اسلام آباد(ویب ڈیسک) سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں ن لیگی رہنماؤں کی سزا کے خلاف اپیل مسترد کردی۔سپریم کورٹ میں ن لیگ کے دو رہنماؤں شیخ وسیم اختر اور احمد لطیف کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے سابق رکن قومی اسمبلی شیخ وسیم اختر اور قصور کے مقامی لیگی رہنما احمد لطیف کی سزا کے خلاف اپیل خارج کردی۔دونوں لیگی رہنما عدالت میں معافی مانگتے رہے لیکن عدالت نے دونوں رہنماؤں کی غیر مشروط معافی مسترد کرتے ہوئے ایک ماہ قید اور نااہلی کی سزا برقرار رکھی۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہائی کورٹ نے غیرمشروط معافی مانگنے پر سزا 6 ماہ سے کم کرکے ایک ماہ کردی تھی اور دونوں رہنما اپنی ایک ماہ قید کی سزا پوری کرچکے ہیں، ہم نہیں سمجھتے کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں ہماری مداخلت کی ضرورت ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعت کے لیڈر کی نااہلی پر عدلیہ اور ججز کے خلاف نعرے لگائے گئے، یہ وتیرہ بن گیا ہے پہلے گالیاں دو پھر معافی مانگ لو، کیوں نہ دونوں کی سزائیں بڑھا دیں، دونوں رہنما ان پڑھ نہیں، بڑی ذمہ دار شخصیات تھیں، اس کے باوجود ججز اورعدلیہ کے خلاف نعرے لگائے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کی نااہل قرار دیے جانے پر قصور میں مسلم لیگ ن نے ریلی نکالی تھی جس میں اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار اور عدلیہ کے خلاف نعرے بازی کی گئی تھی۔
Tag Archives: supreme court of pakistan
پولیس نے پانچ سال کی بچی کو بھی نہیں چھوڑا کیا وہ دہشت گرد تھی؟ سپریم کورٹ
کراچی(ویب ڈیسک) سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ پولیس نے پانچ سال کی بچی کو بھی نہیں چھوڑا کیا وہ دہشت گرد تھی؟۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں شہر میں غیر قانونی تجاوزات اور امن و امان کی صورت حال سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی تو عدالت عظمیٰ نے پولیس کی کارکردگی پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔جسٹس گلزار احمد نے ایڈوکیٹ جنرل سے کہا کہ پولیس کا رویہ اور کارکردگی شرمناک ہے، ختم کردیں ایسی پولیس ان سے کہیں چلے جائیں کوئی دوسری فورس لائیں، یہ لوگ کسی وجہ کے بغیر چلتے آدمی کو ماردیتے ہیں۔جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ فیملی گاڑی میں سفر کررہی ہے اسے بھی ماردیتے ہیں، انہوں نے پانچ سال کی بچی کو بھی نہیں چھوڑا کیا وہ دہشت گرد تھی؟ عوام کے ٹیکسوں پر پلتے ہیں مگر عوام کیلئے کچھ نہیں کرتے۔
بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی والدہ اور اہلیہ سے ملاقات ،کیا باتیں ہوئیں ،تصاویر بھی سامنے آگئیں
اسلام آباد(ویب ڈیسک) دفتر خارجہ میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو سے اس کی والدہ اور اہلیہ کی ملاقات کرائی گئی۔اسلام آباد میں دفتر خارجہ میں سزائے موت یافتہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو سے اس کی والدہ آوانتی سودھی یادیو اور بیوی چیتنکاوی یادیو کی ملاقات کرائی گئی۔40 منٹ کی اس ملاقات میں بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ بھی شریک تھے۔اس موقع پر دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے دونوں خواتین کی تصویر جاری کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اپنا وعدہ پورا کردیا، کمانڈر کلبھوشن یادیو کی بیوی اور والدہ وزارت خارجہ میں آرام سے بیٹھی ہیں، ملاقات کی اجازت قائداعظم کے یوم ولادت کے موقع پر انسانی بنیادوں پر دی۔دبئی سے آنے والی امارات ائر لائن کی پرواز ’ای کے 612‘ کے ذریعے بینظیر ائرپورٹ پہنچیں جبکہ ان کے ہمراہ ایک بھارتی سفارتکار بھی پاکستان آیا ہے۔
