تازہ تر ین

ملک معاشی بحران کا شکار ،ایسے حا لات میں سڑکوں پر احتجاج سے بچنا چاہیے: معروف صحافی ضیا شاہد کی چینل۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ب سے پہلی بات یہ ہے کہ کل صبح سپریم کورٹ کا جو فیصلہ سامنے آیا اس کے حوالہ سے خود عمران خان صاحب نے تفصیل سے سارا پس منظر بیان کر دیا ان کا کہنا تھا کہ آئین پاکستان میںموجود ہے کہ قرآن و سنت اور اسلامی احکامات کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا ۔ضیا شاہد نے کہا کہ ملک معاشی بحران کا شکار ہے اور وزیراعظم چین کے دورے پر جا رہے ہیں ان حالات میں ملک کی سڑکوں پر احتجاج نقصان دہ ہو گا۔
ضیا شاہد نے آصف زرداری اور شہباز شریف کی تقریر کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آصف زرداری کے بیان کا خیرمقدم پی ٹی آئی کے ایک اہم رہنما یعنی شفقت محمود جو وفاقی وزیر تعلیم بھی ہیں اور جو وزیراعظم ہاﺅس خالی ہوا ہے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں ہائی سٹینڈرڈ کی اپنی نوعیت کی اور ایک انتہائی اعلیٰ سطح کی یونیورسٹی قائم کی جائے گی وہ یونیورسٹی قائم کرنے کا اور ملک کے اندر نظام تعلیم کو یکساں بنانے کا جو ٹاسک ہے وہ ان کو ملا ہے۔ شفقت محمود صاحب وزیر اطلاعات بھی رہے ہیں اور پیپلزپارٹی کے سیکرٹری اطلاعات بھی رہے۔ ملک معراج خالد صاحب کے ساتھ نگران وزیر بھی رہے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان کی طرف سے ایک خیر مقدمی بیان آیا ہے آصف زرداری صاحب کے اس بیان کے جواب میں اور انہوں نے کہا کہ زرداری صاحب نے یہ صحیح کہا ہے کہ اس وقت ملک کو ضرورت جو ہے اس قسم کی ہے کہ مزید پولرائزیشن سے بچنے کے لئے زرداری صاحب نے کہا تھا کہ 25,20 سال کے لئے5,4 اگلی حکومتوں کے لئے کوئی مل بیٹھ کر ایسا لائحہ عمل بنایا جائے جو ملک کو معاشی مسائل سے بھی نکال دے اور ملک میں جمہوریت کو بیخ و بُن کو ادھڑنے سے بھی محفوظ رکھے اور زیادہ مضبوط ہو جائے اس کے ساتھ ساتھ شہباز شریف صاحب تو حسب معمول خطاب جذباتی انداز میں ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ این آر او کسی نے نہیں کیا نام بتائیں یہ بات نوازشریف پہلے بھی کہہ چکے ہیں اب عمران خان کو چاہئے کہ اگر واقعی کسی نے ان کو کہا ہے کہ این آر او چاہتے ہیں تو پھر وہ ان کا نام بتائیں بصورت دیگر وہ معافی مانگیں۔ سیاست میں ایسی باتیں چلتی رہتی ہیں لوگ ایک دوسرے کو کہتے رہتے ہیں کہ آپ یہ کر دو ورنہ میں کر دوں گا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ بنیادی طور پر آصف زرداری صاحب کی طرف سے اچھا اقدام ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں اس حکومت کو بھی 5 سال دینے کو تیار ہوں کہ آرام سے اپنا کام کرے کیونکہ اس وقت ملک کے حالات ایسے ہیں کہ معاشی کو مضبوط بنانے اور معیشت کے بنیادی خدوخال کو درست کرنے کی طرف چلنا چاہئے اور آپس کی اس تنازعات کو اور آویزش کو ختم کرنا چاہئے۔