مشترکہ امیدوار لانے میں اپوزیشن پھر تقسیم ، وجہ کیا بنی ؟

اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) وزارت عظمیٰ کیلئے مسلم لیگ (ن) کے نامزد اُمیدوار شاہد خاقان عباسی، تحریک انصاف کے اُمیدوار شیخ رشید احمد اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کاغذات نامزدگی حاصل کرلیے۔ خورشید شاہ نے اپوزیشن کے متفقہ اُمیدوار کے لیے 6 کاغذات حاصل کیے۔ تمام اُمیدوار آج قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں کاغذات جمع کرائیں گے، آج ہی کاغذات کی جانچ پڑتال ہوگی اور حتمی اُمیدواروں کی فہرست جاری کی جائے گی۔ نئے وزیراعظم کا انتخاب کل قومی اسمبلی کے اجلاس میں رائے شماری کے ذریعے ہوگا۔ شاہد خاقان کے بھاری اکثریت سے وزیراعظم منتخب ہونے کا امکان ہے۔ توقع ہے کہ وہ منگل کو ہی حلف اُٹھالیں گے۔ (ن) لیگ کو قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل ہے جبکہ اسے جمعیت علمائے اسلام (ف)، مسلم لیگ (فنکشنل)، پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی اور فاٹا کے اراکین کی حمایت حاصل ہے جبکہ ایم کیو ایم بھی شاہد خاقان کو ووٹ دے سکتی ہے۔ (ن) لیگ کی قومی اسمبلی میں 188 نشستیں ہیں جبکہ سادہ اکثریت کے لیے 172 ارکان کی حمایت درکار ہے۔ جے یو آئی (ف) کے 13، پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی 3، مسلم لیگ (فنکشنل) کے 5، نیشنل پارٹی کے ایک رُکن کی بھی انہیں حمایت حاصل ہے۔ مسلم لیگ (ضیا) ایک، نیشنل پیپلزپارٹی کے 2 اور آل پاکستان مسلم لیگ کے ایک ممبر کی جانب سے شاہد خاقان عباسی کو ووٹ دیئے جانے کا امکان ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شیخ رشید نے کہا وہ جلد ہی شاہد خاقان عباسی کے خلاف ایل این جی ٹھیکے سے متعلق کیس دائر کریں گے۔ شہبازشریف بھی حدیبیہ پیپرز کیس میں پھنس جائیں گے کیونکہ وہ اس میں مرکزی کردار ہیں۔ ایاز صادق نے کہا کہ ملک میں چیف ایگزیکٹو کے حوالے سے خلاءپایا جاتا ہے اس لیے مختصر ترین وقت میں وزیراعظم کا انتخاب کرایا جارہا ہے۔ آئین کے مطابق ڈویژن کی بنیاد پر وزیراعظم کا انتخاب کھلی رائے شماری کے ذریعے ہوگا۔ ادھر نئے وزیراعظم کے لیے مشترکہ اُمیدوار کے معاملے پر اپوزیشن پھر تقسیم ہوگئی ہے۔ تحریک انصاف کی جانب سے شیخ رشید نے کاغذات نامزدگی حاصل کیے ہیں جبکہ عوامی نیشنل پارٹی اور قومی وطن پارٹی نے شیخ رشید پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے اپوزیشن جماعتوں کے پارلیمانی رہنماو¿ں کا اجلاس آج اپنے چیمبر میں بلا رکھا ہے جس میں وزارت عظمیٰ کے لیے مشترکہ اُمیدوار لانے پر غور کیا جائے گا۔ ایک بیان میں خورشید شاہ نے کہا عمران خان نے شیخ رشید کو وزارت عظمیٰ کا اُمیدوار بنانے کے معاملے پر اعتماد میں نہیں لیا۔ مشترکہ اپوزیشن کے اجلاس سے پہلے وزیراعظم کے اُمیدوار کا اعلان زیادتی ہوگی۔ تمام اپوزیشن جماعتوں سے اس لیے رابطہ کیا کہ وزارت عظمیٰ کا مشترکہ اُمیدوار لانا چاہیے جس کے لیے آج ملاقاتیں ہوں گی۔ اپوزیشن لیڈر نے فاٹا کے پارلیمانی لیڈر شاہ جی گل آفریدی سے بھی فون پر بات کی اور اجلاس میں شرکت کی دعوت دی۔ قومی وطن پارٹی کے ترجمان نے بتایا کہ طے ہوا تھا کہ اپوزیشن کے مشترکہ اُمیدوار کا معاملہ تمام جماعتیں مل کر کریں گی جبکہ اے این پی کے رہنما غلام احمد بلور کا کہنا ہے کہ شیخ رشید مشترکہ اپوزیشن کے اُمیدوار نہیں اور حتمی فیصلہ آج ہونے والے اجلاس میں کیا جائے گا۔ اے این پی کے مطابق اگر اپوزیشن کا متفقہ اُمیدوار سامنے نہ آسکا تو وہ وزیراعظم کے انتخاب کے لیے رائے شماری میں حصہ نہیں لے گی۔ شیخ رشید نے کہا اپوزیشن کا اُمیدوار میں بنوں یا کوئی اور، متفقہ ہونا چاہیے۔ ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ن) نے وزارت عظمیٰ کے انتخاب پر حمایت حاصل کرنے کے لیے متحدہ قومی موومنٹ سے رابطہ کیا تاہم ایم کیو ایم پاکستان نے جواب دیا کہ اگر وزیراعظم کا اُمیدوار خود بات کرنے آئے گا تو بات کریں گے جبکہ پاکستان مسلم لیگ ق کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے قومی اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں وزیراعظم کے عہدے کے انتخاب کیلئے اپوزیشن جماعتوںکا متفقہ امیدوار سامنے لانے کیلئے مختلف سیاسی جماعتوں سے ٹیلی فونک رابطے کئے ہیں اس سلسلے میں گزشتہ روز چوہدری شجاعت نے پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنماءاور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشد احمد شاہ اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق سے ٹیلی فونک رابطہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ نوازشریف نے آج (ن) لیگی ارکانِ اسمبلی کو مری طلب کرلیا ہے تاکہ کل عبوری وزیراعظم کے انتخاب کے معاملے پر متفقہ حکمت عملی تیار کی جاسکے۔ ذائع نے بتایا کہ ناراض ایم این ایز کی شکایات بھی دور کی جائیں گی تاکہ (ن) لیگی اُمیدوار کو بھاری اکثریت مل سکے۔
عبوری وزیراعظم

