کسی کو یہ اجازت نہیں کہ وہ سپریم کورٹ کے ججز یا پھر آرمی چیف کو دھمکی دے

لاہور (ویب ڈیسک) عمران خان صاحب کی تعریف کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے بہت دلیری کا مظاہرہ کیا۔ان کے لہجے میں کوئی لغزش نہیں تھی۔اور انہوں نے کھل کر بات کی کہ کسی کو یہ اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ سپریم کورٹ کے ججز یا پھر آرمی چیف کو دھمکی دے۔اور فوج کو بغاوت پراکسائے۔
کیونکہ اس طرح سے نہ تو پھر حکومتیں رہتی ہیں نہ ریاستیں رہتی ہیں۔عامر متین کا مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے پاس کوئی فوج نہیں ہوتی اس کا سارا اختیار حکومت اور ریاستی اداروں پر ہوتا ہے۔اور ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ عدالت کو سپورٹ کریں گے۔ماضی میں بھی کچھ اس طرح کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔پاکستان میں مختلف مسلک کے لوگ رہتے ہیں اور آئین ان تمام مسلک کی نمائندگی کرتا ہے۔جب آئین کی بات کریں تواس پر تمام مسلک کے لوگ متفق ہوتے ہیں۔تو میں کہوں کہ عمران خان نے دلیری کا مظاہرہ کیا۔کیونکہ ماضی میں سیاسی لیڈرشپ کمزور رہی جس وجہ سے میڈیا اور ادارے بھی کمزور پڑ جاتے تھے اور چند لوگ اکھٹے ہو کر پورے ملک کو بند کرنا چاہتے ہیں۔خیال رہے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے قوم سے خطاب کیا گیا ہے۔ اپنے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے آسیہ بی بی کیس فیصلے کے بعد اعلی عدلیہ اور عسکری قیادت کیخلاف استعمال کی جانے والی زبان کی شدید مذمت کی ہے۔وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ایسے ملک یا حکومت نہیں چل سکتی۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان مدینہ کی ریاست کے بعد دوسرا ملک ہے جو اسلام کے نام پر بنا، پاکستان کا آئین اور قانون قرآن کے تابع ہے، ججز نے اس قانون اور آئین کے تحت ہی فیصلہ دیا۔ ججز اور آرمی چیف کو قتل کرنے کی دھمکیاں دینا اسلام نہیں ہے۔ وزیراعظم نے عوام سے اپیل کی ہے کہ ایسے عناصر کی باتوں میں نہ آیا جائے۔یہ اسلام کی خدمت کرنے کی بجائے اپنے ووٹ بنانے کی کوشش میں ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا مزید کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پرجوزبان استعمال ہوئی اس پر آپ سے بات کرنے پرمجبورہوں۔ جوججزنے فیصلہ دیا وہ آئین کے مطابق دیا ہے۔ ہم نے پہلی بار او آئی سی میں معاملہ اٹھایا اور یو این میں معاملہ اٹھایا۔ کسی کاایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتاجب تک نبی کریم ﷺسےعشق نہیں کرتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم کی شان میں گستاخی آزادی رائے نہیں۔ ہم نبی کریم ﷺکی شان میں کسی قسم کی گستاخی نہیں دیکھ سکتے۔ تاہم آسیہ بی بی کیس پر ججز نے آئین و قانون کے مطابق فیصلہ دیا ہے۔

آئی جی اسلام آباد جان محمد نے دوبارہ عہدے کا چارج سنبھال لیا

اسلام آباد (ویب ڈیسک ) آئی جی اسلام آباد جان محمد نے دوبارہ عہدے کا چارج سنبھال لیا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے اٹارنی جنرل خالد جاوید کی جانب سے نئے آئی جی کی تعیناتی سے متعلق درخواست کی سماعت کی۔اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ امن و امان کی صورتحال کے باعث اسلام آباد میں کسی دوسرے آئی جی کی اجازت دی جائے۔جس پر چیف جسٹس ریمارکس دئیے کہ ریاست امن و امان کے لیے اپنی ذمہ داری پوری کرے۔جیسا گذشہ رات وزیراعظم نے بھی کہا کہ لیکن اگر کسی کے خلاف کیس بنتا ہی نہیں تون سزا کیسے دیں۔ پاکاور اب آئی جی اسلام آباد جان محمد نے دوبارہ عہدے کا چارج سنبھال لیا ہے۔ آئی جی اسلام آباد جان محمدگذشتہ رات ملائشیا سے واطن واپس پہنچے۔جان محمد کورس کے سلسلے میں ملائشیا گئے تھے۔وزرات داخلہ نے جان محمد کو فوری طور پر واپسی کی ہدایت کی تھی۔ذرائع کے مطابق آئی جی اسلام آباد جان محمد دو نومبرتک ملائشیا میں کورس پرتھے۔ لیکن وزارت داخلہ کی جانب سے انہیں ہدایت کی گئی تھی کہ وہ کورس چھوڑ کر واپس آجائیں۔ اور فوری طور پر وطن واپس آکر اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں۔جس کے بعد وہ گذشتہ رات پاکستان پہنچے اور دوبارہ سے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔واضح رہے آئی جی اسلام آباد جان محمد کے اچانک تبادلے پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے نوٹس لیا اور آئی جی اسلام آباد جان محمد کے تبادلے کا نوٹی فکیشن معطل کیا تھا۔دور روز قبل سپریم کورٹ میں آئی جی اسلام آباد کے اچانک تبادلے پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کے از خود نوٹس کی سماعت ہوئی تھی۔ جس پر سپریم کورٹ نے وزیراعظم عمران خان کے زبانی احکامات پر آئی جی اسلام آباد جان محمد کے تبادلے کا جاری ہونے والا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئےآئی جی اسلام آباد کو کام جاری رکھنے کی ہدایت کی۔سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے آئی جی اسلام آباد کے تبادلے سے متعلق تما م ریکارڈ سپریم کورٹ میں پیش کردیا۔ عدالت میں چیف جسٹس سپریم کورٹ سمیت تینوں ججز نے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویڑن اور حکومت پر برہمی کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا یہ نیا پاکستان ہے؟ وزیراعظم کو بتا دیں کہ آئی جی کے تبادلے کا حکم معطل کرنے جارہے ہیں۔پاکستان کے معاملات کو اس طرح نہیں چلایا جاسکتا۔آپ کو معلوم نہیں تھا کہ آئی جی کا سواتی سے جھگڑا چل رہا ہے۔سچ کو سامنے لائیں گے۔ ایک اور بزدار کیس نہیں بننے دیں گے۔اٹارنی جنرل صاحب ہم نے عثمان بزدار کویہاں بلایا تھا۔آپ نے سچ بولا یا جھوٹ اس پر کمیٹی بنائیں گے۔ پاکستان کو اپنی مرضی سے نہیں قانون کی حکمرانی سے چلایا جائے گا۔عدالت نے استفسارکیا کہ کیا وزیراعظم کے احکامات پر کوئی سمری ہوئی تھی؟ جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آئی جی اسلام آباد کو وزیراعظم کے زبانی حکم پر ہٹایا گیا تھا۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اعظم سواتی کی درخواست پر آئی جی کو ہٹایا گیا۔عدالت میں پیش کی گئی سمری میں لکھا ہے کہ وزیراعظم کے زبانی احکامات پر تبادلہ کیا گیا ہے۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے بتایا کہ دو تین ہفتوں سے نیا آئی جی ڈھونڈ رہے تھے۔آئی جی کے تبادلے کا معاملہ کافی زور سے چل رہا تھا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آئی جی کا بعض معاملات پر ردعمل کافی سست ہوتا ہے۔عدالت نے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ سے کہا کہ وزیراعظم نے ٹیلیفون پر کہا کہ تبادلہ کردیں ؟ تو آپ نے کردیا؟جس پر سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اور داخلہ نے آئی جی کے تبادلے کی سمری پیش کردی۔ جس پر سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو بدھ تک تفصیلی جواب جمع کروانے کا حکم دے دیا ہے۔عدالت جائزہ لے گی کہ آئی جی کا تبادلہ بدنیتی پر مبنی تو نہیں تھا؟ دوسری جانب اعظم سواتی نے خود چیف جسٹس کے سامنے پیش ہونے کا فیصلہ کیا، اور کہا کہ مجھے ا±مید ہے کہ میں چیف جسٹس کو اپنا موقف سمجھا سکوں گا۔

