بی جے پی کے وزیر کی بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کی دھمکی

بھارتی ریاست کرناٹکا کے ہندو انتہا پسند وزیر سیاحت سی ٹی روی نے شہریت کے متنازع قانون کے معاملے پر احتجاج کرنے والے مسلمانوں کی نسل کشی کی دھمکی دے دی۔ہندو انتہا پسند جماعت بی جے پی سے تعلق رکھنے والے وزیر  سیاحت نے اپنے اشتعال انگیز ویڈیو بیان میں گودھرا میں 2002 میں ہونے والے فسادات کا الزام مسلمانوں پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے کا ردعمل سب کو یاد ہونا چاہیے اور اکثریتی کمیونٹی چاہے تو گودھرا جیسی صورتحال دوبارہ پیدا کر سکتے ہیں۔سی ٹی روی نے بھارت میں شہریت کے متنازع قوانین کے خلاف ہونے والے مظاہروں کو پرتشدد قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ ہم بہت عرصے سے ایسی صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں لیکن اب ہم اتنے کمزور نہیں ہیں اور گودھرا واقعے کی طرح سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہندو کیسے ان واقعات سے نمٹتے ہیں۔یاد رہے کہ چند روز قبل بھارتی ریاست کرناٹکا کے شہر منگلور میں شہریت کے متنازع قانون کی مخالفت کرنے والےa 2 مظاہرین پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہوگئے تھے۔انگریس نے کرناٹکا کے وزیر سیاحت کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے ان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔متنازع شہریت قانون کیا ہے؟متنازع شہریت بل 9 دسمبر 2019 کو بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں (لوک سبھا) سے منظور کروایا گیا تھا اور 11 دسمبر کو ایوان بالا (راجیہ سبھا) نے بھی اس بل کی منظوری دیدی تھی۔بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں میں وزیرِ داخلہ امیت شاہ کی جانب سے بل پیش کیا گیا تھا جس کے تحت پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے بھارت جانے والے غیر مسلموں کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کو نہیں۔تارکینِ وطن کی شہریت سے متعلق اس متنازع ترمیمی بل کو ایوان زیریں (لوک سبھا) میں 2 گھنٹے تک بحث کے بعد کثرتِ رائے سے منظور کر لیا گیا تھا۔ایوان زیریں کے بعد ایوان بالا (راجیہ سبھا) میں بھی اس متنازع بل کو کثرت رائے سے منظور کیا جا چکا ہے۔متنازع شہریت بل بھارتی صدر رام ناتھ کووند کے دستخط کے بعد باقاعدہ قانون کا حصہ بن گیا ہے۔

پاکستان نے سعودی دباﺅ پر کوالالمپور کانفرنس میں شرکت نہیں کی ،ترک صدر

کوالالمپور (مانیٹرنگ ڈیسک) ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ ملائیشیا میں ہونے والی مسلم ممالک کی کوالالمپور سمٹ میں اکستان کی عدم شرکت کی وجہ سعودی عرب کا دباﺅ تھا۔ ترک خبر رساں ادارے ڈیلی صباح کے مطابق صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ او آئی سی کے علاوہ کسی اور فورم پر مسلم ممالک کے اجلاس پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے ہمیشہ رکاوٹیں ڈالی جاتی رہی ہیں اور اس بار بھی کوالالمپور سمٹ میں شرکت سے پاکستان کو روکنے کے لیے سعودی عرب نے دباﺅ ڈالا۔ ڈیلی صباح کے مطابق ترک صدر نے یہ بھی انکشاف کیا کہ سمٹ میں شرکت کی صورت میں سعودی عرب نے اپنے ملک میں 40 لاکھ پاکستانیوں کو ہٹا کر ان کی جگہ بنگلا دیشی شہریوں کو ملازمت دینے اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں جمع کرائی گئی سعودی امدادی رقم واپس لینے کی دھمکی بھی دی تھی۔ صدر طیب اردوان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے سمٹ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ اپنی کمزور معیشت، مالی دشواریوں اور 40 لاکھ پاکستانیوں کے روزگار کی خاطر کیا، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی جانب سے اسی قسم کا دباو کا سامنا انڈونیشیا، عراق، شام اور صومالیہ کو بھی کرنا پڑا ہے۔ قبل ازیں کوالالمپور سمٹ میں پاکستان کی عدم شرکت سے میڈیا کو آگاہ کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کو فون کرکے سمٹ میں شرکت کرنے سے معذرت کرلی ہے۔ واضح رہے کہ ملائیشیا میں 40 سے زائد مسلم ممالک اور ماہر معاشیات کا اجلاس جاری ہے جس میں شرکت کیلیے وزیراعظم عمران خان نے وزیراعظم مہاتیر محمد کی دعوت قبول بھی کرلی تھی تاہم سعودی عرب کے دورے کے بعد سرکاری حکام کے بقول مسلم امہ کے اتحاد کو برقرار رکھنے کی غرض سے سمٹ میں شرکت سے معذرت کرلی گئی ہے۔

سابق صدر پرویز مشرف کو موت کی سزا، اقوام متحدہ کی بھی مخالفت

نیویارک(نیٹ نیوز) اقوام متحدہ نے پاکستان کے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو عدالت کی جانب سے سزائے موت کی مخالفت کی ہے۔اقوام متحدہ ے ترجمان سٹیفن ڈوجرک نے نیویارک میں اقوام متحدہ ہیڈ کوارٹرز میں نیوز بریفنگ کے دوران پرویز مشرف کو سزائے موت کے سوال کے جواب میں کہا کہ یو این او غداری کے الزام میں سابق صدر کو پھانسی دینے کی مخالفت کرتی ہے۔یو این او کی ترجمان نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کیس اپیل کے عمل میں ہے لیکن اقوام متحدہ سزائے موت کے خلاف ہے۔

