لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ اشرف غنی پاکستان کے دورے پر ہیں۔ دونوں پڑوسی ممالک کے مفاد میں یہی ہے کہ دونوں ہمسایہ ممالک مل ر دہشت گردوں کے خلاف حکمت عملی بنائیں افغانستان میں پاکستان کی مدد کے بغیر امن کا خواب پورا نہیں ہو گا۔
اے پی سی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ جس طرح سمجھا جاتا تھا کہ تقریباً پیپر ورک ہو چکا ہے بلاول بھٹو، مریم نواز، فضل الرحمن، شہباز شریف سے مل چکے ہیں اور وہ بڑی آسانی سے کسی فیصلہ کن نتیجے پر پہنچ چکے ہیں لیکن اس کا آغاز جو ہوا ہے وہ بڑا پھس پھسا سا ہوا ہے میں صرف میں نہیں کہہ رہا ہوں جتنے میں دیکھ رہا ہوں کل پرسوں سے کسی بھی جگہ پر میں نے اس کو دیکھا ہو کہ اے پی سی بڑی زبردست تحریک چلائے گی کہا جاتا ہے کہ شہباز شریف تھے ان کی گفتگو بڑی دھیمی تھی۔ بلاول بھٹو نے صاف کہہ دیا کہ ہم تو پارلیمنٹ کو چلانا چاہتے ہیں سب سے بڑی بات ہے کہ یہ جو میثاق جمہوریت کی طرح میثاق معیشت کی تھیوری تھی شہباز شریف نے دی تھی جو کہ مسلم لیگ ن کے صدر تھے اس تھیوری کو بھی مسترد کر دیا گیا بلاول بھٹو نے اس کو پسند نہیں کیا۔ پیپلزپارٹی نے اس کوشش کی بڑے نام ہیں بڑے ذہین لوگ ہیں اور تجربہ ہے ان کا سیاست میں لیکن کچھ ڈلیور کیوں نہ کر سکے۔ پیپلزپارٹی ہمیشہ گومگو میں رہی ہے کہ بلاول بھٹو پیپلزپارٹی کے چیئرمین ہیں اور سب ان کی بڑی عزت کرتے ہیں لیکن جو اسمبلیوں کے ارکان، صوبائی اسمبلیوں کے ہوں یا قومی اسملی کے ہوں یا سینٹ وہ پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے اور پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین ایک الگ سیاسی جماعت ہے جس کے سربراہ آصف زرداری ہیں چنانچہ اب عجیب بات ہے کہ حقیقی سیاسی جماعت کے سربراہ تو والد محترم ہیں اور جو پارٹی سڑکوں پر رونق میلہ لگانے والی ہے اس پارٹی کے صدر بلاول بھٹو زرداری ہیں کیا وقت آ گیا انہیں کہا کہ پارلیمنٹیرین کا لفظ ہٹا کر پاکستان پیپلزپارٹی بنا دیا جائے۔ گیس، بجلی کی مہنگائی،بیروزگاری، صحت و علاج کی طرح کے مسائل کو زیادہ اجاگر کیا جاتا لیکن اتنے بڑے بڑے لیڈر حاصل بزنجو صاحب، اسفند یار ولی، فضل الرحمان، شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی، مریم نواز جیسے قد آور لیڈر ہیں لیکن ان کی زبان سے مجال ہے کہ عوام کے کسی مسئلہ کو خاص طور پر مالی مشکلات کا کوئی ذکر بھی ہوا ہو۔
انہوں نے کہا کہ لاﺅ ان پیسوں میں بجٹ تو بنا کر دکھاﺅ جو کسی ایک عام شہری کی ماہانہ آمدن ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ خالی خولی کی جو اصطلاح ہے ان کے پیچھے لکیر پیٹ رہی ہیں اصل مسائل کی طرف آتے ہی نہیں پاکستان کے عوام تڑپ رہے ہیں کسی نجات دہندہ کے لئے جو ان کو اس مصیبت سے نجات دلائے لیکن آپ اگر سینٹ کے چیئرمین تبدیل ہونے سے کیا فرق پڑھ جائے گا۔ کیا اس سے گیس کی قیمتیں کم ہو جائیں گے۔ جتنی بھی سیاسی جماعتیں اس وقت اپوزیشن میں ہیں ان جماعتوں میں کوئی ہم آہنگی نظر نہیں آتی اور اب لگتا یہ ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ دو یا تین ایشوز ایسے تلاش کر سکتے ہیں کہ جیسے ان پر ان کا اتفاق ہے مثال کے طور پر بہت برے ایشوز کیا اسمبلیوں سے استعفیٰ دینا ہے۔ نہیں دینا۔ بہت سے لوگ اس کے حق میں نہیں۔ الیکشن دھاندلی کے خلاف تحریک چلانی ہے۔ ٹھیک ہے لیکن کس قسم کی تحریک چلانا ہے اس پر کوئی ورک آﺅٹ نہیں ہوا وقت تو آ گیا۔ اس پر کیا کوئی دھرنے ہوں گے جلسے ہوں گے کوئی لانگ مارچ ہوں گے پھر گرمی بھی کافی ہے موسم بھی کوئی سازگار نہیں ہے اور آخری بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی ہو یا مسلم لیگ ن ہو سب سے زیادہ الزامات ان پر منی لانڈرنگ کے لگ رہے ہیں پچھلے 8,6 مہینے میں جے آئی ٹی کے صفحات کے صفحات کے انبار آ رہے ہیں۔ چپڑاسیوں اور چوکیداروں اور فالودے والوں کو ان سے پانچ پانچ سو کروڑ روپے نکل رہے ہیں اس کے باوجود نہ جناب آصف زرداری کے وکلاءصاحبان اور نہ ہی جناب شہباز شریف کے وکلاءصاحبان یا ان کے ساتھی کوئی بتانے کو تیار ہی نہیں کہ یہ کیا ہو رہا تھا۔ یہ آپ پاکستان سے باہر پیسہ کس لئے لے جا رہے تھے آپ کو وہاں کیا چاہئے تھا۔ کیا چیز تھی جو آپ کو یہاں نہیں مل رہی تھی جو پہلے آپ واپس پیسے لے گئے اور وہاں سے کس طرح سے پھر واپس لے آئے اپنے خلاف اصل الزامات کے خلاف جواب کیوں نہیں دیتے خاموش کیوں ہیں۔ پچھلے دنوں سکینڈل سامنے آیا کہ سارک ممالک نے 44 بلٹ پروف گاڑیاں آئیں۔ ان سارک ممالک کے مہمان واپس چلے گئے تو وہ پھر شاہی خاندانوں میں تقسیم کر دی گئیں۔ مریم نواز کے پاس بھی 6,5 گاڑیاں تھیں۔ یہ کون سا قانون ہے میں نے شاہد خاقان عباسی سے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ نہیں جی وہ سربراہ مملکت ہوتا ہے اس کا حق ہوتا ہے کہ رشتہ دار گاڑیاں استعمال کر سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح سے تو ہر شخص کا رشتہ دار ہے۔ کیا وہ سب سرکاری گاڑیاں استعمال کریں گے۔ ایک طرف ہم کہتے ہیں وی آئی پی کلچر نہیں ہونا چاہئے کیا کسی ملک میں ایسا نظام چل سکتا ہے کہ جس ملک میں آپ کسی ملزم کو پکڑ نہ سکیں۔ جس دن آصف زرداری کی گرفتاری عمل میں لائی جاتی ہے لاہور کے ایک ٹی وی چینل نے 10,9 جگہوں کا اعلان کیا کہ ان جگہوں پر مظاہرے ہوں گے گویا ان کو پہلےے سے پتہ تھا لیکن جس طرح گرفتاری ہوئی ہر جگہ 15,10 منٹ کے بعد کوئی احتجاج کرنے والا نہیں تھا یہ وائر لیس چل رہی تھی۔ یا پیپلزپارٹی تیار کرتی یا احتجاج کا اعلان نہ کرتے۔ اگر کرتے تو پیپلزپارٹی کے شایان شان ہوتا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے اس دور میں لوگ ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت سے بہت متاثر تھے اور فلیٹیز میں ان کو ملنے جاتے تھے وہ اپنے سگار کیس میں سے ایک سگار آگے بڑھاتے تھے ہم ایک سگار پکڑ لیتے تھے حالانکہ ہم سگریٹ بھی نہیں پیتے تھے تو ہم سارا دن یونیورسٹی میں بھٹو صاحب کا سگار دکھاتے تھے۔ معاہدہ تاشقند کے معاملہ میں جو انہوں نے انڈیا کو ایک دن میں تارے دکھائے تھے۔ یہی پیپلزپارٹی ہے جس نے سندھ سے زیادہ پنجاب میں زیادہ اکثریت حاصل کی تھی اب پیپلزپارٹی نے طے کر لیا ہے کہ چلو جی اگر کو ڈیمانسٹریشن کر کی ہے تو لاڑکانہ چلو۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ جنوبی پنجاب پنجاب دیکھ لیں اور بہت سی تحصیلیں اور ضلع میں پیپلز پارٹی کی مقبولیت موجود ہے پھر یہ کیوں سوچا جائے کہ سندھ کی بنیاد پر حکومتیں گرائی جا سکتیں تو پھر کب سے لوگ حکومتیں گرا دیتے۔