یہ تو بڑی آئیڈیل صورتحال ہو گی کہ آصف زرداری کے بقول پورا وقت اس حکومت کو دینے کو تیار ہوں اس حکومت کو کہ وہ اپنے 5 سال پورے کرے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ پارلیمنٹ کو موثر انداز سے چلایا جائے جو حکومت برسراقتدار آئی ہے ان کو پورا موقع دیا جائے۔ مجھے اچھی طرح سے یاد رہے کہ نوازشریف کی نااہلی کے باوجود جب شاہد خاقان عباسی آئے تھے تواس ملک کی ساری سیاسی جماعتو ںکا یہ کہنا تھا کہ ابھی تھورا سا وقت چونکہ رہتا ہے کہ جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے نہیں اترنا چاہئے۔ عمران خان کے مطالبے پر نواز حکومت نے 4 حلقے نہیںکھولے تھے مگر عمران خان نے اپوزیشن اور حکومتی ارکان 20,20 پر مشتمل جو ہے خصوصی کمیٹی بنائی گئی ہے کہ اگر کوئی واقعات واقعی ایسے ہوتے ہیں کہ انتخابی عمل میں شفافیت نہیں رہی تو اس پر بیٹھ کر پارلیمانی کمیٹی عمل کر سکے۔
ضیا شاہد نے کہا جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے کہ شاید آئی جی تبادلہ کیس میں فواد چودھری صاحب نے آجا پھر معذرت کر لی ہے اور انہوں نے یہ اچھا کیا اعلیٰ عدالتوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنا چاہئے اور اگر کوئی غلطی ہو جائے تو معافی مانگ لینی چاہئے۔ عدالت میں معافی مانگنے سے آدمی چھوٹا نہیں ہوتا بڑا بنتا ہے۔ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ ہم قانون کے نفاذ کو مانتے ہیں۔ مہذب ملکوں اور معاشروں میں عدالتوں کا احترام کیا جاتا ہے اور عدالتوں کو اپنا کام کرنے کے مواقع بہم پہنچائے جاتے ہیں۔
فواد چوہدری نے یہ بھی کہا کہ ان کا بیان بیوروکریسی کے متعلق تھا تو بھی اچھی بات ہے مگر انہوں نے معافی مانگی یہ اچھا کیا۔
چیف جسٹس کے بیان پر کہ پتا لگائیں گے کہ پردے کے پیچھے کون ہے اور پھر ہم بتائیں گے کہ الیکشن کرانے کی کیا ضرورت ہے ضیا شاہد نے کہا کہ یہ تو انہی کو پتاہوگا کہ پردے کے پیچھے کون ہے ، مجھے تو نہیں پتا۔ میں سمجھ نہیں سکا کہ کس کی مراد ہے۔
آجکل ہمارے سیاستدان بھی کھلم کھلا بات نہیں کرتے بلکہ گول مول کھلم کھلا بات کرتے ہیں۔ چونکہ وہ اشاروں میں بات کرتے ہیں اسلئے عام طور پر اسکی بات پر پھڈا پڑ جاتا ہے اور پھر ایک ایشو جو شروع ہوتا ہے تو 8 سے 10 دن اس پر وقت ضائع ہوتا ہے۔صاف اور سیدھی بات کرنی چاہئے، گول مول کر کے ہر بات کو گھما پھرا کراسمیں اپنی منشا اور مرضی ملا کر آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے توہر بات پر جھگڑا ہوگا۔