرتے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے کبھی نفرت کی سیاست نہیں کی۔ پیر کو نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا کہ 2013کے انتخابات میں ہماری کارکردگی صحیح نہیں تھی،1997میں ہمارے پاس قومی اسمبلی میں صرف 17سیٹیں تھیں جبکہ 2002میں ہم سب سے زیادہ ووٹ لے کر واپس آئے تھے، سیاست میں اونچ نیچ چلتی رہتی ہے، ہم نے متعدد ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے، میں پر امید ہوں کہ پارٹی دوبارہ سر اٹھائے گی، 2002کے الیکشن میں مشرف نے ووٹ ڈالنے کی عمر 18سال کر دی تھی تا کہ فائدہ عمران خان کو ہو مگر اس کا فائدہ پیپلز پارٹی کو ہوا۔ انہوں نے کہا کہ سیاستدان ایک خطرناک گیم کھیل رہے ہیں، وہ نفرت کی سیاست کرتے ہیں، نوجوانوں میں عمران خان کی مقبولیت کا تاثر غلط ہے، میں سیاست میں اقدار واپس لانا چاہتا ہوں، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے کبھی نفرت کی سیاست نہیں کی۔بلاول بھٹو نے کہا کہ کرپشن کے خلاف جنگ کا پیغام بہت طاقتور ہے،جو لوگ کرپشن کی بات کرتے ہیں وہ اس کا حل نہیں چاہتے،میں کرپشن پر 0تحمل کی پالیسی رکھتا ہوں،قانون سب کےلئے برابر ہونا چاہیے، میں اپنے کسی ایسے بندے کے ساتھ نہیں کھڑا ہوں گا جس نے کرپشن کی ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے خلاف ہی کرپشن کیسز میں کارروائی کی جاتی ہے جبکہ دوسرے صوبوں میں ایسا نہیں ہوتا اور اس معاملے پر ججز بھی کچھ نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے،ہم نے بے نظیر بھٹو کی شہادت کے معاملے پر اقوام متحدہ کا کمیشن بھی بنوایا اور عدالت میں گئے مگر عدالتوں نے کیا فیصلہ کیا اور ان پولیس والوں کو رہا کر دیا گیا،عمران خان اس ملک کا واحد سیاستدان ہے جس نے محرتمہ بے نظیر بھٹو کی موت پر تعزیت بھی نہیں کی، بے نظیر بھٹو کی حکومت کو گرانے کےلئے عمران خان نے حمید گل کے ساتھ مل کر پلاننگ کی اور اس منصوبے کےلئے ایدھی صاحب کو یرغمال بنانے کی کوشش کی۔