بھارت نے ایف اے ٹی ایف کو سیاسی بنانے کی کوشش کی، شاہ محمود قریشی

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نےکہا کہ بھارت نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کو سیاسی بنانے کی کوشش کی جبکہ یہ ایک ٹیکنیکل فورم ہے۔

ملتان میں میڈیا سے گفتگو کے دوران بھارت میں یورینیم ملنے کے معاملے کو ایف اے ٹی ایف میں اٹھانے سے متعلق سوال پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم نے یہ مدعا مختلف فورمز پر اٹھایا ہے لیکن اگر اس قسم کا واقعہ خدانخواستہ پاکستان میں ہوتا تو بھارت کے میڈیا نے اس کو آسمان تک لگادینا تھا اور عالمی میڈیا نے اس کو سرخیاں بنادینا تھا۔

وزیرخارجہ نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے میڈیا نے اس پر وہ توجہ نہیں دی جو دینی چاہیے تھی، اب یہ ہماری ترجیحات اور ان کا تعین دیکھ لیں۔

انہوں نےکہا کہ میری گزارش بلکہ درخواست ہوگی کہ یہ بہت بڑی بات ہے اور اس پر میڈیا کو پاکستان کا مؤقف اجاگر کرنا چاہیے، اسے ہماری مدد ہوگی۔

‘مسلم لیگ (ن) کے دور میں ایف اے ٹی ایف میں گئے’

صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے وزیرخارجہ نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے حوالے سے کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے ایف اے ٹی ایف میں آئے کب، کل میں حیران ہوا جب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اہم پارلیمانی شخصیت رانا تنویر نے ایف اے ٹی ایف کی داستان اور گلے شکوے کیے۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلے تو نشان دہی کریں کہ پاکستان گرے لسٹ میں گیا کب؟ مسلم لیگ (ن) کے دورمیں ہی پاکستان گرے لسٹ میں گیا، اب میں نے ان کو بتایا کہ ان 3 برسوں میں گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے ہم نے کیا اقدامات کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے 14 قوانین میں ترامیم کیں اور نئی قانون سازی نافذ کی ہے تاکہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے ہونے والی فنڈنگ چیک کرنے کے لیے ایف اے ٹی ایف نے جو تقاضے کیے تھے، اس کو پورا کرسکیں۔

وزیرخارجہ نے کہا کہ ہمیں آج ان ساری چیزوں کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا ہوگا، دنیا اور ایف اے ٹی ایف کے اراکین کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا یہ فورم ٹیکنیکل ہے یا سیاسی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہ ٹیکنیکل فورم ہے، جو کہ ہے، تو پھر پاکستان نے جو اقدامات کیے ہیں، ان کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی جواز نہیں ہے کہ پاکستان کو گرے لسٹ میں مزید رکھا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے اقدامات کو سراہتے ہوئے اور جو ایک نکتہ رہ گیا ہے، اس پر ہماری پیش رفت اورپختہ ارادے کو سامنے رکھ کر ہمیں وائٹ لسٹ میں ہونا چاہیے تھا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہمارے علم میں ہے کہ بھارت نے بالخصوص اس فورم کو سیاسی بنانے کی کوشش کی ہے اورمیں نے مختلف وزرائے خارجہ سے ملاقاتوں میں اس کی نشان دہی کی اور گزارش کی ہے کہ اس فورم کو سیاسی نہیں ہونے دیں۔

انہوں نے کہا کہ کچھ قوتیں ہیں جو اس کو سیاسی کرنے کی کوشش کررہی ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کے مقاصد تب حاصل ہوسکتے ہیں جب پاکستان پر یہ تلوار مسلسل لٹکتی رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے ملک کے مفاد کے مطابق یہ اقدامات کیے ہیں اور مزید آگے بڑھیں گے اورامید ہے کہ ہم اس مشکل سے بھی نکل آئیں گے۔

‘جنوبی پنجاب کیلئے پہلی مرتبہ علیحدہ بجٹ رکھا گیا’

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کہ پنجاب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جنوبی پنجاب کے لیے علیحدہ ترقیاتی پروگرام چھاپا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب آبادی 33 فیصد ہے، اس کے عین مطابق ایک کھرب 89 ارب روپے کا سالانہ ترقیاتی بجٹ جنوبی پنجاب کے 11 اضلاع کو مختص کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ میں مختص جنوبی پنجاب کا پیسہ جنوبی پنجاب میں ہی لگے گا اگر کوئی اسکیم تبدیل ہوسکتی ہے تو وہ بھی جنوبی پنجاب کے دوسرے علاقے میں ہوگی لیکن پیسہ جنوبی پنجاب سے باہر نہیں جائے گا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ کے لیے بجٹ میں فنڈز بھی مختص کیے گئے اور 21 جون کو اشتہار بھی دے دیا گیا اور 10 کمپنیوں نے اپلائی کیا اور6 کو کوالیفائی کرلیا گیا اور 14 جولائی کو یہ کمپنیاں اپنی حتمی بولی دیں گی۔

انہوں نے کہا کہ اگست کے پہلے ہفتے میں جنوبی پنجاب ملتان سیکریٹریٹ کا موقع پر کام شروع ہوجائے گا، اس کے لیے 63 ایکڑ زمین منتقل کردی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امید کی جارہی ہے کہ عنقریب بہاولپور میں بھی ایک نشست ہوگی، وہاں بھی زمین کا فیصلہ ہوگیا ہے اور 30 ایکڑ زمین کی نشان دہی کی جا چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ رولز آف بزنس کے حوالے سے مجھے وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ سے تحریری طور پر ملی ہیں، جس کے مطابق انہوں سیکریٹریٹ اور رولز آف بزنس کے حوالے سے پورا شیڈول دے گیا ہے اور وزیراعظم کے دفتر کو بھی اپنے وعدے سے تحریری آگاہ کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے امید ہے کہ اس پر آگے بڑھتے ہوئے، جنوبی پنجاب کی بہتری اور ترقی کی خواہش کی طرف بڑھ پائیں گے۔