آسیہ کیس کا فیصلہ کرنےوالے ججز کوئی کم عاشق رسول ﷺنہیں

اسلام آباد (ویب ڈیسک) سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی زیر صدارت نئےآئی جی اسلام آباد کی تقرری سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ دوران سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے آسیہ بی بی کے مقدمے پر آنے والے رد عمل سے متعلق ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آسیہ بی بی کے کیس کا فیصلہ کرنے والے ججز میں سے کوئی بھی عاشق رسولﷺ سے کم نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ نبی پاک ﷺکی حرمت کے لیے ہم سب شہید ہونے کے لیے تیار ہیں۔ ہم نے انصاف کرنا ہے ، ہم صرف مسلمانوں کےقاضی ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کے قاضی ہیں۔ ہمارےبینچ میں ایسے ججز ہیں، جو ہر وقت درود پڑھتے رہتے ہیں، ہم نے فیصلے کے آغاز ہی کلمہ سے کیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فیصلہ پڑھیں، فیصلے میں لکھا ہے کہ ہمارا ایمان نبی کریم ﷺپر ایمان لائے بغیر ممکن نہیں ہے۔ہم نے اللہ کو نہیں دیکھا لیکن حضرت محمدﷺکے ذریعے ہم نے اللہ کو پہچانا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر کسی پر ج±رم ثابت نہ ہو تو کیا ہم اس کو سزا دے دیں؟ کیا اب ہمیں ہر شخص کو اپنے ایمان کا ثبوت دینا پڑے گا؟ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے بھی کہا ہے کہ امن وامان ریاست کی ذمہ داری ہے، اور ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرے۔ یاد رہے کہ گذشتہ روز چیف جسٹس کی سربراہی میں تین ر±کنی بینچ نے آسیہ بی بی کیس کا فیصلہ سنایا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس مظہر عالم خان بھی بنچ کا حصہ تھے۔ سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے آسیہ بی بی کو الزامات سے بری کیا اور رہا کرنے کا حکم جاری کر دیا۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے تحریری فیصلے کا آغاز کلمہ شہادت سے کیا۔ فیصلہ 56 صفحات پر مشتمل ہے جسے چیف جسٹس نے تحریر کیا۔ فیصلے میں علامہ اقبال کا نعتیہ کلام ”کی محمدﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں” بھی درج ہے۔فیصلے میں قرآنی آیات اور احادیث کا حوالہ بھی دیا گیا۔خیال رہے کہ توہین رسالت کے مقدمے میں آسیہ بی بی کو سزائے موت سنائی گئی تھی جس پر آسیہ بی بی نے سزائے موت کے خلاف عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کی تھی۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے 8 اکتوبر 2017ئ کو توہین رسالت کے مقدمے میں سزا پانے والی آسیہ بی بی کی سزا کے خلاف اپیل پر سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

