Tag Archives: Zia Shahid

خبریں کی سلور جوبلی پر صدر پاکستان کا چیف ایڈیٹر ضیا شاہد ، ایڈیٹر امتنان شاہد کو خط، ضیا شاہد اور امتنان شاہد کی کارکردگی قابل تقلید ہے

صدرمملکت ممنون حسین نے چیف ایڈیٹر خبریں ضیا شاہد اور ایڈیٹر امتنان شاہد کے نام خط لکھا ہے کہ ضیا شاہد نے ایک عام صحافی کے طور پر اپنے کیرئیر کا آغاز کیا لیکن دنوں ہی میں ملک گیر شہرت حاصل کر لی،،ضیا شاہد اور امتنان شاہد کی شبانہ روز محنت نے خبریں کو ایک منفرد اخبار بنا دیا جسے ہر شخص پڑھتا اور اس کی خبر پر یقینا کرتا ہے،،ضیا شاہد اور امتنان شاہد کی کارکردگی کسی بھی صورت ،،مولانا محمد علی جوہر ،،مولانا ظفر علی خان اور ان جیسے دیگر بڑے صحافیوں سے کم نہیں اور وہ امید کرتے ہیں کہ مستقبل میں بھی خبریں اخبار ان کا ادارہ ایسے ہی صحافتی میدان میں ترقی کی منازل طے کرتا رہے گا۔

مریم نواز شکنجے میں آ سکتی ہیں تو فریال تالپور پر ہما کا سایہ کیوں: ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) 24 چینل کے پروگرام ڈاکٹر دانش میں معروف صحافی ضیا شاہد، مجیب الرحمان شامی، شاہین صہبائی، سابق بریگیڈیئر امجد ملک کے اس فیصلے پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ جمعرات کے دن قومی اسمبلی نواز شریف کو نااہلی کے باوجود منظور کردہ ترمیم کے حق میں رائے دی یا خلاف۔ امجد ملک کا دعویٰ تھا کہ گزشتہ دنوں ہونے والی ترمیم کو ختم کر دیا جائے گا اور نواز شریف پارٹی صدر نہیں رہیں گے۔ جبکہ ضیا شاہد نے کہا کہ پاکستان کے لوگ نواز شریف کے علاوہ باقی لوگوں کا بھی کڑا احتساب چاہتے ہیں۔ چودھری شجاعت اور پرویز الٰہی کے علاوہ علیم خان شکنجے میں آ چکے ہیں عام لوگ پوچھے ہیں کہ کراچی میں یکے بعد دیگر بننے والی رپورٹوں کے باوجود فریال تالپور اور زرداری کے گھر رشوت کا پیسہ ہو اور لے جانے والے سہولت کار جب اعتراف کر چکے ہیں کہ نقد رقم بلاول ہاﺅس بھجواتے رہے تو انہیں کیوں نہیں پکڑا جاتا نواز شریف کی بیٹی مریم نواز شکنجہ میں آ سکتی ہیں تو فریال تالپور پر ہما کا سایہ کیوں ہے۔ شاہد بھائی نے کہ موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے ہی اسے بہتر بنانا چاہیے البتہ کڑا احتساب ضروری ہے جبکہ مجیب الرحمان شامی نے کہا اصل احتساب صرف عوام کرتے ہیں بینظیر کو سزا، جیل میں رکھا گیا، نواز شریف جلا وطن رہے مگر دونوں واپس تو مختلف حکومتوں میں عوام نے پھر حکومت دے دی۔

معروف صحافی ضیا شاہد کی 50سالہ صحافتی خدمات کو خراج تحسین

لاہور (وقائع نگار) چیف ایڈیٹر روز نامہ خبریںضیاشاہد نے سپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال سے ملاقات کی۔ سپیکر نے روزنامہ خبریں کی 25ویں سالگرہ پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ضیاشاہد کی زیرادارت شائع ہونے والے اس روز نامہ نے پاکستانی قوم کے سیاسی شعور کو بیدار کرنے میں اہم کردا ادا کیا۔ اس موقع پر ضیاشاہد اور رانا محمد اقبال کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا چیف ایڈیٹر روزنامہ خبریں نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کی عمارت جمہوریت کی محافظ ہے جس سے سیاسی جماعتیں طاقت حاصل کرتی ہیں لیکن یہ افسوسناک پہلو بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ اراکین اسمبلی کی اکثریت ایوان میں نہیں آتی اور کورم پورا نہ ہونے پر اجلاس ملتوی کرنا پڑتا ہے۔ سپیکر رانا محمد اقبال کا اس حوالے سے کہنا تھاکہ بطور سپیکر میرے لئے تمام اراکین ایک جیسی اہمیت کے حامل ہیں اور میں بطور کسٹوڈین آف ہاﺅس انہیں اس حوالے سے صرف یاددہانی کروا سکتا ہوں ان کو اجلاس میں شرکت کے لئے زبردستی نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ جیسے ملک میں اگر قانون سازی کا کام نہ ہو رہا ہو تو صرف تین ارکان سے بھی اسمبلی کا اجلاس مکمل کیا جاتا ہے لیکن یہاں کچھ مخصوص ارکان جان بوجھ کر کورم کی نشاندہی کرکے اجلاس ملتوی کروا دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میری ذاتی رائے ہے کہ پنجاب اسمبلی کے ارکان کو اپنی حاضری کو یقینی بنانا چاہیے کیونکہ ان کے ووٹرز نے انہیں منتخب کر کے اسمبلی میں بھیجا ہے کہ وہ ان کیلئے قانون سازی جیسا اہم ترین کام کریں۔ اس حوالے سے حکومت اور اپوزیشن کو ملکر قانون سازی کرنی چاہیے تاکہ اراکین اسمبلی کی حاضری کو معزز ایوان میں یقینی بنایا جاسکے۔ رانا محمد اقبال نے کہا میں جب سے رکن اسمبلی منتخب ہوا ہوں ایک بار صرف پانچ گھنٹے کی تاخیر سے اجلاس میں شریک ہوا، ورنہ آج تک میری حاضری سو فیصد رہی ہے۔ سپیکر پنجاب اسمبلی نے ضیاشاہد کی 50سالہ صحافتی خدمات کو بھی شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔ اس موقع پر چیف ایڈیٹر روز نامہ خبریں ضیاشاہد نے سپیکر پنجاب اسمبلی کو اپنی تازہ تصانیف ”امی جان“ ، ”گاندھی کے چیلے“ اور ”باتیں سیاستدانوں کی“ مطالعہ کیلئے پیش کیں۔

