عدالتی معاون رضا ربانی نے تحریری جواب جمع کرایا اور کہا کہ عدالت کو خود اس معاملے کو نہیں دیکھنا چاہیے ، معاملہ واپس کمیٹی کو بھیجنا چاہئے تھا۔اسمبلی کی تحلیل کے ساتھ ہی کمیٹیز کے سارے آرڈرز غیر مؤثر ہو جاتے ہیں ۔
اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا جن آڈیوز کا ذکر ہے ان کے حوالے سے ابھی تک کوئی تحقیقات نہیں ہوئیں، معلوم نہیں وہ حکومتی ایجنسی نے ریکارڈ کی ہیں یا نہیں؟ یہ چیز واضح ہو لینے دیں آڈیوز کس نے ریکارڈ کیں ،جن خفیہ اداروں کے پاس یہ صلاحیت ہے اس سے متعلق ان کیمرہ کاروائی میں بتا سکتے ہیں ۔پارلیمانی کمیٹی کی طرف سے پٹیشنر کے خلاف کارروائی کا آغاز نہیں کیا جانا چاہئے تھا، پارلیمنٹ کے تحلیل ہونے کے بعد درخواست غیر موثر ہو چکی ،اسے نمٹا دیں۔
جسٹس بابر ستار نے کہا وزیر اعظم سے بات کریں ، کابینہ سے بات کریں ،آڈیو ٹیپنگ متعلق کوئی قانونی فریم ورک ہونا چاہیے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہمارے دفتروں اور چیمبروں میں ہماری گفتگو بھی ریکارڈ ہو رہی ہو۔میں آپ کو مناسب وقت دوں گا مگر اس حوالے سے قانونی دائرہ کار سے متعلق جواب جمع کرایا جائے۔
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے یہ پاکستان کی تاریخ ہے ، بینظیر بھٹو کیس سے اب تک یہ چیزیں ریکارڈ پر ہیں ، اگر ہمارے فون کی نگرانی کی جارہی ہے تو ہمیں پتہ ہونا چاہئے کہ ایسا کون کررہا ہے ؟ ایک لیک آڈیو پر تو ایف آئی اے تفتیش بھی کر رہا ہے، پہلے یہ تو طے ہو جائے کہ وہ آڈیو کہاں سے آئی اور لیک کیسے ہوئی؟ حکومت نے آڈیو لیکس سے متعلق اہم ججز پر مشتمل عدالتی کمیشن تشکیل دیا، اُس کمیشن کے ٹی او آرز میں بھی یہ سوال نہیں تھا کہ آڈیوز لیک کون کرتا ہے؟
عدالت نے وفاق کو جواب جمع کرانے کے لیے ایک ماہ کی مہلت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