این اے 120ضمنی الیکشن،تاریخ میں پہلی بار وہ ہوگا جو پہلے کبھی نہ ہوا

اسلام آباد(ویب ڈیسک) الیکشن کمیشن نے این اے 120 کے ضمنی الیکشن میں بائیو میٹرک مشینوں کا تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے این اے 120 کے ضمنی الیکشن میں بائیو میٹرک مشینوں کا تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ذرائع کے مطابق 150 کے قریب الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں الیکشن کمیشن کو موصول ہوچکی ہیں تاہم ضمنی انتخاب کا شیڈول جاری ہونے کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن نادرا سے ووٹرز کا ڈیٹا حاصل کرے گا اور پھر فیصلہ کیا جائے کہ کس پولنگ اسٹیشن پر مشینیں نصب کی جائیں۔واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ کی جانب سے وزیراعظم کو نااہل کیے جانے بعد لاہور کے حلقہ این اے 120 کی سیٹ خالی ہوگئی تھی جب کہ اب آئندہ ضمنی الیکشن میں (ن) لیگ کی جانب سے شہباز شریف جب کہ تحریک انصاف کی جانب سے یاسمین مدمقابل ہوں گی۔

جمہوریت اور پارلیمنٹ کو خطرہ نہیں

لاڑکانہ (بیورورپورٹ) چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی احتساب پر یقین رکھتی ہے نواز شریف کے خلاف فیصلے سے جمہوریت اور پارلیمنٹ کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ حکومت سندھ صحت کی سہولیات فراہم کرنے کیلئے انقلابی اقدامات اٹھا رہی ہے میں وزیر اعلی پنجاب سمیت تینوں صوبوں کے وزیر اعلی کو چیلنج کرتا ہوں کہ ایسا ادارہ اپنے صوبوں میں بنا کر دکھائیں ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوا رکو لاڑکانہ میں این آئی سی وی ڈی سینٹر کے افتتاحی تقریب کے موقع پر شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ لاڑکانہ کی عوام نے پی پی پی کیلئے لاتعداد قربانیاں دیں ہمیں بھرپور عزت دی جن کا ہم پر قرض ہے شہید ذوالفقار علی بھٹو نے 1973 میں چانڈکا میڈیکل کالج کی بنیاد رکھی جس وقت یہ سہولیات صرف ملک کے بڑے بڑے شہروں میں موجود تھیں پی پی پی حکومت ان کے مشن کو آگے اسپتالوں وکو اپ گریٹ کرنے کے ساتھ صحت کی بنیادی سہولیات صوبے کے کونے کونے میں فرائم کر رہی انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت بہتر نتائج دے رہی ہے اور ان پر اعتماد کے باعث ہی ایسے ادارے بن رہے ہیں ان کا کہنا تھا کہ شہید محترمہ نے اپنے دور اقتدار میں لیڈی ہیلتھ ورکرز بھرتی کرکے صوبے کے گھر گھر تک صحت کی سہولیات فراہم کیں تھیں انہوں نے کہا کہ این آئی سی وی ڈی ایک اچھا ادارہ ہے جو بہتر کام کرتا ہے جو قریبی اضلاع کے لوگوں کو بھی سہولیات مفت فراہم کرے گا نئی عمارت کی تعمیر کے کارڈیالوجی سرجری بھی شروع کی جائے گی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد 2011 میں این آئی سی وی ڈی وفاق سے صوبے کے حوالے اور رواں سال ہم نے اس کا بجٹ چار ارب روپے بڑھا کے 5.8 ارب روپے کردیا ہے کراچی کے بعد رواں سال لاڑکانہ سکھر،ٹنڈو محمد خان اور سکھر میں یہی سینٹرز قائم کئے جارہے ہیں جبکہ اگلے سال میرپورخاص خیرپور اور بوابشاہ میں یہ مراکز قائم ہوں گے انہوں نے مزید کہا کہ جہاں ہم خود کو کمزور محسوس کرتے ہیں وہیں پرائیوٹ سیکٹر اور نجی اسپتالوں کے ساتھ مل عوام کو صحت کی مطلوبہ سہولیات فراہم کر رہے ہیں سندھ میں پی پی پی 1970 سے عوام کی حمایت یافتہ ہے ہم آصف زرداری اور بلاول بھٹو کی سرپرستی میں عوام کی خدمت کر رہے ہیں دیگر سیاستدان صف باتیں اور ہم کام کرتے ہیں جس کی مثال ایسی اداروں کا قیام ہے اس موقع پر نثار کھوڑو ڈاکٹر سکندر میندرو و دیگر بھی موجود تھے۔

نئے وزیراعظم کیلئے 2,4نہیں کتنے امیدوار میدان میں ….دیکھئے اہم خبر

اسلام آباد(ویب ڈیسک) وزیر اعظم کے عہدے کے لیے اپوزیشن جماعتیں کسی ایک امیدوار پر متفق نہ ہوسکیں جس کی وجہ سے اب اس منصب کے 6 امیدوار میدان میں آگئے ہیں۔پارلیمنٹ میں موجود اپوزیشن جماعتیں مسلم لیگ (ن) کے مد مقابل اپنا کوئی متفقہ امیدوار سامنے لانے میں ناکام ہوگئی ہیں، جس کے بعد شاہد خاقان عباسی کے مقابلے میں اپوزیشن کے 5 امیدواروں نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرادیئے ہیں۔عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے اپنے تجویز کنندہ شاہ محمود قریشی کے ہمراہ کاغذات نامزدگی جمع کرادئے۔ انہیں تحریک انصاف کے علاوہ مسلم لیگ (ق) کی بھی حمایت حاصل ہے، پیپلز پارٹی کی جانب سے خورشید شاہ اورسید نوید قمر نے وزارت عظمیٰ کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے، جب کہ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ایم کیو ایم کی جانب سے کشور زہرہ نےکاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی کے صاحب زادہ طارق اللہ نے بھی کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔ جانچ پڑتال کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے تمام امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور کرلیے۔

