All posts by Channel Five Pakistan

خفیہ اطلاع پر چھاپہ،سنسنی خیز انکشافات

لاہور (کرائم رپورٹر) ستوکتلہ کے علاقہ میں پولیس کا قحبہ خانہ پرچھاپہ‘ رنگ رلیاں مناتے ہوئے 4تتلیوں سمیت 7افراد قابل اعتراض حالت میں گرفتار جبکہ ڈیفنس میں پولیس نے مساج سنٹر سے 3لڑکیوں سمیت 4افراد کو حراست میں لے لیا۔ بتایا گیا ہے کہ پولیس کو اطلاع ملی کہ ستوکتلہ کے علاقہ مکہ کالونی میں واقع ایک گھر میں جسم فروشی کا اڈا کھلا ہوا ہے جس پر رات گئے پولیس کی بھاری نفری نے چھاپہ مار کر موقع سے زاہدہ بی بی‘ فرح‘ کرن‘ کنزہ‘ سلمان‘ عمران اور ریاض کو گرفتار کر لیا۔ پولیس نے کمروں کی چیکنگ کے دوران موقع سے قوت بخش ادویات کے ریپر بھی قبضہ میں لے لئے جبکہ ڈیفنس کے علاقہ میں واقع ایک کوٹھی میں مساج سنٹر پر چھاپہ مار کر پولیس نے نسرین‘ سونیا‘ انیس اور باقر نامی نوجوان کو حراست میں لے لیا۔

حدیبیہ کیس کی سماعت سے معذرت ،جسٹس کھوسہ کا باوقار فیصلہ

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے پروگرام ”کالم نگار“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی توصیف احمد خان نے کہا ہے کہ جسٹس کھوسہ نے حدیبیہ کیس کے بینچ سے نکلنے کا بڑا باوقار اور مناسب فیصلہ کیا۔ جسٹس کھوسہ کا بیان ایک طرح سے رجسٹرار آفس پر چارج ہے ایسا لگتا ہے کہ جیسے رجسٹرار آفس سے ناجانے کتنی غلطیاں کی جاتی ہونگی۔ جاتی عمرا اجلاس میں ن لیگ نے اہم فیصلے کئے، الیکشن کمیشن اور شریف خاندان کیخلاف کیسز کی کمپین بارے فیصلے ہوئے۔ ماڈل ٹاﺅن کیس ایک پیچیدہ معاملہ بن چکا ہے۔ عدالت کو واضح احکامات دینے چاہی¾ں کہ نجفی رپورٹ پبلک کی جائے، اگر حکومت رپورٹ جاری نہیں کرتی تو عدالت کے پاس بھی کاپی موجود ہے وہ بھی رپورٹ جاری کرسکتی ہے۔ پیپلزپارٹی کی ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کا مجرم سمجھتا ہوں۔ سینئر صحافی امجد اقبال نے کہا کہ موجودہ حالات میں جب لیگی رہنما عدالتوں کے خلاف بیانات دے رہے ہیں جسٹس کھوسہ نے اچھا فیصلہ کیا ہے۔ شواہد کی بنیاد پر فیصلہ ہونا چاہیے کہ حدیبیہ کیس کھولا جائے یا نہیں۔ الیکشن کمپین شروع ہوچکی ہے۔ اگلے ماہ یہ مزید تیزی پکڑ لے گی ن لیگ نے جارحانہ پالیسی اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ جاتی عمرہ میں دوطرح کی رائے کوئی ایک مفاہمت اور دوسری جارحانہ راستہ اپنانے کی تھی۔ ن لیگ کی بقا جارحانہ پالیسی اختیار کرنے میں ہے کیونکہ الیکشن قریب ہیں۔ نوازشریف اپنے خلاف کیسز کا دفاع کر پاتے تو سیاسی میدان میں انہیں نقصان ہوگا جس سے بچنے کیلئے محاذ آرائی کی جارہی ہے۔ ماڈل ٹاﺅن سانحہ رپورٹ جاری کرنے کا اختیار حکومت کا ہے۔ مسائل تب کھڑے ہوتے ہیں جب ریاستی ادارے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اداروں کا ایک دوسرے کے اختیارات چھیننا بھی آئین سے بالا اقدام ہے۔ سینئر تجزیہ کار سجاد بخاری نے کہا کہ جسٹس کھوسہ حدیبیہ کیس کھولنے کا فیصلہ پہلے ہی دے چکے تھے اس لئے انہوں نے مناسب سمجھا اور بنچ چھوڑ دیا، بروقت اور اچھا فیصلہ کیا، اس طرح کی اچھی روایات قائم ہونی چاہئیں لاہور ہائیکورٹ نے حدیبیہ کیس پر پہلے جو فیصلہ دیا وہ تکنیکی بنیاد پر تھا اور غلط تھا۔ احتساب کا نظام مختلف لوگوں کیلئے مختلف نظر آتا ہے۔ ن لیگ کی حکومت ہے اس کی عدالت سے لڑائی کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ سپیکر قومی اسمبلی اجلاس بلانے کا پابند ہے لیکن اجلاس نہیں بلایا جا رہا جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے ارکان اسے چھوڑ چکے ہیں لیگی اجلاس میں یہ بات بھی ہوئی کہ بھاگے ارکان کو کیسے واپس لایا جائے۔ لیگی ارکان نوازشریف کی محاذ آرائی پالیسی کے باعث ہی بھاگے ہیں۔ حکومت نجفی رپورٹ اس لئے پبلک نہیں کرنا چاہتی کیونکہ حکومتی رہنماﺅں کے نام سامنے آنے کا خدشہ ہے جس سے نیا پنڈورا بکس کھل جائے گا سینئر صحافی طاہر ملک نے کہا کہ ملک میں عجیب و غریب نظام چل رہا ہے۔ عدالت جونہی کسی کے خلاف فیصلہ دیتی ہے وہ فوری بیمار پڑ جاتا ہے۔ اسمبلی میں ختم نبوت حلف تبدیل کرنے کا ذمہ دار آج تک سامنے نہیں آ سکا۔ رجسٹرار سپریم کورٹ فیصلہ پڑھے بغیر بنچ تشکیل دے دیتا ہے۔ ادارے ناکام ہو چکے ہیں، جگ ہنسائی کا سبب بن رہے ہیں۔ حدیبیہ کیس پر نیب نے پہلے اپیل کیوں نہ کی اور جو اس کا ذمہ دار ہے اس کے خلاف کارروائی کیوں نہ ہوئی نوازشریف ابھی تک پارٹی کو بچانے میں کامیاب رہے ہیں۔ پاکستان دنیا کی واحد ریاست ہے جہاں ادارے ایک دوسرے سے ہی نبرد آزما ہیں۔ ایماندار لیڈر شپ اور اداروں کے اپنی حدود میں رہ کر کام کرنے تک حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔ صرف عدلیہ نظام کو ٹھیک نہیں کر سکتی اس طرح کا تاثر قائم کرنے والے غلط ہیں ماڈل ٹاﺅن میں 14 افراد قتل ہوئے آج تک ذمہ دار ہی سامنے نہیں لائے جا سکے۔ انصاف میں تاخیر انصاف کا قتل ہے۔