جنوبی پنجاب میں کپاس کی پیداوار میں کمی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت چین کے ساتھ زراعت پر ایک جوائنٹ ورکنگ گروپ تشکیل دے دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس گروپ نے کپاس کی بہتری اور تحقیق کے لیے ایک منصوبہ مرتب کیا ہے، چیئرمین سی پیک اتھارٹی لیفٹننٹ جنرل (ر) عاصم باجوہ اگلے ہفتے ملتان میں کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا دورہ کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس ادارے کو ماضی کی طرح فعال کرنے کے لیے پروگرام دے دیں گے تاکہ جنوبی پنجاب میں کپاس کی پیداوار گری تھی وہ بڑھ جائے۔

وزیراعظم نے امریکہ کو اپنی سرزمین نہ دینے کا دلیرانہ اعلان کیا: فردوس عاشق اعوان

لاہور:  معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ملکی معاملات میں غیر ملکی قوتوں کی مداخلت کی کوئی گنجائش نہیں، وزیراعظم نے امریکہ کو اپنی سرزمین نہ دینے کا دلیرانہ اعلان کیا۔

معاون خصوصی اطلاعات پنجاب فردوس عاشق اعوان کا ٹویٹر پیغام میں کہنا تھا کہ دنیا بھر میں وزیراعظم کی بہادری اور امریکہ سے متعلق تگڑا موقف لینے کا چرچا ہے، عمران خان کے امریکہ سے متعلق دلیرانہ موقف پر اپوزیشن کو سانپ سونگھ گیا ہے۔

560 ارب کے ترقیاتی پروگرام پر عملدرآمد کیلئے مانیٹرنگ یونٹ بنایا جائے گا: عثمان بزدار

لاہور:  وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ 560 ارب کے ترقیاتی پروگرام پر عملدرآمد کے لئے مانیٹرنگ یونٹ بنایا جائے گا، متعلقہ محکموں کو 31 جولائی تک غیر منظور شدہ سکیموں کو منظور کرانے کی ہدایت بھی کی ہے۔

اپنے ایک بیان میں وزیراعلیٰ کا کہنا ہے کہ سکیموں کا مکمل ٹائم فریم مرتب کیا جائے گا، سالانہ ترقیاتی پروگرام کےفنڈز کا شفاف استعمال ہرصورت یقینی بنائیں گے۔

اُنہوں نے کہا کہ تاریخ ساز ترقیاتی پروگرام کی وہ خود مانیٹرنگ کریں گے، سکیموں کے تھرڈ پارٹی آڈٹ کیلئے موثر میکنزم تشکیل دیا جائے گا۔

پاکستان کا یورپ، کینیڈا، چین اور ملائیشیا سے مزید 20 فیصد پروازیں بڑھانے کا فیصلہ

اسلام آباد: کورونا کی شدت میں کمی کے باعث این سی او سی نے برطانیہ، یورپ، کینیڈا، چین اور ملائیشیا سے مزید بیس فیصد پروازیں بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔

وزارت خارجہ، وزارت داخلہ سمیت دیگر متعلقہ اداروں کو جاری کئے گئے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ پری بورڈنگ اور آمد کے وقت موجودہ ٹیسٹنگ پروٹوکول ایک جیسے ہی رہیں گے، مزید بیس فیصد پروازوں کی اجازت ملنے سے اب چالیس فیصد تک پروازیں چلائی جائیں گی۔

این سی او سی نے وزارت خارجہ کو تمام پاکستان ہائی کمشنرز اور سفارت خانوں کو آگاہ کرنے کی ہدایت دی ہے، نئی پالیسی کا اطلاق یکم جولائی سے ہوگا۔

اوورسیز پاکستانیوں کی جمعے تک ڈیڑھ ارب ڈالر سرمایہ کاری نیا ریکارڈ ہے: وزیراعظم

اسلام آباد:( وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ جمعے تک اوورسیز پاکستانیوں نے ڈیرھ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جو کہ ایک نیا ریکارڈ ہے۔

اسٹیٹ بینک کی جانب سے روشن ڈیجیٹل اکائونٹ کے حوالے سے فراہم کردہ اعداد وشمار پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کی طرف سے اچھی خبرآئی ہے، روشن ڈیجیٹل اکائونٹ نے ایک اورسنگ میل عبور کرلیا، نیا پاکستان سرٹیفکیٹ میں سرمایہ کاری ایک بلین ڈالر سے تجاوز کرگئی۔

وزیر اعظم کا کہنا تھاکہ جمعے تک اوورسیز پاکستانیوں نےڈیرھ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی، دو ماہ قبل ایک ارب ڈالر کے ریکارڈ کے بعد یہ دوسرا بڑا ریکارڈ ہے۔

اپوزیشن فیٹف پر سیاست چمکانے کیلئے ملک کو نقصان مت پہنچائے، حامد اظہر

اسلام آباد: وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے گزشتہ دو ڈھائی برس میں فیٹف پر بڑی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں لیکن اس حوالے سے اپوزیشن کا بیانیہ افسوسناک ہے اور وہ اپنی سیاست کے لیے پاکستان کو نقصان مت پہنچائے۔

وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر نے ہفتہ کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آج کل اپوزیشن بے روزگار ہے اور ایک اچھا بجٹ آیا ہے، معاشی اعداد وشمار بڑے اچھے ہیں، انڈسٹری بھی اچھی ہے لہٰذا اپوزیشن بیانیے کی تلاش میں ہے اور جب انہیں کوئی بیانیہ نہیں مل رہا تو وہ بیانیہ تخلیق کرنا چاہ رہے ہیں۔

توانائی کے مسئلے کے حوالے سے حماد اظہر نے کہا کہ گیس فیلڈ کی مینٹیننس جلد مکمل ہو گی، ہمارے ایل این جی کے دو ٹرمینلز ہیں جن کے ساتھ معاہدہ مسلم لیگ(ن) کے دور میں ہوا اور اس معاہدے میں یہ لکھا ہے کہ 15برس میں یہ ٹرمینلز دو دفعہ ڈرائی ڈاکنگ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں، یہ وہ سچ ہے جو مسلم لیگ ن کے معاہدے میں لکھا گیا ہے، اس لیے کمال بھی آپ کررہے ہیں اور سوال بھی آپ کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک مرتبہ انہوں نے اسے ڈرائی آف کیا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بین الاقوامی ادارہ جو ان ٹرمینلز کی سیفٹی کے سرٹیفکیٹس دیتا ہے اس نے کہاہے کہ 30جون کے بعد آپ اس کو نہیں چلا سکتے اور اس کے امریکا کے جو مالکان ہیں انہو ں نے بھی کہا ہے کہ ہم اسے نہیں چلائیں گے تو اب صرف چھ یوم کے لیے یہ جہاز اپنی جگہ سے ہٹے گا اور اس کی جگہ دوسرا جہاز لے لے گا۔