اسمبلیوں میں بھی عام طور پر میں نے دیکھا ہے کہ 5سے 6دن میں آخر معافی تلافی ہو جانی ہے تو یہ 6 دن ضائع کرنے کا کیا فائدہ ، انہی 6 دنوں میں دیگر اہم ایشوز پر بات کی جاسکتی ہے۔ مثال کے طور پر میرا یہ خیال تھا کہ اسمبلی کا اجلاس شہباز شریف کو اپنا زورخطابت دکھانے کے لیے نہیں بلانا چاہئے تھا اگر بلا بھی لیا گیا تھا تو چین کا دورہ زیر گفتگو آنا چاہئے تھا۔ وزیراعظم کہتے کہ ہم چین جارہے ہیں اور مدد لینے نہیں سرمایہ کاری کرنے جارہے ہیں۔ اب تک ہم چین سے کیوں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری نہیں کر سکے۔ وزیراعظم اپنی کابینہ سمیت چین جا رہے ہیں اور ہمارے اپر ہاﺅسز قومی اسمبلی اور سینٹ میں اس بات پر بحث ہو رہی ہے کہ این آر او ہوا تھا یا نہیں ہوا تھا۔ اندازہ فرمائیں کہ یہ بات زیادہ اہم ہے یایہ اہم ہے کہ ہم نے چین سے کیا لینا ہے اور اب تک چین کیا دے سکا۔ جس طرح سے ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کی بڑے پیمانے پر آمد ہوتاکہ نئے کارخانے کھولیں ، نئے کاروبار بنیں اور روزگار پیدا ہو۔ لوگوں کو ہمیشہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ سرکاری نوکری کر لو۔ یونیورسٹی سے فارغ ہونے والے 100طالب علموں میں سے 2 سے 3 کو سرکاری نوکری مل سکتی ہے باقی98 کے لیے تو پرائیویٹ سروسز ہی ہیں۔ اگر ملک میں صنعتی ترقی ہوگی، 50 لاکھ گھروں کی بات کو لوگ مذاق سمجھ رہے ہیں لیکن میں اسے مذاق نہیں سمجھتا میں نے اس پر بہت پڑھا ہے۔ 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کا مطلب 3لاکھ دروازے، 12 لاکھ کھڑکیاں ، اینٹیں و دیگر چیزوں کی پیداوار ہے۔ ہمیں بے تحاشا اینٹوں ، پتھر ، ماربل چاہئے ہوں گے۔ ان تمام صنعتوںکو پیداوار بڑھاناپڑے گی۔ جگہ جگہ پر دروازے اور چوگاٹھیں بنتی نظر آئیں گی۔ نجی کاروبار اور سروسز سے ہی روزگار ملتا ہے، سرکاری نوکریاں دو سے تین فیصد ہوتی ہیں۔پہلے ہی نوکریاں کم ہیں اور لوگ بے روزگارپھر رہے ہیں۔ روزگار کے مواقع تب ہی پیدا ہوتے ہیں جب نجی انڈسٹری بنے اور عمران خان اسی کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کوشش میں آصف علی زرداری کا آشیرباداور شہباز شریف کی نیک نیتی ہی شامل ہو جائے تو ملک کے ہی گھر بن رہے ہیں عمران خان کا اپنا گھر نہیں بن رہا۔ 25 لاکھ افراد کے سر چھپانے کا بندوبست ہورہا ہے۔ میں نے بھی کچھ دوستوں کو تجویز دی تھی اور جہاں پہنچنی تھی پہنچ گئی کہ لاہور میں ریلوے سٹیشن پر کم از کم ایک ماڈل بنایا جائے ، پرویز الہیٰ کے دور حکومت میں لاہور کے مئیر اور پرویز الہیٰ کیساتھ ریلوے سٹیشن کا جائزہ میں نے خود لیاتھا کہ اسکے سامنے بڑے پلاٹ پر پلان کروایا تھا کہ اوپر گھاس ویسے ہی رہے اور انڈر گراﺅنڈ کھانے کے کمرے کا انتظام کیا جائے اور وہاں 40 سے 50 ہزارلوگوں کے دو وقت کے کھانے کا روزانہ کی بنیاد پر فری بندوبست ہوجائے۔