عمران خان نے قیامت کی نشانی بتادی

اسلام آباد(صباح نیوز، مانیٹرنگ) پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے سابق وزیراعظم نوازشریف کو ٹویٹر پر مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ضیا الحق کے تربیت یافتہ کا پی ٹی آئی کو جمہوریت پر لیکچر دینا قیامت کی نشانی ہے۔پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے نواز شریف کی ضیا الحق کے ساتھ گولف کھیلنے کی تصویر سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ کردی ہے اور انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ضیا الحق کے تربیت یافتہ کا پاکستان تحریک انصاف کو جمہوریت پر لیکچر دینا قیامت کی نشانی ہے۔واضح رہے کہ نواز شریف کو نااہل قرار دیئے جانے کے بعد عمران خان کی جانب سے قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کیا جارہا ہے جب کہ مسلم لیگ (ن) اسے جمہوریت کے خلاف ایک سازش قرار دے رہی ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما معروف قانون دان بابر اعوان نے کہا ہے کہ اسحاق ڈار کو دل کی نہیں نیت خرابی کی بیماری ہے، لندن میں جندال سے ملاقاتیں کررہے ہیں، یہ انکشاف انہوں نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، انہوں نے کہا کہ میڈیا پتہ لگائے کہ اسحاق ڈارکہاںغائب ہے، کیونکہ اب کوئی بیماری نہیں نہ ہی وہ کسی ہسپتال میںہے، حدیبیہ کیس ہر صورت کھلے گا، اسحاق ڈار اب حدیبیہ کیس میں گواہ کے طور پر پیش ہوگا،انحراف پر اسے جیل ہوگی، شریف خاندان اب کہیں جلسے جلوس یا الیکشن کمپین کرنے کے قابل ہی نہیں رہا، یہ لوگ اب عوام کا سامنا نہیں کرسکتے۔ اچھل اچھل کر تقرریں کرنے والے وزرا زرا عوام میں نکل کر تو دکھائیں، ختم نبوت قانون میں ترمیم سوچا سمجھا منصوبہ تھا، ساری حکومت اس کی ذمہ دار ہے، قوم سے فراڈکیا جارہا ہے، الیکٹورل رول1974ءکنڈکٹ آف جنرل الیکشن آرڈر2002ءکو حذف کردیا گیا ہے، حدیبیہ کیس بارے جسٹس کھوسہ کا بیان بالکل ٹھیک ہے۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن کی غفلت گیر تعلیمی اداروں کی بھرمار طلبہ مستقبل داو پر لگ گیا

لاہور(محمد علی سے )ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کی غفلت اعلی تعلیم کے بڑھتے ہوئے کاروباری غیرتسلیم اداروںکی بھر مار،طلبہ کا مستقبل داﺅ پر لگ گیا اربوں روپے کے فنڈ ملنے کے باوجود ایچ ای سی نمایاں کارکرگی دکھانے میں ناکام غیر تسلیم شدہ اعلی تعلیمی اداروں کی تعداد 165سے تجاوز کر گئیں۔ ذرائع کے مطابق پاکستان میں ایچ ای سی کی جانب سے تسلیم شدہ سرکاری اداروں کی تعداد ایک سو تین ہے جبکہ 74 غیر سرکاری اعلیٰ تعلیم کیلئے ادارے ہیں۔جبکہ ملک میں غیر تسلیم شدہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کی تعداد 165 سے تجاوز کر گئی ہے جو کہ ایچ ای سی کے دعوﺅں کے بالکل برعکس ہے۔۔ بڑھتے ہوئے کاروباری غیر تسلیم شدہ ادار وں کو نہ روک کر ایچ ای سی کی طرف سے بھر پور غفلت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔جس سے نہ صرف اعلی تعلیم کا معیار متا ثر ہورہا ہے بلکہ طلبہ کے مستقبل سے بھی کھلواڑ کیا جا رہا ہے ،زرائع سے مزیدمعلوم ہوا ہے کہ ایچ ای سی کو اعلی تعلیم کو بہتری کے لیے اربوں روپے کے فنڈزمختص کیے گئے مگر ایچ ای سی کی جانب سے فنڈ ز کو استعمال میں نہ لا تے ہوئے سرکاری اور نیم سرکاری یونیورسٹیوں میں سہولتوں کے فقدان کودورنہیں کیا گیا جس کی وجہ سے طلبہ ان کاروباری طرز کی یونیورسٹیوں میں داخلے لینے پر مجبو ر ہوجاتے ہے جن کا مشن اعلی تعلیم دینے کے بجائے والدین سے مال بٹورنا ہے جبکہ ان غیر تسلیم شدہ اعلی تعلیم کے اداروں میں غیر منظور شدہ ڈگریوںکے کورسز بھی بے دریغ پڑھائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ماضی میں تعلیم مکمل کرنےوالے طلبہ کو ڈگری نہ ملنے اور اسے حکومتی سطح پر تسلیم نہ کرنے کے حوالے احتجاج بھی ہوئے تھے مگر ایچ ای سی کی طرف سے ان کے تدارک کے لیے غیر سنجید ہ اقدامات اور ناقص مانیٹرنگ کی وجہ سے ان میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے جس کے لیے ایچ ای سی اور حکومت وقت کو سنجیدگی سے اس معاملے پر توجہ دینے اور ہنگامی بنیادوں پر ان غیر تسلیم شدہ اعلی تعلیم کے اداروں کے خلاف کاروائی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان کو اعلیٰ تعلیم ہی اعلیٰ مقام دلوا سکتی ہے۔

