چیمپئن کاشتکاروں کی حوصلہ افزائی

گندم کی کاشت میں ریکارڈ بنانے والے کسانوں کو دو کروڑ روپے انعام دیئے گئے
جن ممالک کی زراعت میں 75 فیصد لوگ وابستہ ہوں وہ ہنگامی بنیادوں پر پلاننگ کرتے ہیں
یہ صرف زبانی کلامی باتیں نہیں ہیں۔ واقعی اس سال پنجاب کے کھیتوں نے سونا اگلا ہے۔ رواں سال گندم کی پیداوار میں 8 فیصد،چاول میں 28 فیصد اور گنا میں 31 فیصد ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔یہ سارا کریڈٹ وزیراعظم پاکستان کو جاتا ہے۔انہوں نے زرعی ایمرجنسی پروگرام شروع کیا ہے۔جس کے تحت ریکارڈ فصل دینے والے کسانوں کو انعام دینے کا فیصلہ کیا گیاہے۔اس طرح سے پنجاب بھر کے 36 اضلاع میں تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔میں نے بھی بہاولپور کے ایک مقامی ہوٹل میں کسانوں کے لئے منعقدہ تقریب تقسیم انعامات میں شرکت کی۔جس میں ڈپٹی کمشنربہاول پور عرفان علی کاٹھیا،ڈائریکٹر زراعت جمشید خالد،ڈپٹی ڈائریکٹر محمد شفیق،زرعی ماہرین اور زمیندار بھی شامل تھے۔جس وقت میں گندم کی پیداوار میں اللہ کے فضل وکرم سے حکومت کی مربوط زرعی پالیسی کے نتیجے میں اور اپنی شب وروز کی سخت محنت کے بل بوتے پر ریکارڈ بنانے والے خوش نصیب کسان کو انعام دے رہی تھی تو اس کی آنکھوں میں بے پایاں خوشی صاف جھلک رہی تھی۔مجھے بھی مسرت ہوئی۔اس موقع پر میرے دل نے گواہی دی کہ یہی ہمارے ہیرو ہیں۔ سارا دن مٹی کے ساتھ ملکر مٹی کو سونا بنانے والے کاشتکاروں کو سال میں ایک دن وی آئی پی پروٹوکول ضرور دیاجائے بلکہ یوم عظمت کاشتکار منعقد ہونا چاہئے۔جس میں کاشتکاروں کی محنتوں کو خراج تحسین پیش کیا جائے۔جوملک میں غذائی ضروریات پوری کرنے کے لئے موسموں کی سختیاں جھیل کر سارا سال انتھک جستجو میں مصروف عمل ہیں۔ میں اس سلسلے میں حکومت تک تجویز پہنچانے کی کاوش کروں گی۔تاہم ضلع کی سطح پر ڈپٹی کمشنر کو کاشتکاروں کے ساتھ مل کرکھانا ضرور کھانا چاہیے۔اس سے نہ صرف ان کا حوصلہ بلند ہوگا بلکہ زراعت کے شعبے میں ہرلحاظ سے برکت بھی ہوگی۔ویسے تو ڈپٹی کمشنر منسٹروں کو پروٹوکول دیتے ہیں انہیں باہر تک چھوڑنے آتے ہیں۔یہی عزت ہمارے کامیاب کاشکار کا بھی حق ہے۔
بہاولپور تقریب میں تین قسم کے کسانوں کو انعامات دیئے گئے۔ گندم کی کاشت میں ریکارڈ بنانے والے کسانوں کو 36 ڈسٹرکٹ میں دو کروڑ کے انعام دیئے گئے۔ صوبائی لیول پر پہلا انعام چھ لاکھ روپے،ڈسٹرکٹ لیول پر پہلی پوزیشن کو تین لاکھ،دوسری پوزیشن کو دو لاکھ اور تیسری پوزیشن کو ایک لاکھ روپے دیا گیا۔اوسطاً 65 من سے زیادہ والے اور ساڑھے بارہ ایکڑ والے کسان اس مقابلے میں شامل  تھے۔ تقریب میں پہلی پوزیشن لینے والے کسان سے پوچھا گیا کہ آپ اس رقم کا کیا کریں گے کہاں گھومنے جائیں گے۔اس کسان نے حیران کر دینے والا جواب دیا کہ جس زمین کی وجہ سے انعام ملا ہے میں اسی زمین پر لگاؤں گا اور زیادہ پیداوار لوں گا۔کماد کی فصل میں اچھی کارکردگی دکھانے والے کسانوں میں پنجاب بھر میں ایک کڑور نوے لاکھ تقسیم کیے گئے۔ صوبائی سطح پر اچھی کماد پر پہلی پوزیشن لینے والے کو دس لاکھ روپے،ڈسٹرکٹ لیول پر تین لاکھ،دو لاکھ اور ایک لاکھ روپے کے انعامات تقسیم کیے گئے۔جبکہ تیلا اور اجناس کی پیداوار والے کسانوں میں پنجاب بھر میں تریسٹھ لاکھ روپے کے انعامات تقسیم کیے گئے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے نئے بجٹ میں زراعت کے ترقیاتی بجٹ میں 360 فیصد تاریخی اضافے کے ساتھ سات ارب پچھتر کڑور روپے سے بڑھا کر 31 ارب تجویز کیا ہے۔جس میں جنوبی پنجاب کا زراعت کا گیارہ ارب روپے رکھا گیا ہے۔آئندہ زرعی سبسڈی کی مد میں چار ارب روپے جبکہ گندم،چاول اور مکئی پر تحقیق چار سینٹر بنانے کی بھی تجویز ہے۔کسانوں کے اخراجات میں کمی لانے کے لیے کھاد،بیج،زرعی آلات وغیرہ کی خریداری پر فصل بیمہ اور آسان شرائط قرضوں کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے پانچ ارب روپے سے بڑھا کر سات ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
دنیا میں اگلی جنگ ہوئی تو پانی پر ہو گی۔عظیم ملک وقت سے پہلے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔وہ ممالک جن کی زراعت میں 75 فیصد لوگ وابستہ ہوں۔ وہ ہنگامی بنیادوں پر پلاننگ کرتے ہیں۔اس سلسلے میں پاکستان میں پانی کے کم استعمال سے فصل کاشت کرنے پر کام ہو رہا ہے اور حکومت اس پر سبسڈی بھی دے رہی ہے۔ پہلے ڈرپ ایریگیشن سسٹم میں حکومت ساٹھ فیصد سبسڈی دے رہی ہے۔پانچ ایکڑ والے کسان کو ڈرپ ایریگیشن سسٹم لگوانے کے لیے سوا لاکھ روپے لگتے ہیں۔جبکہ دس ایکڑ اراضی والے پر خرچہ کم ہو کر نوے ہزار لگتا ہے۔جہاں پہلے پانی لگانے کاعمل آٹھ گھنٹے پرمحیط ہوتاتھا اب وہاں دو گھنٹے پانی لگایا جاتا ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر  پودوں کو چند سیکنڈ پانی لگنے سے فصلوں میں پانی کی کمی پوری ہوتی ہے۔دوسرا لیزر لیول اور پکے کھالوں کی مد سے پانی کے ضیاع کو روکا جا رہا ہے۔اگر مزید معلومات لینی ہو تو ویب سائٹ ofwm-agripunjab.gov.pk ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
کسانوں کواور سہولت جو دی گئی وہ کسان کارڈ کا اجراء ہے۔یہ صرف وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدارکی محض باتیں نہیں تھیں۔ انہوں نے اسے عملی جامہ پہنایا ہے۔زرعی پیداوار میں اضافہ اور کسانوں کی سماجی و معاشی ترقی کے لیے ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ براہ راست سبسڈی سکیم سے کیش ٹرانسفر سے مالی معاونت کی جا رہی ہے۔ جو کاشتکار ایچ بی ایل کونیکٹ کے ذریعے اپنا اکاؤنٹ کھلوا سکتے ہیں۔جس کے لئے  کسانوں کے پاس موبائل نمبر اور شناختی کارڈ کا ہونا ضروری ہے۔ مذکورہ کارڈ زمیندار اور پٹہ دار کسان بھی حاصل کر سکتے ہیں۔موجودہ حکومت اپنے اقتدار کے روز اول سے ملک میں زرعی انقلاب کے لئے کوشاں ہے۔وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب سردارعثمان بزدار بھرپورکام کررہے ہیں۔آج اگر کسانوں کا اعتماد بحال اور مورال بلند ہوا ہے تواس کی وجہ پی ٹی آئی کی کسان دوست حکمت عملی ہے۔جس کی بدولت ہمارے کاشتکار تازہ دم ہوگئے ہیں۔وہ اپنی محنتوں میں پہلے سے زیادہ مگن ہوگئے ہیں اور ریکارڈ پیداوار اٹھارہے ہیں۔ وہ دن اب دور نہیں جب زراعت کی ترقی، کاشتکاروں کی آسودگی اورعوام کی بہتری کے حوالے سے ملک میں خوشحالی کاراج ہوگا۔
(مختلف موضوعات پرلکھتی ہیں)
٭……٭……٭