بھارت :ہنگاموں میں شدت 14افراد ہلاک 1200گرفتار

نئی دہلی‘ بنگلور‘ لکھنﺅ‘ تلنگانہ (مانیٹرنگ ڈیسک‘ نیوز ایجنسیاں) بھارت میں متنازع شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج مزید شدت اختیار کر گیا جہاں مشتعلمظاہرین پر پولیس کے تشدد اور فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 14 ہو گئی ہے۔ بھارت کے اکثر بڑے شہروں میں مظاہروں پر پابندی عائد کردی گئی ہے جہاں متنازع قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں اب تک 14 افراد ہلاک اور 1200 سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ بھارت بھر میں متنازع شہریت قانون کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جہاں درالحکومت دہلی میں نماز جمعہ کے بعد تاریخی جامع مسجد میں مظاہرے کیے گئے جس میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوں سمیت دیگر مذاہب کے افراد بھی شریک ہوئے۔ دہلی میں احتجاج پرامن انداز میں شروع ہوا جس کے بعد پولیس نے پارلیمنٹ جانے والے 100 سے زائد مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روک کر ان پر لاٹھی چارج کیا۔ نماز جمعہ کے بعد ہزاروں مظاہرین دہلی کی جامع مسجد کے باہر جمع ہوئے اور بھارتی پرچم لہراتے ہوئے حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور مظاہرین نے مودی ہٹا کے بھی نعرے لگائے۔ کسی بھی قسم کی کشیدہ صورتحال سے بچنے کے لیے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہکاروں کو مسجد اور اطراف کے علاقوں میں تعینات کیا گیا تھا اور ان مظاہرین میں سے اکثریت کے ہاتھ میں بھارتیہ آئین کا مسودہ تھا۔ مسجد کے باہر حکومت مخالف نعرے لگانے والے 42 سالہ بھارتی شہری شمیم قریشی نے کہا کہ جب تک یہ قانون واپس نہیں لیا جاتا، اس وقت تک ہم جدوجہد کریں گے، ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ شہریت کے متنازع قانون کے خلاف بھارت بھر میں احتجاج جاری ہے اور پولیس کی فائرنگ سے 3 مظاہرین ہلاک جب کہ متعدد زخمی ہو چکے ہیں۔کرناٹکا، اتر پردیش، بنگلورو اور بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں بھی پابندیاں شہریوں کو احتجاج سے نہ روک سکیں، دہلی کے لال قلعہ، حیدر آباد اور تلنگانہ سے مظاہرین کو پولیس نے حراست میں لے لیا جب کہ معروف بھارتی مورخ اور دانشور رام چندر بھی احتجاج کے دوران گرفتار ہو گئے۔بھارتی میڈیا کے مطابق بنگلور میں پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کی لیکن اس کے باوجود مظاہرین کا احتجاج جاری رہا تو پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں 3 افراد ہلاک اور 4 افراد زخمی ہو گئے۔ منگلور میں کرفیو نافذ جب کہ انٹرنیٹ سروس معطل ہے، آسام میں 21 دسمبر سے بند انٹرنیٹ سروس جزوی طور پر بحال کر دی گئی ہے۔رپورٹ کے مطابق بھارتی شہر لکھنﺅ سمیت اتر پردیش کے متعدد شہروں میں بھی انٹرنیٹ اور میسجز سروس بند ہیں۔بھارتی میڈیا کے مطابق نئی دہلی میں احتجاج مارچ کے پیشِ نظر انتظامیہ نے 2 میٹرو اسٹیشنز بھی بند کردیئے ہیں۔اسی ضمن میں وزیراعلی مغربی بنگال ممتا بنرجی نے اقوام متحدہ اورانسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے متنازع ایکٹ پرریفرنڈم کرانےکامطالبہ بھی کر دیا ہے۔شہریت کے متنازع قانون کے خلاف لالوپرساد کی سیاسی جماعت راشٹریہ جنتا دل نے کل بہار میں ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔بھارتی اداکارہ شبانہ اعظمی بھی شہریت کے متنازع قانون کے خلاف بول پڑیں، سوشل میڈیا پیغام میں اداکارہ نے حکومت کو مظاہرین کو روکنے کے بجائے ان کی بات سننے کا مشورہ دے دیا۔دوسری جانب اداکار فرحان اختر بھی مظاہرین کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آئے اور اس دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صرف سوشل میڈیا پر احتجاج کرنا کافی نہیں ہے، شہری سڑکوں پر نکلیں اور اپنے حق کے لیے آواز بلند کریں۔متنازع شہریت بل 9 دسمبر 2019 کو بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں(لوک سبھا)سے منظور کروایا گیا تھا اور 11 دسمبر کو ایوان بالا (راجیہ سبھا)نے بھی اس بل کی منظوری دیدی تھی۔بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں میں وزیرِ داخلہ امیت شاہ کی جانب سے بل پیش کیا گیا تھا جس کے تحت پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے بھارت جانے والے غیر مسلموں کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کو نہیں۔تارکینِ وطن کی شہریت سے متعلق اس متنازع ترمیمی بل کو ایوان زیریں(لوک سبھا)میں 12 گھنٹے تک بحث کے بعد کثرتِ رائے سے منظور کر لیا گیا تھا۔ایوان زیریں کے بعد ایوان بالا(راجیہ سبھا)میں بھی اس متنازع بل کو کثرت رائے سے منظور کیا جا چکا ہے۔متنازع شہریت بل بھارتی صدر رام ناتھ کووند کے دستخط کے بعد باقاعدہ قانون کا حصہ بن گیا ہے۔ نوام چومسکی اور جودیتھ بٹلر نے بھی دہلی جامعہ میں پولیس کارروائی کی مذمت کی ہے۔ساوتھ ایشین وائرکے مطابق اسکالرس نوام چومسکی، جودیتھ بٹلر اور رومیلاتھاپر ان 10,000 شخصیتوں میں شامل ہیں جنہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس بربریت کی مذمت کرنے والے ایک بیان پر دستخط کئے ہیں جس میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ شہریت ترمیمی قانون کے تحت پڑوسی ممالک کے مسلمانوں کو ہندوستانی شہریت اختیار کرنے سے محروم رکھا گیا ہے جو ہندوستان کے مساوات اور سیکولرازم کی طمانیت دینے والے دستور کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی (مانو )کے طلبا کا چھٹے روز احتجاج جاری ہے۔ساوتھ ایشین وائرکے مطابق مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے اساتذہ ایسوسی ایشن نے بھی ایکٹ اور این آر سی کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبا کی حمایت کی ہے۔مانو کے تمام اساتذہ ایک ساتھ مل کر احتجاج کی جگہ پر پہنچے اور طلبہ کی حمایت کی۔ان کے علاوہ ، مانو ایلومنی ایسوسی ایشن نے بھی اس احتجاج میں حصہ لیا ہے۔

معاشی استحکام کو کوئی طاقت نہیں روک سکتی ریاستی اداروں کا دفاع ،قانونی اصلاحات لائینگے ،عمران خان