اس سے عوام کو کتنا فائدہ ہوتا کہ وہ مزدور جسکی مزدوری نہیں ہوئی یا مسافر جسکے پاس پیسے نہیں وہ پیٹ بھر کر کھانا کھا سکے۔ اپنے ملک کے لیے بہتر کام کریں جس سے ملک کا فائدہ ہو، لڑائی جھگڑا تودنیا کا سب سے آسان کام ہے۔ دنیا کا مشکل کام کوئی چیز بنا کر اور چلا کر دکھانا ہے۔
رکشہ ڈرائیور کے اکاﺅنٹ میں ساڑھے 8ارب کی ٹرانزیکشن کے حوالے سے ضیا شاہد نے کہا کہ اب تک جتنے لوگ پکڑے جا چکے ہیں اس پر پنجابی کا ایک محاورہ کہوں گا کہ ”برے نوں نہ پھڑو، برے دی ماں نوں پھڑو۔ اصل میں تو انکے پیچھے لوگوں کو پکڑنا چاہئے جو لوگ جعلی اکاﺅنٹس سے پیسے باہر بھجوا رہے تھے ان میں سے ایک شخص کا نام سامنے آیا ہے جو اومنی گروپ کے مینجر تھے اور پاکستان کے باہر سے پکڑے گئے۔انکوانٹرپول نے گرفتار کیا وگرنہ خبریں بے شمار ہیں کہ جعلی اکاﺅنٹ سے اتنے پیسے نکل آئے۔ جو ٹرانسفر کر رہے ہیں وہ کون ہیں اور ان میں سے کتنے گرفتار ہوئے ، کتنوں نے مانا کہ انہوں نے پیسے باہر بھجوائے، انکے پیچھے کون تھا۔ انکے پیچھے عام آدمی نہیں تھا ، ہمارے پاس ،عام عوام کے پاس اربوں روپیہ نہیں ہے۔ یہی بات قومی اسمبلی میں ڈسکس ہونی چاہئے۔این آر او کی باتیں نان ایشوز ہیں ، ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں، کچھ نہیں نکلے گا۔ یہ کیوں نہیں ڈسکس کیا جاتا کہ کون ہیں جنہوں نے ملک کو کنگال کر دیا، یہاں بھوک ناچ رہی ہے، مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے، ڈالر مہنگا ہو گیا، اسکے باوجود وہ کون لوگ ہیں جو ملک کے عام آدمیوں کے چھوٹے چھوٹے اکاﺅنٹس میں پیسے ڈال کر ملک سے باہر بھیجتے جارہے ہیں۔ انکو پکڑا جائے۔ پاکستان میں سرمایہ کاری ، آئی ایم ایف،جعلی اکاﺅنٹس جیسی ڈھنگ کی بات اسمبلی میں کی جائے۔
پہلے بینکوں میں صرف شناختی کارڈز پر اکاﺅنٹس کھل جایا کرتے تھے، جن اکاﺅنٹس میں اچانک زیادہ پیسہ آیا ہے انہیں اٹیسٹ کرنے والوں کو پکڑا جائے۔ نادرا ایسے لوگوں کی فہرستیں کیوں جاری نہیں کرتا۔بینک مینجر ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ زیادہ نہیں ڈیڑھ سے دو ہزار بینک مینجرز کو پکڑ کر جیلوں میں ٹھونسا جائے توایک ہفتے کے اندر اندر سات سال پرانا ریکارڈ پیش کر دیا جائے گا۔اسمبلیوں میں زیر بحث ایشوز سے عوام کا وقت ضائع کیا جا رہا ہے۔