پی ٹی آئی حکومت اور بلدیاتی الیکشن

 
حکومت نے اعلان کیا کہ اب ایسا بلدیاتی نظام لایا جائے گا جو پہلے سے بہترین ہوگا
 بلدیاتی ادارے کسی بھی جمہوری نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں 
 
لائی2018ء کو ہونیوالے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد تحریک انصاف نے مرکز، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اپنی اتحادی حکومتیں قائم کیں۔ عمران خان نے18اگست 2018ء کو بطور وزیراعظم اپنے عہدے کا حلف اٹھایا توقوم سے خطاب کے دوران اپنی انتخابی مہم میں کیے گئے وعدوں کو دہراتے ہوئے قوم کو90 دنوں میں تبدیلی کی نوید سنا ئی۔ انہوں نے اپنے انتخابی منشور میں کچھ ایسے بلند بانگ دعوے کیے تھے کہ ماضی کی حکومتوں سے ستائے ہوئے عوام کو عمران خان کی صورت میں ایک مسیحا نظر آنے لگا۔وہ روشن مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے امید بھری نظروں سے پی ٹی آئی حکومت کی طرف دیکھنے لگے۔ پہلے 90دن پھر تین ماہ پھر چھ ماہ، لیکن ان کا صبر جواب دینے لگا۔ انہیں اپنے خواب بکھرتے دکھائی دیئے،انہیں لگا کہ ان کے ارمانوں کا خون کیا جا رہا ہے لیکن ایک موہوم سی امید قائم رہی۔ قوم کو ”آپ نے گھبرانا نہیں“ کا درس دینے والوں سے قوم باقاعدہ سوال کرنے لگ گئی کہ ہمیں گھبرانے کی اجازت دے دی جائے کہ مہنگائی نے عوام کا جینا محال کر دیا۔ 
ایک سال گزرا پھر دوسرا سال بھی ایسے ہی گزر گیا اور اب پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئے ایک ہزار دن سے زائد ہو چکے لیکن جس تبدیلی کا وعدہ عمران خان نے قوم سے کیا تھا وہ محض سراب ثابت ہوئی۔ حالانکہ 9جولائی2018ء کو اپنی جماعت کے انتخابی منشور کا اعلان کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ اس میں ایسی کوئی چیز شامل نہیں جو قابلِ عمل نہ ہو اور ہم یہ سب کر کے دکھائیں گے۔ عمران خان نے جہاں 50لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں فراہم کرنے کا اعلان کیا وہیں یہ بھی کہاتھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت عوام کو بااختیار بنائے گی اور بلدیاتی اداروں کے ذریعے اختیارات اور فیصلہ سازی نچلی سطح تک منتقل کرے گی۔ عمران خان نے اپنی ہر تقریر میں گورننس ماڈل میں بلدیاتی انتخابات کا ذکر کیا اور عزم کیا کہ حکومت میں آنے کے بعد ان کی پہلی ترجیح بلدیاتی انتخابات کروانا ہو گی۔ وزیر اعظم عمران خان بلدیاتی اداروں کے قیام اور ان اداروں کو جمہوریت کے استحکام کیلئے جتنا ناگزیر اور ضروری قرار دیتے رہے اتناشاید پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی سیاسی رہنما نے دیا ہو۔ بلدیاتی اداروں سے متعلق ان کایہ موقف آج بھی اکثر لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہوگا جب وہ بڑے مدلل انداز میں مغرب اور بر طانیہ میں قائم مقامی حکومتوں کی اہمیت بیان کرتے ہوئے اسی نوع کا نظام پاکستان میں بھی رائج کرنے کا عزم ظاہرکرتے تھے۔ لیکن موجودہ حکومت کے تین سال گزر چکے ہیں مگر بلدیاتی انتخابات کا وعدہ پورا نہیں ہوا۔یاد رہے کہ 2018ء میں تحریک انصاف نے جب حکومت سنبھالی تو اس وقت صوبہ پنجاب میں سابقہ حکومت کا بلدیاتی نظام عملی حالت میں موجود تھا۔ لیکن مئی 2019 ء میں پی ٹی آئی حکومت نے اس بلدیاتی نظام کوختم کر دیا جس سے بیک جنبش قلم 58 ہزا عوامی نمائندے غیر فعال ہو گئے۔ حکومت نے اعلان کیا کہ اب ایسا بلدیاتی نظام لایا جائے گا جو پہلے سے بہترین ہوگا۔اس سلسلے میں 4 مئی 2019ء کو پنجاب حکومت نے صوبے میں نیا بلدیاتی نظام متعارف بھی کروایا۔ اس نئے نظام کیلئے دو ایکٹ پاس کیے گئے۔ ایک ویلج پنچایت اینڈ نیبرہوڈ ایکٹ 2019 ء جبکہ دوسرا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019 ء کے نام سے تھا۔ کہا گیا کہ اس میں دیہی علاقوں میں ویلج اور پنچایت کونسلز قائم ہوں گی جن کے نمائندگان بلاواسطہ تحصیل کونسل کی تشکیل کریں گے جبکہ شہری علاقوں میں نیبرہوڈ کونسلیں بنائی جائیں گی۔ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019 ء کے تحت پنجاب بھر میں 3281 یونین کونسل کی جگہ 22 ہزار یونین کونسلز بنا دی گئیں۔
بلدیاتی ادارے کسی بھی جمہوری نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان اداروں کے فعال ہونے سے عوام کے چھوٹے چھوٹے مسائل ان کی دہلیز پر ہی حل ہو جاتے ہیں۔ لیکن نہ جانے کیوں ہر آنے والی حکومت ان مقامی اداروں کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہوئے انہیں ختم کر دیتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ آمروں نے ہی بلدیاتی نمائندوں کے چناؤ کیلئے انتخابات کروائے۔ جنرل ایوب خان ہوں یا جنرل ضیاء الحق یا جنرل پرویز مشرف، ان جرنیلوں کے ادوار میں لاکھ برائیاں سہی لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ ان ادوار میں بلدیاتی اداروں کو بڑی اہمیت دی گئی اور ہمارے کئی موجودہ سیاستدان انہی انتخابات میں کامیاب ہو کر قومی و صوبائی سیاست میں اپنی شناخت بنائے ہوئے ہیں۔ میرے نزدیک تو یہ مقامی ادارے سیاستدانوں کیلئے سیاسی تربیت گاہیں بھی ہوتی ہیں جہاں انہیں عوام کے مسائل کو سمجھنے اور پھر ان کے حل کیلئے اپنی صلاحیتیں منوانے کا موقع ملتا ہے۔ویسے تو 25 مارچ 2021ء کو سپریم کورٹ نے پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019ء کی دفعہ 3 کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے صوبہ بھر کے تمام بلدیاتی ادارے بحال کرنے کا حکم جاری کردیا تھا۔ لیکن ابھی تک یہ ادارے فعال نہیں ہوئے۔ اس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ عوام نے بلدیاتی نمائندوں کو 5 سال کے لیے منتخب کیا تھا، ایک نوٹیفکیشن کا سہارا لے کر انہیں گھر بھجوانے کی اجازت نہیں دے سکتے،آرٹیکل 140 کے تحت قانون بناسکتے ہیں لیکن ادارے کو ختم نہیں کرسکتے۔ دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے تھے کہ پہلے 6 ماہ کے لئے بلدیاتی اداروں کو ختم کرنے کے بعد انتخابات کا اعلان کیا گیا، اس کے بعد 21 ماہ کی توسیع کی گئی اور اب انتخابات کو مشترکہ مفادات کونسل سے مشروط کر رہے ہیں، اس سے عوام اپنے نمائندوں سے محروم ہوگئے ہیں۔ 
لیکن میں ان سطور کی وساطت سے یہ اپیل ضرور کرنا چاہوں گا کہ وہ مقامی اداروں کی بحالی یا نئے انتخابات کی طرف فوری توجہ دیں۔ پی ٹی آئی حکومت کو تین سال ہو چکے اور اس سال کے اندر یہ انتخابات منعقد نہ کیے جا سکے تو پھر ان کا جلد انعقاد خطرے میں پڑ جائے گا کیونکہ اگلا سال تو آئندہ عام انتخابات کی تیاریوں کا سال ہو گا۔ قوم جہاں عمران خان کے دیگر وعدوں کے ایفاہونے کا انتظار کر رہی ہے وہیں مقامی حکومتوں کے انتخابات کا بھی جلد انعقاد چاہتی ہے تاکہ ان کے مسائل مقامی سطح پر حل ہو سکیں۔
(کالم نگارسیاسی وسماجی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