نواز شریف کا 5 سال ساتھ دیا ،اب عمران کی باری : آصف زرداری

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک، آئی این پی) سابق صدر مملکت اور پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ نوازشریف کی حکومت کو سپورٹ کیا موجودہ حکومت کا ساتھ دینے کیلئے بھی تیار ہیں۔ قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے آصف زرداری نے کہا کہ حکومت کو دو تین بلین ڈالر ملے ہیں لیکن نہ وسیع مدت تک ضرورت پوری نہیں کرسکتے۔ ہم حکومت کی 5سال سپورٹ کرتے ہیں ہمارے ساتھ بیٹھیں۔ آصف زرداری نے کہا کہ جمہوریت میں کمزوریاں ضرور ہیں لیکن یہ بہترین علاج ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ملکی ترقی کیلئے ہم ایک ساتھ مل کر بیٹھیں اور ایک دوسرے کو اونچا نیچا دکھانا چھوڑیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہیلی کاپٹر کا تیل بچانے کی باتیں اپنی جگہ مگر کہتے ہیں بھینس اپنی نکیل کھالے تو اس کا پیٹ نہیں بھرتا۔ آصف زرداری کا کہنا تھا کہ میں نے سی پیک کا نظریہ سوچا اگر اس منصوبے سے گوادر کو نکال دیں تو آگے کیا بچتا ہے۔ سابق صدر نے کہا کہ ان دنوں ڈیمز کی بھی بات ہورہی ہے ٹیم ضرور بنائیں لیکن پہلے اس کی کنزرویشن کے لیے بھی اقدامات کریں۔ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے حکومت کو مل کر ملک کو درپیش مسائل سے نکالنے کی پیشکش کردی۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں کمزوریاں ضرور ہیں مگر پھر بھی جمہوریت ہی سب سے بہتر علاج ہے، ہونے کو ہر چیز ہو سکتی ہے مگرٹیکنوکریٹ کی طرح پڑھے لکھےجاہل نہ ہوں،بیرونی لوگوں کو ملک میں لانے سے مسائل حل نہیں ہو سکتےکیونکہ وہ ہمارے مسائل کو سمجھتے نہیں،ملک میں امن و امان کی صورتحال ملکی معیشت بہتر ہونے سے ہی ٹھیک ہو گی،حکومت اپوزیشن کے موڈ سے باہر آئے،ملک میں مسائل بہت گھمبیر ہیں، تمام ایشوز پر حکومت کے ساتھ چلنے کو تیار ہیں، اگر حکومت کامیاب ہوتی ہے تو ہمارا آنے والا مستقبل کامیاب ہو گا۔وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے پیشکش کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ جس جذبے سے زرداری صاحب نے بات کی یہی جذبہ پاکستان کو آگے لیکر جاسکتا ہے،حکومت کی جانب جو بھی تعاون کا ہاتھ بڑھایا جائے گا حکومت اس کا خیر مقدم کریگی اور ایک ہاتھ کو دونوں ہاتھوں سے مضبوطی سے تھامے گی، اسکے ساتھ ہمیں ملک کو لوٹنے والو ں کو بھی بے نقاب کرنا چاہےے ،اسکے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا،جب تک ہم اپنا ماضی درست نہیں کریں گے آگے کیسے بڑھیں گے،کیونکہ ابھی بھی کچھ ایسے لوگ ہیں جو ملکر نہیں چلنا چاہتے۔وہ بدھ کو قومی اسمبلی میں نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کررہے تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا کہ میں آج بیس سے پچیس سال بعد اس ایوان میں بات کر رہا ہوں،حکومتی وزیر نے کہا کہ پاکستان بنائیں، میں ان کی بات مانتا ہوں کہ پاکستان بنائیں، پاکستان ہم بنائیںیا میاں صاحب بنائیں یا حکومت بنائے یا ہم سب مل کر بنائیں۔ آصف زرداری نے کہا کہ پاکستان کو بنے ہوئے 70سال ہو گئے ہیں جب میں صدر بنا تو میرے ذہن میں بھی یہی خیال آیاکہ اپنے دوست ممالک، آئی ایم ایف،ورلڈ بینک سے قرضہ لیں اور ملک چلائیں، یہی سوچتے سوچتے اس کا حل نکالنے کےلئے میں نے سی پیک کا نظریہ سوچا، اگرگوادرپورٹ کونکال دیں تو آگے سی پیک کیا بنتا ہے، پاکستان کی ترقی کا سب سے چھوٹا راستہ سی پیک ہے،میں ماضی کی باتوں پر نہیں جانا چاہتا کہ ہم نے سی پیک کا ٹھیک استعمال کیا یا غلط استعمال کیا، ہر کسی کی اپنی سوچ ہے، ہر سیاسی جماعت کا اپنا ایک منشور ہوتا ہے۔ آصف زرداری نے کہا کہ ہم نے میاں صاحب کی حکومت کو مانا اور موجودہ حکومت کو بھی ہم نے تسلیم کیا ہے،امریکہ اور برطانیہ میں بھی صاف شفاف الیکشن نہیں ہوتے اور کہا جاتا ہے کہ الیکشن میںدھاندلی ہوئی ہے،جمہوریت میں کمزوریاں ضرور ہیں مگر پھر بھی جمہوریت ہی سب سے بہتر علاج ہے، ہم ایک دوسرے کو نیچا دکھا نے کی کوشش کرتے ہیں، اب وقت آ گیا ہے کہ ہم سب مل کر بیٹھیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانا چھوڑ دیں، حکومت کو دو تین ارب ڈالر جو ملے ہیں اس سے وقتی طور پر ضرورت ضرور پوری ہو گی مگر یہ مکمل علاج نہیں ہے،حکومت ہمارے ساتھ بیٹھے ہم مل کر 15یا 25سالہ پروگرام بنائیں تاکہ ملک کو موجودہ صورتحال سے نکال سکیں، ہمیں پاکستان کو مضبوط بنانا ہے لیکن شارٹ ٹرم ٹرانزیشن سے نہیں۔آصف علی زرداری نے کہا کہ نیدر لینڈ ایک چھوٹا سا ملک ہے مگر دنیا میں وہ دوسرا بڑا خوراک کا ایکسپورٹر ہے،چین ہر سال چار ٹریلین ڈالر کی خوراک درآمد کرتا ہے،پاکستان مختصر ترین روٹ ہے چین کا ، میرے چین کے 14دورے اسی سوچ پر مبنی تھے۔ آصف زرداری نے کہا کہ ملک میں ڈیمز کی بات ہو رہی ہے،گزشتہ روز اس ایوان میں کراچی میں پانی کی قلت پر بڑی بات ہوئی،پانی کا مسئلہ حقیقت میں انسانی حقوق کا مسئلہ ہے،کراچی کی وادی مردم شماری میں 25ملین بتائی گئی مگر حقیقت میں کراچی کی آبادی 30ملین ہے،جس میں ایک ملین بنگالی بھی ہیں،کراچی میں چاروں صوبوں سے لوگ آباد ہیں مگر وہاں ان کے ووٹ رجسٹرڈ نہیں ہیں،مگر رہتے وہ کراچی میں ہی ہیں، ہمیں ان کے کسی قسم کا مسئلہ نہیں ہے،ہم نے انہیں سر آنکھوں پر بیٹھایا ہے،پاکستان کی مشینری اور معیشت کراچی سے چلتی ہے،اس بات کو بھی ذہن میں رکھا جائے، اس مسئلے کے حل کےلئے اپوزیشن اور حکومت مل کر بیٹھے اور کراچی میں پانی کے مسئلے کا حل نکالے،کراچی میں سیوریج کے پانی کو کارآمد بنانا چاہتے ہیں، سندھ کے وسائل اتنے نہیں کہ وہ اتنے بڑے پروجیکٹ پر سرمایہ کاری کر سکے، مگر یہ پروجیکٹ مکمل کیا جا سکتا ہے۔ آصف زرداری نے کہا کہ بارہ سال میں نے جیل کاٹی مگر میرے اوپر کچھ ثابت نہیں ہو سکا،ہمیں اب ان سب باتوں سے باہر آنا چاہیے۔ آصف زرداری نے شہباز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب ہم دونوں 64سال کے ہو چکے ہیںمزید ہم کتنا عرصہ اور جی لیں گے،کب ہم اپنے بچوں کےلئے ملک بنائیں گے اگر آج ہم نے ملک نہیں بنایا تو جتنا وقت گزرتا جائے گا اتنا ملک کو بہتر بنانے کےلئے مشکلات کااضافہ ہوتا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں تنقید برائے تنقید پر چلوں تو جب ہم حکومت میں آئے تو گندم چاول اور چینی درآمد کرتے تھے ہم نے ایک سال میں گندم کی ملکی ضروریات پوری کر دیں اور ہم نے تینوں چیزیں درآمد کرنے کی بجائے برآمد کیں، ہونے تو ہر چیز ہو سکتی ہے مگر لکھے پڑھے جاہل نہ ہوں جن کو ہم ٹیکنوکریٹ کہتے ہیں، جنرل مشرف سٹی بینک کے صدر کو پاکستان لے آئے تھے، ان جاہلوں کو پاکستان میں کیا ہوتا ہے کچھ نہیں پتا،جو اس دھرتی پر نہیں رہا اس کو اس کے مسائل کا نہیں پتا،پاکستان میں رہنے والے کو ملکی مسائل کا پتہ ہے، مجھے پتا ہے کہ بلوچستان کے کیا مسائل ہیں،کہاں کہاں ڈیم بن سکتے ہیں اور کہاں کہاں ڈیم بنانے ہیں۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ ڈیم بنانے چاہئیں یہ اچھی سوچ ہے حکومت ڈیم بنائے لیکن پہلے اس کی کنزرویشن کے لیے بھی اقدامات کریں۔ہم نے سندھ میں دراوڑ ڈیم بنایا، ایک ایکڑ پر تقریبا ایک لاکھ 24ہزار گیلن پانی ہر فصل کو دیتے ہیں، اگر اتنا پانی فصل کو دیا جاتا ہے تو کتنا پانی بچایا جاسکتا ہے۔ ہمیں زراعت میں استعمال ہونے والے پانی کی بچت کے بارے میں سوچنا ہو گا۔ آصف زرداری نے کہا کہ جو پاکستان پر قرضہ ہے میں اسے قرضہ نہیں سمجھتا کیونکہ ہم اپنی معیشت کو اس مقام پر نہیں لا سکے جہاں اسے ہونا چاہیے تھا،جس دن ہم اپنی معیشت کے زیادہ سے زیادہ آﺅٹ پٹ پر آ گئے اس وقت پاکستان میں امن و امان کے حالات بہتر ہو جائیں گے،بلوچستان، خیبرپختونخوا اور ملک کے دیگر حصوں میں جہاں امن و امان کی صورتحال بہتر نہیں ہے جب ملک معاشی طور پر بہتر ہو گا تو یہ حالات خود سے ٹھیک ہو جائیں گے، ایک زمانہ تھا کہ نیویارک میں لوگ گھر سے باہر نہیں نکل سکتے تھے مگر وہاں معاشی صورتحال بہتر ہوئی تو آج نیویارک پرامن ہے۔ آصف زرداری نے پیشکش کی کہ آئیں ہم سب مل کر کام کریں،حکومت کی پانچ سالہ مدت میں ہم ان کی مکمل حمایت کریں گے،حکومت اپوزیشن کے ساتھ بیٹھے اگر ہم ٹھیک مشورہ دیں تو ٹھیک حکومت اپوزیشن کے موڈ سے باہر آئے اور حکومتی موڈ میں آئے،ڈیزل یا کیروسین بچانے سے ملک نہیں چلتے ہمارے ہاں کہتے ہیں کہ (مجھ اپنی نتھ کھالئے تے اودھا پیٹ نہیں بھردا) ہمارے ملک میں مسائل بہت گھمبیر ہیں،ہمیں دنیا کی بڑی جمہوری ملک سے خطرہ ہے،افغانستان بھی ایک مسئلہ ہے،افغانستان کے ساتھ کام کرنا بھی ایک مسئلہ ہے، ان تمام ایشوز پر حکومت کے ساتھ چلنے کو تیار ہیں، حکومت کے ساتھ چلنے سے ہماری کوئی عزت یا بے عزتی کم نہیں ہو جاتی، اگر حکومت کامیاب ہوتی ہے تو ہمارا آنے والا مستقبل کامیاب ہو گا،ہم میاں صاحب کے ساتھ بھی کام کرنے کےلئے تیار تھے اور موجودہ حکومت کے ساتھ بھی کام کرنے کےلئے تیار ہیں، بشرطیکہ حکومت اپنی بات پر قائم رہے اور جوکام کا پیمانہ ہووہ صرف انصاف پرمبنی ہو۔وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے آصف علی زرادری کی پیشکش کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ جس سپرٹ سے زرداری صاحب نے بات کی یہی سپرٹ پاکستان کو آگے لیکر جاسکتا ہے،وہ مما لک اور تہذیبیں بدقسمت ہوتی ہیں ،جن کی سیاسی قیادت سہی فیصلہ کرنے کی اجازات نہ دے،اگر ہم سب ملکر ملک کی خاطر اچھے فیصلے کریں تو اس سے اچھی کوئی بات ہو نہیں سکتی۔جو بھی تعاون کا ہاتھ بڑھایا جائے گا حکومت اس کا خیر مقدم کریگی اور ایک ہاتھ کو دونوں ہاتھوں سے مضبوطی سے تھامے گی،ہمیں ملک میں معاشی چارٹر،تعلیمی چارٹر بنانے کی ضرورت ہے،ملک اس وقت شدید خطرات سے دوچار ہے۔شفقت محمود نے کہا کہ ہم ایک مشترکہ قرار داد لائیں ان لوگوں کیخلاف جن لوگوں نے اس ملک کو لوٹا ہے اور جن کی وجہ سے آج ملک ان حالات میں ہے،اسکے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا،جب تک ہم اپنا ماضی درست نہیں کریں گے آگے کیسے بڑھیں گے،کیونکہ ابھی بھی کچھ ایسے لوگ ہیں جو ملکر نہیں چلنا چاہتے۔