نامزد وزیراعظم کس حیثیت سے بنایا گیا؟….بات سپریم کورٹ تک جاپہنچی

اسلام آباد(ویب ڈیسک)نامزد وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ شاہد خاقان کو عبوری وزیراعظم نامزد کرنے پر حکم امتناعی جاری کیا جائے۔پاکستان مسلم لیگ(ن) کی جانب سے وزیراعظم کے لیے نامزد امیدوار شاہد خاقان عباسی کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف عدالتی فیصلے کے بعد پارلیمانی اور پارٹی سیاست سے نا اہل ہوگئے لہذا ان کے پاس شاہد خان عباسی کو عبوری وزیراعظم نامزد کرنے کا اختیار نہیں تھا۔درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ شاہد خاقان عباسی کے خلاف ایل این جی درآمد کا معاملہ نیب میں زیرالتواءہے، شاہد خاقان نے پیپرا رولز کی خلاف ورزی کر کے ایل این جی کا ٹھیکہ دیا اور خلاف قواعد ایل این جی ٹھیکہ دے کر قومی خزانہ کو نقصان پہنچایا۔

طاہر القادری نے بھی سیاسی مخالفین کو بڑی مشکل میں ڈال دیا

لاہور (ویب ڈیسک) پاکستان میں جاری سیاسی ہل چل کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری نے 8 اگست کو وطن واپس آنے کا اعلان کردیا۔طاہر القادری نے بیرونی ملک مصروفیات منسوخ کرتے ہوئے پاکستان واپس آنے کا اعلان کردیا اور ایک مرتبہ پھر شریف خاندان کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع کرنے کا عندیہ دے دیا۔سربراہ عوامی تحریک کی آمد پر 8 اگست کو پارٹی کارکنان ان کا لاہور ائر پورٹ پر استقبال کریں گے۔یاد رہے کہ ملک میں سیاسی ہل چل کے حوالے سے حال ہی میں عوامی تحریک کے سربراہ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک ٹوئٹ میں مطالبہ کیا تھا کہ باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ کو منظر عام پر لایا جائے اور سانحہ ماڈل ٹاو¿ن میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ان کا اپنے پیغام میں مزید کہنا تھا کہ ہماری جدوجہد اس نظام کے خلاف ہے جس میں امیر اور غریب طبقے کے لیے علیحدہ قانون ہیں اور کمزور پر مزید دباو¿ ڈالا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ سیاستدان آئین کے آرٹیکل 62، 63 کو ختم کرنے کے درپے ہیں تاکہ کرپشن کو محفوظ کیا جاسکے اور ان کے خلاف نااہلی کی تلوار نہ لٹکتی رہے۔

دوسرے شریف کو بھیجو گے تو تیسرا شریف لائینگے

لاہور (ویب ڈیسک) سابق وفاقی وزیر ریلوے اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ اگر اس ملک میں صادق اور امین کا تماشا لگایا گیا تو بات بہت دور تک جائے گا، ایک شریف گیا تو دوسرا آرہا ہے لیکن اگر دوسرے شریف کو بھیجوگے تو تیسرے شریف کو لائیں گے۔ سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے تسلیم کیا کہ پاکستان کے آئین کی شق 62 اور 63 کو آئین سے نہ نکالنا حکمراں جماعت کی نااہلی ہے، معلوم نہیں تھا کہ 62 اور 63 ہمارے لیے 58 ٹو بی بن جائے گا۔

مسلم لیگ کے دونوں امیدوار نااہل ،سنسنی خیز انکشاف نے ہلچل مچادی

اسلام آباد(ویب ڈیسک) پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے وزارت عظمیٰ کےلیے عارضی اور مستقل دونوں امیدوار نااہل ہیں۔اسلام آباد میں اپوزیشن اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مسلم لیگ ن نے عارضی اور مستقل دونوں نااہل امیدوار نامزد کیے ہیں، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا حدیبیہ اور نیب ریفرنس میں ذکر ہے اور ان کی نااہلی کے امکانات ہیں، وہ وزارت عظمیٰ کا الیکشن لڑنے کی اہلیت نہیں رکھتے، پی ٹی آئی شاہد خاقان عباسی اور شہباز شریف کے کاغذات نامزدگی پر اعتراضات اٹھائے گی اور (ن) لیگ کو ان دونوں امیدواروں پر نظر ثانی کرنی پڑے گی۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ انہوں نے دیگر اپوزیشن رہنماو¿ں سے درخواست کی ہے کہ پاناما کیس میں کلیدی کردار ادا کرنے پر شیخ رشید کو وزیراعظم کا امیدوار بنانا چاہیے، پاناما کیس میں سب سے اہم کردار عمران خان، پھر سراج الحق اور شیخ رشید نے ادا کیا ہے، شیخ رشید نے نہ صرف سیاسی جنگ بلکہ قانونی جنگ بھی لڑی، اس لیے انہیں اپوزیشن کا متفقہ امیدوار بننے کا اعزاز ملنا چاہیے، تاہم باقی اپوزیشن جماعتوں نے اس پر غور کرنے کے لیے مہلت مانگی ہے، باہمی مشاورت کا عمل جاری ہے اور کوشش ہے کہ اپوزیشن متفقہ امیدوار لانے میں کامیاب ہوجائے۔

صوفی بزرگ جناب برکت لدھیانویؒ کی وہ دعا جو سچ ثابت ہو گئی

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی کچھ پرانی تصاویر کے مطابق ایک معروف صوفی بزرگ جناب محترم برکت لدھیانویؒ نے میاں صاحب کے لیے دعا فرماتے ہوئے کہا تھا “جائو تمھیں سرداری سونپی” تم تین بار اقتدار میں آؤ گے اور صوفی صاحب کا کہنا درست ثابت ہوا ، نواز شریف تین بار اقتدار میں آئے ۔پیش گوئی کے حوالے سے دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ نواز شریف آئندہ سیاست میں نہیں آسکیں گے ۔ واضح رہےکہ صوفی محمد برکت علی لدھیانویؒ1911ءکو موضع برہمی ضلع لدھیانہ (انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ آپؒ کے والد گرامی کا اسم

