سپریم کورٹ کے سینئر وکیل شاہد مقبول شیخ انتقال کر گئے

لاہور بار کے سابق صدر اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل شاہد مقبول شیخ انتقال کر گئے۔

مرحوم کی نماز جنازہ کل بروز جمعرات صبح دس بجے عید گاہ میانی صاحب قبرستان ادا کی جائے گی۔

ان کے پسماندگان میں بیوہ، ایک بیٹا اور چار بیٹیاں شامل ہیں۔

مرحوم گزشتہ کچھ عرصے سے برین ٹیومر کے عارضے کے باعث مقامی ہسپتال میں زیر علاج تھے۔

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل شاہد مقبول شیخ 32 سال سے وکالت کے شعبے میں تھے اور 1999 سے 2000 تک لاہور بار کے صدر بھی رہے۔

سرینا ولیمز 20 سال میں پہلی بار ومبلڈن کے پہلے ہی راؤنڈ میں باہر

امریکی ٹینس اسٹار سرینا ولیمز  ومبلڈن ٹینس چیمپئن شپ کے پہلے ہی راؤند میں باہر ہو گئیں۔

سرینا ولیمز ومبلڈن کے پہلے راؤنڈ کے میچ کے دوران انجری کا شکار ہو گئیں جس کے باعث انہیں میچ ادھورا چھوڑنا پڑ گیا۔

سرینا ولیمز اس وقت انجری کا شکار ہوئیں جب پہلے سیٹ میں مقابلہ تین، تین سے برابر تھا۔

امریکی ٹینس اسٹار ومبلڈن کے پہلے ہی راؤنڈ میں باہر ہونے پر رو پڑیں اور ان کا کہنا تھا کہ میرا دل ٹوٹ گیا ہے، دائیں ٹانگ میں انجری کے باعث مجھے باہر ہونا پڑا۔

یاد رہے کہ 20 برسوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ سرینا ولیمز چیمپئن شپ کے پہلے راؤنڈ سے آگے نہ جا سکیں۔

پاکستان امریکا کا امن میں ساتھ دے گا لیکن کسی جنگ میں نہیں، وزیراعظم

اسلام آباد:  وزیراعظم عمران خان نے امریکا کو واضح اور دوٹوک پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم امن میں تو امریکا کے شراکت دار بن سکتے ہیں لیکن اب کسی بھی تنازع کا حصہ نہیں بنیں گے۔

وزیراعظم عمران خان نے یہ دبنگ بیان قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپنے پرجوش خطاب میں دیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں پوری قوم کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا کہ مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان امریکا کو اڈے دے گا؟ میں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ 70 ہزار لوگ جنگ میں ہمارے مارے گئے، کیا امریکا نے اس قربانی کی کبھی تعریف کی، اس نے تو الٹا ہم پر دوغلے پن کا الزام لگا دیا اور ہمیں برا بھلا کہا۔ ہم اب کبھی خوف سے قومی سلامتی پر کمپرومائز نہیں کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان سے افواج کے انخلا کا مشکل وقت آ رہا ہے، شکر ہے امریکا کو سمجھ آ گئی ہے کہ افغانستان کا مسئلہ جنگ سے نہیں بلکہ بات چیت سے حل ہوگا۔ ہم افغانوں کو جانتے ہیں، وہ ہمارے بھائی ہیں، ہمیں ان کی تاریخ کا پتا ہے، افغانستان نے کبھی دوسروں کی مداخلت کو قبول نہیں کیا۔

انہوں نے ماضی میں قومی سلامتی کیلئے کئے گئے فیصلوں پر دوبارہ عوام کو یاد دلاتے ہوئے کہا کہ جب اپوزیشن میں تھا تو پاکستان نے امریکا کی جنگ میں حصہ لیا، مجھے اس وقت بڑی ذلت ہوئی، اس وقت میری ایک سیٹ تھی لیکن ہمیشہ کہتا تھا کہ افغان جنگ سے ہمارا کیا تعلق ہے؟ غیرت کے بغیر کوئی انسان بڑا کام نہیں کر سکتا نہ کوئی ملک اٹھ سکتا ہے، افغان جنگ میں حصہ لے کر حماقت کی گئی لیکن اس وقت کہا گیا کہ امریکا بڑا ناراض اورمدد کرنی چاہیے۔ پاکستان نے امریکا کی مدد کی لیکن الٹا ہمیں دنیا کا خطرناک ملک قرار دیا گیا، اس کے بعد جو امریکا کہتا رہا پاکستان کرتا گیا، مشرف نے اپنی کتاب میں لکھا کہ اپنے لوگوں کو پیسے لے کر امریکیوں کو پکڑوائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈرون حملوں بارے حکومت نے جھوٹ بولا، حکومت اجازت دے کر ڈرون حملوں کی مذمت کرتی تھی، امریکی سینیٹر نے ایڈمرل مولن نے کارل لیون کو کہا کہ پاکستان حکومت کی اجازت سے ڈرون حملے کرتے ہیں، ایڈمرل نے کہا کہ پاکستان کی حکومت اپنی عوام سے سچ نہیں بولتی۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے اپنے آپ کو خود ذلیل کیا، دوسروں نے نہیں، دنیا میں کوئی مثال بتا دیں، ہم امریکا کی جنگ میں ساتھ دے رہے تھے لیکن وہ ہمارے ہی ملک میں ڈرون حملے کر رہا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ القاعدہ قبائلی علاقوں میں آ گئی تو ہمیں کہا گیا کہ اپنی فوج بھیجو، امریکا ڈرون حملے کرتا تھا تو ہمارے لوگ مارے جاتے تھے، میں اس وقت تنقید کرتا تھا تو مجھے طالبان خان کہا جاتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ 30 سال سے ہمارا ایک دہشتگرد لندن میں بیٹھا ہے، کیا ہم اس پر ڈرون حملہ کر سکتے ہیں؟ کیا برطانیہ ہمیں ڈرون حملے کی اجازت دے گا؟ اگر وہ اجازت نہیں دیں گے تو ہم نے پاکستان میں ایسا کرنے کی اجازت کیوں دی؟

اپنے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے تمام اپوزیشن جماعتوں کو انتخابی اصلاحات پر مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ آئندہ دھاندلی کے الزامات کو روکنے کیلئے ہمیں آج یہ اقدام اٹھانا ہوگا۔

وزیراعظم عمران خان کی اپوزیشن کو انتخابی اصلاحات پر مذاکرات کی دعوت

اسلام آباد:  وزیراعظم عمران خان نے تمام اپوزیشن جماعتوں کو انتخابی اصلاحات پر مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ دھاندلی کے الزامات کو روکنے کیلئے ہمیں آج یہ اقدام اٹھانا ہوگا۔

وزیراعظم عمران خان کا قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں کہنا تھا کہ وقت آ گیا ہے کہ اب سیاسی جماعتیں الیکشن لڑیں تو کسی کو فکر نہ ہو ہمیں دھاندلی سے ہرا دیا جائے گا۔ اگر اب الیکشن ریفارمز نہیں کرینگے تو یہ سلسلہ مستقبل میں بھی چلتا رہے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں اپوزیشن سے درخواست کرتا ہوں کہ الیکشن پاکستان کا مسئلہ ہے، اپوزیشن کے پاس انتخابی اصلاحات ہیں تو ہم سننے کیلئے تیار ہیں۔