ایران کہتا ہے پاکستان سے لوگ آکر کارروائی کرتے ہیں: رستم شاہ مہمند ، حکومتی اداروں کے کام نہ کرنے سے عدالتوں کو مداخلت کرنا پڑتی ہے: وسیم سجاد ، مسائل حل کرنے کیلئے سب کو مل کر بیٹھنا پڑے گا: نوید قمر کی چینل ۵ کے پروگرام ” نیوز ایٹ 7“ میں گفتگو

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سابق سینیٹر و ماہر قانون وسیم سجاد نے کہا ہے کہ عدالتیں اس وقت مداخلت کرتی ہیں جب وہ سمجھتی ہیں کہ حکومتی ادارے کام نہیں کر رہے۔ڈیم بنانا،ہسپتالوں کے دورے،پانی کے مسائل حکومت کے حل کرنے کے ہیں لیکن جب حکومتیں یہ نہ کریں تو عدالتیں مجبورا کرتی ہیں لیکن بہرحال حکومت اپنا کام کرے گی گورننس بہتر ہوجائے گی تو اس کے بعد عدالتیں مداخلت کرنا چھوڑ دیں گی۔چینل فائیو کے پروگرام نیوز ایٹ7میں گفتگوکرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عدلیہ کا فیصلہ پبلک پراپرٹی ہوتا ہے ۔جب تمام ادارے اپنا کام کرنا شروع کردیں گی تو عدالتیں پیچھے ہٹ جائیںگی۔سابق سفیر رستم شاہ مہمند نے کہا ہے کہ ایران کہہ رہا ہے ان کے علاقے میں پاکستان سے لوگ آ کر کارروائیاں کرتے ہیں ۔پاکستان سعودی کے قریب ہو رہا ہے اس کے بعد سے ایران اور پاکستان کے درمیان دوریاں پیدا ہو رہی ہیں۔ایران سمجھتا ہے پاکستان کا بارڈر کنٹرول بہت کمزور ہے۔ایران اور افغانستان کا کیس ایک سا نہیں افغانستان اپنی غلطیوں کی ذمہ داری بھی پاکستان پر ڈال دیتا ہے۔پیپلز پا رٹی کے رہنما نوید قمر نے کہا کہ پاکستان کی معیشت پر ایک بحث شروع ہے پاکستان کو مسائل سے نکلنے میں وقت لگے گا لیکن جب تک سب مل کر نہیں بیٹھیں گے حل نہیں نکلے گا۔زرداری نے اسی پیرائے میں بات کی ہے۔حکومت غلط کام کرے گی تو اسے ٹف ٹائم ملے گا۔سب چاہتے ہیں عوام کو ریلیف ملے۔حکومت کو اپوزیشن کے ساتھ چلنا چاہئے۔

اوباشوں کی سٹیج ڈانسر اور گلوکارہ سمیت 3 خواتین سے زیادتی ” خبریں ہیلپ لائن “میں انکشاف

فیصل آباد (سپیشل رپورٹر) اوباش افراد نے اسلحہ کے زور پر سٹیج ڈانسر، سنگر سمیت تین خواتین اور گونگے بہرے نوجوان کو زیادتی کا نشانہ بنادیا، تفصیل کے مطابق تھانہ مدینہ ٹاﺅن کے علاقہ میں بوبی وغیرہ تین افراد پروگرام میں گانا گوانے کے بہانے مقامی گلوکارہ سندس مبارک کو اپنے ساتھ لے گئے راستے میں اسے نشہ آور جوس پلا کر بے ہوش کردیا اور سعید کالونی نمبر ایک میں لے جا کر رات بھر زیادتی کا نشانہ بناتے رہے، ڈھڈی والا کی رہائشی سٹیج اداکارہ رخسانہ بی بی کو رئیس اسلحہ کے زور پر نامعلوم مقام پر لے گیا اور ڈرا دھمکا کر اسے زیادتی کا نشانہ بنا دیا، تھانہ سٹی جڑانوالہ کے علاقہ غوثیہ پارک میں حیدر عرف حیدری نے گھر میں گھس کر اسلحہ کے زور پر شگفتہ بی بی کو زیادتی کا نشانہ بنا دیا اور فرار ہو گیا، تھانہ بٹالہ کالونی کے علاقہ مقبول روڈ پر ندیم عرف دیما نے 14 سالہ گونگے بہرے بلال کو زبردستی اپنی ہوس کا نشانہ بنا دیا۔ پولیس نے مقدمات درج کر کے کارروائی شروع کر دی ہے۔

