جنرل احسان کی بات میں وز ن کہ آئندہ وزیر اعظم شاہد خاقان ہونگے : توصیف خان ، ادارے ن لیگ کے مفاد میں کام کر رہے ہیں : خالد چودھری ، نگران حکومت فنانشل ٹاسک فورس کو فائنل نہیں کر سکی : ضمیر آفاقی ، ملک کے مفاد کی بات کرنے والا لیڈر آگے آنا چاہیے : مریم راشد ، چینل ۵ کے پروگرام ” کالم نگار “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل چینل فائیو کے پروگرام ”کالم نگار“ میں گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ نگار خالد چوہدری نے کہا ہے کہ عمران خان وزیر اعظم نہیں بن سکتے۔ ملک میں خطرناک اور خوفناک گیم کھیلی جارہی ہے۔ عام آدمی کے پارلیمنٹ میں آنے تک کوئی پسے ہوئے عوام کی آواز نہیں بنے گا۔ تمام سیاسی جماعتیں سیٹیس کی نمائندہ ہیں۔ الیکشن کمیشن اور دیگر ادارے (ن) لیگ کے مفاد میں کام کررہے ہیں۔ تاہم خوبصورتی یہ ہے کہ عوام میں شعور آیا ہے اور وہ سوال کررہے ہیں۔ میرے ہمسائے فواد چودھری کی دوسری بیوی نکل آئی ہے جو مجھے بھی معلوم نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم آئی ایم ایف کے پاس جانے پر مجبور ہورہے ہیں۔ ایف اے کی ایف میں برادر ملک بھی شامل ہیں جنہوں نے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالا کوئی ہمالیہ سے اونچی دوستی اور چین وعرب ہمارا نہیں۔ صرف مفادات میں ہمیں گمراہ کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکا لنے کے لیے ٹھوس اقدامات ہونے چاہیں۔ پاکستان کا مقدمہ شمشاد اختر نے ٹھیک پیش کیا ہمارے کرتوت نہیں اچھے۔ پروگرام میں تجزیہ نگار ضمیر آفاقی نے کہا کہ ایف اے کی ایف 1989میں 7بڑوں نے قائم کی۔ پاکستان نے نیشنل ایکشن پلان پر کام کیا مگر نگران حکومت پاکستان کے اقدامات پر ایف اے کی ایف کو قائل نہیںکرسکی۔ اب ستمبر 2019تک مزید 26نقاط پر پاکستان کو عمل کرنا ہوگا ورنہ بلیک لسٹ میں جاسکتے ہیں۔ نئی حکومت کو خارجہ وداخلی پالیسی واضع کرنا ہوگی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ شاہد خاقان عباسی کی نااہلی ختم ہونے کے باوجود توہین عدالت کیس میں سزا ہو سکتی ہے۔ ن لیگ حق بجانب ہے کہ زیادتی صرف انکے ساتھ ہورہی ہے۔ تجزیہ نگار مریم ارشد نے کہا کہ پاکستان کے پاس قدرتی ذخائر کی کمی نہیں اور قربانیاں بھی بہت دی ہیں۔ پاکستان کو ملکی مفاد کی بات کرنیوالا لیڈر چاہیے۔ مجاہدین سے دہشتگرد بننے والوں کی طرح چینیوں کو بھی ہم پاکستانی شہریت دےکر غلطی کررہے ہیں۔ وہ ہمارے ساتھ سخت سلوک کرینگے۔ میزبان تجزیہ نگار توصیف احمد خان نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کو اکثریت بھی مل جائے تو وہ وزیر اعظم نہیں بن سکتے۔ جنرل احسان کی بات میں وزن لگتا ہے کہ اگلے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں مڈل کلاس بلکہ 10کروڑ رکھنے والا شخص بھی الیکشن لڑنے کا اہل نہیں ہے۔ شادیوں کی طرح سینیٹ میں بھی ہر طرح کے موقف آگئے ہیں۔

بشریٰ بی بی نے پی ٹی آئی کی ناراض خواتین کارکنوں کو منا لیا، عمران خان کی اہلیہ کی پہلی انٹری، کپتان کی جدوجہد بارے متاثر کن انداز میں آگاہ کیا

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) غیر سیاسی بشریٰ کا پہلا سیاسی اقدام منظر عام پر آگیا، عمران خان کی اہلیہ تحریک انصاف کی روٹھی خواتین کو منانے میں کامیاب ہوگئیں،کپتان کی جدوجہد کے واقعات سن کر خواتین رہنما متاثر ہوگئیں، نجی ٹی وی کے مطابق تحریک انصاف کی روٹھی سیاسی خواتین جو کئی دنوں سے مسلسل احتجاج کررہی تھیں ان کو غیر سیاسی بشریٰ نے اس انداز سے اپنا بیان سنایا کہ سب ہی انکی مطیع ہوگئیں اور انکے گن گانے لگیں، ناراض خواتین نے اعتراف کیا کہ اب وہ کھل کر پارٹی کمپئن چلائیں گی، انکا کہناتھا کہ بشریٰ بی بی نے عمران خان کی جدوجہد اور دیگر معاملات پر ہمیں اس انداز سے وعظ دیا پیار دیا کہ ہماری آنکھوں میں آنسو آگئے ، تحریک انصاف کی سرگرم ناراض رکن فاطمہ عثمان کا کہناتھا کہ وہ بشریٰ بی بی کا خطاب سن کر رو پڑیں، پارٹی انہیں کوئی عہدہ یا منصب نہ دے وہ پھر بھی پارٹی کی کمپئن چلائیں گی۔

مینگوفورم کے شرکاءکاشکریہ”خبریں“ باغبانوں کے مسائل اجاگرکرنے میں کردارادا کرتارہے گا: چیف ایڈیٹرضیا شاہد