مقدمے ختم نہ ہوئے تو شہباز شریف وزیر اعظم ،مریم نواز وزیر اعلیٰ پنجاب ہونگی:ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ میاں نوازشریف پچھلے 35 سال سے اپنی پارٹی کی سربراہی کر رہے ہیں۔ پہلے وہ رسمی صدر نہیں بھی تھے تو بھی قیادت انہی کے پاس تھی اب وہ باقاعدہ پارٹی صدر منتخب ہو چکے ہیں۔ وہ ایک لمبے عرصے سے اقتدار میں ہیں۔ وہ وزیراعلیٰ بھی رہے۔ پھر وزیراعظم بنے پرویز مشرف نے فوج کی مدد سے انہیں نکال دیا۔ کچھ عرصہ جیل میں گزارنے کے بعد وہ سعودی عرب چلے گئے۔ آٹھ سال وہاں گزارے پھر واپس آئے اور جیت کر دوبارہ حکومت بنائی۔ اب دوبارہ وہ مسائل کا شکار ہیں۔ انہیں عدالت نے صادق اور امین نہ رہنے پر اقامہ کی بنیاد پر نااہل کر دیا سابقہ ریفرنسز کے بعد آج کی خبر یہ ہے کہ ان پر مزید ریفرنسز بھی بھیجے جائیں گے انہیں نیب عدالت میں مقدمات کا سامنا ہے۔ ایک مقدمہ میں پیش نہ ہونے کی وجہ سے قابل ضمانت وارنٹ بھی جاری ہو چکے ہیں۔ ان کے بیٹوں کے بھی وارنٹ جاری ہو چکے ہیں لیکن وہ پاکستان میں موجود نہیں ہیں۔ ان کی صاحبزادی مریم نواز کے خلاف اور ان کے داماد کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف بھی ریفرنس عدالت میں ہیں۔ مقدمات کا سلسلہ پھیلتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ نااہلی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم بنا دیا گیا۔ تاہم وہ نوازشریف کو ہی اپنا وزیراعظم مانتے ہیں۔ مخالفین کی جانب سے دعوﺅں کے باوجود مسلم لیگ (ن) کے 60 یا 70 (پرندے) ایم این اے ابھی تک ان کی شاخ سے اُڑے نہیں ہیں۔ میاں شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف اور دیگر رہنما لندن گئے تھے۔ میٹنگ کے اعلامیہ کے طور پر انہوں نے کہا ہے کہ ”مائنس نواز“ فارمولا زیر غور تک نہیں ہے۔ نوازشریف تمام تر کرائسز کے باوجود سیاست میں ”گرپ“ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور ان کے مخالفین کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ عوام نے انہیں منتخب کیا ہے۔ چند لوگوں کے بیان سے نہیں کہا جا سکتا کہ ن لیگ ٹوٹ گئی ہے۔ ان کی پارٹی کی اکثریت موجود ہے۔ وہ مزید ترامیم بھی کروا سکتے ہیں۔ نوازشریف کو جتنی بھی سزا ہو جائے۔ آئین پاکستان کی رو سے صدر پاکستان ان کی سزا معاف کر سکتے ہیں۔ قتل کے ملزم کو تمام عدالتیں مل کر پھانسی کی سزا دے دیں اور سپریم کورٹ میں اپیل بھی خارج ہو جائے تو بھی صدر پاکستان رحم کی اپیل برائے سزا معاف کر سکتا ہے۔ بھٹو کی پھانسی کو جب صدر ضیاءالحق کے اپیل مسترد کی تو اسے پھانسی دی گئی۔ نوازشریف کے خلاف مالی بے ضابطگی کے کیسز ہیں۔ انہوں نے کسی کو قتل نہیں کیا۔ صدر ممنون حسین انہیں ملنے والی ہر سزا کو معاف کر سکتے ہیں۔ اور اگر وہ ترامیم کے ذریعے نااہلی بھی ختم کروا سکیں تو پھر اقتدار کا راستہ نکال سکتے ہیں۔ عمران خان اور تمام سیاسی پارٹیاں مل کر اگر شور مچاتی رہیں اور صدر سے معافی کی درخواست مسترد کروانے کی کوشش کرتی رہیں اور وہ مسترد کروانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو انتشار کا خطرہ بن سکتا ہے۔ آصف زرداری مفاہمت کے بادشاہ ہیں وہ کسی وقت بھی بدل جاتے ہیں۔ پاکستان میں بادشاہت ہے۔ جمہوریت تو یہاں ہے ہی نہیں۔ ولی خان کے بعد ان کے رشتہ دار اقتدار میں آئے اسی طرح فضل الرحمن نے اپنے والد کی گدی سنبھال لی۔ اسی طرح سمیع الحق اپنی پارٹی کے صدر ہیں۔ اسی طرح نوازشریف اور شہباز شریف کے بچے، سیاست سے متحرک ہیں۔ مریم نواز کے بارے کہا جا رہا ہے کہ اگلی وزیراعظم وہ ہوں گی۔ اطلاع ملی ہے کہ شہباز شریف اور نوازشریف میں صلح ہو گئی ہے پچھلے دنوں کچھ تناﺅ تھا۔ لیکن سنا ہے کہ وہ تناﺅ آج ختم ہو گیا ہے فیصلہ ہوا ہے کہ اگر نوازشریف مقدمات سے نہ بچ سکے تو شہبازشریف اگلے وزیراعظم اور مریم نواز وزیراعلیٰ پنجاب ہوں گی۔ بڑے اخبارات، جنگ، نوائے وقت کے مقابلے میں کہا جاتا تھا کہ نیا اخبار نکالنا مشکل ہے۔ جنگ کراچی سے لاہور آیا، اسلام آباد گیا،راولپنڈی گیا اسی طرح نوائے وقت اسلام آباد، لاہور سے کراچی تک گیا۔ اس زمانے میں روزنامہ مشرق نکلا۔ وہ این پی ٹی کا اخبار تھا، اس نے سرکاری اخبار کی حیثیت سے بہت زور پکڑا۔ لوگ تصویر کا دوسرا رخ دیکھنا چاہتے ہیں۔ سرکاری خبریں تو ریڈیو، ٹی وی پر مل جاتی تھیں۔ یہ حکومت کے پاس تھے۔ 14 سال نوائے وقت اور جنگ میں رہنے کے بعد میں نے روزنامہ پاکستان نکالا۔ پہلا کمرشل کامیاب اخبار ثابت ہوا۔ تقریباً 5 ماہ میں اس کی سرکولیشن ایک لاکھ تک پہنچ گئی۔ چیف ایڈیٹر کے طور پر میرا نام چھپتا تھا۔ انہوں نے مجھے علیحدہ کر دیا میں عدالت بھی نہیں گیا۔ اس کے فنانسر اکبر علی بھٹی ایم این اے تھے۔ انہیں میڈیسن کنگ کہا جاتا تھا۔ ”خبریں“ کا تجربہ تلخ تھا۔ میرے پاس فنانسر نہیں تھے۔ ورکنگ صحافی ہونے کے سبب وسائل اتنے موجود نہیں تھے۔ اخبار نکالنے کیلئے اس وقت 20 کروڑ درکار تھے۔ یہ تجربہ بہت مختلف تھا۔ لاکھانی صاحب نے ”ایکسپریس“ نکالا۔ میاں عامر نے ”دنیا“ اخبار نکالا۔ وہ بھی بہت بڑے کاروباری انسان ہیں۔ میاں حنیف صاحب فیصل آباد کے صنعت کار ہیں انہوں نے 92 اخبار نکالا۔ لاہور یونیورسٹی والے رﺅف صاحب نے ”جہان پاکستان“ نکالا سپیریئر یونیورسٹی والوں نے ”نئی بات“ نکالا۔ مختلف تجارتی گروپوں نے اپنے اپنے اخبار نکالے۔ بعض کامیاب بھی ہوئے۔ میرے جاسے کم آمدن والے صحافی جس کے پاس تنخواہ کے سوا کچھ نہ ۔ پبلک لمیٹڈ سیکٹر میں تھوڑے تھوڑے سرمائے اکٹھے کئے گئے جوڑ جوڑ کر تین یا پانچ کروڑ اکٹھے ہوئے۔ اتنے ہی بینک کے لون لے کر ہم نے خبریں لاہور اور اسلام آباد 10 یا 12 کروڑ روپے سے نکال دیا۔ اس کے ڈائریکٹر تھے۔ ہارون آباد کی زمین میں نے بیچی۔ لاہور کا پلاٹ بیچا۔ عزیز رشتہ داروں سے پیسے اکٹھے کئے ایک ساتھی نے پلاٹ بیچ کر اس میں ڈالے۔ حًریں لوگوں سے اکٹھے کئے ہوئے پیسوں سے نکالا جانے والا واحد پبلک لمیٹڈ سیکٹر کا اخبار تھا۔ میں اس کا مالک نہیں ہوں۔ پس شیئر ہولڈر ہوں ہر تین سال کے بعد الیکشن ہوتا ہے۔ یہ نئے تجربے کا اخبار تھا۔ یہی تجربہ صنعتوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ خبریں لاہور اور اسلام آباد سے نکالا پھر ملتان اور پشاور سے نکالا۔ پھر کراچی اور حیدرآباد سے نکالا۔ سکھر اور کراچی سے ”خبرون“ سندھی کا اخبار نکالا کراچی سے اب بھی نکل رہا ہے۔ ”خبراں“ کے نام سے پنجابی اخبار نکالا۔ پنجابی کی ریڈر شپ کم ہے۔ اس میں دو کروڑ کا نقصان کرنے کے بعد اسے بند کر دیا۔ میرے بیٹے عدنان شاہد ”مرحوم“ نے بڑی محنت سے لاہوہر اور اسلام آباد سے ”دی پوسٹ“ کے نام سے خوبصورت انگریزی اخبار نکالا۔ نصرت جاوید صاحب اسلام آباد میں ریذیڈنٹ ایڈیٹر بنے۔ عمر چیمہ ہمارے چیف رپورٹر تھے۔ امریکہ سے واپسی پر لندن میں 36 سال کی عمر میں عدنان شاہد کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ فوت ہو گئے۔ وہ اخبار نہیں چل سکا۔ ان کی بیگم نے تھوڑی دیر چلانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ ہم کوئٹہ سے خبریں شروع کر رہے ہیں۔ تقریباً ایک ماہ میں سامنے آ جائے گا۔ اس کے علاوہ گوادر سے روزنامہ خبریں کا آغاز کرنے جا رہے ہیں۔ اگلے تین مہینوں میں یہ شروع ہو ج ائے گا۔ اس کی پالیسی ”جہاں ظلم وہاں خبریں“ رکھی تھی۔ محروم طبقے کی نمائندگی کے لئے ہم غریب اور نادار لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ ان کی خبریں چھاپتے ہیں میری بیٹی ڈاکٹر نوشین اور امتنان شاہد اس کے ایڈیٹر ہیں۔ خبریں ہیلپ لائن نہ صرف ان لوگوں کی مدد کرنی ہے۔ ٹیمیں جا کر ان کی حبریں لیتی ہیں اور لیگل ہیلپ کے لئے نوجوان وکلاءان کے کیس بھی لڑتے ہیں۔ خبریں جنوبی پنجاب میں لاہور میں اور کے پی کے میں بھی یہی پریکٹس شروع کرنے والی ہیں۔ ایک خدمت کا جذبہ لئے ہم (25) سلور جوبلی منا رہے ہیں۔ ہم نے پرانے دوستو ںکو آج کے ڈنر پر بلایا ہے۔ بڑی کوشش کی ہے کہ دوسرے شہروں سے بھی لوگ آ کر اس میں شریک ہوں۔ بہت دوستوں نے ہمارے ساتھ تعاون کیا، لیاقت بلوچ صاحب نے پہلا دفتر لے کر دیا اسی طرح اس بلڈنگ کی پہلی منزل انہوں نے لے کر دی پھر ہم آہستہ آہستہ پیسے دیتے گئے اور ساتوں منزلیں خرید لیں۔ دُعا ہے کہ یہ پھلے پھولے اور آگے بڑھے۔