قومی اسمبلی کا اجلاس: شاہ محمود، بلاول بھٹو کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ

قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان کے متوقع خطاب سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے درمیان گرما گرمی دیکھنے میں آئی اور ایک دوسرے کے بیان پر جواب دیتے ہوئے سخت جملے استعمال کیے گئے۔

قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو نے کہا کہ اگر حکومت بجٹ پر ووٹنگ میں دھاندلی نہیں کرتی تو دنیا دیکھتی کہ وزیراعظم کے پاس 172 ووٹس بھی نہیں ہیں۔

خیال رہے کہ ایک روز قبل قومی اسمبلی نے نئے مالی سال کے لیے کثرت رائے سے بجٹ منظور کرلیا تھا، اس دوران وزیراعظم صرف 50 منٹ اجلاس میں موجود رہے اور حکومتی اراکین کی تعداد کافی ہونے کے باعث حتمی ووٹ سے قبل ہی ہال سے واپس چلے گئے تھے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ بجٹ پر قوم کے 172 نمائندوں نے ووٹ دے کر اعتماد کا اظہار کیا، اور جب ووٹ کی عزت کی بات آئے تو اپوزیشن اور حکومت دونوں کی جانب سے عزت ملنی چاہیے، یکطرفہ عزت نہیں ہوسکتی۔

اسپیکر نے ہمارا حق چھینا ہے، بلاول بھٹو زرداری

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کو مخاطب کرکے کہا کہ اگر آپ دھاندلی نہیں کرتے تو وزیر اعظم عمران خان کے پاس فنانس ترمیمی بل کی تحریک کے حق میں 172 ووٹ نہیں تھے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ اگر آپ وقت نہ دیتے تو حکومت کے پاس فنانس ترمیمی بل کی تحریک منظور کرنے کے لیے مطلوبہ تعداد نہ ہوتی لیکن ‘اسپیکر صاحب! آپ نے ہم سے ہمارا حق چھینا ہے’۔

انہوں نے اعتراض اٹھایا کہ ‘اپوزیشن کی ترمیم کو سنے بغیر ہی مسترد کردیا جائے اور وہ بھی ایک غیر منتخب شخص مسترد کردے، حکومت کو ترمیم مسترد کرنے کا جواز پیش کرنا چاہیے تھا’۔

بلاول بھٹو نے اسپیکر قومی اسمبلی کو ایک مرتبہ پھر مخاطب کرکے کہا کہ ‘آپ نے نہ صرف اس مرتبہ بلکہ مختلف مراحل میں پارلیمنٹ کے قواعد کی خلاف ورزی کی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بجٹ سیشن ہر پاکستانی کے لیے باعث شرمندگی ہے’۔

انہوں نے کہا کہ رولز کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی اپوزیشن کے چیلنج پر دو مرتبہ وائس آف ووٹ لے سکتا ہے لیکن تیسری مرتبہ تو ووٹوں کی گنتی ہی نہیں کی گئی، یہ جو ووٹ لیے گئے ہیں معاشی تباہی کا باعث بنیں گے۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اگر آپ گنتی کروا دیتے تو اپوزیشن کے ریکارڈ میں آجاتا اور آخری مرتبہ ووٹ کی گنتی کو چیلنج کرنے کے لیے مجھے اٹھنا تھا لیکن بدقسمتی سے آپ چلے گئے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا کام ہی بجٹ کی مذمت کرنا ہے لیکن آپ نے ہمارے حق کا معمولی سا بھی تحفظ نہیں کیا کیونکہ ہم زیادہ توقع رکھتے ہیں کہ آپ اپنے منصب کے تقدس کو غیر جانبدار رکھیں۔

افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے وزیر خارجہ نے بتایا کل اس سلسلے میں اعتماد میں لینے کے لیے پارلیمانی کمیٹی برائے نیشنل سیکیورٹی اور اہم اپوزیشن رہنماؤں کو مدعو کیا گیا ہے جہاں انہیں اعتماد میں لیا جائے گا۔

آئینہ دکھاتے ہیں، دیکھتے نہیں، شاہ محمود کی بلاول پر تنقید

بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے قواعد کی بات کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آج اپوزیشن اراکین نے یکے بعد دیگرے اسپیکر کی ذات کو نشانہ بنایا، ان کے طریقہ کار سے اختلاف ہوسکتا ہے جس پر ان کے چیمبر میں ملاقات کی جاتی ہے اسے تضحیک کا نشانہ نہیں بنایا جاتا۔

شاہ محمود قریشی نے چیئرمین پی پی پی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کن پارلیمانی روایات کی بات کرتے ہیں آپ، سندھ میں جہاں آپ کی حکومت ہے وہاں قائد حزب اختلاف کو تقریر کرنے کا موقع نہیں دیا، سندھ کا وزیر خزانہ اختتامی تقریر کیے بغیر رخصت ہوجاتا ہے، کیا سندھ میں اپوزیشن لیڈر کو پبلک اکاونٹس کمیٹ کا چیئرمین بنایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ یہاں ہم سے تقاضے کیے جاتے ہیں، جمہوریت کا راگ الاپا جاتا ہے جبکہ سندھ میں قائمہ کمیٹیوں میں اپوزیشن کی نمائندگی ہی نہیں دی گئی۔

ان کا کہنا تھا بجٹ پیش کرنے کے بعد اپوزیشن کو ان کے لیے مختص وقت سے زیادہ بولنے کا موقع دیا گیا جبکہ سندھ میں اپوزیشن کو بولنے کا موقع ہی نہیں دیا جارہا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آپ جو یہاں مطالبے کرتے ہیں بہتر ہوتا کہ ہی بتاتے کہ سندھ میں یہ مثال قائم کی گئی، آئینہ دکھاتے ہیں، دیکھتے نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے کٹ موشنز پیش کیے جن پر انہیں بات کرنے کا مکمل موقع دیا گیا اور جواب دیا گیا، ووٹ ہوا اب اس میں شکست ہوگئی تو اسے تسلیم کرلیں یہ بھی پارلیمانی روایت ہے۔

انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی پی پی کن پارلیمانی روایات کی بات کرتے ہیں تو روایت تو یہ ہے کہ جب انہیں بات کرنے کا موقع دیا گیا تو بات کا جواب لیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ کونسی پارلیمانی روایت کی بات کرتے ہیں، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ غل غپاڑہ شور شرابا کر کے ہمیں دبا دیں گے تو یہ نہیں ہوگا، اس ایوان کے ماحول کو بگاڑنے کی ابتدا اپوزیشن نے کی اگر وہ عمران خان کو اپنی تقریر کرنے دیتے تو یہ نوبت نہیں آتی۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر عمران خان کو بات نہ کرنے دی گئی تو نہ بلاول اور نہ ہی شہباز شریف بات کریں گے، میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو نہیں چلے گا۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر آپ روایات پر عمل اور قواعد کی پیروی کرنا چاہتے ہیں تو ہم تیار ہیں لیکن اگر آپ ہمیں دبانا چاہیں گے تو ہم نہیں دبیں گے۔