ملتان (اہتمام:سجاد بخاری، رپورٹ:طارق اسماعیل، رانا طارق، تصاویر:خالد اسماعیل) آم کا دارالخلافہ سمجھے جانے والے ملتان سمیت مرکزی علاقوں میں آم کی پیداوار اور ایکسپورٹ میں کمی کی وجوہات جاننے کیلئے عدنان شاہد فورم ہال میں ”مینگو فورم“ کا انعقاد کیا گیا۔ ”خبریں“ گروپ آف نیوز پیپرز کے زیر اہتمام ہونے والے مینگو فورم کی صدارت چیف ایڈیٹر ”خبریں“ جناب ضیاشاہد نے کی۔ مینگو فورم میں گفتگو کرتے ہوئے مینگو گروورز اور ماہرین نے کہا کہ باغات کے علاقوں میں رہائشی کالونیاں بنانے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ زرعی زمینوں پر نئی کالونیاں بنانے والوں کی حوصلہ شکنی کیلئے مو¿ثر قانون سازی کی جائے۔ بے ہنگم اربنائزیشن بند کی جائے۔ مینگو فورم کے شرکاءنے کہا کہ آم کی پیداوار، ایکسپورٹ بڑھانے اور باغبانوں کی بہتری کیلئے مو¿ثر اور دیرپا ہارٹیکلچر پالیسی بنائی جائے جس میں تمام سٹیک ہولڈرز کے مفادات کا تحفظ ہو۔ مینگو گروورز نے کہا کہ بیورو کریسی بند کمروں میں بیٹھ کر متنازعہ پالیسیاں بنانے سے باز رہے۔ آم کی پیداوار بڑھانے کیلئے جدید زرعی پیداواری ٹیکنالوجی کو فروغ دیا جائے۔ آم کی پیداوار اور ایکسپورٹ میں کمی کے عنوان سے ہونے والے مینگو فورم میں محمد نوازشریف زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر آصف علی، پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد رجوانہ، ڈائریکٹر مینگو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ڈاکٹر اللہ بخش ملک، ترقی پسند مینگو گروور میجر (ر) طارق خان، ملک جہانزیب دھرالہ، مظفر حیات خاکوانی، زاہد حسین گردیزی، میاں نور الحق جھنڈیر، پروفیسر ڈاکٹر ناظم حسین لابر، خواجہ محمد شعیب، ملک سرفراز بھٹی، نوید عصمت کاہلوں، میاں سلیم محمود کملانہ، ڈاکٹر طارق ملک، رازش لیاقت پوری، ملک عامر نذیر بُچہ، ناصر عباس جعفری، رانا آصف، اعظم صابری، پروفیسر ڈاکٹر شفقت سعید، ڈاکٹر سجاد حسین، ڈاکٹر محمد امین، محمد شہزاد ظفر، عبدالمعید اور ڈاکٹر جام نیاز سمیت شرکاءنے شرکت کی۔ روزنامہ ”خبریں“ ملتان کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر میاں غفار احمد نے میزبانی کے فرائض انجام دیئے۔ محمد نواز شریف زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر آصف علی نے مینگو فورم میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں آم کے نئے باغات جدید پیداواری ٹیکنالوجی کے مطابق لگا کر ان کی مینجمنٹ کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ آم کی پیداوار، ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے ریسرچ ڈویلپمنٹ، سپلائی چین، ویلیو ایڈیشن اور باغبانوں کی تربیت سمیت تمام امور پر توجہ دینا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ مسائل بہت زیادہ ہیں اور مل کر حل کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ملتان سمیت خطے کے آم کے باغبانوں کے کاروباری رابطے تیز کرنے سمیت مختلف امور کیلئے ملتان میں14 جولائی سے 3روزہ مینگو فیسٹیول کا انعقاد کرایا جا رہا ہے جس میں غیر ملکی سفیر بھی شریک ہوں گے۔ انہوں نے بتایا کہ رواں سال مینگو فیسٹیول میں محمد نوازشریف زرعی یونیورسٹی کے ساتھ بہاءالدین زکریا یونیورسٹی بھی شامل ہوئی ہے۔ محمد نوازشریف زرعی یونیورسٹی ملتان کے پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد رجوانہ نے مینگو فورم میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ باغات کو کاٹ کر ہاﺅسنگ کالونیاں بنائی جا رہی ہیں جس سے درخت کٹنے کا سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئے شہر آباد کئے جائیں اور رہائشی کالونیاں آم کے باغات سے 15کلومیٹر دور کے علاقوں میں بنائی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈی ایچ اے سمیت تمام نئی کالونیاں ہیڈ محمد والا سمیت ریت کے ٹیلوں کے علاقوں میں بنائی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ باغات اور زرعی زمینوں پر رہائشی کالونیوں کے حوالے سے قانون سازی کی جائے۔ ڈاکٹر اشتیاق رجوانہ نے کہا کہ ان کے خاندان کی چوتھی نسل آم کے باغات اور تحقیق میں ہے اور حکومت نے ان کے باغ کی جگہ رہائشی کالونی بنانے کیلئے کیس کیا ہوا ہے اور وہ اپنے باغات بچانے کیلئے عدالت میں کیس لڑ رہے ہیں۔ مینگو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ملتان کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اللہ بخش ملک نے کہا کہ آم کی پیداوار بڑھانے کیلئے ہمیں باغات میں کام کرنے والوں کی تربیت کے ساتھ نرسری پر توجہ دینا ہوگی تاکہ صحت مند پودے فراہم کرکے ہم بہتر پیداوار حاصل کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم صرف آم توڑنے والوں کی تربیت کرکے تین ارب روپے اضافی کما سکتے ہیں۔ ڈاکٹر اللہ بخش ملک نے کہا کہ مینگو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے باغبانوں کو بہترین اقسام کے پودے فراہم کرنے کا ہدف 4 ہزار سے بڑھا کر 50 ہزار کر دیا ہے اور باغبانوں کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرنے کو تیار ہیں۔ ترقی پسند باغبان ایکسپورٹر ملک جہانزیب دھرالہ نے کہا کہ ہمیں آم ایکسپورٹ کرنے سے پہلے اس کی پیداوار پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ باغبانوں کو باغات کے پتے اور زمینوں کی مٹی کے تجزیئے کی سہولت نہیں ہے صرف پتوں کا ٹیسٹ20ہزار روپے میں ہو رہا ہے۔ معیاری کھادیں مقررہ وقت پر نہیں ملتیں۔ آم کے باغات پر حملہ آور ہونے والی فروٹ فلائی کو کنٹرول کرنے کیلئے اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی سطح پر باغات کی زمینیں اور دوسری اشیاءکے تجزیئے کی سہولت دی جائے۔ کاشتکار میاں نور الحق جھنڈیر نے مینگو فورم میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب سے زیر زمین پانی کی سطح گرنا شروع ہوئی ہے آم کے باغات تباہی کا شکار ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ باغات کو بچانے کیلئے واٹر ٹیبل اپ کرنے کیلئے پانی کی کمی کا مسئلہ سنجیدگی سے لیا جائے۔ زرعی ماہرین اور سائنسدان کم اخراجات اور وقت میں زیادہ پیداوار دینے والی اقسام تیار کریں۔ باغات کی بیماریوں کو کنٹرول کرنے کیلئے سنجیدگی سے منصوبہ شروع کیا جائے۔ معروف پلانٹ پیتھالوجسٹ اور سینئر زرعی سائنسدان ملک عامر نذیر بُچہ نے کہا کہ ہمیں آم کی پیداوار لینے کے فوری بعد ہی اگلے فروٹنگ سیزن کی تیاری شروع کردینی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے باغات بوران کی شدید کمی کا شکار ہیں۔ ہمیں باغات کے اجزائے خوراکی وقت پر دینا ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ باغات کی بہتر مینجمنٹ کرکے باغبان آم کی بھرپور پیداوار لے سکتا ہے۔ ترقی پسند باغبان میجر (ر) طارق خان نے ”مینگو فورم“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم 18 لاکھ ٹن آم پیدا کرنے کے باوجود صرف نصف فیصد ایکسپورٹ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا آم کے علاقے میں ایکسپورٹ کی سہولیات نہیں ہیں۔ آم سے دوسری مصنوعات کی تیاری کی بھی سہولیات نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت میں تحفظ خوراک اور تحقیق اور تجارت کی وزارتوں کی عدم توجہی اور ناقص منصوبہ بندی نے آم کی ایکسپورٹ کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحفظ خوراک اور تحقیق کے وفاقی وزیر سکندر حیات بوسن کا تعلق ناصرف اس خطے کی کاشتکار فیملی سے ہے بلکہ ان کے باغات بھی ہیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے باغات کے علاقوں کی ترقی اور باغبانوں کی بہتری کیلئے اقدامات نہیں کئے۔ انہوں نے کہا کہ آم کی ایکسپورٹ میں ہماری قومی ائیر لائن پی آئی اے نے سب سے پہلے فی کلو سرکاری کرایوں کا شیڈول جاری کر دیا تھا جس کے بعد دوسری کمپنیوں نے بھی قیمتیں بڑھا دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بیوروکریسی بند کمروں میں بیٹھ کر باغات سے متعلق پالیسی بنانے سے باز رہے بلکہ اس میں باغبانوں کو اہم سٹیک ہولڈرز سمجھا جائے اور انہیں پالیسی بناتے وقت شامل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ سٹیک ہولڈرز کو کبھی نہیں پوچھا گیا ہم تمام باغبان مسائل حل کرانے کیلئے یکجا ہیں مگر ہماری آواز ایوانوں میں دب جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابق وفاقی وزیر سکندر حیات بوسن کے دور میں سب سے زیادہ نقصان آم کے باغبان کو ہوا ہے اور آم کی ایکسپورٹ میں بھی ریکارڈ کمی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آم سے متعلق چھوٹی صنعتیں لگانے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ ترقی پسند مینگو گروور زاہد حسین گردیزی نے کہا کہ کبھی کبھی باغبانوں کو دبئی سے زیادہ لاہور کی مارکیٹ میں بھی آم کی زیادہ قیمت مل جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ باغبانوں کو تمام زرعی مداخل پر سبسڈی دی جائے۔ ایکسپورٹ پر مراعات دی جائیں اور ایکسپورٹ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ باغات کے علاقوں میں رہائشی کالونیاں بنانے پر پابندی عائد کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت مو¿ثر ہارٹیکلچر پالیسی بنائے جس میں تمام سٹیک ہولڈرز کو شامل رکھا جائے۔ ترقی پسند‘ باغبان‘ مینگو گروور ملک سرفراز بھٹی نے ”مینگو فورم“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں صاف پانی ضائع کرنے سے بچانا ہوگا۔ باغات کو ڈرپ اری گیشن پر منتقل کیا جائے اور حکومت اس سلسلے میں باغبانوں کو سبسڈی دے۔ مینگو ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے سینئر پلانٹ پتھالوجسٹ ڈاکٹر طارق ملک نے کہا کہ باغبانوں کو چاہےے کہ وہ ماہرین کی سفارشات پر عمل پیرا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ آم کے باغات کو نقصان سے دوچار کرنے والی سڈنی ڈیتھ (کوئیک ڈیکلائن) کی وجوہات 10سال کی تحقیق کے بعد قابو پالیا گیا ہے اور اب اس سلسلے میں باغبانوں کا بھی تعاون درکار ہے۔ مینگو ایکسپورٹر اعظم صابری نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آم کی ایکسپورٹ کرنے والوں کو حکومت کی طرف سے کسی قسم کا تعاون نہیں ہے انہیں قدم قدم پر رشوت دے کر اپنے ملک کی عزت اور مال بچانا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سٹیٹ بینک ایکسپورٹرز کے لئے زرمبادلہ جمع کرانے کی مدت 30روز سے بڑھاکر 90روز کرے۔ شپنگ لائنز کو مانیٹر کیا جائے۔ انجینئر ممتاز احمد خان نے کہا کہ پانی کی کمی کا مسئلہ حل کیا جائے اور زراعت‘ باغات کی بقاءکے لئے پانی کو محفوظ کیا جائے اور اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جائے۔ ترقی پسند مینگو گروورمظفرحیات خاکوانی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے کبھی بھی کسی فورم پر کاشتکاروں کو سپورٹ نہ کیا۔ کسی بھی جگہ کھاد اور زرعی ادویات پر سبسڈی نہ دی۔ اگر اعلان کیا گیا تو سبسڈی حاصل کرنے کے لئے اس عمل کو اتنا مشکل بنادیا گیا کہ وہ کسان کو مل ہی نہ سکی جبکہ فصل آنے پر حکومت کی عدم توجہی کی وجہ کسان کو فصل کا صحیح ریٹ نہ مل سکا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک حکومت کسانوں کو سپورٹ نہیں کرے گی اور واضح پالیسی نہیں دیتی کسان کو کسی بھی فصل میں فائدہ نہیں مل سکتا چاہے وہ آم کی فصل ہو یا کوئی اور فصل آم کی ایکسپورٹ بغیر حکومت کے کامیاب نہیں ہوسکتی اور نہ ہی بڑھ سکتی ہے۔ ترقی پسند مینگو گروور میاں سلیم محمود کملانہ نے کہا کہ حکومت کی کسی بھی شعبہ میں پالیسی واضح نہ ہے جن کی وجہ سے کوئی بھی ادارہ اپنی پالیسی نافذ کرنے میں ناکام نظر آتا ہے۔ آم سے متعلق ایکسپورٹ کے مراحل اتنے تکلیف دہ ہیں کہ آم کی فصل کاشت کرنے کو دل نہیں چاہتا۔ نہ تو آم کی بہتر فصل کے لئے شعبہ زراعت کی طرف سے مدد ملتی ہے اور نہ ہی کسی اور ادارے کی طرف سے۔خواجہ محمد شعیب نے کہا کہ آم کی کاشت اور جدید کاشت کے لئے ملک میں کوئی ریسرچ نہیں ہوتی۔ اگر کوئی ریسرچ ہوتی ہے تو وہ دفتر تک محدود رہتی ہے۔ افسران ٹھنڈے کمروں سے نکلیں گے تو کاشتکاروں کو کچھ معلوم ہوگا۔ سرکاری اہلکار کاشتکاروں کی مدد کریں گے تو کسان کو معلوم ہوسکے گا کہ اسے کس فصل میں فائدہ ہوگا۔
حنیف کھوکھر کے مطابق پاکستان کے اکثر علاقوں میں پانی کی صورتحال ابتر ہے۔ پانی کی سطح نیچے جانے کی وجہ سے آم کی فصل کو مطلوبہ پانی نہیں ملتا ہے جس کی وجہ سے فصل متاثر ہورہی ہے اور آم کی جدید ورائٹیوں کے بارے کسانوں کو کوئی علم نہ ہے اور اس کے بارے میں نہیں جانتے جس سے آم کی فصل دن بدن کم ہورہی ہے اور اس سے ایکسپورٹ پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
ناصر عباس جعفری جنرل سیکرٹری مینگو گروور نے کہا کہ آم کی ایکسپورٹ میں کمی کی ایک وجہ یہ ہے کہ پی آئی اے نے اپنے ریٹ اتنے زیادہ کررکھے ہیں کہ خرچ زیادہ آتا ہے اور منافع نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ ہر انسان اور کسان منافع کے لئے فصل کاشت کرتا ہے اگر نہ ملے تو اس کا کیا فائدہ۔ پی آئی اے کے زیادہ کرایے کی وجہ سے دوسری ایئرلائنز بھی کرایہ جات بڑھا دیتی ہیں جس پر آم بھیجنے پر نقصان ہوتا ہے۔
جہانزیب خالد نے کہا کہ وہ عرصہ دراز سے آم کی کاشت کرتے چلے آرہے ہیں لیکن آم کی نشوونما کے لئے استعمال ہونے والی زرعی ادویات ناقص اور نچلے گریڈ کی ہوتی ہیں۔ ادویات فروخت کرنے والی کمپنیاں چائنہ سے ایسی ادویات منگواتی ہیں جوکہ قیمت میں سستی ہوں اور کوالٹی میں نچلے درجے کی ہوں۔ ادویات فروخت کرنے والی کمپنیاں اپنا تو منافع کما لیتی ہیں لیکن کسانوں کو نقصان پہنچاتی ہیں جبکہ حکومت بھی ان کے خلاف کارروائی نہیں کرتی۔
محمد عبداﷲ جوکہ ملتان کے مشہور آم ایکسپورٹر ہیں‘ نے کہا کہ ملتان انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے بتائے وقت پر گیا تھا کہ آم کی ایکسپورٹ کے لئے یہاں پر باہر آم بھجوانے کے لئے ہر قسم کی سہولت دی جائے گی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا اور نہ ہی کوئی ایسی سہولت یہاں پر دی گئی جس سے آم ایکسپورٹ کرنے میں آسانی ہو اور اخراجات کم ہوں۔ حکومت نے کبھی بھی ایکسپورٹ کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی نہ دی صرف لفظوں کے ذریعے سے کسانوں کو ٹھنڈا کیا گیا۔
زرعی یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد امین نے کہا کہ جنوبی پنجاب سے 70فیصد آم حاصل ہوتا ہے‘ سندھ سے 28فیصد اور باقی صوبوں سے 2فیصد فصل آم کی ہوتی ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ایکسپورٹ میں ہر سال کمی ہورہی ہے۔ یونیورسٹی کے لیول پر ہر سال آم کی ایکسپورٹ کے حوالے سے سیمینارز اور آگاہی پروگرامز کررہے ہیں اور اس سلسلہ میں کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں کہ آم کی ایکسپورٹ بڑھے۔
شکیل نیازی نے آم کی کاشت اور ایکسپورٹ کے حوالے سے کہا کہ اربنائزیشن کی وجہ سے آم کی فصل برباد ہورہی ہے۔ جب آم کی پروڈکشن ہی نہ ہوگی تو ایکسپورٹ کیسے ممکن ہوگی اور ایکسپورٹ کیسے بڑھ سکے گی۔ مختلف ہاو¿سنگ کالونیوں کی وجہ سے ہزاروں ایکڑ پر مشتمل آم کی فصل کٹ چکی ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر جام نیاز احمد نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آم کے پودوں میں خوراک کی کمی اور متوازن کھادوں کی فراہمی کے حوالے سے ایک پروگرام شروع کیا جارہا ہے جس میں ملتان‘ مظفرگڑھ سمیت آم کے باغات کے علاقوں کو شامل کیا جارہا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر ناظم حسین لابر نے کہا کہ باغبانوں کو اپنی ترجیحات تبدیل کرکے ماہرین کے مشورہ پر عمل کرنا ہوگا۔
مینگو پلپ پلانٹ کے انچارج عبدالمعید نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ باغبانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے باغات کی پیداوار مینگو پلپ پلانٹس پر لے آئیں اور کئی گنا زیادہ آمدنی کمائیں۔ انہوں نے کہا کہ ترقی پسند باغبان مل کر بھی اس طرح کے پلانٹس لگاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مینگو پلپ پلانٹ کی استعداد کار بڑھائی جارہی ہے۔
روزنامہ ”خبریں“ کے چیف ایڈیٹر جناب ضیاشاہد نے مینگو فورم کے شرکاءکا شکریہ ادا کیا اور گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”خبریں“ باغبانوں کے مسائل ایوانوں اور پالیسی سازوں تک پہنچانے کے لئے اپنا کردارادا کرتا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ”خبریں“ نے پہلے بھی کاشتکار کی آواز کھیت کھلیانوں سے ایوانوں تک پہنچائی ہے اور آئندہ بھی اپنا کردارادا کرتا رہے گا۔
محکمہ زرعی اطلاعات کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر نوید عصمت کاہلوں نے مینگو فورم میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پنجاب کی طرف سے باغات کی بحالی اور باغبانوں کی بہتری کے لئے مختلف منصوبے شروع کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ باغبانوں کو جدید زرعی پیداواری ٹیکنالوجی اپنانے کے لئے زرعی مشینری اور آلات پر سبسڈی فراہم کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