ہم قرضے معاف کروانا اعزاز سمجھتے ہیں

یہاں کے غریب بالواسطہ یا بلا واسطہ امیروں سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں
پاکستانی معیشت میں 26کھرب60ارب اشرافیہ کی مراعات پر خرچ ہوجاتے ہیں
تحریک انصاف کی حکومت کا مسلسل تیسرا بجٹ ہے جو قومی اسمبلی میں وزیر خزانہ شوکت ترین نے پیش کیا ہے اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ ٹیکس فری بجٹ ہے۔ معیشت کا بنیادی اصول ہے کہ ٹیکس امرا سے وصول کیا جاتا ہے اور غربا پر خرچ کیا جاتا ہے۔مگر پاکستان اور غیر ترقیاتی ممالک  کو استثناء حاصل ہے کہ یہاں کے غریب بالواسطہ یا بلاواسطہ امیروں سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں یعنی غریب امرا کو پال رہے ہیں۔ ٹیکس حکام کی تعیناتی بھی ہمارے ہاں گمبھیر مسئلہ ہے اعلیٰ سطح پر پسند اور نا پسند کے معیارات کو سامنے رکھ کر بالا دست طبقات اور مقتدر لوگ اپنے اپنے مفادات کی تحفظ کے لئے ٹیکس حکام کی تقرریاں کرواتے ہیں اور بعد ازاں ان سے مفادات اٹھاتے ہیں۔ پارلیمنٹ ظاہری طور پر ساورن ادارہ ہے لیکن عملی طور پر ٹیکس معاملات میں انتظامیہ کو ٹیکس قوانین میں ردوبدل کرنے کا اختیار حاصل ہو جاتا ہے جس سے بے پناہ مسائل جنم لیتے ہیں۔ ایک طبقہ فکر کی رائے ہے کہ آئی ایم ایف سول سوسائٹی اور حلیفوں کی مخالفت کے باوجود مسلسل ٹیکس ایمنسٹی سکیموں سے ٹیکس چوروں کوفائد ہ پہنچایا گیااس سے گویا ایماندار ٹیکس گزاروں کو ترغیب ملی کہ وہ بھی ٹیکس چوری کا ارتکاب کریں۔
 پاکستان میں معاشی عدم استحکام اور اختیارات کے استحصالانہ استعمال پراقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی کے تحت نیشنل ہیومن ڈویلپمنٹ نے رپورٹ جاری کی ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ پاکستانی معیشت میں 26 کھرب 60 ارب اشرافیہ کی مراعات پر خرچ ہو جاتے ہیں مزید اظہار کیا گیا ہے کہ ملک میں معیشت سیاست اور سماج پر تسلط رکھنے والا طبقہ اپنے استحقاق سے زیادہ معاشی مفادات سے استفادہ کرتا ہے۔ اسی طرح جاگیر دار طبقہ جو 1.1 فیصد ہے وہ 22 فیصد زمینوں پر قابض ہے۔ ملک کا ایک منظم اور طاقتور ادارہ زمین  سرمایہ اور انفراسٹر کچر اور ٹیکس کی چھوٹ کی مد میں دو کھرب ساٹھ ارب کی مراعات حاصل کر رہا ہے۔ وفاقی حکومت شاید حوصلہ کر رہی ہے کہ سیاستدانوں اور بیوروکریسی کے ٹیکس ریکارڈ تک نیب کو رسائی دینے پر غور کر رہی ہے جس کا حتمی فیصلہ وزیر اعظم پاکستان کریں گے۔  کیا ارکان اسمبلی اور وزراء اپنی مالی کمزوری کی وجہ سے ایف بی آر کے ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ پاکستان کے چھوٹے سے چھوٹے ملازم بھی ٹیکس نیٹ میں شامل ہیں وہاں کی اشرافیہ ٹیکس نیٹ سے باہر رہ کر غربت اور افلاس کے مزے اٹھا رہی ہے۔
 سرکاری ملازمین اپنی ملازمت پوری ہونے کے باوجود بھی اپنے گوشوارے جمع کروانے کے پابند ہیں۔ یہ تجویز قابل تحسین ہے کہ 6 لاکھ آمدنی والوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔ ہماری روزمرہ زندگی میں تاجر،ہول سیلرز، ڈاکٹر حضرات ماہانہ کروڑوں کماتے ہیں لیکن ٹیکس کے معاملے میں پرلے درجے کے مفلس اور قلاش بن جاتے ہیں ان کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانے کی اشد ضرورت ہے بلامبالغہ پرائیویٹ پریکٹس کرنے والے ڈاکٹرز معاشرہ کا سب سے خوشحال طبقہ ہے اور ٹیکس دینے کے معاملے میں سب سے پیچھے ہیں،ہر پرائیویٹ ہسپتال نے کرونا وبا کے دوران مال و زر کے پہاڑ کمائے ہیں لیکن ایف بی آر کی پہنچ سے باہر ہیں۔ حیف صد حیف جس ملک میں قرضے معاف کروانے کو اعزاز سمجھا جائے صدر وزیراعظم وزرائے اعلیٰ اور اپوزیشن لیڈرز ٹیکس کی ادائیگی میں فہرست میں سب سے نیچے ہوں اس ملک کے تاجر اگر ٹیکس لگنے پر ہڑتال کریں تو اچنبھا نہیں ہونا چاہیے. ہمارے ہاں یہ روایت عام ہے کہ صدقہ و خیرات دینے میں ہماری قوم کا ثانی کوئی نہیں ہے لیکن ٹیکس کی عدم ادائیگی کے لئے ہزاروں بہانے موجود ہیں۔