کلبھوشن کی اہلیہ اور والدہ کو پہلے بھارتی ہائی کمیشن لے جایا گیا جہاں انہوں نے ہائی کمشنر سے ملاقات کی۔ بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریا نے دونوں خواتین کو بریفنگ دی۔بعدازاں کڑی سیکیورٹی میں کلبھوشن کے اہل خانہ کو بھارتی ہائی کمیشن سے دفتر خارجہ پہنچایا گیا۔ دفتر خارجہ کے مطابق ملاقات کا دورانیہ 40 منٹ رہا۔ اس موقع پر دفتر خارجہ کے گرد سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے اور واک تھرو گیٹ بھی لگائے گئے۔ ملاقات کے بعد دونوں خواتین آج ہی عمان ائر لائن کی پرواز 346 سے مسقط روانہ ہوجائیں گی جہاں سے وہ ائر انڈیا کی پرواز 974 سے نئی دہلی جائیں گی۔کلبھوشن یادیو کی والدہ اور اہلیہ نے ویزے کے لیے پاکستانی ہائی کمیشن میں درخواست دی تھی جس پر پاکستان نےانسانی ہمدردی کی بنیاد اور اسلامی شعائر کی روشنی میں ان کی درخواست قبول کرکے ملاقات کی اجازت دے دی تھی۔واضح رہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے جاسوس کلبھوشن یادیو کو مارچ 2016ئ میں بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔ بھارتی نیوی کے حاضر سروس افسر نے پاکستان میں دہشت گردی کی متعدد کارروائیوں کا اعتراف کیا تھا جس پر فوجی عدالت نے کلبھوشن کو سزائے موت سنائی تھی، تاہم بھارت نے فیصلے کے خلاف عالمی عدالت انصاف سے رجوع کررکھا ہے۔
بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی اپنی والدہ اور اہلیہ سے ملاقات ختم ہوگئی ہے۔دفتر خارجہ میں ہونے والی یہ ملاقات تقریباً 40منٹ تک جاری رہی۔ملاقات کے دوران بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر بھی موجود رہے جبکہ پاکستان کی جانب سے بھارتی ڈیسک کی ڈاکٹر فریحہ تھیں۔ملاقات سے پہلے تینوں کی سکیورٹی چیکنگکی گئی۔دفتر خارجہ میں ہونے والی ملاقات کے موقع کی ویڈیو ریکارڈنگ کی گئی۔با ت چیت انٹرکام کے ذریعے کی گئی۔نجی ٹی وی کے مطابق ملاقات کے موقع پر کلبھوشن نے اپنی ماں اور بیوی کی خیریت دریافت کی اور ان سے کہاکہ وہ پریشان نہ ہوں۔اپنا خیال رکھنے کو کہا،ذرائع کے مطابق ملاقات کے موقع پر جذباتی مناظر تھے جیسے ہی ملاقات ختم ہوئی ماحول افسردہ ہوگیا۔دونوں خواتین کو بھارتی ہائی کمیشن لے جایا گیا ہے جہاں وہ شام کو عمان کے ذریعے بھارت واپس روانہ ہو جائینگی،واضح رہے کہ بھارت نے کوریج کیلئے اپنی کوئی میڈیا ٹیم پاکستان نہیں بھیجی اور پاکستان سے بھی درخواست کی کہ اس سارے معاملے کی کوریج نہ کرے لیکن پاکستان کی جانب سے سب کچھ اوپن رکھا گیا جو کہ سفارتی سطح پر بہت بڑی کامیابی ہے۔
حدیبیہ کیس ۔۔ سپریم کورٹ کے فیصلے نے سب کو ہلا کر رکھ دیا
اسلام آباد (ویب ڈیسک) سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپرز مل ریفرنس کیس کھولنے کی اپیل مسترد کر دی۔ تینوں ججوں نے نیب اپیل خارج کرنے کا متفقہ فیصلہ دیا۔ جسٹس مشیر عالم نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا عدالت نیب کے دلائل پر مطمئن نہیں، اپیل زائد المیعاد ہونے پر نا قابل سماعت ہے۔سپریم کورٹ میں جسٹس مشیر عالم کی سرابرہی میں حدیبیہ پیپرز ملز یفرنس کیس کی سماعت جاری ہے۔ نیب وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا ہائیکورٹ کے فیصلے میں خلا ہے، ریفرنس کھولنے کی اجازت دی جائے۔ جس پر جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیئے کہ ریفرنس نہیں اپیل سن رہے ہیں، ہمیں تاخیر پر مطمئن کریں۔جسٹس قاضی فائز نے کہا آپ جس بیان پر کیس چلا رہے ہیں وہ دستاویز لگائی ہی نہیں۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا اسحاق ڈار کو تو آپ نے فریق ہی نہیں بنایا، اسحاق ڈار کے بیان کونکال دیا جائے تو انکی حیثیت ملزم کی ہوگی، تاخیر کی رکاوٹ دورکریں پھر کیس بھی سنیں گے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ملزم پر فرد جرم کب عائد کی گئی؟۔ نیب وکیل عمران الحق نے کہا ملزم کے نہ ہونے کے باعث فرد جرم عائد نہیں کی جا سکی۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا سالوں کیس چلا اور فرد جرم عائد نہیں کی گئی۔خیال رہے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے حدیببہ پیپر ملز ریفرنس کھولنے کیلئے نیب کی اپیل پر بینچ تشکیل دیا تھا۔ جس میں جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس دوست محمد اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل شامل تھے۔ لاہور ہائیکورٹ نے شریف برادران کیخلاف حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس خارج کر دیا تھا۔ نیب نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے ریفرنس دوبارہ کھولنے کی اجازت طلب کر رکھی ہے۔ نیب نے پاناما کیس میں پانچ رکنی بینچ کی آبزرویشن پر اپیل دائر کی تھی۔واضح رہے لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے اکتوبر 2011 میں نیب کو اس ریفرینس پر مزید کارروائی سے روک دیا تھا۔ حدیبیہ ریفرنس مشرف دور میں سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار سے 25 اپریل 2000 کو لیے گئے اس بیان کی بنیاد پر دائر کیا گیا تھا جس میں انہوں نے جعلی اکاو¿نٹس کے ذریعے شریف خاندان کے لیے ایک کروڑ 48 لاکھ ڈالر کے لگ بھگ رقم کی مبینہ منی لانڈرنگ کا اعتراف کیا تھا۔ اسحاق ڈار بعدازاں اپنے اس بیان سے منحرف ہو گئے تھے اور ان کا موقف تھا کہ یہ بیان انھوں نے دباو¿ میں آ کر دیا تھا۔
حدیبیہ کیس ،نیب کی بنائی کہانی :سپریم کورٹ
اسلام آباد (آئی این پی) سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جے آئی ٹی نے کچھ کیا ہے اور نہ نیب نے‘ نیب کی بنائی گئی کہانی بار بار تبدیل ہورہی ہے‘ اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کے سوا نیب کے پاس کوئی شواہد ہیں؟ اسحاق ڈار کا بیان بطور گواہ استعمال ہوسکتا ہے بطور ثبوت نہیں‘ بیانات چھوڑیں شواہد پیش کریں‘ جے آئی ٹی نے صرف اپنی رائے دی تھی‘ مجرمانہ عمل کیا ہے وہ بتائیں‘ ہمارے ساتھ کھیل نہ کھیلیں‘ حدیبہ کیس فوجداری مقدمہ ہے‘ پانامہ کا فیصلہ آرٹیکل 189 کی شق 3 کے تحت سنایا گیا تھا‘ ہم آپ سے ملزمان پر لگایا جانے والا الزام پوچھ رہے ہیں‘ اسحاق ڈار کا بیان کس قانون پر دوسرے کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے؟ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ پانامہ فیصلے کو حدیبیہ کے ساتھ کیسے جوڑیں؟ بتائیں کہ حدیبیہ کا اکاﺅنٹ کون آپریٹ کررہا تھا؟ 1992 سے 2017 آگیا الزامات واضح ہونے چاہئیں‘ ممکن ہے یہ کیس بلیک منی یا انکم ٹیکس کا ہو‘ نیب کو مکمل منی ٹریل ثابت کرنا ہے‘ کیا اسحاق ڈار کے بیان کو کاﺅنٹر چیک بھی کیا گیا؟ ہم نے صرف اکثریتی فیصلہ پڑھنے کا کہا ہے‘ قانون سب کے لئے ایک ہے‘ تاخیر کے معاملے کو عبور کرلیا تو ممکن ہے بات میرٹ پر آجائے۔ منگل کو سپریم کورٹ میں حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس سے متعلق نیب درخواست سماعت ہوئی۔ جسٹس شیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ نیب پراسیکیوٹر نے حدیبیہ پر جے آئی ٹی کی سفارشات پڑھ کر سنائیں۔ عدالت نے نیب کو ہدایت کی کہ ریفرنس میں تاخیر سے متعلق مطمئن کریں۔ کیس کی باقی تفصیلات دوسرے فریق کو نوٹس کے بغیر سنیں گے۔ جسٹس شیر عالم نے کہا کہ ہم نے صرف اکثریتی فیصلہ پڑھنے کا کہا ہے۔ پراسیکیوٹر نیب عمران الحق نے کہا کہ پانامہ فیصلے کے بعد نیب اجلاس میں اپیل کا فیصلہ کیا گیا۔ جسٹس مظہر عالم نے سوال کیا کہ کیا حدیبیہ کے حوالے سے پانامہ فیصلے میں ہدایات تھیں عمران الحق نے کہا کہ حدیبیہ کا ذکر پانامہ فیصلے میں نہیں ہے جسٹس شیر عالم نے سوال کیا کہ پانامہ فیصلے کو حدیبیہ کے ساتھ کیسے جوڑیں گے۔ جے آئی ٹی سفارسات پر کیا عدالت نے حدیبیہ کے بارے میں ہدایت کی؟ عمران الحق نے بتایا کہ لاہور ہائیکورٹ نے فیصلہ تکنیکی بنیادوں پر دیا تھا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جے آئی ٹی نے رائے دی مجرمانہ عمل کیا ہے وہ بتائیں ممکن ہے یہ معاملہ انکم ٹیکس کا ہو۔ جسٹس شیر عالم نے کہا کہ عدالت کو نیب آرڈیننس کے سیکشن 9 کا بتائیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نیب کے وکیل کو ہدایت کی کہ بادی النظر کا لفظ استعمال نہ کریں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بادی النظر کا لفظ نہیں بلکہ سیدھا موقف اختیار کریں۔ کیا نیب کو مزید تحقیقات کیلئے پچاس سال کا وقت لگ جائے گا۔ ہمارے ساتھ کھیل نہ کھیلیں حدیبیہ کیس فوجداری مقدمہ ہے جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ حدیبیہ کا اکاﺅنٹ کون چلا رہا ہے؟ اکاﺅنٹ اب آپریٹ نہیں ہورہا تو ماضی میں کرنے والے کا نام بتائیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نیب نے اب تک کیا تحقیقات کیں بینک کا ریکارڈ جھوٹ نہیں بولتا بینک ملازمین کے بیانات ثانوی ہیں۔ تحریری ثبوت دیں کیا نیب نے حدیبیہ پیپرز کے بارے میں انکم ٹیکس پر سوال کیا؟ وکیل نیب نے بتایا کہ ہم نے سوال نامہ بھیجا پر ابھی ریکارڈ پر نہیں ہے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہائیکورٹ نے 2013 میں کہا تھا کہ نیب مذاق بنا رہی ہے 2017 میں اب پھر ہمیں مذاق والی بات کہنا پڑ رہی ہے یاد رکھیں پانامہ کا فیصلہ آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت سنایا گیا وکیل نیب نے استدعا کی کہ اسحاق ڈار کا بیان پڑھنا چاہتا ہوں اسحاق ڈار نے بطور وعدہ معاف گواہ بیان دیا تھا جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ پیسے ادھر چلے گئے ادھر چلے گئے یہ کہانیاں ہیں پراسیکیوشن نے چارج بتانا ہوتا ہے ہم آپ سے ملزمان پر لگایا جانے والا الزام پوچھ رہے ہیں۔ وکیل نیب نے بتایا کہ ایٹمی دھماکوں کے بعد فارن اکاﺅنٹس منجمد کردیئے گئے تھے جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ 1992 سے 2017 آگیا الزامات واضح ہونے چاہئیں۔ حدیبیہ کے اکاﺅنٹ سے پیسے کس نے نکلوائے نام بتائیں۔ عمران الحق نے بتایا کہ 164 کے بیان میں اسحاق ڈار نے رقم نکلوانے کا عتراف کیا جس پر مشیر عالم نے کہا کہ ایسی صورت میں متعلقہ دستاویزات سامنے ہونی چاہئیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بیانات چھوڑیں شواہد بتائیں جے آئی ٹی نے کچھ کیا اور نہ ہی نیب بنے کچھ کیا ہے۔ بہت سارے قانونی ولازمات بھی نیب کو پورے کرنے تھے کیا حدیبیہ کے ڈائریکٹرز کو تمام سوالات دیئے گئے؟ عمران الحق نے بتایا کہ ہم نے ملزمان کو سوالنامہ بھیجا مگر جواب نہیں دیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آرٹیکل 13 کو بھی ہم نے مدنظر رکھنا ہے ممکن ہے یہ کیس بلیک منی یا انکم ٹیکس کا ہو۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ آپ کو مکمل منی ٹریل ثابت کرنا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نیب باتیں مان لیں تو پھر بھی مجرمانہ عمل بتانا ہوگا۔ نیب سیکشن 9اے کے تحت تو کوئی بات نہیں کررہے۔ اسحاق ڈار کا بیان بطور گواہ استعمال ہوسکتا ہے بطور ثبوت نہیں۔ ہمارے صبر کا امتحان نہ لیں ہمیں کسی کی ذاتی زندگی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے بتائیں کیا آپ یہ کیس چلانا چاہتے ہیں کہ نہیں۔ نیب کی بنائی گئی کہانی بار بار تبدیل ہورہی ہے۔ اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کے علاوہ نیب کے پاس کوئی شواہد ہیں؟ اسحاق ڈار نے یہ سارا عمل کس فائدے کے لئے کیا؟ وکیل نیب نے بتایا کہ اسحاق ڈار کو شریف فیملی کے لئے کام کرنے کے بدلے سیاسی فائدہ ہوا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا اسحاق ڈار کے بیان کو کاﺅنٹر چیک کیا گیا کیس کی مزید سماعت (آج) بدھ گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی۔
حدیبیہ کیس:ٹی وی تبصروں پر پابندی
اسلام آباد(اے این این، آئی این پی) سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کھولنے کی نیب کی درخواست کی سماعت کے دوران حدیبیہ پیپر کے حقائق سے متعلق لائیو شوز اور تبصروں پر پابندی عائد کردی ہے ۔پیر کو جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس مظہر عالم خان پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کھولنے کی نیب کی درخواست پر سماعت کی۔نیب کے ڈپٹی پراسیکیورٹر جنرل عمران الحق نے اپنے دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ نیب پروسیکیوٹر کا عہدہ خالی ہے لہذا مناسب ہوگا کہ اس اہم مقدمے میں پراسیکیوٹر خود پیش ہوں۔ جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیے کہ پراسیکیوٹر نیب کا عہدہ خالی ہونا کیس کے التوا کی کوئی بنیاد نہیں اور پراسیکیوٹر کی تقرری سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، کیس ملتوی نہیں ہوگا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ اگر نیب کی جانب سے کوئی قانونی افسر اس کیس میں پیش نہیں ہوسکتا تو انہیں چاہیے کہ وہ استعفی دے دیں،جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ عدالت کا مذاق نہ اڑائیں، ہمارے لیے ہر کیس ہائی پروفائل ہے،کیوں نہ آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کریں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ صرف کرپشن کہنے سے کرپشن ثابت نہیںہوتی،نیب انکم ٹیکس کیس نہیں اٹھاسکتی مجرمانہ عمل دیکھانا ہوگا، ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیں،پھر بھی ریفرنس بحال نہیں ہوگا، اگر پانامہ کیس نہ ہوگا، تو کیا نیب نے کچھ نہیں کرنا تھا؟ پانامہ فیصلے کے آپریٹو حصہ پڑھیں، پانامہ فیصلے حدیبیہ کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا، آپ اقلیتی فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں، اقلیتی رائے ہم پر لازم نہیں ، اس کیس میں نئے قوائد بنائے گئے ہیں، لاہور ہائی کورٹ نے ریفرنس بحالی پر حکم امتناع جاری نہیں کیا تھا، نیب اپنے رویے سے ریفرنس ختم کروایا، جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ پہلے حدیبیہ کیس دوبارہ کھولنے پر دلائل دیں پھر میرٹ پر ،کیا حکومت کل کسی دورے ملزم کو بھی معاہدہ کرکے باہر جانے کی اجازت دے دے گی؟ ملزمان کو واپسی پر گرفتار کیوں نہیں کیا گیا، عدالت نے نیب سے جعالی اکاﺅنٹس کے حوالے سے تفصیلات طلب کرلی۔ پیر کو سپریم کورٹ میں ہائی کورٹ فیصلے کے خلاف حدیبیہ ریفرنس پر جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی،ڈپٹی چیئرمین نیب امتیاز تاجور بھی عدالت میں پیش ہوئے، نیب کے پراسیکوٹر عمران الحق نے اپنے دلائل دیے۔ عدالت نے سوال کیا کے اپیل دائر کرنے میںاتنی تاخیر کیوں کی گئی؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ جلاوطنی کی کیا کوئی قانونی حیثیت ہے؟مفرور کا تو سنا تھا جلاوطنی کا حکم کیا ہے؟نوازشریف کی جلاوطنی کا حکم کس نے دیا؟ عمران الحق نے جواب دیا کہ معاہدے کے تحت نوازشریف کو ملک سے باہر بھیجا گیا، نوازشریف خود اپنی مرضی سے باہر گئے تھے،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ خود باہر گئے تھے تو مفرور کی کاروائی ہونی چاہیے تھی،اس کیس میں نئے قوائد بنائے گئے، جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ کل کو کیا حکومت کسی دوسرے ملز م کو بھی معاہدہ کرکے ملک سے باہر جانے کی اجازت دے دے گی؟ جسٹس قاضی فائز عیسی نے سوال کیا کہ کیا نیب نے جلاوطنی کے سہولت کاری پر کوئی کاروائی کی؟ عمران الحق نے بتایا کہ نوازشریف پر طیارہ ہائی جیک کرنے کا کیس کراچی میں چل رہا تھا، جسٹس مشیر عالم نے سوال کیا کہ کیا ملزمان کراچی میں زیر حراست تھے؟عمران الحق نے بتایا کہ ملزم اٹک قلعہ میں تھا، جسٹس قاضی فائز عیسی نے سوال کیا کہ اٹک قلعہ کے اندر کیس کس نے چلایا، کیا اٹک قلعہ کے اندر بھی کوئی عدالت ہے؟ اس وقت پاکستان کو کون سے حکومت چلارہی تھی؟عمران الحق نے جواب دیا کہ اس وقت چیف ایگزیکٹو پرویز مشرف تھے نوازشریف سپریم کورٹ کے حکم کے بعد واپس آئے ، جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اگر نوازشریف خود گئے تھے،توواپسی کے لیے درخواست نہ دینی پڑتی،جسٹس مشیر عالم نے سوال کیا کیہ ملزمان کی واپسی پر انھیں گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟عمران الحق نے بتایا کہ کیس چلنے کے بعد عدالت ہی گرفتار کا حکم دے سکتی ہے، 17جولائی 2011کو چیئرمین نیب نے کیس بحالی کی درخواست دی،17اکتوبر 2011کو ملزمان نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی، 18اکتوبر 2011کو عدالت نے حکم امتناع جاری کردیا، جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے ریفرنس بحالی پر کوئی حکم امتناع نہیں دیا، نیب نے اپنے رویے سے ریفرنس ختم کروایا، ہائی کورٹ کا حکم کالعدم قرار دے دیں پھر بھی ریفرنس بحال نہیں ہوگا، جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ پہلے کیس دوبارہ کھولنے پر دلائل دیں پھر میرٹ پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے سوال کیا کہ اگر پانامہ نہ ہوتا تو کیا نیب نے کچھ نہیں کرنا تھا؟