صبور علی ‘ ہانیہ عامر کی سیریل ”وصال“اہم موڑپر پہنچ گئی

کراچی (شوبزڈیسک)ڈرامہ سیریل “وصال”ایک ایسا ڈرامہ ہے جس نے پہلے ہی دن سے اپنے ناظرین کی تمام تر توجہ حاصل کررکھی ہے، جس کی وجہ نہ صرف ڈرامے کی بہترین کہانی ہے بلکہ اس میں کام کرنے والی کاسٹ کی بہترین اداکاری بھی ہے، صبور علی سے ہانیہ عامر تک ڈرامے میں موجود بہترین اداکار اپنی اداکاری کی اپنے ناظرین کو نہ صرف ڈرامے کی ہرقسط دیکھنے پر مجبور کرتے ہیں بلکہ نئی قسط کامنتظر بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں، ڈرامہ اپنی چودہویں قسط کی جانب سفر کررہا ہے ناظرین کے ذہن میں کچھ سوالات اٹھنا شروع ہوچکے ہیں۔ کیا پری یہ جان پائے گی کہ اس کی سب سے بہترین دوست اسکی ترقی میں رکاوٹ کا باعث بن چکی ہے۔

رنبیر اور انوشکا کی فلم ” سنجو“ پاکستانی سنیماﺅں میں ریلیز

لاہور(شوبزڈیسک )بالی وڈ فنکار سنجے دت کی زندگی پر مبنی فلم ” سنجو“ کو سنسر سرٹیفیکیٹ ملنے کے بعدپاکستانی سنیماﺅں میں ریلیز کر دیا گیا۔پنجاب اور سندھ بورڈکے بعد مرکزی سنسر بورڈ کے اراکین نے بھی بغیر کسی اعتراض کے فلم کو عام نمائش کی اجازت دے دی ۔بھارتی فلمی صنعت کے پروڈیوسر ودھو ونود چوپڑہ اورسٹار ڈائریکٹر راج کمار ہیرانی کی نئی پیشکش ” سنجو“ڈسٹری بیوشن کلب کے زیر اہتمام لاہور ، کراچی اور اسلام آباد سمیت سرکٹ کے دیگر شہروں کے سنیما گھروںمیں ریلیز کر دی گئی ۔ فلم بالی وڈ کے منا بھائی سنجے دت کی زندگی میں پیش آنے والے حقیقی واقعات پر مبنی ہے جس میں نوجوان نسل کے مقبول فنکار رنبیر کپور نے سنجے دت کا مرکزی کردار ادا کیا ہے جبکہ دیا مرزا، سونم کپور، انوشکا شرما، منشیا کوئرالہ ، پاریش راول اوربومن ایرانی سمیت کئی نامور فنکار فلم میں انتہائی اہم کرداروں میں جلوہ گر ہوئے ہیں ۔فلمی حلقوں کے مطابق راج کمار ہیرانی بالی وڈ کے سب سے کامیاب ڈائریکٹر ہیں جن کی پچھلی تمام فلموںمنابھائی ایم بی بی ایس، لگے رہو منابھائی، تھری ایڈیٹس اورپی کے نے بے مثال کامیابی حاصل کر رکھی ہے۔ اور انکا نام ہی فلم کی کامیابی کی ضنمانت بن چکا ہے چنانچہ انکی نئی ڈائریکشن’ سنجو“ نہ صرف شائقین کو سنجے دت کی زندگی کے نشیب و فراز سے آگاہ کرے گی بلکہ باکس آفس پر کامیابی کے نئے ریکارڈ بھی بنانے میںکامیاب رہے گی ۔

پاکستانی فلم میکنگ میں بہتری آ رہی ہے: زارا شیخ

لاہور(شوبزڈیسک) اداکارہ زارا شیخ نے کہا ہے کہ پاکستانی فلم میکرز وقت کے ساتھ بہتری کی طرف جارہے ہیںاگر کوئی اچھی آفر ہوئی تو ضرور فلم کروں گی۔اپنے ایک انٹر ویو میں اداکارہ زارا شیخ نے کہا کہ جب تک فلم میکر باکس آفس کے تقاضوں اور فلم بینوں کے مزاج کو سمجھ کر فلم نہیں بنائے گا اسے کامیابی نہیں مل سکتی۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں بہت عرصہ پہلے ہی فلمساز اور ہدایتکاروں نے فلم میکنگ کے حوالے سے وقت کے ساتھ بدلتی ٹیکنالوجی پر توجہ ہی نہیں دی۔، جس کا خمیازہ ہمیں فلم انڈسٹری کے ایسے شدید بحران کی صورت میں بھگتنا پڑا کہ اسٹوڈیوز کے ساتھ سینما انڈسٹری بھی زوال پذیر ہوگئی ابھی فلم میکنگ بہتری کی طرف گامزن ضرور ہوئی ہے مگر اس کا مطلب ہرگز نہیں لینا چاہیے کہ ہم اپنی منزل پا چکے ہیں ابھی بہت کچھ مزید کر نے کی بھی ضرورت ہے ۔