سترہ فیصد سیل ٹیکس ہر خریدار پر لاگو کیا جاتا ہے ٹیکس خریداروں سے وصول کر لیا جاتا ہے لیکن حکومتی خزانے تک پہنچنا کار دارد ہے حالانکہ خریدار کو اس سیلز ٹیکس پر ادائیگی کا فائدہ پہنچنا چاہیے اگر یہ وصولی بذریعہ شناختی کارڈ ہو تو خریدار کو عام ٹیکس میں چھوٹ مل سکتی ہے بڑے ہوٹلوں کے حوالے سے ایف بی آر والے خود تسلیم کرتے ہیں کہ گاہکوں سے وصول شدہ سترہ فیصد ٹیکس ان تک نہیں پہنچتا ہے۔ حکومت کو اس حوالے سے وصولی کے لئے کوئی تیز بہدف نسخہ تلاش کرنا چاہئے۔ ہمارے ہاں ٹیکس کی ادائیگی کا کلچر عام کرنا چاہیے یہ ہماری ملی اور قومی ذمہ داری ہے۔ ملک میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی خرید و فروخت بلا روک ٹوک جاری ہے۔نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے بازار سوات اور مالا کنڈ ڈویژن میں لگتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے چمن کوئٹہ میں بھی خوب نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا بازار لگتا ہے قانون کا مذاق برسرعام اڑایا جاتا ہے۔ملک بھر میں سینکڑوں کی تعداد میں خیراتی ادارے بغیر ٹیکس ادا ئیگی کے مصروف خدمت ہیں ان خیراتی اداروں کو سرکار کی طرف سے زمین مفت دی جاتی ہے ان خیراتی اداروں کے منتظمین کا رہن سہن شہزادوں جیسا ہوتا ہے یہ خیراتی ادارے ہوں یا دینی تعلیم پھیلانے والے بڑے ادارے سب کے منتظمین شاہانہ سٹائل سے رہتے ہیں، جو متمول حضرات خیراتی ادارے قائم کرنا چاہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ اپنی جیب سے اخراجات کریں تاکہ ان کو پورا ثواب حاصل ہو سکے۔ شوکت ترین نے کہا کہ وزیر اعظم آئی ایم ایف کے سامنے سینہ سپر ہو گئے ہیں اور مہنگائی کے سامنے بند باندھ دیا ہے۔ وفاقی حکومت نے ٹیکس وصولیوں کا ہدف 4.7 ٹریلین رکھا ہے حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ ہدف سے زیادہ وصولیاں کرے گی۔ قومی اسمبلی نے 3088ارب 54 کروڑ کے 49 مطالبہ زر منظور کئے ہیں حکومت نے وفاقی ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد کا اضافہ کیا ہے اور اسی طرح پنشنرز کی پنشن میں بھی دس فیصد کا اضافہ کر دیا ہے۔ پاکستان کی معیشت پر سرکاری ملازمین کی پنشنز کا بھی بڑا بوجھ ہے پوری قوم کو اس بارے غور و فکر کرنا چاہیے کہ کس طرح اس بوجھ سے آئندہ نجات حاصل ہو سکے۔  ملازم ساٹھ سال کی عمر میں ریکارڈ ہو جاتا ہے اور بیس پچیس سال تک قومی خزانے پر بوجھ بنا رہتا ہے اعلیٰ درجے کے ملازمین دوبارہ ملازمت حاصل کر لیتے ہیں اور ڈبل ڈبل پنشن وصول کرتے ہیں جو قومی خزانے کے لئے زہر قاتل ہے۔ حکومت کو سوچنا چاہیے ریٹائرڈ اساتذہ،انجینئر حضرات سے پنشن دینے کے عوض جو صحت مند ہیں ان سے کیسے کام لیا جائے اور قومی ترقی میں ان کے کردار کو کیسے موثر بنایا جائے۔
(کالم نگارمعروف سابق پارلیمنٹیرین اورپاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما ہیں)
٭……٭……٭

مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے

حکومت کے 3سال بعد بھی ہمیں وہ مضبوط سسٹم نظر آرہا ہے نہ قانون کی پاسداری
 معاشرہ کے  ناسوروں کو مارنا ہی بہتر ہے ورنہ قانونی پیچیدگیوں کے باعث بچ جاتے ہیں
پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے وزیر اعظم بننے سے پہلے قوم سے جو اہم ترین وعدہ کیا تھا وہ معاشرے میں مضبوط نظام انصاف کے قیام کا تھا۔کپتان کا کہنا تھا کہ سب لوگ قانون کے نیچے ہوں گے۔ ملک میں دو قانون نہیں بلکہ امیر غریب کے لئے ایک قانون ہوگا۔ اپنے وعدے میں پختگی لانے کے لئے وہ جو مثال دیا کرتے تھے وہ خیبر پختونخوا پولیس کی تھی۔ وہ کہتے کہ ہم نے کے پی کے پولیس کو مکمل غیر سیاسی بنا دیا ہے۔ کپتان بار بار کہتے کہ ہم سسٹم کو مضبوط بنائیں گے جہاں سب کو انصاف ملے گا، لیکن حکومت کے 3 سال بعد بھی ہمیں وہ مضبوط سسٹم نظر آ رہا ہے نہ قانون کی پاسداری، بلکہ اکثر تو قانون کہیں نظر ہی نہیں آتا۔
یہ بات درست ہے کہ انصاف پر مبنی معاشرے کا قیام چٹکیوں میں عمل میں نہیں آتا بلکہ اس کے لئے مسلسل کوشش اور وقت درکار ہوتا ہے،کیونکہ
بستی کا بسانا کھیل نہیں
یہ بستے، بستے بستی ہے
لیکن یہ عمل اس قدر طویل نہیں ہونا چاہئے کہ لوگ مسلسل اذیت میں رہیں، کیونکہ حکومت اپنی آدھی سے زائد مدت گزار چکی ہے۔ مضبوط نظام نا سہی کم از کم اس کے کچھ آثار ہی نظر آجاتے لیکن ایسا کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ پولیس کا نظام ابھی تک تباہ حال ہے۔ ڈاکو، چور اچکے دندناتے پھر رہے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان میں لادی گینگ نے اپنے مخالف شخص کے جانوروں کی طرح اعضاء کاٹ کر اس کی باقاعدہ ویڈیو وائرل کی۔ وزیراعظم عمران خان نے اس کا نوٹس لیااور اگلے دن لیہ میں خطاب کے دوران قوم کو یقین دلایا کہ ایسے عناصر کو بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا۔ وزیراعظم کے اس اعلان کو ایک ماہ سے زائد عرصہ بیت چکا لیکن ابھی تک لادی گینگ کا بال تک بیکا نہیں کیا جا سکا۔ گینگسٹر فیس بک اور سوشل میڈیا کو سرکاری ٹی وی کی طرح استعمال کرتے ہوئے اپنی آزادانہ نقل و حرکت اور دیگر سرگرمیوں کی ویڈیوز جاری کر رہے ہیں۔پولیس کو باقاعدہ دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ گرفتار فلاں فلاں مبینہ سہولت کار کو چھوڑ دو ورنہ برا ہوگا۔ حیرت ہے کہ ایک عام شخص جائز اسلحہ کے ساتھ بھی کوئی تصویر سوشل میڈیا پراپ لوڈ کر دے تو اسی وقت گرفتار کر لیا جاتا ہے لیکن یہ ڈاکو مہینوں سے خطرناک اسلحہ کی نمائش کر رہے ہیں روزانہ اپنی تقریریں کر رہے ہیں لیکن ہمارے جدید سائبر کرائم ونگ سمیت کسی کو ان تک رسائی نہیں ہو سکی۔ کیا وہ پاکستان نہیں کسی اور ملک میں رہ رہے ہیں …… یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ جوہر ٹاؤن لاہور میں ہونے والے دھماکوں اور خانیوال میں 4سالہ بچی کے قتل کے ملزم حساس اداروں نے ٹریس کر کے دیے ورنہ پولیس ڈیرہ غازی خان کی طرح یہاں بھی اپنے ”مشاغل“ میں مصروف تھی۔
ہمارے کمزور نظام انصاف کی بدترین حالت یہ ہے کہ عوام تو دور کی بات خود پولیس کے اعلیٰ حکام کو بھی ہمارے نظام انصاف پر اعتماد اور یقین نہیں۔ اس کی ایک حالیہ اور واضح مثال شجاع آباد کا دلہن زیادتی کیس ہے، جب شادی کی پہلی رات پولیس وردی میں ملبوس 4 ڈاکوؤں نے اہل خانہ کو یرغمال بنا کر دلہن سے اجتماعی زیادتی کی۔ اس کے بعد ایک شرمناک صورتحال یہ سامنے آئی کہ واقعہ کو اہلخانہ کی ذاتی دشمنی یا ”تعلقات“ کا نتیجہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی گئی۔ اس طرح قوم کی اس متاثرہ بیٹی کو مزید زخم دیے گئے لیکن اس موقع پر روزنامہ ”خبریں“ کا کردار اہم رہا اور کسی کے ”اشارے“ کے بجائے حقائق پر مبنی رپورٹنگ کرتے ہوئے اس بیٹی کی ڈھارس بندھائی، مہینے بعد اس اندوہناک واقعہ کے 2 ملزم عابدی اور شوکت پکڑے تو گئے لیکن حکام کو ان ملزموں کو مقابلے میں ”پار“ کرنا پڑا۔
ایسے پولیس مقابلوں کے حوالے سے پولیس کے پاس دوموقف ہوتے ہیں،پہلا سرکاری موقف کہ ملزم کو چھڑانے کے لیے ملزم کے ساتھیوں نے فائرنگ کی جس میں تمام اہلکار محفوظ رہے لیکن ملزم مارا گیا۔ دوسرا آف دی ریکارڈ موقف یہ کہ معاشرے کے ان ناسوروں کو مارنا ہی بہتر ہے ورنہ وہ قانونی پیچیدگیوں کے باعث بچ جاتے ہیں یا متاثرہ فریق پر پریشر ڈال کر زبردستی صلح کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
اس حد تک تو بات درست ہے کہ ان معاشرتی ناسوروں کا خاتمہ ضروری ہے لیکن کیا یہ سب کچھ ماورائے قانون اور ماورائے عدالت ہونا چاہیے؟ کیا ہمارے ہاں کوئی قانون نہیں؟ یا پھر یہ نظام اتنا کمزور ہے کہ کسی کو انصاف نہیں مل سکتا؟
جناب وزیراعظم آپ نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ مضبوط نظام انصاف لاؤں گا۔ آپ کی جماعت کا نام بھی تحریک انصاف ہے،یہاں امیر تو قانون خرید بھی سکتے ہیں لیکن اصل مسئلہ غریبوں کا ہے جن کی ان ڈاکوؤں، لٹیروں کے ہاتھوں مال اور جان کجا عزتیں تک محفوظ نہیں اور یہ اپنے اوپر ہونے والے مظالم کھل کر بیان بھی نہیں کر سکتے۔آخر یہ مضبوط نظام کب آئے گا۔
بقول فیض احمد فیض:
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
(کالم نگارقومی وسیاسی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

