آصف زرداری کے خیر خواہ کچھ دینے دلانے کی بات کر رہے ہیں: شیخ رشید

لاہور: (ویب ڈیسک) شیخ رشید نے کہا ہے کہ آصف زرداری کے خیر خواہ کچھ دینے دلانے کی بات کر رہے ہیں، عمران خان کسی صورت بھی این آر او نہیں دے گا، مسلم لیگ ن بھی کچھ دینے پر تیار ہو جائے تو بات بن سکتی ہے۔ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا مرکز میں ن لیگ ٹو بننے جا رہی ہے، ن لیگ ٹو کی قیادت شہباز کرتے ہیں یا چودھری نثار کچھ نہیں کہہ سکتا، میں کہہ چکا ہوں کہ شہباز شریف میری پارٹی کے آدمی ہیں، بھارتی میڈیا میں ایک ہی خبر ہے شیخ رشید کو کرنٹ لگ گیا، مسئلہ کشمیر کا مذاکرات کے ذریعے حل دونوں ممالک کے مفاد میں ہے، مودی سن لو بھارت میں 22 پاکستان بنیں گے۔ادھر شیخ رشید نے جناح ایکسپریس کے کرائے میں 500 روپے کمی کا اعلان کرتے ہوئے کہا 6 ستمبر سے جناح ایکسپریس کا کرایہ 500 روپے کم کر رہے ہیں، 6 ستمبر کو بہاولپور ریلوے سٹیشن کا افتتاح کریں گے، سندھ میں بارشوں کی وجہ سے ریلوے نظام کو نقصان پہنچا، بارشوں نے مسافر ٹرینوں سے زیادہ مال گاڑیوں کو متاثر کیا۔

تعلیمی وظائف ،لیپ ٹاپ کے نام پر ماہا نہ کروڑوں لوٹنے والے جعلساز نیٹ روک کا انکشاف

ملتان(سیدمہدی گردیزی) پاکستان کے مختلف شہروں میں جعلسازی کے ایک ایسے نیٹ ورک کاانکشاف ہواہے جومستحق طلباءوطالبات کو تعلیمی وظائف اور لیپ ٹاپ دینے کے بہانے رجسٹریشن فیس کی مدمیں ہرماہ کروڑوں روپے لوٹ رہے ہیں نہ کسی کو وظیفہ ملتا ہے نہ لیپ ٹاپ ملتا ہے اورطلباءوطالبات رجسٹریشن کرواکر انتظار کرتے کرتے بالآخر پیچھاکرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ مستحق طلباءوطالبات کولوٹنے کے لئے اسلام آباد کے ایک نجی ادارے ایس ٹی ایس( سٹینڈر ٹیسٹ سروس) نے سوشل میڈیا پر ایک اشتہار اپ لوڈکیاہے اس اشتہارمیں واضح طور پر لکھاگیاہے کہ طلباءوطالبات کےلئے ایس ٹی ایس سکالرشپ/ لیپ ٹاپ سکیم 2019-20ءشروع کی گئی ہے۔ سٹینڈر ٹیسٹنگ سروس اسلام آباد کی طرف سے صوبہ پنجاب میں سکالرشپ اورلیپ ٹاپ سکیم سیشن 2019-20ءکے تحت میٹرک، انٹرمیڈیٹ اورڈی اے ای کے طلباءوطالبات سے درخواستیں درکار ہیں ۔درخواست فارم اورمعلومات ویب سائٹ www.stsi.org.pk پردستیاب ہیں۔ صرف آن لائن درخواستیں قبول ہوں گی۔ یعنی کوئی بھی طالب علم خودان کے آفس جاکر درخواست فارم جمع نہیں کرواسکتا ہے۔ اس پروگرام میں اہلیت کےلئے میٹرک کے طلبا ءوطالبات، انٹرمیڈیٹ، ڈی اے ای اورپنجاب کا ڈومیسائل ہوناضروری ہے۔ سکالرشپ کےلئے مدت ایک سال اور سالانہ 10ہزارمقررکیاگیاہے جبکہ درخواست گزار 25سوروپے کاچالان فارم بینک الحبیب میں اکاو¿نٹ نمبر 22697930470303 میں جمع کرائیں گےجبکہ لیپ ٹاپ کےلئے امیدوار 395 روپے جمع کروائیں گے۔ اس طرح اگرپنجاب سے صرف 10 ہزار طلباءوطالبات اگر25سوروپے فی کس جمع کروائیں تو 2کروڑ50لاکھ روپے ان طلباءوطالبات سے باآسانی لوٹ لیاجائے گاجبکہ سوشل میڈیا پرچلنے والے اس اشتہار پر محمدعلی شان ایوب نے لکھتے ہوئے کہاہے کہ اس ادارے نے اس سے قبل بھی یہی سکیم شرو ع کی تھی جس کو فیز ون کانام دیاگیاتھا اور 19 جولائی کو انٹرویوز لاہور ای بی ایل کالج فیصل ٹاو¿ن میں ہوئے تھے مگرتاحال ان مستحق طلباءوطالبات کونہ توکوئی لیپ ٹاپ ملا اور نہ ہی سکالرشپ دی گئی جبکہ ان سینکڑوں طالب علموں سے کروڑوں روپے بٹورلیے گئے ہیں۔ اس پرائیویٹ ادارے ایس ٹی ایس نے فارم پر جو2رابطہ نمبردیئے ہیں وہ بھی بندہوتے ہیں جبکہ طالب علم کے مطابق ان کوای میل متعددبار کی گئیں مگراس کابھی کوئی جواب نہیں دیاجاتا ہے۔ پنجاب کے مختلف کالجوں نے بھی اپنی ویب سائٹ اورسوشل اکاو¿نٹس پراس اشتہار کواپ لوڈکیاہے جسکی وجہ سے طلباءوطالبات پریشانی کاشکار ہیں مگراس تمام فراڈ کو دیکھنے کے باوجود ایف آئی اے کاسائبرکرائم سیل نہ توحرکت میں آیا اور نہ ہی محکمہ ایجوکیشن نے اس بارے کوئی شکایت درج کروائی ہے۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے متعدد طلباءوطالبات نے روزنامہ ”خبریں“ کی ہیلپ لائن پرفون کے ذریعے اپنا احتجاج نوٹ کرواتے ہوئے کہاکہ پنجاب حکومت اورایف آئی اے سائبرکرائم سیل کوچاہیے کہ اس لوٹ مار کوفوری بندکرائیں اور ان کیخلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔

انڈیا نے آسام میں بسنے والے 19 لاکھ افراد کو غیر ملکی قرار دے دیا

انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام میں 19 لاکھ سے زائد افراد کے انڈین شہری ہونے کے دعوو¿ں کو مسترد کر دیا گیا ہے۔حکام نے انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام میں بسنے والے 19 لاکھ سے زائد افراد کی شہریت کو ختم کرتے ہوئے انھیں ’غیر قانونی غیر ملکی‘ قرار دے دیا ہے۔یہ 19 لاکھ افراد ان 40 لاکھ سے زائد باشندوں میں سے تھے جن کے بارے میں انڈین حکومت نے سنیچر (آج) فیصلہ کرنا تھا کہ آیا وہ 31 اگست کے بعد انڈیا کے شہری شمار کیے جائیں گے یا نہیں۔آج انڈیا کی حکومت نے آسام میں اس حوالے سے حتمی فہرست جاری کی ہے۔گذشتہ برس ریاست کے شہریوں کی ایک عبوری فہرست جاری کی گئی تھی جس میں 40 لاکھ سے زیادہ باشندوں کو بطور انڈین شہری قبول نہیں کیا گیا تھا جس کے بعد ان باشندوں نے اپنی شہریت کے ثبوت کے طور پر اضافی دستاویزات جمع کروائی تھیں۔اس متنارع اقدام کی وجہ کیا ہے اور اس کے بعد کیا ہو سکتا ہے۔

آسام میں شہریت کی فہرست کیوں؟
آسام بنگلہ دیش سے ملحقہ ریاست ہے۔ ریاست کی مجموعی آبادی تین کروڑ 29 لاکھ ہے۔ آبادی میں 34 فیصد سے زیادہ مسلمان ہیں اور ان میں سے تقریباً 70 لاکھ بنگالی نڑاد ہیں۔ مسلمانوں میں بیشتر غریب، ناخواندہ اورچھوٹے کسان ہیں۔ اس کے علاوہ تقریباً 50 لاکھ بنگالی ہندو بھی ریاست میں رہتے ہیں۔نامہ نگار کے مطابق یہاں بنگلہ دیش سے غیر قانونی نقل امکانی کے خدشات طویل عرصے سے موجود ہیں۔ بی جے پی اور بعض مقامی سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ ریاست میں لاکھوں کی تعداد میں غیر قانونی بنگلہ دیشی آ کر آباد ہو گئے ہیں۔ریاست کے شہریوں کی پہلی فہرست جسے باضابطہ طور پر نیشنل رجسٹر آف سٹیزن یا این آر سی کے نام سے جانا جاتا ہے تقسیم ہند کے محض چار سال بعد سنہ 1951 میں اس وقت شائع کی گئی تھی جب لاکھوں افراد مشرقی بنگال کے پاکستان کا حصہ بننے کے بعد انڈیا میں داخل ہوئے تھے۔اس فہرست کو آسام میں قوم پرست گروہوں کے مطالبات کے بعد تیار کیا گیا تھا جو ریاست میں مسلمان تارکین وطن کی آمد کی وجہ سے ہندو اکثریت کے اقلیت میں تبدیل ہونے کے امکان سے خوفزدہ تھے۔لیکن یہ مسئلہ سنہ 1970 کی دہائی میں دوبارہ اس وقت سامنے آیا جب بنگلہ دیش نے اپنا آزادی کا اعلان کیا۔ اس کے بعد ایک تلخ جنگ چھڑی اور پھر لاکھوں افراد پڑوسی ملک انڈیا نقل مکانی کر گئے جن میں سے متعدد پناہ گزین آسام میں جا کر آباد ہو گئے۔سنہ 1979 میں آل آسام سٹوڈنٹس یونین (اے اے ایس یو) کی زیرِ قیادت غیر قانونی تارکینِ وطن کے خلاف تحریک چلائی گئی۔ سنہ 1983 میں یہ احتجاجی تحریک اس وقت پرتشدد ہو گئی جب مختلف مقامات پر ہجوم نے دو ہزار سے زیادہ مشتبہ تارکینِ وطن کو ہلاک کر دیا جن میں سے زیادہ تر مسلمان تھے۔اے اے ایس یو اور کچھ دیگر علاقائی گروپوں نے بالاخر سنہ 1985 میں اس وقت کے انڈین وزیر اعظم راجیو گاندھی کی سربراہی میں وفاقی حکومت کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے۔اس معاہدے میں کہا گیا تھا کہ جو بھی شخص 24 مارچ سنہ 1971 تک یہ ثابت نہیں کر سکا کہ وہ آسام میں رہ رہا تھا اسے انتخابی فہرستوں سے نکال دیا جائے گا اور غیر قانونی تارک وطن سمجھا جائے گا۔لیکن اس معاہدے پر کبھی عمل نہیں ہوا۔

اس فہرست کو اتنے عرصے بعد اپ ڈیٹ کیوں کیا جا رہا ہے؟
سنہ 2009 میں ابھیجیت شرما نامی شخص نے انڈین سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی جس میں این آر سی کو اپ ڈیٹ کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔عدالت نے سنہ 2014 میں وفاقی حکومت کو 31 جنوری سنہ 2016 تک ایسا کرنے کی ہدایت کی۔تاہم اس مشق کی وسعت کو دیکھتے ہوئے جس میں 32 ملین سے زیادہ افراد سے متعلق دستاویزات کی تصدیق شامل تھی، این آر سی کا پہلا مسودہ دسمبر سنہ 2017 میں شائع ہوا۔اس کا دوسرا مسودہ 30 جولائی 2018 کو شائع ہوا۔
اس فہرست میں کون شامل ہے؟
این آر سی کی فہرست میں ان لوگوں کے نام شامل ہیں جو یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے ہیں کہ وہ 24 مارچ 1971 کو یا اس سے پہلے آسام پہنچے تھے۔ریاست کے ہر فرد کو شہریت سے متعلق اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے دستاویزات پیش کرنا پڑتی تھیں جن میں زمین اور کرایہ داری ریکارڈ ، ووٹر کی شناخت یا پاسپورٹ شامل ہیں۔سنہ 1971 کے بعد پیدا ہونے والے افراد سے دستاویزات پیش کرنے کو کہا گیا جس سے یہ ثابت ہوا کہ ان کے والدین یا دادا دادی تاریخ سے پہلے ہی انڈیا میں آباد ہوگئے تھے۔فہرست کے ابتدائی مسودے میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ ریاست کے تین کروڑ 29 لاکھ شہریوں میں سے دو کروڑ 89 لاکھ ‘مصدقہ شہری’ ہیں۔تقریباً 40 لاکھ افراد اس فہرست میں جگہ نہیں بنا پائے۔ہٰذا ان کے نام انتخابی فہرستوں سے حذف ہو سکتے ہیں اور اب وہ قانونی شہری نہیں مانے جاتے ہیں۔ان سے کہا گیا کہ وہ اپنی شہریت کے دعوے کے حق میں اضافی شواہد پیش کریں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں سے تقریباً 36 لاکھ 20 ہزار افراد نے مزید دستاویزات جمع کروائی ہیں۔حکام نے روا برس 26 جون کو اعلان کیا کہ آسام کے دیگر ایک لاکھ باشندوں کو جنھیں گذشتہ سال این آر سی میں شامل کیا گیا تھا، اب رجسٹر سے خارج کر دیا گیا ہے اور انھیں دوبارہ اپنی شہریت ثابت کرنی ہو گی۔یہ بھی الزامات عائد کیے گئے ہیں کہ این آر سی اتھارٹی مختصر نوٹس جاری کر کے ابتدائی فہرست سے خارج شدہ متعدد افراد کو خوفزدہ کر رہی ہے اور انھیں تصدیق کے لیے دور دراز علاقوں میں واقع دفاتر میں حاضر ہونے کا حکم دے رہی ہے۔انڈین سپریم کورٹ کی زیرِ نگرانی اس فہرست کو اپ ڈیٹ کرنے کا عمل اب ختم ہونے کو ہے کیونکہ این آر سی کی حتمی فہرست 31 اگست کو شائع ہونی ہے۔