میں دیکھتا ہوں کہ عمران خان کیسے تقریر کرتے ہیں، بلاول بھٹو

شاہ محمود قریشی کی تقریر کے بعد بلاول بھٹو نے اسپیکر قومی اسمبلی سے درخواست کی کہ انہیں ذاتی وضاحت کا موقع دیا جائے اور اجازت ملنے پر کہا کہ جہاں جہاں میرا نام لیا گیا ہے میں جواب دوں گا۔

انہوں نے کہا کہ جتنا ہم ملتان کے فاضل رکن کو جانتے ہیں اتنا تو آپ بھی نہیں جانتے، ابھی عمران خان کو معلوم ہوجائے گا کہ یہ کیا چیز ہیں۔

چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ انہوں نے بار بار میرا نام لیا لیکن میں انہیں اتنی اہمیت نہیں دیتا کہ ان کا نام لوں اور اگر وہ وزیراعظم کی تقریر کروانا چاہتے تھے تو انہیں چاہیے تھا کہ احترام کے ساتھ میری بات سنتے۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہمارے پاس لودھراں سے بہت سی خبریں آرہی ہیں، مجھے بات مکمل کرنےدیں آپ اپنا آرڈر لے کر آئیں ورنہ میں یہاں ہوں عمران خان یہاں آئیں اور تقریر کریں میں دیکھتا ہوں کہ کیسےتقریر کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اراکین کو قواعد کی پاسداری کرنی پڑے گی ورنہ یہ ایوان نہیں چلے گا، فاضل رکن ملتان نے اس پارٹی پر تنقید کی جس نے انہیں وزیر خزانہ، صدر پنجاب بنایا تھا، آپ خان صاحب کو بتائیں کہ اس شخص کو پہچانیں۔

چیئرمین پی پی پی کا کہنا تھا کہ میں انہیں بچپن سے دیکھتے ہوئے آرہا ہوں میں نے انہیں جیے بھٹو کا نعرہ لگاتے ہوئے دیکھا ہے، اپنی وزارت بچانے کے لیے میں نے اس رکن کو ‘اگلی باری پھر زرداری’ کا نعرہ لگاتے دیکھا ہے اور اب آپ دیکھیں گے کہ وہ آپ کے وزیراعظم کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ وہ وزیر خارجہ ہیں جو کشمیر کے سودے میں ملوث ہیں، ایسے وقت میں کہ جب افغانستان سے امریکی انخلا ہورہا ہےتو پاکستان کی اسٹریٹیجک لوکیشن کی وجہ سے ہمارے پر اس کے مرتب ہونے والے اثرات اور ہمارا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور وزیر خارجہ کو یہاں تقریر کرنے کے بجائے وزیراعظم کے لیے امریکی صدر جو بائیڈن کی فون کال کا بندوبست کرنا چاہیے۔

وزیراعظم آئی ایس آئی کو شاہ محمود کا فون ٹیپ کرنے کا کہیں، بلاول بھٹو

انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے ملک کےلیے بے عزتی اور ہمارے لیے شرمندگی کا باعث ہے کہ ہمارا وزیراعظم اتنی اہمیت ہی نہیں رکھتا کہ اسے ایک فون کال کی جائے، وزیر خارجہ کو اپنی آواز سننے کا اتنا شوق ہے کہ وہ اس جماعت اور حکومت کے لیے خطرہ بننے والے ہیں۔

چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ فاضل رکن نے جنوبی پنجاب کے اتحاد کے ساتھ پی ٹی آئی کی انتخابی مہم چلائی تھی جس میں صوبہ دینے کا وعدہ کیا تھا، وہ سیکریٹریٹ دے کر اعلان کرچکے ہیں وہ آئندہ مرتبہ انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیں گے کیوں کہ نہ وہ صوبہ دے سکیں نہ اپنے علاقے میں چہرہ دکھانے کے قابل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ صوبہ سندھ سے متعلق بات کی گئی تو اس سے متعلق جو بات ہوتی ہے وہ سندھ اسمبلی میں ہوگی، جب یہاں کے بندروں نے حملہ کرنے کی کوشش کی تو وہاں کے اسپیکر نے کچھ اراکین پر پابندی لگادی لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں کیوں کہ وہ دلچسپی نہیں رکھتے۔

ان کا کہنا تھا کہ جو کارٹونز آپ لے کر ائیں ہیں انہوں نے تاریخ رقم کی ہے ایک کٹھ پتلی نے ایک کٹ موش پیش نہیں کیا گیا جو ان کی سنجیدگی ظاہر کرتا ہے۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ میں درخواست کرتا ہوں کہ وزیراعظم کو آئی ایس آئی کو کہنا چاہیے کہ شاہ محمود قریشی کا فون ٹیپ کریں کیوں کہ یہ جب ہمارے وزیر خارجہ تھے تو دنیا میں مہم چلاتے تھے کہ یوسف رضا گیلانی کی جگہ انہیں وزیراعظم بنادیا جائے، اسی وجہ سے انہیں وزارت سے بھی فارغ کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ فاضل رکن نے کہا کہ بجٹ اکثریت سے پاس ہوا وہ جھوٹ بول رہے ہیں جس پر اسپیکر قومی اسمبلی نے وضاحت دیتے ہوئے بتایا کہ بجٹ کو تمام قواعد پر عمل کرتے ہوئے منظور کیا گیا۔

چند پرچیاں پکڑا دیتے ہیں، بچہ آٹو پر آن ہوجاتا ہے، شاہ محمود

بلاول بھٹو کی بات کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک مرتبہ پھر ایوان میں بات کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی کے قائد نے کہا کہ یہ مجھے اچھی طرح جانتے ہیں تو میں بھی انہیں اس وقت سے جانتا ہون جب یہ چھوٹے سے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں انہیں اس وقت سے جانتا ہوں جب کونے میں کھڑے ہو کو جھڑکیاں کھاتے تھے میں ان کو بھی جانتا ہوں ان کے بابا کو بھی جانتا ہو، یہ مجھے کیا جانتے ہوں گے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ پیپلز پارٹی کی بات کررہے ہیں، آپ بچے کو لکھی ہوئی 2، 4 پرچیاں پکڑا دیتے ہیں اور بچہ آکر آٹو پر آن ہوجاتا ہے، سوئچ آن ہوجاتا ہے آف ہوجاتا ہے ابھی کچھ وقت لگے گا بچے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میری ایک تقریر سے بلاول اتنا پریشان ہوجائیں گے،یہ تو ابھی طفلِ مکتب لگتے ہیں ابھی تو بہت سفر طے کرنا ہے، یہ یوسف رضاگیلانی کی بات کررہے ہیں کم از کم انہیں مک مکا سے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر تو نہ بنایا ہوتا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ سرکاری ووٹرز ہیں، یوسف رضا گیلانی آج اپوزیشن لیڈر بنے ہوئے ہیں، بلاول اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں انہیں اپنی اصلیت نظر آجائے گی، انہیں اپنا پتا چل جائے کہ کتنے پانی میں ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا بچہ آج بہت پریشان ہوگیا ہے،میں بچے کی پریشانیوں میں مزید اضافہ نہیں کرنا چاہتا اور کہتا ہوں کہ چلو جانے دیا، پھر کبھی سہی۔