اسلام آباد(نامہ نگار خصوصی) وزیراعظم عمران خان نے ریاستی اداروں کے دفاع کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے انونی اصلاحات اور فوری قانون سازی پر مشاورت کی ہے۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ حکومت کا کام ریاستی اداروں کو مضبوط بنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو استحکام کی پٹری سے ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے۔انہوں نے یہ بات ممتاز قانون داں بابر اعوان سے بات چیت کرتے ہوئے کہی۔ ذرائع کے مطابق انہوں ںے سابق وفاقی وزیر قانون بابر اعوان سے جنرل(ر) پرویزمشرف کیس کے فیصلے، موجودہ سیاسی صورتحال اور مختلف قانونی امور پر تبادلہ خیال کیا۔ذرائع کے مطابق بات چیت کے دوران قانونی اصلاحات اورفوری قانون سازی پربھی مشاورت کی گئی۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے واضح کیا کہ ملک میں معاشی استحکام کو کوئی طاقت بھی نہیں روک سکتی ہے۔دوران بات چیت معروف قانون دان بابر اعوان نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے بحرانوں میں ہمیشہ قوم کی درست رہنمائی کی ہے۔وزیراعظم عمران خان سے پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے کراچی کے اراکین اسمبلی نے ملاقات کی اور شہر قائد کو درپیش مسائل پر انہیں بریفنگ دی۔ اراکین اسمبلی نے انہیں جاری منصوبوں کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا۔ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے دوران ملاقات کہا کہ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے اور اس کی ترقی دراصل ملکی ترقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ بہت جلد کراچی کا دورہ کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کی اولین ترجیحات میں کراچی کی ترقی و خوشحالی شامل ہے۔ وزیراعظم نے اراکین اسمبلی کو یقین دلایا کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو قابو میں رکھنے کے لیے خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ معاشی استحکام کے حصول کے بعد حکومت کی بھرپور توجہ عوام کو درپیش مسائل کے حل پر ہے۔عمران خان نے واضح کیا کہ صنعتی عمل میں تیزی آنے سے نوجوانوں کے لیے روزگار کے نئے اور وسیع مواقع پید اہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کو کراچی کے مسائل کا بھرپور ادراک ہے اور وہ ہر ممکنہ کردار ادا کرنے کے لیے بھی پرعزم ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بلوچستان میں پارلیمانی پارٹی کے وفد نے معاون خصوصی سردار یار محمد رند نے بھی ملاقات کی جس میں ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی محمد قاسم خان، رکن قومی اسمبلی میر محمد خان جمالی، رکن قومی اسمبلی منورہ منیر، اراکین صوبائی اسمبلی میر نعمت اللہ، سردار بابر موسی خیل، زاہدہ بی بی، عمر جمالی، نصیب اللہ خان اور محمد مبین خان خلجی شامل تھے۔اس ملاقات کے دوران وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور نعیم الحق بھی موجود تھے۔ ذرائع کے مطابق ملاقات میں صوبہ بلوچستان کی مجموعی صورتحال، ترقیاتی امور اور عوام کو درپیش مسائل پر بات چیت کی گئی جب کہ اراکین اسمبلی نے اپنے اپنے حلقہ انتخاب کو درپیش مسائل سے آگاہ کیا۔وزیراعظم عمران خان نے اس موقع پر کہا کہ بلوچستان کے عوام کی زندگیوں میں بہتری لانا اورصوبے میں سماجی و معاشی ترقی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ انہوں ںے کہا کہ وفاقی حکومت بلوچستان کی تعمیر و ترقی کے ضمن میں صوبائی حکومت کی ہر ممکنہ طریقے سے معاونت کرنے کے لیے پرعزم ہے۔انہوں نے کہا کہ معاشی استحکام کے بعد حکومت کی بھرپور کوشش ہے کہ صنعتی عمل تیز ہو اور نوجوانوں کو نوکریوں کے زیادہ سے زیادہ مواقع میسر آئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ معاشی عمل کے استحکام اور تیزی سے بلوچستان کے نوجوانوں کو مستفید ہونے کے بھرپور مواقع میسر آئیں گے۔وزیراعظم عمران خان نے واضح کیا کہ وفاقی حکومت بلوچستان کے نوجوانوں کو ہنرمند بنانے پہ بھی بھرپور توجہ دے رہی ہے۔ انہوں ںے کہا کہ حکومت کی جانب سے سماجی تحفظ کے جامع پروگرام احساس اور صحت انصاف کارڈ کی بدولت بلوچستان کے عوام خصوصا غربت سے متاثرہ خاندانوں کو سہولتیں میسر آئیں گی۔ وزیراعظم نے منتخب اراکین اسمبلی کو ہدایت کی کہ وہ عوام کو درپیش مسائل کو اجاگر کرنے اور انہیں ترجیحی بنیادوں پہ حل کرانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ : وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ کراچی معیشت کا حب ہے اور اس کی ترقی ملک کی ترقی ہے۔ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیراعظم عمران خان سے کراچی سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی نے ملاقات کی، ملاقات میں شکور شاد، آفتاب جہانگیر، اکرم چیمہ، عطا اللہ خان، اسلم خان، فہیم خان اور کیپٹن(ر ) جمیل احمد خان شامل تھے، ارکان نے وزیراعظم کو کراچی کے مسائل اور اپنے متعلقہ حلقوں میں عوام کو صحت، روزگار اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے حوالے سے درپیش مسائل سے آگاہ کیا، جب کہ وفاقی حکومت کی جانب سے جاری ترقیاتی منصوبوں پر پیشرفت پر بھی بات چیت کی گئی۔

مشرف کیس پر اثر انداز ہو نیکا بیان بے بنیاد عدلیہ اور میرے خلاف گھناﺅنی مہم شروع کر دی گئی ،چیف جسٹس