بھارت ہمارے دریاﺅں کا پانی استعمال کرتا ، اپنا روک رکھا ہے، رٹ میں میراموقف ہے کہ سپریم کورٹ حکومت پاکستان کو مجبور کرے کہ بھارت کیخلاف پانی کا مسئلہ عالمی مصالحتی عدالت میں لے کر جائے ، معروف صحافی ضیا شاہدکی چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ بڑا مشہور لطیفہ ہے کہ دلی میں دو مشہور شاعر تھے وہ مرثیہ کے بڑے ماسٹر تھے۔ ایک میر انیس تھے۔ دوسرے میر دبیر تھے۔ نے کہا کہ میر انیس کی کیا میر دبیر کی کیا پوچھتے ہیں۔ ایک آہ ہے دوسرا واہ ہے۔ ہم کیا کہہ سکتے ہیں کہ سجاد علی شاہ کے رول میں ہمارے چیف جسٹس صاحب ہوں گے یا کوئٹہ بنچ کے لوگوں کی جگہ ہمارے پنڈی کے ہائی کورٹ کے سربراہ ہوں گے تو اس لئے بھائی ہم تو یہی کہہ سکتے ہیں ایک آہ ہے اور دوسرے واہ یہی بلکہ چیف جسٹس صاحب بڑے ہیں وہ آہ ہیں اورجو اسلام والے ہیں واہ ہیں۔ یہ فیصلہ تو حفظ مراتب اس کی بنیادپر ہو گا۔ میاں غفار نے کہا کہ ابھی تو یہ طے ہونا باقی ہے کہ جسٹس تارڑ کون ہوں گے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ جسٹس تارڑ کا بڑا مقام ہے۔ اگر آپ جسٹس تارڑ صاحب سیاست میں کس طرح آئے اور وزیراعظم اور ان کی فیملی کے حق میں کتنے مقدمات کئے۔ ان کی قدر و منزلت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔ چنانچہ انہیں تارڑ صاحب کو پہلے سینٹ کا ممبر بنایا گیا پھر وقت آیا تو ان کو ملک کا صدر بنا دیا گیا حالانکہ آپ کو یاد ہو گا۔ اس وقت بڑے اعتراضات ہوئے تھے پوری قیادت لاہور میں مرکوز تھی بلکہ صرف ماڈل ٹاﺅن میں مرکوز تھا۔ وسیم سجاد چیئرمین سینٹ ہوتے تھے وہ بھی گلبرگ اور ماڈل ٹاﺅن کے رہنے والے تھے۔ تارڑ صاحب ماڈل ٹاﺅن کے ساتھ ہی ملحقہ جوہر ٹاﺅن میں رہتے تھے وہ صدر تھے۔ جناب نوازشریف صاحب وزیراعظم تھے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ یوں لگتا ہے کہ آنکھ مچولی ہے۔ ایک دن ایک بندہ اہل دوسرے دن ساتھ والی عدالت سے اہل ہو جاتا۔ جو ہو رہا ہے اسے دیکھتے جائیں۔ضیا شاہد نے کہا کہ خود چیف جسٹس آج کل بہت سنجیدگی سے پانی کی کمی کے مسئلے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں انہوں نے میری رٹ کے ساتھ ہی پانی کے ایشو پر اوپر نیچے دو رٹیں تھیں۔ ایک کالا باغ ڈیم کے سلسلے میں تھی اس میں بڑی سنجیدگی سے انہوں نے شمس الملک صاحب کو بلا کر سنا ہے اور لوگوں کو بھی بلایا ہے اور انہوں نے ایک کمیٹی بھی بنا دی ہے ہمارے محترم اعتزاز احسن صاحب کو انہوں نے پانی کے مسئلے پر خصوصی معاون مقرر کیا ہے۔ اور اعتزاز احسن صاحب بڑے فاضل آدمی ہیں۔ میرا کیس ڈیڑھ سال سے یہی لگا ہوا ہے وہ سادہ سا ہے میری درخواست یہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں میری جو رٹ منظور ہوئی ہے اس میں پانچ لوگوں کو فریق بنایا گیا ہے یعنی وفاق پاکستان، نمبر2وزارت خارجہ بذریعہ سیکرٹری خارجہ کیونکر اس خارجہ معاملات بھی کرتے ہیں انڈیا آتا ہے۔ نمبر3 آبی وسائل کی وزارت جو تازہ تازہ بنی تھی جاوید علی شاہ ہمارے دوست ملتان سے اس کے وزیر بنے تھے۔ جاوید علی شاہ بادشاہ آدمی ہیں کل ان سے ملاقات کرتے ہیں ان سے پوچھتے ہیں کہ ادر آ کر ہمیں جواب دیں۔ انہوں مجھے یہی بتایا تھا کہ بڑا پیسہ ہے میں تو بڑا خوش ہوا تھا کہ ہمارے دوست کے پاس بڑا پیسہ آ گیا اور بالکل مسئلہ ہی کوئی نہیں ہے آبی وسائل کی وزارت پہلی دفعہ بنی ہے بلکہ میں تو ان سے کہتا تھا کہ دو تین ماہ الیکشن میں باقی ہیں آپ نے گھر چلے جانا ہے انہوں نے کہا کہ میں واٹر پالیسی بنا کر جاﺅں گا۔ پھر جناب یہ عجیب و غریب بات ہے کہ دوست سے پوچھیں گے کہ جس دن واٹر پالیسی کا اعلان ہو رہا تھا اس میں سارے لوگ موجود تھے سوائے ہمارے دوست جاوید علی شاہ کے۔ پتہ کیا باہمی ناراضی تھی ان سے پوچھتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا بھی تھا کہ آپ کے پاس اتنے ہی پیسے ہیں تو پچو¿ھلے سات سال سے بقول مرزا آصف بیگ جو سابق کمشنر ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ سات سال سے ہم پی سی ون بنا کر بھیج رہے ہیں کہ ہمیں اتنے پیسے چاہئیں ہم نے ریسرچ کرنی ہے وکلاءکی خدمات حاصل کرنی ہیں انٹرنیشنل آبی ماہرین کی خدمات حاصل کرنی ہے کیونکہ ہم عالمی مصالحتی عدالت میں جانا چاہتے ہیں۔ اور آپ کو معلوم ہے کہ کشن گنگا کے سلسلے میں ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی پچھلے دنوں اس کا افتتاح کرنے آئے جب وہ آئے تو ہماری ایجنسیوں کے کان کھڑے ہوئے کہ یہ کیا ہو گیا۔ اور فوری طور پر ایک وفد اٹارنی جنرل کی سربراہی میں ورلڈ بینک بھیجا گیا اور حسب معمول بغیر تیاری کے وہاں سے وہ ٹکہ سا جواب لے کر واپس آ گئے کہ انہوں نے اجازت نہیں دی۔ میں معمولی سا آدمی ہوں مجھے قانون دانی کا دعویٰ نہیں لیکن میں نے پڑھا بہت ہے۔ ایک دو سال ہو گئے اس پر کھپتے ہوئے۔ پاکستان کا کوئی ایڈیٹر نہیں ہے اخبار کا جس نے اس معاملے میں سلیمانکی جا کر دیکھا ہو کہ لکڑی کے شٹر ڈال کر ٹوٹل پانی بند کر دیا گیا ہے ایک قطرہ پانی اس طرف نہیں آتا۔ ہم جسڑ بھی گئے راوی بھی جہاں سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے اور بیاس جو ہے اسے پاکستان میں داخل ہونے سے پہلے ہی غائب کر دیا گیا۔ بھارت نے اس کا سارا پانی روک کر راجستھان کو دے کر نہریں بنا دی ہیں بیاسا اس کو کہتے تھے (جو اب مکمل طور پر پیاسا دکھائی دیتا ہے) یہاں ملتان میں بھی اس کے آثار نظر آ جائیں گے۔ میاں غفار نے کہا کہ جی وہاڑی سے گزرتا ہے۔