حماد اظہر نے کہا کہ اس دوران صرف دو دن کے لیے اس ٹرمینل سے گیس آئوٹ پٹ زیرو ہوگا اور دیگر ٹرمینلز سے بدستور جاری رہے گا۔

انہوں نے کہاکہ اگر اس دوران کچھ کمی بیشی ہوئی تو ہم اس کے لیے متبادل انتظام بھی کررہے ہیں اور اس دوران کوئی چیلنج درپیش ہوا تو اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمیں تربیلا سے بھی 50فی صد آئوٹ پٹ مل رہی ہے، اگر یہ چیلنج درپیش نہ ہوتا اور گزشتہ برس جیسی صورتحال ہوتی تو ڈرائی ڈاکنگ کے دوران بھی ہمیں کسی قسم کی ضرورت پیش نہ آتی۔

وزیر توانائی نے کہا کہ حماد اظہر نے کہاکہ 29جون سے 6جولائی تک کے عرصہ کے لیے ہم نے متبادل بندوبست بھی کیا ہوا ہے کہ ہم دوسرے پلانٹس چلا کر اس خلا کو پُر کریں گے اور ہماری کوشش ہو گی کہ لوڈ شیڈنگ نہ کرنی پڑے، اپوزیشن اب اس معاملے کو اس لیے اس قدر سنسنی دے رہی ہے کیونکہ اپوزیشن کے پاس اور کچھ کرنے کو نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ تین چار گیس فیلڈز کی مینٹیننس ہونی تھی تاہم ہم نے انہیں مؤخر کردیا ہے البتہ صرف ایک بڑی گیس فیلڈ ایسی تھی جس کی مینٹیننس مزید آگے نہیں کی جاسکتی تھی اس لیے اس کی مینٹیننس کا شیڈول ایک ہفتہ پہلے کردیا تھا اور 29جون سے اس کی بحالی کے ساتھ ہی گیس دوبارہ ملنا شروع ہوجائے گی۔

حماد اظہر نے مسلم لیگ ن کے سابق وزیر توانائی کے تحفظات کے حوالے سے کہاکہ جب بھی ان ٹرمینلز کی ڈرائی ڈاکنگ ہوگی تو لامحالہ متبادل توانائی کا استعمال ضروری ہوگا، یہ پندرہ برس میں دو مرتبہ ہو گا۔

فرنس آئل کے استعمال کے حوالے سے حماد اظہر نے کہاکہ 17-2016 میں 30فیصد فرنس آئل چل رہا تھا اور مسلم لیگ(ن) کے سابق وزیر توانائی ایل این جی کے پلانٹس کمیشن کرچکے تھے، 18-2017میں 19.22 فیصد فرنس آئل پر انحصار تھا جبکہ 19-2018 میں ہم نے اپنی حکومت کے پہلے سال میں 7.5فی صد فرنس آئل کا استعمال کیا، 20-2019 میں 3.53 فیصد اور اب21-2020 میں فرنس آئل کا استعمال 4.4فیصد ہے او ر آنے والے سالوں میں اس سے بھی مزید کم استعمال ہوگا۔

انہوں نے کہاکہ فرنس آئل کے استعمال کی شرح گزشتہ دوبرس میں کم ترین سطح پر آگئی ہے جو کہ آئندہ مزید کم ہوگی، اس لیے اپنی سیاست چمکانے کے لیے ایسے بیانیے دینا مناسب نہیں ہے، اب ہمیں مسئلہ یہ درپیش ہے کہ یہ تین چیزیں اکٹھی آئی ہیں، تربیلا ڈیم کا پانی نیچے چلا گیا، دوسرے نمبر پر ڈرائی ڈاکنگ پیک سیزن میں آئی لیکن پھر بھی ہم بہترین طریقے سے کریں گے اور استعدادکار کے مطابق ضروریات پوری کریں گے۔

حماد اظہر نے کہا کہ سندھ میں شارٹ فال کی وجہ ڈرائی ڈاکنگ نہیں ہے، ڈرائی ڈاکنگ کے لیے قبل ازوقت اطلاع دینا ضروری ہے تاہم ہمیں انتہائی مختصر وقت میں بتایا گیا ۔ بہرحال اب یہ چیلنج درپیش ہے تو ہم اس سے نبرد آزما ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن اپنی بے روزگاری میں کافی چیزیں کررہی ہے جوکہ نامناسب ہیں، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(فیٹف) کی گرے لسٹنگ مسلم لیگ(ن) کے دور میں ہوئی اور بلیک لسٹنگ کی تیاریاں مکمل تھیں، یہ تحفہ ان کے دور میں ملا تھا، اس سے انشااللہ ہم جلد عہدہ برآ ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ فیٹف پر اپوزیشن کا بیانیہ افسوسناک ہے، اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کے گزشتہ دو ڈھائی برس میں بڑی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں، فیٹف کے سربراہ جو پہلے بلیک لسٹ کرنے کی باتیں کرتے تھے آج پاکستان کی تعریف کررہے ہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ اس سے پورے پاکستان کا فائدہ ہے، اپوزیشن کو گھبرانے کے بجائے اسے پاکستان کی جیت سمجھنا چاہیے، یہ جو تھوڑا سا چیلنج رہ گیاہے یہ بھی ہم 12 ماہ میں پورا کرلیں گے لہٰذا اپوزیشن اپنی سیاست کے لیے پاکستان کو نقصان مت پہنچائے۔

دہشت گردوں نے پاکستان کے تشخص کو نقصان پہنچایا، ڈی جی آئی ایس پی آر

سلام آباد: ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ ہم انسداد دہشت گردی کی جنگ تقریباً جیت چکے ہیں دہشت گردوں نے پاکستان کے تشخص کو نقصان پہنچایا۔