اسلام آباد(خبر نگار خصوصی ) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا ہے کہ میرے اور دلیہ کے خلاف گھنانی مہم شروع کر دی گئی ہے۔جمعہ عدالت عظمی کے کمرہ نمبر ایک میں چیف جسٹس کے اعزاز میں منعقدہ فل کورٹ ریفرنس میں سپریم کورٹ کے ججز، وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کے صدر شریک ہوئے، تاہم جسٹس قاضی فائز عیسی چھٹی پر ہونے کے باعث اس فل کورٹ ریفرنس میں شریک نہ ہوسکے۔اس کے علاوہ اٹارنی جنرل فار پاکستان انور منصور خان بھی بیرون ملک ہونے باعث اس ریفرنس میں شریک نہیں ہوئے اور ان کی جگہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے نمائندگی کی۔ریفرنس کا آغاز نئے رجسٹرار سپریم کورٹ خواجہ داو¿د نے کیا، اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر الرحمن نے خطاب کیا۔فل کورٹ ریفرنس سے خطاب سے پہلے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے صحافیوں سے ملاقات میں مشرف کے خلاف فیصلے کی حمایت کے حوالے سے اپنے اوپر لگنے والے الزام کی وضاحت کی۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ابھی الزام لگایا گیا کہ میں نے صحافیوں سے ملاقات کر کے پرویز مشرف کے خلاف فیصلے کی حمایت کی،مشرف کیس پر اثر انداز ہونے کا الزام بے بنیاد ہے ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ میرے اور پوری عدلیہ کے خلاف ایک گھنانی مہم شروع کر دی گئی ہے لیکن سچ سامنے آئے گا اور سچ کا بول بالا ہو گا۔بعدازاں فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ایک جج کو بے خوف و خطر ہونا چاہیے، میرے لیے یہ اہم نہیں کہ دوسروں کا ردعمل یا نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ایک جج کا دل شیر کی طرح اور اعصاب فولاد کی طرح ہونے چاہئیں۔انہوں نے کہا کہ اپنے 22 سالہ کیرئیر کے دوران مختلف قانونی معاملات کا ہر پہلو سے جائزہ لیا، بطور جج ہمیشہ اپنے حلف کی پاسداری کی، قانونی تقاضوں سمیت بغیر خوف فیصلے کیے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنا 100 فیصد دیا، ڈیوٹی کی پاداش سے باہر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی، کبھی آواز نہیں اٹھائی بلکہ اپنے قلم کے ذریعے بات کی اور کبھی بھی فیصلے کو غیرموزوں طور پر موخر نہیں کیا اور اپنی زندگی کے بہترین برسوں کو عوامی خدمت میں وقف کرنے کے بعد آج میرا ضمیر مطمئن ہے۔چیف جسٹس کا اپنے خطاب میں فیض احمد فیض کی نظم کا تذکرہ کیا اور کہا کہ میری اپروچ کو فہمیدہ ریاض کی نظم میں خوبصورتی سے سمویا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے خطاب میں فیض احمد فیض کی نظم کا شعر پڑھا تم اپنی کرنی کرگزرو جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ چیف جسٹس کے شعر پر کمرہ عدالت نمبر ایک تالیوں سے گونج اٹھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اپنے 22 سالہ کیریئر کے دوران مختلف قانونی معاملات کا ہر پہلو سے جائزہ لیا جبکہ بطور چیف جسٹس 11 ماہ (مجموعی طور پر 337 دن) ذمہ داری نبھائی تاہم اگر اس میں ہفتہ وار تعطیل اور دیگر چھٹیوں کو نکال دیں تو 235 دن کام کے لیے ملے۔انہوں نے کہا کہ اس عرصے میں عدالتی شعبے میں اصلاحات کے لیے اہم اس عرصے کے دروان عدالتی شعبے میں اصلاحات کیلئے اہم اقدامات کئے۔دوران خطاب چیف جسٹس نے کہا کہ جب میں پیدا ہوا تو میرے منہ میں ایک دانت تھا، میرے خاندان میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ بچہ بہت خوش قسمت ہوگا۔ انھوں نے کہ اکہ جنہیں میرے فیصلوں سے تکلیف ہوئی ان سے معذرت خواہ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ویڈیو لنک کا آغاز کیا، میرے دور میں موبائل ایپلیکیشن بنائی گئی، سپریم کورٹ میں ریسرچ سنٹر قائم کیا۔نامزد چیف جسٹس گلزار احمد نے بھی فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کیا، انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ قانون کی حکمرانی اور آئین کے تحفظ، آزاد عدلیہ کے چیلنجز سے نمبرد آزما ہوتی آئی ہے، ماضی میں بھی عدلیہ نے ان چیلنجز سے نمٹا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان ایک زندہ و جاوید دستاویز ہے، عوام کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔

پاکستان کے لیے بڑی خبر ، امریکہ نے فوجی تربیت پروگرام ،2ارب ڈالر امداد بحال کر دی

واشنگٹن‘اسلام آباد ( آن لائن‘ این این آئی ) امریکی محکمہ خارجہ نے کہاہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کےلئے قریبا دو سال بعد اپنا ملٹری ٹریننگ اور تعلیمی پروگرام بحال کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ وزیراعظم عمران خان کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اس سال ہونے والی ملاقات اور امریکہ اور پاکستان کے دہائیوں پر مشتمل دیرینہ تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ امریکہ نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے لیے ہونے والے مذاکرات میں کردار ادا کرنے پر بھی پاکستان کو بھی بہت سراہا ہے۔ یڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کے زیر انتظام چلنے والا بین الاقوامی ملٹری ایجوکیشن اور ٹریننگ پروگرام (آئی ایم ای ٹی) پروگرام پاکستان کے لیے تقریبا دو بلین ڈالر امریکی سکیورٹی امداد کا ایک چھوٹا سا حصہ تھا۔ جنوری 2018 ءمیں پاکستان کےلئے امریکی سکیورٹی امداد معطل کر دی گئی تھی۔ امداد معطل کیے جانے کی وجہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پاکستان پر جنگجوﺅں کے خلاف اقدامات اٹھانے کے لیے دبا ڈالنا تھا۔خیال رہے کہ اس سال کے آغاز میں بھارتی نیم عسکری دستے پر ہونے والے ایک حملے میں 40 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے تھے، جس کے بعد امریکہ نے پاکستان پر دہشتگردوں کے خلاف مستقل اور ناقابل واپسی اقدامات اٹھانے پر زور دیا تھا۔

