کیا ٹرمپ الیکشن سے پہلے امریکی فوج لے جائینگے ؟ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی ضیا شاہد نے کہا ہے کہ چند روز پہلے بڑا بحران نظر آ رہا تھا کہ علوم ہوتا تھا کہ پتہ نہیں ہمارے اداروں میں آپس میں لڑائی نہ شروع ہو جائے اور ملک کے حالات ایسے ہیں ہم اس قسم کے اندرونی تصادم کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ خدا کا شکر ہے کہ چیف جسٹس صاحب اور دوسرے جج صاحبان نے بہت معاملہ فہمی سے اور نہایت دانشمندی سے اس مسئلے کا حل نکالا اور اس سے یہ بات طے ہو گئی کہ جو قانون موجود نہیں ہے اس کے لئے قانون بنے گا اور آرمی چیف بارے انہوں نے ایک دن پوچھ لیا تھا کہ ان کی مدت ملازمت کے کتنے دن باقی ہیں تو ان کو بتایا گیا کہ کل رات کے بعد وہ فارغ ہو جائیں گے تو انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ کل ہی فیصلہ کرنا پڑے گا پرسوں انہوں نے کہاتھا۔ کل ہی انہوں نے فیصلہ کر دیا 6 مہینے ان کو دے دیئے اور چھ ماہ کے اندر متبادل قانون سازی جو ہے وہ کرنے کے بعد معاملہ حل ہو جائے گا۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پارلیمنٹ جو ہے اس میں آئین میں تبدیلی کے لئے دو تہائی اکثریت کی ضرورت محسوس نہیں ہو گی کیونکہ سادہ اکثریت سے قانون بن سکتا ہے۔ سادہ اکثریت عمران خان کے پاس قومی اسمبلی میں ہے۔ قانون بن گیا اور 3 سال ہی قانون میں رکھے تو 3 سال کی توسیع مل سکتی ہے گویا مذاق میں لوگ کہہ رہے تھے جی باجوہ صاحب کے خلاف جو طاقتیں سرگرم عمل تھیں۔ ہمارے بہت سے سیاست میں بھی لوگ تھے جیسے مولانا فضل الرحمن ہیں یا دوسرے ہیں ان کو تو فائدہ ہو گیا کہہ رہے ہیں کہ ان کو تو فائدہ ہو گیا۔ 6 مہینے بعد 3 سل کی اور مل جائے گی ان کو تو ساڑھے تین مل گئے۔ میں نے کہا کہ اڑھائی سال دیں گے اگر وہ قانون منظور کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ وقتی طور پر جو بحران تھا وہ ختم ہو گیا۔ اس بحران نے ایک سبق دیا ہے کہ ہمارے ہاں جو آپس میں تصادم کی فضا ہے وہ اتنی زیادہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ملکی اتحاد جو ہے اس میں ہم یکسو نہیں ہیں اور ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے سے متصادم قوم کو بڑا مشکل ہوتا ہے چلانا۔ ہم سے ہر ایک کو چیف جسٹس صاحب اور دوسرے جج صاحبان نے موقع دیا ہے کہ جس طرح سے انہوں نے حکومت کو موقع دیا ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کی اصلاح کر لے جو صحیح طریقہ ہے کوئی قانون موجود نہیں ہے تو قانون تیار کر لے اس طریقے سے سیاستدانوں کو بھی موقع دیا ہے کہ آپ بھی سوچ لیں کہ اگر اس قسم کا کوئی کرائسز سامنے آتا ہے تو آپ کا اندرونی اتحاد پارہ پارہ نہ ہو جائے۔ میرا خیال ہے کہ حکومت قانون بنانے میں کامیاب ہو جائے گی کیونکہ میری معلومات کے مطابق تو پیپلزپارٹی بھی کہہ چکی ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت کی توسیع کے معاملے میں وہ مخالف نہیں ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں مطالبہ کر رہی ہیں کہ فوج کی آئندہ الیکشن میں مداخلت نہیں ہونی چاہئے ہو سکتا ہے اس وقت حکومت کے ساتھ کچھ طے ہو جائے۔ آج جو خبر آئی ہے کہ کابینہ نے فیصلہ کیا ہے اس قانون سازی کے لئے اپوزیشن کو اعتماد میں لیں گے۔ امریکہ صدر ٹرمپ نے اچانک افغانستان کا دورہ کیا ہے اور 19 گھنٹے وہاں گزارے ہیں اور کہا ہے کہ ہم جب تک معاملات کلیئر نہیں ہو جاتے افغانستان نہیں چھوڑیں گے اس سوال کے جواب میں ضیا شاہد نے کہا کہ پاکستان کے لئے بہت بڑی خبر ہے کہ جب لیٹ نائٹخبر آئی تو صرف دو ایک اخباروں میں چھوٹی سرخی کے ساتھ چھپ سکی ہے کہ ٹرمپ اچانک کابل پہنچ گئے۔ آج اس کی تفصیلات معلوم ہوئی ہیں کہ وہ 19 گھنٹے کابل میں رہے اس دوران میں ضروری ملاقاتیں کی ہیں اور امن مذاکرات کی غیر مشروط طور پر بحال کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ پچھلے مذاکرات میں جو مشکل امور تھے وہ صدر ٹرمپ نے خود آ کربات چیت کے بعد کسی نتیجے پر وہ پہنچے ہوں گے البتہ یہ بات انہوں نے صحیح کہی ہے کہ ہم خود بھی یہ چاہتے ہیں کہ جب تک کوئی تصفیہ نہ ہو جائے اچانک افغانستان چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے۔ پہلے بھی امریکہ کا مفاد ختم ہو گیا تھا اور وہ چھوڑ کر چلے گئے تھے بعد میں متحارب فریقوں کے درمیان لڑائی شروع ہو گئی تھی۔ میں نے کابل دیکھا ہے۔ کابل شہر کو آپ دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ایک وہ ہے جسے آپ بھوتوں کا شہر کہہ سکتے ہیں جہاں پر مکان گرا ہوا ہے۔ اس طرح سے ہوا تھا مختلف دھڑے لڑ پڑے اور ایک دوسرے پر سامنے رکھ کر گولہ باری کی جس سے بے تحاشا جانی نقصان ہوا اور پراپرٹی تباہ ہو گئی۔ صدر ٹرمپ کو زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اپنے الیکشن سے پہلے وہ کسی نتیجے پر پہنچ جائیں اور وہاں سے انخلا ہو سکے اور کوئی معاہدہ ہو سکے۔ ٹرمپ نے پچھلے انتخابات میں وعدہ کیا تھا کہ افغانستان سے فوجیں لے آئیں گے اب یہ ان کے لئے ایک چیلنج ہے کہ یہی وجہ ہے کہ اس دورے کی کوئی ڈھول نہیں پیٹے گئے بڑی خاموشی سے رازداری سے وہ آئے جو ضروری بات کرنا تھا جس سے بھی بالمشافہ ملاقات کرنا تھی کیونکہ حساس نوعیت کی باتیں آمنے سامنے ہی ہو سکتی ہیں۔ جہاں مذاکرات اگر رک گئے تھے ضروری تھا کہ ان رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔ اب امن مداکرات دوبارہ شروع ہونے کا امکان نظر آئے گا۔ امریکہ میں صدارتی الیکشن سر پر ہیں اس لئے افغانستان میں امن بحال کرانے اور فوجی انخلا بارے صدر ٹرمپ سنجیدہ نظر آتے ہیں، الیکشن سے قبل وہ طالبان سے صلح نامہ ضرور کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس کی بنیاد پر کمپئن کروائی ٹرمپ کی پوزیشن مضبوط ہے ان کے پاس بھاری وسائل اور مضبوط گروپ موجود ہے تاہم اصل فیصلہ تو عوام کریں گے۔ صدر ٹرمپ کو مواخذے کا بھی سامنا ہے اور کانگریس نے پوچھ گچھ کیلئے انہیں بلا لیا ہے۔ کاشانہ لاہور میں بچیوں سے جسم فروشی کرانے کی خبر افسوسناک ہے۔ اس سے قبل بھی لوگ دارالامان بارے دبے الفاظ میں بتاتے رہے ہیں کہ وہاں معاملات بہت خراب ہیں تاہم یہ معاملہ خواتین سے متعلق ہے اس لئے اس بارے مکمل تحقیقات کے بعد بات ہونی چاہئے۔