خبریں ستلج میں پانی نہ چھوڑنے کا معاملہ ملکی عالمی عدالت تک لے جائیگا :ضیا شاہد

وہاڑی (بیورو رپورٹ) خبریں گروپ آف نیوز پیپرز کے چیف ایگزیکٹو، تجزیہ نگار اور صحافی ضیا شاہد نے کہا ہے کہ پاکستان کی 70 فیصدآبادی کا دارومدار زراعت سے وابستہ ہے۔ زرعی شعبہ میں انقلاب برپا کرنے کیلئے پانی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ دریائے ستلج میں پانی کی کمی کے مسئلہ کو حل کرنے کیلئے پاکستان کے قیام کے بعد کسی حکومت نے کوشش نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت دریائے ستلج پانی کی شدید کمی کا شکار ہونے کی وجہ سے بہاولپور اور وہاڑی کے اضلاع کی سونا اگلتی زمینیں بنجر ہو رہی ہیں۔ یہاں تک کہ اس خطہ میں آبی حیات کا بھی خاتمہ ہو چکا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے روزنامہ خبریں کے تعاون سے ستلج میں پانی چھوڑنے کے سلسلہ میں قائم ہوا ہے۔ ہیڈ اسلام تک نکالی جانے والی ریلی کے اختتام پر ویڈیو لنک کے ذریعے ریلی کے شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ضیا شاہد نے اعلان کیا کہ ستلج میں پانی نہ چھوڑنے کے خلاف روزنامہ خبریں اس مسئلہ کو اقوام متحدہ تک پہنچائے گا اور بھارت کو پانی چھوڑنے پر مجبور کر دے گا۔ قبل ازیں قائم سے شروع ہونے والی ریلی کی قیادت خدایار چنڑ، خبریں ملتان کے جنرل منیجر اسلم اکرم زئی، انچارج نمائندگان محمد اشرف سعیدی، بیورو چیف وہاڑی شیخ خالد مسعود ساجدنے کی۔ ریلی ایک بجے دن شروع ہو گی اور براستہ حاصل پور ہیڈ اسلام پر پہنچی۔ ریلی کے شرکاءنے بڑے بڑے بینرز، جھنڈے اٹھا رکھے تھے۔ 7 میل لمبی ریلی میں ہزاروں شہریوں کاشتکاروں جن میں بہاولپور، قائم پور، حاصل پور، ہاڑی، میلسی، بورے والا کے خبریں کے نمائندگان اور سول سوسائٹی کے ارکان میں شامل تھے۔ مقررین نے اس عزم کا اظہار کیا کہ دریائے ستلج میں پانی چھوڑے جانے تک احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں گے اور سندھ طاس معاہدہ کے مطابق پانی کا حصہ پورا لے کر رہیں گے۔