آصف سعید کھوسہ کا دور تاریخی رہا ،اہم فیصلے کیے آخر میں مشرف کے خلاف فیصلے نے برا تاثر چھوڑا ،ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف سینئر صحافی ضیا شاہد نے کہا ہے کہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا ور تاریخی رہا اور بہت اہم فیصلے کئے البتہ آخر میں آ کر جو خصوصی عدالت کا فیصلہ ہے ان کا جو ریفلیکشن عدلیہ پر آیا ہے اس کا کوئی زیادہ اچھا تاثر نہیں کیا وہ ایک متنازعہ فیصلہ ہے، آج سے 10,8 دن پہلے انہوں نے مکے لہرا کر کہا تھا اس کے جواب میں پھر فیصلہ آیا ظاہر ہے اس پر الزام لگنا ہی تھا۔ ایک قومی اخبار نے ان کا بیان بھی چھاپا تھا لیکن جب کھوسہ صاحب نے اس پر ایکشن لیا تو پھر کچھ لوگوں نے بیچ بچاﺅ کرا کے معاملہ دفع دفع کرا دیا۔ آخر میں آکر کھوسہ صاحب بھی متنازع ہو گئے۔ گزشتہ روز انہوں نے معاملات کی وضاحت کے لئے صفائی بھی دینا پڑی۔ یہ وہ صحیح کہہ رہے ہیں وہ اگرچہ ان کا فیصلہ نہیں تھا لیکن عدلیہ پر جو الزام آ رہا ہے کہ دائرہ کار سے نکل کر زیادہ سخت فحیصلہ دیا اور یہ فیصلہ پاکستان سپیشل کورٹ میں بھی نہیں تھا۔ میں نے کل کے پروگرام میں کہا تھا کہ زینب کے قاتل جس نے کئی بچوں سے زیادتی کی اور ان کو مار بھی ڈالا ان کے بارے میں بچی کے والد کا مطالبہ تھا کہ قاتل کو سرعام پھانسی دی جائے لیکن عدالت نے ان کا مطالبہ نہیں مانا تھا لیکن مشرف کے بارے میں جو فیصلہ آیا اس سے ہمارے حلقے دہلی گئے ہیں یہ کیسا فیصلہ آیا۔ آگے چل کر کیا آمنے سامنے دکھائی دے رہے ہیں اس سوال کے جواب میں ضیا شاہد نے کہا کہ اس کا انحصار آنے والے چیف جسٹس پر ہے اگر چیف جسٹس جناب گلزار احمد صاحب جو تھوڑی سی معاملہ فہمی سے کام لیں تو وہ اس صورت حال کو سنبھال سکتے ہیں اگر انہوں نے بھی اپنے پیشرو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وہی ایک انتہائی نقطہ نظر لیا تو میرا خیال ہے پھر یہ جو فساد بڑھ جائے گا۔ کل جو سٹاک مارکیٹ اتنا بڑا دھچکا لگا ہے اس کی ذمہ دار بھی اسی فیصلے پر عائد ہوتی ہے۔ ہمارے جج حضرات کو فیصلہ دیتے وقت دیکھ لینا چاہئے کہ اس کے اثرات کیا ہوں گے اور اس کا سٹاک ایکس چینج پر بھی کیا اثر پڑ سکتا ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ جسٹس وقار سیٹھ نے کہا ہے کہ حالات کو کیا ہوا ہے میں تو ٹی وی پر ریسلنگ دیکھتا ہوں ضیا شاہد نے کہا کہ اتفاق ایسا ہے کہ ان کا تعلق بھی خیبرپختونخوا سے ہے اور اب نئے آنے والے چیف جسٹس سپریم کورٹ بھی خیبرپختونخوا سے ہی تعلق رکھتے ہیں اللہ رحم کرے۔ اگر اداروں کے درمیان کسی قسم کا کوئی تصادم نہ ہو تو یہ پاکستان کے حق میں بہتر ہے اور خاص طور پر مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ گزشتہ روز چونڈہ میں انڈیا نے پاکستان کے بارڈر کے ساتھ جو خار دار تار 4 جگہوں پر کاٹ دی ہے اور اس کی وجہ یہ خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ خدانخواستہ کوئی چھوٹی موٹی جھڑپ جو ہے وہ ہو سکتی ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے حالات ہیں ہم کسی بھی قسم کی جھڑ کے، جنگ، لڑائی کے متحمل نہیں اور خاص طور پر جب دونوں ملک ایٹمی پاورز ہیں تو اس صمن میں کسی قسم کی جھڑپ کسی بڑی جنگ کا پیش خیمہ بھی بن سکتی ہے۔ اس بات کے بھی امکانات ہیں بھارت اپنے اندرونی حالات توجہ ہٹانے کے لئے کسی قسم کی کوئی جنگ کھول دے۔ پاکستان اور بھارت کو سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہئے۔ وقتی جھڑپ فائدہ دے سکتی ہے اور توجہ دلا سکتی ہے لیکن اس دور رس نتائج بہت زیادہ خراب ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس کے خطاب پر فواد چودھری نے بیان دیا کہ چیف جسٹس نے آج وضاحت دی ہے کہ وہ مشرف کیس سے لاتعلق تھے مگرایک ہفتہ قبلہ کمانڈو سٹائل میں ہاتھ لہرایا تھا اور کہا تھا کہ مشرف کیس کا فیصلہ آنے والا ہے لگتا نہیں کہ اتنے بے خبر تھے جس بے خبری کا اظہار کر رہے تھے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ میری دعا ہے کہ یہ خبر غلط ہو لیکن چونکہ انہوں نے اس اخبار کو نوٹس دے دیا تھا اور بعد میں پھر اس کو معاف بھی کر دیا تھا اس لئے لگتا ہے کہ واقعہ ہوا تھا۔ بدقسمتی ہو گی اگر میں اندرونی خلفشار کا شکار ہو گئے لہٰذا یہی بہتر ہے کہ اداروں کے درمیان لڑائی نہ ہو۔ چیف جسٹس جو ریٹائر ہو گئے انہوں تو ایک بیان دیا تھا جب ایک اخبار میں چھپا تھا انہوں نے اس اخبار کو نوٹس بھی دیا تھا بعد ازاںاس اخبار کو معاف کر دیا تھا یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے دونوں مکے لہرائے تھے جس سے لگتا تھا کہ آنے والے فیصلے پر وہ کوئی اپنا نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جن جج صاحب نے پرویز مشرف کے بارے میں فیصلہ دیا ہے کیا آپ سمجھتے ہیں نئے چیف جسٹس اداروں کے درمیان ہر ابھرنے والی صورت حال کو ختم کر پائیں گے۔ ضیا شاہد نے کہا ہے کہ نئے چیف جسٹس کے پاس ایک سنہری موقع ہے کہ وہ بڑی خوبصورتی سے اس صورت حال میں ایسا کوئی درمیانی راستہ تلاش کر سکتے ہیں کہ جو پہلے فیصلہ آیا ہے اس کو بھی ان ڈو نہ کیا جائے لیکن جو اس کے بٹر (Bitter) پہلو ہیں اس کو بھی ختم کر دیا جائے۔ افتخار چودھری اگر بیلنس نقطہ نظر اختیار کرتے تو آج یہ صورت حال نہ پیش آتی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ بنیادی حقوق اور فوجداری نظام کی روایت کے خلاف ہے اور عداوت اور انتقام نظر آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس کھوسہ کا جو وضع کردہ نظام ہے اس میں وہ عنصر دکھائی نہیں دیتا۔ ضیا شاہد نے کہا کہ نئے چیف جسٹس پر منحصر ہے کہ وہ اس صورت حال کو کس طرح ٹائٹل کرتے ہیں۔ یہ فیصلہ برے بھیانک عزائم کے ساتھ سامنے آتا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ جلد از جلد اسے ختم کیا جائے۔
حامد سعید اختر صاحب! جو فیصلہ آیا ہے پرویز مشرف کے بارے میں آیا کہ اگر ان کی وفات بھی ہو جائے تو ان کو گھسیٹ کر لایا جائے ان کو ڈی چوک میں پانچ بار پھانسی دی جائے پاکستان سپیشل کورٹ بھی نہیں دیتا۔ کس طرح سے یہ فیصلہ دے دیا اب تک اس کے بارے میں کسی نے بھی اس کو ان ڈو نہیں کیا۔ گزشتہ رات وزیر قانون، وزیر اطلاعات کی حیثیت میں پریس کانفرنس کے مطابق آج بھی اس کا ریفرنس دائر نہیں کیا گیا۔یہ کہا جاتا ہے کہ جج کے ذہن میں ری ایکشن ہے جسے آپ غصہ بھی کہہ سکتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اتنے برسوں سے پرویز مشرف کسی طور پر بھی جواب دینے کے لئے تیار رہنے کے لئے تیار نہیں ہیں ان کو جتنی مرتبہ بھی موقع دیا گیا۔ انہوں نے اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا سوال یہ ہے کہ اگر ان کو موقع دیا جائے تو کیا وہ اپنا بیان ریکارڈ کروائیں گے کیونکہ ان کا کیس ان ہرٹ نہیں جانا چاہئے اس پر تو سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ کسی بھی سلسلے میں ان ہرڈ فیصلہ سامنے نہیں آنا چاہئے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کو منع کر دیا گیا تھا جب تک وہ اپنا بیان نہ ریکارڈ کروا دیں فیصلہ نہ سنایا جائے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر ہیں ان کے الفاظ میں ایک بات بڑی ہے اس میں انہوں نے کہا ہے کہ ملک سب سے اہم ہے ادارے اس کے بعد ہوتے ہیں۔ پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ قائم کرنے والی مسلم لیگ ن منظر سے غائب دکھائی دے رہی ہے جبکہ پیپلزپارٹی جس نے مقدمہ قائم نہیں کیا وہ بڑی شدو مد کے ساتھ آئین کے ساتھ کھڑی دکھائی دے رہی ہے اور پی ٹی آئی جب مقدمہ قائم نہیں تھا اس وقت سے پہلے ہی جنرل صاحب کو مجرم قرار دے رہی تھی اب کہہ رہی ہے کہ 6 سال کا عرصہ اپنے دفاع کے لئے ناکافی ہے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ اس سلسلے میں بہت سے خیال ہے کہ اس صورت حال کو حل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ پرویز مشرف کی سزا جو صدر مملکت اس کو معاف کر سکتے ہیں۔ اس کا ان کو حق حاصل ہے لہٰذا یہ کہا جاتا ہے کہ مقصد ہی ختم ہو جاتا ہے۔ نوازشریف کا دائرکردہ کیس ہے ن لیگ تو اس کے خلاف کہے گی نہیں۔ پیپلزپارٹی بھی اؑٓج شامل باجہ ہے۔