ردِعمل کیا رہا ہے؟
اس سلسلے میں ردِ عمل ملا جلا رہا ہے۔ ملک بھر میں ہندوو¿ں کی بڑی تعداد نے اسے ایک جرات مندانہ اقدام قرار دیا ہے اور حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کی ایک ایسے کام کے لیے تعریف کی ہے بقول ان کے جسے کرنے کی دوسری ریاستی حکومتوں میں ’ہمت‘ نہیں تھی۔لیکن انڈیا کی اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعظم نریندر مودی کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ خاندانوں کو الگ کر رہے ہیں اور لاکھوں لوگوں کو راتوں رات درحقیقت بےریاست بنا رہے ہیں۔انڈیا کے اپوزیشن رہنما اور کانگریس پارٹی کے صدر راہول گاندھی نے کہا ہے کہ اس فہرست نے لوگوں میں ’بڑہے پیمانے پر عدم تحفظ‘ پیدا کر دیا ہے۔آسام کی ہمسایہ ریاست مغربی بنگال کی وزیراعلی ممتا بنرجی اس کی سب سے زیادہ نقاد رہی ہیں۔ انھوں نے ’خون خرابے‘ کی پیش گوئی کی اور کہا کہ اس عمل سے جمہوریت کا مذاق اڑ رہا ہے۔لیکن حکام اس بات پر مصر ہیں کہ یہ عمل ’مسلمانوں کو نشانہ نہیں بنانے کے لیے نہیں۔‘ این آر سی کے سربراہ پرتیک ہجیلا نے نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ اس فہرست سے نکالے جانے والے افراد ’مختلف مذاہب اور مختلف گروہوں‘ کے لوگ تھے۔جہاں تک مقامی لوگوں کا تعلق ہے آسام میں این آر سی اپ ڈیٹ کرنے کے عمل کو ریاست کی اکثریت دیسی آسامی آبادی کی حمایت حاصل ہے۔اگرچہ آسامی زبان اس آبادی کی شاید سب سے عام زبان ہے لیکن وہاں کوئی مشترکہ مذہبی شناخت نہیں ہے۔ مقامی لوگوں میں بنیادی طور پر اکثریتی ہندو اور مسلمان شامل ہیں۔مقامی ہندو بہت زیادہ حد تک این آر سی کے عمل کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں لیکن ریاست کی مقامی مسلمان آبادی عام طور پر بہت زیادہ محتاط نظر آتی ہے اس خوف سے کہ وہ اپنے مذہب کی وجہ سے انھیں بنگلہ دیشی غیر ملکی قرار دیا جا سکتا ہے۔ان کا خوف سخت گیر ہندو قوم پرست حکومت کی بیان بازی کی وجہ سے ہے جس کے رہنما نے مسلم ہندو تارکین وطن کے لیے اپنی ترجیحات پوشیدہ نہیں رکھی ہیں۔

اب تک فہرست کی تیاری کا عمل کیسا رہا ہے؟
این آر سی نے پہلے ہی کچھ حیرت انگیز نتائج پیش کیے ہیں۔ سابق فوجی ملازمین، موجودہ سیاسی رہنماو¿ں یہاں تک کہ کچھ سرکاری ملازمین جن میں سے ایک کو این آر سی کو مرتب کرنے کی ذمہ داری دی گئی، انھیں بھی اس فہرست میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ہجے کی معمولی غلطیاں دستاویزات کو مسترد کرنے کا باعث بنی ہیں اور کچھ خاندانوں میں ایک بھائی اس فہرست میں شامل ہے تو دوسرا جگہ نہیں بنا سکا۔آسام میں سیلاب کی بھی تاریخ ہے جس کا مطلب ہے کہ بہت سے خاندانوں نے اکثر دیگر سامان کے ساتھ سرکاری دستاویزات کھوئے ہیں جبکہ کچھ خاندان ناقص ریکارڈ رکھنے، ناخواندگی یا قانونی دعوے دائر کرنے کے لیے رقم کی کمی کی وجہ سے دستاویزات پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ان میں سے کچھ افراد کے رشتے داروں اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ وہ غیر یقینی صورتحال کے تناو¿ کو برداشت نہیں کر سکے اور اس لیے انھوں نے اپنی جان بھی لی ہے۔سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس نامی تنظیم کے زمسار علی نے آسام میں اس طرح کی 51 خود کشیوں کی فہرست فراہم کی ہے جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ واقعات شہریت کے متوقع نقصان پر ’صدمے اور تناو¿‘ سے جڑے ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ زیادہ تر خودکشیوں کے واقعات جنوری سنہ 2018 کے بعد ہوئے جب اپ ڈیٹ کیے گئے شہریت رجسٹر کا پہلا مسودہ منظرِ عام پر آیا۔