اوگرا کی پیٹرولیم مصنوعات میں 2 روپے 90 پیسے تک کی کمی کی سفارش

آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے ماہ دسمبر کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 2 روپے 90 پیسے فی لیٹر تک کمی کی تجویز پیش کردی۔اوگرا کی جانب سے پیٹرولیم ڈویژن کو بھیجی گئی سمری کے مطابق ہائی اسپیڈ ڈیزل (ایچ ایس ڈی) کی قیمت میں 1.9 فیصد یعنی 2 روپے 40 پیسے کمی کی تجویز دی گئی۔اسی طرح پیٹرول کی قیمت میں 0.2 فیصد یعنی 25 پیسے جبکہ مٹی کے تیل کی قیمت میں 83 پیسے کمی کی سفارش کی گئی۔ریگولیٹر کی جانب سے یکم دسمبر سے لائٹ ڈیزل آئل (ایل ڈی او) میں 2 روپے 90 پیسے فی لیٹر کمی کا کہا گیا۔اگر اوگرا کی جانب سے پیش کردہ سمری منظور ہوجاتی ہے تو ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 127 روپے 41 پیسے سے کم ہوکر 125 روپے ایک پیسے، پیٹرول کی قیمت 114 روپے روپے 24 پیسے کم ہوکر 113 روپے 99 پیسے فی لیٹر ہوجائے گی۔اسی طرح مٹی کے تیل کی قیمت اس منظوری سے 97 روپے 18 پیسے کم ہوکر 96 روپے 35 پیسے ہوجائے گی جبکہ ایل ڈی او 85 روپے 33 پیسے سے کم ہوکر 82 روپے 43 پیسے فی لیٹر ہوجائے گا۔تاہم اوگرا کی جانب سے پیٹرولیم ڈویژن کو بھیجی گئی سمری وزارت خزانہ کے بعد وزیراعظم کی منظوری کے لیے جائے گی۔جس کے بعد وزیر خزانہ اس نئی قیمتوں کا اعلان کرے گی، جس کا اطلاع یکم دسمبر سے ہوگا۔خیال رہے کہ حکومت نے 31 اکتوبر کو ماہ نومبر کے لیے اوگرا کی سفارش پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل کا اعلان کیا تھا

آئی ایم ایف ہدف کو پانے کیلئے بجلی کی قیمت میں مزید اضافہ

اسلام آباد: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹو بورڈ اجلاس سے قبل ایک اور ہدف پورا کرنے کے لیے حکومت نے بجلی کی قیمت فی یونٹ قیمت 26 پیسے کا اضافہ کردیا جبکہ نیپرا کی جانب سے فی یونٹ 15 پیسے اضافے کی مظوری دی گئی تھی۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس بات کا فیصلہ کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے اجلاس میں کیا گیا جس میں آٹے کی فی من (40 کلو) قیمت میں 15 روپے اضافہ کر کے اسے ایک ہزار 365 روپے کردیا گیا۔علاوہ ازیں اجلاس میں پنجاب کے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) سے چلنے والے 2 بجلی گھروں کو گیس کی 66 فیصد مقدار کی ’ضمانتی ادائیگی اور وصولی‘ سے بھی استثنیٰ دے دیا گیا۔ای سی سی اجلاس کی سربراہی وزیراعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کی۔واضح رہے کہ محکمہ توانائی کی سمری پر ای سی سی نے نیپرا کی جانب سے بجلی کی قیمت میں کیے گئے 15 پیسے فی یونٹ اضافے میں مزید 11 پیسے فی یونٹ اضافے کی منظوری دے دی جس کا اطلاق یکم دسمبر سے ہوگا، تاہم 300 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والے 3 کروڑ میں سے 2 کروڑ صارفین اس اضافے سے محفوظ رہیں گے جبکہ 10 لاکھ میں سے 6 لاکھ صارفین کے لیے بھی یہ اضافہ صرف 7 پیسے فی یونٹ کا ہوگا جبکہ اس کا اطلاق یکم دسمبر سے اگلے ایک سال کے لیے ہوگا۔ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے نے مستقبل میں بجلی کی قیمتوں کے تعین کے طریقہ کار کو مزید جامع اور سہل بنانے کے لیے اپنی سربراہی میں ایک کمیٹی بنانے کا بھی اعلان کیا، جس میں وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق مخدوم خسرو بختیار، وزیر توانائی عمر ایوب خان، مشیر صنعت و پیداوار عبد الرزاق داؤد اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر شامل ہوں گے

فیصل قریشی شوٹنگ کے دوران شدید زخمی

اداکار فیصل قریشی نے رواں سال اکتوبر میں اپنے مارننگ شو سلام زندگی کی آخری قسط کے دوران اعلان کیا تھا کہ وہ جلد نئے پروجیکٹس پر کام کرتے نظر آئیں گے اور اب ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے اپنے نئے ڈراموں کی شوٹنگ بھی شروع کردی۔اداکار نے حال ہی میں اعلان کیا کہ وہ مارننگ شو کے بعد بول ٹیلی ویژن کے گیم شو کی میزبانی کرتے نظر آئیں گے اور اب اداکار کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بھی وائرل ہورہی ہے جس میں وہ کسی ڈرامے کی شوٹنگ کررہے ہیں۔اہم فیصل قریشی کی اس ویڈیو کو دیکھ کر مداح کافی پریشان ہورہے ہیں، کیوں کہ اداکار اس ویڈیو میں ایک ایسے سین کی شوٹنگ کررہے ہیں جس میں انہیں تین گولیاں لگی ہیں۔اس سین کو شوٹ کرانے کے بعد اداکار کی ایک تصویر بھی شیئر ہوئی جس میں نقلی گولی لگنے سے ان کی پشت پر زخم بن گیا ہے۔بعدازاں ایک اور ویڈیو میں فیصل قریشی نے بتایا کہ وہ ٹھیک ہیں البتہ ان کے ساتھ موجود ٹیم ممبر کا کہنا تھا کہ وہ صرف جھوٹ بول رہے ہیں اور ان کی پیٹ پر شدید زخم بن گیا ہے۔

ایڈیلیڈ ٹیسٹ: آسٹریلیا کی پہلی اننگز میں بیٹنگ، پاکستانی ٹیم میں 3 تبدیلیاں

پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان پنک بال ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں میزبان ٹیم کی بیٹنگ جاری ہے۔ایڈیلیڈ میں کھیلے جا رہے میچ میں آسٹریلیا کے کپتان ٹم پین نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔آسٹریلیا نے ایک وکٹ کے نقصان پر 70 رنز بنا لیے ہیں۔ جو برنس 4 رنز بنا کر شاہن آفریدی کی گیند پر وکٹوں کے پیچھے کیچ آؤٹ ہوئے۔ ڈیوڈ وارنر 45 اور مارنس لبوشین 18 رنز کے ساتھ وکٹ پر موجود ہیں۔آسٹریلیا نے اپنی ٹیم کو برقرار رکھا ہے جب کہ پاکستانی ٹیم میں دوسرے ٹیسٹ کے لیے تین تبدیلیاں کی گئی ہیں۔19 سالہ فاسٹ بولر محمد موسیٰ اپنا ٹیسٹ ڈیبیو کر رہے ہیں، انہیں نوجوان فاسٹ بولر نسیم شاہ کی جگہ ٹیم میں شامل کیا گیا ہے۔  محمد موسیٰ کو سابق کپتان وسیم اکرم نے ٹیسٹ کیپ پہنائی۔حارث سہیل اور عمران خان کی جگہ امام الحق اور محمد عباس کو بھی ٹیم میں شامل کیا گیا ہے۔خیال رہے کہ آسٹریلیا نے پہلے ٹیسٹ میں پاکستان کو ایک اننگز اور 5 رنز سے شکست دی تھی۔

پنجاب: کتے کے کاٹنے سے بچہ جاں بحق حملہ سے مزید6 افراد زخمی

شیخوپورہ(بیورو رپورٹ) سندھ کے بعد پنجاب میں آوارہ کتوں کا وار جاری رہے جہاں کتے کے کاٹنے ے بعد ریبیز میں مبتلا ہونے والا بچہ جاں بحق ہو گیا جبکہ مزید 6 افراد کتوں کا شکار ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق شیخو پورہ میں کتے کے کاٹنے سے زخمی ہونے والا 10 سال کا بچہ لاہور کے میو ہسپتا ل میں انتقال کر گیا۔یوسف پارک فیروز والا کے محنت کش اشفاق کے 10 سالہ بیٹے علی احمد کو آوارہ کتے نے کاٹ لیا تھا۔اہلِ خانہ کے مطابق بچے کو شاہدرہ کے ٹیچنگ ہسپتا ل میں لے جایا گیا لیکن وہاں کتے کے کاٹے کی ویکسین دستیاب نہ تھی۔ ہسپتال کے عملے نے یہ کہہ کر انہیں گھر واپس بھیج دیا کہ بچے کی حالت بہتر ہے، 4 روز بعد بچے کو تیز بخار ہوا، جسے پھر ہسپتا ل لے گئے، جہاں ہسپتا ل انتظامیہ نے اسے ٹی بی کا مرض بتا دیا، اس طرح ہسپتا لوں میں چکر لگاتے رہے، آٹھویں دن لڑکا انتقال کر گیا۔ادھر مرید کے میں بھی کتوں نے 4 بچوں سمیت 5 افراد کو کاٹ لیا ۔ ملتان کے علاقے شجاع آباد میں کتے نے حملہ کر کے ایک شخص کو زخمی کر دیا، پولیس نے کتے کے مالک کو حراست میں لے لیا۔