اسلام آباد میں منعقدہ ’’نیشنل امیچئور شارٹ فلم فیسٹیول‘‘ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ترجمان پاک فوج نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہم جیت چکے ہیں، اب پاکستان کا حقیقی چہرہ سامنے لانے کی ضرورت ہے، اللہ تعالی نے پاکستان کو ہر نعمت سے نواز رکھا

انہوں نے کہا کہ نیشنل امچیور شارٹ فلمز کے ذریعے فلم سازوں نے بہترین کام کیا، ہمیں کئی سو شارٹ فلمیں موصول ہوئیں، اس سال جیتنے والے پہلے 15 طلبہ کو یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں ایک سال کی فلم میکنگ کی ٹریننگ حاصل کریں گے، زندہ معاشرے اپنے پودوں کی حفاظت کرنا بھی جانتے ہیں، ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ہر نعمت سے نوازا ہے، نیشنل امیچئور شارٹ فلم فیسٹیول میں نوجوان شارٹ فلمیں بنائیں گے، فیسٹیول کے ذریعے پاکستان کے مثبت تشخص کو اجاگر کیا جائے گا، فیسٹیول میں نوجوانوں کو صلاحیتیں دکھانے کا موقع ملے گا، وزیراعظم نے تقریب میں شرکت کرکے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی۔

انہوں ںے مزید کہا کہ انسداد دہشت گردی کی جنگ تقریباً جیت چکے ہیں، دہشت گردوں نے پاکستان کے تشخص کو نقصان پہنچایا۔

شہباز شریف نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے حق نمائندگی کا فارمولا پیش کر دیا

سلام آباد:  مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے حق نمائندگی کا نیا فارمولا پیش کر دیا۔

شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں 5 سے 7 اور سینیٹ میں 2 نشتیں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لئے مختص کرنے کی تجویز دی ہے۔ ان نشتوں پر نمائندگی کا طریقہ کار اور شرائط پارلیمنٹ میں تمام سیاسی جماعتیں مل کر طے کریں۔ سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے مطلوبہ قانون سازی کی جاسکتی ہے۔

اس طریقہ کار سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو پارلیمان میں یقینی نمائندگی مل سکتی ہے۔ اسی سوچ کے تحت آزاد جموں و کشمیر اسمبلی میں اوورسیز پاکستانیوں کی نمائندگی کے لئے نشستیں مختص کی گئی ہیں۔ بیرون ملک مقیم 80 لاکھ پاکستانی ہماری طاقت اور فخر ہیں جو ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں، ہمارے دورِ حکومت میں وفاق میں اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن میں ٹھوس اصلاحات کی گئیں۔

سیاہ فام جارج فلائیڈقتل کیس: پولیس آفیسرکو سزاسنادی گئی

امریکہ : سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کے قتل کیس میں ملوث سابق پولیس آفیسر کو ساڑھے 22سال سزاسنادی گئی۔

تفصیلات کے مطابق امریکی  عدالت نےجارج فلائیڈکےقتل میں ملوث سابق پولیس اہلکارڈ یرک شاوین کوسزا سنادی ، عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہاکہ مقدمہ کےحقائق کو سامنےرکھتےہوئےقانون کےمطابق ملزم کوسزادی گئی  ہے اور سزاکسی ہمدردی،جذباتی وابستگی اورعوامی رائےپرنہیں دی گئی۔امریکی صدرجوبائیڈن نےسابق پولیس آفیسرکی سزاکومناسب اقدام قراردےدیا۔دوسری جانب  مقتول شہری جارج فلائیڈکے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ امریکی عدالت کےاقدام سےانصاف کی جیت ہوئی ہے ۔

یادرہے گذشتہ  برس  مئی میں جارج فلائیڈکو  پولیس نےدوران گرفتاری قتل کردیاتھا ۔ سیاہ فام جارج فلائیڈ کی ہلاکت کی  ویڈیو وائرل ہوئی تھی،جس  میں دیکھا جا سکتا تھا کہ ہاتھ پیچھے بندھے جارج فلوئیڈ زمین پر لیٹے ہوئے ہیں اور ان کی گردن پر پولیس اہلکار نے گھٹنا رکھا ہوا ہے اور  جارج  کہہ رہے ہیں کہ ان کو سانس لینے میں مشکل ہو رہی ہے۔ مگرسفیدفام سابق پولیس آفیسرنےان کی بات نہیں سنی  تھی ۔ جارج فلائیڈ کی  ہلاکت کے بعد ریاست منی سوٹا  میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے  اور شہر میں جلاؤ گھیراؤ کے واقعات بھی پیش آئے تھے۔  

واشنگٹن اور بیجنگ میں بات چیت کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں: فواد چودھری

اسلام آباد:  فواد چودھری نے کہا ہے کہ افغانستان میں حالات بگڑنے پر بارڈر کو مکمل سیل کر دیں گے، ماضی کی طرح واشنگٹن اور بیجنگ میں بات چیت کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔

 وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ افغانستان کے حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کر دی، کسی کو اپنی سر زمین استعمال نہیں کرنے دیں گے، افغانستان میں مستحکم حکومت عمل میں آنی چاہیے، افغانستان کے ساتھ بارڈر پر 90 فیصد باڑ لگا چکے، طالبان کو پہلے امریکا پھر افغان حکام کیساتھ مذاکرات کیلئے آمادہ کیا۔

فواد چودھری کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے امریکا کیساتھ نئے تعلقات کی جہت بیان کی، امریکا سے تجارت اپنے طریقے سے کرنا چاہتے ہیں، پاکستان نے 1970 میں چین امریکا تعلقات کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا تھا، چین اور امریکا دنیا کی 2 بڑی اقتصادی طاقتیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے بھارت کیساتھ تعلقات پر امید کا اظہار کیا۔

تعین کرنا ہوگا ایف اے ٹی ایف ایک تکنیکی فورم ہے یا سیاسی ؟: شاہ محمود قریشی

اسلام آباد:  شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ تعین کرنا ہو گا کہ ایف اے ٹی ایف ایک تکنیکی فورم ہے یا سیاسی ؟ تسلیم کیا گیا کہ ہم نے 27 میں سے 26 نکات پر مکمل عملدرآمد کیا، ایسی صورت حال میں گرے لسٹ میں رکھنے کی کوئی گنجائش نہیں بنتی۔

وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے اپنے بیان میں کہا ہے کہ دیکھنا ہو گا کہ اس فورم کو سیاسی مقاصد کیلئے تو استعمال نہیں کیا جا رہا ؟ جہاں تک تکنیکی پہلوؤں کا تعلق ہے تو ہمیں 27 نکات دیے گئے، وہ خود تسلیم کر رہے ہیں کہ 27 میں سے 26 نکات پر ہم نے مکمل عملدرآمد کر لیا، ستائیسویں نکتے پر بھی کافی حد تک پیش رفت ہو چکی ، ایسی صورت حال میں پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کی کوئی گنجائش نہیں بنتی۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ بعض قوتیں یہ چاہتی ہیں کہ پاکستان کے سر پر تلوار لٹکتی رہے، ہم نے جو بھی اقدامات اٹھائے وہ اپنے مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے اٹھائے، ہمارا مفاد کیا ہے ؟ ہمارا مفاد یہ ہے کہ منی لانڈرنگ نہیں ہونی چاہیئے، پاکستان کی منشاء یہ ہے کہ ہم نے دہشت گردی کی مالی معاونت کا تدارک کرنا ہے، جو بات پاکستان کے مفاد میں ہے وہ ہم کرتے رہیں گے۔

طالبان کابل پر قابض ہوگئے تو اپنی سرحدیں بند کردیں گے، عمران خان

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ اگر اگر طالبان کابل پر قابض ہو گئے تو پاکستان افغانستان سے ملحقہ اپنی سرحدوں کو بند کر دے گا۔

تفصیل کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ مہذب تعلقات قائم کرنے کا خواہاں ہے۔ نائن الیون کے بعد یہ تعلق یکطرفہ تھا، امریکہ چاہتا تھا کہ پاکستان امداد کے بدلے اس کی بات مانے، افغانستان سے امریکی انخلا کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد طالبان پر ہمارا اثرورسوخ کم ہو گیا۔ طالبان نے اگر فوجی فتح کا راستہ اختیار کیا تو طویل خانہ جنگی چھڑ سکتی ہے جس سے ہم بھی متاثر ہوں گے۔ مسئلہ کشمیر حل ہونے تک بھارت سے معمول کے تعلقات بحال نہیں ہو سکتے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ممتاز امریکی جریدے ”نیویارک ٹائمز” کو ایک انٹرویو میں کیا۔ پاک امریکہ تعلقات کے حوالہ سے سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کا اپنے ہمسایہ ملک بھارت کے مقابلہ میں امریکہ سے زیادہ قریبی تعلق رہا ہے، نائن الیون کے بعد پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے ساتھ شمولیت اختیار کی، اب جبکہ امریکہ افغانستان سے واپس جا رہا ہے پاکستان ایک مہذب تعلق کا خواہاں ہے، جیسا کہ قوموں کے مابین ہوتا ہے، ہم امریکہ کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو بہتر کرنا چاہتے ہیں۔

پاک امریکہ تعلقات کے حوالہ سے مزید وضاحت کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان ایسے تعلقات کا خواہاں ہے جیسے امریکہ اور برطانیہ یا امریکہ اور بھارت کے مابین اس وقت قائم ہیں، ہم ایسا تعلق چاہتے ہیں جو برابری کی سطح پر ہو۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران یہ تعلق برابر کا نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ یہ سمجھتا تھا کہ وہ پاکستان کو امداد دے رہا ہے اس لئے پاکستان کو امریکہ کی بات ماننا ہو گی اور پاکستان نے امریکہ کیلئے جو کچھ کیا اس کی اسے انسانی جانوں کی صورت میں بھاری قیمت چکانا پڑی، پاکستان نے اس جنگ میں 70 ہزار جانوں کی قربانی دی اور ملکی معیشت کو اس سے 150 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا، دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے خودکش حملے اور ملک میں جگہ جگہ بم دھماکے ہوئے۔

وزیراعظم نے کہا کہ یہاں سے مسئلے کا آغاز ہوا، امریکہ نے پاکستان سے مزید توقعات وابستہ کئے رکھیں اور بدقسمتی سے پاکستانی حکومتوں نے وہ کرنے کی کوشش کی جس کی وہ صلاحیت نہیں رکھتی تھیں۔ دونوں ملکوں کے مابین اعتماد کا فقدان تھا اور پاکستانی عوام نے یہ سمجھا کہ انہوں نے امریکہ کے ساتھ تعلق کی بڑی بھاری قیمت چکائی ہے اور امریکہ نے یہ سمجھا کہ پاکستان نے کافی کچھ نہیں کیا لہٰذا اس طرح سے یہ ایک یکطرفہ تعلق تھا۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہم مستقبل میں ایسا تعلق چاہتے ہیں جس کی بنیاد اعتماد اور مشترکہ مقاصد پر ہو اور اس وقت ایسا ہی ہے یعنی افغانستان میں ہمارے مقاصد آج بالکل ایک جیسے ہیں۔