ساف انڈر15فٹبال،پاک نیپال سیمی فائنل آج

کھٹمنڈو (اے پی پی) ساف انڈر 15 فٹ بال چیمپئن شپ کی سیمی فائنل لائن اپ مکمل ہو گئی، لاسٹ فور مقابلے آج) کھیلے جائینگے۔ پاکستانی ٹیم کو میزبان نیپال کا چیلنج درپیش ہوگا۔ تفصیلات کے مطابق نیپال میں جاری ایونٹ اختتامی مراحل کی طرف گامزن ہے اور چار ٹاپ ٹیموں پاکستان، نیپال، بنگلہ دیش اور بھارت نے شاندار کھیل کی بدولت سیمی فائنل میں جگہ بنا رکھی ہے۔ پاکستانی ٹیم ایونٹ میں اب تک ناقابل شکست ہے اور اس نے روایتی حریف بھارت اور بھوٹان کو شکست فاش سے دوچار کرتے ہوئے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کی تھی۔ ایونٹ کے دونوں سیمی فائنلز آج کھیلے جائیں گے۔ پاکستان کا مقابلہ نیپال اور بنگلہ دیش کا مقابلہ بھارت سے ہوگا۔ واضح رہے کہ دو ٹاپ ٹیموں کے درمیان فائنل 3 نومبر کو کھیلا جائے گا۔

ہاکی ورلڈ کپ کیلئے 28ممکنہ پلیئرز کی فہرست تیار

لاہور(بی این پی )رواں برس بھارت میں شیڈول ہاکی ورلڈ کپ کے لیے مجموعی طور پر 28 کھلاڑیوں کی فہرست تیار کی گئی ہے جس کا اعلان صدر پی ایچ کی منظوری کے بعد کیا جائے گا۔ایشین چیمینز ٹرافی کی تیاری کے لئے مدعو کئے گئے کھلاڑیوں کو دوبارہ تربیتی کیمپ جوائن کرنے کی ہدایات دی جائیں گی جبکہ ایشیائی ایونٹ کے لئے قومی اسکواڈ کا حصہ نہ بننے والے سینئر کھلاڑیوں راشد محمود اور شفقت رسول کو بھی مدعو کیا جائے گا۔ورلڈ کپ کی تیاری کے لئے قومی ہاکی تربیتی کیمپ میں مدعو کئے گئے ممکنہ کھلاڑیوں میں عمران بٹ (پی آئی اے)، مظہر عباس (نیشنل بینک)، امجد علی (سوئی سدرن گیس)، محمد عرفان سینئر(پی آئی اے)، راشد محمود (نیوی)، محمد علیم بلال (واپڈا)، عماد شکیل بٹ(نیشنل بینک)، مبشر علی سوئی سدرن گیس)، تصور عباس(واپڈا)، محمد رضوان جونیئر (سوئی سدرن گیس)، محمد رضوان سینئر (آرمی)، محمد توثیق ارشد(واپڈا)، علی شان(سوئی سدرن گیس)، محمد عمر بھٹہ(واپڈا)، ابوبکر محمود (نیشنل بینک)، شفقت رسول(پی آئی اے) ، محمد اظفر یعقوب (سوئی سدرن گیس)، محمد عتیق(نیشنل بینک)، محمد ارسلان قادر(نیشنل بینک)، اعجاز احمد( واپڈا)، رانا سہیل ریاض(سوئی سدرن گیس)، محمد عرفان جونیئر(واپڈا)، محمد دلبر(نیشنل بینک)، محمد فیصل قادر(نیشنل بینک)، ایم رضوان (سوئی سدرن گیس)، محمد عاطف مشتاق(نیشنل بینک)، رضوان علی(سوئی سدرن گیس)، محمد زبیر(پی آئی اے) ، ساران بن قمر(پنجاب)، منیب الرحمان(سوئی سدرن گیس) اور سید ذیشان بخاری(سوئی سدرن گیس) شامل ہیں۔واضح رہے کہ ورلڈ کپ 28 نومبر سے بھارتی شہر بھونیشور میں کھیلا جائے گا جس میں مجموعی طور پر 16 ٹیمیں شریک ہوں گی۔