ستلج کے پانی کی بندش بھارتی جارحیت کیخلاف ریلی،ہزاروں افراد شریک

بہاول پور، حاصل پور، قائم پور، جمال پور، وہاڑی، میلسی، لڈن، کرم پور، خیر پور ٹامیوالی، چھونا والا (نمائندگان) ”خبریں“ گروپ آف نیوز پیپرز، چینل ”۵“ کے تعاون سے تحریک ‘ بحالی صوبہ بہاول پور کے صدر خدا یار چنڑ کے زیراہتمام دریائے ستلج میں پانی کی بندش کے حوالے سے تاریخی ریلی نکالی گئی جس میں وسیب کے تمام طبقات ‘تنظیموں نے ہزاروں کی تعداد میں شرکت کی، جگہ جگہ ریلی کا والہانہ استقبال کیا گیا، منوں پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔ دریائے ستلج ہیڈ اسلام پر ریلی سے خان خدایار چنڑ‘ وسیم انور کونسلر‘ آصف ایڈووکیٹ‘ محمد نعیم ایڈووکیٹ‘ عبدالشکور نمبردار‘ مہر محمد سلیم نمبردار‘ عبدالقدیر خان چنڑ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دریائے ستلج میں پانی کی فراوانی ہماری معیشت اور آنے والی نسلوں کے لئے ضروری ہے۔ جناب ضیاشاہد نے اس حوالے سے آواز بلند کرکے دھرتی کا فرزند ہونے کا حق ادا کردیا۔ ہم انہیں اس حوالے سے خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور ان کی درازی عمر اور صحت کے لئے دعاگو ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بہاول پور صوبے کی بحالی کے ساتھ ساتھ دریائے ستلج میں پانی فراہم کرنے کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں۔ ہمیں اطلاع ملی ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں مزید 18کمپنیوں کو 47پن بجلی پراجیکٹ لگانے کے ٹھیکے دیئے ہیں اور 10اضلاع میں ڈیم بھی تعمیر کئے جارہے ہیں جوکہ سندھ طاس معاہدے کی سخت خلاف ورزی ہے۔ حکومت کو اس حوالے سے فوری طور پر آواز بلند کرنی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ بہاول پور صوبہ کی بحالی کا بھی اعلان کرنا چاہیے۔ قبل ازیں ریلی قائم پور سے خدایار چنڑ کی قیادت میں شروع ہوئی جو ہیڈ اسلام تک پہنچتے پہنچتے ہزاروں کی تعداد میں ایک جلسہ کا روپ اختیار کرگئی۔ انہوں نے کہا ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے دریائے ستلج بہاولپور ڈویژن میں پانی کی کمی نہ تھی اور علاقہ کے کاشتکار، کسان بھی خوشحال تھے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت جب چاہتا ہے دریائے ستلج ودیگر دریاو¿ں کا پانی روک دیتا ہے اور ملک کے حکمرانوں، سیاستدانوں، ارکان اسمبلی، حکومت نے بھی احتجاج اور سندھ طاس معاہدے پر عمل نہیں کروایا۔ انہوں نے کہا ہے کہ دریائے ستلج کی بندش سے بہاول پور ڈویژن کی سونا اگلنے والی زمینیں بنجر ہوگئی ہیں۔ نہری سسٹم تباہ ہوچکا ہے۔ نہری پانی پر لڑائیاں ہورہی ہیں۔ نہری پانی کا نظام بھی ختم ہوچکا ہے۔ علاقہ کے لوگ نہری پانی کو ترس رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ طاس معاہدے کے ذریعے 3دریاﺅں کی پانی کی فروخت کے بعد دریائے ستلج کے خشک ہونے سے جنوبی پنجاب بہاول پور اور بہاول نگر اضلاع کو زبردست نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہاول پورڈویژن کے ارکان اسمبلی نے اس اہم ایشو پر آواز بلند کرنے کے بجائے تھانہ کچہری کی سیاست اور اپنے من مرضی کے افسران اپنے حلقے میں تعینات کرواتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکمران دریائے ستلج ودیگر دریاو¿ں میں پانی کے لئے مسئلہ کو عالمی سطح پر اٹھائیں۔ ہیڈ اسلام پر احتجاج کے دوران لوگوں نے اپنے بازوو¿ں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر احتجاج اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ بھارتی وزیراعظم مودی کا پتلہ نذرآتش کیا گیا۔ احتجاج کے دوران ہیڈ اسلام پر ٹریفک بند ہوجانے سے مسافروں کے بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ ریلی کے شرکاءنے بڑے بڑے بینرز اور جھنڈے اٹھا رکھے تھے۔ 7میل لمبی ریلی میں ہزاروں شہریوں، کاشتکاروں جن میں بہاول پور، بہاولنگر، چشتیاں، قائم پور، حاصل پور، وہاڑی، میلسی، کرم پور، بوریوالہ کے ”خبریں“ کے نمائندگان اور سول سوسائٹی کے ارکان بھی شامل تھے۔ مقررین نے اس عزم کا اظہار کیا کہ دریائے ستلج میں پانی چھوڑے جانے تک احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں گے اور سندھ طاس معاہدے کے مطابق پانی کا حصہ پورا لے کر رہیں گے۔ احتجاج ودھرنے میں اہل علاقہ سے اظہاریکجہتی کے لئے چیف ایڈیٹر جناب ضیاشاہد کی خصوصی ہدایات پر جی ایم ”خبریں“ مسٹر اسلم اکرام، انچارج نمائندگان اشرف سعیدی، بیورو چیف بہاول پور چودھری عمران شمس، بیورو چیف وہاڑی شیخ خالد مسعود سمیت تمام ضلع کے نمائندگان اور علاقے کے ہزاروں کی تعداد میں افراد نے شرکت کی۔