وزیراعظم سے سوال کیا گیا کہ کیا پاکستان کا افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد اس کے ساتھ تزویراتی تعلق جاری رہے گا؟ کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا، میں نے اس حوالہ سے اس طرح نہیں سوچا کہ پاکستان کا امریکہ کے ساتھ کوئی تزویراتی تعلق ہونا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ ریاستوں کے مابین تعلق مشترکہ مفادات کی بنیاد پر ہوتا ہے، پاکستان زیادہ تر نوجوان آبادی پر مشتمل 22 کروڑ لوگوں کا ملک ہے جو کہ مستقبل کیلئے ایک لحاظ سے تزویراتی مقام کا حامل ہے، اگر ہمارا بھارت کے ساتھ تعلق کسی مرحلہ پر بہتر ہوتا ہے جس کیلئے میں پرامید ہوں کہ ہو گا لہٰذا پاکستان کے ایک طرف سب بڑی مارکیٹوں میں سے ایک مارکیٹ موجود ہے اور دوسری جانب چین ہے، اس طرح ہمارے اطراف میں دو بڑی منڈیاں واقع ہیں اور پھر توانائی راہداریاں بھی موجود ہیں جن سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح پاکستان اقتصادی لحاظ سے مستقبل میں اہم تزویراتی مقام کا حامل ہے۔ وزیراعظم نے پاکستان اور امریکہ کے مابین فوجی اور سلامتی تعلقات کے حوالہ سے سوال کے جواب میں کہا کہ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد مجھے نہیں معلوم کہ پاکستان اور امریکہ کے مابین فوجی تعلقات کس نوعیت کے ہوں گے لیکن اس وقت یہ تعلقات افغانستان سے امریکی انخلاء سے قبل مسئلہ کے سیاسی حل کے مشترکہ مقصد کی بنیاد پر استوار ہونے چاہئیں کیونکہ پاکستان افغانستان میں خونی خانہ جنگی نہیں چاہتا اور مجھے یقین ہے کہ امریکہ بھی افغانستان میں ایک یا 2 کھرب ڈالر خرچ کرنے کے بعد نہیں چاہتا کہ یہ ملک شعلوں میں جلتا رہے اس لئے ہمارے مقاصد مشترکہ ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان نے طالبان پر اپنا زیادہ سے زیادہ اثر و رسوخ استعمال کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ان تین ملکوں میں سے ایک ہے جنہوں نے 1996ء کے بعد طالبان کو تسلیم کیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان سے امریکی انخلاء کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد طالبان پر ہمارا اثر و رسوخ کم ہو گیا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسے ہی امریکی انخلاء کی تاریخ کا اعلان ہوا طالبان نے فتح کا دعویٰ کر دیا، وہ سوچ رہے ہیں کہ انہوں نے جنگ جیت لی لہٰذا اب وہ خود کو مضبوط سمجھتے ہیں اور ان پر ہمارا اثر و رسوخ کم ہو گیا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ طالبان بات چیت پر آمادہ نہیں ہو رہے تھے، ہم نے اپنے اثر و رسوخ سے ان کو امریکہ سے بات چیت پر آمادہ کیا اور افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کیلئے ان پر دبائو ڈالا اور یہ بہت مشکل کام تھا۔

وزیراعظم سے استفسار کیا گیا کہ کیا پاکستان اب طالبان پر مزید اثر و رسوخ نہیں رکھتا جس پر وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان طالبان پر زور دیتا رہا ہے کہ وہ فوجی فتح کا راستہ اختیار نہ کریں یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ اگر وہ اپنی پوری قوت استعمال کرکے فوجی فتح کے حصول کی کوشش کرتے ہیں تو اس سے ایک طویل خانہ جنگی چھڑ سکتی ہے اور افغانستان کے بعد جو ملک اس صورتحال سے سب زیادہ متاثر ہو گا وہ پاکستان ہے کیونکہ پاکستان میں افغانستان سے بھی زیادہ پشتون آباد ہیں اور طالبان چونکہ بنیادی طور پر ایک پشتون تحریک ہے تو اس کے دو اثرات مرتب ہوں گے، ہمیں خدشہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں پاکستان میں پناہ گزینوں کی بڑی تعداد آئے گی جبکہ پاکستان کو پہلے ہی 30 لاکھ افغان پناہ گزینوں کے مسئلے کا سامنا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ مستقبل کیلئے ہمارا وژن اپنی معیشت کو اٹھانا اور افغانستان کے ذریعے وسط ایشیا تک تجارت کو فروغ دینا ہے، ہم نے وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ بہتر تجارتی تعلقات کیلئے معاہدے کئے ہیں لیکن ہم وسط ایشیائی ریاستوں تک رسائی صرف افغانستان کے ذریعے ہی حاصل کر سکتے ہیں اور افغانستان میں خانہ جنگی کی صورت میں یہ سب بیکار ہو جائے گا۔

افغانستان کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ اس سال کے اوائل میں انہوں نے صدر اشرف غنی سے ملاقات کے لئے افغانستان کا دورہ کیا اور افغان حکومت کو مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی اور انہیں بتایا کہ ہم امن تصفیہ کے لئے ہر ممکن کردار ادا کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں اور افغان انٹیلی جنس ایجنسیز، ہمارے آرمی چیف، افغان صدر اور ان کے آرمی چیف کے درمیان متواتر ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں، اس لئے ہمارے درمیان مستقل رابطے جاری رہتے ہیں، بدقسمتی سے افغان حکومت میں ابھی تک یہ تاثر ہے کہ پاکستان مزید اقدامات کرسکتا ہے جس کے بارے میں، میں یہ کہنا چاہوں گا کہ یہ ہمارے لئے بہت مایوس کن ہے، وہ کئی سال کے بعد ہم پر ذمہ داری ڈال رہے ہیں اور یہ کہ وہ خود کسی تصفیہ پر نہیں پہنچے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے کہاکہ طالبان کے خلاف فوجی طاقت استعمال کرنے کے سوا ہم ہر اقدام کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے کے تمام طبقات نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم فوجی کارروائی سے گریز کریں گے، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں فوجی کارروائی کا مخالف ہوں۔

وزیراعظم نے کہا کہ تورابورا کی لڑائی کے بعد افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے والے چند سو القاعدہ جنگجوئوں کو نکال باہر کرنے کے لئے امریکا نے پاکستان پر دبائو ڈالا کہ وہ اپنے فوجی قبائلی علاقوں میں بھیجے ، پوری سرحد مکمل طورپر کھلی ہوئی تھی۔ پاک افغان بارڈر کبھی کوئی سرحد نہیں تھی بلکہ اسے ڈیورنڈ لائن سے جانا جاتا ہے لیکن اب ہم اس پر باڑ لگا رہے ہیں جو 90 فیصدمکمل ہوچکی ہے لیکن اگر طالبان طاقت سے افغانستان پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس صورت میں ہم سرحد کو سیل کریں گے کیونکہ ہم اس وقت یہ کرسکتے ہیں، اس لئے کہ ہم نے سرحد پر باڑ لگائی ہے جو ماضی میں کھلی تھی۔ پاکستان تنازعہ میں نہیں پڑنا چاہتا اور ہم پناہ گزینوں کی ایک اور بار آمد نہیں چاہتے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان صرف افغان عوام کی منتخب کردہ حکومت کو تسلیم کرے گا۔ بھارت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ تمام پاکستانیوں کے برعکس میں بھارت کو زیادہ جانتا ہوں،کرکٹ جو ایک بڑا کھیل ہے اس کی وجہ سے میں نے بھارت سے محبت اور احترام پایا ہے، میں نے جب وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا تو میں نے سب سے پہلے بھارتی وزیراعظم مودی کو کہاکہ اقتدار میں میرے آنے کا میرا بڑا مقصد پاکستان سے غربت کاخاتمہ ہے اور اس کے لئے بہتر راستہ یہ ہوگا کہ بھارت اور پاکستان معمول کے تجارتی تعلقات قائم کریں جس سے دونوں ملکوں کو فائدہ ہو گا، ہم نے اس کے لئے کوشش کی لیکن اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہندو قوم پرست آر ایس ایس کا نظریہ ہے جس سے نریندر مودی تعلق رکھتے ہیں جو اس کی راہ میں ایک دیوار بن کر کھڑی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اگر بھارت میں کوئی اور قیادت ہوتی تو وہ اس کے ساتھ ایک اچھا تعلق قائم ہوگیا ہوتا اور ہم نے تمام اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کرلیا ہوتا۔

