قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کیس میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ 17 غیر منتخب جج 25 کروڑ عوام کی منتخب پارلیمنٹ کی قانون سازی کو کیسے بدنیتی قرار دے سکتے ہیں؟
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نےکی۔
وفاق کے وکیل مخدوم علی خان نےکہا کہ قانون سازی میں ترمیم کی صورت میں قانون بدل جانے پر سپریم کورٹ نے ہمیشہ قانون ہی کی حمایت کی۔
چیف جسٹس پاکستان نےکہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ نیب ترامیم سے بنیادی حقوق متاثر نہیں ہو رہے،لگتا ہےکہ اب آمدن سے زائد اثاثے رکھنا کوئی سنجیدہ جرم نہیں رہا۔
وکیل مخدوم علی خان نےکہا کہ قانون کی سختی کم کرنےکا مطلب مجرموں کی حوصلہ افزائی کرنا نہیں ہوتا، مختلف ادوار میں جرائم سے نمٹنےکے لیے مختلف طریقہ کار اپنائے جاسکتے ہیں،50 کروڑ روپے کی حد اس لیے مقرر کی گئی کیونکہ مختلف عدالتوں کی آبزرویشنز دی جاچکی تھیں۔
چیف جسٹس پاکستان نےکہا کہ اگر ہم 1999 سے اب تک پبلک سیکٹر میں دیکھیں تو گرواٹ نظر آئے گی، پی آئی اے کو دیکھ لیں، بجلی کی ترسیلاتی کمپنیوں کو دیکھ لیں، لائن لاسز پورے ملک میں 40 فیصد تک ہیں۔
وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ 2018 سے 2021 تک نیب تفتیش اور ریفرنسز کی مد میں 18 ارب روپے خرچ ہوئے، قانون کا ماضی سے اطلاق کرنے سے عوامی پیسے ضائع ہوں گے، ترامیم کے بعد 50 کروڑ سے کم پلی بارگین کرنے والا درخواست دے کر صاف شفاف ہوجائےگا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا 18 ارب روپے خرچ کرنے سے سپریم کورٹ پارلیمان کو قانون سازی سے روک سکتی ہے؟ پلی بارگین کے عمل کو پارلیمنٹ نے اس لیے روکا کہ کچھ پلی بارگین کےکیسز میں دباؤ کا پہلو موجود تھا، پلی بارگین ختم کرانے والا کسی دوسرے قانون کی زد میں آ جائےگا،17غیر منتخب جج 25 کروڑ عوام کی منتخب پارلیمنٹ کی قانون سازی کو کیسے بدنیتی قرار دے سکتے ہیں؟
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ترامیم میں کہیں نہیں لکھا کہ نیب سے واپس ہونے والا مقدمہ کہاں چلےگا؟ پچاس کروڑ سے کم والا پیسے واپس لےکر نیب کے اختیار سے ہی نکل گیا۔
چیف جسٹس نےکہا یہ سنجیدہ معاملہ ہےکہ 49 کروڑ کرپشن والا نیب سے بچ کر آزاد ہوجائےگا۔
وکیل خواجہ حارث نےکہا کہ نیب ترامیم سے سیکڑوں افراد کو کلین چٹ دی گئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مخصوص افراد کے لیے قانون سازی ثابت کرنےکا پیمانہ کافی سخت ہے، نئے قانون کے تحت بے نامی جائیداد رکھنا مسئلہ نہیں، ایسا کرنا ہے تو پھر معلوم ذرائع آمدن سے زائد اثاثوں کو جرم کی کیٹیگری سے نکال دیں، یہ تو احتساب کی ریڑھ کی ہڈی تھی۔
عدالت نے کیس کی سماعت یکم ستمبر تک ملتوی کردی۔