کشمیر میں بھارتی ڈرون مار گرانے پر پاک فوج کو مبارکباد :ضیا شاہد


لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی کارکردگی دوسرے وزراءاعلیٰ سے نسبتاً بہتر ہے۔ لیکن لگتا ایسا ہے کہ اتنی بھاگ دوڑ کے باوجود ان کی محنت ضائع ہو رہی ہے۔ سڑکوں پر ہونے والی ڈلیوریاں ان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔ میں شہباز شریف کے کام کرنے کے جذبے کا مداح رہا ہوں اور ان کی کارکردگی کا معترف رہا ہوں۔ لیکن ہیلتھ کے معاملے پر لوگ اب بھی پرویز الٰہی کو یاد کرتے ہیں۔ پرویز مشرف دور میں پرویز الٰہی وزیراعلیٰ تھے۔ اس زمانے میں ہسپتالوں میں بہت کام ہوئے اور ہر مریض کو مفت دوائی اور طبی سہولیات ملتی رہیں۔ لیکن اب 95 فیصد دوائیاں ہسپتال میں نہیں ملتیں۔ ہماری ٹیم نے سروے کیا اور ہسپتالوں کے بیڈز اور خصوصاً زچگی کے وارڈز کے بارے تفاصیل جمع کیں۔ ہسپتالوں میں بیڈز کی تعداد بہت کم ہیں اور یہاں آنے والی حاملہ خواتین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ میری وزیراعلیٰ شہباز شریف سے درخواست ہے جس طرح انہوں نے ہمارے پروگرام کے ایکشن لیتے ہوئے ڈائیلسز مشینوں کی تنصیب اور مرمت پر دھیان دیا تھا۔ برائے مہربانی اس شعبے پر بھی توجہ دیں۔ شہباز شریف صاحب صوبے کے تعلیمی اور صحت کے اداروں کا سروے کروا لیں سکولوں کے گرد اونچی دیواریں، باڑیں اور واش روم تک نہیں ہیں۔ ایک گرلز سکول کا میں نے سروے کروایا۔ وہاں واش روم تک نہیں تھا۔ بے چاری استانیاں بھی سامنے والے گھر میں اجازت لے کر واش روم استعمال کیلئے جایا کرتی تھیں۔ ہمارے میڈیا کی سب سے کم توجہ تعلیم اور صحت کے شعبوں پر ہوتی ہے۔ شہبازشریف صاحب کو سب سے پہلے ذاتیات کو ختم کرنا چاہئے۔ خواجگان، بٹ، تیلی ان سے باہر نکلیں۔ سب سے بڑی ذات انسانیت ہوتی ہے۔ پرویز الٰہی حکومت میں لسٹیں چھپی ہوئی تھیں کہ ”جٹوں“ کی اتنی فوج کام کرے گی نوازشریف دور میں وفاق میں زیادہ تعداد پنجابیوں کی ہوتی ہے۔ وہ خود بھی پنجابی ہیں۔ اسی طرح فوجی حکومت آتی ہے تو ہر شعبے میں کپتان (ر) لائنیں لگ جاتی ہے۔ ہسپتالوں کی تعداد کم ہو گی۔ ڈاکٹر، نرسیں اور دیگر اسٹاف کم ہو گا تو بچے تو سڑکوں پر ہی جنم لیں گے۔ میاں شہبازشریف صاحب لوگوں کی بنیادی ضرورتوں کا خیال کریں۔ سکولوں، ہسپتالوں اور دیگر اداروں کو بہتر بنانا پڑے گا۔ ورنہ اسی طرح بچے سڑکوں پر جنم لیں گے۔ ہم کسی سیاسی تنظیم کے ساتھ نہیں ہیں۔ صحافی ہونے کے ناطے حق کی آواز بلند کرنا ہمارا فرض ہے۔ حافظ سعید کا کیا قصور ہے؟ اب جب کہ امریکہ نے اسے بے قصور قرار دے دیا ہے تو اسے کیوں پکڑا ہوا ہے ہم بھارت کے کہنے پر کبھی لشکر طیبہ، کسی تنظیم اور کبھی کسی تنظیم کے رہنماﺅں کو پکڑ کر اندر دے دیتے ہیں۔ ہمارے سکالرز کہتے رہے ہیں کہ کشمیر کو ”ڈیڈ ہارس“ نہ کہیں۔ جسے ٹھیک سمجھیں وہ بات بار بار کہتے رہیں ایک وقت آئے گا کہ سب کی توجہ اس طرف مبذول ہو جائے گی۔ آج کشمیر پر ”بلیک ڈے“ ہے۔ میں الیکٹرانک میڈیا سے ہاتھ جوڑ کر درخواست کروں گا کہ خدارا کشمیر بلیک ڈے پر ”کشمیر کاز“ کو اجاگر کریں۔ ہم بھولتے جا رہے ہیں کہ کشمیری 70 سال سے کس کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس کاز کیلئے کتنی خواتین نے اپنی آبرو، عصمت اور زندگیاں گنوائی ہیں۔ کتنے بچے، نوجوان بوڑھے شہید ہو چکے ہیں۔ لوگ اندھے ہو گئے ہیں۔ قائداعظم نے کہا کشمیر ہماری شاہ رگ ہے۔ قائداعظم دور میں دو کتابیں شائع ہوئیں ایک کتاب کرنل الٰہی بخش، ان کے معالج کی ہے۔ دوسری کتاب ان کے پی ایس فرخ امین کی ہے۔ ”فائدز لاسٹ ڈسیز“ دونوں کتابوں میں یہ بات موجود ہے کہ آخری وقت میں بھی، نیم بیہوشی کی حالت میں قائداعظم معلوم کرتے رہے کہ کشمیری وفد نے ملاقات کیلئے آنا تھا۔ کیا وہ وفد نہیںآیا؟ کشمیر پاکستان کا اٹوٹ انگ ہے۔ اگر یہ ساتھ نہ ہوا تو ہمارا پانی کہاں سے آئے گا۔ یہ تکمیل پاکستان کا حصہ ہے۔ بھارت ہمارے دو دریاﺅںکا پانی روک چکا ہے۔ ورلڈ رپورٹ کے مطابق 2030ءکے بعد پاکستان ایتھوپیا بن جائے گا۔ یہ وہ حصہ بن جائے گا جہاں پینے کا پانی تک مہیا نہیں ہو گا۔ لاہور میں پانی دس فٹ نیچے ہوا کرتا تھا۔ اب وہ 600 فٹ نیچے جا چکا ہے۔ راوی خشک ہو چکا ہے۔ ستلج میں راکھ اُڑتی ہے۔ کشمیر ہماری شہ رگ ہے۔ ہمیں ہر وقت کشمیر، کشمیر، کشمیر کرتے رہنا چاہئے۔ میں حکومت سے کہتا ہوں۔ پاکستانی فوج سے یہ کہتا ہوں۔ کس لئے یہ فوجی وردی پہن کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ آج پاکستانی فوج نے انڈین ڈرون مار گرایا ہے۔ اچھی بات ہے۔ لیکن کیا فوجی، وزیراعظم سے اتنی بھی سفارش نہیں کر سکے؟ کہ حافظ سعید کو کیوں پکڑ رکھا ہے۔ حافظ سعید کشمیر کی جدوجہد کی علامت ہے۔ اسے آپ نے امریکہ کے کہنے پر پکڑا ہوا ہے۔ کشمیری 70 سالوں سے اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اور دنیا کی بے حیا، بے غیرت انسانی حقوق کی تنظیمیں یہاں آ کر چپ ہو جاتی ہیں۔ اب تو لگتا ہے اگلا نعرہ یہ ہو گا، ”پاکستان بنے گا پاکستان“ بلوچستان صوبے میں تین روز تک اخبار کی ترسیل تک نہیں ہو سکی۔ بلوچستان لبریشن فرنٹ نے یہ دھمکی دی ہوئی تھی کہ جو اخبار چھاپے گا۔ بیچے گا سب کو مار دیں گے۔ لیکن اب ایف سی نے ان کی حفاظت کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ خدارا سیاسی پارٹیاں کشمیر کو سنگ میل بنا لیں۔ آزاد کشمیر کو پاکستانی سیاست سے علیحدہ رکھیں تمام سیاستدان کشمیر حکومتکے پیچھے بلاتفریق کیوں کھڑے نہیں ہوتے۔ ہماری ہر سیاسی جماعت کو کشمیر حکومت کے پیچھے ڈٹ کر کھڑا ہونا چاہئے۔ یہ ہماری جنگ ہے کشمیر میںبیس کیمپ ہونا چاہئے۔ شہباز شریف براہ کرم متنازع شخصیت نہ بنیں۔ حلقہ این اے 120 کے الیکشن میں راتوں رات سڑکیں بنوانا اور سیاسی مقاصد حاصل کرنے سے لوگ مذاق اڑاتے ہیں ایک سیٹ نکالنے کے لئے راتوں رات گیس کے کنکشن کٹوانا، پائپ ڈالنا، اور سڑکیں بنوانا مذاق سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ خدارا آپ وزیراعلیٰ رہیں پارٹی ورکر بن کر مذاق نہ اڑوائیں۔ چیف رپورٹر خبریں طلال اشتیاق نے کہا ہے کہ پنجاب، خصوصاً لاہور کے ہسپتالوں میں گائنی وارڈز کا بہت بُرا حال ہے۔ ان وارڈز میں حاملہ خواتین لیٹی ہوئی ہیں اور سامنے چیزیں بیچنے والے گھوم رہے ہوتے ہیں۔ ایک ایک بیڈ پر تین تین خواتین کو لٹا دیا جاتا ہے۔ لاہور کی آبادی کی تقریباً 53 لاکھ خواتین کیلئے طبی سہولیات موجود نہیں۔ رات کے وقت ہسپتالوں میں ڈاکٹر اور اسٹاف تک موجود نہیں ہوتا۔ گنگا رام ہسپتال میں روزانہ 70 سے 80 ڈلیوریاں ہوتی ہیں۔ آنے والے وقت میں ہسپتالوں کے فرشوں پر علاج ہوا کرے گا۔