‘ایوان کی بدقسمتی ہے 3 سال میں ہاؤس قوانین اور قوائد و ضوابط سے نہیں چلا’ – شاہد خاقان عباسی

اسلام آباد : شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ایوان کی بدقسمتی ہے 3 سال میں ہاؤس قوانین اور قوائد و ضوابط سے نہیں چلا، ہمارا حق ہے کہ جب بھی ووٹ چیلنج ہوگا گنتی کرائی جائے گی۔

سابق وزیراعظم و رہنما مسلم لیگ نون شاہد خاقان عباسی نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آج خورشیدشاہ، علی وزیر بجٹ اجلاس میں شریک ہیں، کیا یہ اس سے قبل ہاؤس کے ممبر نہیں تھے، خورشید شاہ ہاؤس کے پرانے ترین ممبران میں سے ہیں، جناب اسپیکر ! کیا آپ کو 2 سال خورشید شاہ کی کرسی خالی نظر نہیں آئی ؟ اسپیکر صاحب ! کیا آپ نے پارلیمان کی روایات نہیں پڑھیں ؟ ہم چاہتے ہیں یہ ہاؤس قوانین کے مطابق چلے۔

شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ 3 سال میں یہ ہاؤس آئین کے مطابق نہیں چلا، اپوزیشن لیڈر تقریر نہیں کرسکتے تو شاید قائد ایوان بھی تقریر نہ کرسکیں، ہاؤس کو اس کی روایات کے مطابق چلایا جائے، جس طرح ہاؤس چل رہا ہے یہ پارلیمانی روایات نہیں۔

کینیڈا میں گرمی کا 84 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا، ہلاکتوں کی تعداد 233 سے بڑھ گئی

وٹاوا: ٹھنڈے کینیڈا میں بلا کی غیرمتوقع گرمی سے 84 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا، درجہ حرارت میں اچانک اور غیرمعمولی اضافہ ہوا، پارہ پہلی بار 49.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا۔ ہیٹ ویو سے ہلاکتوں کی تعداد 233 سے تجاوز کر گئی۔

اکثر سرد رہنے والے کینیڈا میں شدید گرمی، لوگ جھلس کر رہ گئے۔ ہیٹ ویو سے مرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ حبس اور گھٹن سے دم توڑنے والے افراد میں زیادہ ترمعمر اور بیمار افراد شامل ہیں، گرمی سے کینیڈا کا مغربی علاقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا جہاں درجہ حرارت 49.5 ڈگری تک پہنچ گیا۔

حکام کے مطابق برٹش کولمبیا میں 70 سے زائد ہلاکتیں ہوئیں، شدید گرمی کےباعث سب سے زیادہ ہلاکتیں شہر وینکورمیں ہوئیں، وینکور کینیڈا کے سردترین علاقوں میں سے ایک ہے اور اسی لیے لوگوں کے گھروں میں ایئرکنڈیشنر نہیں تھے۔

محکمہ موسمیات کے مطابق درجہ حرارت جمعہ سے بڑھنا شروع ہوا تھا اور مزید کئی روز تک گرمی بڑھنے کا امکان ہے۔

امریکا کے شمال مغربی علاقوں میں بھی گرمی کی لہر شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ پورٹ لینڈ، اوریگون، سیٹل اور واشنگٹن میں 1940 کے بعد پہلی مرتبہ ریکارڈ درجہ حرارت سامنے آیا۔

گندم کی عالمی قیمت کم، پاکستان کو 9 ارب روپے کی بچت، آٹے کی قلت کا خدشہ ختم

عالمی سطح پر گندم کی قیمتوں میں 15 ڈالر فی میٹرک ٹن کمی ہونے سے پاکستان کو 40 لاکھ ٹن گندم کی درآمد میں 9 ارب روپے سے زیادہ کی بچت متوقع ہے۔

بڑی مقدار میں گندم کی درآمد سے ملک میں گندم اور آٹے کی قلت کا خدشہ مکمل ختم ہوگیا ہے جس سے ذخیرہ اندوزوں کو بھاری مالی نقصان ہوگا، تاہم قیمتوں میں اُتار چڑھاؤ کا سلسلہ جاری رہنے کا خدشہ موجود ہے۔

وفاقی وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی نے گزشتہ روز 40 لاکھ ٹن گندم امپورٹ کرنے کیلیے سرکلر جاری کردیا ہے، 20 لاکھ ٹن گندم ٹریڈنگ کارپوریشن جبکہ 10 لاکھ ٹن وفاقی محکمہ پاسکو امپورٹ کرے گا، نجی شعبہ کو بھی 10 لاکھ ٹن گندم امپورٹ کی اجازت دے دی گئی ہے۔

خیبر پختونخواہ حکومت نے پاسکو سے 10 لاکھ ٹن گندم فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے جس میں سے 5 لاکھ ٹن امپورٹڈ اور 5 لاکھ ٹن دیسی گندم مہیا کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔

پنجاب میں فلورملز کے پاس اس مرتبہ وافر مقدار میں گندم موجود ہونے کے سبب نجی شعبہ کی جانب سے امپورٹ کی جانے والی 10 لاکھ ٹن گندم کی پنجاب میں کھپت نہیں ہوگی ، یہ گندم کراچی کی ملیں  خریدیں گی۔

علاوہ ازیں پنجاب حکومت نے سہولت بازاروں میں سستا آٹا  فروخت کرنے والی فلورملز کو 1530 روپے فی40 کلوگرام بمعہ  باردانہ گندم فروخت کرنے کی اجازت دے دی ہے۔

تجاوزات آپریشن: سندھ حکومت کا گھر سے محروم افراد کو متبادل زمین دینے کا فیصلہ

کراچی:  سندھ حکومت کا بڑا فیصلہ، کراچی تجاوزات آپریشن میں گھر سے محروم افراد کو متبادل زمین دی جائے گی۔

تجاوزات کے خلاف آپریشن میں جن کی دکانیں مسمار ہوئیں ان کو بھی متبادل زمین دی جائے گی۔ سندھ حکومت ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں انکوائری کمیشن قائم کرے گی۔ کمیشن تجاوزات سے متاثرہ افراد کا جائزہ لیکر متبادل کا فیصلہ کرے گا۔ کمیشن غیرقانونی تعمیرات کی اجازت دینے والے افسران کی نشاندہی کرے گا۔

ملک جوڈیشل ایکٹوازم کے ہاتھوں اربوں ڈالر کے نقصان برداشت کر رہاہے، فواد چوہدری

اسلام آباد: وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کہتے ہیں کہ ملک جوڈیشل ایکٹوازم کے ہاتھوں اربوں ڈالر کے نقصانات برداشت کر رہاہے۔