ملک معاشی بحران کا شکار ،ایسے حا لات میں سڑکوں پر احتجاج سے بچنا چاہیے: معروف صحافی ضیا شاہد کی چینل۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ب سے پہلی بات یہ ہے کہ کل صبح سپریم کورٹ کا جو فیصلہ سامنے آیا اس کے حوالہ سے خود عمران خان صاحب نے تفصیل سے سارا پس منظر بیان کر دیا ان کا کہنا تھا کہ آئین پاکستان میںموجود ہے کہ قرآن و سنت اور اسلامی احکامات کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا ۔ضیا شاہد نے کہا کہ ملک معاشی بحران کا شکار ہے اور وزیراعظم چین کے دورے پر جا رہے ہیں ان حالات میں ملک کی سڑکوں پر احتجاج نقصان دہ ہو گا۔
ضیا شاہد نے آصف زرداری اور شہباز شریف کی تقریر کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آصف زرداری کے بیان کا خیرمقدم پی ٹی آئی کے ایک اہم رہنما یعنی شفقت محمود جو وفاقی وزیر تعلیم بھی ہیں اور جو وزیراعظم ہاﺅس خالی ہوا ہے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں ہائی سٹینڈرڈ کی اپنی نوعیت کی اور ایک انتہائی اعلیٰ سطح کی یونیورسٹی قائم کی جائے گی وہ یونیورسٹی قائم کرنے کا اور ملک کے اندر نظام تعلیم کو یکساں بنانے کا جو ٹاسک ہے وہ ان کو ملا ہے۔ شفقت محمود صاحب وزیر اطلاعات بھی رہے ہیں اور پیپلزپارٹی کے سیکرٹری اطلاعات بھی رہے۔ ملک معراج خالد صاحب کے ساتھ نگران وزیر بھی رہے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان کی طرف سے ایک خیر مقدمی بیان آیا ہے آصف زرداری صاحب کے اس بیان کے جواب میں اور انہوں نے کہا کہ زرداری صاحب نے یہ صحیح کہا ہے کہ اس وقت ملک کو ضرورت جو ہے اس قسم کی ہے کہ مزید پولرائزیشن سے بچنے کے لئے زرداری صاحب نے کہا تھا کہ 25,20 سال کے لئے5,4 اگلی حکومتوں کے لئے کوئی مل بیٹھ کر ایسا لائحہ عمل بنایا جائے جو ملک کو معاشی مسائل سے بھی نکال دے اور ملک میں جمہوریت کو بیخ و بُن کو ادھڑنے سے بھی محفوظ رکھے اور زیادہ مضبوط ہو جائے اس کے ساتھ ساتھ شہباز شریف صاحب تو حسب معمول خطاب جذباتی انداز میں ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ این آر او کسی نے نہیں کیا نام بتائیں یہ بات نوازشریف پہلے بھی کہہ چکے ہیں اب عمران خان کو چاہئے کہ اگر واقعی کسی نے ان کو کہا ہے کہ این آر او چاہتے ہیں تو پھر وہ ان کا نام بتائیں بصورت دیگر وہ معافی مانگیں۔ سیاست میں ایسی باتیں چلتی رہتی ہیں لوگ ایک دوسرے کو کہتے رہتے ہیں کہ آپ یہ کر دو ورنہ میں کر دوں گا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ بنیادی طور پر آصف زرداری صاحب کی طرف سے اچھا اقدام ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں اس حکومت کو بھی 5 سال دینے کو تیار ہوں کہ آرام سے اپنا کام کرے کیونکہ اس وقت ملک کے حالات ایسے ہیں کہ معاشی کو مضبوط بنانے اور معیشت کے بنیادی خدوخال کو درست کرنے کی طرف چلنا چاہئے اور آپس کی اس تنازعات کو اور آویزش کو ختم کرنا چاہئے۔یہ تو بڑی آئیڈیل صورتحال ہو گی کہ آصف زرداری کے بقول پورا وقت اس حکومت کو دینے کو تیار ہوں اس حکومت کو کہ وہ اپنے 5 سال پورے کرے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ پارلیمنٹ کو موثر انداز سے چلایا جائے جو حکومت برسراقتدار آئی ہے ان کو پورا موقع دیا جائے۔ مجھے اچھی طرح سے یاد رہے کہ نوازشریف کی نااہلی کے باوجود جب شاہد خاقان عباسی آئے تھے تواس ملک کی ساری سیاسی جماعتو ںکا یہ کہنا تھا کہ ابھی تھورا سا وقت چونکہ رہتا ہے کہ جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے نہیں اترنا چاہئے۔ عمران خان کے مطالبے پر نواز حکومت نے 4 حلقے نہیںکھولے تھے مگر عمران خان نے اپوزیشن اور حکومتی ارکان 20,20 پر مشتمل جو ہے خصوصی کمیٹی بنائی گئی ہے کہ اگر کوئی واقعات واقعی ایسے ہوتے ہیں کہ انتخابی عمل میں شفافیت نہیں رہی تو اس پر بیٹھ کر پارلیمانی کمیٹی عمل کر سکے۔
ضیا شاہد نے کہا جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے کہ شاید آئی جی تبادلہ کیس میں فواد چودھری صاحب نے آجا پھر معذرت کر لی ہے اور انہوں نے یہ اچھا کیا اعلیٰ عدالتوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنا چاہئے اور اگر کوئی غلطی ہو جائے تو معافی مانگ لینی چاہئے۔ عدالت میں معافی مانگنے سے آدمی چھوٹا نہیں ہوتا بڑا بنتا ہے۔ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ ہم قانون کے نفاذ کو مانتے ہیں۔ مہذب ملکوں اور معاشروں میں عدالتوں کا احترام کیا جاتا ہے اور عدالتوں کو اپنا کام کرنے کے مواقع بہم پہنچائے جاتے ہیں۔
فواد چوہدری نے یہ بھی کہا کہ ان کا بیان بیوروکریسی کے متعلق تھا تو بھی اچھی بات ہے مگر انہوں نے معافی مانگی یہ اچھا کیا۔
چیف جسٹس کے بیان پر کہ پتا لگائیں گے کہ پردے کے پیچھے کون ہے اور پھر ہم بتائیں گے کہ الیکشن کرانے کی کیا ضرورت ہے ضیا شاہد نے کہا کہ یہ تو انہی کو پتاہوگا کہ پردے کے پیچھے کون ہے ، مجھے تو نہیں پتا۔ میں سمجھ نہیں سکا کہ کس کی مراد ہے۔
آجکل ہمارے سیاستدان بھی کھلم کھلا بات نہیں کرتے بلکہ گول مول کھلم کھلا بات کرتے ہیں۔ چونکہ وہ اشاروں میں بات کرتے ہیں اسلئے عام طور پر اسکی بات پر پھڈا پڑ جاتا ہے اور پھر ایک ایشو جو شروع ہوتا ہے تو 8 سے 10 دن اس پر وقت ضائع ہوتا ہے۔صاف اور سیدھی بات کرنی چاہئے، گول مول کر کے ہر بات کو گھما پھرا کراسمیں اپنی منشا اور مرضی ملا کر آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے توہر بات پر جھگڑا ہوگا۔اسمبلیوں میں بھی عام طور پر میں نے دیکھا ہے کہ 5سے 6دن میں آخر معافی تلافی ہو جانی ہے تو یہ 6 دن ضائع کرنے کا کیا فائدہ ، انہی 6 دنوں میں دیگر اہم ایشوز پر بات کی جاسکتی ہے۔ مثال کے طور پر میرا یہ خیال تھا کہ اسمبلی کا اجلاس شہباز شریف کو اپنا زورخطابت دکھانے کے لیے نہیں بلانا چاہئے تھا اگر بلا بھی لیا گیا تھا تو چین کا دورہ زیر گفتگو آنا چاہئے تھا۔ وزیراعظم کہتے کہ ہم چین جارہے ہیں اور مدد لینے نہیں سرمایہ کاری کرنے جارہے ہیں۔ اب تک ہم چین سے کیوں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری نہیں کر سکے۔ وزیراعظم اپنی کابینہ سمیت چین جا رہے ہیں اور ہمارے اپر ہاﺅسز قومی اسمبلی اور سینٹ میں اس بات پر بحث ہو رہی ہے کہ این آر او ہوا تھا یا نہیں ہوا تھا۔ اندازہ فرمائیں کہ یہ بات زیادہ اہم ہے یایہ اہم ہے کہ ہم نے چین سے کیا لینا ہے اور اب تک چین کیا دے سکا۔ جس طرح سے ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کی بڑے پیمانے پر آمد ہوتاکہ نئے کارخانے کھولیں ، نئے کاروبار بنیں اور روزگار پیدا ہو۔ لوگوں کو ہمیشہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ سرکاری نوکری کر لو۔ یونیورسٹی سے فارغ ہونے والے 100طالب علموں میں سے 2 سے 3 کو سرکاری نوکری مل سکتی ہے باقی98 کے لیے تو پرائیویٹ سروسز ہی ہیں۔ اگر ملک میں صنعتی ترقی ہوگی، 50 لاکھ گھروں کی بات کو لوگ مذاق سمجھ رہے ہیں لیکن میں اسے مذاق نہیں سمجھتا میں نے اس پر بہت پڑھا ہے۔ 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کا مطلب 3لاکھ دروازے، 12 لاکھ کھڑکیاں ، اینٹیں و دیگر چیزوں کی پیداوار ہے۔ ہمیں بے تحاشا اینٹوں ، پتھر ، ماربل چاہئے ہوں گے۔ ان تمام صنعتوںکو پیداوار بڑھاناپڑے گی۔ جگہ جگہ پر دروازے اور چوگاٹھیں بنتی نظر آئیں گی۔ نجی کاروبار اور سروسز سے ہی روزگار ملتا ہے، سرکاری نوکریاں دو سے تین فیصد ہوتی ہیں۔پہلے ہی نوکریاں کم ہیں اور لوگ بے روزگارپھر رہے ہیں۔ روزگار کے مواقع تب ہی پیدا ہوتے ہیں جب نجی انڈسٹری بنے اور عمران خان اسی کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کوشش میں آصف علی زرداری کا آشیرباداور شہباز شریف کی نیک نیتی ہی شامل ہو جائے تو ملک کے ہی گھر بن رہے ہیں عمران خان کا اپنا گھر نہیں بن رہا۔ 25 لاکھ افراد کے سر چھپانے کا بندوبست ہورہا ہے۔ میں نے بھی کچھ دوستوں کو تجویز دی تھی اور جہاں پہنچنی تھی پہنچ گئی کہ لاہور میں ریلوے سٹیشن پر کم از کم ایک ماڈل بنایا جائے ، پرویز الہیٰ کے دور حکومت میں لاہور کے مئیر اور پرویز الہیٰ کیساتھ ریلوے سٹیشن کا جائزہ میں نے خود لیاتھا کہ اسکے سامنے بڑے پلاٹ پر پلان کروایا تھا کہ اوپر گھاس ویسے ہی رہے اور انڈر گراﺅنڈ کھانے کے کمرے کا انتظام کیا جائے اور وہاں 40 سے 50 ہزارلوگوں کے دو وقت کے کھانے کا روزانہ کی بنیاد پر فری بندوبست ہوجائے۔اس سے عوام کو کتنا فائدہ ہوتا کہ وہ مزدور جسکی مزدوری نہیں ہوئی یا مسافر جسکے پاس پیسے نہیں وہ پیٹ بھر کر کھانا کھا سکے۔ اپنے ملک کے لیے بہتر کام کریں جس سے ملک کا فائدہ ہو، لڑائی جھگڑا تودنیا کا سب سے آسان کام ہے۔ دنیا کا مشکل کام کوئی چیز بنا کر اور چلا کر دکھانا ہے۔
رکشہ ڈرائیور کے اکاﺅنٹ میں ساڑھے 8ارب کی ٹرانزیکشن کے حوالے سے ضیا شاہد نے کہا کہ اب تک جتنے لوگ پکڑے جا چکے ہیں اس پر پنجابی کا ایک محاورہ کہوں گا کہ ”برے نوں نہ پھڑو، برے دی ماں نوں پھڑو۔ اصل میں تو انکے پیچھے لوگوں کو پکڑنا چاہئے جو لوگ جعلی اکاﺅنٹس سے پیسے باہر بھجوا رہے تھے ان میں سے ایک شخص کا نام سامنے آیا ہے جو اومنی گروپ کے مینجر تھے اور پاکستان کے باہر سے پکڑے گئے۔انکوانٹرپول نے گرفتار کیا وگرنہ خبریں بے شمار ہیں کہ جعلی اکاﺅنٹ سے اتنے پیسے نکل آئے۔ جو ٹرانسفر کر رہے ہیں وہ کون ہیں اور ان میں سے کتنے گرفتار ہوئے ، کتنوں نے مانا کہ انہوں نے پیسے باہر بھجوائے، انکے پیچھے کون تھا۔ انکے پیچھے عام آدمی نہیں تھا ، ہمارے پاس ،عام عوام کے پاس اربوں روپیہ نہیں ہے۔ یہی بات قومی اسمبلی میں ڈسکس ہونی چاہئے۔این آر او کی باتیں نان ایشوز ہیں ، ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں، کچھ نہیں نکلے گا۔ یہ کیوں نہیں ڈسکس کیا جاتا کہ کون ہیں جنہوں نے ملک کو کنگال کر دیا، یہاں بھوک ناچ رہی ہے، مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے، ڈالر مہنگا ہو گیا، اسکے باوجود وہ کون لوگ ہیں جو ملک کے عام آدمیوں کے چھوٹے چھوٹے اکاﺅنٹس میں پیسے ڈال کر ملک سے باہر بھیجتے جارہے ہیں۔ انکو پکڑا جائے۔ پاکستان میں سرمایہ کاری ، آئی ایم ایف،جعلی اکاﺅنٹس جیسی ڈھنگ کی بات اسمبلی میں کی جائے۔
پہلے بینکوں میں صرف شناختی کارڈز پر اکاﺅنٹس کھل جایا کرتے تھے، جن اکاﺅنٹس میں اچانک زیادہ پیسہ آیا ہے انہیں اٹیسٹ کرنے والوں کو پکڑا جائے۔ نادرا ایسے لوگوں کی فہرستیں کیوں جاری نہیں کرتا۔بینک مینجر ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ زیادہ نہیں ڈیڑھ سے دو ہزار بینک مینجرز کو پکڑ کر جیلوں میں ٹھونسا جائے توایک ہفتے کے اندر اندر سات سال پرانا ریکارڈ پیش کر دیا جائے گا۔اسمبلیوں میں زیر بحث ایشوز سے عوام کا وقت ضائع کیا جا رہا ہے۔
وزیراعظم پوری توجہ کام پر دیں اور اپنے ساتھ چین کے دورہ پر اچھی اور مضبوط ٹیم لیکر جائیں اور ادھار، گرانٹ یا کیش ڈیپازٹ کی بجائے سرمایا کاری کے مواقع مانگیں۔ سرمایہ کاری سے صنعت بنتی ہے اور سینکڑوں لوگوں کے روزگار کے لیے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ آج کے دن ایسے مرحلے میں یہ بات ہونی نہیں چاہئے تھی، پتانہیں کس نے کیا پلاننگ کی ، میں کچھ نہیں جانتا۔ آج اندرونی خلفشار میں الجھنے کی بجائے دورہ چین اہم تھا۔ میں نے ہمیشہ یہ دیکھا ہے کہ ایم او یوز سائن ہوئے کہ یہ کام کریں گے اور کبھی اس کام کی باری ہی نہیں آتی۔ ترکی ، ایران اور پاکستان آر سی ڈی ممالک ہوتے تھے 40 سال گزر گئے تب جو ایم او یوز سائن ہوتے تھے وہ آج تک بنتے نہیں دیکھے۔ صرف اعلانات اور کھڑے ہو کر تصویریں بنوانے کا کوئی فائدہ نہیں کہ ادھر عمران خان اور ادھر چینی وزیر کھڑے ہیں اور دستخط ہو رہے ہیں کہ ایم او یوز سائن ہو گئے۔ کبھی تعلیم کے میدان میں 21 ایم اوا یوز سائن ہو گئے ، پتا نہیں بعد میں انہیں کوئی پڑھتا بھی ہوگایا نہیں۔
ہم جب شروع شروع میں صحافت میں آئے ، میں یونیورسٹی میں جرنلزم پڑھاتا بھی تھا۔ ہم یہ کہتے تھے کہ جن الفاظ کے ساتھ گے ، گا ، گی لگتا ہے وہ خبر نہیں ہوتی۔ جیسے پاکستان میں کوئی بے گھر نہیں رہے گا۔ یہ خبر نہیں کسی شخص کا اعلان ہے۔ غریب لوگ فٹ پاتھ ، درباروں ، پارکوں اور دیگر کھلی جگہوں پر سوتے ہیں انکے کہیں ٹھرنے کا بندوبست کرنا خبر ہے یا یہ کہنا کہ آنے والے دس سال میں لاہور میں کوئی شخص بے گھر نہیں رہے گا۔ یہ تو دعویٰ ہے ، بکواس ہے، عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے کہ ہر طرف روشنی پھیل جائے گی کہیں تاریکی نہیں رہے گی، یہ کوئی خبر نہیں ہے۔میں نے 30 سال سے ایسی باتیں سنی بہت دفعہ ہیںدیکھا کبھی نہیں۔خبر یہ ہے کہ 50 لاکھ گھر بن گئے یا شروع ہی ہوگئے۔عملاً صورتحال ہونی چاہئے، جو اسلئے نہیں ہوتی کہ عوامی پراجیکٹس کو ملک کی تمام اسمبلیوں میں ڈسکس ہی نہیں کیا جاتا۔
لاہور گنگا رام ہسپتال کی نرسری میں آگ لگنے اور بچوں کے لاپتہ ہونے کی خبر پر ضیا شاہد نے کہا کہ گنگا رام ہسپتال کی زچہ بچہ وارڈ کے بارے میں ہر دوسرے روزبری خبر آتی ہے۔ خدا جانے جگہ کم ہے ، ڈاکٹر ، سٹاف یا پیسے کم ہیں۔ ہر چوتھے دن ایسا ہوتا ہے کہ لڑکا پیدا ہوا تو اسکو بدل کر لڑکی دیدی گئی اور ماں شور مچا رہی ہے کہ میں نے لڑکا پیدا کیا تھا، انتظامیہ کہہ رہی ہے کہ یہی لڑکی ہے آپکی گھر لیجانی ہے تو لیجائیں ، وگرنہ نہ لیجاﺅ۔ معصوم بچوں کا آگ میں جھلس کر مرجاناافسوسناک واقعہ ہے۔ کسی اور ملک میں ایسا واقعہ ہو تو ملک کی ہر اسمبلی ، لوکل گورنمنٹ اور تمام ہاﺅسز اگلے دن اس واقعہ پر شور مچا رہے ہوں کہ کسکی غلطی تھی۔ لیکن ہماری اسمبلیوں میں اس واقعہ کا ذکر بھی نہیں ہوگا۔