کشمیر کی جوں کی توں حالت کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھارت کے لئے تباہ کن ہوگا کیونکہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ یہ تنازعہ برقرار رہے گا اور جتنا عرصہ کشمیر کا تنازعہ تصفیہ طلب رہتا ہے، یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان معمول کے تعلقات میں رکاوٹ رہے گا۔

بھارت امریکا تعلقات اور خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر کے متعلق سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ میں یہ کہناچاہتا ہوں کہ یہ ایک عجیب بات ہے کہ امریکا اور چین ایک دوسرے کے حریف کیوں بنیں گے، اگر یہ دونوں بڑی طاقتیں، دونوں بڑی اقتصادی طاقتیں ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کرتی ہیں تو اس کا دنیاکو فائدہ ہوگا اور اس کا ہم سب کو بھی فائدہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں چین اور امریکا دونوں کے ساتھ تعلقات رکھنے چاہئیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کے چین کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں، چین پاکستان کا ایک اچھا دوست ہے، چین نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بعد اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران پاکستان کا ساتھ دیا، جب ہمارے قرضے بڑھ گئے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب ایک ملک حالت جنگ میں ہو، تجارتی سرگرمیاں منجمد ہوگئیں، صوبے اور قبائلی علاقے جنگ سے تباہ ہوئے اور ایسے موقع پر چین پاکستان کی مدد کو آیا۔

انہوں نے کہا کہ امریکا کیوں یہ سوچے گا کہ بھارت چین کے خلاف اس کے دفاع کے لئے ڈھانچے کے طور پرکرداراداکرے گا،اگر بھارت اپنے لئے کوئی ایسا کردار چنتا ہے تو یہ اس کے لئے نقصان دہ ہو گا کیونکہ بھارت کی چین کے ساتھ تجارت دونوں بھارت اور چین کے لئے فائدہ مند ہے