آرمی چیف کی مدت کو متنازعہ بنانے والوں کے خلاف کاروائی کا فیصلہ

اسلام آباد(نیٹ نیوز)حکومت نے آرمی چیف کی مدت ملازمت کے معاملے کو متنازع بنانے والے تمام ذمے داروں کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کرلیا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق اعلی سطح مشاورتی اجلاس کے دوران وزیراعظم نے سمری بار بار غلطیاں کرنے پر شدید برہمی کااظہار کیا۔عدالتی فیصلے کے بعد اب غفلت کے مرتکب افسران کےخلاف کارروائی کی جائے گی۔

اداروں میں تصادم کی سازش کرنیوالوں کو عبرتناک شکست ہوئی ،عمران خان

اسلام آباد (نامہ نگار خصوصی، مانیٹرنگ ڈیسک) وزیراعظم عمران خان نے آرمی چیف مدت ملازمت توسیع کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر کہا اداروں میں تصادم چاہنے والوں کو شدیدمایوسی ہوئی جبکہ ہمارے بیرونی دشمنوں اور اندرونی مافیا کے لئے بھی آج برا دن ۔ تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر آرمی چیف مدت ملازمت توسیع کیس میں فیصلے پرردعمل دیتے ہوئے کہاکہ آج ان کو شدید مایوسی ہوئی ہوگی جو اداروں میں تصادم چاہتے تھے، ہمارے بیرونی دشمنوں اور اندرونی مافیا کیلئے بھی آج برا دن ہے۔عمران خان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے آزادعدلیہ کےلئے 23سال جدوجہد کی ہے، آزادعدلیہ کی تحریک کیلئے2007میں جیل بھی گیا چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کیلئے میرےدل میں بہت احترام ہے، چیف جسٹس آصف سعیدکھوسہ کوعدلیہ کی تاریخ کا عظیم جج سمجھتاہوں۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ یہ ہمارے بیرونی دشمنوں اور اندرونی مافیا کے لیے بھی مایوسی کا دن ہے، مافیا نے لوٹ کا مال بیرون ملک چھپایا ہوا ہے، لوٹی ہوئی دولت باہر بھیجنے والے مافیاز اس لوٹ مار کے تحفظ کے لیے ملک کوغیرمستحکم کررہے ہیں۔وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ 23 سال قبل ہماری پارٹی نے پہلی بار قانون کی بالا دستی اور آزاد عدلیہ کے لیے جدوجہد شروع کی، پی ٹی آئی 2007 میں عدلیہ کی آزادی کی تحریک میں صف اول میں تھی اور میں اس کے لیے جیل بھی گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا بھرپور احترام کرتا ہوں، ان کا شمار پاکستان کے عظیم ججوں میں ہوتا ہے۔

دراز ویب سائٹ پر جنسی ادویات کی فروخت دھڑلے سے جاری

لاہور (جنر ل رپورٹر‘ خبر نگار)پاکستان میں قانون سازی ہونے کے باوجود ملک اسمگل شدہ جنسی ادویات کا ایک گڑھ بننے لگا ، سوشل میڈیا پر ای کامرس جیسے جیسے ترقی کر رہا ہے اسی طرح ”دراز“ ویب سائٹ پر جنسی ادویات اور مختلف کریمیں اور سپرے کی تشہیر اور فروخ6دھڑلے سے جاری، ملک میں غیر ملکی اور غیر مستند جنسی ادویات غیر قانونی کاروبار نہ رک سکا ،فحش اشتہارات کمپنیاں سوشل میڈیا ویب سائٹس کو رقم ادا کرکے معاشرے میں بے راہ روی اختیار کر نے لگیں، قانون کی عملداری نہ ہونے کے باعث شہریوں کی زندگیاں داﺅ پر لگ گئیں ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ہر دوا کوخاص ٹیسٹ سے گزار کر مارکیٹ میں متعارف کروایا جاتا ہے تاہم دراز جنسی ادویات کسی قسم کے ٹرائل سے گزرے بغیر ہی فروخت کی جارہی ہیں۔ڈاکٹروں اور دوا بنانے کے ماہر افراد کا کہنا ہے کہ ان ادویات میں سے 70 فیصد غیر معیاری ہیں جبکہ انہوں نے خبردار کیا کہ ان دواو¿ں سے انسانی صحت کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔حکومت کی مداخلت سے سیکس ڈرگز کے کاروبار سے بھاری مقدار میں پیسے بنائے جاسکتے ہیں۔تاہم دراز کو جنسی ادویات کی فروخت کی کھلی چھٹی دے کر قومی خزانے کو کروڑوں کا نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ کنسلٹنٹ فزیشن ڈاکٹر فاروق نواز کا چینل فائیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جنسی ادویات معالج کے مشور کے بغیر ہرگز استعمال نہیں کرنی چاہیں ۔آن لائن ادویات ، کریمیں یا سپرے سے انسانی زندگی اور جلدکو خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ جنسی صلاحیت بڑھانے والی ادویات کے بے جا استعمال سے گردوں کی خرابی اور دل کا دورہ بھی پڑ سکتا ہے۔اس لئے مستند ڈاکٹر بغیر تحقیقات کے ایسی ادویات کے استعمال کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔روزنامہ خبریں کی خبر پر ٹیلی کمیونیکیشن کی نارویجن کمپنی ٹیلی نار نے اپنے ملک کے باشندے کی جانب سے قرآن کریم کی بے حرمتی کرکے مسلم امہ کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی مذمت کردی مگر عوامی غیض و غضب برقرار،عوام نے مذمت رد کردی،شہر شہر میں ناروے کے بدبخت شہری اورنارویجن پراڈکٹس کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے اور بائیکاٹ کا سلسلہ نا تھم سکا ، شہریوں نے اپنے غم و غصے کا اظہار نارویجن پراڈکس کو بائیکاٹ کرتے ہوئے ناروے کو معاشی طور پر جواب دینا شروع کردیا، ٹیلی نار کی وضاحت اور مذمت کو عوام نے رد کرتے ہوئے نیٹ ورک سمیت دیگر نارویجن مصنوعات کا استعمال ترک کردیا جبکہ عوام کو بڑے پیمانے پر استعمال ترک کرنے کی اپیل بھی کردی ہے ۔ تفصیل کے مطابق لاہور پریس کلب کے باہر شہریوں کی بڑی تعدادنے قرآن کریم کی بے حرمتی کرنےوالے ناروے کے باشندے کے خلاف مظاہرہ کیا گیا اور عوام سے نارویجن پراڈکٹس کے بائیکاٹ کی اپیل بھی کی ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ناروے کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرتے ہوئے ناروے کی تمام پراڈکٹس کا سرکاری سطح بائیکاٹ کیا جانا چاہیے جبکہ اس حوالے سے گورنمنٹ نارویجن مصنوعات پر سرکاری طور پر پابندی عائد کرکے کمپنیوں کو ملک بدر کرے ۔ معروف مذہبی سکالر حافظ ارشد کا کہنا ہے کہ ناروے کے شہری نے مسلم امہ کے خذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے جوکسی بھی مسلمان کے لئے نا قابل برداشت ہے اور ہم اپنے فرض سمجھتے ہیں کہ ایسی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں تاکہ ناروے کو احساس ہو سکے کہ کسی بھی شخص کو آزادی اظہاررائے کے نام پر دوسرے مذاہب کی توہین کا سلسلہ بند ہو سکے وگرنہ ہمیشہ کی طرح مسلمانوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہو تا رہے گا ۔ حافظ ارشد کا کہنا تھا کہ ہم عوام میں جس غم و غصے کو دیکھ رہے ہیں حکومت اس کو مدنظر رکھتے ہوئے فوری طورپر ناروے کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرتے ہوئے نارویجن مصنوعات پر پابندی عائد کرے اور کمپنیوں کو فی الفور ملک بدر کرے ۔