ضیا شاہد نے کہا کہ یہ بیاسا سرے سے غائب ہی ہو گیا ہے صفحہ ہستی سے ہی غائب ہو گیا۔ مسئلہ بیاس تھا۔ ہمارا نقطہ نظر یہ تھا دیکھیں انڈس واٹر ٹریٹی 1960ءمیں ہوا۔ ایوب خان کا دور تھا جی معین الدین ان کے سیکرٹری تھے جنہوں نے ہماری طرف سے جو کیس تیار کیا۔ دو، 2½ سال کام کیا وہ تھک گئے وہاں۔ بوڑھے آدمی تھے انہوں نے امریکن خاتون سے جو پہلے انہوں نے کہا تھا کہ میری پی اے ہے ٹائب کرتی ہے اس سے شادی کر لی۔ وہ 2، 2½ سال ادھورے اور اس معاہدے کی میم میخ درست کی۔ اس معاہدے میں ایک ہی پوائنٹ ہے جس پر میں رٹ میں گیا ہوں۔ وہ پوائنٹ یہ ہے کہ یہ دریائی پانی کا معاہدہ نہیں ہے یہ دریاﺅں کے نہری پانی کا معاہدہ ہے جس کو زرعی پانی کہتتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی درج ہے کہ There are other usages of wager یعنی زرعی پانی کے علاوہ بھی چار اور پانی کے استعمال ہیں اس میں پہلا استعمال پینے کا پانی، گھریلو استعمال کا پانی، دوسرا ماحولیات کا پانی، تیسرا آبی حیات جھیلوں وغیرہ کا پانی، چوتھا ہے بجلی بنانے کا پانی، پن بجلی بنانے کا پانی اور پانچواں ہے جسے اتلافی پانی یہ انگریزی ٹرم کا ترجمہ: انڈیا نے چالاکی کی کہ تین دریا پاکستان کے حصے میں آئے جہلم، چناب اور سندھ ان کا پانی پاکستان کے حصے میں زرعی پانی آیا۔ اور تین دریا یعنی ستلج، بیاس اور راوی۔ ان کا زرعی پانی انڈیا کے حصے میں آیا۔ جو ٹرم ہے وہ یہ ہے کہ جہلم جناب اور سندھ جب تک انڈیا کے علاقے سے گزرتے ہیں یہ اس کی کلاز ہے تو ان دریاﺅں میں بھارت یہ چار استعمال کا پانی لے سکتا ہے یعنی پینے کا پانی، ہاﺅس ہولڈ کا پانی، ماحولیات کا پانی، پن بجلی کا پانی اور اتلافی پانی اصولاً تو ہونا یہ چاہئے تھا میں آپ ایک معاہدہ کرتے ہیں ایک کو ملتا ہے دوسرے کو کیوں نہیں مل سکتا۔ ہم نے اس کلیہ کو بنیاد بنا کر یہ کہ اگرچہ چناب اور سندھ میں یہ چار استعمال کا پانی انڈیا حق بجانب ہے اور معاہدے میں لکھوا لیا ہے تو میرا یہ کہنا حق ہے کہ پاکستان کو بھی حق حاصل ہے کہ ہمیں بھی یہ چار قسم کے استعمال کا پانی جو ہے جو راوی ستلج اور بیاس میں ہمیں بھی دیا جائے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ انہوں نے پھٹے ڈال کر ٹوٹل بند کر دیا ہوا ہے کیا ہمیں پینے کے پانی، کیا ہمیں ہاﺅس ہولڈ، پن بجلی کی ضرورت نہیں ہے۔ کیا ہمیں ماحولیات یا جھیلوں کے پانی کی ضرورت نہیں ہے۔ جب 1960ءمیں یہ معاہدہ ہوا اور 63,62 میں جب اس پر عملدرآمد شروع ہوا تو صرف سلیمانکی سے لے کر پنجند ایک لاکھ 72 ہزار کیوسک چھوٹے حصہ کے جھونپڑوں میں رہنے والے ستلج کے دونوں طرف بہاولپور کی سائیڈ پر بھی جو ایک لاکھ 72 ہزار ماہی گیر بیروز گار ہو گئے تھے۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں انڈس بیسن کے پاکستانی کمشنر جماعت علی شاہ تھے، جن پر الزام تھا کہ وہ انڈین مفادات کی ترجمانی کرتے تھے وہ پھر فرار ہو گئے۔ سالانہ 25 بلین انڈین روپے فنڈ ملے جو یہ خرچ نہیں کر سکتے، 5 ارب خرچ کرنے ہیں تو سنٹرل بینک آف انڈیا فوراب 5 ارب جمع کروا کر 25 ملین پورا کر دیتا ہے۔ انڈین واٹر کمیشن والے ہر سال پاکستان کے پاس منتیں سماجتیں کرتے ہیں۔ لاہور میں انڈس واٹر کمیشن کا چھوٹا سا دفتر ہے، میرے خیال میں اس کا سٹاف ڈیڑھ دو سو افراد پر مشتمل ہونا چاہئے جس میں ماہرین شامل ہوں۔ مجھے ایک افسر نے بتایا کہ بھارت اپنے مختلف ایجنڈوں میں ہمارے خاص جگہوں پر بیٹھے لوگوں کو ماہانہ پیسے دیتا ہے جس کی وجہ سے وہ خاموش رہتے ہیں۔پانی کے معاہدے کو 58 برس ہو چکے، کبھی کسی نے نہیں پڑھا اور سوچا کہ اگر انڈیا ہمارے دریاﺅں پر حق رکھتا ہے تو اپنے دریاﺅں کا پانی ہمارے لئے کیوں بند کر رکھا ہے۔ سابق ریاست بہاولپور کے نواب نے جب چولستان کا علاقہ آباد کرنا شروع کیا تو وہاں مٹی کے کشتے تھے یعنی نہریں بننا تھیں۔ سلیمانکی سے جو نہریں آتی تھیں وہ آگے چولستان جانی تھیں۔ بہاولپور میں چولستان کے بارے میں جو دستاویزات ہیں اس میں درج ہے کہ یہاں ”فوڈ باسکٹ آف پاکستان“ بن رہا ہے جب ستلج سے پانی آ جائے گا۔ جب میں ملتان سے میٹرک کر کے لاہور آیا تھا تو راوی میں بے تحاشا پانی آتا تھا، میں خود اس میں بوٹنگ کرتا رہا ہوں۔ اس زمانے میں زیر زمین 12 سے 14 فٹ پر پینے کا میٹھا پانی مل جاتا تھا۔ اب سارے لاہور کے ٹیوب ویل ساڑھے 6 سو فٹ اور آخری ٹیوب ویل پنجاب اسمبلی کے عقب میں 1350 فٹ نیچے سے پانی لے رہا ہے۔ دریاﺅں کے چارج نہ ہونے کے باعث پانی اتنا نیچے چلا گیا ہے، اگر دریاﺅں کی ری چارجنگ نہیں کرتے تو 15 برسوں میں پاکستان دنیا کے ان 5 ممالک میں شامل ہو گا جہاں پینے کے پانی کی قلت ہے۔ میری رٹ ذاتی نہیں، بہت مطالعہ و ریسرچ کی، کبھی کسی کو پانی کے حوالے سے بات کرتے نہیں سنا۔ میرا موقف ہے کہ سپریم کورٹ حکومت پاکستان کو مجبور کرے، یہ معاملہ عالمی مصالحتی عدالت میں پہنچے اس سے پہلے بھارت سے مذاکرات ہوں اگر راوی و ستلج میں 15 سے 20 فیصد پانی بھی آ جائے تو ملک کا مستقبل بچ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سنکیا دنیا کا خطرناک ترین زہر ہے جسے زیر زمین پانی آئے ہوئے 11 واں سال ہے۔ ہیپاٹائٹس، کینسر، جلدی امراض سمیت مختلف بیماریاں پھوٹ پڑی ہیں۔ راوی میں پورے لاہور کے سیوریج کا پانی آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کی پانی کی 56 کمپنیوں کے حقائق بھی سامنے آ جائیں گے، اگر یہ کام کر رہی ہوتیں تو شہباز شریف صاحب سب سے پہلے میں آپ کو سلیوٹ کرتا کہ آپ نے لاہور کو بچا لیا ہے۔