مبارک حضرت میاں نگاہی بخش تھا۔ آپؒ نے اپنے وقت کے معروف بزرگ شاہِ ولایت حضرت شیخ سید امیر الحسن سہارنپوریؒ کے دستِ مبارک پر بیعت کی۔ آپؒ نے19 اپریل1930ءکو فوج میں شمولیت اختیار کر لیا۔ 1923ءمیں آپؒ انڈین ملٹری اکیڈمی کے وائی کیڈٹ منتخب ہوگئے۔ کور کمانڈر جنرل وِچ، آپؒ کی شخصیت سے بے حد متاثر تھے اور وہ آپؒ کی تقلید میں رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں کچھ نہ کھاتے پیتے تھے۔ فوجی ملازمت کے دوران آپؒ اپنے فرائض سے فارغ ہو کر اکثر و بیشتر کلیر شریف میں حضرت علاو¿ الدین علی احمد صابرؒ کے مزارِ پُر انوار پر حاضری دیتے اور وہاں ساری ساری رات مجاہدہ میں گزار دیتے۔ جوں جوں آپؒ کا سینہ صابری مے سے لبریز ہوتا گیا۔ آپؒ کی حالت روز بروز بدلتی گئی۔ بالآخر آپؒ نے 22 جون1945ءکو فوج سے استعفیٰ دے دیا۔ اس وقت جنگ عظیم جاری تھی اور اس نازک وقت میں آرمی سے استعفیٰ برٹش حکومت سے غداری کے مترادف تھا، جس کی سزا کالا پانی، عمر قید یا پھانسی تھی۔ابتداءمیں برٹش حکومت کی طرف سے آپ کو فیصلہ تبدیل کرنے کے لئے طرح طرح کے لالچ دئیے گئے، لیکن جب آپؒ ان کے دام میں نہ آئے تو آپؒ کو زہر دے دیا گیا۔ خدا کی قدرت کہ آپؒ کو ایک قے آئی، جس سے زہر خارج ہوگیا۔ بعد ازاں آپؒ کو کورٹ مارشل میں بھی باعزت بری کر دیا گیا۔ فوجی وردی اتارنے کے بعد آپؒ نے عہد کیا کہ باقی زندگی ان کاموں میں صرف کروں گا۔ -1 ذکر اللہ-2 دینِ اسلام کی دعوت و تبلیغ-3 اللہ کی مخلوق کی بے لوث خدمت ۔قیامِ پاکستان کے بعد آپؒ نے کچھ عرصہ گجرات میں قیام کرنے کے بعد حافظ آباد کے قصبہ سکھیکی میں کیمپ لگایا اور یہاں ایک سال تک مقیم رہے۔بعد ازاں آپؒ نے سالار والا (موجودہ دارالاحسان) کو اپنی دینی، تبلیغی و رفاعی سرگرمیوں کا مرکز بنایا جو جلد دنیائے اسلام میں دارالاحسان کے نام سے مشہور ہوگیا۔ اس مقام پر آپؒ نے ایک خوبصورت مسجد، دو چھوٹی مساجد ایک دینی درسگاہ۔ قرآن کریم محل، مینار بیاد اصحاب بدرؓ اور ایک بہت بڑا فری ہسپتال قائم کیا۔ جہاں ہزارہا مریضوں کو نہ صرف علاج معالجہ کی مفت سہولتیں فراہم کی جاتیں، بلکہ ان کے خورد و نوش کا بھی اہتمام کیا جاتا اور اس کے معاوضہ میں ایک پیسہ تک وصول نہ کیا جاتا۔اس طرح دارالاحسان میں روحانی علاج کے ساتھ ساتھ جسمانی علاج بھی کیا جاتا۔1984ءمیں باواجی سرکار فیصل آباد کے قریب دسوھہ سمندری روڈ پر تشریف لے گئے۔ اس مقام کو المستفیض دارالاحسان سے منسوب کیا گیا۔ یہاں بھی آپؒ نے ایک خوبصورت قرآن کریم محل اور ایک بہت بڑا فری ہسپتال قائم کیا۔ حضرت صوفی محمد برکت علی لدھیانویؒ ایک انقلاب آفریں شخصیت تھے، جنہوں نے خانقاہی نظام کو ایک نئی جہت دے کر اسے ترو تازگی بخشی۔ آپؒ نے عام سجادہ نشینوں کے برعکس کچی جھونپڑیوں میں ڈیرہ جما کر نہ صرف لاکھوں انسانوں کی کایا پلٹ ڈالی،بلکہ عمل و کردار کا ایسا انمول نمونہ پیش کیا، جس کے تذکرے رہتی دنیا تک ہوتے رہیں گے۔وقت کے بڑے بڑے امرائ، روسا، شہنشاہ اور وزراءآپؒ کی خدمت میں حاضر ہوتے، لیکن کسی کو آپؒ کے آگے دم مارنے کی ہمت نہ ہوتی۔ بڑے بڑے حکمران، وزراءلاکھوں روپے جیبوں میں لے کر آپؒ کے حضور پیش کرنے کے لئے کھڑے ہوتے، لیکن آپؒ بے نیازی سے انہیں جواب دیتے ہوئے ایک پائی بھی قبول نہ کی اور فرماتے کہ جس خدائے بزرگ و برتر کی میں ڈیوٹی سر انجام دے رہا ہوں۔اُسی میرے مالک نے اس نظام کو چلانے کا بندوبست کر رکھا ہے۔ امریکہ کے ایک رفاعی ادارہ نے 1992ءمیں آپؒ کو 5 ارب روپے سے زیادہ مالی پیش کش کی، مگر آپؒ نے اسے بھی قبول نہ کیا۔ حضرت صوفی محمد برکت علی لدھیانویؒ نے عمر بھر اس اصول پر مداومت فرمائی کہ آج کا مال آج ہی ختم ہو۔ کل کی روزی کل ملے گی۔ نیز فرماتے کہ ہماری روزی پرندوں کی طرح ہے جو صبح گھونسلوں سے بھوکے اٹھتے ہیں، لیکن شام کو سیر ہو کر لوٹا کرتے ہیں۔ آپؒ کی زندگی اقبالؒ کے اس مصرع کے مصداق تھی کہ میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے۔خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر ۔