حکومت حافظ سعید کو آج ہی رہا کرے: ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیاشاہد کے ساتھ“ میں گفتگو رتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیاشاہد نے کہا ہے کہ میر ظفراللہ جمالی صاحب سے میری ٹیلیفونک گفتگو ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ میری کوئی ملاقات شہباز شریف صاحب، شاہد خاقان عباسی یا ریاض حسین پیرزادہ سے نہیں ہوئی۔ میں حیران ہوں کہ میڈیا والے کس طرح خبریں بنا لیتے ہیں۔ ان کے بزرگوں نے نہ صرف تحریک پاکستان میں بہت اہم کردار ادا کیا بلکہ بلوچستان کا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کے سلسلے میں منعقدہ جرگے میں بھی پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ میر جعفراللہ جمالی نے کوئٹہ اور دیگر ”سیٹلڈ“ علاقوں کو پاکستان کے ساتھ شامل کروانے میں رول ادا کیا۔ میر ظفراللہ جمالی نے مجھے بتایا کہ جب میں بچہ تھا، میرے والد نے خوشی خوشی یہ خبر سنائی کہ پاکستان بن گیا ہے۔ ہم نے پوچھا کہ ہم کیا کریں۔ انہوں نے کہا تم ”دئیے جلاﺅ“۔ ہم نے دیواروں پر دئیے سجا کر جلائے۔ میرے لئے آج بھی وہی تصور قائم ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج میں دیکھتا ہوں کہ سیاست نے عجیب رخ اختیار کر لیا ہے۔ ہر سیاستدان کسی کو پھنسانے یا بچانے میں لگا ہوا ہے۔ میرا پیغام یہ ہے کہ ”کوئی پاکستان کو بھی بچانے کی کوشش کرے“۔ لوگ پاکستان کو بچانے کےلئے کیوں نہیں نکلتے۔ میاں نواز شریف اگر عدالت میں پیشی کےلئے آ جاتے تو اچھا تھا۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ عدالت میں اپنا کیس محنت سے لڑیں اور بھٹو کی طرح اسے سیاسی رنگ نہ دیں۔ مریم نواز ہر دفعہ عدالت میں پیش ہو کر جذباتی بیانات دیتی ہیں۔ اسی طرح کیپٹن(ر) صفدر کہتے ہیں کہ میں اصلی کپتان ہوں اور وہ نقلی۔ یہ سمجھتے ہیں کہ میںجلسے میں تقریر کر رہا ہوں اور سامنے والوں کو خوش کرنا ہی اصل مقصد ہے۔ اسی طرح عمران خان عدالت پیش ہوگئے۔ ناظرین جانتے ہیں کہ میں نے انہیں چینل کے ذریعے بھی اور خود بنی گالہ جا کر بھی یہی مشورہ دیا کہ عدالت میں پیش ہوں۔ خوشی ہے کہ عمران خان نے میرا اور دوستوں کا مشورہ مانا اور عدالت پیش ہو گئے اور معافی مانگ لی۔ ایک اچھی روایت قائم ہوگئی۔ پرویز مشرف کو زرداری حکومت نے باہر جانے دیا، اس مخلوط حکومت میں اسحاق ڈار وزیرخزانہ تھے۔ دونوں پارٹیاں بھی اقتدار میں شریک تھیں اور آخر میں دونوں نے پریس کانفرنس بھی کی اور گلے بھی ملے۔ حافظ سعید صاحب سے اسی فورم سے گفتگو ہوتی رہی، ہم نے بارہا کہا کہ بھارت کے لگائے گئے الزامات میں کوئی صداقت نہیں۔ لیکن امریکہ نے اس معاملے پر پریشر ڈالا اور کہا کہ حافظ سعید کو پکڑو۔ ہم مانگنے والی قوم ہیں۔ ہمارے اندر خودداری بالکل بھی نہیں۔ بھکاری کبھی خوددار نہیں ہو سکتے۔ ہمارے ہر بجٹ میں غیرملکی قرض کی تفصیل شامل ہوتی ہے اور آنے والے وقت میں قرض لینے کی تجویز بھی شامل ہوتی ہے۔ ”نظریہ پاکستان“ والوں ”خود مختار پاکستان“ پر تقریر کے لئے مجھے دعوت دی لیکن میں نے ان سے معذرت کر لی۔ ہر سیاستدان بالخصوص شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال سے درخواست ہے کہ فوراً حافظ سعید کو رہا کریں۔ ان کے خلاف الزامات تو ہیں ہی نہیں۔ لاہور ہائیکورٹ نے انہیں بری کردیا تھا۔ امریکہ نے کہا کہ انہیں پکڑو۔ ہم نے پکڑ کر اندر کر دیا۔ اب جب کہ امریکہ نے بھی کہہ دیا ہے کہ حافظ سعید کے بارے کوئی شکایت نہیں ہے تو انہیں فوری طور پر رہا کر دینا چاہیے۔ اب انکل ”سام“ نے بھی انہیں بے قصور کہہ دیا ہے تو جناب احسن اقبال اور خواجہ آصف صاحب رات کو سونے سے پہلے انہیں رہا کریں۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ بے قصور کو فوری رہا کریں۔ خواجہ آصف صاحب کی باتوں کا کوئی اعتیار نہیں کرتا۔ ہماری ان سے درخواست ہے کہ پہلے ایک فیصلہ کریں۔ امریکہ کے ساتھ ملکر چلنا ہے یا اسے آنکھیں دکھانی ہیں۔ کبھی آپ امریکہ کو کہتے ہیں حکم کریں ہم وہیں بمباری کریں گے۔ کبھی کہتے ہیں کہ ہم ڈو مور کریں گے۔ کبھی کہتے ہیں ڈومور نہیں کریں گے۔ خدارا ایک جگہ قائم تو رہیں اور اپنے مو¿قف پر ڈٹ جائیں۔ اس وقت ساری قوم ڈٹ جانے کےلئے تیار ہے۔ سارے سیاستدان اسحاق ڈار، خواجہ آصف، احسن اقبال، آصف زرداری، عمران خان، جہانگیر ترین کیوں مل کر اکٹھے نہیں بیٹھ جاتے۔ اتنی دولت اور غیرملکی پراپرٹی رکھ کر کیا کریں گے۔ لندن جیسے ملک میں ایکڑوں میں پھیلی ہوئی پراپرٹی کا کیا کرنا ہے۔ وہاں گھوڑے دوڑانے ہیں۔ وہاں قیام کےلئے ایک یا دو کمروں کا فلیٹ ہی کافی ہے۔ جہانگیر ترین کی میلسی میں زمین حدنگاہ تک پھیلی ہوئی اور لوگ ان کے بارے خوب جانتے ہیں جس طرح انہوں نے الیکشن میں کامیابی حاصل کی ہے۔ شہباز شریف صاحب کا ایک پاﺅں مسلم لیگ ن میں ہے ایک پاﺅں کہیں اور ہے۔ انہوں نے حبیب جالب کو پڑھا ہوا ہے اور کبھی کبھار جذباتی ہو کر نعرے کے طور پر شعر بھی پڑھ دیتے ہیں۔ ان کی اہلیہ، جو پہلے مصطفیٰ کھر کی بیوی تھی، نے کہا کہ شریف خاندان کو اپنا پیسہ پاکستان میں لے آنا چاہیے۔ یہ تخمینہ لگایا جا چکا ہے کہ نواز شریف اور آصف زرداری، سیاستدانوں اور بیورکریٹ کا جتنا پیسہ بیرون ملک بینکوں میں پڑا ہے۔ اسے واپس لے آئیں۔ بینظیر بھٹو پھنسنے والی تھی۔ مشرف نے این آر او کرنا تھا۔ اس لئے وہاں ایک خط لکھا گیا۔ میں نے پرویز مشرف سے پوچھا جناب آپ ان سے صلح کرنے والے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کس طرح؟ میں نے کہا اوپر سے سن کر آیا ہوں۔ سربیا کے بیسمنٹ میں وہ بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے بینظیر کے بارے چٹھی لکھی ہے کہ مقدمہ ”ڈیٹ ان آفس“ کر دیا جائے اس کا مطلب ہے آپ نے ان کے خلاف مقدمہ رکوا دیا ہے۔ انہوں نے کہا مجھے پتا نہیں یہ طے ہے کہ حکومت پاکستان نے بینظیر کے خلاف خود کہہ کر کیس رکوایا تھا۔ ابھی این آر او نہیں ہوا تھا۔ بات چیت چل رہی تھی۔ سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں جتنا پیسہ جمع ہے۔ پانامہ میں آنے والے ”سیف اللہ“ اینڈ فیملی کے بارے میں آج تک کسی نے رٹ دائر نہیں کی۔ جن کی سب سے زیادہ آف شور کمپنیاں سامنے آئی ہیں۔ سلیم سیف اللہ، کلثوم سیف اللہ کے پاس کونسی دولت کی کانیں ہیں جو یہاں سے نکال نکال کر باہر لے جاتے رہے۔ دبئی میں ہر دوسری بہترین بلڈنگ پاکستانیوں کی ہے۔ ان سب پاکستانیوں کی دولت اگر واپس آ جائے تو ہمارا تمام قرضہ اتر جائے گا۔ تمام قرضے اتر جائیں گے اور اکنامی پٹڑی پر آ جائے گی۔ دیگر حاجی بھی اس میں شامل ہیں چودھری پرویز الٰہی، چودھری شجاعت حسین ان سب کی پراپرٹی باہر موجود ہے۔ تمام سیاستدان اپنا پیسہ واپس تو لائیں بیشک ان کے نام ہی رہے۔ ان کے بینکوں میں ہی رہے لیکن اپنے ملک میں تو لاﺅ۔ ہماری قوم بار بار انہیں ووٹ دیتی ہے۔ شاہ محمود قریشی اور مرید حسین قریشی، سجاد حسین قریشی مرحوم کے صاحبزادگان ہیں۔ دونوں بھائیوں کی آج تلخ بیان بازی سامنے آئی ہے۔ یہ کوئی اچھا اخلاق نہیں ہے۔ دین کے معاملے میں معاوضہ وصول کرنا ”حرام“ ہے۔ مرید حسین قریشی نے اپنے بھائی کو مشورہ دیا ہے کہ وہ نمازیں پڑھائیں، جنازے پڑھائیں۔ لیکن گدی کی وجہ سے عمران خان کےلئے ووٹ نہ مانگیں۔ عمران خان کا مو¿قف ہے کہ کے پی کے میں اس نے پولیس کو غیرسیاسی کر دیا ہے۔ زاہد خان کے الزام لگانے پر انہیں ضرور تردید کرنی چاہیے کہ انہوں نے پولیس کو یہ ٹاسک نہیں دیا کہ حلقہ این اے 4پشاور میں تحریک انصاف کو جتوانے کی ذمہ داری پوری کرے۔ عام طور پر ضمنی الیکشن میں وہی پارٹی جیت جاتی ہے جس کی وہ سیٹ ہوتی ہے۔ لیکن جنرل الیکشن میں تبدیلی آ سکتی ہے۔