بیوی کی طلاق کیو ں نہیں دیتا سسرالیوں نے داماد کا سرمونچھیں مونڈڈالیں منہ کالا کر کے گدھے پر بٹھایا

لاہور (کرائم رپورٹر) غازی آباد میں سسرالیوں کا داماد پر انسانیت سوز تشدد، متاثرہ شخص کو گن پوائنٹ پر یرغمال بنا کر آدھا سر، آدھی مونچھیں اور بھوئیں مونڈھ ڈالیں، پولیس نے دہشتگردی کی دفعات کے مطابق مقدمہ درج کرتے ہوئے پانچ ملزمان کو گرفتار کر لیا۔ بتایا گیا ہے کہ غازی آباد میں پیش آیا ایک ایسا واقعہ جسے دیکھ کر انسانیت بھی کانپ اٹھے بیوی کو طلاق دینے سے انکار پر سسرالیوں نے داماد کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ ڈالا۔ مذاکرات کے بہانے دلاور کو سسرالیوں نے بلایا اور گن پوائنٹ پر گھر کے سامنے نجی سکول میں یرغمال بنا لیا اور پھر ایسا ہوا کہ زمانہ جاہلیت کی یاد تازہ ہوگئی۔ ملزمان نے داماد کا آدھا سر، آدھی مونچھیں اور بھوئیں مونڈ ڈالیں۔ اور پھر منہ کالا کر کے گدھے پر بٹھا کر گلیوں میں پھیرایا۔ اپنے ہی داماد کی عزت کا ایسے جنازہ نکالا کہ ملزمان کے سوا، سب دیکھنے والے توبہ توبہ کرتے رہے۔ پولیس نے واقعہ کا مقدمہ دہشتگردی سمیت دیگر سنگین دفعات کے مطابق درج کر لیا ہے۔ پولیس نے جائے وقوعہ سے تشدد میں استعمال ہونےوالے آلات برآمد کرلئے ہیں، دیگر ملزمان کی گرفتاری کےلئے چھاپے مارے جا رہے۔

قصور :7سالہ بچی سے اغوا کے بعد زےادتی جسم پر تشدد کے نشانات

قصور(بیورورپورٹ) قصورشہر میں ایک اور معصوم بچی کو مبینہ طور پر جنسی درندگی کا نشانہ بنا ڈالا گیا بتایا گیا ہے کہ کوٹ اعظم خاں کے (ا)کی سات سالہ معصوم بیٹی گزشتہ روز گلی میں کھیلتے ہوئے اچانک غائب ہوگئی جس کی تلاش کے لیے شہر کی مختلف مساجد میں ناصرف اعلانات کرائے گئے بلکہ اہلخانہ اور محلہ دار بچی کی تلاش میں گلی گلی بھٹکتے رہے تاہم ساری رات تلاش کے باوجود بچی (ک)کا کچھ پتہ نہ چل سکا جس پر بچی کے رشتہ داروںنے پولیس تھانہ اے ڈویژن کو بھی اطلاع کی بتایا گیاہے کہ صبح کے وقت بچی بیہوشی کی حالت میں لکڑی کے ایک ٹال کے گردمیں ملی جسے فوری طور پر ڈسٹرکٹ ہسپتال قصور پہنچایا گیا بتایا گیا ہے کہ بچی کے جسم پر تشددکے نشان ہیں اور اسے نامعلوم ملزمان نے اغواءکرنے کے بعد مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا ہے اور اس امر کی تصدیق میڈیکولیگل میں بھی ہوگئی ہے پولیس ترجمان کے مطابق پولیس نے اغواءاور زیادتی کامقدمہ درج کرکے نامعلوم ملزمان کی تلاش شروع کر دی ہے جبکہ ایک درجن سے زائد بچوں کے اغواءزیادتی اور قتل کے واقعات میں ہونیوالے ایک اور واقعہ کے اضافہ نے شہر میں پھر سے خوف وہرا س پھیلا دیا ہے۔

