دبئی(ویب ڈیسک) مایہ ناز آل راو¿نڈر شاہد آفریدی کی تباہ کن بولنگ کے نتیجے میں پاکستان سپر لیگ کے 22ویں میچ میں کراچی کنگز نے ملتان سلطانز کو 63 رنز سے شکست دے دی۔دبئی انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم میں کھیلے گئے میچ میں ملتان کی ٹیم کراچی کے 189 رنز ہدف کا تعاقب کررہی تھی تاہم آفریدی نے مڈل اوورز میں تین اہم وکٹیں گرادیں جس کے باعث میچ پر کراچی کا غلبہ ہوگیا۔ملتان سلطانز نے اپنی اننگز کا آغاز جارحانہ انداز میں کیا تاہم 18 کے انفرادی اسکور پر کمار سنگاکارا عرفان جونیئر کی گیند پر آو¿ٹ ہوگئے۔دوسرے آو¿ٹ ہونے والے بلے باز صہیب مقصود تھے جو عثمان شنواری کی بال پر بابر اعظم کو کیچ دے بیٹھے۔ انہوں نے 11 رنز بنائے۔احمد شہزاد عماد وسیم کی گیند پر کریز سے نکل کر جارحانہ اسٹروک کھیلنا چاہتے تھے تاہم وکٹ کیپر محمد رضوان نے انہیں اسٹمپ کردیا۔
Tag Archives: karachi
کراچی: صوبائی وزیر اور اہلیہ کی پراسرار ہلاکت، گولیوں سے چھلنی لاشیں گھر سے برآمد
کراچی(ویب ڈیسک) ڈیفنس کے علاقے میں گھر سے صوبائی وزیر میر ہزار خان بجارانی اور اہلیہ کی لاشیں ملی ہیں۔کراچی کے علاقے ڈیفنس کے ایک گھر سے صوبائی وزیر میر ہزار خان بجارانی اور ان کی اہلیہ کی لاشیں ملی ہیں۔ صوبائی وزیر کے پرائیوٹ سیکریٹری اللہ ورایو نے تصدیق کی ہے کہ میر ہزار خان بجارانی مردہ حالت میں پائے گئے ہیں۔ میر ہزار خان بجارانی کی موت کی وجہ تاحال معلوم نہیں ہوسکی ہے اور معاملے کی تحقیقات کے لئے پولیس جائے وقوعہ پر پہنچ گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما اور وزرا بھی میر ہزار خان بجارانی کے گھر پہنچ رہے ہیں۔میر ہزار خان بجارانی کا تعلق کرم پور تعلقہ تنگوانی ضلع کشمور کندھ کوٹ سے تھا۔ مرحوم پی ایس 16 جیکب آباد سے رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور سندھ کے وزیر پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ تھے۔ میر ہزار خان بجارانی وزیر تعلیم اور وزیر صنعت و پیداوار بھی رہ چکے ہیںصوبائی وزیر کے خاندانی ذرائع نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ میر ہزار خان بجارانی اور ان کی اہلیہ کی لاشیں ڈیفنس فیز 5، خیابان شہباز میں واقع ان کے گھر سے برآمد ہوئیں، لاشوں پر گولیوں کے نشانات پائے گئے ہیں۔تاہم ابھی تک اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی کہ فائرنگ گھر میں سے ہی کسی نے کی یا کوئی باہر سے آیا۔اہلخانہ کے قریبی ذرائع کے مطابق دن 12 بجے کے قریب صوبائی وزیر کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا، تاہم نہ کھلنے پر دروازہ توڑا گیا، جہاں میر ہزار خان بجارانی اور ان کی اہلیہ کی لاشیں موجود تھیں۔میر ہزار خان بجارانی کے صاحبزادے رکن قومی اسمبلی میر شبیر بجارانی کو اس واقعے کی اطلاع بلاول ہاو¿س میں ملی، جو وہاں سینیٹ انتخابات کے ٹکٹ کے سلسلے میں انٹرویو کے لیے موجود تھے۔اس سے قبل ایس پی کلفٹن نے بتایا تھا کہ مددگار 15 پر اطلاع موصول ہوئی کہ ڈیفنس میں واقع ایک گھر میں 2 لاشیں موجود ہیں۔جس کے بعد پولیس نے پہنچ کر جائے وقوع کو سیل کرکے شواہد اکٹھے کرنے کا کام شروع کردیا۔محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی ) کے انچارج راجہ عمر خطاب نے بتایا ہے کہ میر ہزار خان بجارانی اور ان کی اہلیہ فریحہ رازق کی لاشیں بیڈ روم سے متصل اسٹڈی روم سے ملیں، میر ہزار خان کی کنپٹی پر گولی لگی ہے۔انہوں نے بتایا کہ جائے وقوع سے ایک 30 بور کی پستول ملی ہے جب کہ 4 گولیوں کے ایسے خول ملے جوکسی کو نہ?