لاہور(ویب ڈیسک) احتساب عدالت نے پیراگون اسکینڈل میں گرفتار سعد رفیق اور سلمان رفیق کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔نیب نے پیراگون ہاؤسنگ اسکیم اسکینڈل میں گرفتار خواجہ سعد اور سلمان رفیق کو جسمانی ریمانڈ ختم ہونے پر احتساب عدالت میں پیش کیا۔ اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کی بڑی تعدادعدالت کے باہر موجود تھی۔دوران سماعت نیب پراسیکیوٹر نے خواجہ برادران کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔ نیب پراسیکیوٹر نے اپنے دلائل میں کہا کہ پیراگون کے اکاؤنٹس سے خواجہ سعد رفیق کے اکاؤنٹ میں براہ راست 62 لاکھ روپےآئے ہیں، فرحان علی پیراگون کا ملازم ہے، اسی کے دستخطوں سے پیراگون سے پیسے جاری ہورہے ہیں۔نیب کی جانب سے بتایا گیا کہ خواجہ برادران کو سعدین ایسوسی ایٹس اور ایگزیکٹیو بلڈرز سے پیسے آ رہے ہیں جب کہ خواجہ برادران کا کہنا ہے کہ ہمیں کنسلٹنسی کے پیسے آ رہے ہیں، اس سوسائٹی کا نقشہ منظور کروانے میں ٹی ایم اے کے ریکارڈ میں ٹیمپرنگ کی گئی۔خواجہ برادران کے وکلا نے جوابی دلائل میں کہا کہ خواجہ برادران کا پیراگون میں کوئی کردار نہیں ہے، گزشتہ 10 دنوں کے جسمانی ریمانڈ اور 9 ماہ کی انکوائری میں نیب آج تک کچھ نکل سکا، ان کے موکلین کا ریمانڈ لینے کے لئے ادھر ادھر کی باتیں کی جا رہی ہیں، اگر نیب کی بات مان لی جائے تو سرکار کی اراضی کے رکھوالے آج تک اس حوالے سے سامنے کیوں نہیں آئے، خواجہ برادران کی کمپنیوں سے گھر اور پلاٹس لینے والے مالکان کے نام اور گھروں کے نمبر نیب کو دئیے جا چکے ہیں۔فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے خواجہ برادران کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کے لیے نیب کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
واضح رہے کہ نیب نے 11 دسمبر کو لاہور ہائی کورٹ سے ضمانت کی درخواست مسترد ہونے کے بعد خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق کو پیراگون ہاؤسنگ سوسائٹی کیس میں گرفتار کیا۔
پیراگون ہاؤسنگ سوسائٹی کیس؛
نیب کا موقف ہے کہ خواجہ سعد رفیق نے اپنی غیر حقیقی خریدار اہلیہ اور بھائی خواجہ سلمان رفیق کے ساتھ مل کر قیصر امین بٹ اور ندیم ضیا کی شراکت میں ایئر ایونیو کے نام سے ایک ہاؤسنگ منصوبہ شروع کیا۔ ایئر ایونیو کو بعد میں ایک نئے ہاؤسنگ منصوبے پیراگون سٹی سے بدل دیا گیا جو کہ ایل ڈی اے سے غیرمنظور شدہ ہے اور اس کے قیام کے لیے زمین غیر قانونی ذرائع سے حاصل کی گئی۔
نیب کا موقف ہے کہ خواجہ سعد اور سلمان رفیق پیراگون ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالکان میں سے ہیں، ملزمان نے اس غیر قانونی منصوبے میں توسیع اور تشہیر کے لیے عوامی عہدے کا استعمال کیا اور کمرشل پلاٹوں کی فروخت سے اربوں روپے کے فوائد حاصل کیے۔