اپنی ٹوئٹ میں فواد چوہدری نے کہا کہ عدالتی اصلاحات نہ کی گئیں تو ملک اقتصادی بحران سے کبھی باہر نہیں نکل سکے گا، گزشتہ روز ٹک ٹاک پر پابندی لگانے اور نیشنل بینک کے صدر کو ہٹانے کے فیصلے پڑہ کر سر چکرا گیا ہے کہ ہماری عدالتیں کیا کر رہی ہیں ؟ پہلے ہی یہ ملک ایسے جوڈیشل ایکٹوازم کے ہاتھوں اربوں ڈالر کے نقصانات برداشت کر رہا ہے۔

اپنی ایک اور ٹوئٹ میں فواد چوہدری نے کہا کہ کینیڈا میں چندہفتےقبل ایک پاکستانی فیملی کو نسل پرستانہ حملے میں شہید کیا گیا اب دوبارہ ساسکرتون شہر میں ایک اور شہری کاشف پر انتہاپسندوں نے خنجروں سے حملہ کیا ہے، مغربی معاشرے میں اسلاموفوبیا کے بڑھتے واقعات پر تشویش ہے، امید کرتے ہیں کہ ایسے واقعات کے روک تھام کے لئے موثر اقدامات اٹھائے جائیں گے۔

قائد کے فرمودات اور پاکستان

پاکستان میں ہر سیاسی جماعت جس کا خواہ کوئی بھی نام ہے اسے عزت ملنی چاہئے
 ہمارے پاس کرپشن فری وزیراعظم ہے‘ ہمیں چاہئے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں
آج کے دور میں جب ہم جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو ہم ذرا رک کر سوچیں کہ پاکستان میں واقعی جمہوریت ہے؟ جب ہمارے پاس فوج آتی ہے تو ہمیں اس وقت جمہوریت چاہئے ہوتی ہے اور جب جمہوریت کارفرما ہوتی ہے تب ہمیں فوج مطلوب ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جمہوریت کے دوران ہم جمہوریت کو وزن نہیں دیتے بلکہ آپس میں الجھ جاتے ہیں۔ جب بھی کوئی سویلین حکومت آتی ہے تو جو بھی وقت کی اپوزیشن ہوتی ہے اس نے پوری کوشش کرنی ہوتی ہے کہ نئی منتخب ہو کر آنے والی حکومت پر ہر قسم کی تہمت لگائی جائے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ منتخب حکومت نہیں بلکہ سلیکٹڈ حکومت ہے۔ انہی پولیٹیکل پارٹیز کے اندر ایک زندہ مثال جو ہے وہ یہ ہے کہ جب خواتین اسمبلیوں میں آ کر شور و غوغا کرتی ہیں تو کوئی بتا سکتا ہے کہ کیا یہ بھی منتخب ہو کر آئی ہیں یا سلیکٹ ہو کر۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان میں ہم نے سنجیدگی کو  ضرورت سے زیادہ ترجیح دینی ہے۔ ہم اس حوالے سے قطعی طور پر غیر سنجیدہ ہیں اور ہم کسی بھی چیز کو ماننے کو قطعاً تیار نہیں ہیں۔ اگر کوئی انسان جس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہے اگر وہ جرم میں پکڑا جاتا ہے تو پھر اس کے ساتھ کسی نہ کسی سیاسی جماعت کا بینر لگ جاتا ہے اور ایک عام جرم سیاسی جرم بن جاتا ہے۔ ہمارے پاس اس حوالے سے کئی مثالیں موجود ہیں لہٰذا اگر ہم نے سیاست کرنی ہے تو ان رویوں سے ہمیں یکسر باہر نکلنا ہو گا ورنہ ہم اپنی سیاسی جماعتوں کو ایک خراب نام ہی دیں گے اور آپ کی سیاست بالکل ایک منفی راستے پر ڈال دیں گے۔ پاکستان میں ہر سیاسی جماعت جس کا خواہ کوئی بھی نام ہے اسے عزت ملنی چاہئے اور اگر ان سیاسی جماعتوں سے وابستہ ارکان کوئی بھی غلط کام کرے تو اس کی مدد اور حمایت بالکل بھی نہیں کرنی چاہئے۔ سبھی اس بات کا شور تو مچاتے ہیں کہ سسٹم کو چلنے دیا جائے‘ لیکن جب سسٹم چلنا شروع ہوتا ہے‘ ہموار بنیادوں پر تو ہم اسے ڈی ریل کر کے رکھ دیتے ہیں اور اس کا ملبہ ہم دوسروں پر ڈال دیتے ہیں۔ آج انتہائی افسوس کے ساتھ کہناپڑتا ہے کہ آپ کے پاس ایک منتخب حکومت آئی ہے لیکن ہم اس کو بھی بری طرح گندا کرنے کی کوشش میں مبتلا ہیں۔ یہ بالکل صحیح ہے کہ حکومت کے حوالے سے بڑے سنجیدہ ایشوز ہیں لیکن یہ نہیں کر سکتے کہ آپ اسے وقت سے پہلے چلتا کر سکیں۔ چونکہ ایک کہاوت ہے گول چکر میں جو کوئی بھی گیا ہے وہ گول چکر اسے واپس ضرور لاتا ہے۔