آرمی چیف کی توسیع پر عدالت نے بہتر درمیانی راستہ نکالا،ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہنہ مشق صحافی ضیا شاہد نے کہا ہے کہ قرآن پاک جلانے کی اپاک جسارت پر حکومت پاکستان نے ناروے کے سفیر کی طلبی کر کے فارن آفس میں احتجاج کیا ہے جس پر اس نے تسلیم کیا کہ یہ غلط قدم ہے اور آئندہ کے لئے وضاحت کر دی کہ آئندہ اپنے ملک میں ایسے کسی بھی فعل کو روکیں گے۔ یہ مستقل سلسلہ چل رہا ہے کبھی کسی ملک میں یہ جو ناپاک اور ملعون قسم کے لوگ ہیں یہ لعنت زدہ جو لوگ جب بھی کوئی قدم اٹھاتے ہیں تو پاک کلام کو جلانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن اس میں کامیابی نہیں ہوئی اس ضمن میں پاکستان نے او آئی سی میں یہ معاملہ لے جانے کا عندیہ ظاہر کیا ہے لگتا ہے کہ او آئی سی کے لیول پر پوری دنیا میں اس سلسلے میں قانون سازی کا مطالبہ ہو گا کہ ایک قانون بنایا جائے کہ یہ خاص طور پر انسانی جذبات خاص طور پر مذہب کے بارے اس کی توہین ہوتی ہے اس لئے اس صورت حال میں پوری دنیا میں ایک مہم چلائی جائے گی اس قدم کو اور اس قسم کی کسی بھی جسارت کو خلاف قانون قرار دیا جائے اور یہ دنیا کے مختلف ممالک میں جب کوئی قانون بنتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ آزادی اظہار ہے۔ آزادی اظہار کا مقصد کہاں ہے کہ دوسروں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی جائے۔ اس سلسلے میں او آئی سی کی بڑی کوتاہی ہے اسلامک کانفرنس اس پر بہت پہلے ایکشن لینا چاہئے تھا لیکن چونکہ یہ تنظیم بھی ایک طرح سے ناکارہ ہو چکی ہے اور اس کی داخلی انتشر کا شکار ہو چکی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جب پاکستان اور دوسرے بہت سے ممالک جو اس میں مداخلت کریں گے تو او آئی سی کو مجبور ہو کر کوئی بڑا اقدام کرنا ہو گا۔ اصل میں او آئی سی کے سرکردہ لوگ کوشش نہیں کر رہے لیکن اس کو مجبور کیا جا سکتا ہے کہ ہمارا ایک پلیٹ فارم تو ہے اس کو کیوں خالی چھوڑا جائے۔ اس پلیٹ فارم پر انکار کسی کو نہیں کوتاہی ہے۔ او آئی سی رسمی سی قرارداد منظور کر لیتے ہیں اس کے بعد خاموش ہو جاتے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری دنیا میں اور او آئی سی کو صرف مسلمان ممالک کی تنظیم ہے اس کے بینر تلے کوشش کر کے یو این او میں قانون سازی ہونی چاہئے اور اس قانون کو وہاں سے تسلیم کروانا چاہئے۔ زیادہ اسلامی ممالک داخلی انتشار کا شکار ہیں دوسرا یہ وہ سپر پاور کے اثرورسوخ میں اور سپر پاورز اس کو آزادی اظہار کا معاملہ قرار دیتی ہیں جو کہ غلط ہے ہمیں اس پر فائٹ کرنا چاہئے کہ یہ آزادی اظہار نہیں دوسروں کے جذبات کی توہین ہے۔ صرف قرآن پاک نہیں بلکہ مذہبی کتابیں جو ہیں اور نہ ہی شخصیات انبیاءکرام کے بارے میں کوئی دریدہ دہنی نہیں ہونی چاہئے۔ اس سے مشتعل ہو کر کوئی شخص کسی کو جان سے مار سکتا ہے۔ ایسا واقعہ پاکستان میں ہو جائے تو یہ دہشت گردی ہے اس سوال کے جواب میں ضیا شاہد نے کہا کہ دہشت گردی کی غلط تشریح ہے اصل دہشت گردی یہ ہے کہ آپ کسی کے بھی مذہبی جذبات کی توہین کریں کہ وہ لڑنے مرنے پر اتر آئے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ اے پی سی میں کیا ہونا ہے یہ معمول کی کارروائی ہو گی۔ جب اسلام آباد میں مولانا کا دھرنا تھات و اس وقت باقی جماعتوں نے ساتھ نہیں دیا۔ فضل الرحمن کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اب اے پی سی بلانا کھیسانی بلی کھمبا نوچے کی طرح کچھ نہ کچھ کرتے رہنا چاہئے۔ نوازشریف کے دونوں صاحبزادے لندن میں ہیں اور اسحق ڈار بھی لندن میں ہیں۔ شہباز شریف صاحب کو تو ان حالات میں ساتھ جانا ہی نہیں چاہئے تھا ان حالات میں شہبازشریف صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں کی طرح چل رہے ہیں وہ مولانا کے دھرنے میں ساتھ کھڑا ہونا بھی چاہتے تھے۔ وہ دھرنا میں تقریر کے بعد ایک منٹ بھی وہاں نہیں رکے۔ مسلم لیگ ن نے مولانا سے فائدہ حاصل کیا اسی دباﺅ سے انہوں نے باہرجانے کی اجازت حاصل کر لی۔ فرض کریں جو ڈاکٹر نوازشریف کا علاج کر رہے ہیں وہ دو لائنوں کی درخواستت لکھ دیں اور اس پر دستخط کر دیں کہ ابھی ان کو مزید علاج کی صرورت ہے تو بس ختم۰ چار ہفتے کی پابندی ختم۔ پھر وہ جب تک صحیح نہیں ہوں گے واپس تو نہیں آ سکتے۔
وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب کی 24 گھنٹے میں دوسری ملاقات اور صوبے میں انتظامی تبدیلیوں کے حوالے سے بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ ضیا شاہد نے کہا کہ بڑا فیصلہ سے مراد وزیراعلیٰ کی تبدیلی تو ہو نہیں سکتی۔ انہی وزیراعلیٰ سے کہا جاتا ہے کہ آپ کچھ افسر تبدیل کر لیں۔ جیسے کوئی بڑا واقعہ ہو جائے تو کہتے ہیں کہ پٹواری کو پکڑ لو یا نائب تحصیلدار کو فارغ کر دو۔ پنجاب کے جو معاملات ہیں۔ خاص طور پر مہنگائی، بیروزگاری اور گڈ گورننس کا نہ ہونا جس کے بارے میں شیخ رشید بھی یہی کہہ رہے کہ گڈ گورننس نہیں ہے کس حد تک تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ عمران خان صاحب کا اشارہ تو یہ ہے کہ جو افسر کام نہیں کرتا اس کو تبدیل کر دیں میرا خیال ہے پہلے بھی وزیراعلیٰ صاحب تبدیلیاں کرتےے رہتے ہیں۔ کچھ اور ہو جائیں گی۔ ایک دن میں پتہ چل جائے گا کیا واقعی کوئی بڑی تبدیللیاں ہیں۔ بلدیاتی الیکشن کی بات کی ہے عمران خان صاحب نے۔ وہ واقعی بہت بڑا قدم ہے اگر یہ بلدیاتی الیکشن کروا دیں واقعی ایک مقامی سطح پر ریلف سسٹم آ جائے گا۔ میری معلومات کے مطابق کچھ سٹے وغیرہ بھی ہیں اس کے راستے میں رکاوٹیں بھی ہیں۔ سرمایہ کاری میں بہت بڑی تبدیلی آئی ہے کہ چین نے اپنی الیکٹرانکس اور کھلونوں کی انڈسٹری کے 50 فیصد کو پاکستان میںمنتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے یہ بہت بڑی تبدیلی ہے یہاں اتنے زیادہ کارخانے لگیں گے کہ کھلونوں کو معمولی نہ سمجھیں پوری دنیا میں چائنا کے کھلونوں کی انڈسٹری پوری دنیا میں چھائی ہوئی ہے اور جو یہاں سامان بنے گا وہ ضروری نہیں پاکستان میں ہی بکے وہ یہاںپاکستان سے ایکسپورٹہو گا اور اس طرح سے دنیا بھر میں وہ پھیلے گا۔ چین نے اتنا بڑا اعلان کیا ہے کہ کسی بھی ملک کی صنعت کو 50 فیصد باہر منتقل کرنا بہت بڑی تبدیلی ہے اس سے پاکستان میں روزگار کا مسئلہ تو کافی حد تک حل ہوجائے گا۔ امریکہ کا سی پیک کے تکمیل کے بارے میں اس کی تردید پاکستان نے بھی کی اور چین نے بھی کی ہے۔ اگر اتنی انڈسٹری پاکسان میں لگ گئی جتنی چائنا کہہ رہا ہے تو چین کی انڈسٹری کا 50 فیصد چائنا بہت بڑا ملک ہے۔عدلیہ نے جو آج دو وزراءکے بارے میں جن کو اس بات پر پکڑ لیا تھا کہ توہین عدالت میں اور اس میں فردوس عاشق اعوان اور سرور خان کو ان کی معافی قبول ہو گئی ہے اور عدالت نے سختی سے کہا ہے کہ آئندہ احتیاط کریں۔ مجھے لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے فارن فنڈنگ کیس میں سے نکل گئے تو پھر تو تحریک انصاف کسی سے نہیں پکڑی جاتی لیکن اگر اس کیس میں ان پر کوئی افتاد آ گئی تو پھر دوسری بات ہے۔ فارن فنڈنگ کیس سنجیدہ معاملہ ہے، الزام ثابت ہونے کی صورت میں تحریک انصاف کے کونسلر سے لے کر ارکان اسمبلی و سینٹ سب فارغ ہو جائیں گے تاہم ایسا اس صورت میں ہو گا کہ سپریم کورٹ نے بھی الیکشن کمیشن کے فیصلہ کی توثیق کر دی۔ تحریک انصاف اس کیس سے بچ نکلتی ہے تو پھر اسے کوئی خطرہ نہ ہو گا۔ حکومت کے لئے بہت مشکلات ہیں وہ چند نشستوں پر کھڑی ہے اب وزیراعظم عمران خان پنجاب میں بیٹھے ہیں کہ یہاں بہتری لائی جا سکے تاہم پنجاب میں بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے چند ایک افسران کے تبادلے اور ایک دو وزیروں کو تبدیل کرنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ ن لیگ اور پی پی کے خلاف بھی فارن فنڈنگ کیس درج کرائے گئے ہیں تاہم ان کے اکاﺅنٹس کی جانچ پڑتال کے لئے تو کافی وقت درکار ہے اس لئے ان کو اس حوالے سے فوری کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔ چیف الیکشن کمشنر ریٹائرمنٹ سے قبل تحریک انصاف کے خلاف کیس کا فیصلہ دے سکتے ہیں۔
آصف زرداری کے خلاف مزید کیسز سامنے آ رہے ہیں جو سنجیدہ نوعیت کے ہیں اس لئے بلاول بھٹو مولانا فضل الرحمان کی بلائی اے پی سی میں جا رہے ہیں۔ جس طرح مولانا کے دھرنے سے نواز اور شہباز شریف کے لئے راستہ بنا اسی طرح بلاول بھی اے پی سی کے بعد کوئی تحریک چلانے میں کامیاب رہتے ہیں تو شاید آصف زرداری کے لئے کوئی نرم راستہ نکل سکتا ہے۔ بلاول اس وقت ابہام کا شکار ہیں کیونکہ سندھ جیسے مالدار صوبے کی حکومت بھی ان کے پاس ہے اس لئے وہ وفاقی حکومت کے خلاف تحریک ایک حد تک ہی چلا سکتے ہیں مولانا کے پاس تو چند نشستیں ہیں اس لئے کہہ سکتے ہیں کہ استعفے دے دو تاہم بلاول کے لئے یہ فیصلہ آسان نہیں ہے۔ مولانا کا دعویٰ ہے کہ انہیں چیئرمین سینٹ اور گورنر کے عہدے کی پیش کش ہوئی، ان کی نظر بلوچستان حکومت پر ہے وہ چاہتے ہیں کہ دیگر پارٹیوںکی طرح ان کی بھی ایک صوبے میں حکومت ہو۔

سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی مشروط توسیع دے دی

سپریم کورٹ آف پاکستان نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس میں سماعت کے بعد مختصر فیصلہ سناتے ہوئے انہیں 6 ماہ کی مشروط توسیع دے دی۔
عدالت میں وفقے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل اور فروغ نسیم عدالت میں پیش ہوئے اور نئی دستاویز پیش کیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ انتظار پر معذرت خواہ ہیں، جس کے بعد ججز نے دستاویز کا جائزہ لیا، بعد ازاں مختصر فیصلہ سنایا گیا۔
عدالت کا فیصلہ
بعدازاں عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا کہ آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی یا توسیع چیلنج کی گئی، حکومت ایک سے دوسرا موقف اپناتی رہی، کبھی دوبارہ تعیناتی کبھی دوبارہ توسیع کا کہا جاتا رہا۔عدالت نے فیصلے میں کہا کہ آئین کے مطابق صدر افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر ہیں۔اپنے فیصلے میں عدالت نے کہا کہ 6 ماہ میں قانون سازی تک آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ہی رہیں گے۔سپریم کورٹ نے کہا کہ آج عدالت کو نئی سمری نوٹیفکیشن پیش کیے گئے، نوٹیکفیشن کے مطابق جنرل باجوہ کو آرمی چیف تعینات کیا گیا، حکومت نے جنرل باجوہ کی نئی تعیناتی 28 نومبر سے دی۔عدالت نے کہا کہ آرمی چیف کو قانون سازی سے مشروط 6 ماہ کی توسیع دی گئی کیونکہ آرمی چیف کی مدت تعیناتی کا قانون میں ذکر نہیں،آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ محدود یا معطل کرنے کا بھی کہیں ذکر نہیں۔
فیصلے کے مطابق حکومت، عدالت میں آرٹیکل 243 بی پر انحصار کر رہی ہے اور عدالت نے اسی آرٹیکل سے متعلق قوانین کا جائزہ لیا۔قبل ازیں اس اہم کیس پر سب کی نظریں تھیں کیونکہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت آج رات ختم ہورہی ہے اور حکومت کے پاس یہ آخری موقع تھا کہ وہ ان کی مدت ملازمت میں توسیع کے اقدام پر عدالت کو مطمئن کرے۔عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مظہر عالم پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے جیورسٹ فاو¿نڈیشن کے وکیل ریاض حنیف راہی کی جانب سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف درخواست پر مسلسل تیسرے روز سماعت کی۔
عدالت کی جانب سے دوبارہ سماعت شروع کرنے سے قبل حکومت کو ان ہدایت پر عمل کرنے کا کہا گیا۔
بیان حلفی جمع کروائیں کہ اس معاملے پر 6 ماہ میں قانون سازی کریں گے
ترمیمی نوٹیفکیشن
اس ترامیمی نوٹیفکیشن میں ان نکات کی ہدایت کی گئی
– نوٹیفکیشن سے سپریم کورٹ کا ذکر حذف کیا جائے
– آرمی چیف کی 3 سال کی مدت کا ذکر نکالا جائے
– آرمی چیف کی تنخواہ و مراعات کو واضح کیا جائے
سماعت کا احوال:
حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل انور منصور خان دلائل دے دیے جبکہ سابق وزیرقانون فروغ نسیم بھی عدالت میں موجود رہے جبکہ پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کی جانب سے فروغ نسیم کا بار کونسل کا لائسنس بحال کر دیا۔
جنرل کیانی کی ایکسٹینشن، جنرل راحیل کی ریٹائرمنٹ کی دستاویز طلب
سماعت کے آغاز میں ہی سپریم کورٹ نے جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن طلب کرلیا، ساتھ ہی سابق فوجی سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کی دستاویز بھی طلب کرلی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جنرل (ر) کیانی کی توسیع کس قانونی شق کے تحت کی گئی، ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ جنرل (ر) پرویز کیانی کی ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں کیا پینشن ملی تھیں۔ساتھ ہی سپریم کورٹ نے 15 منٹ کا وقفہ کردیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ 15 منٹ میں دونوں چیزیں فراہم کریں تب تک دیگر کیسز سن لیتے ہیں۔
عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے کہا کہ سوال یہ بھی ہے آپ نے کہا ہے جنرل کبھی ریٹائر نہیں ہوتے، اگر آرمی جنرل ریٹائر نہیں ہوتا تو جنرل راحیل شریف کس رول کے تحت ہوئے۔ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ سوال یہ بھی ہے اگر ریٹائر نہیں ہوتے تو پینشن بھی نہیں ہوتی، جائزہ لیں گے کہ جنرل (ر) کیانی کی توسیع کن بنیادوں پر ہوئی تھی، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس معاملے پر عدالت کی معاونت کرنا چاہتا ہوں اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ یہ دستاویزات لے آئیں پھر آپ کو تسلی سے سن لیں گے۔بعد ازاں مختصر سے وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوگیا ہے۔
سمری سے عدالت کا نام نکالیں، چیف جسٹس
اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سمری میں تو عدالتی کارروائی کا بھی ذکر کیا گیا ہے، آپ بوجھ خود اٹھائیں ہمارے کندھے کیوں استعمال کرتے ہیں، اپنا کام خود کریں، ہمیں درمیان میں کیوں لاتے ہیں۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدالت کا نام استعمال کیا گیا تاکہ ہم غلط بھی نہ کہہ سکیں، سمری میں سے عدالت کا نام نکالیں، تعیناتی قانونی ہے یا نہیں وہ جائزہ لیں گے، آج سے تعیناتی 28 نومبر سے کردی۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ آج تو جنرل باجوہ پہلے ہی آرمی چیف ہیں، جو عہدہ خالی ہی نہیں اس پر تعیناتی کیسے ہو سکتی ہے، لگتا ہے اس بار کافی سوچ بچار کی گئی ہے، تعیناتی ہوئی ہی آئین کے مطابق ہے۔ساتھ ہی چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کی ایڈوائس والا حصہ سمری سے نکالیں، صدر اگر ہماری ایڈوائس مانگیں تو وہ الگ بات ہے۔
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کو بار بار پڑھتے ہیں تو نئی چیز کھل جاتی ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم تو پہلی بار پڑھتے ہیں تو کچھ نکل آتا ہے۔عدالت نے کہا کہ سمری نوٹیفکیشن میں عدالت عظمیٰ کا ذکر نہ کریں، ہمارا ذکر غیر ضروری ہے، سمری میں عدالت کو بھی بریکٹ میں ڈال دیا گیا،عدالت عظمی کا سمری سے کوئی تعلق نہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت ان الفاظ کو حذف کر دے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کآپ تو کہتے ہیں کہ حکومت نے کوئی غلطی نہیں کی۔
سمری میں آرمی چیف کی تنخواہ کا ذکر ہے نہ مراعات کا، عدالت
اسی دوران جسٹس منصور نے نکتہ اٹھایا کہ 3 سال کی مدت کا ذکر تو قانون میں کہیں نہیں ہے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ سمری میں آرمی چیف کی تنخواہ کا ذکر ہے نہ مراعات کا تذکرہ ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پہلے توسیع ہوتی رہی اور کسی نے جائزہ نہیں لیا، کوئی دیکھتا نہیں کہ کنٹونمنٹ میں کیا ہو رہا ہے، کس قانون کے تحت کوئی کام ہو رہا ہے، اب آئینی ادارہ اس مسئلے کا جائزہ لے رہا ہے، آئینی عہدے پر تعیناتی کا طریقہ کار واضح لکھا ہونا چاہیے۔
آرمی ایکٹ کا جائزہ لیا تو بھارت اور سی آئی اے ایجنٹ کہا گیا، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کل آرمی ایکٹ کا جائزہ لیا تو بھارتی اور سی آئی اے کے ایجنٹ کہا گیا، اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہماری بحث کا بھارت میں بہت فائدہ اٹھایا گیا، سوشل میڈیا کسی کے کنڑول میں نہیں۔
اٹارنی جنرل کی بات پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں ففتھ جنریشن وار کا حصہ ٹھہرایا گیا، یہ ہمارا حق ہے کہ ہم سوال پوچھیں، آئینی اداروں کے بارے میں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔اسی دوران جسٹس منصور نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے بھی کل پہلی بار آرمی قوانین پڑھیں ہوں گے، آپ تجویز کریں آرمی قوانین کو کیسے درست کریں۔سماعت کے دوران ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نوٹیفکیشن میں مدت 3 سال لکھی گئی ہے، اگر زبردست جنرل مل گیا تو شاید مدت 30 سال لکھ دی جائے، ایک واضح نظام ہونا چاہیے جس کا سب کو علم ہو، 3 سال تعیناتی اب ایک مثال بن جائے گی، ہو سکتا ہے اگلے آرمی چیف کو حکومت ایک سال رکھنا چاہتی ہو۔اسی دوران جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ واضح ہونا چاہیے جنرل کو پینشن ملتی ہے یا نہیں، اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مدت مکمل ہونے کے بعد جنرل ریٹائر ہوجاتا ہے، جس پر جسٹس منصور نے کہا کہ کل ہم کہہ رہے تھے کہ جنرل ریٹائرڈ ہوتے ہیں تو آپ کہہ رہے تھے کہ نہیں ہوتے، پھر آج آپ کہہ رہے ہیں کہ جنرل ریٹائرڈ ہو رہے ہیں۔
پارلیمنٹ آرمی ایکٹ کو اپڈیٹ کرے تو نئے رولز بنیں گے، عدالت
دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں ابہام ہے، ساتھ ہی جسٹس منصور نے کہا کہ پارلیمنٹ کو اس ابہام کو دور کرنا ہے۔ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ سے بہتر کوئی فورم نہیں جو سسٹم ٹھیک کر سکے، جس پر چیف جسٹس نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ آرمی ایکٹ کو اپڈیٹ کرے تو نئے رولز بنیں گے۔
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی ایکٹ کابینہ کے سامنے رکھ کر ضروری تبدیلیاں کریں گے،جس پر جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس دیے کہ یہ بھی طے کرلیا جائے کہ آئندہ توسیع ہوگی یا نئی تعیناتی۔عدالتی ریمارکس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین میں 18 مختلف غلطیاں مجھے نظر آتی ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ غلطیوں کے باوجود آئین ہمیں بہت محترم ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت پہلی بار آئین پر واپس آئی ہے، جب کوئی کام آئین کے مطابق ہو جائے تو ہمارے ہاتھ بندھ جاتے ہیں،تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ عدالت کا کندھا استعمال نہ کیا جائے ورنہ آئندہ کے لیے بھی سپریم کورٹ کا نام استعمال ہوگا۔
عدالت نے توسیع کر دی تو یہ قانونی مثال بن جائے گی، چیف جسٹس
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 243 میں 3 سال تعیناتی کا ذکر نہیں، 3 سال کی تعیناتی کی مثال ہوگی لیکن یہ قانون نہیں،عدالت نے توسیع کر دی تو یہ قانونی مثال بن جائے گی، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جہاں مدت کا ذکر نہ ہو وہاں حالات کے مطابق مدت مقرر ہوتی ہے۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ لگتا ہے تعیناتی کے وقت حکومت نے آرٹیکل 243 میں پڑھتے ہوئے اس میں اضافہ کر دیا، آرمی چیف کو توسیع دینا آئینی روایت نہیں، گزشتہ 3 آرمی چیف میں سے ایک کو توسیع ملی دوسرے کو نہیں، اب تیسرے آرمی چیف کو توسیع ملنے جا رہی ہے۔عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 243 کے مطابق تعیناتی کرنی ہے تو مدت نکال دیں، ساتھ ہی جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کم از کم آرٹیکل 243 پر تو مکمل عمل کریں، نہ تنخواہ کا تعین کیا گیا نہ ہی مراعات کا ذکر ہے۔اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ غیر معینہ مدت کے لیے بھی تعیناتی نہیں ہو سکتی، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے بھی جنرل باجوہ کو غیر معینہ مدت کے لیے تعینات کیا گیا۔
قانون سازی کیلئے 3 ماہ کا وقت چاہیے، اٹارنی جنرل
اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ رولز میں ترمیم کرتے رہے ہیں، پھر ہم نے ایڈوائزری کردار لکھ دیا، ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ابھی جاکر قانون بنا کرآئیں، جوقانون 72 سال میں نہیں بن سکتا وہ اتنی جلدی میں بھی نہیں بن سکتا، جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اس وقت میرے پاس کوئی بھی قانون نہیں سوائے ایکدستاویزات کے، ہم کوشش کررہے ہیں کہ اس معاملے پر کوئی قانون بنائیں۔اٹارنی جنرل کی بات پر عدالت نے پوچھا کہ قانون بنانے میں کتنا وقت لیں گے، جس پر انور منصور نے جواب دیا کہ ہمیں 3 ماہ کا وقت چاہیے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ سے 72 سال میں قانون نہیں بنا اتنی جلدی کیسے بنائیں گے۔جس پر عدالت نے جنرل قمر باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے مشروط رضامندی ظاہر کرتے ہوئے کہا آپ نے کہا ہے کہ قانونی سازی کے لیے 3 ماہ چاہیے، تو ہم 3 ماہ کے لیے اس کی توسیع کردیتے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جنہوں نے ملک کی خدمت کی ان کا بہت احترام ہے لیکن ہمیں آئین اور قانون کا سب سے زیادہ احترام ہے۔سماعت کے دوران فروغ نسیم روسٹرم پر آئے تو انور منصور نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ فروغ نسیم کا بھی مسئلہ حل ہو گیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت کی مداخلت سے مسئلے حل ہو جائیں گے، جب تک عدالت میں مسئلہ نہیں آئے گا تو کیسے حل ہوگا، ہمارے پاس ریاض راہی آئے ہم نے جانے نہیں دیا، لوگ کہتے ہیں عدالت خود نوٹس لے، ہمیں جانا نہ پڑے، عدالت کے دروازے کھلے ہیں کوئی آئے تو سہی۔
جنرل کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کی دستاویز پیش
سماعت کے دوران جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کی توسیع کی دستاویزات عدالت میں پیش کی گئیں۔اس کو چیف جسٹس نے دیکھا اور کہا کہ کہیں نہیں لکھا جنرل (ر) پرویز کیانی کو توسیع کس نے دی تھی،جس قانون کے تحت توسیع دی گئی اس کا بھی حوالہ دیں، اتنے اہم عہدے کے لیے تو ابہام ہونا ہی نہیں چاہیے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جنرل راحیل کو تو پنشن مل رہی ہے، رولز میں تو جنرل کی پنشن کا ذکر ہی نہیں، ملک پر حکومت کرنے والے ہمیں عزیز ہیں لیکن آئین اور قانون ہمیں سب سے بالاتر ہے۔