گلوکار عالم لوہار کی 39ویں برسی 3 جولائی کو منائی جائیگی

لاہور(شوبزڈیسک ) عالمی شہرت یافتہ گلوکار عالم لوہار کی 39 ویں برسی 3 جولائی کو منائی جائیگی ۔ عالم لوھارکا تعلق صوبہ پنجاب کے شہر گجرات کے قریب واقع گاو¿ں”آچھ گوچھ” سے تھا۔انھوں نے اپنی 51سالہ زندگی میں سے تقریباً 35 برس مسلسل اپنے فن کامظاہرہ کیا،ان کے گائے ہوئے لوک گیت، بولیاں، ماہیے، نعتیہ کلام اور سیف الملوک کے علاوہ ”جگنی“،” واجاں ماریاں “،”مرزا صاحبہ“،” ہیررانجھا“،”سسی پنوں“،”پرن بگھت“، ”شاہ نامہ کربلا“سمیت لاتعداد گیتوں نے ملک گیر ہی نہیں بلکہ بیرون ممالک بھی شہرت حاصل کی ملکہ برطانیہ الزبتھ نے اپنی 25ویں سا لگرہ کے موقع پر عالم لوہار کو خاص طور پر اپنے محل میں سننے کے لیے بلوایا۔ سابق صدر جنرل ایوب خان نے عالم لوہار کو ”شیر پنجاب“ کا خطاب بھی دیا۔ ان کی فنی خدمات پر پوری دنیا میں انھیں بہت سے اعزازت سے نوازا گیا اور حکومت پاکستان نےان کی فنی خدمات پر پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا۔ان کی خاص پہچان ان کا چمٹا تھا۔
، ان کی گائی ہوئی ”جگنی “آج بھی لوک موسیقی کا حصہ ہے۔ان کا انتقال تین جولائی 1979ء کو ٹریفک حادثے کی وجہ سے ہوا جس کے بعد انہیں لالہ موسیٰ میں سپردِ خاک کیا گیا۔ عوام نے بڑی تعداد میں جمع ہو کر ان کے مزار پر حاضری دی اور دعائے مغفرت کی۔

اکشے کمار نے فٹ رہنے لئے نیا طریقہ متعارف کروا دیا

ممبئی(شوبزڈیسک)بالی وڈ اداکاراکشے کمار نے فٹ رہنے لئے نیا طریقہ متعارف کروا دیا۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق اکشے کمار کاکہنا ہے کہ فٹ رہنا بہت ضروری ہے آج کل کی نوجوان نسل اس لئے جم کا رخ کرتے ہیں یا مختلف ٹریننر سے تربیت حاصل کرتے ہیں لیکن میں فٹ رہنے کے لئے 150سی175سیڑھیاں چڑھتا ہوں جو فٹ رہنے کے لئے مدد گار ہیں تاہم اس کے لئے پہلے اپنے معالج سے مشورہ ضروری ہے۔اکشے کمار ان دنوں سپورٹس فلم ”گولڈ“ کی عکسبندی میں مصروف ہیں، جو جلد نمائش کے لئے پیش کی جائے گی۔

بلجیم سے ہار کر پاکستان میڈل دوڑسے باہر

بریڈا(سپورٹس ڈیسک)چمپئنزٹرافی ہاکی ٹورنامنٹ میں بلجیم نے پاکستان کو4-2سے ہرادیا۔شکست کے ساتھ گرین شرٹس کی میڈل جیتنے کی امیدیں بھی دم توڑگئیں۔قومی ٹیم اب 5ویں پوزیشن کے پلے آف میچ میں ایکشن میں نظرآئے گی۔ہالینڈکے شہربریڈامیں جاری میگاایونٹ میں پاکستان کو اپنے آخری راﺅنڈرابن میچ میں بلجیم کاچیلنج درپیش تھا۔محمدبلال نے گرین شرٹس کو پہلے کوارٹرمیں برتری دلائی ۔ دوسرے کوارٹرمیں کوئی ٹیم گول نہ کرسکی۔تیسرے کوارٹرمیں تھامس بریلزنے حساب چکادیا۔بلال نے پینلٹی کارنرپرگول کرکے پاکستان کو پھرسبقت دلائی۔اگلے ہی منٹ میں کویسٹرزنے گول کرکے میچ برابر کردیا۔ آخری کوارٹرمیں بلجیم کا پلڑا بھاری رہا۔ چارلیئر اور فلورینٹ کے گولزکی بدولت بلجیم نے4-2کی سبقت حاصل کرلی جوکھیل کے اختتام تک برقراررہی۔میگا ایونٹ میں آج کا پہلا میچ ارجنٹائن اور آسٹریلیا کی ٹیموں کے درمیان کھیلا جائیگا جبکہ دوسرا میچ میزبان ہالینڈ اور بھارت کی ٹیموں کے درمیان کھیلا جائیگا۔۔ پاکستان کی ٹیم میگا ایونٹ میں جمعرات تک محض ایک میچ میں کامیابی حاصل کر پائی تھی۔ اس سے قبل تین میچ کھیل چکی ہے جبکہ تینوں میں ہی اس کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بھارت نے پہلے میچ میں پاکستان کو 4-0 سے شکست دی۔، دوسرے میچ میں آسٹریلیا کی ٹیم انتہائی سخت مقابلے کے بعد پاکستان کو 2-1 سے شکست دی جبکہ تیسرے میچ میں میزبان ہالینڈ نے پاکستان کو بآسانی 4-0 گول سے شکست دی۔پاکستان ٹیم نے اپنے چوتھے میچ میں ارجنٹائن کی ٹیم کو 4-1 گول سے شکست دی۔ میگا ایونٹ میں 6 مختلف ممالک کی ٹیمیں ٹائٹل کے حصول کیلئے پنجہ آزما ہیں۔ چیمپئنز ٹرافی ہاکی ٹورنامنٹ میں شرکت کرنے والی ٹیموں میں دفاعی چیمپئن آسٹریلیا، پاکستان،، بھارت،، میزبان ہالینڈ، ارجنٹائن اور بیلجیئم شامل ہیں۔ آسٹریلیا کی ٹیم ٹائٹل کا دفاع کریگی۔ ٹورنامنٹ میں آج ہفتہ کو فائنل سے قبل آخری دو میچ کھیلے جائینگے اور اس سلسلے میں پہلا میچ ارجنٹائن اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلا جائیگا جبکہ دوسرا میچ ہالینڈ اور بھارت کے درمیان کھیلا جائیگا۔

قومی ٹیم کی بھر پور ٹریننگ ، کل زمبابوے سے ٹاکرا

ہرارے(نیوزایجنسیاں)سہ ملکی ٹی ٹوئنٹی سیریز کے لیے قومی شاہینوں نے زمبابوے میں ڈیرے جما لیے، اونچی اڑان بھرنے کےلئے خوب جان ماری، بیٹنگ، بولنگ کے علاوہ کپتان سرفراز احمد نے وکٹ کیپنگ کے داو¿ پیچ سیکھے۔ پاکستان ٹیم نے درخواست کی تھی کہ میچ وینیو پر پریکٹس کا موقع دیا جائے، میزبان بورڈ نے یہ مطالبہ تسلیم کر لیا اور قومی کرکٹرز نے ہرارے اسٹیڈیم میں بیٹنگ، بولنگ اور فیلڈنگ پریکٹس کی۔ گرانٹ لوڈن وکٹوں کے پیچھے کیچنگ کے لیے سرفراز احمد کو خصوصی پریکٹس کرواتےر ہے۔شاہینوں نے ہرارے میں میزبان زمبابوے سمیت آسٹریلیا کی سہ ملکی ٹی 20 سیریز کیلئے جم کر نیٹ پریکٹس کی، قومی ٹیم نے مشکل گیند کھیلنے کی خصوصی پریکٹس بھی کی، کپتان سرفراز احمد بھی وکٹ کیپنگ کی خصوصی مشقیں کرتے ہوئے نظر آئے۔حسن علی، فہیم اشرف، محمد نواز سمیت بولرز نے سوئنگ اور اسپن میں کمال دکھایا۔ ٹی 20 سیریز کا افتتاحی مقابلہ یکم جولائی کو پاکستان اور زمبابوے کے درمیان شیڈول ہے۔ اسکے اگلے ہی روز ناکامیوں سے دوچار آسٹریلوی شاہینوں کا سامنا کریں گے پاکستان، زمبابوے اور آسٹریلیا کے درمیان سہ ملکی ٹی ٹوئنٹی سیریز کا آغاز یکم جولائی سے ہوگا۔ گرین شرٹس افتتاحی میچ زمبابوے کے خلاف کھیلیں گے، ٹی ٹوئنٹی سیریز کے بعد قومی ٹیم 13 جولائی سے زمبابوے کےخلاف 5 ون ڈے میچز کی سیریز بھی کھیلے گی۔