کیا بڑے پیمانے پر ملک بدری ہو گی؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ واضح نہیں ہے لیکن اس وقت اس کا امکان بھی نہیں ہے۔این آر سی سے خارج ہونے والے افراد خود بخود شہریت سے محروم نہیں ہوں گے بلکہ انھیں اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کے لیے 120 دن ملیں گے۔مودی حکومت کا کہنا ہے کہ غیر ملکی قرار دیے جانے والے تمام ہندو بودھ اور دیگر مزاہب کے لوگوں کو تو شہریت دی جائے گی لیکن غیر ملکی قرار پانے والے مسلمانوں کو وہ شہریت نہیں دے گی۔بی بی سی کے نامہ نگار سوتک بسواس کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش ’یقینی طور پر اس طرح کی درخواست قبول نہیں کرے گا۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ انڈیا ’میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کی طرح بے ریاست لوگوں کا نیا گروہ پیدا کرے گا۔‘حقوق انسانی کے کارکنوں اور اقوام متحدہ شہریت کے اس عمل پر تشویش کا اظہار کر چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لاکھوں لوگوں کو شہریت اور قومیت سے بے دخل کرنے سے آسام ایک سنگین انسانی المیے کی طرف بڑھ رہا ہے۔این آر سی یا سرحد پار غیر قانونی امیگریشن کے سلسلے میں انڈیا کا بنگلہ دیش سے کوئی سرکاری معاہدہ نہیں ہے۔علاقائی سلامتی کے ماہر شیشادری چاری کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش نے ہمیشہ کہا ہے کہ این آر سی ایک ’اندرونی معاملہ ہے نہ کہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی مسئلہ‘۔انھوں نے مزید کہا ’یہ بنگلہ دیش کے ان غیر قانونی تارکین وطن کو بھی قبول نہیں کرنے کے عزم کی نشاندہی کرتا ہے جنھیں انڈیا جلاوطن کرنا چاہتا ہے۔ان لوگوں کے تحفظ کے بارے میں بھی تشویش پائی جاتی ہے جن کے نام فہرست میں شامل نہیں۔ اگرچہ حکومت نے ان کی مذہبی شناخت کے بارے میں کوئی اعداد و شمار جاری نہیں کیے لیکن ان میں اکثریت کو بنگالی بولنے والا مسلمان سمجھا جاتا ہے۔31 اگست کے بعد ایسے افراد کا تحفظ ایک مسئلہ بن سکتا ہے اور مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق انڈین حکومت سے اس سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں۔حکومت نے حراستی مرکز اور اپیلیں سننے کے لیے سینکڑوں ٹرائبیونلز قائم کر رہی ہے جبکہ ایک ایسا مرکزی ڈیٹابیس بھی تیار کیا جا رہا ہے جس میں غیرملکی قرار دیے جانے والے افراد کی معلومات رکھی جائیں گی۔آسام سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر صحافی راجیو بھٹاچاریہ کے مطابق این آر سی کی حتمی فہرست کے سامنے آنے کے بعد آسام میں ’دور رس نتائج کے حامل اقدامات کی ضرورت ہو گی۔‘ ان کے مطابق حکومت کے پاس غیرملکی قرار دیے جانے والے افراد کے لیے کوئی منصوبہ نہیں کیونکہ انھیں بنگلہ دیش بھیجنے کے امکانات بہت موہوم ہیں۔

جب حتمی فہرست آئے گی تو کیا ہوگا؟
بی بی سی کے نتن شریواستو کے مطابق حتمی فہرست تمام اپیلیوں کی سماعت کے بعد شائع کی جائے گی اور 31 اگست کے بعد فہرست کے کوائف چیلنج کرنے پر پرتشدد واقعات کا خدشہ موجود ہے کیونکہ یہ لوگ اپنی زمین، ووٹ ڈالنے کا حق اور آزادی تک چھن جانے کے خطرات سے دوچار ہوں گے۔انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام میں 19 لاکھ سے زائد افراد کے انڈین شہری ہونے کے دعوو¿ں کو مسترد کر دیا گیا ہے۔
حکام نے انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام میں بسنے والے 19 لاکھ سے زائد افراد کی شہریت کو ختم کرتے ہوئے انھیں ’غیر قانونی غیر ملکی‘ قرار دے دیا ہے۔یہ 19 لاکھ افراد ان 40 لاکھ سے زائد باشندوں میں سے تھے جن کے بارے میں انڈین حکومت نے سنیچر (آج) فیصلہ کرنا تھا کہ آیا وہ 31 اگست کے بعد انڈیا کے شہری شمار کیے جائیں گے یا نہیں۔آج انڈیا کی حکومت نے آسام میں اس حوالے سے حتمی فہرست جاری کی ہے۔

گذشتہ برس ریاست کے شہریوں کی ایک عبوری فہرست جاری کی گئی تھی جس میں 40 لاکھ سے زیادہ باشندوں کو بطور انڈین شہری قبول نہیں کیا گیا تھا جس کے بعد ان باشندوں نے اپنی شہریت کے ثبوت کے طور پر اضافی دستاویزات جمع کروائی تھیں۔اس متنارع اقدام کی وجہ کیا ہے اور اس کے بعد کیا ہو سکتا ہے۔

آسام میں شہریت کی فہرست کیوں؟
آسام بنگلہ دیش سے ملحقہ ریاست ہے۔ ریاست کی مجموعی آبادی تین کروڑ 29 لاکھ ہے۔ آبادی میں 34 فیصد سے زیادہ مسلمان ہیں اور ان میں سے تقریباً 70 لاکھ بنگالی نڑاد ہیں۔ مسلمانوں میں بیشتر غریب، ناخواندہ اورچھوٹے کسان ہیں۔ اس کے علاوہ تقریباً 50 لاکھ بنگالی ہندو بھی ریاست میں رہتے ہیں۔نامہ نگار کے مطابق یہاں بنگلہ دیش سے غیر قانونی نقل امکانی کے خدشات طویل عرصے سے موجود ہیں۔ بی جے پی اور بعض مقامی سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ ریاست میں لاکھوں کی تعداد میں غیر قانونی بنگلہ دیشی آ کر آباد ہو گئے ہیں۔ریاست کے شہریوں کی پہلی فہرست جسے باضابطہ طور پر نیشنل رجسٹر آف سٹیزن یا این آر سی کے نام سے جانا جاتا ہے تقسیم ہند کے محض چار سال بعد سنہ 1951 میں اس وقت شائع کی گئی تھی جب لاکھوں افراد مشرقی بنگال کے پاکستان کا حصہ بننے کے بعد انڈیا میں داخل ہوئے تھے۔اس فہرست کو آسام میں قوم پرست گروہوں کے مطالبات کے بعد تیار کیا گیا تھا جو ریاست میں مسلمان تارکین وطن کی آمد کی وجہ سے ہندو اکثریت کے اقلیت میں تبدیل ہونے کے امکان سے خوفزدہ تھے۔لیکن یہ مسئلہ سنہ 1970 کی دہائی میں دوبارہ اس وقت سامنے آیا جب بنگلہ دیش نے اپنا آزادی کا اعلان کیا۔ اس کے بعد ایک تلخ جنگ چھڑی اور پھر لاکھوں افراد پڑوسی ملک انڈیا نقل مکانی کر گئے جن میں سے متعدد پناہ گزین آسام میں جا کر آباد ہو گئے۔سنہ 1979 میں آل آسام سٹوڈنٹس یونین (اے اے ایس یو) کی زیرِ قیادت غیر قانونی تارکینِ وطن کے خلاف تحریک چلائی گئی۔ سنہ 1983 میں یہ احتجاجی تحریک اس وقت پرتشدد ہو گئی جب مختلف مقامات پر ہجوم نے دو ہزار سے زیادہ مشتبہ تارکینِ وطن کو ہلاک کر دیا جن میں سے زیادہ تر مسلمان تھے۔اے اے ایس یو اور کچھ دیگر علاقائی گروپوں نے بالاخر سنہ 1985 میں اس وقت کے انڈین وزیر اعظم راجیو گاندھی کی سربراہی میں وفاقی حکومت کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے۔اس معاہدے میں کہا گیا تھا کہ جو بھی شخص 24 مارچ سنہ 1971 تک یہ ثابت نہیں کر سکا کہ وہ آسام میں رہ رہا تھا اسے انتخابی فہرستوں سے نکال دیا جائے گا اور غیر قانونی تارک وطن سمجھا جائے گا۔لیکن اس معاہدے پر کبھی عمل نہیں ہوا۔