 

پریشر بڑھتا ہے تو ن لیگ کے حصے بخرے شروع ہوجاتے ہیں:ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) سینئر صحافی ضیا شاہد نے کہا ہے کہ اس وقت ن لیگ پر جتنا پریشر ہے اور ہمیشہ سے میرا یہ موقف رہا ہے کہ ن لیگ کبھی نظریاتی جماعت نہیں رہی یہ ہمیشہ سے اہل سیاست اور مقتدرقوتوں کی ارینجمنٹ ہوتی ہے لہذا جب کبھی پریشر بڑھتا ہے تو ن لیگ کے حصے بخرے ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اور آج کل بھی اس کا ایسا ہی حال ہے۔ شہبازشریف بیک وقت دو کشتیوں میں سوار ہیں جب تک وہ واضع طور پر یہ فیصلہ نہیں کرلیں کہ انہوں نے کیا کرنا ہے تو بات نہیں بنے گی۔ ان کے سامنے سیاست کو بچانے کا ایک ہی راستہ ہے یا تو وہ نوازشریف کی کرپشن کا اعتراف کریں اور کھل کر ان سے اظہار لاتعلقی کریں اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو سارے نہیں لیکن یقینی طور پر کچھ لوگ ان کے ساتھ مل جائیں گے۔ کیونکہ پنجاب پاور بیس ہے اور وہ ایک مدت سے پنجاب میں بسرسراقتدار ہیں۔ شہباز شریف سیاسی گیم سے کام لے رہے ہیں۔ وہ ان کے ساتھ بھی ہیں۔ اور ان کے خلاف اپنی بات بھی رجسٹر کراتے رہے ہیں لہذا میں سمجھتا ہوں کہ ان کو کوئی بھی سنجیدگی سے نہیں لے رہا ان کو لوگوں کو واضع طور پر بتانا چاہیے کہ وہ کیا کررہے ہیں۔ اگر وہ سابق وزیراعظم کے ساتھ بھی رہنا چاہتے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ وہ جاتے جاتے اپنی ساری سیاست ان کی جھولی میں ڈال دیں۔ اورنگزیب عالمگیر کی تعریفیں کرتے ہوئے مورخ تھکتے نہیں کہ وہ ٹوپیاں بن کر گزارہ کرتے تھے اور قرآن پاک کی کتابت سے گزارہ کرتے تھے۔ حالانکہ میں نہیں سمجھتا کہ ایسا ہوگا یہ تاریخ جھوٹی لگتی ہے ایسے منفی اور پرہیزگار شخص نے بھی اپنے باپ شاہجہاں کو معزول کیا اور بارہ سال قلعے کے برج میں بند رکھا اور ایک دن اس نے پیغام بھیجا کہ میں اکیلا تھک جاتا ہوں تو کچھ بچے بھیج دیں تاکہ میں ان کو پڑھا کر اپنا وقت پاس کرسکوں تو ان کے بیٹے نے جواب بھجوایا کہ ابھی تک حکمرانی کی سوچ آپ کے دماغ سے گئی نہیں میں بچے نہیں بھیجوں گا تو اقتدار اتنی ظالم چیز ہوتی ہے شہبازشریف کو ابھی تک سمجھ نہیں آرہی وہ بیچ میں کھڑے ہوئے ہیں وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اقتدار کا پکا ہوا پھل ان کی جھولی میں آن گرے گا تو ایسے نہیں ہوگا۔ ن لیگ پر اس وقت پریشر بہت زیادہ ہے ایسے وقت میں نوازشریف کے طرز حکومت کا اعتراف کرنے والوں میں لگتا ہے کہ صرف خواجہ سعد رفیق ہی باقی بچ جائے گا۔ طلال اینڈ کمپنی کو میں سیاست کے طبلچی کہتا ہوں یہ سارے بھاگ جائیں گے۔ آپ اس سوسائٹی کا تصور بھی نہیں کرسکتے جس میں نیب عدالت میں کارروائی ہورہی ہو اور سو ڈیڑھ سو آدمی بھیج کر آپ حج کو جانے پر مجبور کردیں ایسے سسٹم کو کوئی بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ اور معاشرے ایسے سسٹم سے چل ہی نہیں سکتے۔