کراچی ڈرامے کے پیچھے کون؟اھم انکشاف

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) عدالت نے سیاسی رہنماﺅں نے بیرون ملک جائیدادوں کی تفصیلات طلب کرلی ہے۔ مریم نواز پر توہین عدالت لگ چکی ہے آج سماعت ہوگی۔ کراچی میں ہونے والے سارے ڈرامے کے پیچھے نوازشریف اور زرداری ہیں۔ مفتاح اسماعیل ڈاکٹر عاصم کیس میں نیب ہیڈکوارٹر میں تفصیلی بیان میں اہم انکشافات کرچکے ہیں۔ تحریک لبیک یارسول اللہ کی آڑ میں فساد پھیلانے کی کوشش ہوسکتی ہے۔ یہ انکشافات سینئر تجزیہ کار نے نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کئے۔ انہوں نے کہا کہ مفتاح اسماعیل کو نیب ہیڈکوارٹر جاکر بیان دیا۔ نیب کے مطابق بڑے اہم انکشافات ہوئے ہیں۔ جن سے ڈاکٹر عاصم کیس کے حل کرنے میں مدد ملے گی۔ نوازشریف کل پیشی پر کیا لب و لہجہ اختیار کرتے ہیں یہ بات اہم ہے کیونکہ پچھلی بار تو ان کے بیان پر چیف جسٹس نے جواب دیا تھا۔ حکومت تحریک لبیک یارسول اللہ کے سوالوں کا جواب نہیں دے پارہی اور بھاگ رہی ہے اب یہ پلان ہی ہے کہ رینجرز کے ذریعے تحریک لبیک والوں کو ہٹایا جائے یعنی خود باہر رہیں اور دوسروں کو لڑا کر فساد کرائیں کراچی میںمتحدہ پاکستان اور پی ایس پی میں جھگڑا کرانے والے نوازشریف اور زرداری ہیں۔ جتنے دن جھگڑا چلا زرداری بڑی خاموشی سے کراچی میں موجود رہے۔ نوازشریف وزیراعظم شاہد خاقان عباسی پر بالکل اعتماد نہیں کرتے۔ آصف زرداری بھی دباﺅ میںہیں کہ ڈاکٹر عاصم کیا بیانات دیکر آئے ہیں۔

جائیداد تنازع 65شخص پر بیوی بچوں کا تشدد زخمی ٹانگ کٹ گئی انصاف کئلیے خبریں دفتر پہنچ گیا

لاہور (کرائم رپورٹر) جائیداد کا تنازع یا کچھ اور ماجرا، بادامی باغ کے رہائشی 65سالہ محمد خورشید پر بیوی بچوں کا مبینہ تشدد، شوگر کا مریض ہونے کی وجہ سے زخمی ٹانگ کٹ گئی، معذور شہری کو بیوی بچے مکان بیچنے پر مجبور کرتے رہے، انکار پر تشدد کر کے بیہوش کرنے کے بعد انگوٹھے لگوا کر گھر سے نکال دیا، ایس ایچ او سے سی سی پی او لاہور تک کوئی بھی داد رسی نہ کروا سکا، سخت سردی میں فٹ پاتھ پر سونے پر مجبور، داد رسی کیلئے روز نامہ خبریں کے آفس آپہنچا، حکام بالا سے عمر کے آخری حصہ میں دربدر ہونے سے چانے کی اپیل۔ تفصیلات کے مطابق بادامی باغ کے علاقہ ظفر پارک گلی نمبر 12مکان نمبر 15کا رہائشی 65سالہ محمد خورشید بادامی باغ اور شادباغ تھانوں میں دادرسی کی درخواستوں کے علاوہ ڈی ایس پی بادامی باغ اور سی سی پی او لاہور کے دفاتر میں بھی حصول انصاف کے کیلئے دھکے کھانے کے بعد دادرسی نہ ہونے پر آخر کار روز نامہ خبریں کے دفتر پہنچ گیا۔ متاثرہ شہری نے خبریں کو آپ بیتی بتاتے ہوئے کہا کہ میں راوی انجینئرنگ میں کام کرتا تھا جہاں سے جب ریٹائرڈ ہوا تو ریٹائرڈ منٹ کے پیسوں سے میں نے2004ءمیں اپنی بیوی کوثر بیگم کو لکھو ڈیر کے علاقہ میں واقع ایک ہاﺅسنگ سوسائٹی میں ایک کنال کا پلاٹ لیکر دیا جبکہ بادامی باغ میں بھی ایک 7مرلے کا مکان ہے جو میرے اپنے نام پر ہے۔ اس نے مزید بتایا کہ میرے 7بچے ہیں جن میں 4بیٹیاں اور 3بیٹے ہیں، تیسرے نمبر والی بیٹی صباءجو کہ ایڈوکیٹ ہے اور چوتھے نمبر والا بیٹا محمود جو کہ گارمنٹس کا کام کرتا ہے نے میری بیوی کوثر بیگم کے ساتھ ملکر 2015ءکو بادامی باغ والا مکان بیچنے کی ضد کرنا شروع کر دی جس پر میں نے کہا کہ میں اپنے بڑھاپے کا سہارا کسی صورت نہیں گنواﺅں گا جس پر اپریل 2015ءکو اسکی بیوی، بیٹی صباءاور بیٹے محمود نے سوتے ہوئے میری بائیں ٹانگ پر کوئی بھاری چیز سے وار کیا جس سے میری ٹانگ پر شدیدگہرا زخم آگیا جس کے بعد مجھے ہسپتال لیجایا گیا جہاں حادثہ بتاتے ہوئے مجھے داخل کروایا گیا لیکن شوگر کی وجہ سے زخم اس قدرخراب ہوگیا کہ 28جون 2015ءکو میری ٹانگ گھٹنے تک کاٹنی پڑی اور میں تاحیات ایک ٹانگ سے معذور ہوگیا۔ میری ٹانگ کے زخمی ٹھیک ہونے میں کافی عرصہ لگا جس کے بعد 2016میں میری بیوی اور بچوں نے مجھے مکان فروخت کرنے یا بیوی کے نام پر کرنے کی رٹ لگا دی جس پر میری جانب سے صاف انکار پر مجھے میری ایڈوکیٹ بیٹی صباءنے 10لاکھ روپے کا تقاضا کر دیا جس پر میں نے کہا کہ 10ہزار روپے بھی ہوں تو میں نہیں دے سکتا 10لاکھ کہاں سے دوں جس پر میری بیوی نے بچوں کے ساتھ ملکر مکان کے 2حصے گروی دے دیے اور جب تیسرا حصہ دینے لگے تو میں نے منع کر دیا جس پر تمام نے شادباغ کے علاقہ میں ایک مکان کرائے پر لیا اور مجھے زبر دستی اپنے ساتھ وہاں لے گئے۔ 13اگست 2017کو میری بیوی اور بچوں نے سیف الماری کو توڑ کر رجسٹریاں نکال لیں جس پر میں نے تھانہ شادباغ میں ان تینوں کے خلاف درخواست دی جس پر تھانہ میں تعینات اے ایس آئی فاروق نے ملزمان سے مبینہ رشوت لیکر پیش رفت ہی نہیں کی جس کے بعد 19ستمبر 2017کو میں دوبارہ اپنے مکان بادامی باغ آگیا اور پھر بیوی بچے بھی میرے پیچھے پیچھے سامان لیکر آگئے اور اسی رات تقریباً12بجے کے قریب میری بیوی، بیٹی صباءاور بیٹے محمود نے ملکر مجھے شدید تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ھبہ نامہ پر دستخط کرنے کا دباﺅ ڈالا جس کا میں نے صاف انکار کر دیا۔ اس موقع پر میری بیوی میرے منہ میں اپنا ڈوپٹہ ٹھونستی رہی تاکہ میری چیخ و پکار باہر محلہ والوں تک نہ پہنچ سکے جبکہ میری بیٹی کھانا بنانے والے چمچ سے جبکہ میرا بیٹا مکوں اور گھونسوں سے تشدد کرتے رہے اور بار بار میرا انگوٹھا کاغذات پر لگوانے کی کوشش کرتے رہے اور میری جانب سے زبردست مزاہمت کے بعد میری گردن پر گھونسے مارنے شروع کر دیے جس سے میں نیم بیہوش ہو گیا اور انھوں نے میرے انگوٹھے لگوالئے اور مجھے صحن میں پڑی چارپائی پر پھینک دیا ۔ اس تشدد کے حوالے سے میں نے تھانہ بادامی باغ میں اندراج مقدمہ کیلئے درخواست دی جو سب انسپکٹر مولوی سرور کو مارک ہوئی جس نے میری بیوی اور بچوں سے ملکر مجھے بتائے بغیر میری جانب سے عدم پیروی کی بنیاد بناتے ہوئے داخل دفتر کردی۔ 9اکتوبر 2017ءکو یہی درخواست لیکر ڈی ایس پی کے پاس گیا جنہوں نے تفتیش تبدیل کر کے محمد انور سے تفتیش کرنے کا کہا تو میری بیٹی کے ایڈوکیٹ ہونے کی وجہ سے اثر وثوق کی بناءپر پھر سے ٹرخانہ شروع کر دیا۔ ڈی ایس پی کے پاس جا کر تفتیش تبدیل کروانے کی پاداش میں میرے بیوی بچوں نے ایک مرتبہ پھر مجھے شدید تشدد کا نشانہ بنایا جس پر میں نے جب رات گئے گھر سے بھاگنے کی کوشش کی تو دروازہ کھولنے کی آواز سن کر سب نے مجھے پکڑلیا اور دوبارہ تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے میری مصنوعی ٹانگ اتار کر چھین لی اور دوسری ٹانگ سے باندھ کر چارپائی سے باندھ دیا۔ بعدازاں علی الصباح میرا بھائی محمد اشرف بادامی باغ پولیس کے ہمراہ میرے گھر آیا جنہوں نے مجھے وہاں سے بازیاب کروایا۔ متاثرہ شہری نے روز نامہ خبریں کی وساطت سے وزیر اعلی پنجاب، آئی جی پنجاب اور چیف جسٹس آف لاہور ہائی کورٹ سے حصول انصاف کی اپیل کی ہے۔

دھند سے حادثے ،ہلاکتیں ،نیشنل ہائی وے اور وزیر موصلات کی کارکردگی صفر :ضیا شاہد


لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ میاں نوامشریف اب تک پارٹی در ہیں۔ تمام پارٹی کے ارکان نے ان کے پاس جانا ہے شاہد خاقان عباسی بھی پارٹی کے رکن ہیں۔ اعتراضات کرنے والوں کے چند اعتراض قابل فہم ہیں وہ یہ کہ اسلام کا پنجاب ہاﺅس استعمال کرنا۔ وہاں پروٹوکول لینا نوازشریف کا حق نہیں لیکن ان کے چھوٹے بھائی وزیراعلیٰ پنجاب ان کے مقرر کردہ وزیراعظم موجود ہیں۔ میاں صاحب جس پر ہاتھ رکھیں وہی وزیراعظم ہے۔ وہی وزیراعلیٰ ہو گا جسے وہ کہیںگے۔ لہٰذا وہ بادشاہ ہی۔ شاہی خاندان ہی اسی طرح ہوتا ہے۔ وہ جو چاہے، اپنی مرضی کے مطابق کر سکتا ہے۔ میں نے ایک خط وزیراعظم کو لکھا ہے کاپی وزیر مواصلات کو بھی بھیجوں گا۔ تیسری کاپی نیشنل ہائی وے کمیشن کو بھی ہے۔ میں بہاولپور تک سڑک پر گیا راستے میں چھ گاڑیاں الٹی ہوئی یا فٹ پاتھ پر چڑھی ہوئی تھیں۔ میں نے یہ باتیں وزیراعظم کو لکھی ہیں۔ ایسے ایسے ملک ہیں جہاں چھ چھ دن بارشیں، فوگ، برف باری رہتی ہے۔ لیکن ان ملکوں میں بجلی نہیں جاتی۔ ساہیوال سے لاہور تک مجھے 7 گھنٹے لگ گئے۔ ہر بڑے شہر سے پہلے دو، دو ٹول ٹیکس لئے جاتے ہیں۔ لاہور سے ملتان تک کوئی ”ایرو“ یا ”یو ٹرن“ لکھا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ بندے دھڑا دھڑ مرے جا رہے ہیں اور مولوی عبدالقیوم صاحب، ارب پتی جن کا جنوبی پنجاب سے تعلق ہے۔ وہ کس چیز کا وزیر مواصلات ہے۔ اسے اتنا نہیں پتا کہ این ایچ اے وفاق کے انڈر میں آتا ہے وہ کیا کام کر رہا ہے۔ کسی اور ملک میں اگر ہلاکتیں ہوتیں تو وہ وزیراعظم اور وزیر موصوف پر قتل کا کیس کر دیتے۔ ہائی وے تو ہماری خونی سڑک ہے۔ کوئی سائن بورڈ کوئی ٹرن، کوئی علامت نہیں کہ کس طرح چلیں۔ میں سیاست کی بات ہی نہیں کرتا۔ خدا کرے نوازشریف شہباز شریف ہمیشہ قائم رہیں کم از کم ایشوز تو حل کریں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے درست فیصلہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ اس پر تحقیقات ہونی چاہئیں آپ بار بار مجھ سے کیا پوچھتے ہیں؟ پاکستان میں دو شاہی خاندان اقتدار میں ہیں ان کی باریاں لگی ہوئی ہیں۔ یہاں جمہوریت تو نظر نہیں آتی۔ لہٰذا جمہوریت پر کیا بات کی جائے! ہمارے محکمے کام نہیں کرتے۔ پیسے بٹورتے ہیں۔ کروڑوں روپے وصول کر کے این ایچ اے والے سو رہے ہیں۔ انہیں کوئی حادثہ نظر ہی نہیں آتا۔ ٹول ٹیکس وصول کرنا یاد ہے۔ کوئی اشارے یاد نہیں۔ لاہور میں دس فٹ کے فاصلے پر پانی موجود تھا۔ 1960ءمیں انڈس واٹر ٹرسٹی ہوا لاہور میں دریائے راوی بہتا تھا۔ ستلج، بیاس اور راوی کے پانی پر ہم نے بھارت کا حق مان لیا۔ چناب جہلم اور سندھ پر انہوں نے ہمارا حق مان لیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی معاہدہ کہتا ہے کہ ہم نے دریا نہیں بیچے۔ دریاﺅں کے زرعی پانی کا مسئلہ تھا۔ لیکن تین اور چیزیں تھیں جن کے لئے دریاﺅں کا پانی استعمال ہونا تھا۔ جو اس معاہدے میں درج ہیں۔ بھارت نے ایک شق شامل کروائی کہ جہلم اور چناب اور سندھ جو پاکستان کے حصے میں آئے ان میں بھی جہاں جہاں وہ بھارت سے گزرتے ہیں۔ وہ اس کا پانی زراعت کے لئے استعمال کرتا ہے۔ بھارت نے معاہدے میں یقین دہانی کرائی ہے اور وہ بھی کرتا ہے ہمارے نااہل لوگ دستخط کر دیتے ہیں معلوم نہیں ہوتا کہ اپنے حقوق کس طرح منواتے ہیں۔ تمام سیاسی پارٹی کے رہنماﺅں سے کل بھی درخواست کی کہ پانی کے مسئلے پر ایک ہو جائیں اس میں سیاست نہ کریں۔ بھارت معاہدے کی رو سے راوی ستلج اور بیاس کا پانی بھی نہیں روک سکتا۔ جس میں آبی حیات، زراعت اور پین کے مقاصد کا پانی شامل ہے۔ راوی میں اب گٹروں کا پانی ڈالا جا رہا ہے۔ بھارت نے ستلج اور راوی کا مکمل پانی روک رکھا ہے۔ جس کا اسے اختیار نہیں ہے۔ دریا بہتا ہے تو زمین کے نیچے سطح اپنی جگہ پر قائم رہتی ہے۔ جو پانی دس فٹ پر تھا۔ اب 650 فٹ نیچے جا چکا ہے۔ واسا کے ٹیوب ویل جو اب لگ رہے ہیں انہیں 1300 فٹ نیچے جا کر پانی ملا ہے۔ پانی کی ری چارجنگ ختم ہو گئی ہے۔ ہمیں بوتلوں کے پانی پر لگا دیا ہے۔ ستلج دوسرے نمبر پر بڑا دریا تھا۔ اس کا پانی بھی رک جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے پورا چولستان بنجر پڑا ہے۔ جبکہ بھارت راجستھان کو آخر تک سیراب کر رہا ہے۔ 15 سے 20 فیصد ہی پانی آتا رہے تو آبی حیات اور پینے کا پانی ملتا رہے۔ 2020ءکے بعد پانی کی قلت کی وجہ سے قحط زدہ علاقے بن جائیں گے۔ تمام سیاستدان خاموش بیٹھے ہیں۔ ایوب خان اور اس کے رفقاءکار نے ہمارا مستقبل برباد کر دیا۔ یہ پانی کا معاہدہ کر کے۔ ایک اور خطرناک بات یہ کہ اس معاہدے کے مطابق بھارت کے چار گندے نالے یہاں آئیں گے اور ہم نے انہیں ”مین ٹین“ کرنا ہے۔ وہ ہمارا سارا صاف پانی لے گیا۔ 20 فیصد بھی نہیں چھوڑ رہا اور اپنا گندا پانی ہماری طرف بھیج رہا ہے۔ چنیوٹ کے قریب ایک گاﺅں ہے۔ جہاں گندے پانی کا نالہ جو بھارت سے آتا ہے۔ اس میں ایک بھینس گر کر مر گئی۔ اس گندے نالے میں بھارت اپنا صنعتی فضلا ڈالتا ہے اور پاکستان بھی اس میں ڈالتا ہے۔ بھینس کو بچانے کیلئے ایک خاندان کے پانچ بندے باری باری اس گندے پانی میں اترتے رہے اور مرتے رہے۔ ہمارے سیاستدان مال کمانے اور دوسرے ملکوں میں بھیجنے میں لگے ہوئے ہیں۔ قانون کے مطابق یہ صنعت کے ساتھ ”ٹریٹ منٹ“پلانٹ لگنا ضروری ہے۔ انڈس واٹر ٹریسٹی میں لکھا ہوا ہے کہ بھارت کی جانب سے آنے والے آلودہ اور گندے پانی کو ہم روکیں گے نہیں بلکہ اسے محفوظ کریں گے۔ ہم اس کے پابند ہیں۔ یہ معاہدہ قابل قبول ہے؟ ہم نے ملتان میں کسان مشاورت کے نام سے ایک میٹنگ بلائی اس میں یوسف رضا گیلانی آبی وسائل کے وفاقی وزیر جاوید علی شاہ صاحب بھی موجود تھے۔ اکثر لوگوں کو یہ تک معلوم نہیں ہے کہ آبی وسائل کی وزارت بھی موجود ہے۔ ممتاز بھٹو نے کسی نہ کسی پارٹی میں تو جانا ہی تھا۔ انہیں ذوالفقار علی بھٹو نے کان سے پکڑ کر نکال دیا تھا۔ آصف زرداری قریب تک نہیں آتے۔ انہوں نے سندھ نیشنل فرنٹ کے نام سے دیگر قوم پرست جماعت بنا رکھی ہے۔ وہ کبھی جیتی نہیں۔ وہ پہلے ن لیگ میں گئے اب انہوں نے تحریک انصاف جوائن کر لی ہے۔ سابق وزیراعلیٰ اور سابق گورنر آہستہ آہستہ ن لیگ کو چھوڑتے رہے کیونکہ وہ آصف زرداری کو ساتھ ملا رہے تھے۔ اب ممتاز بھٹو کے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ وہ تحریک انصاف میں شامل ہو جائیں لہٰذا وہ اس میں آ گئے۔ ماہرقانون، ایس ایم ظفر نے کہا ہے کہ جسٹس کھوسہ پہلے ہی بہت کچھ لکھ چکے ہیں وہ انہیں مافیا قرار دے چکے ہیں کہہ چکے ہیں کہ ان پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ اور یہ حالیہ فیصلے ہیں لہٰذا انہوں نے اب درست کہا کہ وہ کس طرح اس معاملے کو سنیں۔ سیاستدانوں کی کرپشن اور مسائل کی وجہ سے حکومت نام کی چیز نظر نہیں ااتی۔ انہیں اپنے جھگڑے نظر ااتے ہیں۔ عوام کے مسائل دکھائی نہیں دیتے۔ شاہی کام ایسے ہی ہوتے ہیں جس میں کام کی بجائے اپنی شان و شوکت کی طرف توجہ دی جاتی ہے۔ سڑکیں ٹھیک کرنا۔ ایشوز حل کرنا ہمارے سیاستدانوں کا مقصد نہیں۔