کل ہم وزیراعظم کے خیالات سے مستفید ہوں گے، شاہ محمود قریشی

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کل ہم وزیراعظم کے خیالات سے مستفید ہوں گے۔

تفصیلات کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حکومت نے کل کے قومی اسمبلی بجٹ اجلاس سے متعلق حکمت عملی طے کرلی ہے اور وزیراعظم عمران خان کل بجٹ اجلاس سے خطاب کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ منظوری پر پوری قوم کو مبارکباد پیش کرتے ہیں ، آج بجٹ اجلاس بہترین انداز میں رہا ، ذلفی بخاری نے دورہ اسرائیل سے متعلق اپنی وضاحت دے دی ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ ایک لغو بات تھی ، قومی سلامتی پر پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس یکم جولائی کو ہوگا ، فیٹف کے حوالے سے منی لانڈرنگ اور ٹیرز فنانسک کو روکیں گے۔

پاکستان امریکی دباؤ میں آکر چین کیساتھ اپنے تعلقات خراب نہیں کرے گا، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے واضح اور دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے امریکا کو پیغام دیا ہے کہ وہ کسی کے دباؤ میں آ کر اپنے دیرینہ دوست چین کیساتھ اپنے تعلقات کو کم نہیں کرے گا۔

چینی میڈیا کو دیئے گئے ایک اہم انٹرویو میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان پر چین سے تعلقات کم کرنے کا امریکی دباؤ غیر منصفانہ ہے۔ پاکستان جب بھی مشکل میں رہا، چین نے اس کا ساتھ دیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستانیوں کے دل میں چینی عوام کی بڑی عزت ہے، مشکل وقت میں ساتھ دینے والے یاد رہتے ہیں۔ چین کے ساتھ ہمارے تعلقات مضبوط سے مضبوط تر ہو رہے ہیں۔ پاکستان کسی کے دباؤ پر آ کر اپنے تعلقات خراب نہیں کرے گا۔

عمران خان نے امریکا کو دوٹوک پیغام دیتے ہوئے کہا کہ چاہے جتنا دباؤ پڑے پاک چین تعلقات میں تبدیلی نہیں آئے گی۔ امریکا نے “کواڈ” نامی علاقائی اتحاد بنا کر معاملہ پیچیدہ کردیا ہے۔ بھارت کو بھی اسی اتحاد میں شامل کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تمام ممالک کےساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے لیکن مغربی طاقتوں کا پاکستان پر کسی ایک اتحاد کو چننے کیلئے دباؤ ڈالنا ٹھیک نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ تجارت کے ذریعے چین کیساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کیا جا سکتا ہے۔ اقتصادی راہداری منصوبہ (سی پیک) پاکستان کا معاشی مستقبل ہے۔

یہ غیرقانونی بجٹ ہے، اسپیکر نے ایوان کا تقدس پامال کیا، بلاول

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے بجٹ کی منظوری کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے رولز کی خلاف ورزی کی اور ایوان کا تقدس پامال کرتے ہوئے میرے چیلنج کو نظرانداز کیا جو میرا حق ہے۔

نئے مالی سال کے بجٹ کی منظوری کے بعد اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ قومی اسمبلی کا فورم اس لیے ہوتا ہے کہ رکن ناصرف اپنے حلقے کی بات اور عوام کی نمائندگی کرے، حکومت کی مخالفت کرے اور یہ ہمارا حق ہے کہ ہماری گنتی کی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کا طریقہ کار یہ ہے کہ اسپیکر پہلے وائس ووٹ لیتے ہیں اور اگر کوئی بھی رکن چیلنج کرتا ہے تو اسپیکر صاحب کو قانون کے مطابق لازمی گنتی کرانی ہے، آج بجٹ کے فائنل اور سب سے اہم ووٹ کے موقع پر جب اسپیکر صاحب نے وائس ووٹ لیا تو میں نے خود کھڑے ہو کر اس وائس ووٹ کو چیلنج کیا لیکن اسپیکر صاحب نے رولز کی خلاف ورزی کی اور قومی اسمبلی کا تقدس پامال کرتے ہوئے میرے چیلنج کو نظرانداز کیا جو میرا حق ہے۔

بلاول نے کہا کہ قومی اسمبلی کے رکن اور اپنی جماعت کے پارلیمانی لیڈر کی حیثیت سے میں نے ان کے بجٹ کو چیلنج کیا، ان کو بجٹ کے حق اور مخالفت میں ووٹ دینے والے اراکین کی گنتی کرنی چاہیے تھی لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اسپیکر صاحب نے یہ نہیں کیا اور ہماری نظر میں یہ ایک غیرقانونی عمل ہو گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے اسی لیے اسپیکر صاحب کو ایک خط بھی لکھا ہے جس میں رول 276 کی بھی نشاندہی کی ہے جس کے تحت ووٹ چیلنج ہو تو آپ نے گنتی کرانی ہوتی ہے لیکن اسپیکر صاحب نے آج رکن اسمبلی کے ووٹ کے حق پر ڈاکا مارا ہے، میں اس کی بھرپور مذمت کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ انہیں فی الفور اس خط کا جواب دینا پڑے گا، اگر وہ اس غلطی کو درست نہیں کرتے ہیں تو یہ غیرقانونی بجٹ ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ اگر حکومت سمجھتی ہے کہ ان کا بجٹ اتنا زبردست اور معیشت اتنی ترقی کررہی ہے تو وہ کیوں چھپ رہے ہیں اور یہ میرا حق ہے کہ میں ملک اور قوم کے سامنے اپنی رائے کا اظہار کروں اور اپنا ووٹ ریکارڈ کروں۔

بھارت مقبوضہ کشمیر میں بچوں پر پیلٹ گن کا استعمال بند کرے، اقوام متحدہ

نیوا: اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ بھارت اپنی سیکیورٹی فورسز کو مقبوضہ کشمیر میں پیلٹ گن سے بچوں کو نشانہ بنانے سے روکے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رپورٹ  بچوں اور مسلح تصادم کی روشنی میں جنرل سیکرٹری انتونیو گوتریس نے مطالبہ کیا کہ بھارت بچوں کو سیکیورٹی فورسز سے منسلک نہ کرے اور بچوں پر پیلٹ گن کے استعمال سے گریز کرے۔

سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے مزید کہا کہ بھارتی فوج کے  کشمیر میں بچوں کے خلاف سنگین خلاف ورزیوں کی رپورٹس نے مجھے غم زدہ کردیا ہے، میں اس صورت حال پر پریشان ہوں۔

سربراہ اقوام متحدہ نے بھارتی حکومت سے طلبا، اساتذہ، اسکولوں اور یونیورسٹیز کو مسلح تصادم سے بچانے کے لیے سیف اسکول اور وینکوور کے اصولوں کی جلد از جلد توثیق کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے مقبوضہ کشمیر اسکولوں میں فوجیوں کے قیام، بچوں کی گرفتاری اور تشدد پر تشویش ہے۔

انتونیو گوتریس نے کشمیر میں زیر حراست بچوں کے ساتھ بھارتی فوج کے ناروا سلوک کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکومت گرفتار بچوں کی دیکھ بھال اور تحفظ کے قانون 2015 پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں مقبوضہ کشمیر میں بچوں کے ساتھ ناروا سلوک کے بارے میں تفصیلات کو بیان کیا گیا ہے جس میں بھارتی فوج کے اسکولوں پر قبضے، بچوں کو عسکریت پسند ظاہر کرکے گرفتار کرنے اور زیر حراست تشدد کا نشانہ بنانے کے شواہد پیش کیے گئے ہیں۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ برس 33 لڑکے اور 6 لڑکیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ان میں سے 9 ہلاک اور 30 بچے معذور ہوئے جب کہ پیلٹ گن سے 11 بچوں کی بینائی کو نقصان پہنچا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال 4 ماہ تک بھارتی فوج نے 7 اسکولوں میں کیمپس قائم کیئے جب کہ 4 بچوں کو عسکری جماعتوں سے وابستگی کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں دنیا بھر جنگ زدہ علاقوں میں بچوں پر پڑنے والے اثرات اور نقصانات کا جائزہ لیا گیا ہے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان، شام اور کانگو میں تقریباً 19 ہزار 300 کی سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب کیا گیا

پنجاب، خیبرپختونخوا کا یکم جولائی سے تعلیمی اداروں میں موسم گرما کی تعطیلات کا اعلان

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کی جانب سے صوبوں اور وفاقی آکائیوں کو تعلیمی اداروں میں موسم گرما کی تعطیلات کا اختیار دیئے جانے کے بعد صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا نے اس حوالے سے اہم اعلان کردیا ہے۔

صوبہ پنجاب کے وزیر تعلیم مراد راس نے یکم جولائی سے صوبے بھر کے اسکولوں میں ایک ماہ کی گرمیوں کی تعطیلات کا اعلان کردیا۔

مراد راس نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ پنجاب میں اسکولوں میں گرمیوں کی چھٹیوں کا آغاز یکم جولائی سے ہو گا اور یکم اگست تک اسکول بند رہیں گے۔

ہانہوں نے والدین اور بچوں سے درخواست کی کہ وہ ان چھٹیوں میں حکومت کے جاری کردہ ایس او پیز پر عمل کریں۔

علاوہ ازیں وزیر تعلیم خیبرپختونخوا شہرام خان ترکئی نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں موسم گرما کی 11 روزہ تعطیلات یکم جولائی سے شروع ہو رہی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ صوبہ خیبرپختونخوا میں تمام سرکاری و نجی اسکول اور مدارس یکم جولائی 2021 سے 11 جولائی 2021 تک بند رہیں گے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کا اجلاس ہوا تھا جس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ تعلیمی اداروں میں گرمیوں کی تعطیلات کا اعلان تمام صوبے اور وفاقی اکائیاں اپنی صوابدید سے کر سکتی ہیں۔

کورونا وائرس کی وجہ سے پورا سال تعلیمی نقصان کے پیش نظر ابھی تک صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے علاوہ کسی اور صوبے نے گرمیوں کی چھٹیوں کا اعلان نہیں کیا البتہ اس سلسلے میں جلد دیگر وفاقی اکائیوں کی جانب سے بھی اعلان متوقع ہے۔

واضح رہے کہ کورونا وائرس کے کیسز میں کمی اور ویکسی نیشن کی ملک بھر میں دستیابی کو مدنظر رکھتے ہوئے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے کورونا کی کم شرح والے اضلاع میں تمام تعلیمی ادارے 7 جون سے کھولنے کا اعلان کیا تھا۔

ن سینٹر کے فیصلے کی روشنی میں پنجاب کے وزیر تعلیم مراد راس نے صوبے میں 7 جون سے اسکول کھولنے کا اعلان کیا تھا۔

اس سے قبل 19 مئی کو نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے 24 مئی سے ایسے اضلاع میں تعلیمی اداروں کو دوبارہ کھولنے کی اجازت دی تھی جبکہ تعلیمی اداروں میں عملے کے لیے کووڈ-19 ویکسین کو بھی لازمی قرار دے دیا تھا۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال کورونا وائرس آنے کے ساتھ ہی تعلیمی اداروں کو بند کردیا گیا تھا اور وائرس کے پھیلاؤ کے خدشے کے پیش نظر کئی ماہ تک تعلیمی اداروں کی بندش کی وجہ سے بچوں کا بہت نقصان ہوا اور بعد میں بچوں کو امتحانات کے بغیر ہی اگلی جماعتوں میں ترقی دے دی گئی تھی۔

ورلڈ بینک کی توانائی کے شعبے، انسانی وسائل کو بہتر بنانے کیلئے 80 کروڑ ڈالر کی منظوری

ورلڈ بینک (عالمی بینک) کے بورڈ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرز نے پاکستان میں 2 پروگراموں کی مالی اعانت کے لیے 80 کروڑ ڈالر کی منظوری دے دی۔

ورلڈ بینک کی جانب سے جاری کردہ ایک اعلامیے کے مطابق ان پروگراموں میں پاکستان پروگرام فور افورڈ ایبل اینڈ کلین اینرجی (پیس) اور سیکنڈ سیکیورنگ ہیومن انویسٹمنٹ ٹو فوسٹر ٹرانسفورمیشن (شفٹ 2) شامل ہے۔

ورلڈ بینک کے کنٹری ڈائریکٹر برائے پاکستان ناجے بنہاسین نے کہا کہ یہ دونوں پروگرامز اصلاحات پائیدار سرمایہ کاری کو آسان بنانے اور ضرورت مند افراد کے لیے فلاحی فوائد حاصل کرنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔

جاری کردہ بیان کے مطابق صاف توانائی کے لیے 40 کروڑ ڈالر کے منصوبے میں بجلی کے شعبے کی مالی استحکام کو بہتر بنانے اور ملک میں کم کاربن کے اخراج پر مبنی توانائی میں منتقلی کی حمایت کے اقدامات پر توجہ دی گئی ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ ‘پیس سے بجلی کی پیداوار کے اخراجات کو کم کرنے، صارفین کے لیے سبسڈی، ٹیرف اور نجی شعبے کی شراکت سے بجلی کی تقسیم کے نظام کو بہتر بنانے پر توجہ دینے کے لیے اصلاحات لانے کے لیے ضروری اقدامات کو ترجیح دی گئی ہے’۔