ٹیم کو مثبت زہن کیساتھ کرکٹ کھیلنا ہو گی:بسمہ

لاہور(نیوزایجنسیاں) قومی ویمن کرکٹ ٹیم کی اہم رکن بسمہ معروف نے ویمنز ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے ساتھی کرکٹرز کو بے خوف ہوکر کھیلنے کا مشورہ دے دیا۔اپنے ایک انٹرویو میں بسمہ معروف نے کہا ہے کہ آپریشن کے بعد فٹنس اور صحت پر بھرپور توجہ دے رہی ہوں، جویریہ ودود باصلاحیت ہیں، ورلڈ ٹی ٹونٹی کے دوران ہمیں مثبت ذہن کے ساتھ کرکٹ کھیلنا ہوگی، آسٹریلیا کے خلاف کوالالمپور میں کھیلی جانے والی سیریز میں سامنے آنے والی غلطیوں پر قابو پانا ہوگا، میرے خیال میں ہمیں بے خوف کرکٹ کھیلنے کی ضرورت ہے، کسی بھی خاص میچ پر بہت زیادہ توجہ دینے سے دبا بڑھ جاتا ہے، ہمیں نیچرل کھیل پیش کرنے پر توجہ دینا چاہئے۔بسمہ معروف نے کہا کہ آسٹریلیا کے خلاف سیریزمیں عمائمہ سہیل نے بڑی مثبت کرکٹ کھیلی، پاکستان کا اسپن اٹیک بھی ویسٹ انڈیز کی کنڈیشنز کا بھرپور فائدہ اٹھا سکتا ہے۔سرجری کے بعد قومی ٹیم میں واپس آنے والی اسٹار پلیئر نے فوری طورپر ٹیم کی کمان سنبھالنے کی بجائے آسٹریلیا کے خلاف ملائیشیا میں کھیلی جانے والی سیریز کے دوران قیادت کرنے والی جویریہ ودود کے حق میں دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔

مصباح پی ایس ایل 4میں ان ایکشن نہیں ہونگے

لاہور(آئی این پی) پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل)کے تین ایڈیشن میں اسلام آباد یونائیٹڈ کی نمائندگی کرنے والے مصباح الحق آئندہ ایڈیشن میں کھلاڑی نہیں بلکہ مینٹور کی حیثیت سے ٹیم کا حصہ ہوں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق کپتان مصباح الحق پاکستان سپر لیگ میں ایکشن میں نہیں ہوں گے، مصباح الحق اور فرنچائز کے درمیان کوئی عہدہ دینے کے لیے بات چیت جاری ہے ۔ ذرائع کے مطابق فرنچائز مصباح الحق کو مینٹور کی حیثیت سے ساتھ رکھنا چاہتی ہے تاہم مالی معاملات طے ہونے کے بعد عہدے کا اعلان کیا جائے گا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق آف اسپنر سعید اجمل کوچنگ اسٹاف میں شامل ہوں گے تاہم چوتھے ایڈیشن میں توصیف احمد کوچنگ اسٹاف میں شامل نہیں ہوں گے، فرنچائز ان کی خدمات سے دستبردار ہوگئی ہے۔اسلام آباد یونائٹیڈ کو دوبار چیمپئن بنانے والے سابق کپتان مصباح الحق پاکستان سپر لیگ میں اس بار بطور بلے باز ایکشن میں نہیں ہوں گے ان کی جگہ نیا کپتان مقرر کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق مصباح الحق کو فرنچائز مینٹور کی حیثیت سے ساتھ رکھنا چاہتی ہے، مالی معاملات طے ہونے کے بعد عہدے کا اعلان کیا جائے گا۔ چوتھے ایڈیشن میں توصیف احمد بھی کوچنگ اسٹاف میں شامل نہیں ہوں گے۔ سابق آف اسپنر سعید اجمل کوچنگ اسٹاف کا حصہ ہوں گے۔ فرنچائز توصیف احمد کی خدمات سے دستبردار ہو گئی ہے اس حوالے سے باقاعدہ اعلان چند روز میں متوقع ہے۔

محسن کے بیان سے نیا تنازع کھڑا ہو گیا

لاہور(نیوزایجنسیاں)پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کیلئے نوتشکیل شدہ کرکٹ کمیٹی درد سر بن گئی، کمیٹی کے سربراہ محسن خان کی جانب سے سرفراز احمد کو ٹیسٹ کی قیادت سے ہٹانے والے بیان سے ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔ابھی پی سی بی جسٹس قیوم رپورٹ کے حوالے سے اٹھنے والے تنازع پر ہی وضاحتیں دے رہا تھا کہ کرکٹ کمیٹی کے سربراہ محسن خان نے بھی ایک منفرد بیان داغ دیا۔محسن خان کا کہنا ہے کہ ٹیسٹ ٹیم کی کپتانی سرفراز احمد کیلئے بوجھ ہے انہیں اس ذمہ داری سے الگ کر دینا چاہیے۔کمیٹی کے سربراہ کا بیان عین اس وقت سامنے آیا ہے جب نیوزی لینڈ سے سیریز کا آغاز ہو رہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی سی بی نے محسن خان کے بیان کو غیر ضروری اور نامناسب قرار دیا ہے۔ٹیم مینجمنٹ اور سلیکشن کمیٹی بھی کرکٹ کمیٹی کے سربراہ کے بیان سے خوش نہیں ہے۔ کمیٹی کا چیئرمین بننے سے پہلے محسن خان نے ہیڈ کوچ مکی آرتھر کے بارے میں بھی نامناسب الفاظ استعمال کیے تھے۔یاد رہے کہ چار رکنی کرکٹ کمیٹی کے رکن سابق کپتان وسیم اکرم اور سابق کپتان مصباح الحق دونوں ہی سرفراز احمد پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ کمیٹی کے چیئرمین کے تقررسے پہلے متعلقہ افراد کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ چیف سلیکٹر انضمام الحق بھی کرکٹ کمیٹی کی تشکیل سے خوش نہیں ہیں۔اس حوالے سے چیئرمین پی سی بی احسان مانی نے پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان سرفراز احمد پر مکمل اعتماد کا اظہار کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سرفراز تینوں فارمیٹ کے کپتان ہیں اور کپتان رہیں گے، بورڈ کو ان پر مکمل اعتماد ہے۔احسان مانی نے سرفراز احمد کی کپتانی پر مکمل اعتماد کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی سرفراز احمد سے کپتانی لینے کا نہیں سوچ رہا، سرفراز پاکستان ٹیم کے کپتان ہیں اور کسی کو بھی اس پر کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے۔انہوں نے واضح کیا کہ اس وقت کوئی اور کھلاڑی قیادت کی ذمہ داری کیلئے زیرغور نہیں ہے، سرفراز احمد کو بورڈ کی مکمل حمایت حاصل ہے، امید ہے سرفراز کی قیادت میں پاکستان ٹیم کامیابیاں حاصل کرتی رہے گی۔