اس فہرست کو اتنے عرصے بعد اپ ڈیٹ کیوں کیا جا رہا ہے؟
سنہ 2009 میں ابھیجیت شرما نامی شخص نے انڈین سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی جس میں این آر سی کو اپ ڈیٹ کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔عدالت نے سنہ 2014 میں وفاقی حکومت کو 31 جنوری سنہ 2016 تک ایسا کرنے کی ہدایت کی۔تاہم اس مشق کی وسعت کو دیکھتے ہوئے جس میں 32 ملین سے زیادہ افراد سے متعلق دستاویزات کی تصدیق شامل تھی، این آر سی کا پہلا مسودہ دسمبر سنہ 2017 میں شائع ہوا۔اس کا دوسرا مسودہ 30 جولائی 2018 کو شائع ہوا۔

اس فہرست میں کون شامل ہے؟
این آر سی کی فہرست میں ان لوگوں کے نام شامل ہیں جو یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے ہیں کہ وہ 24 مارچ 1971 کو یا اس سے پہلے آسام پہنچے تھے۔ریاست کے ہر فرد کو شہریت سے متعلق اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے دستاویزات پیش کرنا پڑتی تھیں جن میں زمین اور کرایہ داری ریکارڈ ، ووٹر کی شناخت یا پاسپورٹ شامل ہیں۔سنہ 1971 کے بعد پیدا ہونے والے افراد سے دستاویزات پیش کرنے کو کہا گیا جس سے یہ ثابت ہوا کہ ان کے والدین یا دادا دادی تاریخ سے پہلے ہی انڈیا میں آباد ہوگئے تھے۔فہرست کے ابتدائی مسودے میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ ریاست کے تین کروڑ 29 لاکھ شہریوں میں سے دو کروڑ 89 لاکھ ‘مصدقہ شہری’ ہیں۔تقریباً 40 لاکھ افراد اس فہرست میں جگہ نہیں بنا پائے۔لہٰذا ان کے نام انتخابی فہرستوں سے حذف ہو سکتے ہیں اور اب وہ قانونی شہری نہیں مانے جاتے ہیں۔ان سے کہا گیا کہ وہ اپنی شہریت کے دعوے کے حق میں اضافی شواہد پیش کریں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں سے تقریباً 36 لاکھ 20 ہزار افراد نے مزید دستاویزات جمع کروائی ہیں۔حکام نے رواں برس 26 جون کو اعلان کیا کہ آسام کے دیگر ایک لاکھ باشندوں کو جنھیں گذشتہ سال این آر سی میں شامل کیا گیا تھا، اب رجسٹر سے خارج کر دیا گیا ہے اور انھیں دوبارہ اپنی شہریت ثابت کرنی ہو گی۔یہ بھی الزامات عائد کیے گئے ہیں کہ این آر سی اتھارٹی مختصر نوٹس جاری کر کے ابتدائی فہرست سے خارج شدہ متعدد افراد کو خوفزدہ کر رہی ہے اور انھیں تصدیق کے لیے دور دراز علاقوں میں واقع دفاتر میں حاضر ہونے کا حکم دے رہی ہے۔انڈین سپریم کورٹ کی زیرِ نگرانی اس فہرست کو اپ ڈیٹ کرنے کا عمل اب ختم ہونے کو ہے کیونکہ این آر سی کی حتمی فہرست 31 اگست کو شائع ہونی ہے۔

ردِعمل کیا رہا ہے؟
اس سلسلے میں ردِ عمل ملا جلا رہا ہے۔ ملک بھر میں ہندوو¿ں کی بڑی تعداد نے اسے ایک جرات مندانہ اقدام قرار دیا ہے اور حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کی ایک ایسے کام کے لیے تعریف کی ہے بقول ان کے جسے کرنے کی دوسری ریاستی حکومتوں میں ’ہمت‘ نہیں تھی۔لیکن انڈیا کی اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعظم نریندر مودی کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ خاندانوں کو الگ کر رہے ہیں اور لاکھوں لوگوں کو راتوں رات درحقیقت بےریاست بنا رہے ہیں۔انڈیا کے اپوزیشن رہنما اور کانگریس پارٹی کے صدر راہول گاندھی نے کہا ہے کہ اس فہرست نے لوگوں میں ’بڑہے پیمانے پر عدم تحفظ‘ پیدا کر دیا ہے۔آسام کی ہمسایہ ریاست مغربی بنگال کی وزیراعلی ممتا بنرجی اس کی سب سے زیادہ نقاد رہی ہیں۔ انھوں نے ’خون خرابے‘ کی پیش گوئی کی اور کہا کہ اس عمل سے جمہوریت کا مذاق اڑ رہا ہے۔لیکن حکام اس بات پر مصر ہیں کہ یہ عمل ’مسلمانوں کو نشانہ نہیں بنانے کے لیے نہیں۔‘ این آر سی کے سربراہ پرتیک ہجیلا نے نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ اس فہرست سے نکالے جانے والے افراد ’مختلف مذاہب اور مختلف گروہوں‘ کے لوگ تھے۔جہاں تک مقامی لوگوں کا تعلق ہے آسام میں این آر سی اپ ڈیٹ کرنے کے عمل کو ریاست کی اکثریت دیسی آسامی آبادی کی حمایت حاصل ہے۔اگرچہ آسامی زبان اس آبادی کی شاید سب سے عام زبان ہے لیکن وہاں کوئی مشترکہ مذہبی شناخت نہیں ہے۔ مقامی لوگوں میں بنیادی طور پر اکثریتی ہندو اور مسلمان شامل ہیں۔مقامی ہندو بہت زیادہ حد تک این آر سی کے عمل کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں لیکن ریاست کی مقامی مسلمان آبادی عام طور پر بہت زیادہ محتاط نظر آتی ہے اس خوف سے کہ وہ اپنے مذہب کی وجہ سے انھیں بنگلہ دیشی غیر ملکی قرار دیا جا سکتا ہے۔ان کا خوف سخت گیر ہندو قوم پرست حکومت کی بیان بازی کی وجہ سے ہے جس کے رہنما نے مسلم ہندو تارکین وطن کے لیے اپنی ترجیحات پوشیدہ نہیں رکھی ہیں۔