مہوش حیات بھارتی شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی آواز بن گئیں

معروف اداکارہ مہوش حیات بھی مودی سرکار کی جانب سے مسلم مخالف شہریت قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کی ہم آواز بن گئیں۔مہوش حیات نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک ویڈیو شیئر کی جس میں بھارتی مسلم نوجوان مودی سرکار کی جانب سے متنازع شہریت قانون بل پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ میں بھارتی مسلمان ہوں اور مجھے بھارت کا شہری ہونے پر شرمندہ کیا جا رہا ہے۔نوجوان نے یہ بھی کہا کہ مسلم مخالف قانون نہ صرف مسلمانوں کے بلکہ بھارتی ہندوؤں کے جذبات اور شرم کا بھی امتحان ہے، کیوں کہ aجب مسلمانوں کو ریاست بدر کیا جا رہا ہوگا تب کیا بھارتی ہندو خاموش رہیں گے ؟۔نوجوان نے بھارتیوں سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ جو مودی سرکار نے کیا ہے اگر یہ عمل صحیح لگتا ہے کہ تو آپ کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں۔ اگر آپ کو غلط لگتا ہے تو سڑکوں پر آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں، اور مودی کو بتائیں کہ اُن کی یہ غنڈہ گردی نہیں چلے گی۔ اور اس طرح سے ملک آگے نہیں چل سکتا

پی آئی سی حملہ؛ وزیراعظم کے بھانجے حسان نیازی کی عبوری ضمانت منظور

 لاہور: انسدا د دہشتگردی کی عدالت نے پنجاب انسٹیٹیویٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) حملہ کیس میں نامز د ملزم حسان نیازی کی عبوری ضمانت منظور کر لی پی آئی سی حملہ کیس میں نامزد ملزم حسان نیاز نے پولیس چھاپوں کے بعد انسداد دہشتگردی کی عدالت سے رجوع کرتے ہوئے درخواست دائر کی جسے منظور کر لیا گیا، عدالت نے حسان نیازی کی ایک ایک لاکھ روپے کے دو مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کی ہے۔حسان نیازی پر پی آئی سی حملے  کے روز گاڑیوں کی توڑ پھوڑ اور آگ لگانے کا مقدمہ درج ہے،  پولیس نے وزیراعظم کے بھانجے حسان نیازی کو گرفتار کرنے کے لیے ان کے ھر پر چھاپے مارے تاہم وہ گھر پر موجود نہیں تھے۔پی آئی سی میں وکلا اور ڈاکٹروں کے تصادم میں حسان نیازی کی فوٹیجز بھی سامنے آئی تھیں لیکن پولیس نے حسان نیازی کے خلاف کارروائی سے گریز کیا تھا تاہم سوشل میڈیا پر تنقید کے بعد حسان نیازی کے گرفتاری کے لیے ان کے گھر چھاپے مارے گئے تھے