پاکستان میں کم ہو تی ہو ئی اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو ورثے میں بہت سے چیلنجز ملے
فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ کا پاکستان نہ آنا ایک نہایت ہی تشویشناک بات ہے
اس بات میں کو ئی شک نہیں ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو ورثے میں بہت سے چیلنجز ملے اور ان چیلنجز میں پاکستان کی ایک تباہ حال معیشت سمیت دیگر کئی مسائل تھے،اور اسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے ابتدائی دنوں میں ہی دوست ممالک سے رجوع کیا اور ان سے ملنے والی رقوم سے حکومت کا نظام چلا یا گیا۔حکومت اپنی آئینی مدت کے تین سال مکمل کر چکی ہے اور ان تین سالوں کے دوران ملکی معیشت کے حوالے سے ایک ملا جلا رجحان رہا ہے ایک طرف حکومت کا دعوی ٰ ہے کہ ملکی معیشت استحکام حاصل کر چکی ہے تو دوسری طرف اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے معیشت برباد کر دی ہے اور عام عوام مہنگائی کے سونامی اور بے روزگاری کے طوفان میں بے یا ر و مدد گار کسی مدد کے منتظر ہیں اور اپوزیشن کے بیانئے کے مطابق عوام کی مدد اور ان کے مسائل کا حل اپوزیشن کے بر سر اقتدار آنے سے ہی ممکن ہے۔میری رائے میں حقیقت کہیں ان دونوں انتہاؤں کے بیچ میں ہے نہ تو پاکستان کی معیشت اس وقت کسی ایمر جنسی جیسی بری صورتحال سے لیکن دوسری طرف روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی بھی اپنی جگہ پر ایک مسلمہ حقیقت ہے جس کے باعث عوام بہت پریشان ہیں۔حالیہ دنوں میں معیشت کے حوالے سے ہمارے سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق یقینا پاکستان کی معیشت میں بہتری دیکھی گئی ہے،پاکستان کی شرح نمو 4فیصد تک پہنچ گئی ہے جو کہ آئی ایم ایف اور خود حکومت پاکستان کے اپنے اندازوں سے زائد رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دیگر ایسے اشاریے بھی ہیں جو کہ مثبت ہیں اور پاکستان کے لیے حوصلہ کا باعث ہے،پاکستان کی برآمدات میں طویل عرصے کے بعد اضافہ دیکھا جا رہا ہے،اس کے ساتھ ساتھ بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم رواں برس ریکارڈ 29ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔حکومت نے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے لیے روشن ڈیجیٹل اکاونٹ جیسے اقدامات کیے ہیں جن کے ذریعے اب تک ملک میں 1.5ارب ڈالر کی رقم موصول ہو چکی ہے جو کہ پاکستان کی برآمدات اور ترسیلات زر کے علاوہ رقم ہے۔پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر 23.2ارب ڈالر کی سطح پر موجود ہیں اور بڑھ رہے ہیں جبکہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کااینڈیکس 48ہزار پوا ئنٹس کی سطح عبور کر چکا ہے جو کہ چار سال کی بلند ترین سطح پر ہے۔حکومت نے رواں سال کے 11ماہ میں تقریباً 4200ارب روپے کا ٹیکس جمع کیا ہے جو کہ ایک ریکارڈ ضرور ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ جون کے آخر تک جمع ہونے والے ٹیکس کا حجم 4500ارب روپے تک پہنچ سکتا ہے،لیکن بہر حال یہ نمبر ز بھی حکومت کی طرف سے مقرر کر دہ نظر ثانی شدہ 4700ارب روپے کے ہدف سے کم ہو گا۔کہا جاتا ہے کہ پاکستان نے ما ئیکر لیول پر استحکام حاصل کر لیا ہے لیکن ابھی میکرو لیول پر اس کے اثرات آنے باقی ہیں اور میکر لیول پر معاشی پالیسیوں کے اثرات سامنے آنے کے بعد ہی عوام کو ریلیف ملے گا۔یہ ایک لمبی بحث ہے اس بحث میں نہیں جانا چاہوں گا اس موضو ع پر پھر کبھی بات کریں گے کیونکہ اسی موضوع سے جڑی ہوئی مشہور زمانہ ٹریکل ڈاؤن کی معاشی تھیوری ہے جس کے مطابق پہلے اوپر کی سطح پر کسی بھی ملک کے معاشی حالات بہتر ہو تے ہیں اور پھر نچلی سطح پر عوام کو یہ معاشی فوائد منتقل ہو تے ہیں،حال ہی میں امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی اس تھیوری کو مسترد کرتے ہوئے نچلی سطح پر عوام کے پاس براہ راست پیسہ منتقل کرنے اور عوام پر پیسہ لگانے کا اعلان کیا ہے۔
لیکن ہمیں پتا ہے کہ جہاں پر کچھ معاشی اعداد و شمار بہتر ضرور ہیں جو کچھ اتنے اچھے بھی نہیں ہیں لیکن جو اعداد شمار بہتر نہیں ہیں ان میں سے میری نظر میں فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ کا پاکستان نہ آنا ایک نہایت ہی تشویشناک بات ہے۔ حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں واضح کمی دیکھی گئی ہے جو کہ یقینا ایک تشویش ناک امر ہے۔ہمیں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر کیوں پاکستان میں بیرونی سرمایہ کار پیسہ لگانے کے لیے تیار نہیں ہیں،بلکہ کہا جا رہا ہے کہ کوئی غیر ملکی تو کیا مقامی سرمایہ کار بھی پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں ہیں۔اس کی کئی وجوہات ہیں لیکن بڑی وجوہات میں نیب کی شتر بے مہار کار روائیاں،ملک میں سیاسی  استحکام کا نہ ہو نا اور حکومت کی پالیسیوں میں عدم تسلسل بھی ہے۔حکومت اب تک اپنے تین سالہ دور میں بورڈ آف انسوٹمنٹ کے 6چیئرمین تبدیل کر چکی ہے لیکن اس کے باوجود ملک میں سرمایہ کاری لانے میں ناکام ہے۔پاکستان میں بیو رو کریسی کا رویہ اور ریڈ ٹیپ کلچر بھی پاکستان میں سرمایہ کاری نہ ہونے کی بڑی وجو ہات ہیں،پاکستان میں بیو رو کریٹس سرمایہ کاری کی راہ میں اتنی رکاوٹیں کھڑی کر دیتے ہیں کہ کوئی بھی غیر ملکی تو کیا مقامی سرمایہ کار بھی پاکستان میں اپنا پیسہ لگانے تو تیار نہیں ہو تا۔ہمیں اس حوالے سے دبئی اور اس کی حکومت سے سیکھنے کی ضرورت ہے دبئی میں سرمایہ کاروں اور ان کے پیسے کو ہر ممکن تحفظ فراہم کیا جاتا ہے تمام حکومتی ادارے ایک ساتھ کام کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں ہو تے ہیں اور سرمایہ کاروں کو بہترین ما حول فراہم کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ نہ صرف دبئی بلکہ،سنگا پور،ملا ئیشیا اور ترکی بلکہ بھارت جیسے ملک بھی کثیر بیرونی سرمایہ کاری لانے میں کامیاب رہے ہیں اور جس کے نتیجے میں ان ممالک میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران تیز رفتار ترقی دیکھنے کو ملی ہے۔میں اس حوالے سے یہاں پر ایک بات کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں ایک اوور سیز پاکستانی نے پاکستان واپس آکر کثیر سرمایہ کاری کی ایک بڑا شاپنگ مال تعمیر کیا ہزاروں افراد کو روزگار مہیا کیا گیا ہے اسلام آباد کے لوگوں اور خصوصاً فیملیز کو اچھے اور پر سکون اور پر تحفظ ماحول میں تفریح اور خریداری کا موقع فراہم کیالیکن اب ان صاحب کی اربوں روپے کی سرمایہ کاری سی ڈی اے حکام کی کرپشن،بد انتظامی اور نا اہلی کے باعث خطرے میں پڑ چکی ہے اور اس کے سرمائے کے ڈوبنے کا خدشہ ہے۔سی ڈی اے حکام نے خود ہی اس عمار ت کی زمین آکشن کی خود ہی عمارت کی تعمیر کی اجازت دی گئی اور اب شاپنگ مال کو سیل کرنے کے درپے ہیں جب تک ہمارے اداروں اور حکومتی افسران اس قسم کے رویوں سے باز نہیں آئیں گے ملک میں بیرونی تو کیا اندرونی سرمایہ کاری بھی نہیں آئے گی اور اس کا نقصان عوام ہی پہنچے گا۔پاکستان میں سرمایہ کاری لانے کے لیے ون ونڈو آپریشن اور تمام اداروں کے درمیان مربوط تعاون کی بہت ضروری ہیں بلکہ اگر سی پیک منصوبوں کی تکمیل کے لیے بنائی گئی سی پیک اتھارٹی کی طرز پر ایک سینٹرل اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا جائے جو کہ سرمایہ کار کو ابتدائی سرمایہ کاری سے لے کر کاروبار شروع ہونے تک ہر مرحلے پر حکومتی اداروں کے ساتھ معاملات کرنے میں مدد کرے تو پاکستان میں سرمایہ کاری بڑھ سکتی ہے۔ہمیں اپنے ملک کو آگے لے جانے کی ضرورت ہے پیسہ ملک میں لانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم دفاعی سمیت دیگر چیلنجز کا موثر انداز میں سامنا کر سکیں،اس حوالے سے حکومت کو ہنگامی طور پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے یہ ملک کے مستقبل کا سوال ہے۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