اب تک فہرست کی تیاری کا عمل کیسا رہا ہے؟
این آر سی نے پہلے ہی کچھ حیرت انگیز نتائج پیش کیے ہیں۔ سابق فوجی ملازمین، موجودہ سیاسی رہنماو¿ں یہاں تک کہ کچھ سرکاری ملازمین جن میں سے ایک کو این آر سی کو مرتب کرنے کی ذمہ داری دی گئی، انھیں بھی اس فہرست میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ہجے کی معمولی غلطیاں دستاویزات کو مسترد کرنے کا باعث بنی ہیں اور کچھ خاندانوں میں ایک بھائی اس فہرست میں شامل ہے تو دوسرا جگہ نہیں بنا سکا۔آسام میں سیلاب کی بھی تاریخ ہے جس کا مطلب ہے کہ بہت سے خاندانوں نے اکثر دیگر سامان کے ساتھ سرکاری دستاویزات کھوئے ہیں جبکہ کچھ خاندان ناقص ریکارڈ رکھنے، ناخواندگی یا قانونی دعوے دائر کرنے کے لیے رقم کی کمی کی وجہ سے دستاویزات پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ان میں سے کچھ افراد کے رشتے داروں اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ وہ غیر یقینی صورتحال کے تناو¿ کو برداشت نہیں کر سکے اور اس لیے انھوں نے اپنی جان بھی لی ہے۔سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس نامی تنظیم کے زمسار علی نے آسام میں اس طرح کی 51 خود کشیوں کی فہرست فراہم کی ہے جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ واقعات شہریت کے متوقع نقصان پر ’صدمے اور تناو¿‘ سے جڑے ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ زیادہ تر خودکشیوں کے واقعات جنوری سنہ 2018 کے بعد ہوئے جب اپ ڈیٹ کیے گئے شہریت رجسٹر کا پہلا مسودہ منظرِ عام پر آیا۔

کیا بڑے پیمانے پر ملک بدری ہو گی؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ واضح نہیں ہے لیکن اس وقت اس کا امکان بھی نہیں ہے۔این آر سی سے خارج ہونے والے افراد خود بخود شہریت سے محروم نہیں ہوں گے بلکہ انھیں اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کے لیے 120 دن ملیں گے۔مودی حکومت کا کہنا ہے کہ غیر ملکی قرار دیے جانے والے تمام ہندو بودھ اور دیگر مزاہب کے لوگوں کو تو شہریت دی جائے گی لیکن غیر ملکی قرار پانے والے مسلمانوں کو وہ شہریت نہیں دے گی۔بی بی سی کے نامہ نگار سوتک بسواس کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش ’یقینی طور پر اس طرح کی درخواست قبول نہیں کرے گا۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ انڈیا ’میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کی طرح بے ریاست لوگوں کا نیا گروہ پیدا کرے گا۔حقوق انسانی کے کارکنوں اور اقوام متحدہ شہریت کے اس عمل پر تشویش کا اظہار کر چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لاکھوں لوگوں کو شہریت اور قومیت سے بے دخل کرنے سے آسام ایک سنگین انسانی المیے کی طرف بڑھ رہا ہے۔این آر سی یا سرحد پار غیر قانونی امیگریشن کے سلسلے میں انڈیا کا بنگلہ دیش سے کوئی سرکاری معاہدہ نہیں ہے۔علاقائی سلامتی کے ماہر شیشادری چاری کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش نے ہمیشہ کہا ہے کہ این آر سی ایک ’اندرونی معاملہ ہے نہ کہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی مسئلہ۔انھوں نے مزید کہا ’یہ بنگلہ دیش کے ان غیر قانونی تارکین وطن کو بھی قبول نہیں کرنے کے عزم کی نشاندہی کرتا ہے جنھیں انڈیا جلاوطن کرنا چاہتا ہے۔ان لوگوں کے تحفظ کے بارے میں بھی تشویش پائی جاتی ہے جن کے نام فہرست میں شامل نہیں۔ اگرچہ حکومت نے ان کی مذہبی شناخت کے بارے میں کوئی اعداد و شمار جاری نہیں کیے لیکن ان میں اکثریت کو بنگالی بولنے والا مسلمان سمجھا جاتا ہے۔31 اگست کے بعد ایسے افراد کا تحفظ ایک مسئلہ بن سکتا ہے اور مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق انڈین حکومت سے اس سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں۔حکومت نے حراستی مرکز اور اپیلیں سننے کے لیے سینکڑوں ٹرائبیونلز قائم کر رہی ہے جبکہ ایک ایسا مرکزی ڈیٹابیس بھی تیار کیا جا رہا ہے جس میں غیرملکی قرار دیے جانے والے افراد کی معلومات رکھی جائیں گی۔آسام سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر صحافی راجیو بھٹاچاریہ کے مطابق این آر سی کی حتمی فہرست کے سامنے آنے کے بعد آسام میں ’دور رس نتائج کے حامل اقدامات کی ضرورت ہو گی۔‘ ان کے مطابق حکومت کے پاس غیرملکی قرار دیے جانے والے افراد کے لیے کوئی منصوبہ نہیں کیونکہ انھیں بنگلہ دیش بھیجنے کے امکانات بہت موہوم ہیں۔
جب حتمی فہرست آئے گی تو کیا ہوگا؟
بی بی سی کے نتن شریواستو کے مطابق حتمی فہرست تمام اپیلیوں کی سماعت کے بعد شائع کی جائے گی اور 31 اگست کے بعد فہرست کے کوائف چیلنج کرنے پر پرتشدد واقعات کا خدشہ موجود ہے کیونکہ یہ لوگ اپنی زمین، ووٹ ڈالنے کا حق اور آزادی تک چھن جانے کے خطرات سے دوچار ہوں گے۔

ایمن خان اور منیب بٹ کے گھر ننھی پری کی آمد

کراچی (ویب ڈیسک )ٹی وی اداکار جوڑی ایمن خان اور منیب بٹ کے گھر بیٹی کی پیدائش ہوئی ہے۔اداکارہ نے کچھ دیر قبل انسٹاگرام پر خوشخبری دی کہ ان کے ہاں بیٹی کی پیدائش ہوئی ہے جس کا نام ‘امل منیب’ رکھا گیا ہے۔

دوسری جانب منیب بٹ نے انسٹاگرام پوسٹ میں لکھا کہ ان کے پاس جذبات کا اظہار کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں ، انہیں اللہ نے رحمت سے نوازا ہے۔

بیٹی کی پیدائش پر ایمن اور منیب کو مداحوں اور شوبز شخصیات کی جانب سے مبارک باد دی جارہی ہے تاہم دونوں نے اب تک بیٹی کی تصویر جاری نہیں کی ہے جس کا مداحوں بے صبری سے انتظار ہے۔یاد رہے کہ ایمن اور منیب کی شادی گزشتہ برس نومبر میں ہوئی تھی جو دسمبر تک جاری رہی یہی وجہ تھی کہ مداحوں نے اسے طویل ترین شادی قرار دیا تھا۔

تعلقات، جائیدادکا جھانسہ دیکر معزز گھروں میں شادیاں رچانے والے شخص کا انکشاف

ملتان (سپےشل رپورٹر) پنجاب کے مختلف علاقوں مے شرےف اور معزز سےد گھرانوں کی بےٹےوں کو اپنے وسےع تعلقات اور جائےداد کے جھانسے مےںلا کر شادےاں رچانے والے اےک شخص مخدوم اظہر حسےن بخاری نامی شخص کا انکشاف ہوا ہے جو سارے خاندان کو کاروباری لحاظ سے سےٹ کروانے اور انکی بھائی بےٹےوں کے اچھے خاندانوں مےں رشتے کروانے اور سوسائٹی مےں اعلیٰ مقام دلانے کا جھانسہ دےکر ہوس پوری ہو جانے کے بعد اچانک قطع تعلق کر لےتا ہے۔ اب تک علی پور، جھنگ، ملتان اور رحےم ےار خان کی 4 خواتےن اُسکے جھانسے مےں آکر اپنی زندگی تباہ کر بےٹھی ہےں۔مخدوم سےد اظہر حسےن بخاری جوکہ کوٹ مخدوم رےاض چوک بہادر پور ضلع رحےم ےار خان کے اےک شخص سےد مخدوم رےاض کا بےٹا ہے اور بےٹےوں کی شادی کرکے نانا بھی بن چکا ہے۔ اُسکا طرےقہ واردات ےہ ہے کہ اپنی بےٹےوں کو ساتھ لے جا کر مختلف سےد گھرانوں مےں تعلقات استوار کرتا ہے۔ لوگ اُسکی بےٹےوں کو ساتھ دےکھ کر اپنی بےٹےاں بھی دکھا دےتے ہےں۔ جس پر وہ اپنے ٹارگٹ کا انتخاب کرکے تعلقات کو وسےع کرتے ہوئے اعتماد مےں لےکر شادی رچا لےتا ہے۔ اور پھر نہ نکاح نامہ منظر عام پر آتا ہے اور نہ ہی نکاح خواں کا پتہ چلتا ہے اور نہ ہی نکاح کے گواہ سامنے آتے ہےں۔ سال، 2 سال ےہ شادی رہتی ہے۔ اس دوران اُس بےوی کو استعمال کرکے نئے گھرانوں مےں تعلقات استوار کرتا ہے اور پھر نئی شادی رچا کر پہلی بےوی کو دھتکار دےتا ہے۔ دھتکاری ہوئی لڑکےوں کے والدےن کی طرف سے دئےے گئے طلائی زےورات بھی واپس نہےں کرتا اور اگر کوئی زور دے تو جعلی زےورات تھما دےتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ نے دئےے ہی جعلی زےور تھے۔ علی پور ضلع مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والی بےوی (پ) نے ”خبرےں“ کو بتاےا کہ مےں تو اُس کے مظالم سے تنگ آکر گوشہ نشےن ہو چکی ہوں۔ جبکہ ملتان کی سےدہ اُم البنےن فاطمہ دختر سےد حسن مہدی سکنہ گلگشت کالونی ملتان نے ”خبرےں“ دفتر آکر بتاےا کہ اس کے پاس سندھ کے جرائم پےشہ عناصر کا آنا جانا ہے اور اس نے مےرے 20 تولہ زےور اور والدےن کی طرف سے دےا گےا قےمتی فرنےچر بھی جرائم پےشہ افراد کو تحفے مےں دے دےا ہے۔ سےدہ اُم البنےن نے بتاےا کہ اظہر بخاری نے اےک جگہ پر صلح کےلئے بلاےا اور کہا کہ نکاح نامہ اور والد صاحب کا شناختی کارڈ اور سٹامپ لےکر آجاﺅ۔ مےںآپکو زےور واپس کرتا ہوں اور جب مےں اپنے چھوٹے بھائی کے ہمراہ وہاں پہنچی تو اُس نے مےرے بھائی کے سامنے مجھے مارا اور نکاح نامہ چھےن لےا۔ سےدہ اُم البنےن فاطمہ نے کہا کہ مےری زندگی تو برباد ہو گئی مگر مےں روزنامہ ”خبرےں“ کے ذرےعے دےگر معزز گھرانوں کی خواتےن کو منع کروں گی کہ اس ظالم سے بچےں ۔سےدہ اُم البنےن نے وزےر اعظم اور وزےر اعلیٰ پنجاب سے اپےل کی ہے کہ اسکو انصاف دلاےا جائے اور داد رسی کی جائے۔

وادی میں کرفیو کا خاتمہ: پاکستان کی بھارت کو مشروط مذاکرات کی پیش کش

اسلام آباد: (ویب ڈیسک) پاکستان نے بھارت کو ایک بار پھر مشروط مذاکرات کی پیش کش کر دی۔ شاہ محمود قریشی نے کہا پاکستان کو دو طرفہ مذاکرات پر کوئی اعتراض نہیں، کسی تیسرے فریق کی معاونت یا ثالثی کو بھی خوش آمدید کہا جائے گا۔ برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا اگر بھارت مقبوضہ کشمیر سے فوری کرفیو ہٹائے، لوگوں کے حقوق بحال کیے جائیں، قید کشمیری قیادت کو رہا کیا جائے اور ان سے ملنے کی اجازت دی جائے تو مذاکرات ہوسکتے ہیں۔شاہ محمود قریشی نے کہا ایسے ماحول میں جہاں کرفیو نافذ ہے، لوگ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں، گینگ ریپ ہو رہے ہیں، لوگ قید و بند کی صعبتیں برداشت کر رہے ہیں تو مذاکرات کا کوئی ماحول دکھائی نہیں دے رہا۔ ان کا کہنا تھا پاکستان نے کبھی جارحانہ پالیسی نہیں اپنائی اور اس کی ترجیح ہمیشہ امن ہی رہی کیونکہ جوہری ہتھیاروں کے حامل دو پڑوسی ممالک جنگ کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔وزیرخارجہ نے کہا اگر پاکستان پر جنگ مسلط کی گئی تو اس کا جواب 26 فروری کی طرح دیا جائے گا، ہماری فوج اور قوم تیار ہیں۔