مشرف کے خلاف فیصلہ سنانے والے جج نے قرآن وسنت کی توہین کی،50مفتیان کرام کا فتوی

فیصل آباد (آئی این پی ) سربراہ سنی اتحاد کونسل صاحبزادہ امد رضا نے کہا ہے کہ اسلام میںمردہ شخص کی عزت و توقیر بھی زندہ انسان کی طرح ہے مردہ شخص کو لٹکانا خلاف شرع اور انسانیت کی شدید ترین تذلیل ہے اسلام نے مسلمانوں کو عزت و قار کے ساتھ دفن کرنے برائیوں کا تذکرہ کرنے سے منع کیا سنی اتحاد کونسل کے پچاس جید مفتیان کرام نے اجتماعی شرعی اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ مطالبہ کیا کہ لاش کو لٹکانے کی بات کرنے والے جج کو فی الفور معزول کیا جائے جج نے منصب انصاف پر بیٹھ کر مسند انصاف کے وقار کو مجروح کیا ہے ایسا شخص جو میت کے حقوق کو نا جانتا ہو اسے جج رہنے کا کوئی حق نہیں ہے فیصلہ سنانے والے جج نے اپنے فیصلے سے قرآن و سنت کی توہین کی ہے مفتیان نے کہا ہے کہ کون سی تعلیمات اسلامی تعلیمات سے بلند، مشفق منصف ہو سکتی ہیں اسلام نے زندہ رہنے اور مردہ شخص دونوں کے بارے میں واضع احکامات دیے ہیںاجتماعی شرعی اعلامیہ جاری کرنے والوں میںشیخ الحدیث علامہ سعید قمر سیالوی، مفتی محمد حسیب قادری، مفتی محمد کریم خان، مفتی رحمت اللہ رضوی، مفتی محمد بخش رضوی، مفتی محمد وزیرالقادری، مولانا محمد سلطان چشتی، مولانا اللہ وسایا سعیدی، مولانا محمد صدیق قادری، مفتی محمد لیاقت علی، مفتی وسیم خان، مولاناوجاہت حسین قادری و دیگر شامل ہیں۔

جج کے الفاظ پر فوج نے دانشمندی سے کام لیا ،لوگ پوچھتے تھے کہیں مارشل لاءنہ لگ جائے،ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف سینئر صحافی ضیا شاہد نے کہا ہے کہ حکومت نے جسٹس قار سیٹھ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں جانے کا فیصلہ کیا ہے یہ اچھا اقدام ہے۔ جسٹس صاحب نے جو فیصلہ دیا ہے وہ فیصلہ ایک ذاتی اشتعال اور غصے کا فیصلہ ہے فیصلے میں ذاتی غصہ شامل نہیں ہونا چاہئے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک پہلوان کے اوپر چڑھ کر اس کو مارنے لگے تو اس نے آپ کے منہ پر تھوک دیا حضرت علیؓ رک گئے اور کہا کہ اب میں تمہیں نہیں ماروں گا کیونکہ اس سے پہلے میں قتل کرنا چاہتا تھا اسلام کی خاطر کہ تم اسلام کے دشمن تھے لیکن اب میرے غصے میں ذاتی غصے کا عنصر شامل ہو گیا ہے لہٰذا میں تجھے کچھ نہیں کہوں گا۔ میں سمجھتا ہو ںکہ جج کو اپنے اشتعال اور غصے کو شامل نہیں ہونا چاہئے جبکہ جو فیصلہ آج سنایا گیا ہے کہ اس میں جس طرح ایک شخص کو جو بیمار ہے جو اپنا کیس بھی شامل نہیں ہو سکا اور صفائی بھی نہیں پیش کر سکا اس کو سزا سنا دی۔ ہمارے پڑوسی ملک میں جشن منایا جا رہا ہے۔ پرویز مشرف کو جو کارگل کا ہیرو قرار دیا جاتا تھا سیاست دانوں نے کارگل کے فیصلے کو یو این او امریکہ میں لے جا کر اس کو واپس لے لیا اور صلح کر لی۔ اس لحاظ سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ دو دن کے اندر اندنر جو شخص پاکستان میں یہ کہا جا رہا تھا آدھے لوگ حق میں تھے آدھے لوگ مخالف تھے اس فیصلے کے الفاظ نے ان کو ہیرو بنا دیا اب لوگوں کی تمام تر ہمدردیاں پرویز مشرف کے ساتھ ہو گئیں۔ اس سے فیصلے سے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اس میں کوئی غیر ملکی ہاتھ ہو سکتا ہے۔ یہ مقدمہ نوازشریف کا شروع کردیا تھا۔ ان کی جو پرویز مشرف سے ذاتی ناراضگی تھی وہ اس لئے بھی ظاہر تھی کہ پرویز مشرف نے ان کو اقتدار سے ہٹایا تھا اس مقدمے میں شروع سے ہی ذاتی عناد شامل ہے ایسے کیوں میں جہاں انتقام کا جذبہ شامل ہو تو پوری دنیا میں عدل و انصاف سے عاری قرار دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جج کو اپنے فیصلے میں جذباتی نہیں ہونا چاہئے۔ اس وقت جو ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں ہو رہا ہے پاک فوج نے نہایت عقلمندی کا ثبوت دیا ہے اگر آج سے 10,10 سال پہلے ایسا واقعہ آیا ہوتا تو یقینا ملک میں مارشل لاءلگ جاتا لیکن پاک فوج نے معاملات آئین اور قانون کے تابع رکھے ہیں اور حکومت سے کہا ہے کہ جو بھی آئین ور قانون میں اسے تلافی نظر آتی ہے۔ چنانچہ آئین میں جو تلافی نظر آتی تھی وہ راستہ لیا گیا ہے۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ قصور میں زینب کے قتل کا واقعہ ہوا اس میں اس قاتل نے جتنی بچیوں سے زیادتی کی تھی تو اس پر خود زینب کے والد نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اس کو سرعام لٹکایا جائے لیکن عدالت نے اس کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ کیونکہ پاکستان کی کوئی عدالت سرعام لٹکانے کو تسلیم نہیں کرتی یہ کس قسم کا فیصلہ ہے جو ایک جج اس کی مخالفت کر رہے ہیں وار ایک جج صاحب یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اگر فوت بھی ہو جائیں یہ ایک انتہائی خوفناک فیصلہ ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ فوت بھی ہو جائیں تو ان کی میت کو نکال کر ان کو گھسیٹتے ہوئے لایا جائے اور ان کو ڈی چوک میں لٹکایا جائے۔ پاک فوج نے حکومت کو بھی ایکشن لینے کو کہا ہے حالانکہ کوئی فوج ایکشن لینا چاہتی ہے تو فوج ہمیشہ جمہوری حکومتوں کا بوریا بستر لپیٹ دیا کرتی ہے۔ میجر جنرل آصف غفور کی جب کل گفتگو شروع ہوئی تو میرے کمرے میں بیٹھے لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ ان کی پریس کانفرنس شروع ہونے والی ہے لگتا ہے آج ملک میں مارشل لا لگ جائے گا۔ یہ جملہ بہت سارے جملوں پر حاوی ہے جب انہوں نے کہا کہ ملک پہلے ہے ادارے بعد میں ہیں۔ یہ بات واقعی صحیح ہے کہ ادارے اہمیت نہیں رکھتے ملک اہمیت رکھتا ہے۔ پاک فوج ملک کی سربلندی، مضبوطی و استحکام کی ضمانت ہے کہ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ اگر فوج کو کمزور کیا جاتا ہے۔ پرویز مشرف پر الزام ہو سکتا ہے لیکن اسے کتنے مواقع ہیں کہ کمیشن بنائے گئے اور ملک سے باہر بھیجے گئے تو اب کیا بات تھی اور کیا وجہ تھی کہ کوئی کمیشن بنا کر دبئی نہیں بھیجا گیا کہ وہ پرویز مشرف کا بیان نہیں لیا گیا جبکہ وہ بیان دینے کو تیار تھے۔ اب جبکہ وہ بیمار ہیں ان سے بولا بھی نہیں جا رہا کیا قدرتی انصاف یہ طریقہ نہیں ان کے پاس ایک کمیشن بھیج دیا جائے جو ان کا بیان لے لے۔ یکطرفہ طور پر اتنا سخت فیصلہ یہ کسی طور قابل انصاف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایوب خان کے دور میں جب مارشل لاءآیا تو جسٹس محمد منیر نے یہ فیصلہ دیا کہ جو کامیاب بغاوت ہوتی ہے وہ جائز ہوتی ہے اور اس کو تسلیم کر لینا چاہئے جنرل ضیاءالحق کو بھی مارشل لا کو جائز قرار دیا گیا۔ اس دور کے ججز حضرات نے درست سمجھا۔ پرویز مشرف نے جب محمد نوازشریف کی حکومت کا خاتمہ کیا اس وقت بھی جو کہ سپریم کورٹ کے جج حضرات نے ان کو جائز قرار دیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان ججوں کو کون پوچھے گا جسٹس منیر سے لے کر جسٹس انوارالحق تک اتنے ججوں کو جو مختلف مارشل لاﺅں کو جائز قرار دیتے رہے اب ایک خصوصی عدالت کے ایک جج صاحب کو اتنا غصہ آیا ہوا کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ میت نکال کر ڈی چوک میں لٹکائی جائے۔
کے بارے میں پڑھا کرتے تھے کہ انگلستان میں جنہوں نے اس وقت حکومت پر قبضہ کیا تھا اور شاہ کی حکومت کو ختم کیا تھا تو اس وقت یہ فیصلہ آیا تھا کہ اس کی لاش کو نکال کر لٹکایا جائے۔ اگر جج حضرات اگر تو مستقلا یہ فیصلے دیتے رہتے تو شاید ماارشل لا نہ لگتا۔ ہر مارشل لاءکو انہی ججوں نے ویلڈ قرار دیا اور یہ ہر مارشل لا درست قرار دیتے رہے پرویز مشرف نے کہا کہ میں نے ایمرجنسی والا فیصلہ تن تنہا نہیں کیا میرے ساتھ وزیر قانون تھے میرے ساتھ سارے لوگ تھے پارلیمنٹ تھی ان کی بات نظر انداز کر دی گئی۔ جب یہ معاملہ جوڈیشل کونسل میں جائے گا تو یہ انڈو ہو جائے گا۔

کنٹرول لائن ،پاک بھارت جھڑپیں 2شہری شہید ،3جوانوں سمیت 5زخمی ،کئی بھارتی فوجی مارے گئے ،چوکیاں تباہ

نیلم‘ مظفر آباد‘راولپنڈی (مانیٹرنگ ڈیسک‘ نیوز ایجنسیاں) لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی بلا اشتعال فائرنگ اورگولہ باری سے 14سالہ بچے سمیت دو شہری شہید جبکہ پاک فوج کے تین جوانوں سمیت پانچ افراد زخمی بھی ہوئے ، جوابی کارروائی میں بھارتی چوکی تباہ ، بھارتی فوجی لاشیں نکالتے رہے ۔آئی ایس پی آر سے جاری بیان کے مطابق ایل او سی پر بھارتی فوج کی فائرنگ سے 14سالہ شہریار اور 29سالہ نوید شہید ہوگئے جبکہ پاک فوج کے تین جواناورلسوا گاں کی خاتون سمیت دوشہری زخمی ہوئے ۔پاک فوج نے بھارتی فوج کی بلا اشتعال فائرنگ کابھرپور جواب دیا ۔ جوابی کارروائی میں بھارتی چوکی کو نشانہ بناکرتباہ کردیا گیا ۔ بیان کے مطابق بھارتی فوج کو پاک فوج کا نشانہ بننے والی چوکی سے لاشیں نکالتے دیکھا گیا ہے ۔پولیس ذرائع کے مطابق بھارتی فوج نے لیسواہ، جورا، اشکوٹ، میر پورہ و دیگر علاقوں میں شہری آبادی کو نشانہ بنایا۔پولیس کے مطابق پاک فوج کی جانب سے بلا اشتعال بھارتی گولہ باری کے خلاف بھر پور جوابی کاروائی کی جا رہی ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ اٹھمقام سمیت وادی نیلم کے مختلف علاقوں میں بھارتی افواج کی جانب سے شدید فائرنگ و گولہ باری جاری ہے۔ بھارتی فائرنگ سے علاقے میں مواصلات اور بجلی کا نظام معطل ہوگیا ہے۔ بھارتی فوج کی فائرنگ سے عوام میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