سینئر ترین جج بارے تحقیقات, سعد رفیق نے نیا پنڈورا باکس کھول دیا

لاہور( اپنے سٹاف رپورٹر سے) پاکستان مسلم لیگ (ن ) نے سوشل میڈیا پر عمران خان کی طرف سے سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج کے حوالے سے سامنے آنے والے انٹر ویو کی تحقیقات اوروضاحت کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جاوید ہاشمی کے دھرنا ون او ر اس کے بعد کے بیانات ریکارڈ کا حصہ ہیں،ایک شریف گیا ہے تو دوسرا شریف آ گیا ہے اگر یہ بھی جائے گا تیسرا اور چوتھا بھی آئے گا لیکن عمران خان صاحب آپ کی تو اپنی کوئی پروڈکشن نہیں آپ کی جماعت تو بانجھ ہے ،عمران خان آج کل بڑی بغلیں بجا رہے ہیں اور مٹھا ئیاں کھا رہے ہیں لیکن ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ آپ کو یہ ہضم نہیں ہو گی اور آپ کو الٹی کرنا پڑے گی، ہماری نالائقی تھی کہ ہم 62اور63کو نہیں نکال سکے اور ہمیں کیا معلوم تھا کہ یہ 58ٹو بی بن جائے گی ،واضح کہتے ہیں کہ کوئی ادارہ ملوث نہیں لیکن افراد سے گلے شکوے ضرور ہیں ، ہم عمران خان سمیت کسی کو انتقام یا نفرت کا نشانہ نہیں بنائیں گے کیونکہ اگر ہم ایسا کریں گے تو ملک کو ریورس گیئر لگ جائے گا ۔ ان خیالات کا اظہار مسلم لیگ(ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے صوبائی وزراءرانا مشہود احمد خان ، زعیم حسین قادری اور دیگر کے ہمراہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ نواز شریف کو ان کے سیاسی رفقاءاور لیگل ٹیم نے مشورہ دیا کہ اندھا اعتماد نہ کریں لیکن اس کے باوجود انہوں نے آنکھیں بند کر پاکستان کے نظام عدل پر اعتماد کیا ۔ ہمیں گاڈ فادر کہا گیا ، مافیا کہا گیا ہم نے اس پر سوال ضرور اٹھایا لیکن ہم عدالت کو متناعہ نہیں کرنا چاہتے تھے ہم نہیں چاہتے تھے کہ اس سے کوئی خلیج بڑھے ۔ انہوں نے کہا کہ حسین نواز کی تصویر لیک کا معاملہ ہوا جس پر ہم نے سوال اٹھایا تو اس کا ملبہ ہم پر ہی ڈال دیا گیا ،ہم معلوم ہو نے کے باوجود نہیں بولے تاکہ ماحول میں تلخی پیدا نہ ہو ۔ جے آئی ٹی نے جورپورٹ پیش کی ہے وہ چھ آدمی دو ماہ میں مکمل نہیں کر سکتے ہاں البتہ چھ سو آدمی ضرور کر سکتے ہیں کیا جے آئی ٹی کی رپورت جنات نے بنا ئی ۔ انہوں نے کہا کہ ہم جے آئی ٹی کا بائیکاٹ کر سکتے تھے لیکن ہم نے فیصلہ کیا کہ یہ سب سے بڑی عدالت کا حکم ہے اور اس کی حکم عدولی نہیں کرنی اور آئندہ بھی حکم عدولی نہیں ہو گی ۔ ہمیں پتہ تھاکہ ہمیں میدان خار زار میں دھکیلا جارہا ہے جہاں کانٹے بچھے ہوئے ہیں یا بچھائے ہوئے ہیں لیکن ہم اس پر چلے اور ہمارے پاﺅں لہو لہان ہوئے لیکن ہم چلتے رہے ۔ انہوںنے کہا کہ بڑا شور کیا گیا بلکہ دھاندلی کے شور سے بڑھ کر آواز تھی کہ پاکستان کو لوٹ کر کھا گئے اور جس طرح دھاندلی کا ماتم کرتے ہوئے عدالت میں گئے اورکوئی ثبوت نہیں تھا ۔انہوں نے پاناماہ پیپر کا موقع کیوںہاتھ سے جانے دینا تھا ۔ آج یہ سوال کیا جاتا ہے کہ پانچ رکنی معز ز بنچ نے کس بنیاد نا اہلیت کا فیلہ کیا ،کیا منی لانڈرنگ، کرپشن ،جائیدادوں ، عہدے کے ناجائز استعمال کے نتیجے پر فیصلہ کیا گیا ،20 کروڑ کے ملک میں کروڑوں عوام کے ووٹوں سے آنے والے ، ملک کو ایٹمی طاقت بنانے والے وزیر اعظم کو کیوں نا اہل کیا گیا اور یہ سوال صرف ہمارے ذہنوں میں ہی نہیں بلکہ ہمارے مخالفین ، مسلم لیگ کی سوچ نہ رکھنے والوںکے ذہن میں بھی ہے جو آزاد سوچ رکھتے ہیں سب کے ذہنوں میں یہ سوال ہے ، عاصمہ جہانگیر ، عابد حسن منٹو،سپریم کورٹ کے موجودہ صدر جو نواز شریف سے استعفیٰ مانگ رہے تھے، علی احمد کرد بلکہ سبھی ریٹائرڈ جج صاحبان یہ سوچ رہے ہیں اور پوچھ رہے ہیں کہ یہ کیا ہوا ۔ عدالتی فیصلے میں اثاثے کی نئی تعریف کر دی گئی ہے ، دس ہزار درہم کی تنخواہ جو ملنی تھی لیکن نہیں لی لیکن آپ کو وہ بتانا چاہیے تھا کہ وہ آپ کو مل سکتی ہے لہٰذا آ پ نا اہل ہو گئے ہیں ، آف شور کمپنی ، کرپشن کے الزامات یہ سارا کچھ کہا گیا ۔ اگر اسی طرح وزرائے اعظم کو نکالا گیا تو ملک کون چلائے گا ، اگر یہ نیا راستہ کھل گیا تو پھر کون وزیر اعظم بنے گا کیا ملک کے چیف ایگزیکٹو کے ساتھ یہ سلوک ٹھیک ہے ؟۔ پھر ہر کوئی صادق او رامین کا سوال کر ے گا ،پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے جج صاحبان صادق اور امین تھے آپ کس کس کی زبان روک لیںگے کیا جنہوں نے مارشل لاءکو سپورٹ کیا یا مارشل لاءلگانے والے صادق اور امین تھے ، ہماری نالائقی تھی کہ ہم 62اور63کو نہیں نکال سکے اور ہمیں کیا معلوم تھا کہ یہ 58ٹو بی بن جائے گی ، اگر ہم اسے نکالنے لگے تو پھر سوچا کہا جائے گا کہ کرپشن کو بچانے کا منصوبہ ہے ہمیں چین تو لینے دیتے نہیں۔ آئندہ اسمبلی بیٹھے گی تو 62اور 63باقیوں کے لئے لے آئیں ،کیا یہ صرف سیاستدانوں کے لئے ہونا چاہیے ،کیا طاقتور طبقات سے پوچھنے والا کوئی نہیں کیا ۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان صاحب بغلیں نہ بجائیں مٹھائیاں نہ کھائیں آپ کو الٹی کرنی پڑے گی اور آپ کو یہ ہضم نہیں ہو گی ۔ ایک سینئر صحافی نے کہا کہ آج آپ نواز شریف کو نکالنے کا کریڈٹ لے رہے ہیں لیکن آنے والے دنوں میں آپ اس کریڈٹ سے دور بھاگیں گے لیکن یہ آپ کے پیچھے پیچھے بھاگے گا ۔ آ پ مٹھائیان کھا رہے ہیں لیکن آپ کے سارے الزامات غلط ثابت ہوئے ہیں اور اس طرح کی نا اہلی کو کون تسلیم کرتا ہے ۔ بھٹو کے عدالتی قتل کو آج تک کون تسلیم کرتا ہے ، متنازعہ فیصلے متنازعہ ہی رہیں گے ۔ یہ تاریخی دن نہیں بلکہ تاریک دن تھا ۔ اس ملک کو ہم نے بنایا ہے ہمارے بڑوں نے بنایا ہے ہمارے بڑوں نے گورے سے لڑ کر سیاسی او رجمہوری جدوجہد کر کے یہ ملک حاصل کیا ۔ لوگ فیصلہ ماننے سے انکار کرتے ہیں ، اقلیت کے فیصلے کب تک مانے جائیں گے ، چند پالیسی میکرز کب تک ملک کی قسمت سے کھیلتے رہیں گے ، ہمیں اپیل کا کوئی حق نہیں کیا نواز شریف کے لئے انصاف کا الگ قانون ہے۔ عدلیہ نے اپنی ستر سالہ تاریخ میں کبھی جے آئی ٹی نہیں بنائی ۔ ہم اپیل کہاں کریں لیکن اوپر اللہ کی عدالت اور نیچے عوام کی عدالت ہے ہم یہاں اپیل کریں گے ۔ کہا جاتا ہے کہ ہم بات نہ کریں اگر ایسا نہ کریں تو ہمارے پاس کیا راستہ ہے ۔ ہم واضح کہتے ہیں کہ اس میں کوئی ادارہ ملوث نہیں لیکن افراد سے گلے شکوے ضرور ہیں ، ہم عمران خان سمیت کسی کو انتقام یا نفرت کا نشانہ نہیں بنائیں گے کیونکہ اگر ہم ایسا کریں گے تو ملک کو ریورس گیئر لگ جائے گا ۔ ایک شریف چلا گیا تو دوسرا شریف آ گیا ہے اگر دوسرا جائے گا تو تیسر ااور پھر چوتھا آئے گا ، ہم موروثی سیاست کے حامل نہیں ہیں لیکن ہمیں اس طرح نہ دھکیلا جائے اگر شریف خاندان کے ساتھ ظلم ہوگا تو یہ خاندان آگے آتا رہے گا ۔ کہا جارہا ہے کہ اپنے بھائی شہباز شریف کو وزیر اعظم بنا رہے ہیں،بھئی وہ میرٹ پر آتے ہیں ،انہوں نے گورننس کا یونیک ماڈل متعارف کرایا ہے اور ڈلیور کیا ہے ،وہ کہنہ مشق سینئر سیاستدان ہیں وہ بڑے ایڈ منسٹریٹر ہیں اور انہیں اتفاق رائے سے لایا گیا ہے لیکن خان صاحب کے ساتھ ایسا ہو گیا تو انہیں کوئی ایسا ملے گا ان کی جماعت تو بانجھ ہے اور اس کی اپنی کوئی پروڈکشن نہیں ۔ آپ ادھر اُدھر سے پکڑ کر ، ردی ، لنڈے کے مال اور چلے ہوئے کارتوسوں سے معاملات چلا رہے ہو او رآپ کے ساتھ وہ لوگ ہیں جن کے چہرے کرپشن کی دلدل میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ عمران خان کہتے ہیں کہ میں نا اہل ہو گیا تو کوئی بات نہیں ، کیوں کوئی بات نہیں یہ کوئی فری سٹائل ریسلنگ نہیں ہے ۔ ابھی بھی عقل کرو آگے آپ نے ملک کا بڑا نقصان کر دیا ہے ۔ آپ کی کرسی ہمارے ٹرک پر پڑی رہے گی اور آج نہیں تو کل آپ کو ہمارے ساتھ آنا پڑے گا ، مچھلی پتھر چاٹ کر آئے گی ۔ ہمیں کہا جاتا ہے کرپٹ ہیں کیا آپ کے پاس ملائیکہ ہیں ، صادق اور امین کا تماشہ دو رتک جائے گا اورپھر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے بھی سوال و جواب ہوں گے ،پھر پرویز مشرف سے بھی پوچھا جائے گا اگر یہ کھاتہ کھلا تو سمجھ آ جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ ہم کہاں فریاد کریں ، آج کچھ لوگوں کو بولنے کی ماد ر پدر آزدی ملی ہوئی ہے ، شیخ رشید نے الزام لگایا کہ معزز ججز کواربوں روپے دینے کی پیشکش کی گئی بتائیں کس معزز جج کو یہ پیشکش کی گئی تھی آپ کو یہ بات کس نے بتائی ہے ۔ عمران خان نے تو حد ہی کر دی ہے اور کہتے ہیں کہ مجھے سینئر ترین جج نے درخواست کی ،لاک ڈاﺅن ختم کیا اور سپریم کورٹ کے پاس گئے ،یہ بات کچھ دیر پہلے تک موجود تھی لیکن اب اسے سوشل میڈیا سے ہٹا دیا گیا ہے لیکن ریکارڈ تو موجود ہے ۔ میزبان نے کہا کہ آپ کو یہ بات ریٹائرڈ جج نے کی یا حاضر سروس جج نے تو عمران خان نے نام بھی بتا دیا ہے او رکورٹ میں چلے گئے ،کیا اس سنگین ترین انکشاف پر پر ان سے جواب طلبی نہیں بنتی ہم اس کا انتظار کریں گے ،اگر انہوں نے جھوٹ بولا ہے تو کیا وہ صادق او رامین رہ گئے ہیں جن کے بارے میں کہہ رہے ہیں میری تو نام لیتے ہوئے زبان جلتی ہے کیا عدالت انہیں بھی بلائے گی کیا عمران خان ماورائے آئین و قانون ہیں ۔ جو کچھ ہاشمی صاحب نے دھرنا ون کے دوران کہا تھا وہ ریکارڈ کا حصہ ہے اور اس کی تردید نہیں آئی عمران خان نے آج اس کی توثیق کر دی ہے؟ ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے مار کھائی کرب سہا لیکن ہم حدود پار نہیں کریں گے،ہم نے اداروں کے وقار پر سوالیہ نشان نہیں لگانا ۔ ہم نے فیصلے پر عملدرآمد کیا لیکن کوئی غلط بات نہیں کی لیکن کسی چیز کی حد ہوتی ہے ، عمران خان نے اتنی بڑی بات کر دی ہے ان سے جواب مانگا جائے اور مطالبہ کرتا ہوں کہ انہوں نے سینئر جج صاحب کے بارے میں جو بات کی ہے اس کی وضاحت اور جواب مانگا جائے اس کا جوڈیشل پراسس ہونا چاہیے اور قوم کے سامنے سچ آنا چاہیے ، شیخ رشید جو باتیں کر رہے ہیں اس کا بھی پوچھا جانا چاہیے ۔