وزیراعظم پوری توجہ کام پر دیں اور اپنے ساتھ چین کے دورہ پر اچھی اور مضبوط ٹیم لیکر جائیں اور ادھار، گرانٹ یا کیش ڈیپازٹ کی بجائے سرمایا کاری کے مواقع مانگیں۔ سرمایہ کاری سے صنعت بنتی ہے اور سینکڑوں لوگوں کے روزگار کے لیے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ آج کے دن ایسے مرحلے میں یہ بات ہونی نہیں چاہئے تھی، پتانہیں کس نے کیا پلاننگ کی ، میں کچھ نہیں جانتا۔ آج اندرونی خلفشار میں الجھنے کی بجائے دورہ چین اہم تھا۔ میں نے ہمیشہ یہ دیکھا ہے کہ ایم او یوز سائن ہوئے کہ یہ کام کریں گے اور کبھی اس کام کی باری ہی نہیں آتی۔ ترکی ، ایران اور پاکستان آر سی ڈی ممالک ہوتے تھے 40 سال گزر گئے تب جو ایم او یوز سائن ہوتے تھے وہ آج تک بنتے نہیں دیکھے۔ صرف اعلانات اور کھڑے ہو کر تصویریں بنوانے کا کوئی فائدہ نہیں کہ ادھر عمران خان اور ادھر چینی وزیر کھڑے ہیں اور دستخط ہو رہے ہیں کہ ایم او یوز سائن ہو گئے۔ کبھی تعلیم کے میدان میں 21 ایم اوا یوز سائن ہو گئے ، پتا نہیں بعد میں انہیں کوئی پڑھتا بھی ہوگایا نہیں۔
ہم جب شروع شروع میں صحافت میں آئے ، میں یونیورسٹی میں جرنلزم پڑھاتا بھی تھا۔ ہم یہ کہتے تھے کہ جن الفاظ کے ساتھ گے ، گا ، گی لگتا ہے وہ خبر نہیں ہوتی۔ جیسے پاکستان میں کوئی بے گھر نہیں رہے گا۔ یہ خبر نہیں کسی شخص کا اعلان ہے۔ غریب لوگ فٹ پاتھ ، درباروں ، پارکوں اور دیگر کھلی جگہوں پر سوتے ہیں انکے کہیں ٹھرنے کا بندوبست کرنا خبر ہے یا یہ کہنا کہ آنے والے دس سال میں لاہور میں کوئی شخص بے گھر نہیں رہے گا۔ یہ تو دعویٰ ہے ، بکواس ہے، عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے کہ ہر طرف روشنی پھیل جائے گی کہیں تاریکی نہیں رہے گی، یہ کوئی خبر نہیں ہے۔میں نے 30 سال سے ایسی باتیں سنی بہت دفعہ ہیںدیکھا کبھی نہیں۔خبر یہ ہے کہ 50 لاکھ گھر بن گئے یا شروع ہی ہوگئے۔عملاً صورتحال ہونی چاہئے، جو اسلئے نہیں ہوتی کہ عوامی پراجیکٹس کو ملک کی تمام اسمبلیوں میں ڈسکس ہی نہیں کیا جاتا۔
لاہور گنگا رام ہسپتال کی نرسری میں آگ لگنے اور بچوں کے لاپتہ ہونے کی خبر پر ضیا شاہد نے کہا کہ گنگا رام ہسپتال کی زچہ بچہ وارڈ کے بارے میں ہر دوسرے روزبری خبر آتی ہے۔ خدا جانے جگہ کم ہے ، ڈاکٹر ، سٹاف یا پیسے کم ہیں۔ ہر چوتھے دن ایسا ہوتا ہے کہ لڑکا پیدا ہوا تو اسکو بدل کر لڑکی دیدی گئی اور ماں شور مچا رہی ہے کہ میں نے لڑکا پیدا کیا تھا، انتظامیہ کہہ رہی ہے کہ یہی لڑکی ہے آپکی گھر لیجانی ہے تو لیجائیں ، وگرنہ نہ لیجاﺅ۔ معصوم بچوں کا آگ میں جھلس کر مرجاناافسوسناک واقعہ ہے۔ کسی اور ملک میں ایسا واقعہ ہو تو ملک کی ہر اسمبلی ، لوکل گورنمنٹ اور تمام ہاﺅسز اگلے دن اس واقعہ پر شور مچا رہے ہوں کہ کسکی غلطی تھی۔ لیکن ہماری اسمبلیوں میں اس واقعہ کا ذکر بھی نہیں ہوگا۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv