پاکستان میں عدلیہ پر حملہ، خریدنے کی کوشش کرنا ن لیگ کا شیوہ ہے، عمران اسماعیل

کراچی:(ویب ڈیسک) پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما اور سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل نے کہا ہے کہ پاکستان میں عدلیہ کا تمسخر اڑانا، حملہ کرنا، خریدنے کی کوشش کرنا ن لیگ کا شیوہ رہا ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں عمران اسماعیل نے کہا کہ آج بھی حکومتی ارکان وہی سازش کرنے کی کوشش میں لگے ہیں۔
عمران اسماعیل نے کہا کہ کسی کی خواہش پر نہ تو کوئی فیصلہ ہو گا نہ ہی عدلیہ پریشر میں آئے گی، پوری قوم انصاف کے لیے عدلیہ کی طرف دیکھ رہی ہے۔

FINCAمائیکرو فنانس بینک اور CIRCLEوومین کے درمیان ڈیجیٹل اور مالیاتی خواندگی کے ذریعہ خواتین کو با اختیار بنانے کیلئے شراکت داری

کراچی(پریس ریلیز)پاکستان میں خواتین عملہ پر مشتمل برانچ کھولنے والے پاکستان کے پہلے مائیکرو فنانس بینک FINCAمائیکرو فنانس بینک نے خواتین کو معاشی طور پر با اختیار بنانے اور قائدانہ صلاحیتوں کے فروغ کیلئے وقف سماجی ادارہ CIRCLEوومین کے ساتھ شراکت داری کا اعلان کیا ہے۔اس شراکت داری کا مقصد CIRCLEوومین کے ڈیجیٹل خواندگی پروگرام (DLP) کے تحت ڈیجیٹل خواندگی اور مالی شمولیت کو فروغ دے کر کم آمدنی والے طبقے کی خواتین کو بااختیار بنانا ہے۔
اس شراکت داری کے ذریعہ CIRCLEوومین،FINCAمائیکرو فنانس بینک کی 1,000 خواتین صارفین کو ڈیجیٹل مہارتوں، کاروباری صلاحیتوں، اور مالیاتی خواندگی کی تربیت دے گی۔FINCAمائیکرو فنانس بینک کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے ڈیجیٹل خواندگی پروگرام کے 1,000 شرکاء اپنے کاروبار کو وسعت دے سکیں گے اور آسان اور محفوظ مالی لین دین فراہم کرنے والی ڈیجیٹل موبائل ایپلی کیشنFINCA Pay سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ ماسٹر ٹرینرز اور ماہرین کے ذریعے منظور کیا گیاCIRCLEوومین
کا تیار کردہ ڈیجیٹل خواندگی پروگرام نصاب تمام تربیتوں میں استعمال کیا جائے گا۔
FINCAمائیکرو فنانس بینک لمیٹڈ کے سی ای او جہانزیب خان نے اس حوالے سے کہا کہ ”FINCAکا پائیدار ترقی کی شمولیت پر پختہ یقین ہے اور ہم اس کے بنیادی سماجی اثرات کے ساتھ اپنے ڈبل باٹم لائن مشن کیلئے پر عزم ہیں۔ہمارا مقصد ہماری کسٹمر ریسرچ، پراڈکٹ ڈیزائن، اور ڈیلیوری کے دوران صنفی مساوات کے نقطہ نظر کو اپنا کر سرمائے تک خواتین کی رسائی کو بڑھانا ہے۔ہمارا اور CIRCLEوومین کا مشترکہ یقین ہے کہ مالیاتی خدمات خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے ایک طاقتور ٹول کے طور پر کام کر سکتی ہیں۔ہماری شراکت پاکستان کے مالیاتی طور پر شامل طبقے میں مزید خواتین کو شامل کرنے پر توجہ مرکوز کرے گی، اور اس طرح ہمارے مشترکہ سماجی مشن کو آگے بڑھایا جاسکے گا۔“
CIRCLEوومین کی بانی صدف عابد نے کہا کہ ”پاکستان کی معیشت میں خواتین کی ڈیجیٹل اور مالی شمولیت اب عیش و آرام کی چیز نہیں رہی، یہ اس وقت کی ضرورت ہے، جب ایک عورت مالی طور پر مضبوط ہوتی ہے، تو وہ اپنے خاندان کی صحت، خوراک اور تعلیم میں دوبارہ سرمایہ کاری کرتی ہے۔ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل مالیاتی پلیٹ فارم کے ساتھ، ہمیں خواتین کے لیے حل لانے اور ایک زیادہ مساوی معاشرہ بنانے کی ضرورت ہے۔“
سماجی طور پر ذمہ دارانہ مالیاتی خدمات فراہم کرنے والے مائیکروفنانس اداروں اور بینکوں کے ایک عالمی نیٹ ورکFINCA امپیکٹ فنانس کے طور پر FINCA مائیکرو فنانس بینک لمیٹڈ کئی دہائیوں سے پاکستان میں خواتین کو بااختیار بنا رہا ہے۔120سے زائد شہروں میں
130 سے زائد برانچوں کے ذریعے ملک گیر موجودگی کے ساتھ، بینک نے 100,000 سے زیادہ خواتین کاروباریوں کو مائیکرو فنانسقرضوں تک سستی رسائی اور کامیاب کاروبار چلانے کے لیے دیگر ضروری وسائل فراہم کیے ہیں۔بینک کی مصنوعات اور آسان بینکنگ خدمات کا مکمل مجموعہ، بشمول مائیکرو، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کے لیے خصوصی طور پر ڈیزائن کردہ قرض کی مصنوعات، پاکستان میں خواتین کی زیر قیادت کاروبار کی ترقی میں مزید معاونت کرتی ہے۔

1997 میں بھی ن لیگ سپریم کورٹ پر حملہ کیا، عمران خان

لاہور :(ویب ڈیسک) اپنے ایک ٹویٹ میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا کہ جس طرح 1997 میں مسلم لیگ ن سپریم کورٹ پر حملہ آور ہوئی اور نوازشریف کےخلاف کیس میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ پر حملہ کیا، آج پھر ن لیگ عدالتوں پر حملہ آور ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ جو جماعتیں اس سازش کی مخالف ہیں ان سے بات کرنے کیلئے تیار ہوں،عمران خان، ن لیگ انتخابات سے خوفزدہ ہے، وکلابرادری 2007کی طرح آگے بڑھے، عوام قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کیلئے سڑکوں پر نکلنے کو تیار ہیں۔

میں بخیر و عافیت سے گھر واپس پہنچ گیا ہوں، اظہر مشوانی

اسلام آباد:(ویب ڈیسک) ٹوئٹر پر 3 بجکر 40 منٹ پر کئے جانے والے ٹویٹ میں چند روز قبل لاپتہ ہونے والے پی ٹی آئی چیئرمین کے فوکل پرسن اظہر مشوانی نے کہا کہ بخیر و عافیت سے گھر واپس پہنچ گیئے ہیں۔
ٹویٹ میں اظہر مشوانی نے لکھا کہ آپ کی دعاؤں، کاوشوں اور سپورٹ نے تاعمر کیلئے مقروض کر دیا ہے،
دعا ہے کہ ہمارے دیگر اسیر کارکنان بھی جلد اپنی فیملیز کے ساتھ افطاری کریں۔

پی ٹی آئی کی منشا پر ملک کاآئین نہیں چل سکتا، مریم اورنگزیب

اسلام آباد:(ویب ڈیسک)سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کا کہناتھا کہ 9 کنی بینچ سے معاملہ 3 رکنی بینچ تک پہنچ گیا ہے،کل ایک نئی روایت رکھی گئی،سامنے آنے والے فیصلے انفرادی دکھائی دے رہے ہیں۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہا سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے کہ ملک کو آئینی بحران سے بچائے،پی ٹی آئی کی منشا پر ملک کاآئین نہیں چل سکتا۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ نے ایک شخص نے سائفر لہرا کر سازش کاجھوٹا بیانیہ بنایا، عمران خان پورے ملک کو آگ لگانا چاہتا ہے، یہ شخص ملک میں الیکشن نہیں لاشیں چاہتا ہے، عمران خان نے صدر،اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر سے آئین شکنی کروائی، عمران خان عالمی سازش کی جھوٹ میں پکڑا گیا ہے،یہ شخص الیکشن نہیں بلکہ ملک میں لاشیں چاہتا ہے، عمران خان چاہتا ہے ملک میں انارکی پھیلے۔

انتخابات التواء کیس: فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد، سماعت پیر تک ملتوی

اسلام آباد:(ویب ڈیسک) پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کی جانب سے فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کیس کی سماعت پیر ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی۔
جسٹس جمال مندوخیل کی معذرت کے بعد بنچ ایک بار پھر ٹوٹ گیا ہے، گزشتہ روز بھی 5 رکنی بنچ میں شامل جسٹس امین الدین بنچ سے علیحدہ ہوگئے تھے جس کے بعد آج باقی ججز پر مشتمل بنچ نے کیس کی سماعت کرنا تھی۔
آج چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 4 رکنی بنچ سماعت کے لیےکمرہ عدالت پہنچا، بنچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال مندوخیل شامل تھے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب، آپ سے پہلے جسٹس جمال مندوخیل کچھ کہنا چاہتے ہیں۔
اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے کیس سننے سے معذرت کرلی، ان کا کہنا تھا کہ جسٹس امین الدین نے کیس سننے سے معذرت کی، جسٹس امین الدین کے فیصلے کے بعد حکم نامےکا انتظار تھا، مجھے عدالتی حکم نامہ کل گھر میں موصول ہوا، حکم نامے پر میں نے الگ سے نوٹ تحریرکیا ہے، اٹارنی جنرل صاحب آپ اختلافی نوٹ پڑھ کر سنائیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کا اختلافی نوٹ
اٹارنی جنرل نے گزشتہ روزکی سماعت کے حکم نامے میں جسٹس جمال مندوخیل کا اختلافی نوٹ پڑھ کر سنایا، جس میں کہا گیا کہ میں بنچ کا ممبر تھا، فیصلہ تحریرکرتے وقت مجھ سے مشاورت نہیں کی گئی، میں سمجھتا ہوں کہ میں بنچ میں مس فٹ ہوں، دعا ہے اس کیس میں جوبھی بنچ ہو ایسا فیصلہ آئے جو سب کو قبول ہو، اللہ ہمارے ادارے پر رحم کرے، میں اور میرے تمام ساتھی ججز آئین کے پابند ہیں, حکم نامہ کھلی عدالت میں نہیں لکھوایا گیا، جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلے کا کھلی عدالت میں جائزہ لیا جائے۔
اس دوران چیف جسٹس پاکستان نے جسٹس جمال مندوخیل کو بات کرنے سے روک دیا اور ان سے کہا کہ بہت بہت شکریہ، بنچ کی تشکیل کا جوبھی فیصلہ ہوگا کچھ دیربعد عدالت میں بتادیا جائےگا۔
جسٹس جمال خان مندو خیل کا کہنا تھا کہ میں کل بھی کچھ کہنا چاہ رہا تھا، شاید فیصلہ لکھواتے وقت مجھ سے مشورے کی ضرورت نہیں تھی، شاید فیصلہ لکھواتے وقت مجھے مشورے کے قابل نہیں سمجھا گیا، اللہ ہمارے ملک کے لیے خیر کرے۔
کیس کی سماعت کے لیے نیا بنچ تشکیل
چیف جسٹس پاکستان نے کیس کی سماعت کے لیے نیا بنچ تشکیل دے دیا، سپلیمنٹری کاز لسٹ کے مطابق چیف جسٹس پاکستان، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر بنچ میں شامل ہیں۔
پاکستان بار کی فل کورٹ بنانے کی استدعا
چیف جسٹس کی سربراہی میں کیس کی سماعت شروع ہوئی تو پاکستان بارکونسل کے چیئرمین ایگزیکٹوکونسل حسن رضا پاشا روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس نے ان سےکہا کہ آپ کو بعد میں سنیں گے۔
حسن رضا پاشا کا کہنا تھا کہ بار کا کسی کی حمایت یا مخالفت سےکوئی تعلق نہیں، اگر فل کورٹ بنچ نہیں بن سکتا تو فل کورٹ اجلاس کرلیں۔
چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ اس پر ہم سوچ رہے ہیں، جہاں تک ججز کے تعلقات کی بات ہے تو ججزکے آپس میں تعلقات اچھے ہیں، کل اور آج 2 ججوں نے سماعت سے معذرت کی، ججزکی باہمی اعتراف اورشائستہ گفتگو پہلے بھی ہوئی اوربعد میں بھی،کچھ نکات پر آپس میں گفتگو ناگزیر ہے،کچھ سیاسی معاملات سامنے آئے جس پر میڈیا اور پریس کانفرنسز سے تڑکا ڈالا گیا، عدالت نے سارے معاملے پر تحمل کا مظاہرہ کیا،کچھ لوگ چند ججزپر تنقید کر رہے ہیں اور کچھ دوسرے ججز پر، ہم اس معاملےکو بھی دیکھیں گے۔
چیف جسٹس نے حسن رضا پاشا سےکہا کہ آج پہلی بار آپ عدالت آئے ہیں، گزارشات سے نہیں عمل سے خود کو ثابت کریں، چیمبرمیں آکر مجھ سے ملیں، آپ کا بہت احترام ہے، سپریم کورٹ بار کے صدر مجھ سے رابطے میں رہے ہیں، معاملہ صرف بیرونی امیج کا ہوتا تو ہماری زندگی پرسکون ہوتی، میڈیا والے بھی بعض اوقات کچھ بھی کہہ دیتے ہیں، اکثرجھوٹ بھی ہوتا ہے، عدالت ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کرتی ہے، سماعت کے بعد کچھ ملاقاتیں کروں گا، توقع ہے کہ پیرکا سورج اچھی نوید لےکر طلوع ہوگا۔
اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان روسٹرم پرآئے تو چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب جو نکات اٹھانا چاہیں اٹھاسکتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے کچھ مقدمات میں حالات کی پیروی کے لیے فریقین کو ہدایت کی تھی، عدالت سے گزارش ہےکہ پہلے سیاسی درجہ حرارت کم ہونے دیں، ملک میں ہرطرف درجہ حرارت کم کرنےکی ضرورت ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ درجہ حرارت کم کرنے کے لیے آپ کو ہدایات لینےکا کہا، اس پرآپ نےکیا کیا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ صرف وقت درکار ہے، وقت کے ساتھ ہی درجہ حرارت کم ہوسکتا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس عدالت نے ہمیشہ آئین کو ہی فوقیت دی ہے، ججز کو دفاتر سے نکال کر گھروں میں قید کیا گیا تھا، میری زندگی کا معجزہ تھا کہ جب ججزبحال ہو کر واپس دفاتر میں آئے، 90 کی دہائی میں کئی بہترین ججز واپس نہیں آسکے، اس واقعے نے میرا زندگی کا نظریہ ہی بدل دیا، آئین ہی جمہوریت کو زندہ رکھتا ہے، کل تک جو جیلوں میں تھے آج اسمبلی میں تقاریرکر رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہےکہ وہ عوام کے نمائندے ہیں، اسمبلی کی 5 سال کی مدت ہوتی ہے لیکن ہاؤس کے سربراہ کو تحلیل کا اختیار ہے، اسمبلیاں تحلیل ہونے سے لے کر اب 90 دن کا وقت اپریل میں ختم ہو رہا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ صدر نے 90 دن کی مدت کے 15 دن بعد تاریخ دی، صدرکو الیکشن کمیشن نے حالات نہیں بتائے تھے، صدر کو حالات سے آگاہ کیا ہوتا تو شاید 30 اپریل تاریخ نہ آتی، عدالت کے سامنے مسئلہ 8 اکتوبرکی تاریخ کا ہے، عدالت مشکلات پیدا کرنے نہیں بیٹھی، عدالت کو ٹھوس وجہ بتائیں، یہ ڈائیلاگ شروع کریں، ایک فریق پارٹی چیئرمین کی گارنٹی دے رہا ہے، شاید حکومت کو بھی ماضی بھلانا پڑےگا، اسمبلیوں کی مدت ویسے بھی اگست میں مکمل ہو رہی ہے، اگر حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات ہوں تو کچھ دن وقفہ کرلیں گے، اگر مذاکرات نہیں ہونے تو آئینی کردار ادا کریں گے، عدالتی فیصلہ دیکھ کرآپ کہیں گے کہ بااختیارفیصلہ ہے، ہرفریق کے ہر نکتےکا فیصلے میں ذکرکریں گے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ 20 ارب کے اخراجات پر پہلے عدالت کو بتائیں، ہم نے اخراجات کم کرنے کی تجویز دی تھی۔
اٹارنی جنرل نے 27 فروری کا عدالتی حکم پڑھ کر سنایا، چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ چیف جسٹس کو بنچ کی ازسرنو تشکیل کے لیے بھیجا گیا تھا، چاہتا تو تمام ججز کو بھی تبدیل کرسکتا تھا، اگر آپ وہی کرنا چاہتے ہیں جس سے مسئلہ بنا تویہ ہماری پرائیوسی میں مداخلت ہوگی۔
اٹارنی جنرل نےکہا کہ آپ نےکہا کہ ججز نے سماعت سے معذرت نہیں کی تھی، چیف جسٹس نےکہا کہ میں نے ججز کی سماعت سے معذرت پر کچھ نہیں کہا، سماعت روکنے والا حکم ہم ججز آپس میں زیربحث لائیں گے، آپ درجہ حرارت کم کرنے والی بات کر رہے تھے، ججز تو تنقید کا جواب بھی نہیں دے سکتے، ججز کی اندرونی گفتگو عوام میں نہیں کرنی چاہیے، درجہ حرارت کم کرنے والے آپشن پر ہی رہیں، جلد ہی ان معاملات کو سلجھادیں گے۔
اٹارنی جنرل کی جانب سے ایک بار پھر فل کورٹ بنانے کی استدعا پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ فل کورٹ پر دلائل دینا چاہتے ہیں تو دیں، فل کورٹ کا معاملہ میرے ذہن میں تھا، فل کورٹ کی تشکیل سے قبل کچھ عوامل کو دیکھنا ضروری ہوتا ہے، دوران سماعت چیف جسٹس عمرعطا بندیال جذباتی ہوگئے اور ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان کی آواز بھرا گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک عمل یہ ہوتا ہے کہ معمول کے مقدمات متاثرنہ ہوں، موجودہ دور میں روز نمٹائے گئے مقدمات کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، بعض اوقات تمام ججز پرنسپل سیٹ پر دستیاب نہیں ہوتے، گزشتہ ہفتے کوئٹہ، کراچی اور لاہور میں بھی بینچز تھے، اس ہفتے بھی لاہور میں بینچ تھا، 9 رکنی بنچ تشکیل دیتے وقت میں نے تمام ججز کے بارے میں سوچا تھا، 9 رکنی بنچ بناتے وقت سوچا تھا کہ سینئر سے نئے تک تمام ججز کی نمائندگی ہو، میں نے جسٹس اطہرمن اللہ کو آئین سے ہم آہنگ پایا، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس منیب اختر آئین کے ماہر ہیں،جسٹس اعجاز الاحسن بھی آئین کے ماہر ہیں، آپ پوچھ سکتے ہیں جسٹس مظاہر نقوی کیوں شامل کیے گئے، جسٹس مظاہر نقوی کو شامل کرنا خاموش پیغام دینا تھا، 2019 سے 2021 تک جسٹس فائز عیسیٰ فل کورٹ کیس چلا اور عدالت کو سزا ملی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سیاسی معاملہ چل رہا ہے جس بنیاد پر دیگر ججز کو نشانہ بنایا گیا، سپریم کورٹ کے ججز کو سنی سنائی باتوں پر نشانہ بنایا جا رہا ہے، سپریم کورٹ متحد تھی اور کچھ معاملات میں اب بھی ہے، عدلیہ کس طرح متاثر ہو رہی ہے کوئی نہیں دیکھتا، اہم عہدوں پر تعینات لوگ کس طرح عدلیہ کو نشانہ بنا رہے ہیں، مجھے کہا جا رہا ہے کہ ایک اور جج کو سزادوں،جا کر پہلے ان شواہد کا جائزہ لیں۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کی جانب سے فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کیس کی سماعت پیر ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی۔

کل تک جیلوں میں رہنے والے آج اسمبلی میں تقاریر کررہے ہیں عدالتی فیصلہ دیکھ کر آپ خود کہیں گے کہ بااختیار فیصلہ ہے چیف جسٹس عمر عطا بندیال

اسلام آباد:(ویب ڈیسک) چیف جسٹس نے کہا ہے کہ کل تک جیلوں میں رہنے والے آج اسمبلی میں تقاریر کر رہے ہیں، کیونکہ وہ عوام کے نمائندے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے پنجاب ،کے پی انتخابات التوا کیخلاف عمران خان کی درخواست کی سماعت کی۔
پاکستان بار کونسل کی فل کورٹ کی استدعا
پاکستان بار کونسل کے چیئرمین ایگزیکٹیو کونسل عدالت میں پیش ہوئے اور چیف جسٹس کو فل کورٹ بنانے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ بنائیں یا کم از کم فل کورٹ میٹنگ کی جائے۔
ججز کے آپس میں تعلقات اچھے ہیں
چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ اس پر ہم سوچ رہے ہیں، ججز کے آپس میں تعلقات اچھے ہیں، باہمی اعتراف اور شائستہ گفتگو پہلے بھی ہوئی اور بعد میں بھی، سیاسی معاملات سامنے آئے جس پر میڈیا اور پریس کانفرنسز سے تیل ڈالا گیا، عدالت نے سارے معاملے پر تحمل کا مظاہرہ کیا، کچھ لوگ چند ججز پر تنقید کررہے ہیں کچھ دوسرے ججز پر تنقید کررہے ہیں، ہم اس معاملہ کو بھی دیکھیں گے، سماعت کے بعد کچھ ملاقاتیں کروں گا، تو قع ہے کہ پیر کا سورج اچھی نوید لے کر طلوع ہوگا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت سے گزارش ہے کہ پہلے درجہ حرارت کم کریں۔
ہاؤس کے سربراہ کو اسمبلی تحلیل کا اختیار ہے
چیف جسٹس نے کہا کہ ججز کو دفاترسے نکال کر گھروں میں قید کیا گیا، معجزہ ہوا کہ ججز واپس دفاتر آگئے، 90 کی دہائی میں کئی بہترین ججز واپس نہیں آسکے، آئین،جمہوریت کو زندہ رکھنا ہے، کل تک جیلوں میں رہنے والے آج اسمبلی میں تقاریر کر رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عوام کے نمائندے ہیں، اسمبلی کی مدت ہوتی ہے اور ہاؤس کے سربراہ کو تحلیل کا اختیار ہے، نوے دن کا وقت اپریل میں ختم ہو رہا ہے۔
صدر کو حالات سے آگاہ کیا ہوتا تو شاید 30 اپریل تاریخ نہ آتی
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صدر نے نوے دن کی مدت کے پندرہ دن بعد تاریخ دی، صدر کو الیکشن کمیشن نے حالات نہیں بتائے تھے، صدر کو حالات سے آگاہ کیا ہوتا تو شاید 30 اپریل تاریخ نہ آتی، عدالت کے سامنے مسئلہ 8 اکتوبر کی تاریخ کا ہے، عدالت کو ٹھوس وجہ بتائیں یا ڈائیلاگ شروع کریں۔
حکومت کو ماضی بھلانا پڑے گا
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ایک فریق پارٹی چیرمین کی گارنٹی دے رہا ہے، شاید حکومت کو بھی ماضی بھلانا پڑے گا، اسمبلیوں کی مدت ویسے بھی اگست بھی مکمل ہورہی ہے، اگر حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات ہوں تو کچھ دن وقفہ کرلیں گے، اگر مذاکرات نہیں ہونے تو آئینی کردار ادا کریں گے، عدالتی فیصلہ بااختیار ہوگا، جس میں ہر فریق کے ہر نقطے کا ذکر کریں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ موجودہ درخواست کی بنیاد یکم مارچ کا عدالتی حکم ہے، 9 رکنی بینچ کے دو اراکین نے رضاکارانہ بینچ سے علیدگی اختیار کی۔
چاہتا تو تمام ججز کو بھی تبدیل کر سکتا تھا
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو کس نے کہا کہ دو ججز بینچ سے الگ ہوئے تھے، عدالت کا 27 فروری کا حکم پڑھیں اس میں کہاں لکھا ہے؟ معاملہ چیف جسٹس کو بینچ کی ازسر نو تشکیل کے لیے بھیجا گیا تھا، چاہتا تو تمام ججز کو بھی تبدیل کر سکتا تھا، اگر آپ وہی کرنا چاہتے ہیں جس سے مسئلہ بنا تو یہ ہماری پرائیوسی میں مداخلت ہوگی، سماعت روکنے والا حکم ہم ججز آپس میں زیر بحث لائیں گے، آپ درجہ حرارت کم کرنے والی آپشن پر ہی رہیں، جلد ہی ان معاملات کو سلجھا دیں گے۔
فل کورٹ میرے ذہن میں تھا
فل بینچ کے حوالے سے چیف جسٹس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ والا معاملہ میرے ذہن میں تھا، ایک بات یہ ہے کہ معمول کے مقدمات متاثر نہ ہوں، بعض اوقات تمام ججز دستیاب نہیں ہوتے، گزشتہ ہفتے کوئٹہ ، کراچی اور لاہور میں بھی بینچ تھے ، اس ہفتے بھی لاہور میں بینچ تھا، نو رکنی بینچ تشکیل دیتے وقت تمام ججز کے بارے میں سوچا، جسٹس اطہر من اللہ کو آئین سے ہم آہنگ پایا، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منیب اختر آئین کے ماہر ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن بھی آئین کے ماہر ہیں، آپ پوچھ سکتے ہیں جسٹس مظاہر نقوی کیوں شامل کیے گئے، جسٹس مظاہر نقوی کو شامل کرنا خاموش پیغام دینا تھا، دو سال جسٹس فائز عیسیٰ کیس چلا اور عدالت کو سزا ملی ، جسٹس فائز عیسیٰ کے لیے بھی مقدمہ سزا ہی تھا۔

چیف جسٹس ملک کو انارکی کی طرف نہ دھکیلیں ، فل بنچ بنائیں: وزیر داخلہ

اسلام آباد:(ویب ڈیسک) وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال ملک کو انارکی کی طرف نہ دھکیلیں۔
رانا ثنا اللہ نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پہلے سپریم کورٹ کا 9 رکنی بنچ کم ہو کر 7 رکنی ہوا پھر 5 کا ہوا پھر 4 اور آج ایک اور جج نے خود کو الگ کر لیا، جو جج صاحب الگ ہوئے وہ بڑے سینئر ہیں ان کا اختلافی نوٹ بڑا افسوس ناک ہے، فیصلہ لکھتے وقت ان کی رائے نہیں لی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک قومی سانحے سے کم نہیں ہے، یہ بات ہماری بارز کے لیے بھی ایک المیہ ہے۔
رانا ثنا نے کہا کہ قاضی فاٸز عیسیٰ کا فیصلہ ایک عدالت کا فیصلہ ہے، میں نے آج تک نہیں سنا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو ایک سرکلر سے ختم کر دیا جائے، سپریم کورٹ کے بنچ کے مقابلے میں رجسٹرار کی کوٸی اہمیت نہیں ہے، قاضی فائز والے بنچ کا فیصلہ اس وقت تک چلے گا جب تک وہ چیلنج نہیں ہوتا، اس فیصلے کو سرکلر سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ فرد واحد عمران خان نے معاشی و ملکی بحران پیدا کروا دیا ہے، اگر قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس نہ دائر کیا جاتا تو یہ بحرانی کیفیت جنم نا لیتی۔
رانا ثناء اللہ نے زور دیا کہ ججز سے گزارش ہے انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے، اس معاملے میں فل بنچ نہ بنا تو انصاف ہوتا نظر نہیں آئے گا اور ملک افراتفری و انتشار کا شکار ہوجائے گا، آپ اس کا حصہ نہ بنیں، چیف جسٹس قوم کو انارکی کی طرف نہ دھکیلیں، یا تو فل بنچ بنائیں تاکہ تمام فریقین کے لیے قابل قبول حل نکلے، ایسا نہ ہوا تو خدشہ ہے کہ پھر وہ فیصلہ قابل عمل نہیں ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسمبلیاں توڑنے کا طریقہ کار غلط تھا، سیاست میں فیصلے یکطرفہ نہیں ہوتے، سیاست میں مل بیٹھ کر فیصلے ہونے چاہئیں۔

صدر کی جسٹس قاضی فائزکیخلاف کیوریٹیو ریویو ریفرنس واپس لینے کی منظوری

اسلام آباد:(ویب ڈیسک) صدر مملکت عارف علوی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیوریٹیو ریویو ریفرنس واپس لینےکی منظوری دے دی۔
صدرمملکت نے سول ریویو پٹیشن میں کیوریٹیو ریویو پٹیشن اور سی ایم اے واپس لینے کی منظوری دے دی، عارف علوی نے منظوری آئین کے آرٹیکل 48 ایک کے تحت وزیراعظم کی ایڈوائس پر دی۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ایڈووکیٹ سپریم کورٹ انیس احمد شہزاد کے حق میں سند اختیار پر بھی دستخط کر دئیے۔
خیال رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیوریٹیو ریویو ریفرنس واپس لینے کا حکم دیا تھا اور ان کے خلاف ریفرنس کی پیروی نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ریفرنس کے نام پرجسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے اہلخانہ کو ہراساں اور بدنام کیا گیا، ان کےخلاف ریفرنس کوئی ریفرنس نہیں تھا، یہ ایک منصف مزاج جج کے خلاف منتقم مزاج عمران نیازی کی انتقامی کارروائی تھی، یہ عدلیہ کی آزادی پر شب خون اور اسے تقسیم کرنے کی مذموم سازش تھی، مسلم لیگ(ن) اور اتحادی جماعتوں نے اپوزیشن دور میں بھی اس کی مذمت کی تھی۔
وزیراعظم شہباز شریف نے مزید کہا کہ عمران نیازی نے صدر کے آئینی منصب کا اس مجرمانہ فعل کے لیے ناجائز استعمال کیا، صدر عارف علوی عدلیہ پر حملے کے جرم میں آلہ کار اور جھوٹ کے حصہ دار بنے، پاکستان بار کونسل سمیت وکلا تنظیموں نے بھی اس ریفرنس کی مخالفت کی تھی، اس ریفرنس سے متعلق پاکستان بار سمیت وکلا تنظیموں کی رائے کی قدر کرتے ہیں۔

وزیراعظم نے آج تیسرے روز بھی اٹارنی جنرل کو طلب کرلیا

اسلام آباد:(ویب ڈیسک) وزیراعظم شہباز شریف نے آج تیسرے روز بھی اٹارنی جنرل منصور عثمان کو طلب کر لیا۔
پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے معاملے پر وزیراعظم کی جانب سے اٹارنی جنرل کو مسلسل 3 روز سے مشاورت کے لئے طلب کیا گیا ہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان سپریم کورٹ سے وزیراعظم ہاؤس کے لئے روانہ ہوگئے ہیں، اٹارنی جنرل وزیراعظم شہباز شریف سے زیر سماعت مقدمے پر ہدایات لیں گے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے گزشتہ روز اٹارنی جنرل منصور عثمان کو وزیراعظم شہباز شریف سے انتخابات کے معاملے پر ہدایات لینے کا کہا تھا۔

ملک میں مہنگائی مزید بڑھ سکتی ہے: وزارت خزانہ کی رپورٹ جاری

اسلام آباد:(ویب ڈیسک) وزارت خزانہ نے مہنگائی سے متعلق ماہانہ رپورٹ جاری کر دی۔
وزارت خزانہ کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں مہنگائی میں اضافے کا امکان ہے، بنیادی اشیاء کی طلب اور رسد میں فرق کے باعث مہنگائی بڑھ رہی ہے جب کہ حالیہ ہفتوں میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے بھی مہنگائی بڑھی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیلاب کے اثرات کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوسکتا ہے البتہ مالی سال کے اختتام پر مہنگائی میں کمی کا امکان ہے۔
وزارت خزانہ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ حکومت آئی ایم ایف پروگرام کو کامیابی سے مکمل کرنے کیلئے پرعزم ہے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ قابو کر کے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کم کیا جا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق جولائی سے فروری تک ترسیلات زر میں 10 فیصد کمی ہوئی، مالی سال کے 8 ماہ میں برآمدات میں9.7 اور درآمدات میں 21 فیصد کمی ہوئی، مالی سال کے 8 ماہ میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 68 فیصد کم ہوا اور غیرملکی سرمایہ کاری میں 40.4 فیصد کمی ہوئی۔
وزارت خزانہ کے مطابق 29 مارچ کو اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر 4 ارب7 کروڑ60 لاکھ ڈالرز تھے اور 29 مارچ کو ڈالرکا ریٹ 283 روپے 92 پیسے تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 8 ماہ میں ایف بی آر ٹیکس وصولیوں میں 18.2 فیصد اضافہ ہوا جب کہ جولائی سے فروری تک بجٹ خسارہ میں 4 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔

بجلی صارفین پر 3 روپے 23 پیسے فی یونٹ مستقل سرچارج عائد کرنے کی منظوری

اسلام آباد:(ویب ڈیسک) نیپرا نے بجلی صارفین کو ایک اور جھٹکا دینے کی تیاری کر لی اور 3.23 روپے فی یونٹ مستقل سرچارج عائد کرنے کی منظوری دے دی۔
نیپرا نے بجلی صارفین پر 335 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالنے کی منظوری دے دی، اس سلسلے میں نیپرا نے حکومتی درخواست پر اپنا فیصلہ وفاقی حکومت کو بھجوا دیا، نیپرا کی جانب سے بجلی صارفین پر 3 روپے 23 پیسے فی یونٹ مستقل سرچارج عائد کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔
فیصلے کے مطابق بجلی کی قیمت میں اضافی سرچارج آئندہ مالی سال سے لگایا جائے گا، اضافی سرچارج کا اطلاق گھریلو، صنعتی، کمرشل اور زرعی صارفین پر بھی ہوگا، اضافی سرچارج کا اطلاق کے الیکٹرک صارفین پر بھی ہوگا۔
فیصلے کے تحت رواں برس جون تک حکومت 3 روپے 82 پیسے فی یونٹ اضافی سرچارج وصول کرے گی جبکہ آئندہ مالی سال سے 3 روپے 23 پیسے فی یونٹ سرچارج وصول کیا جائے گا۔

انٹربینک میں ڈالر کی قیمت بڑھنے کا سلسلہ جاری

کراچی:(ویب ڈیسک) انٹربینک میں ڈالر کی قیمت بڑھنے کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔
کاروباری ہفتے کے پانچویں اور آخری روز انٹربینک میں امریکی کرنسی کی قیمت میں 19 پیسے اضافہ ہوا جس کے بعد انٹربینک میں ڈالر 283 روپے 85 پیسے پر ٹریڈ کر رہا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز کاروباری دن کے اختتام پر انٹربینک میں ڈالر 283 روپے 66 پیسے پر بند ہوا تھا۔
دوسری جانب اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں کمی دیکھی گئی، 50 پیسے کمی کے بعد اوپن مارکیٹ میں امریکی کرنسی 286 روپے 50 پیسے پر فروخت ہو رہی ہے۔