عدالت کی حکومت کو بیان حلفی جمع کروانے کی ہدایت
سماعت کے دوران فروغ نسیم نے کہا کہ ہم تحریری طور لکھ کر دیتے ہیں کہ عدالت جو کہہ رہی ہے اس پر عمل کریں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ یقین دہانی کروا رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کا ذکر سمری میں سے حذف کریں گے۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ سمری سے عدالت کا نام اور 3 سال کی مدت نکال دیں گے جبکہ تنخواہ اور مراعات سے متعلق چیزیں سمری میں واضح کریں۔ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ ایک بیان حلفی جمع کروائیں کہ 6 ماہ میں آئین کے آرٹیکل 243 میں قانون سازی کریں گے اور آرمی چیف کی مدت، تعیناتی، توسیع، الاو¿نس و دیگر چیزیں واضح کی جائیں گی کیونکہ یہ آرٹیکل خاموش ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم چاہتے ہیں کہ تمام چیزیں ریکارڈ کا حصہ ہو، قانون درست ہونا چاہیے، یہ یہ وقت کا ضیاع ہے یہ کام حکومت کا تھا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم جن قانونی پیچیدگیوں کی طرف نشاندہی کر رہے ہیں، اس سے آپ کو تکلیف تو ہوگی لیکن اس کو شرمندگی نہ سمجھا جائے۔انہوں نے ریمارکس دیے کہ آرمی چیف ملک کے دفاع پر نظر رکھیں یا ان سمریوں کو دیکھیں، آرمی چیف کے لیے ملک کے دفاع کی بجائے سمریوں پر نظر رکھنا باعث شرمندگی ہے، ہم حتمی رائے قائم نہیں کر رہے، اس حوالے سے مختصر فیصلہ دیں گے اور تفصیلی فیصلے میں طریقہ کار واضح کریں گے، اگر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو تباہی ہو سکتی ہے۔بعد ازاں عدالت نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اگر دوپہر تک درستی ہوجائے تو زیادہ بہتر ہوگا، آج دوپہر تک غور کرکے فیصلہ سنائیں گے، ایک بجے تک درستی کرکے آجائیں۔
جس کے بعد مذکورہ کیس کی سماعت میں ایک بجے تک وقفہ کردیا گیا۔
گزشتہ روز کیا ہوا؟
اس اہم کیس کی گزشتہ روز کی سماعت میں عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ ہمارے سامنے 3 اہم نکات ہیں جسے ہم دیکھیں گے اور قانون کے مطابق فیصلہ کریں گے۔پہلا معاملہ قانونی ہے، دوسرا طریقہ کار سے متعلق ہے جبکہ تیسرا معاملہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی وجوہات کے بارے میں ہے۔سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ پہلے 2 معاملات بہت اہم ہیں اور اسی کی بنیاد پر عدالت اپنا فیصلہ سنائے گی۔اگر سپریم کورٹ 29 نومبر سے پہلے اس کیس کا فیصلہ کردیتی تو جنرل قمر جاوید باجوہ اپنی سروسز جاری رکھنے کے قابل ہوں گے۔گزشتہ روز عدالت میں طویل ترین سماعت کے دوران چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے منگل کو کابینہ اجلاس کے بعد آنے والے نوٹیفکیشن پر برہمی کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے ‘دوبارہ تقرری’ کی منظوری کے لیے سمری صدر مملکت کو بھیجی اور نئی تقرری آئین کے آرٹیکل 243 (4) کے تحت ہوتی ہے لیکن جو نوٹیفکیشن جاری ہوا وہ آرمی چیف کو مزید 3 سال کے لیے ‘توسیع’ دینے کا تھا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی نے دوبارہ سمری پڑھنے کی زحمت بھی نہیں کی، کیا لکھا ہے اور کیا بھیج رہے ہیں یہ پڑھنے کی بھی زحمت نہیں کی۔اس پر اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ وزارتی معاملات ہیں غلطیاں ہوجاتی ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ایسے تو اسسٹنٹ کمشنر کی تعیناتی نہیں ہوتی جیسے آرمی چیف کی تعیناتی کی جارہی ہے، آج آرمی چیف کے ساتھ یہ ہو رہا تو کل صدر اور وزیراعظم کے ساتھ ہوگا۔عدالتی سماعت کے بعد وزیراعظم عمران خان نے اگلی سماعت کی حکمت عملی کے لیے ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا تھا، جس میں جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت دیگر کئی وزرا شریک ہوئے تھے۔بعد ازاں عدالتی نشاندہی کو مدنظر رکھتے ہوئے گزشتہ شب جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے ایک نیا مسودہ تیار کیا گیا تھا، جس کو عدالت میں پیش کیے جانے کا امکان ہے۔
آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن کب معطل ہوا؟
خیال رہے کہ منگل 26 نومبر کو ہونے والی پہلی سماعت میں ہی سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے ا?رمی چیف، وفاقی حکومت اور وزارت دفاع کو نوٹس جاری کردیے تھے۔سماعت کے بعد عدالتی حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ وزیراعظم نے 19 اگست کو اپنے طور پر آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن جاری کیا، جب اس نوٹیفکیشن میں غلطی کا احساس ہوا تو وزیراعظم نے سمری صدر کو بھجوائی جس کی صدر نے منظوری دی۔سپریم کورٹ نے حکم نامے میں کہا تھا کہ علاقائی سیکیورٹی کی صورتحال کے پیش نظر آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع دی جارہی ہے، خطے کی سیکیورٹی صورت حال والی بات عمومی ہے، علاقائی سیکیورٹی سے نمٹنا فوج کا بطورادارہ کام ہے کسی ایک افسر کا نہیں، علاقائی سیکیورٹی کی وجہ مان لیں تو فوج کا ہر افسر دوبارہ تعیناتی چاہے گا۔عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ اٹارنی جنرل مدت ملازمت میں توسیع یا نئی تعیناتی کا قانونی جواز فراہم نہ کرسکے، اٹارنی جنرل نے قانون کی کوئی ایسی شق نہیں بتائی جس میں چیف آف آرمی اسٹاف کی مدت ملازمت میں توسیع اور دوبارہ تعیناتی کی اجازت ہو۔حکم نامے میں عدالت نے کہا تھا کہ آرمی رولز کے تحت صرف ریٹائرمنٹ کو عارضی طورپر معطل کیا جاسکتا ہے، ریٹائرمنٹ سے پہلے ریٹائرمنٹ معطل کرنا گھوڑے کے آگے گاڑی باندھنے والی بات ہے۔
جنرل قمر باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کب ہوئی؟یاد رہے کہ رواں سال 19 اگست کو چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع کردی گئی تھی۔وزیراعظم آفس سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے موجودہ مدت مکمل ہونے کے بعد سے جنرل قمر جاوید باجوہ کو مزید 3 سال کے لیے آرمی چیف مقرر کیا۔نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ علاقائی سیکیورٹی کی صورتحال کے تناظر میں کیا گیا۔آرمی چیف کو مزید 3 برس کے لیے پاک فوج کا سربراہ مقرر کرنے کے فیصلے کا مختلف سیاستدانوں اور صحافی برادری نے خیر مقدم کیا تھا۔تاہم چند حلقوں کی طرف سے حکومت کے اس فیصلے پر تنقید بھی کی جارہی تھی۔خیال رہے کہ 29 نومبر 2016 کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت مکمل ہونے کے بعد ان کی جگہ پاک فوج کی قیادت سنبھالی تھی، انہیں ا±س وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے فوج کا سربراہ تعینات کیا تھا۔

امریکی سفیر پر خواتین کو’جنسی ہراساں‘ کرنے کے الزامات

امریکا:(ویب ڈیسک)یورپی یونین (ای یو) میں امریکا کے سفیر اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے انتہائی قریب ساتھیوں میں شمار کیے جانے والے 62 سالہ گورڈن سونڈ لینڈ پر کم سے کم 3 خواتین نے جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات عائد کردیے۔گورڈن سونڈ لینڈ پر ایک ایسے وقت میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات سامنے آئے ہیں جب کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی کارروائی جاری ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے میں گورڈن سونڈ لینڈ کا کردار انتہائی اہم ہے اور وہ امریکی صدر کے اسی مقدمے میں گواہ بھی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف امریکی ایوان کی خصوصی کمیٹی مواخذے کی تفتیش کر رہی ہے۔مذکورہ مواخذہ اسپیکر نینسی پلوسی کی اجازت کے بعد شروع کیا گیا، اگر ڈونلڈ ٹرمپ پر الزامات سچ ثابت ہوئے تو انہیں عہدے سے ہٹایا جا سکے گا۔ڈونلڈ ٹرمپ پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے ڈیموکریٹک حریف اور نائب صدر جو بائیڈن کو نقصان پہنچانے کے لیے یورپی ملک یوکرین کے صدر سے مدد طلب کی اور انہیں مشروط امداد دینے کا کہا۔الزامات کے تحت ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین پر زور دیا کہ اگر وہ امریکی امداد چاہتے ہیں تو یوکرین جوبائیڈن اور ان کے بیٹے کے خلاف کرپشن کے الزامات لگا کر تفتیش کرے۔ان ہی الزامات کے تحت ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مواخذہ کی تفتیش جاری ہے اور اسی کیس میں یورپی یونین میں امریکی سفیر گورڈن سونڈ لینڈ بھی گواہ کے طور پر پیش ہوئے، وہ امریکی صدر کے گواہ کے طور پر پیش ہوئے۔گورڈن سونڈ لینڈ پر بھی الزام ہے کہ انہوں نے یورپی یونین کے سفیر کے طور پر امریکی صدر کا ساتھ دیا۔ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی کارروائی کے دوران ہی گورڈن سونڈ لینڈ پر تین خواتین نے جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات عائد کردیے۔امریکی میگزین ’پرو پبلیکا‘ میں شائع ایک طویل مضمون میں امریکی سفیر پر تین خواتین نے زبردستی کرنے اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات عائد کیے۔گورڈن سونڈ لینڈ پر جن تین خواتین نے جنسی ہراساںی کے الزامات لگائے وہ ممکنہ طور پر تینوں امریکی ریاست اوریگن کے سب سے بڑے شہر پورٹ لینڈ سے تعلق رکھتی ہیں۔الزامات لگانے والی خواتین نےدعویٰ کیا کہ گورڈن سونڈ لینڈ نے انہیں 2003 سے 2008 کے درمیان مختلف مواقع پر جنسی ہراسانی کا نشانہ بنانے سمیت ان کے ساتھ زبردستی کی۔الزام لگانے والی ایک خاتون نکولے ووگل نے دعویٰ کیا کہ گورڈن سونڈ لینڈ نے انہیں 2003 میں پورٹ لینڈ میں واقع اپنے ایک ہوٹل دیکھنے کی دعوت دی اور اسی دوران ہی انہوں نے ان کے ساتھ زبردستی کی۔خاتون نے الزام عائد کیا کہ امریکی سفیر نے انہیں ہوٹل کا کوئی ایک کمرہ دیکھنے کی بھی دعوت دی اور وہ جب ہوٹل کے کمرے میں پہنچیں تو گورڈن سونڈ لینڈ نے ان کے ساتھ زبردستی کرکے ان کا بوسہ لیا۔امریکی سفیر پر الزام لگانے والی دوسری خاتون جانا سولس نے بھی اس سے ملتے جلتے الزامات لگاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ گورڈن سونڈ لینڈ نے 2008 میں انہیں اپنے ہوٹل میں ملازمت کی پیش کش کرتے ہوئے ان کے لیے نامناسب الفاظ استعمال کیے۔خاتون نے دعویٰ کیا کہ گورڈن سونڈ لینڈ نے ان کا زبردستی بوسہ لینے سمیت ان کے جسم پر نامناسب انداز میں ہاتھ پھیرے۔گورڈن سونڈ لینڈ پر تیسری خاتون نتالی سیپٹ نے دعویٰ کیا کہ امریکی سفیر نے انہیں اپنے گھر بلاکر ان کے ساتھ زبردستی کی۔خاتون کے مطابق گورڈن سونڈ لینڈ نے انہیں گھر بلاکر ملازمتوں کے مواقع پر بات کرنے کے دوران جنسی طور پر ہراساں کیا اور زبردستی ان کا بوسہ لیا۔تینوں خواتین نے امریکی سفیر پر جنسی ہراسانی، زبردستی کرنے اور نامناسب گفتگو کرنے جیسے الزامات لگائے، تاہم دوسری جانب گورڈن سونڈ لینڈ نے تمام الزامات کو من گھڑت قرار دیا۔گورڈن سونڈ لینڈ نے اپنی آفیشل ویب سائٹ پر امریکی میگزین کے مضمون کو ’عیار صحافت‘ کا نام دیا اور دعویٰ کیا کہ ان کے خلاف لگائے گئے تمام الزامات جھوٹے ہیں۔گورڈن سونڈ لینڈ کا کہنا تھا کہ انہیں ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھی ہونے اور مواخذے کی کارروائی میں ان کے حق میں بیان دینے پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

سجاد علی کا نیا گانا ‘راوی’ گھر سے دور پردیسیوں کے نام

کراچی :(ویب ڈیسک)سجاد علی کا شمار پاکستان کے لیجنڈری گلوکاروں میں کیا جاتا ہے، جو اپنے کیریئر میں کئی کامیاب گانے مداحوں کو دے چکے ہیں۔گلوکار نے اپنا ایک اور گانا ‘راوی’ بھی ریلیز کردیا، سجاد علی کے مطابق ‘یہ گانا ان کے لیے ہے جو گھر سے دور اپنا گھر بنالیتے ہیں، وہ افراد جو اپنی فیملی اور دوستوں کو یاد کرتے ہیں، اپنے بچپن کو یاد کرتے ہیں، اپنی زبان کی خوبصورتی، اپنی ثقافت اور ہر وہ بات جو ان کی پہچان بناتی ہے اسے یاد کرتے ہیں’۔انہوں نے اس پنجابی گانے کو تمام پردیسیوں کے نام کیا ہے۔گانے کی ویڈیو کو دیکھ کر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اس کی شوٹنگ پاکستان سے باہر کی گئی ہے جہاں سجاد علی اپنی فیملی کو یاد کررہے ہیں۔واضح رہے کہ اس گانے کے بول بھی خود سجاد علی نے تحریر کیے ہیں جبکہ کمپوزیشن بھی ان کی ہی ہے۔گانے کا میوزک شابی علی نے دیا جبکہ ویڈیو عمیر شہزاد نے بنائی ہے۔اس گانے کو سوشل میڈیا پر سجاد علی کے مداح بےحد پسند کررہے ہیں۔اس گانے کو یوٹیوب پر اب تک ایک لاکھ 60 ہزار سے زائد مرتبہ دیکھا اور سنا جاچکا ہے۔سجاد علی نے اپنے کیریئر میں کئی کامیاب گانوں کی گلوکاری کی ہے، ان میں ‘تم ناراض’، ‘ہر ظلم’، ‘رونے نہ دیا’ شامل ہیں۔ان کے کیریئر کا پہلا البم 1979 میں ریلیز ہوا تھا، جو فوری کامیاب ثابت ہوا۔