نیا وزیراعظم کون ہوگا؟, شاہد خاقان،شیخ رشید،خورشید شاہ امیدوار

اسلام آباد (خبر نگار خصوصی) وزارت عظمیٰ کے لئے مسلم لیگ (ن) کے نامزد امیدوار شاہد خاقان عباسی‘ تحریک انصاف کے نامزد امیدوار شیخ رشید احمد اور اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کاغذات نامزدگی حاصل کرلئے‘ خورسید شاہ نے اپوزیشن کے متفقہ امیدوار کے لئے چھ کاغذات نامزدگی حاصل کرلئے‘ وزارت عظمیٰ کے لئے تمام امیدار (آج) پیر کو اپنے کاغذات ن امزدگی قومی اسمبلی سیکرٹریٹ ممیں جمع کرائیں گے۔ تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے وزارت عظمیٰ کے لئے نامزد امیدوار شاہد خاقان عباسی نے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ سے اپنے کاغذات نامزدگی حاصل کرلئے۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے امیدوار عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے بھی کاغذات نامزدگی حاصل کرلئے۔ ذرائع کے مطابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے بھی کاغذات نامزدگی حاصل کئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق خورشید شاہ نے اپوزیشن کے متفقہ امیدوار کے لئے چھ کاغذات نامزدگی حاصل کئے تمام امیدوار (آج) پیر کو اپنے کاغذات سیکرٹری قومی اسمبلی کے پاس جمع کرائیں گے۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق (آج) پیر کو ہی وزارت عظمیٰ کے لئے جمع کرائے گئے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کریں گے اور (کل) منگل کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں نئے وزیراعظم پاکستان کا رائے شماری کے ذریعے انتخاب کیا جائے گا۔ وزیراعظم کے انتخاب کےلئے قومی اسمبلی کا اجلاس کل(منگل )ہوگا ، اجلاس کے بارے میں باضابطہ طور پر اعلامیہ بھی جاری ہوچکا ہے، اجلاس یکم اگست 2017 بروز منگل 3 بجے سپیکر سردار ایاز صادق کی صدارت میں ہوگا اور قومی اسمبلی میں نئے قائد ایوان کا انتخاب ہو گا۔ سپیکر قومی اسمبلی وزارت عظمیٰ کے امیدواروں کے بارے میں باضابطہ طور پر اراکین قومی اسمبلی کو آگاہ کریں گے اور ان کو وزیراعظم کے انتخاب کے طریقہ کار سے بھی آگا ہ کیا جائے گا ۔سپیکر کے اعلان کے بعد قائد ایوان کے انتخاب کا عمل شروع ہو جائے گا اور ڈویژن کی بنیاد پر وزیراعظم کا انتخاب ہوگا۔ مسلم لیگ(ن) کے نامزدوزیراعظم شاہدخاقان عباسی نے سیاسی جماعتوں سے رابطے شروع کر دیئے۔ شاہدخاقان عباسی نے عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماحاجی غلام احمد بلورکوٹیلی فون کیا اور وزارت عظمیٰ کےلئے حمایت کی درخواست کی۔نئے وزیر اعظم کے انتخاب کےلئے مسلم لیگ (ن )نے ایم کیو ایم پاکستان سے بھی رابطہ کیا ہے اور وزارت عظمیٰ کے امیدوارکی حمایت کی درخواست کی ۔نجی ٹی وی کے مطابق نئے وزیر اعظم کے انتخاب کےلئے مسلم لیگ (ن )نے ایم کیو ایم پاکستان سے بھی رابطہ کیا ہے ¾ وزارت عظمیٰ کے امیدوارکی حمایت کی درخواست کی ۔ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم نے جواب دیا ہے کہ اگر وزیراعظم کا امیدوار خود بات کرنے آئےگاتو بات کریں گے۔ عبوری وزیراعظم کے انتخاب کے موقع پر مسلم لیگ ن کے تمام ممبران قومی اسمبلی کو اسلام آباد طلب کر لیا گیا ہے۔ صدر پاکستان کی جانب سے یکم اگست کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلائے جانے پر مسلم لیگ ن کی قیادت نے تمام ایم این ایز کو بذریعہ فون اطلاع دینا شروع کر دی ہے کہ وہ یکم اگست کے اجلاس میں اپنی حاضری کو 100فیصد یقینی بنائیں اور اپنی تمام تر مصروفیات ترک کرکے اس دن ہونے والے اہم اجلاس میں شرکت کے ساتھ ساتھ سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی جانب سے نامزد عبوری وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی کامیابی کیلئے انکا ووٹ دینا بہت ضروری ہے۔لیگی ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل مسلم لیگ ہاﺅس میں ارا کین کے ساتھ خصوصی میٹنگ بھی ہو گی۔ پارلیمنٹ کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط کے مطابق وزیراعظم کے انتخاب کے انعقاد سے ایک دن قبل کاغذات نامزدگی امیدوار یا اس کے تجویز کنندہ یا تائید کنندہ کی جانب سے سیکریٹری قومی اسمبلی کے سپرد کردیا جائے گا۔ امیدوار کے کاغذات کی جانچ پڑتال کے بعد ملکی آئین کے قوائد 32 اور33 کے تحت اجلاس میں نئے قائد ایوان کا انتخاب عمل میں لایا جائے گا۔قومی اسمبلی میں ڈویژن یعنی تقسیم کی بنیاد پر ووٹنگ کا عمل ہوگا۔ اس طریقہ کار کے تحت قومی اسمبلی میں دو لابیوں کو ووٹنگ کے لیے مخصوص کیا جائے گا۔ اراکین اپنے اپنے امیدوار کے حق میں ووٹنگ کی غرض سے دو مختلف لابیوں میں جائیں گے جہاں قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کا عملہ ارکان کے ناموں کا اندراج کرے گا۔ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد گنتی کی جائے گی جس کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار کا نام اور حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد کا اعلان کیا جائے گا جو ممبر سب سے زیادہ ووٹ لے گا وہی قائد ایوان اور ملک کا آئندہ وزیراعظم کہلائے گا۔ نو منتخب وزیر اعظم ایوان صدر جاکر اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے اور ایوان سے اعتماد کا ووٹ لیں گے۔