حدیبیہ کیس کی سماعت سے معذرت ،جسٹس کھوسہ کا باوقار فیصلہ


لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے پروگرام ”کالم نگار“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی توصیف احمد خان نے کہا ہے کہ جسٹس کھوسہ نے حدیبیہ کیس کے بینچ سے نکلنے کا بڑا باوقار اور مناسب فیصلہ کیا۔ جسٹس کھوسہ کا بیان ایک طرح سے رجسٹرار آفس پر چارج ہے ایسا لگتا ہے کہ جیسے رجسٹرار آفس سے ناجانے کتنی غلطیاں کی جاتی ہونگی۔ جاتی عمرا اجلاس میں ن لیگ نے اہم فیصلے کئے، الیکشن کمیشن اور شریف خاندان کیخلاف کیسز کی کمپین بارے فیصلے ہوئے۔ ماڈل ٹاﺅن کیس ایک پیچیدہ معاملہ بن چکا ہے۔ عدالت کو واضح احکامات دینے چاہی¾ں کہ نجفی رپورٹ پبلک کی جائے، اگر حکومت رپورٹ جاری نہیں کرتی تو عدالت کے پاس بھی کاپی موجود ہے وہ بھی رپورٹ جاری کرسکتی ہے۔ پیپلزپارٹی کی ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کا مجرم سمجھتا ہوں۔ سینئر صحافی امجد اقبال نے کہا کہ موجودہ حالات میں جب لیگی رہنما عدالتوں کے خلاف بیانات دے رہے ہیں جسٹس کھوسہ نے اچھا فیصلہ کیا ہے۔ شواہد کی بنیاد پر فیصلہ ہونا چاہیے کہ حدیبیہ کیس کھولا جائے یا نہیں۔ الیکشن کمپین شروع ہوچکی ہے۔ اگلے ماہ یہ مزید تیزی پکڑ لے گی ن لیگ نے جارحانہ پالیسی اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ جاتی عمرہ میں دوطرح کی رائے کوئی ایک مفاہمت اور دوسری جارحانہ راستہ اپنانے کی تھی۔ ن لیگ کی بقا جارحانہ پالیسی اختیار کرنے میں ہے کیونکہ الیکشن قریب ہیں۔ نوازشریف اپنے خلاف کیسز کا دفاع کر پاتے تو سیاسی میدان میں انہیں نقصان ہوگا جس سے بچنے کیلئے محاذ آرائی کی جارہی ہے۔ ماڈل ٹاﺅن سانحہ رپورٹ جاری کرنے کا اختیار حکومت کا ہے۔ مسائل تب کھڑے ہوتے ہیں جب ریاستی ادارے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اداروں کا ایک دوسرے کے اختیارات چھیننا بھی آئین سے بالا اقدام ہے۔ سینئر تجزیہ کار سجاد بخاری نے کہا کہ جسٹس کھوسہ حدیبیہ کیس کھولنے کا فیصلہ پہلے ہی دے چکے تھے اس لئے انہوں نے مناسب سمجھا اور بنچ چھوڑ دیا، بروقت اور اچھا فیصلہ کیا، اس طرح کی اچھی روایات قائم ہونی چاہئیں لاہور ہائیکورٹ نے حدیبیہ کیس پر پہلے جو فیصلہ دیا وہ تکنیکی بنیاد پر تھا اور غلط تھا۔ احتساب کا نظام مختلف لوگوں کیلئے مختلف نظر آتا ہے۔ ن لیگ کی حکومت ہے اس کی عدالت سے لڑائی کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ سپیکر قومی اسمبلی اجلاس بلانے کا پابند ہے لیکن اجلاس نہیں بلایا جا رہا جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے ارکان اسے چھوڑ چکے ہیں لیگی اجلاس میں یہ بات بھی ہوئی کہ بھاگے ارکان کو کیسے واپس لایا جائے۔ لیگی ارکان نوازشریف کی محاذ آرائی پالیسی کے باعث ہی بھاگے ہیں۔ حکومت نجفی رپورٹ اس لئے پبلک نہیں کرنا چاہتی کیونکہ حکومتی رہنماﺅں کے نام سامنے آنے کا خدشہ ہے جس سے نیا پنڈورا بکس کھل جائے گا سینئر صحافی طاہر ملک نے کہا کہ ملک میں عجیب و غریب نظام چل رہا ہے۔ عدالت جونہی کسی کے خلاف فیصلہ دیتی ہے وہ فوری بیمار پڑ جاتا ہے۔ اسمبلی میں ختم نبوت حلف تبدیل کرنے کا ذمہ دار آج تک سامنے نہیں آ سکا۔ رجسٹرار سپریم کورٹ فیصلہ پڑھے بغیر بنچ تشکیل دے دیتا ہے۔ ادارے ناکام ہو چکے ہیں، جگ ہنسائی کا سبب بن رہے ہیں۔ حدیبیہ کیس پر نیب نے پہلے اپیل کیوں نہ کی اور جو اس کا ذمہ دار ہے اس کے خلاف کارروائی کیوں نہ ہوئی نوازشریف ابھی تک پارٹی کو بچانے میں کامیاب رہے ہیں۔ پاکستان دنیا کی واحد ریاست ہے جہاں ادارے ایک دوسرے سے ہی نبرد آزما ہیں۔ ایماندار لیڈر شپ اور اداروں کے اپنی حدود میں رہ کر کام کرنے تک حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔ صرف عدلیہ نظام کو ٹھیک نہیں کر سکتی اس طرح کا تاثر قائم کرنے والے غلط ہیں ماڈل ٹاﺅن میں 14 افراد قتل ہوئے آج تک ذمہ دار ہی سامنے نہیں لائے جا سکے۔ انصاف میں تاخیر انصاف کا قتل ہے۔