ضیاشاہد کی چودھری نثار سے ملاقات، قومی اور سیاسی امور پر تبادلہ خیال

اسلام آباد (سیاسی رپورٹر) 16 اکتوبر کو پنجاب ہاﺅس اسلام آباد میں خبریں کے چیف ایڈیٹر ضیاشاہد نے سابق وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی سے تفصیلی ملاقات کی اور قومی اور سیاسی امور پر تبادلہ خیال کیا۔ اس موقع پر خبریں اور چینل ۵ کے تجزیہ کار اور کالم نگار محمد مکرم خان بھی موجود تھے۔ چودھری نثار علی خان نے گفتگو کے آخر میں یقین دلایا کہ میری تمام تر وفاداریاں کسی شخص یا پارٹی سے کہیں زیادہ اپنے ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے ساتھ ہیں۔ میں نے زندگی کا طویل حصہ مسلم لیگ ن میں گزارہ اور ہر مرحلے پر پارٹی قیادت کو مثبت مشورے دئیے۔ میرا ضمیر مطمئن ہے کہ میں نے اپنی پارٹی اور لیڈرشپ سے وفاداری نبھائی لیکن میری اصل کمٹمنٹ اللہ کی خوشنودی کے بعد ملک و قوم کے مفادات کی ترجمانی ہے اور جب تک میری زندگی قائم ہے میں ملک و ملت کی بہتری اور سربلندی کےلئے کام کرتا رہوں گا۔ متعدد سوالوں کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایک تفصیلی ملاقات آپ سے اور ہو گی۔ جس میں آپ سے موجودہ مسائل کے علاوہ مستقبل کے لائحہ عمل پر تبادلہ خیال کریں گے کیونکہ میں نے زندگی بھر آپ کی قومی سوچ اور عوامی احساسات کی قدر کی ہے۔ آپ سیلف میڈ صحافی اور ملک و ملت کا درد رکھنے والے دانشور ہیں اور میں مشکل سے مشکل دور میں آپ کو حق اور سچ کی بات کرنے پر خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ پارٹیاں اور لیڈر قابل احترام ہوتے ہیں لیکن ملک و قوم کی اہمیت ان سے بہت اوپر ہے۔ میرے لئے دعا کریں اور مجھے ہر مرحلے پر اپنے مشورے سے نوازیں۔ ضیاشاہد نے انہیں اپنی چاروں تازہ کتابیں پیش کیں۔ ”باتیں سیاستدانوں کی“ کے اوراک الٹتے ہوئے چودھری نثار نے کہا آپ نے ایک عرصہ ہماری پارٹی اور اس کی قیادت کی خدمت کی، کتاب میں اس کا تذکرہ کیوں نہیں۔ ضیاشاہد نے کہا کہ آپ کو یاد ہو گا کہ میری پہلی ملاقات مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف صاحب سے جنرل غلام جیلانی نے اس وقت کروائی جب وہ پنجاب کے گورنر تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اتفاق کے مالک میاں شریف کے صاحبزادے محمد نواز شریف کو ہم سیاست میں لانا چاہتے ہیں۔ نوائے وقت سے بات ہو چکی کیونکہ مجید نظامی صاحب سے میاں شریف کے دوستانہ تعلقات ہیں روزنامہ جنگ کی طرف سے آپ ذمہ داری لیں۔ ضیاشاہد نے بتایا کہ پہلے دن کی ملاقات سے آخری ملاقات تک جو گزشتہ دنوں نااہلی کے بعد پنجاب ہاﺅس کے اسی کمرے میں ہوئی تھی۔ نواز شریف کے بارے میں دلچسپ یادداشتیں لکھنا شروع کر دیں۔ برس ہا برس سے بیشمار تذکرے آئندہ کتاب میں آئیں گے جسے لکھنا شروع کر دیا ہے۔ چودھری نثار علی خان کے سوال پر ضیاشاہد نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ کتاب کا نام ”نواز شریف …. مجھے کیوں نکالا“ رکھیں۔ کتاب چھپی تو آپ کو ضرور بھیجوں گا۔

 

معروف صحٓافی ضیا شاہد کی مریم اورنگزیب سے ملاقات ،اپنی تازہ کتابوں کیساتھ ملکی صورتحال پر تفصیلی گفتگو

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) روزنامہ خبریں کے چیف ایڈیٹر ضیا شاہد نے گزشتہ روز وفاقی وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات محترمہ مریم اورنگزیب سے ان کی رہائش گاہ پر تفصیلی ملاقات کی۔ یہ ملاقات اڑھائی گھنٹے تک جاری رہی۔ ملاقات کے دوران ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال، معاشی حالات اور میڈیا کے کردار بارے تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر محترمہ مریم اورنگزیب نے اپنی رہائش گاہ پر ڈنر کا اہتمام کیا اور چیف ایڈیٹر خبریں ضیا شاہد کی طرف سے کتابوں کے تحائف پر شکریہ ادا کیا۔خبریں کے کالم نگار محمد مکرم خان، ریذیڈنٹ خبریں اسلام آباد امتیاز بٹ اور جنرل منیجر خبریں اسلام آباد عابد مغل بھی اس موقع پر موجود تھے۔