لیگی رہنماﺅں میں فاصلے ،سابق وزراءکی لاتعلقی, اندرونی کہانی سامنے آگئی

اسلام آباد(آن لائن)وزیراعظم کے عہدہ کے لیے شہباز شریف کی نامزدگی پرمسلم لیگ ن میں ٹوٹ پھوٹ اور فارورڈ بلاک بننے کے امکانات ہیں۔ اسحاق ڈار،عابد شیر علی سمیت دیگر متعدد وزرا نے وزارتیں نہ لینے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔چوہدری نثار علی خان نے شہباز شریف کو وزیر اعظم کے عہدہ کے لیے نامزد کرانے کے بعد اپنے سیاسی اور پارٹی مخالفین کو چت کر دیا ۔شہباز کے ذریعے سولو فلائٹ کی ایما پر خوشامدیوں کی کھلی چھٹی کرائے جانے کا امکان پیدا ہو گیا ہے ۔معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ چوہدری نثار علی خان سے وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف نے نثار کو وزیراعظم بنانے کے لیے مدد طلب کی تھی اور دونوں رہنماﺅںنے ایک دوسرے کے ساتھ وعدے کیے کہ پارٹی کو حواریوں اور خوشامدیوں سے پاک کیا جائے گا۔شہباز شریف نے چوہدری نثار علی خان سے وعدہ کیا تھا کہ انہیں انکی حیثیت سے مطابق باعزت عہدہ اور وزارت دی جائیگی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ چوہدری نثار علی خان نے وزیر خارجہ کے لیے خواہش کا اظہار کیا تھاجس پر شہباز شریف نے کہا کہ انکی سوچ سے بھی زیادہ مقام دیں گے ۔دوسر ی جانب پارٹی کے متعدد سینئر وزیر خواجہ آصف ،خواجہ سعد رفیق ،عابد شیر علی،اسحاق ڈار سمیت دیگر کو شہباز شریف نے ابتدائی طور پر وزارتوں سے فارغ کرنے کی ٹھان لی ہے ،پارٹی کو متحد رکھنے اور فارورڈ بلاک نہ بننے دینے کے حوالے سے چوہدری نثار علی خان نے شہباز شریف کو یقین دہانی کرائی ہے ۔ ایک ماہ پندرہ دن کے وزیراعظم کے لیے نئی کابینہ کی تشکیل مسئلہ بن گئی، وزیر داخلہ ، خزانہ، ریلوے، سمیت متعدد وزیر شاہد خاقان عباسی کی زیر قیادت کام کرنے کو تیار نہیں ہیں۔شہباز شریف نے بھی کابینہ میں اکھاڑ بچھاڑ کا عندیہ دیدیا ہے ۔معلوم ہوا ہے کہ نئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے شہباز شریف سے کہا ہے کہ کابینہ میں اکھاڑ بچھاڑ کے حوالے سے وہ اپنا کردار ادا کریں ،کیونکہ انہیں محسوس ہو رہا ہے کہ چند وزرا انکے ساتھ کام کرنے کو تیار نہیں ہیں۔شاہد خاقان عباسی نے وزارت داخلہ ،اور وزارت خزانہ کے حوالے سے کہا کہ بظاہر تو کسی دوست نے کوئی وزارت کا قلمدان نہ لینے کے حوالے سے نہیں کہا ہے مگر حلف کے وقت انکی دوری سامنے آ سکتی ہے ۔شہباز شریف کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کو متحد کرنے اور سینئر وزرا کو ساتھ لیکر چلنا ان کے لیے بھی ایک چیلنج ہے۔