Tag Archives: zia shahid k sath

ختم نبوت بل کی منظوری قوم کی کامیابی بڑی سازش ناکام بنادی :سراج الحق


لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) جمہوری نظام میں احتجاج کرنا عوام کا حق ہوتا ہے۔ حکومت اسلام آباد کے مظاہرین سے مذاکرات کیوں نہیںکرتی۔ امریکہ کون ہوتا ہے ہمارے قوانین میں مداخلت کرنے والا۔ حکومت ذمہ داران کو سامنے لانے سے کیوں جھجک رہی ہے۔ امیر جماعت اسلامی، سراج الحق نے چینل ۵ کے پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ختم نبوت بل کی منظوری پر ہم سب خوش ہیں یہ قوم کی کامیابی ہے۔ ایک بڑی سازش کو ناکام کیا گیا ہے۔ ہمارا مطالبہ یہی ہے کہ تبدیلی کرنے والے ذمہ داران کو سامنے لایا جائے۔ یقینا یہ کوئی جن بھوت تو نہیں ہیں۔ وہ کوئی اہم اشخاص ہوں گے، اسلام آباد میں ہوں گے اور صاحب حیثیت ہوں گے۔ انہیںسامنےکیوں نہیں لایا جا رہا۔ وزیرقانون صاحب نے تو وضاحت کی کہ میں تو مسلمان ہوں، میرا عقیدہ درست ہے۔ لیکن وزیر قانون کی ذمہ داریہے کہ قوم کوبتائیں کہ کون لوگ اس کے پیچھے ہیں۔ خبر یہ آئی ہے کہ امریکہ نے کہا ہے کہ قانون میں تبدیلی کی جائے۔ وہ کون ہوتا ہے جو ہمارے ملک میں دخل اندازی کرتا ہے۔ یقینا بااثر لوگوں نے اسے لپیٹ کر چھپا کر ایک منظم طریقے سے پارلیمنٹ میں لے کر آئے ہیں۔ یہ کوئی نقطہ کا مسئلہ تو ہے نہیں باقاعدہ لکھا گیا پڑھا گیا ہو گا۔ آخر ذمہدار کون ہے۔ جمہوری نظام میں احتجاج کرنا۔ دھرنا دینا عوام کا اخلاقی حق ہوتاہے۔ حکومت کو چاہئے کہ اسلام آباد کے دھرنے والوں، مذاکرات کرے۔ ان کے تحفظات دور کرے اور معاملہ حل کروائے۔ نمائندہ چینل ۵ اسلام آباد ضمیر حسین ضمیر نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں لبیک یا رسول اللہ کو دھرنا دیے ہوئے تقریباً گیارہ دن ہو چکے جس کی وجہ سے اسلام آباد اور راولپنڈی کا نظام مفلوج ہو کر رہ گیا ہے حکومت نے نے دھرنے والوں کے 12 نقاط مان بھی لئے ہیں اور ختم نبوت کے بل کو اصل حالت میں بحال بھی کر دیا ہے۔ اس کے باوجود وہ دھرنا دئے بیٹھے ہیں۔ اب اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ کے لوگ ہائیکورٹ کے احکامات لےکر یہاں پہنچ چکے ہیں۔ اور تازہ دم دستے پہنچ چکے ہیں۔ حکومت نے انہیں رات دس بجے کا وقت دےرکھا ہے کہ اس سے پہلے جگہ خالی کر دیں۔ احسن اقبال اور سعد رفیق دھرنے کے شرکاءسے رابطہ کر چکے ہیں اور مذاکرات کے دوران طے پایا ہے کہ ذمہ داران کو سامنے لایا جائے گا۔ مذاکرات ناکام ہونے کی وجہ سے دھرنا چائنہ چوک سے اٹھا کر فیض آباد منتقل کر دیا گیا ہے۔ جمعہ کو انہوں نے ریلیاں نکالنے کا اعلان کیا تھا۔ اسلام آباد انتظامیہ اب مکمل طور پر تیار دکھائی دیتی ہے۔ لگتا ہے دس بجے کے بعد کوئی کارروائی کی جائے گی اور دھرنے کے شرکاءکو منتشر کر دیا جائے گا۔ ریذیڈنٹ ایڈیٹر خبریں ملتان، میاں عبدالغفار نے کہا ہے این ایچ اے کے معاوضہ جات کا ایشو بہت بڑا ہے۔ یہ اپنی پتی طے کر کے لوگوں کو معاوضہ جات دلواتے ہیں۔ غریب اور ان پڑھ کتانوں کو یہ مختلف طریقوں سے اپنے جال میں پھنسا لیتے ہیں۔ جن کے ساتھ ڈیل ہو جائے ان کی بنجر زمین کو باغ قرار دے دیئے ہیں اور جو ڈیل نہ کرے اس کے باغ کو بھی بنجر زمین بنا دیتے ہیں۔ ملتان، رشید آباد میں جب پُل بنایا گیا تو لوگوں سے اطراف کے مکانات لئے گئے تھے۔ کاغذات میں 64 فٹ جگہ دکھا کر 32 فٹ کے پیسے دیئے گئے ہیں اور آدھے 32 فٹ کے پیسے این ایچ اے کے اہلکاروں نے خود رکھے۔شجاع آباد روڈ کے ناظم کی دو بیویاں ہی ان کے اخراجات بھی ایسے ہیں۔ انہوں نے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کے گھپلے کئے ہوئے ہیں۔ زمین کے مشترکہ کھاتوں کے چکروں میں کروڑوں روپے کھائے گئے ہیں۔ یہ پانامہ سے بڑے کیسز ہیں۔ مشرف دور میں بننے والے نیب ادارے نے صرف اور صرف سیاسی کارروائیاں کی ہیں یہ کوئی احتساب کا ادارہ نہیںہے۔ مشرف دور میںلودھراں کے پٹواری کو پکڑا تھا۔ لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی چیئرمین این ایچ اے ذمہ دار ہوتا ہے شیڈولڈ کام کروانے کا لیکن ان کے تمام کام نان شیڈولڈ ہوتے ہیں۔ اعظم ہوتی نے پنڈی سے پشاور تک موٹر وے بنوائی۔ وہ اسے کروڑ دے کر صوابی لے گئے این ایچ اے ایک سیاسی ادارہ ہے۔ تمام اہلکار سیاسی طور پر کام کرتے ہیں۔ ان کے اہلکار دس فیصد کمیشن پر کام کرتے ہیں۔ ٹول پلازے اکثر غیر قانونی کام کر رہے ہیں۔ کار کا ریٹ 30 روپے ہے۔ کم از کم 35 اور زیادہ سے زیادہ 65 کلو میٹر پر ٹال پلازہ بنانے کی اجازت ہوتی ہے۔ یہ غیر قانونی ٹال پلازہ بنا لیتے ہیں اور علاقائی لوگوں کو شناختی کارڈ دیکھ کر جانے دیتے ہیں۔ لیگل ٹول پلازہ سے ایسے جا نہیں سکتے۔ نمائندہ خبریں لاہور رازش لیاقت پوری نے کہا ہے کہ این ایچ اے نے ایک منصوبہ 2001ءمیں شروع کیا جو بہاول پور سے کوٹ افضل تک اسے سیکشن 4 اور سیکشن 5 کہا جاتا ہے۔ یہ 2004ءمیں ختم ہوا۔ جس کے دوران ہزاروں ایکڑ زمین خالی کروائی گئی اور وعدہ کیا کہ معاوضہ جات ادا کئے جائیں گے۔ لیکن این ایچ اے کی کرپشن کی وجہ سے معاوضہ جات کی ادائیگی ممکن نہ ہو سکی کچھ لوگوں نے 30 سے 40 فیصد رشوت دے کر اپنے معاوضہ جات کلیئر کروا لئے لیکن 70 فیصد لوگوں کو ابھی تک ادائیگیاں نہیںہوئیں۔ تیرہ سال گزر جانے کے باوجود لوگ ان کے دفتروں کے دھکے کھا رہے ہیں۔ این ایچ اے کے اہلکار کرپٹ ہیں لوگوں کے کمیشن مانگتے ہیں۔ متاثرین زیادہ ہونے کی وجہ سے انہیں وقت اٹھانی پڑی۔ ایشو بڑھ گیا تو این ایچ اے والوں نے ریونیو رحیم یار خان (بہاولپور) کے سپرد ہر معاملہ کر دیا۔ اب وہ دوبارہ اسیس منٹ کروا رہے ہیں۔ کمشنر بہاولپور نے حکم دیا ہے کہ متاثرین کا کیس دوبارہ کھولا جائے۔ ایک خاتون اسمہ ظفر نے کیس بہاولپور ہائیکورٹ میں درج کروایا۔ جسٹس امیر حسین بھٹی نے این ایچ اے کے چیئرمین اشرف تارڑ کی بہت سرزنش کی اور 5 منٹ کے لئے ان کا منہ دیوار کی طرف کرنے کی سزابھی دی۔ ان جج صاحبان کی وجہ سے اس خاتون کو معاوصہ مل گیا۔ ملک شاہد صاحب نے ضیا شاہد سے درخواست کی کہ ہمارا ایشو اٹھائیں انہیں امید تھی کہ اس فورم سے ہمارا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