پانامہ فیصلے کا آپریٹو حصہ پڑھیں، پانامہ فیصلے میں حدیبیہ کیس کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا ، فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ جب نیب اپیل دائر کرے گی تب دیکھا جائے گا، اگر سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے تو پھر ہم سماعت کیوں کررہے ہیں، آپ اقلیتی فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں، اقلیتی رائے ہم پر لازم نہیں ہے،ہم آپ سے پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ اقلیتی فیصلے کو نہ پڑھیں، اتنا وقت ضائع کیا گیا آخر میں پھر وہی بات آگئی ،اگر آپ نے پانامہ فیصلے کا اب حوالہ دیا تو آپ کو نوٹس جاری کریں گے، جسٹس مظہر عالم نے سوال کیا کہ نیب کی عبوری ریفرنس دائر کرنے کی وجوہات کیا تھیں، پراسیکیوٹر نیب عمران الحق نے بتایا کہ حدیبیہ تحقیقات میں آنے والی درخواست پر کسی کے دستخط نہیں تھے، شکایات ذرائع سے موصول ہوئیں، جسٹس قاضی فائز عیسی نے سوال کیا کہ دیکھنا ہے کہ ریفرنس میں مجرمانہ عمل کیا ہے، ہمارا رخ افسردہ تاریخ کی طرف نہ موڑیں ، نہیں جاننا چاہتے کہ صدر کون تھا، چیئرمین کون تھا، کرپشن لفظ نہیں شواہد دکھائیں ، جعلی اکاﺅنٹس کیسے کھولے گئے؟کیا بینک ان کا تھا؟صرف کرپشن کرپشن کہنے سے کرپشن ثابت نہیں ہوتی،نیب انکم ٹیکس کیس نہیں اٹھا سکتی، مجرمانہ عمل دکھانا ہوگا، عدالت نے نیب سے جعلی اکاﺅنٹس کے حوالے تفصیلات طلب کرلیں، کیس کی مزید سماعت (آج ) بروز منگل 11بجے تک ملتوی کردی گئی۔
سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کی سماعت کے آغاز میں ہی بڑا فیصلہ سنادیا
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کی سماعت کے دوران نیب کی التوا کی اپیل کی درخواست مسترد کردی۔جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مظہر عالم خان پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کی سماعت کی۔اس موقع پر نیب کے وکیل نے کہا کہ نیب پراسیکیوٹرکا عہدہ خالی ہے اس لئے مناسب ہوگا کہ اس اہم مقدمے میں پراسیکیوٹر خود پیش ہوں۔خیال رہے کہ گزشتہ سماعت پر نیب نے سماعت میں التوا کی درخواست کی تھے جسے آج عدالت نے مسترد کردیا۔جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیے کہ پراسیکیوٹر نیب کا عہدہ خالی ہونا کیس کے التوا کی کوئی بنیاد نہیں اور کیس ملتوی نہیں ہوگا۔
جسٹس باقر نجفی ٹربیونل کیخلاف رپورٹ دینے والے سپریم کورٹ کے جسٹس خلیل الرحمن کے بیٹے پر ”نوازشیں “کرنیوالے کون ؟دیکھئے خبر
لاہور (نیااخبار رپورٹ) سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں جسٹس باقر نجفی ٹربیونل کے خلاف حکومت پنجاب کے حق میں رپورٹ دینے والے سپریم کورٹ کے 1 رکنی بنچ پر مشتمل جسٹس خلیل الرحمن خان کے بیٹے شکیل الرحمان کو صوبائی حکومت نے ایڈووکیٹ پنجاب کے عہدے سے نواز دیا۔ واضح رہے کہ انہوں نے سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں صوبائی حکومت کو کلین چٹ دے کر بری الذمہ کردیا تھا اور کہا تھا کہ جسٹس باقی نجفی رپورٹ تضادات کا مجموعہ ہے۔ اسے کسی صورت قبول نہ کیا جائے۔ رپورٹ میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں فائرنگ طاہر القادری کے گھر سے ہوئی جس کے بعد پولیس نے آپریشن شروع کیا۔
عمران خان کیخلاف بھی شکنجہ تیار،سپریم کورٹ سے جاری منی لانڈرنگ کے شواہد بارے اہم ترین خبر
حدیبیہ کیس :سپریم کورٹ نے ریکارڈ طلب کر لیا