ایم کیو ایم نہ پی ایس پی کراچی میں نئی جماعت کے قیام کی کوشش

کراچی (وحید جمال) کراچی میں ایم کیوایم پاکستان اور پاکستان سرزمین پارٹی کی سیاسی کشیدگی اور ایک دوسری پارٹی کی قیادت پر الزامات سے کراچی کی سیاسی صورتحال کو غیر یقینی اور پیچیدہ بنادیا ہے۔ شہر قائد میں سیاست دان مسائل حل کرنے کے بجائے سیاسی بیانات سے کام لے رہے ہیں کراچی کے سیاسی حلقوں کے ذرائع کے مطابق ایم کیوایم پاکستان اور پاک سرزمین پاٰرٹی کے مابین سیاسی کشیدگی کی وجہ سے دونوں جماعتوں کے کارکنوں کے درمیان تصادم کا اندیشہ ہے کراچی میں امن و امان کی صورتحال خراب ہوسکتی ہے موجودہ صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے ایک نئی سیاسی جماعت کے قائم کرنے کی کوششیں شروع کردی گئی ہیں جو اپنی سیاست کا محور کراچی کے بنیادی مسائل ترجیحی بنیاد پر رکھے گی آئندہ چند دنوں میں ایم کیوایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی کے کئی اہم رہنماﺅں کو منی لانڈرنگ کیس اور سانحہ بلدیہ ٹاﺅن فیکٹری کیس میں سخت مشکلات اور مسائل کا سامنا ہوگا جس سے ان کے سیاسی مستقبل کا بھی فیصلہ ہوجائے گا مصدقہ ذرائع کے مطابق نئی سیاسی پارٹی کے قیام میں سرفہرست سابق گورنر ڈاکٹر عشرت العباد خان ہیں جن کی اپنے طویل گونرر شپ کے دور میں کراچی کے مسائل پر خاصی مضبوط گرفت رہی ہے ان کی سیاسی و عوامی حلقوں سمیت تاجر برادری صنعت کاروں کے حلقوں میں بہت زیادہ اہمیت رہی ہے۔ دوسری جانب ایم کیوایم کے سابق چیئرمین سلیم شہزاد کی ایک دو روز میں کراچی آمد متوقع ہے۔ وہ لندن قیادت سے ناراض اور طویل عرصے سے خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ان کی کراچی آمد کو موجودہ سیاسی صورتحال میں سیاسی حلقے اہم قرار دے رہے ہیں۔ دبئی میں زیر حراست ایم کیوایم تنظیمی کمیٹی کے سابق انچارج حماد صدیقی کو پاکستان لانے کی کوششیں تیز کر دی گئی ہیں۔ جو سانحہ بلدیہ ٹاﺅن فیکٹری سمیت 12مئی کے ہائی پروفائل مقدمات کا اہم کردار ہے، اس میں وکیلوں کو زندہ جلانے کے مقدمات بھی شامل ہیں، حماد صدیقی نے ایم کیوایم اور پاکستان قیادت کے ملوث ہونے کے بعد ثبوت اور اعترافی بیانات دے دیئے ہیں۔ جس کی وجہ سے ایم کیوایم پاکستان اور پاک سرزمین کی قیادت سنگین پریشانیوں کا شکار نظر آتی ہے کراچی کی سیاست میں آنے والے چند دنوں میں اہم فیصلے متوقع ہیں۔