ں لگیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک گولی اب بھی جائے وقوع سے برا?مد ہونے والی پستول کے چیمبر میں پھنسی ہوئی ہے۔ذرائع کے مطابق فریحہ رزاق کی لاش زمین پر جبکہ میر ہزار خان بجارانی کی لاش صوفے پر پائی گئی جبکہ دونوں کو ایک ایک گولی لگی ہے۔واقعے کی اطلاع ملتے ہی وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور وزیر داخلہ سندھ سہیل انور سیال بھی دیگر وزرائ کے ہمراہ میر ہزار خان بجارانی کے گھر پہنچ گئے۔پاکستان پیپلز پارٹی نے میز ہزار خان بجارانی اور ان کی اہلیہ فریحہ رزاق کی اچانک موت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا اور تمام سیاسی سرگرمیاں معطل کردی گئیں۔سابق صدر آصف علی زرداری کی صاحبزادی ا?صفہ بھٹو زرداری نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ انہیں یہ افسوس ناک خبر سن کر شدید دھچکا لگا ہے۔پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ نے بھی واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے میر ہزار خان بجارانی کے خاندان اور پیپلز پارٹی کے لیے سانحہ قرار دیا ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی اپنے پیغام میں واقعے پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر عارف علوی نے اپنے پیغام میں کہا کہ میر ہزار خان بجارانی اور ان کی اہلیہ ان کے قریبی دوست تھے۔عارف علوی نے بتایا کہ میر ہزار خان بجارانی سے ان کی ا?خری ملاقات پیر کے روز ہوئی تھی جبکہ فریحہ رزاق ہفتے کے روز ان کے گھر ظہرانے پر آئی تھیں۔میر ہزار خان بجارانی کون تھے؟کراچی کےعلاقے ڈیفنس میں مردہ حالت میں پائے گئے صوبائی وزیر پلاننگ اینڈ ڈویلمپنٹ میر ہزار خان بجرانی پیپلزپارٹی کے سینئر جیالے تھے۔ان کا تعلق کشمور کےعلاقے کرم پور سے تھا، 2013کے عام انتخابات میں وہ پی ایسی 16جیکب آباد سےرکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے۔وہ 1990 سے 1993 اور 1997 سے 2013 تک رکن قومی اسمبلی رہے۔میر ہزار خان 1974 سے 1977 تک رکن سندھ اسمبلی رہے، وہ چار مرتبہ رکن قومی اسمبلی،تین بار رکن سندھ اسمبلی اور 1988میں بنیظیر بھٹو کی کابینہ کا حصہ ہونے کے ساتھ سینٹر بھی رہ چکے ہیں۔وہ 1990 میں پہلی بار جیکب آباد کے این اے 157 سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور ان کےپاس مختلف وزارتوں کے بھی قلمدان رہے۔پیپلز پارٹی کے مختلف ادوار میں وہ دفاع، ریلوے، تعلیم اور صحت،صنعت و پیداوار کے وفاقی اور صوبائی وزیر رہے۔2007اور2013میں بھی میر ہزار خان بجارانی سندھ کابینہ میں شامل رہے۔دوسری جانب میر ہزار خان بجارانی کی اہلیہ فریحہ رزاق شعبہ صحافت سے وابستہ تھیں اور صحافتی حلقوں میں بھی مقبول تھیں۔فریحہ رزاق دو بار 2002اور2007میں خواتین کی مخصوص نشست پر رکن سندھ اسمبلی رہ چکی ہیں۔
کراچی میں ہنگامے پھوٹ پڑے گیراﺅ جلاﺅ
جنوبی وزیرستان(ویب ڈیسک ) مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک نقیب محسود کی جنوبی وزیرستان میں تدفین کر دی گئی۔ کراچی سمیت دیگر شہروں میں ہلاکت کیخلاف دوسرے روز بھی احتجاج کا سلسلہ جاری رہا، مظاہرین نے شفاف تحقیقات اور ایس ایس پی ملیر راو¿ انوار کی برطرفی کا مطالبہ کیا۔نقیب اللہ محسود کی پولیس مقابلے میں ہلاکت پر کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ پر احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ مشتعل افراد نے سپر ہائی وے پر ہنگامہ آرائی کی اور گنا منڈی کے قریب ٹائروں کو آگ لگا دی۔ مشتعل مظاہرین نے بس کو روک کر توڑ پھوڑ بھی کی اور شیشے بھی توڑ ڈالے، اس موقع پر امن وعامہ کی صورتحال برقرار رکھنے کیلئے پولیس کہیں نظر نہیں آئی۔مبینہ پولیس مقابلہ میں ہلاک نقیب اللہ محسود کے لواحقین نے ڈیرہ اسماعیل خان سمیت دیگر علاقوں میں احتجاج کیا۔ مظاہرین نے مبینہ ماورا قانون قتل کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔کراچی میں مبینہ پولیس مقابلہ میں قتل ہونے والے 26 سالہ نقیب اللہ محسود کی میت ڈیرہ اسماعیل خان پہنچی تو غمزدہ قبائلی نوجوانوں کی بڑی تعداد نے زبردست احتجاجی مظاہر کیا اور سندھ پولیس کے خلاف نعرہ بازی کی۔مظاہرین نے حقنواز پارک سے ریلی نکالی اور توپانوالہ چوک کے قریب کئی گھنٹے تک سرکلر روڈ کو بلاک کر کے اپنےغم و غصہ کا اظہار کیا۔ مظاہرین سپریم کورٹ کے جیف جسٹس سے نقیب اللہ کے ماورا عدالت قتل کا ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔بعد ازاں نقیب اللہ کی میت جب ٹانک پہنچی تو جنوبی وزیرستان کے قبائلیوں نے پرجوش انداز میں میت کا استقبال کیا۔ قبائلی طلبہ نے کراچی میں آئے روز پولیس کے ہاتھوں شہریوں کی ماورائے قانون قتل و غارت گری کے خلاف یکم فروری کو پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دینے کا اعلان بھی کیا۔دو معصوم بیٹیوں اور ایک تین سالہ بیٹے کے جواں سال باپ نقیب اللہ کو اشکبار آنکھوں کے ساتھ جنوبی وزیرستان میں اس کے ا?بائی گاو¿ں مکین میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
بھارتی آبی دہشتگردی ،انڈس واٹر ٹریٹی وہ ستلج ،بیاس اور راوی کے 100فیصد پانی کا مالک نہیں :ضیا شاہد
لاہور (رپورٹنگ ٹیم) بھارت ستلج، بیاس اور راوی کا پانی سوفیصد بند نہیں کرسکتا، سندھ طاس کا معاہد ہ 1960 میں ہوا تھا،یہ تاثر غلط ہے کہ ہم نے دریا بیچ دیئے، ہم نے تو دریاﺅں کے زرعی پانی کا معاہدہ کیا تھا،سندھ ،جہلم اور چناب کا زرعی پانی پاکستان کے حصے میں آیا اور ستلج،راوی اور بیاس کا زرعی پانی انڈیا کے پاس چلا گیا،مگر بھارت ستلج ،راوی اور بیاس کا سارا پانی بند کر کے دریاﺅں کو مار رہا ہے ہم بھارت کی آبی دہشت گردی پر چپ نہیں بیٹھیں گے ان خیالات کا اظہار معروف دانشور صحافی و چیف ایگزیکٹیو خبریں گروپ ضیاشاہد نے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے زیر اہتمام ایک سیمینار میں بطور مہمان خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا انڈیا تویہ بھی زیادتی کر رہا ہے کہ ہمارے حصے میں آنے والے دریاﺅں پر بھی زراعت کے لئے ڈیم بنا رہا ہے، لیکن ہمارے کسی نئے ڈیم کے خلاف مہم چلاتا ہے اور یہ پروپیگنڈا بھی کرتا ہے کہ پاکستان کو پانی کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ یہ ڈیم نہیں بناتا اور پانی سمندر میں پھینک کر ضائع کرتا ہے انہوں نے کہایہ انٹرنیشنل لا ءہے کہ دریاوں میں تھوڑا تھوڑا پانی چھوڑا جاتا ہے کیونکہ مکمل پانی بند ہونے کی وجہ سے پینے کا پانے بہت نیچے چلا جاتا ہے اورآبی حیات اور ماحولیات کی بھی تباہی ہوجاتی ہے،ستلج مکمل خشک ہو چکا ہے، راوی اور بیاس میں پانی مکمل بند ہے، پاکستان بننے سے پہلے نواب آف بہاولپور نے ستلج ویلی پروجیکٹ کے تحت چولستان میں کچھ نہریں بنائیں، مگر ستلج کے مکمل بند ہونے کی وجہ سے وہ نہریں بھی تباہ ہوگئی ہیں اور بہاولپور،رحیم یار خان اور بہاولنگر اور پاکپتن،ساہیوال اور لودھراں متاثر ہوئے ہیں، نواب آف بہاولپور نے کہا تھا، چولستان اور ریاست کے باقی اضلاع پاکستان کی فوڈ باسکٹ ہوگی مگر پانی نہ پہنچنے کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ رقبہ بنجر پڑا ہے، بیکانیر ریاست اور بہاولپور کے درمیان بھی پانی لینے کا معاہدہ ہوا۔ انڈیا نے ستلج بند کیا تو ساری نہروں کا رخ راجھستان کی طرف موڑ کر اسے سرسبز شاداب بنا دیا گیا جبکہ ہماراچولستان ٹوٹل بنجر ہوچکا ہے ۔محکمہ صحت کی رپورٹ ہے کہ بہاولنگر میں گردے کی بیماریاں بڑھ رہی ہیں، آرسینک کی مقدار بڑھ گئی ہے اب کرنا کیا ہے؟جبکہ راوی تو سیوریج کا دریا بن چکا ہے،جس کا ایک گھونٹ بھی منہ کو نہیں لگایا جاسکتا۔ انہوں نے کہا 1970ءکے انٹرنیشنل واٹر کنونشن رولز کے مطابق بھی کوئی ملک دریاﺅں کو مکمل بند نہیں کرسکتا ،اس لیے بھارت کو مجبور کیا جائے کہ وہ کم از کم بیس فیصد پانی ان دریاﺅں میں چھوڑے، ضیاشاہد نے کہا ذوالفقار علی بھٹو نے شملہ معاہدہ پر جانے سے قبل ایک ملاقات میں کہا تھا کہ معاہدے صرف کاغذ کا ٹکڑا ہوتے ہیں جنہیں کسی وقت بھی پھاڑا جاسکتا ہے لیکن ہمیں سندھ طاس معاہدے کوپھاڑنا تو نہیں چاہیئے مگر انڈیا پر اتنا عوامی پریشر ڈالا جائے کہ وہ ان دریاﺅں میں پانی چھوڑنے پر مجبور ہوجائے،تقریب کی نظامت کے فرائض سکرٹری شاہد رشید نے ادا کیے، تقریب میں شرکاءکی کثیر تعداد موجود تھی جن میں مختلف یونیورسٹیز اور کالجز کے طلباءوطالبات بھی شامل تھے۔ انہوں نے کہا کہ انڈس واٹر ٹریٹی میں واضح طور پر درج ہے کہ بھارت جہلم چناب اور سندھ جن بھارتی علاقوں سے گزرتا ہے وہاں اسے پینے کےلئے پانی، ماحولیات کےلئے پانی اور آبی حیات کے لئے پانی لینے اور استعمال کرنے کا حق حاصل ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ جب اپنے لئے اسی معاہدے کے تحت یہ تینوں قسم کا پانی جائز قرار دیتا ہے جو پاکستان کے حصے میں آنے والے دریاﺅں سے لیا جا رہا ہے تو ہمارے غیر زرعی استعمال کےلئے ستلج بیاس اور راوی سے ماحولیات، آبی حیات اور پینے کا پانی کیوں بند کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1970 کے انٹرنیشنل واٹر معاہدے کے تحت دریا کے زیریں حصے میں خواہ وہ کسی ملک کے حصے میں ہو 100فیصد پانی بند نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کاشتکاروں اور شہریوں سے اپیل کی کہ جو سہولت جہلم ستلج اور بیراج سے حاصل کر رہا ہے وہی سہولت بیاس اور راوی میں پانی چھوڑ کر پاکستانیوں کو دی جائے۔ انہوں نے کہا یہ بات بھی غلط ہے کہ ہم نے دو دریا بھارت کے ہاتھ بیچ دئیے تھے۔ سندھ طاس معاہدہ میں صاف درج ہے کہ یہ دریاﺅں کا معاہدہ نہیں جنہیں پورا کسی ایک ملک کے سپرد کیا جا سکے بلکہ زرعی صاف پانی کا معاہدہ ہے چنانچہ بھارت راوی اور ستلج کا جو حصہ ہمارے ملک میں سے گزرتا ہے اس میں آبی حیات ماحولیات اور پینے کےلئے پانی چھوڑنے پر مجبور ہے اور ہم انٹرنیشنل کنونشن کے بتائے ہوئے قوانین کے تحت عالمی عدالت میں جا سکتے ہیں جو اب پوری دنیا کے ہر ملک میں تسلیم کیے جاتے ہیں۔ ضیاشاہد نے کہا کہ 100فیصد پانی کی بندش سے ستلج اور راوی سے ری چارجنگ ختم ہو گئی ہے اور پانی بہت نیچے چلا گیا ہے۔ ریاست بہاولپور کے تین اضلاع میں پانی 100 فٹ سے زیادہ گہرے پانی میں بھی سنکھیا کی آمد شروع ہو گئی ہے جس سے جگر گردے کے امراض اور یرقان اور کینسر تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستانی عوام سے اپیل کی کہ اس صورتحال کو بھارت کی آبی جارحیت نہ کہا جائے بلکہ یہ آبی دہشتگردی ہے۔ جو ہمیں پینے کا پانی، درختوں، سبزے اور آبی حیات سے محروم کر رہی ہے۔ پاکستانی اور بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمے دائر کریں۔