اسلام آباد(ویب ڈیسک) سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپر ملز کیس میں نیب سے تمام ریکارڈ طلب کرتے ہوئے احتساب عدالت کی کورٹ ڈائری اور اس وقت کے چیئرمین نیب کی تقرری کا طریقہ کار طلب کرلیا ہے۔سپریم کورٹ کے جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل بینچ حدیبیہ پیپر ملز کیس کی سماعت کررہا ہے۔ اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ حدیبیہ ریفرنس کی دستاویزات کدھر ہیں جس پر خصوصی پراسیکیوٹر نیب عمران الحق نے کہا کہ ہائی کورٹ نے تکنیکی بنیادوں پر ریفرنس خارج کیا تاہم عدالت کہے تو ریفرنس کی دستاویزات فائل کردیتے ہیں۔جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ حدیبیہ پیپرملز سے متعلق ریفرنس کی بات جے آئی ٹی کے کس والیم میں کی گئی، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ والیم 8 میں حدیبیہ پیپرزملز ریفرنس کے بارے سفارشات دی گئی ہیں جس پر عدالت نے رجسٹرار آفس سے والیم 8 اور والیم 8 اے منگوالیا۔جسٹس مشیرعالم نے کہا کہ حدیبیہ پیپرزمل کے اصل ریفرنس کی دستاویزات دیکھناچاہتے ہیں، عمران الحق کا کہنا تھا کہ منی لانڈرنگ کے لیے اکنامک ریفارمز ایکٹ کا سہارا لیاگیا اور منی لانڈرنگ کے لیے جعلی فارن کرنسی اکاؤنٹ کھولے گئے جب کہ ملزمان کے بیرون ملک ہونے کی وجہ سے کارروائی روک دی گئی تھی۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کسی کوجبری طورپر باہر بھیجنا یا کسی کاعدالت سے فرارہونا مختلف چیزیں ہیں جب کہ کس کے حکم پر نواز شریف کو باہر بھیجا گیا تھا، وکیل نیب نے عدالت کو بتایا کہ نوازشریف کو اس وقت کے چیف ایگزیکٹو پرویزمشرف کے حکم پر باہر بھیجا گیا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ فریقین بیرون ملک کب گئے جس پر وکیل نیب کا کہنا تھا کہ دسمبر 2000 میں جلا وطن ہوئے اور نومبر 2007 میں جلا وطنی سے واپس آئے جب کہ ملزمان 2014 میں مقدمہ پر اثر انداز ہوئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ نیب کو ریفرنس پرکتنے عرصے میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے، نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ نیب کو ایک ماہ کے اندر ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا کہ کیا کسی کے خلاف ریفرنس بنا کر اس پر ہمیشہ کے لیے تلوار لٹکائے رکھیں گے، ریفرنس کو طویل عرصہ تک زیر التواء نہیں رکھا جا سکتا، آپ سمجھتے ہیں ہم اپیل پر ابھی حکم جاری کر دیں گے۔ جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ حدیبیہ کا ریفرنس کہاں ہے، جس پر وکیل نیب کا کہنا تھا کہ پاناما کے مقدمہ کے بعد اپیل دائر کی۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ حدیبیہ ریفرنس پر دلائل دیں، نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ حدیبیہ ریفرنس پر میری مکمل تیاری نہیں ہے تاہم حدیبیہ پیپر ملز 1999 تک خسارے میں چل رہی تھی،اس وقت کمپنی کے ڈائریکٹرز کے پاس بہت بڑی رقم تھی۔
سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپر ملز کیس میں نیب سے تمام ریکارڈ طلب کرتے ہوئے احتساب عدالت کی کورٹ ڈائری اور اس وقت کے چیئرمین نیب کی تقرری کا طریقہ کار بھی طلب کرلیا۔ عدالت نے نیب کی جانب سے دستاویزات پیش کرنے کے لئے 4 ہفتوں کی مہلت کی استدعا مسترد کردی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کیس میں سنجیدگی دکھائیں، سپریم کورٹ نے خاص بینچ بنایاہے، کیا نیب ابھی بھی دباؤ میں ہے۔ وکیل نیب نے جواب دیا کہ بدقسمتی سے ایساہی ہے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 11دسمبر تک ملتوی کردی۔
نوا ز شریف کیلئے خوشیاں عارضی ثابت ہوئیں ،دوبارہ پارٹی صدر بننے کے بعد ہی سپریم کورٹ میں اہم اقدام اُٹھا لیا گیا
اسلام آباد(ویب ڈیسک) سپریم کورٹ نے نااہل شخص کے پارٹی صدربننے کیخلاف شیخ رشید کی اپیل چیمبرمیں سماعت کیلئے مقررکرلی، چیف جسٹس ثاقب نثارکل اپنے چیمبرمیں درخواست پرسماعت کریں گے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق سپریم کورٹ نے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کی درخواست سماعت کیلئے مقرر کرلی ہے۔ شیخ رشید نے نااہل شخص کے پارٹی صدر بننے کیخلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی ۔