اس کے علاوہ اضافی درمیانی مدت کی اصلاحات جاری ہیں جو سبسڈی، مسابقت اور بجلی کے شعبے کی استحکام پر مرکوز ہیں۔

پریس ریلیز میں کہا گیا کہ ‘اس کا مقصد طویل المدتی اصلاحات کے دوران گردشی قرضوں کو کم کرنا ہے’۔

اس پروگرام کے لیے ورلڈ بینک کی ٹاسک ٹیم کے رہنما ریکارڈ لیڈن نے کہا کہ ملک کے مالی چیلنجز کو حل کرنے کے لیے بجلی کے شعبے میں اصلاحات بہت اہم ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ توانائی کو کاربن سے کم کرنے سے ایندھن کی درآمدات پر انحصار کم ہوجائے گا اور روپے کی قدر میں اتار چڑھاؤ کا خطرہ کم ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ پیس، اصلاحات پر اقدامات کو ترجیح دیتا ہے جو گردشی قرضوں سے نمٹنے اور بجلی کے شعبے کو پائیدار راہ پر گامزن کرنے کے لیے برقرار رہنا چاہیے۔

اس کے علاوہ 40 کروڑ ڈالر انسانی وسائل کے لیے بنیادی خدمات کی فراہمی کو مستحکم کرنے کے لیے ایک وفاقی اسٹرکچر کی حمایت کے لیے منظور کیے گئے۔

بیان میں کہا گیا کہ ‘اس پروگرام سے صحت اور تعلیم کی خدمات کو بہتر بنانے، غریبوں کے لیے آمدنی کے مواقع میں اضافہ اور معاشی ترقی کو فروغ دینے میں مدد ملے گی’۔

عالمی بینک کے مطابق ‘ان اصلاحات سے بچوں کو حفاظتی ٹیکوں اور پائیدار صحت سے متعلق صحت کے نگہداشت پروگراموں کی مستقل مالی اعانت، طلبہ کی حاضری کو فروغ ملے گا اور اعداد و شمار پر مبنی فیصلے کرنے میں مدد ملے گی’۔

پریس ریلیز میں کہا گیا کہ ‘یہ پروگرام کام کرنے کے حالات کو بہتر بنانے اور غیر رسمی شعبے سے وابستہ افراد کو بااختیار بناتے ہوئے معیشت میں خواتین کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کے لیے اصلاحات کی حمایت کرتا ہے، یہ نیشنل سیفٹی نیٹس کے پروگراموں میں اضافے کی حمایت کرتا ہے’۔

سابق حکمرانوں نے کام کم کیا لیکن ڈھنڈورا زیادہ پیٹا: وزیراعلیٰ عثمان بزدار

لاہور: وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے کہا ہے کہ سابق حکمرانوں نے کام کم کیا لیکن ڈھنڈورا زیادہ پیٹا، ماضی کی حکومت نے اداروں کو سیاسی مداخلت کے ذریعے تباہ کیا۔

وزیراعلیٰ پنجاب سے سابق وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم نے ملاقات کی جس میں باہمی دلچسپی کے امور اور سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ارباب غلام رحیم نے عوام دوست بجٹ پر عثمان بزدار کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت نے دیگر صوبوں کو پیچھے چھوڑ دیا، کاش سندھ حکومت بھی عوامی فلاح کیلئے پنجاب کو رول ماڈل بنائے۔

عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ مختصر مدت میں جو کام کیے سابق حکومتیں 70 سال میں نہ کرسکیں، ہم بولتے کم اور کام زیادہ کرتے ہیں، ترقی کے سفر میں دیگر صوبوں کو بھی ساتھ لے کر چلیں گے۔

دہشتگردی پر قابو پانے کے بعد سیاحت میں اضافہ ہوا ہے،وزیراعظم

وزیراعظم کا کہنا ہے کہ دہشتگردی پرقابو پانےکے بعد سیاحت میں اضافہ ہوا ہے۔

تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے ناران میں صحافیوں سےگفتگو کرتے ہوئے  کہا ہے کہ سوئٹزرلینڈ کوسیاحت سے 80 ارب ڈالرملتا ہے، خیبرپختونخوا میں سیاحت کی وجہ سےغربت میں کمی آئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ سیاحت کافروغ امن کےبغیرممکن نہیں ہے، بیرون ممالک کےسیاح خود کو محفوظ سمجھیں گے تو پاکستان آئیں گے، صوبائی حکومتوں کو سیاحت سےمتعلق قوانین کی تیاری کی ہدایت کی ہے۔

وزیراعظم نے کہا ہے کہ ملک میں مذہبی اورتاریخی سیاحت کی گنجائش موجود ہے، نتھیا گلی جیسے 15 نئے سیاحتی مکانات بنائے جا سکتے ہیں، سیاحوں کو متوجہ کرنے کے لیے کئی کھیل متعارف کرائے جا رہے ہیں۔

عمران خان نے مزید کہا ہے کہ پاکستان میں سردیوں میں سیاحت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، موبائل فون کی وجہ سےسیاحت میں اضافہ ہورہا ہے، سوشل میڈیا پرتصاویرڈالنےسے لوگ متوجہ ہوتے ہیں۔

اٹلی کی ایمبیسی کے لاکر سے ایسی قیمتی چیز چوری ہو گئی کہ کھلبلی مچ گئی ، وزار ت خارجہ نے اہم قدم اٹھا لیا

لاہور  ; اٹلی ایمبیسی کے لاکر سے ایک ہزار ” شنجین ویزہ “ سٹیکرز چوری کر لیے گئے ہیں ۔

تفصیلات کے مطابق اٹلی کی ایمبیسی نے ویزہ سٹیکرز چوری ہونے کا معاملہ وزارت خارجہ اور ایف آئی اے کے سامنے اٹھا دیا ہے جس کے بعد وزارت خارجہ نے وزارت داخلہ اور ایف آئی اے کو مراسلہ جاری کرتے ہوئے فوری طور پر کارروائی کا حکم جاری کر دیاہے ۔ مراسلے میں چوری شدہ ویزہ سٹیکرز پر سفر کرنے والوں کو حراست میں لینے کی ہدایت دی گئی ہے ۔

یاد رہے کہ ’شنجین ویزوہ ‘ایسا ویزہے جس کے ذریعے کوئی بھی شخص 26 یورپی ممالک میں بلا روک ٹوک جا سکتا ہے اور 90 روز میں کسی بھی ملک سے واپس آ سکتا ہے ۔