Tag Archives: mishal khan

مشال کے نام پر کمائی کا دھنداشروع

کراچی (خصوصی رپورٹ) مشال خان کے نام پر کمائی کا نیا دھندا شروع کردیا گیا ہے۔ برطانیہ میں مقیم مشال خان کے ایک عزیز ڈاکٹر حیدر شاہ نے مقتول طالب علم کے نام سے فنڈنگ مہم شروع کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ یہ رقم مشال کے اہل خانہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر جمع کررہے ہیں جس کا ابتدائی ہدف 20 ہزار پاﺅن (تقریباً 26 لاکھ 78 ہزار 357 پاکستانی روپے) ہے۔ فنڈنگ مہم کے تحت رقم جمع کرنے کے لئے موصوف ڈاکٹر نے ایک ویب بیج بنایا ہے جس پر مشال کی دردناک موت کی مختصر روداد بیان کی گئی ہے تاکہ لوگوں کی جیب سے پیسہ نکولانے کے لئے جذبات کو استعمال کیا جاسکے۔ اس حربے کے اثرات بھی ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان سطور کے لکھے جانے سے درجنوں ملکی و غیرملکی تقریباً پانچ ہزار پاﺅنڈ (6 لاکھ 68 ہزار پاکستانی روپے) جمع کرا چکے ہیں۔ مشال کے والد اقبال ایک باین اکاﺅنٹ پہلے ہی ڈاکٹر حیدر شاہ کو دے چکے ہیں۔ حیدر شاہ نے انہیں کہا ہے کہ 20 ہزار پاﺅنڈ کا ابتدائی ہدف حاصل ہوتے ہی رقم ان کے اکاﺅنٹ میں منتقل کردی جائے گی۔ اس فنڈنگ مہم کے لئے مشال کے قتل کے تین روز بعد اتوار کو ڈاکٹر حیدر شاہ نے مقتول کے والد اور بھائی ایمل سے فون پر رابطہ کرکے اپنی فنڈنگ مہم کے بارے میں آگاہ کیا تھا جس پر اقبال اور ایمل دونوں نے ڈاکٹر حیدر شاہ کے جذبے کی تعریف کرتے ہوئے انہیں یہ فنڈنگ مہم چلانے کی اجازت دی اور رقم کی منتقلی کے لئے ڈاکٹر حیدر کو اپنا اکاﺅنٹ نمبر بھیجا۔ ذرائع نے بتایا کہ اس فنڈگ مہم میں اٹلی کے شہر پیسا میں مقیم مشال کا کزن ذوالقرنین عرف سکندر شاہ بھی پیش پیش ہے۔ ڈاکٹر حیدر شاہ برطانیہ کے بزنس سکول یونیورسٹی آف ہرٹ فورڈ شائرہیٹفیلڈ میں لیکچرار ہیں اور ان کے بقول وہ بھی مشال جیسے طالب علم اور اسی کی طرح معاشرے کے ناقد ہیں۔ لہٰذا اس کی فیملی کے ساتھ اظہار یکجہتی اور ان کی فییملی کے لئے مالی امداد کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ادھر ذرائع کے مطابق مثال کے والد کو برطانیہ سے ملالہ یوسف زائی اور ان کے والد ضیاءالدین یوسف زئی نے بھی ٹیلی فون کیا ہے۔ بیٹے کے قتل پر اقبال خان سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے ملالہ اور ضیاءالدین نے پاکستان میں بڑھتے تشدد کے رجحان کا ذکر کیا اور کہا کہ اسی وجہ سے وہ اور ان کا خاندان بیرون ملک میں ہیں۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ مشال کے اہل خانہ کو ملالہ کی فیملی کی طرح بیرون ملک شفٹ ہونے کا مشورہ دیا جارہا ہے اور مکان ہے کہ کچھ عرصے بعد فیملی کو خطرے کا جواز بنا کر اقبال خان اہل خانہ سمیت برطانیہ یا کسی اور یورپی ملک مستقل طور پر منتقل ہوجائیں گے۔ مشورہ دینے والوں نے سمجھایا ہے کہ بین الاقوامی طور پر مشال کے قتل کا واقعہ ہائی لائٹ ہونے کے بعد انہیں بیرون ملک سیٹل ہونے میں دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا کہ یہ ممالک پہلے ہی ”روشن خیالوں“ کے اپنے دروازے کھلے رکھتے ہیں۔ مشال خان کے بھائی ایمل خان نے تصدی کی ہے کہ برطانیہ میں مقیم ڈاکٹر حیدر شاہ نے ان کی رضامندی سے ان کے لئے فنڈنگ مہم شروع کی ہے اور یہ کہ لوگ کھلے دل کے ساتھ پیسہ جمع کرا رہے ہیں۔ ایمل خان نے بتایا کہ ڈاکٹر حیدر شاہ ان کے دور پرے کے رشتہ دار ہیں۔ فنڈنگ کے حوالے سے وہ ان کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں اور دن میں کئی بار رابطہ کرکے اس بارے میں انہیں اپ ڈیٹ کرتے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اگرچہ مشال کے والد کو ٹافیاں اور بسکٹ سپلائی کرنے والا ایک غریب محنت کش قرار دیا جارہا ہے تاہم مشال اپنی زندگی میں قیمتی اور نت نئے ملبوسات استعمال کیا کرتا تھا۔ اس کے پاس پیسہ مہنگے موبائل فون سیٹ اور لیپ ٹاپ رہا کرتے تھے جبکہ قریبی دوستوں کے مطابق مشال کی جیب بھی پیسوں سے بھری رہتی تھی۔ ادھر عمران خان کے اس ٹیوٹ نے کہ مشال خان کے اہل خانہ نے مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کا نام ان کے بیٹے سے منسوب کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے لہٰذا وہ اس خواہش پر عمل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ایک نیا بھونچال پیدا کردیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے اس اعلان کے بعد عوامی نیشنل پارٹی میں بے چینی پھیل گئی ہے۔ مشال خان کے حق اور مارنے والوں کے خلاف دھواں دھار بیان بازی کرنے والے اے این پی کے حلقے اسے ایک سیاسی چال قرار دے رہے ہیں اور یونیورسٹی کو مشال خان کے نام سے منسوب کرنے پر تیار نہیں۔ ذرائع کے بقول خیبر پختونخوا حکومت نے اگر اس ارادے پر عمل کیا تو صوبے میں تحریک انصاف اور اے این پی کے درمیان تصادم کی فضا پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ واضح رہے کہ میڈیا میں بالخصوص ایک نجی ٹی وی چینل نے مشال خان کے قتل کے ایک مرکزی ملزم وجاہت کا اعتراف بیان ذرائع کے حوالے سے چلایا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس نے سارے واقعہ کی ذمہ داری یونیورسٹی انتظامیہ پر ڈالتے ہوئے مشال خان کے قتل پر ندامت کا اظہار کیا اور یہ کہ اسے یونیورسٹی انتظامیہ نے مشال خان پر توہین کا الزام لگانے کا کہا تھا۔ وجاہت کے اس اعترافی بیان کو موم بتی مافیا حد سے زیادہ ہائی لائٹ کررہی ہے اور سوشل میڈیا پر اسے مسلسل شیئر کیا جارہا ہے۔ تاہم ذرائع کے مطابق مذکورہ ٹی وی چینل نے بدنیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وجاہت کا مکمل اعترافی بیان جاری نہیں کیا، صرف اپنے مقاصد کے حصے عام کئے ہیں۔ ذرائع کے بقول مکمل اعترافی بیان میں وجاہت نے کہا ہے وہ مشال کے نظریات سے اختلاف رکھتا تھا اور اس معاملے پر اس کی مشال سے گرما گرمی رہتی تھی۔ وقوعہ کے روز انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن ضلع مردان کے نائب صدر مدثربشیر نے اسے چیئرمین کے دفتر میں بلایا، جہاں لیکچرار ضیااللہ ہمدرد، سپرنٹنڈنٹ ارشاد ، کلرک سعید اور دیگر لوگ موجود تھے۔ وجاہت کے بقول ان سب کے سامنے مدثر بشیر نے مشال خان کے توہین رسالت سے متعلق الفاظ کا گواہ بننے کا اعلان کیا تھا۔ دوسری جانب مشال خان کے قتل کے واقعے کے حوالے سے ایک نئی ویڈیو منظرعام پر آئی ہے، جس میں واقعہ کا ایک اور مرکزی ملزم قرار دیئے جانے والا مردان میں پی ٹی آئی کا تحصیل کونسلر اور انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا جنرل سیکرٹری عارف اپنے حامیوں سے حلف لے رہا ہے کہ مشال کو گولی مارنے والے کا نام پولیس کو نہیں بتایا جائے گا۔ ساتھ ہی عارف اپنا نام ایف آئی آر میں درج کرنے کا مطالبہ بھی کررہا ہے۔ واضح رہے کہ عارف اب گرفتار ہے تاحال پولیس ریمانڈ کے باوجود اس نے اس طرح کا کوئی اعترافی بیان نہیں دیا ہے کہ مشال کا قتل توہین کے الزام پر نہیں بلکہ کسی اور سازش کے تحت ہوا۔ مجبوراً موم بتی مافیا وجاہت کے اعترافی بیان کے اس نامکمل حصے پر قناعت کررہی ہے ، جس میں وہ نجی ٹی وی کے ذرائع کے مطابق مشال کو کلین چٹ دے رہا ہے۔ مشال کے قتل میں گرفتار ہونے والوں میں اکثریت اے این پی اور پی ٹی آئی کے اسٹوڈنٹس ونگز کے طلبہ کی ہے۔ مشال خان کا اپنا تعلق بھی پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن سے تھا جبکہ قتل کا واقعہ عبدالولی خان یونیورسٹی کے ہاسٹل میں ہوا۔دلچسپ امر یہ ہے کہ مارنے والے سیکولر، مرنے والا سیکولر جس جگہ واقعہ ہوا وہ بھی سیکولر پارٹی کا مرکز ہے مدرسہ نہیں۔ اس کے باوجود نام نہاد سول سوسائٹی اور اسلام سے بغض رکھنے والے اس واقعہ پر اسلامی انتہاپسندی کے خلاف بیان بازی کررہے ہیں۔ ان میں ہی ملک سے فرار ہونے والے بلاگرز اور الطاف حسین بھی شامل ہیں۔ بوری بند لاشوں کے خالق ایم کیو ایم لندن کے سربراہ نے مشال کی موت پر مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے سوشل میڈیا پر اپنے آڈیو پیغام اور تحریری بیان میں اس واقعہ کا الزام مذہبی جماعتوں پر لگایا ہے۔ وہ یہ بھول گئے کہ کراچی میں سینکڑوں پشتونوں کو ان کی ہدایت پر بے دردی سے قتل کیا گیا اور 92ءکے آپریشن میں ایم کیو ایم کے ٹارچرسیلوں سے ہی ڈرل مشینیں برآمد ہوتی تھیں جن کے ذریعے بے گناہوں کے جسموں میں سوراخ کرکے نہیں دردناک طریقے سے مارا جاتا تھا۔

مردان یونیورسٹی واقعہ :اہم پیشرفت

مردان(ویب ڈیسک) عبدالولی خان یونیورسٹی میں نوجوان طالبعلم مشعال خان کے قتل کے الزام میں گرفتار 8 ملزمان کو جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔تفصیلات کے مطابق مردان نونیورسٹی میں 2 روز قبل پیش آنے والے افسوسناک واقعہ میں ملوث 8 ملزمان کو انتہائی سخت سیکیورٹی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا اور پولیس کی جانب سے ملزمان کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔ عدالت نے پولیس کی درخواست منظور کرتے ہوئے 8 ملزمان کو 4 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