جبکہ رجسٹرار سپریم کورٹ نے اعتراضات لگا کردرخواست مسترد کر دی تھی۔تاہم چیف جسٹس سپریم کورٹ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ پٹیشن پراپیل پرسماعت مقرر کردی ہے۔چیف جسٹس ثاقب نثاراپنے چیمبرمیں کل سماعت کریں گے۔ واضح رہے حکومت نے انتخابی ایکٹ میں نااہل شخص کوپارٹی صدر بنانے کیلئے بل پاس کیا۔جس پرنوازشریف پارٹی صدر بن گئے۔
سپریم کورٹ نے بھی نوازشریف کی 3 ریفرنسزیکجا کرنے کی درخواست مسترد کردی
”نا اہلی کیس“نواز شریف کے بعد جہانگیز ترین ۔۔سپریم کورٹ کے سخت ریمارکس
اسلام آباد (آن لائن) سپریم کورٹ میں جہانگیر ترین کی نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ٹرسٹ کا سیٹلرجائیداد کا مالک نہیں ہوسکتا ،ٹرسٹ جہانگیرترین کااثاثہ نہیں ہے ،دیکھنا ہے کیا جہانگیرترین کوٹرسٹ کے تحت خریدی جائیداد کوکاغذات نامزدگی میں ظاہرضروری تھا،ٹرسٹ قانونی طریقے سے بنایا گیا بددیانتی کیسے ہوگئی بیرون ملک پیسہ جہانگیرترین کااثاثہ ثابت کرنا ہوگا۔چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس عمر عطاءبندیال اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے جہانگیرترین ناکے لیے مسلم لیگ ن کے رہنماءحنیف عباسی کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کی ، دوران سماعت حنیف عباسی کے وکیل عاضد نفیس نے اپنے دلائل میں جہانگیرترین کی مجموعی زرعی آمدنی کے تحریری جوابات میں تضاد ہونے کا موقف اپنا تے ہوئے کہاکہ جہانگیر ترین کی جانب سے لیززمین سے متعلق پیش کی جانے والی دستاویزات جعلی ہیں جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ ہوسکتا ہے کاغذات نامزدگی مسئلہ بننے پرتوجہ ہی نہ دی گئی ہو جہانگیرترین نے لیززمین کی ادائیگیاں بذریعہ چیک کیں کسی مالک نے اعتراض بھی نہیں کیا ،اس پر وکیل نے عدالت کو بتایاکہ جہانگیر ترین نے لیززمین کی آمدنی پرایک پیسہ ٹیکس بھی ادا نہیں کیا توجسٹس عمرعطا ءبندیال نے کہا کہ کیاہم ٹیکس ،اتھارٹی کے اختیارات استعمال کرسکتے ہیں عاضد نفیس نے کہاکہ عدالت نے ٹیکس گوشواروں اوردستاویزات میں تضاد دیکھنا ہے تاہم لیززمین کا محکمہ مال میں اندراج ہی نہیں ہے جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ اندراج کرانا مالکان کا کام تھا ، چیف جسٹس نے کہاکہ ریکارڈ پر موجود دستاویزات کے ذریعے بے ایمانی کا دیکھ رہے ہیں جبکہ حنیف عباسی نے جہانگیر ترین کی جانب سے لندن پراپرٹی سے متعلق ٹرسٹ ڈیڈ پردلائل دیتے ہوئے کہا کہ پہلے جہانگیرترین نے آف شورکمپنی اورٹرسٹ کے بینفیشری مالک ہونے سے انکارکیا تھا اب ٹرسٹ ڈیڈ کے مطابق وہ تاحیات بینیفشری ہیں ،اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ٹرسٹ کا سیٹلرجائیداد کا مالک نہیں ہوسکتا ٹرسٹ جہانگیرترین کااثاثہ نہیں ہے دیکھنا ہے کیا جہانگیرترین کوٹرسٹ کے تحت خریدی جائیداد کوکاغذات نامزدگی میں ظاہرضروری تھا اس پر وکیل نے کہا کہ ٹرسٹ اثاثے کی مالکیت کوچھپانے کیلئے بنایا جاتا ہے جس پر چیف جسٹس نے ٹرسٹ کی جائیدارجہانگیرترین کی ملکیت ہونے کے قانون سے متعلق پوچھا اورکہاکہ پانامہ کیس میں بھی منی ٹریل اورپیسہ آنے کے ذرائع کا سوال تھا پہلے عدالت نے قابل وصول تنخواہ کواثاثہ ثابت کیا جسے ظاہرنہ کرنے پرنااہلی ہوئی وکیل نے کہاکہ پاناما فیصلے میں عدالت تنخواہ ظاہرنہ کرنے کی تہ میں نہیں گئی ، عدالت کو کنڈکٹ کودیکھ کرصادق اورآمین کافیصلہ کرناہے اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کوبائی پاس نہیں کرسکتے تاحیات بینیفیشری ہونے کوتسلیم کرنے کے بعد کاغذات نامزدگی میں ٹرسٹ ظاہرکرنےکا سوال ہے ، ٹرسٹ قانونی طریقے سے بنایا گیا بددیانتی کیسے ہوگئی بیرون ملک پیسہ جہانگیرترین کااثاثہ ثابت کرنا ہوگا ، بعد ازاں عدالت نے سماعت جمعرات تک ملتوی کردی۔