اگر تو ہم نے بالکل سطحی اور بنیادی سطح پر یعنی چھوٹے لیول پر سیاست کرنی ہے تو پھر پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہے۔ ہمیں یہاں کسی چیز کی کمی ہر گز ہرگز نہیں لیکن اگر کمی ہے تو وہ مینجمنٹ کی کمی ہے جو بھی سیاسی جماعتیں اقتدار میں آتی ہیں ان کو چاہئے کہ جن اداروں میں چیئرمینز‘ مینجنگ ڈائریکٹر لگاتے ہیں وہ کوالیفائیڈ ہوں نہ کہ ہم جو خانہ پری دیکھتے ہیں اور اس کے بعد اس ادارے کا حال۔ آج افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان ریلویز جب یہ این ڈبلیو آر ہوتا تھا تو اس کی پٹڑی لنڈی کوتل تک جاتی تھی اور ہمارے علاقے جیسے کہ منڈی بہاؤ الدین‘ بھلوال تک ریلویز کے ٹریک ہوتے تھے‘ آج یہ کیوں نہیں ہے حالانکہ ماضی کے مقابلے پر ریلویز کی حالت تو بہت بہتر ہونی چاہئے تھی۔ آج بھی انگریز کے بنائے ہوئے ریلوے سٹیشنز‘ اس کی بنائی ہوئی پٹڑیاں‘ اس کے نصب کردہ سگنلز اور ریلوے کراسنگ‘ ان کی حالت دیکھ کر انا للہ ہی پڑھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر ہم پی آئی اے جیسے ملک کے ایک اہم اور بڑے قومی ادارے کو دیکھیں تو ہم نے اس کی  بھی نماز جنازہ پڑھا دی‘ صرف ایک جذباتی بیان کے ساتھ‘ ہم نے تمام پائلٹس کو بیک جنبش قلم فارغ کر دیا اور اس کی وجہ سے پی آئی ایک  مفلوج ادارہ بن کر رہ گیا ہے۔ یہی حالت ہم نے پاکستان سٹیل ملز کی کی ہے اور دیگر قومی ادارے جیسے کہ نیشنل بینک اور ای او بی آئی وغیرہ کو بھی متنازعہ بنا رکھا ہے۔ آج ہمارے پاس ایک کرپشن فری وزیراعظم ہے‘ ہمیں چاہئے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے تاکہ ملک میں بہتری کے آثار پیدا ہو سکیں‘ لیکن ساتھ ساتھ ایک چیز اور بھی مدنظر رکھنی ضروری ہے کہ پاکستان کے عوام نے وزیراعظم پر بھروسہ کیا ہے۔ اب جو ان کی ٹیم ہے اسے بھی چاہئے کہ وزیراعظم کے اعتماد پر پورا اترتے ہوئے کام کریں کیونکہ ان کے پاس آئندہ کبھی موقع نہیں آ سکے گا اگر انہوں نے دیانتداری کے ساتھ اس کا ساتھ نہ دیا۔
وزیراعظم کی کارکردگی آپ کو نظر آتی ہے کہ فارن ریزروز ماضی کے مقابلے پر قدرے بہتر ہوئے ہیں اور اگر واقعی دلجمعی اور لگن کے ساتھ کام کیا جائے تو اس بڑھوتری میں مزید اضافہ ممکن ہو سکتا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ امریکہ کے ساتھ تجارت میں 29 فیصد ایکسپورٹس بڑھی ہیں یعنی اضافہ ہوا ہے اور بھی کئی شعبوں میں ہم نے بہتری دیکھی ہے حالانکہ دنیا میں کووڈ نے ہر ایک کو صحت اور معیشت کے حوالے سے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ موجودہ حکومت کی مشکلات اور اسے درپیش چیلنجز روز افزوں سے ہیں اور اس حالت میں ہم سب نے مل جل کر کام کرنا ہے۔ ہم نے بہت زیادہ قیمت ادا کی ہے اس وقت جیو پولیٹیکل حوالے سے حالت ہے اور اس وقت جو منصوبہ سازی کی جا رہی ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج واپس چلی جائیں اور ہم پر دباؤ ڈالا جائے کہ امریکیوں کو ہم یہاں ہوائی جہاز کے اڈے دے دیں۔ یہ ہم نے ماضی میں غلطی کی جب ہم پر دہشت گردی مسلط کی گئی تو ہمیں اس کا خمیازہ بھی اکیلے بھگتنا پڑا کیونکہ یہ وہی امریکی ہیں جنہوں نے ہمیں استعمال کیا اور پھر ایک گنڈیری کی طرح چوس کراس کا پھوک نیچے گرا دیا۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ پاکستان کے کسی وزیراعظم نے ماسوائے فیلڈ مارشل ایوب خان اور جنرل مشرف کے علاوہ کسی نے اتنا بڑا سٹینڈ لیا ہو۔ آج ہمارے وزیراعظم نے سٹینڈ لیا ہے اور امریکی وہی ان کے ساتھ کھیل کھیل رہے ہیں کہ ہم نے 27 میں سے 26 شرائط مان لیں اور محض ایک شرط پر ہمیں گرے لسٹ میں رکھا جا رہا ہے۔ اس سے بڑی زیادتی پاکستان کے ساتھ اور کیا ہو سکتی ہے لہٰذا ہمیں آج کی اپوزیشن سے بہت زیادہ امید ہے کہ خدارا اگر تو تنقید کرنی ہے تو تنقید برائے تعمیر کریں کیونکہ مجھے وہ وقت یاد آتا ہے جب نوازشریف 2013ء میں اپنا منشور پیش کر رہے تھے تو اس کے بعد انہوں نے کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میں حکومت سنبھالوں یا نہ سنبھالوں کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے ملک کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا۔ ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ قائداعظم کے تین الفاظ یونٹی‘ ڈسپلن اور فیتھ کو مضبوط بنا کے پاکستان کو آگے لے کر جائیں۔
(کالم نگار معروف اینکر اور ممتازسیاسی تجزیہ نگار ہیں)
٭……٭……٭

چیمپئن کاشتکاروں کی حوصلہ افزائی

گندم کی کاشت میں ریکارڈ بنانے والے کسانوں کو دو کروڑ روپے انعام دیئے گئے
جن ممالک کی زراعت میں 75 فیصد لوگ وابستہ ہوں وہ ہنگامی بنیادوں پر پلاننگ کرتے ہیں
یہ صرف زبانی کلامی باتیں نہیں ہیں۔ واقعی اس سال پنجاب کے کھیتوں نے سونا اگلا ہے۔ رواں سال گندم کی پیداوار میں 8 فیصد،چاول میں 28 فیصد اور گنا میں 31 فیصد ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔یہ سارا کریڈٹ وزیراعظم پاکستان کو جاتا ہے۔انہوں نے زرعی ایمرجنسی پروگرام شروع کیا ہے۔جس کے تحت ریکارڈ فصل دینے والے کسانوں کو انعام دینے کا فیصلہ کیا گیاہے۔اس طرح سے پنجاب بھر کے 36 اضلاع میں تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔میں نے بھی بہاولپور کے ایک مقامی ہوٹل میں کسانوں کے لئے منعقدہ تقریب تقسیم انعامات میں شرکت کی۔جس میں ڈپٹی کمشنربہاول پور عرفان علی کاٹھیا،ڈائریکٹر زراعت جمشید خالد،ڈپٹی ڈائریکٹر محمد شفیق،زرعی ماہرین اور زمیندار بھی شامل تھے۔جس وقت میں گندم کی پیداوار میں اللہ کے فضل وکرم سے حکومت کی مربوط زرعی پالیسی کے نتیجے میں اور اپنی شب وروز کی سخت محنت کے بل بوتے پر ریکارڈ بنانے والے خوش نصیب کسان کو انعام دے رہی تھی تو اس کی آنکھوں میں بے پایاں خوشی صاف جھلک رہی تھی۔مجھے بھی مسرت ہوئی۔اس موقع پر میرے دل نے گواہی دی کہ یہی ہمارے ہیرو ہیں۔ سارا دن مٹی کے ساتھ ملکر مٹی کو سونا بنانے والے کاشتکاروں کو سال میں ایک دن وی آئی پی پروٹوکول ضرور دیاجائے بلکہ یوم عظمت کاشتکار منعقد ہونا چاہئے۔جس میں کاشتکاروں کی محنتوں کو خراج تحسین پیش کیا جائے۔جوملک میں غذائی ضروریات پوری کرنے کے لئے موسموں کی سختیاں جھیل کر سارا سال انتھک جستجو میں مصروف عمل ہیں۔ میں اس سلسلے میں حکومت تک تجویز پہنچانے کی کاوش کروں گی۔تاہم ضلع کی سطح پر ڈپٹی کمشنر کو کاشتکاروں کے ساتھ مل کرکھانا ضرور کھانا چاہیے۔اس سے نہ صرف ان کا حوصلہ بلند ہوگا بلکہ زراعت کے شعبے میں ہرلحاظ سے برکت بھی ہوگی۔ویسے تو ڈپٹی کمشنر منسٹروں کو پروٹوکول دیتے ہیں انہیں باہر تک چھوڑنے آتے ہیں۔یہی عزت ہمارے کامیاب کاشکار کا بھی حق ہے۔
بہاولپور تقریب میں تین قسم کے کسانوں کو انعامات دیئے گئے۔ گندم کی کاشت میں ریکارڈ بنانے والے کسانوں کو 36 ڈسٹرکٹ میں دو کروڑ کے انعام دیئے گئے۔ صوبائی لیول پر پہلا انعام چھ لاکھ روپے،ڈسٹرکٹ لیول پر پہلی پوزیشن کو تین لاکھ،دوسری پوزیشن کو دو لاکھ اور تیسری پوزیشن کو ایک لاکھ روپے دیا گیا۔اوسطاً 65 من سے زیادہ والے اور ساڑھے بارہ ایکڑ والے کسان اس مقابلے میں شامل  تھے۔ تقریب میں پہلی پوزیشن لینے والے کسان سے پوچھا گیا کہ آپ اس رقم کا کیا کریں گے کہاں گھومنے جائیں گے۔اس کسان نے حیران کر دینے والا جواب دیا کہ جس زمین کی وجہ سے انعام ملا ہے میں اسی زمین پر لگاؤں گا اور زیادہ پیداوار لوں گا۔کماد کی فصل میں اچھی کارکردگی دکھانے والے کسانوں میں پنجاب بھر میں ایک کڑور نوے لاکھ تقسیم کیے گئے۔ صوبائی سطح پر اچھی کماد پر پہلی پوزیشن لینے والے کو دس لاکھ روپے،ڈسٹرکٹ لیول پر تین لاکھ،دو لاکھ اور ایک لاکھ روپے کے انعامات تقسیم کیے گئے۔جبکہ تیلا اور اجناس کی پیداوار والے کسانوں میں پنجاب بھر میں تریسٹھ لاکھ روپے کے انعامات تقسیم کیے گئے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے نئے بجٹ میں زراعت کے ترقیاتی بجٹ میں 360 فیصد تاریخی اضافے کے ساتھ سات ارب پچھتر کڑور روپے سے بڑھا کر 31 ارب تجویز کیا ہے۔جس میں جنوبی پنجاب کا زراعت کا گیارہ ارب روپے رکھا گیا ہے۔آئندہ زرعی سبسڈی کی مد میں چار ارب روپے جبکہ گندم،چاول اور مکئی پر تحقیق چار سینٹر بنانے کی بھی تجویز ہے۔کسانوں کے اخراجات میں کمی لانے کے لیے کھاد،بیج،زرعی آلات وغیرہ کی خریداری پر فصل بیمہ اور آسان شرائط قرضوں کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے پانچ ارب روپے سے بڑھا کر سات ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
دنیا میں اگلی جنگ ہوئی تو پانی پر ہو گی۔عظیم ملک وقت سے پہلے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔وہ ممالک جن کی زراعت میں 75 فیصد لوگ وابستہ ہوں۔ وہ ہنگامی بنیادوں پر پلاننگ کرتے ہیں۔اس سلسلے میں پاکستان میں پانی کے کم استعمال سے فصل کاشت کرنے پر کام ہو رہا ہے اور حکومت اس پر سبسڈی بھی دے رہی ہے۔ پہلے ڈرپ ایریگیشن سسٹم میں حکومت ساٹھ فیصد سبسڈی دے رہی ہے۔پانچ ایکڑ والے کسان کو ڈرپ ایریگیشن سسٹم لگوانے کے لیے سوا لاکھ روپے لگتے ہیں۔جبکہ دس ایکڑ اراضی والے پر خرچہ کم ہو کر نوے ہزار لگتا ہے۔جہاں پہلے پانی لگانے کاعمل آٹھ گھنٹے پرمحیط ہوتاتھا اب وہاں دو گھنٹے پانی لگایا جاتا ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر  پودوں کو چند سیکنڈ پانی لگنے سے فصلوں میں پانی کی کمی پوری ہوتی ہے۔دوسرا لیزر لیول اور پکے کھالوں کی مد سے پانی کے ضیاع کو روکا جا رہا ہے۔اگر مزید معلومات لینی ہو تو ویب سائٹ ofwm-agripunjab.gov.pk ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
کسانوں کواور سہولت جو دی گئی وہ کسان کارڈ کا اجراء ہے۔یہ صرف وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدارکی محض باتیں نہیں تھیں۔ انہوں نے اسے عملی جامہ پہنایا ہے۔زرعی پیداوار میں اضافہ اور کسانوں کی سماجی و معاشی ترقی کے لیے ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ براہ راست سبسڈی سکیم سے کیش ٹرانسفر سے مالی معاونت کی جا رہی ہے۔ جو کاشتکار ایچ بی ایل کونیکٹ کے ذریعے اپنا اکاؤنٹ کھلوا سکتے ہیں۔جس کے لئے  کسانوں کے پاس موبائل نمبر اور شناختی کارڈ کا ہونا ضروری ہے۔ مذکورہ کارڈ زمیندار اور پٹہ دار کسان بھی حاصل کر سکتے ہیں۔موجودہ حکومت اپنے اقتدار کے روز اول سے ملک میں زرعی انقلاب کے لئے کوشاں ہے۔وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب سردارعثمان بزدار بھرپورکام کررہے ہیں۔آج اگر کسانوں کا اعتماد بحال اور مورال بلند ہوا ہے تواس کی وجہ پی ٹی آئی کی کسان دوست حکمت عملی ہے۔جس کی بدولت ہمارے کاشتکار تازہ دم ہوگئے ہیں۔وہ اپنی محنتوں میں پہلے سے زیادہ مگن ہوگئے ہیں اور ریکارڈ پیداوار اٹھارہے ہیں۔ وہ دن اب دور نہیں جب زراعت کی ترقی، کاشتکاروں کی آسودگی اورعوام کی بہتری کے حوالے سے ملک میں خوشحالی کاراج ہوگا۔
(مختلف موضوعات پرلکھتی ہیں)
٭……٭……٭

پی ٹی آئی حکومت اور بلدیاتی الیکشن

 
حکومت نے اعلان کیا کہ اب ایسا بلدیاتی نظام لایا جائے گا جو پہلے سے بہترین ہوگا
 بلدیاتی ادارے کسی بھی جمہوری نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں 
 