انتخابی مہم زور شور سے جاری، امیدواروں کے دفتروں میں بہار آ گئی ، چینل ۵کے پروگرام ” ہاٹ لنچ “ کے سروے کے دوران نمائندگان کا اظہارخیال

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) الیکشن 2018ءکے حوالے سے سیاسی جماعتوں کی ایک دوسرے کو ٹکٹ دینے کے لیے انتخابی مہم دن رات جاری ہے۔ تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور اے این پی کی ملک بھر میں انتخابی حلقوں میں کارنر میٹنگز کا آغاز ہوتے ہی ایک مرتبہ پھر عوام سے وعدوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ جبکہ ووٹرز نے بھی اپنے مطالبات رکھنے شروع کردیئے ہیں کہ وہ جانتے ہیں مطالبات ابھی پورے ہوسکتے ہیں الیکشن کے بعد امیدوار نظر آئیں نہ آئیں۔ چینل فائیو کے پروگرام ”ہاٹ لنچ“ میں ملک بھر کے مختلف شہروں کے سیاسی حلقوں کی صورتحال سے آگاہ کیا گیا۔ پروگرام میں کوئٹہ سے نمائندہ چینل فائیو غلام جیلانی نے بتایا کہ کوئٹہ میں انتخابات کا دنگل سج چکا ہے۔ تاہم انتخابی نشان کی الائمنٹ مکمل نہ ہونے کی وجہ سے کچھ انتخابی دفتر قائم نہیں ہوسکے۔ مگر اے این پی، پیپلزپارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی اور جمعیت علما اسلام کی انتخابی مہم زوروں سے جاری ہے۔ مظفر گڑھ سے انتخابی مقابلہ کی صورتحال بتائے ہوئے نمائندہ چینل فائیو شیخ فیصل فراز نے کہا کہ انتخابی گہما گہمی مظفر گڑھ میں بھی عروج پر ہے۔ این اے 182سے کل 23 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے جانے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی جانب سے قاسم اور تحریک انصاف کی جانب سے سابقہ ایم پی اے امجد علی خان دستی کی صاحبزادی تہمینہ دستی کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔ جبکہ پیپلزپارٹی کی جانب سے کسی کو ٹکٹ جاری نہیں کیا گیا تاہم ملک منیر ربانی کھر یا انکی صاحبزادی حنا ربانی کھر متوقع امیدوار ہوسکتی ہیں۔ جبکہ مضبوط امیدوار کے طور پر جمشید دستی این اے 182سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ سوات سے نمائندہ ناصر اقبال نے سیاسی سرگرمیوں اور اے این پی کے سجائے گئے پنڈال میں بلند وبانگ دعوو¿ں کی صورتحال بتائے ہوئے کہا کہ سوات میں عوامی نیشنل پارٹی اپنی قوت کا مظاہرہ کررہی ہے۔ اس موقع پر عوامی نیشنل پارٹی میں شامل ہونے والے امیدوار شاہ دوران خان نے چینل فائیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ خاندانی طور پر اے این پی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور دو مرتبہ اے این پی کی طرف سے ضلعی ناظم منتخب ہوچکے ہیں۔ غلط فہمیوں کی بنا پر پارٹی چھوڑ نے کے بعد سوچا کہ امید وار ہوتی اور اسفندیار ولی کے علاوہ غریب بیچارے پختونوں کی خدمت کوئی نہیں کرسکتا۔ اور فیصلہ کیا کہ دوبارہ اے این اپی میں شمولیت اختیار کروں۔ میرے ساتھ مختلف پارٹیوں کے لوگ یونین کونسل کے ناظم ناصر خان، متحدہ لیبر یونین سوات کے صدر اے این پی میں شامل ہورہے ہیں۔ جسکے بعد اس حلقے کی سیٹ واجد عثمان اور اے این پی جیتے گی۔ پروگرام میں شیخوپورہ سے نمائندہ چینل فائیو شیخ جاوید نے صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ شیخو پورہ میں تمام پارٹیوں کے کارکنان پر جوش الیکشن مہم چلارہے ہیں۔ بینرز اور سٹیکرز سے شیخوپورہ کو سجایا گیا ہے۔ شیخوپورہ کی 5تحصیلوں میں قومی اسمبلی کی چار اور صوبائی اسمبلی کی 9نشستوں پر الیکشن ہونے جارہا ہے۔ پیپلزپارٹی کا منی لاڑکانہ اب (ن) لیگ کا گڑھ سمجھا جارہا ہے۔ (ن) لیگ کے شیخوپورہ سے قومی اسمبلی کے مضبوط امیدواروں میں وفاقی وزیر رانا تنویر حسین انکے بھائی رانا افضال، سردار عرفان اور میاں جاوید لطیف الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ انکے مقابلے میں (ق) لیگ کے سعید ملک اور تحریک انصاف کے امیدوار پر جوش نظر آرہے ہیں۔ بہاولپور سے نمائندہ چوہدری لقمان نے سیاسی اکھاڑ اچھاڑ کے حوالے سے کہا کہ تحریک انصاف کیساتھ ساتھ مسلم لیگ (ن) نے بھی اپنے قومی وصوبائی امیدواروں کا اعلان کردیا ہے۔ بہاولپور کی قومی نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کی جانب سے میاں بلیغ الرحمان، میاں ریاض، حسین پیرزادہ، چوہدری مجید اور میاں نجیب الدین اولیسی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جبکہ صوبائی اسمبلی کی سیٹوں پر (ن) لیگ کے اقبال چندا، رانا محمد طارق، کاظم پیرزادہ، افضل گل، خالد محمود ججا، ملک خالد اور میاں شعیب اولیسی امیدوار ہیں۔ تحریک انصاف کی جانب سے بھی انکے مقابلے میں امیدوار ٹکر دینے کو تیار ہیں۔

 

براہ مہربانی میرے لیے بیٹے کی نہیں بلکہ بیٹی کی دعا کریں،ثانیہ

ممبئی(نیوزایجنسیاں) بھارتی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا کاکہنا ہے کہ براہ مہربانی میرے لیے بیٹے کی نہیں بلکہ بیٹی کی دعا کریں۔ بھارتی ٹینس اسٹار اور پاکستانی کرکٹر شعیب ملک کی اہلیہ ثانیہ مرزا ان دنوں امید سے ہیں انہوں نےاور شعیب ملک نے یہ خبر اپنے تمام چاہنے والوں کے ساتھ سوشل میڈیا پر بہت محبت سے شیئر کی تھی، یہی وجہ ہے کہ یہ خبر سن کر پاکستانی اور بھارتی عوام میں خوشی کی لہردوڑ گئی تھی اور اب ان کے چاہنے والے بے چینی سےانتظار کررہے ہیں کہ ان کے پسندیدہ کھلاڑی بیٹے کے والدین بنتے ہیں یا بیٹی کے، تاہم ثانیہ مرزا چاہتی ہیں کہ ان کے گھر بیٹی کی پیدائش ہو اور انہوں نے تمام لوگوں سے کہا ہے کہ ان کے لیے بیٹی کی دعا کریں۔