لائی2018ء کو ہونیوالے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد تحریک انصاف نے مرکز، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اپنی اتحادی حکومتیں قائم کیں۔ عمران خان نے18اگست 2018ء کو بطور وزیراعظم اپنے عہدے کا حلف اٹھایا توقوم سے خطاب کے دوران اپنی انتخابی مہم میں کیے گئے وعدوں کو دہراتے ہوئے قوم کو90 دنوں میں تبدیلی کی نوید سنا ئی۔ انہوں نے اپنے انتخابی منشور میں کچھ ایسے بلند بانگ دعوے کیے تھے کہ ماضی کی حکومتوں سے ستائے ہوئے عوام کو عمران خان کی صورت میں ایک مسیحا نظر آنے لگا۔وہ روشن مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے امید بھری نظروں سے پی ٹی آئی حکومت کی طرف دیکھنے لگے۔ پہلے 90دن پھر تین ماہ پھر چھ ماہ، لیکن ان کا صبر جواب دینے لگا۔ انہیں اپنے خواب بکھرتے دکھائی دیئے،انہیں لگا کہ ان کے ارمانوں کا خون کیا جا رہا ہے لیکن ایک موہوم سی امید قائم رہی۔ قوم کو ”آپ نے گھبرانا نہیں“ کا درس دینے والوں سے قوم باقاعدہ سوال کرنے لگ گئی کہ ہمیں گھبرانے کی اجازت دے دی جائے کہ مہنگائی نے عوام کا جینا محال کر دیا۔ 
ایک سال گزرا پھر دوسرا سال بھی ایسے ہی گزر گیا اور اب پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئے ایک ہزار دن سے زائد ہو چکے لیکن جس تبدیلی کا وعدہ عمران خان نے قوم سے کیا تھا وہ محض سراب ثابت ہوئی۔ حالانکہ 9جولائی2018ء کو اپنی جماعت کے انتخابی منشور کا اعلان کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ اس میں ایسی کوئی چیز شامل نہیں جو قابلِ عمل نہ ہو اور ہم یہ سب کر کے دکھائیں گے۔ عمران خان نے جہاں 50لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں فراہم کرنے کا اعلان کیا وہیں یہ بھی کہاتھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت عوام کو بااختیار بنائے گی اور بلدیاتی اداروں کے ذریعے اختیارات اور فیصلہ سازی نچلی سطح تک منتقل کرے گی۔ عمران خان نے اپنی ہر تقریر میں گورننس ماڈل میں بلدیاتی انتخابات کا ذکر کیا اور عزم کیا کہ حکومت میں آنے کے بعد ان کی پہلی ترجیح بلدیاتی انتخابات کروانا ہو گی۔ وزیر اعظم عمران خان بلدیاتی اداروں کے قیام اور ان اداروں کو جمہوریت کے استحکام کیلئے جتنا ناگزیر اور ضروری قرار دیتے رہے اتناشاید پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی سیاسی رہنما نے دیا ہو۔ بلدیاتی اداروں سے متعلق ان کایہ موقف آج بھی اکثر لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہوگا جب وہ بڑے مدلل انداز میں مغرب اور بر طانیہ میں قائم مقامی حکومتوں کی اہمیت بیان کرتے ہوئے اسی نوع کا نظام پاکستان میں بھی رائج کرنے کا عزم ظاہرکرتے تھے۔ لیکن موجودہ حکومت کے تین سال گزر چکے ہیں مگر بلدیاتی انتخابات کا وعدہ پورا نہیں ہوا۔یاد رہے کہ 2018ء میں تحریک انصاف نے جب حکومت سنبھالی تو اس وقت صوبہ پنجاب میں سابقہ حکومت کا بلدیاتی نظام عملی حالت میں موجود تھا۔ لیکن مئی 2019 ء میں پی ٹی آئی حکومت نے اس بلدیاتی نظام کوختم کر دیا جس سے بیک جنبش قلم 58 ہزا عوامی نمائندے غیر فعال ہو گئے۔ حکومت نے اعلان کیا کہ اب ایسا بلدیاتی نظام لایا جائے گا جو پہلے سے بہترین ہوگا۔اس سلسلے میں 4 مئی 2019ء کو پنجاب حکومت نے صوبے میں نیا بلدیاتی نظام متعارف بھی کروایا۔ اس نئے نظام کیلئے دو ایکٹ پاس کیے گئے۔ ایک ویلج پنچایت اینڈ نیبرہوڈ ایکٹ 2019 ء جبکہ دوسرا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019 ء کے نام سے تھا۔ کہا گیا کہ اس میں دیہی علاقوں میں ویلج اور پنچایت کونسلز قائم ہوں گی جن کے نمائندگان بلاواسطہ تحصیل کونسل کی تشکیل کریں گے جبکہ شہری علاقوں میں نیبرہوڈ کونسلیں بنائی جائیں گی۔ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019 ء کے تحت پنجاب بھر میں 3281 یونین کونسل کی جگہ 22 ہزار یونین کونسلز بنا دی گئیں۔
بلدیاتی ادارے کسی بھی جمہوری نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان اداروں کے فعال ہونے سے عوام کے چھوٹے چھوٹے مسائل ان کی دہلیز پر ہی حل ہو جاتے ہیں۔ لیکن نہ جانے کیوں ہر آنے والی حکومت ان مقامی اداروں کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہوئے انہیں ختم کر دیتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ آمروں نے ہی بلدیاتی نمائندوں کے چناؤ کیلئے انتخابات کروائے۔ جنرل ایوب خان ہوں یا جنرل ضیاء الحق یا جنرل پرویز مشرف، ان جرنیلوں کے ادوار میں لاکھ برائیاں سہی لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ ان ادوار میں بلدیاتی اداروں کو بڑی اہمیت دی گئی اور ہمارے کئی موجودہ سیاستدان انہی انتخابات میں کامیاب ہو کر قومی و صوبائی سیاست میں اپنی شناخت بنائے ہوئے ہیں۔ میرے نزدیک تو یہ مقامی ادارے سیاستدانوں کیلئے سیاسی تربیت گاہیں بھی ہوتی ہیں جہاں انہیں عوام کے مسائل کو سمجھنے اور پھر ان کے حل کیلئے اپنی صلاحیتیں منوانے کا موقع ملتا ہے۔ویسے تو 25 مارچ 2021ء کو سپریم کورٹ نے پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019ء کی دفعہ 3 کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے صوبہ بھر کے تمام بلدیاتی ادارے بحال کرنے کا حکم جاری کردیا تھا۔ لیکن ابھی تک یہ ادارے فعال نہیں ہوئے۔ اس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ عوام نے بلدیاتی نمائندوں کو 5 سال کے لیے منتخب کیا تھا، ایک نوٹیفکیشن کا سہارا لے کر انہیں گھر بھجوانے کی اجازت نہیں دے سکتے،آرٹیکل 140 کے تحت قانون بناسکتے ہیں لیکن ادارے کو ختم نہیں کرسکتے۔ دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے تھے کہ پہلے 6 ماہ کے لئے بلدیاتی اداروں کو ختم کرنے کے بعد انتخابات کا اعلان کیا گیا، اس کے بعد 21 ماہ کی توسیع کی گئی اور اب انتخابات کو مشترکہ مفادات کونسل سے مشروط کر رہے ہیں، اس سے عوام اپنے نمائندوں سے محروم ہوگئے ہیں۔ 
لیکن میں ان سطور کی وساطت سے یہ اپیل ضرور کرنا چاہوں گا کہ وہ مقامی اداروں کی بحالی یا نئے انتخابات کی طرف فوری توجہ دیں۔ پی ٹی آئی حکومت کو تین سال ہو چکے اور اس سال کے اندر یہ انتخابات منعقد نہ کیے جا سکے تو پھر ان کا جلد انعقاد خطرے میں پڑ جائے گا کیونکہ اگلا سال تو آئندہ عام انتخابات کی تیاریوں کا سال ہو گا۔ قوم جہاں عمران خان کے دیگر وعدوں کے ایفاہونے کا انتظار کر رہی ہے وہیں مقامی حکومتوں کے انتخابات کا بھی جلد انعقاد چاہتی ہے تاکہ ان کے مسائل مقامی سطح پر حل ہو سکیں۔
(کالم نگارسیاسی وسماجی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