سلمان خان کے اعلان نے عالیہ بھٹ اور مداحوں کو حیران کر دیا

دبئی(ویب ڈیسک)سلمان خان نے اپنے ایک اعلان سے نہ صرف اپنے مداحوں بلکہ عالیہ بھٹ کو بھی حیران کر دیا ہے۔ انھوں نے ٹوئٹر پر اعلان کیا کہ ان کی سنجے لیلی بھنسالی کے ساتھ فلم ’انشا اللہ‘ روک دی گئی ہے۔سلمان خان نے ایک اور ٹویٹ میں کچھ ایسے اشارے دیے ہیں کہ اگلی عید پر وہ ‘ کک ٹو’ لے کر آنے والے ہیں۔واضح رہے کہ سلمان خان کی عالیہ بھٹ کے ساتھ فلم ’انشا للہ ‘کی شوٹنگ چند روز بعد شروع ہونے والی تھی۔رہی بات عالیہ بھٹ کی تو وہ اس فلم کی وجہ سے کئی بڑی فلموں کو نہ کہہ چکی تھیں یہاں تک کہ عالیہ عامر خان کے ساتھ ایک فلم اس لیے نہیں لے پائیں کیونکہ انھوں نے اپنی تمام ڈیٹس فلم ’انشا للہ‘ کے لیے وقف کر دی تھیں۔ادھر بھنسالی پروڈکشن نے بھی ایک ٹویٹ میں فی الحال فلم نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔کہا جا رہا ہے کہ سلمان خان اور سنجے لیلی بھنسالی کے درمیان فلم کے حوالے سے کچھ اختلافات ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ اب سلمان عید پر کیسے آئیں گے۔؟سلمان اپنی ٹویٹ میں عید پر نئی فلم لانے کا وعدے اس انداز میں کر چکے ہیں کہ جیسے وہ فلم ’کک‘ کا سیکوئل لا رہے ہیں تاہم کہا جا رہا ہے کہ ’کک ٹو‘ کا سکرپٹ ابھی تیار نہیں ہے۔ اگرچہ یہ فلم پائپ لائن میں تھی لیکن اس پر کام ابھی تک شروع نہیں ہوا۔اب دیکھنا ہے کہ سلمان خان مستقبل میں کیا کرتے ہیں۔ ان کی فلم ’دبنگ تھری‘ کی شونٹگ مکمل ہو چکی ہے تاہم وہ اپنی اگلی عید کے لیے پریشان ہیں۔فلسماز مہیش بھٹ کی سنہ 1990 کی سپر ہٹ فلم ’عاشقی‘ کے ہیرو راہل رائے کافی عرصے کی گمنامی کے بعد اچانک جس وجہ سے خبروں میں آئے ہیں اس کا انھیں ذرا بھی اندازہ نہں تھا۔دراصل اداکارہ کرینہ کپور نے حال ہی میں ایک ٹی وی ریالٹی شو ڈانس انڈیا ڈانس میں بتایا کہ راہل رائے ان کا پہلا ‘کرش’ تھے اور انھوں نے صرف راہل رائے کی وجہ سے یہ فلم آٹھ بار دیکھی تھی۔ جواب میں راہل نے ٹویٹ کیا ‘سپیچ لیس‘ یعنی میرے پاس کچھ کہنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔ویسے ایک دور تھا جب راہل صرف کرینہ کے ہی نہیں بہت سی لڑکیوں کا کرش ہوا کرتے تھے لیکن پہلی فلم کی زبردست کامیابی اور شہرت کے باوجود وہ انڈسٹری میں زیادہ دور تک چل نہیں پائے۔بالی وڈ کے بادشاہ کہے جانے والے امیتابھ بچن ننھی بچیوں کے لیے اقوامِ متحدہ کے سفیر ہیں اور اکثر سرکاری مہم ‘بیٹی بچاو¿ اور بیٹی پڑھاو¿’ کی توثیق بھی کرتے نظر آتے ہیں۔اس ہفتے انھوں نے اپنے ٹی وی پروگرام ’کون بنے گا کروڑ پتی‘ کے سیٹ پر بتایا کہ انھوں نے اپنی تمام جائیداد اپنے بیٹے ابھشیک اور بیٹی شویتا نندہ کے درمیان برابر تقسیم کرنے کی وصیت کی ہے۔ انھوں نے یہی بات ٹوئٹر پر بھی واضح الفاظ میں کہی ہے۔لوگ کہیں گے کہ یہ کسی بھی انسان کا ذاتی فیصلہ ہے تو اسے سوشل میڈیا یا میڈیا پر کہنے کی کیا ضرورت ہے۔لیکن ایسا کرکے امیتابھ بچن نے ان لوگوں کے سامنے ایک مثال پیش کرنے کی کوشش کی ہے جو اپنی جائیداد کا حقدار صرف اپنے بیٹوں کو سمجھتے ہیں۔

800 افراد پر مشتمل گاؤں کروڑوں سیاحوں کی توجہ کا مرکز

آسٹریا (ویب ڈیسک)800 افراد پر مشتمل آبادی والا ہال اسٹیٹ ہر سال کروڑوں سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ہال اسٹیٹ آسٹریا کا ایک چھوٹا علاقہ ہے جو گزشتہ 10 برسوں میں سیاحوں کی من پسند جگہ بن گئی ہے۔اس چھوٹے علاقے کی ک±ل آبادی 800 افراد پر مشتمل ہے لیکن یہاں ہر سال کروڑوں سیاحوں کا جمِ غفیر ہوتا ہے جس سے یہاں کی معاشی ترقی کو فروغ ملا ہے۔یوں تو ہال اسٹیٹ میں ہر سال پوری دنیا سے سیاحوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے لیکن زیادہ تر لوگ چین سے آتے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ چین اس چھوٹے علاقے سے ایسا متاثر ہوا کہ اس جیسا ایک گاو¿ں بھی اپنے ملک میں بنا ڈالا ہے جسے ‘ہال اسٹیٹ ریپلیکا’ مانا جاتا ہے۔یہاں کا دورہ کرنے والے سیاحوں کا کہنا ہے کہ یہ دنیا کا انتہائی خوبصورت کونا ہے یہاں کی پہاڑیاں، جھیل درخت سب آنکھوں کو خیرہ کردیتی ہیں۔سیاح کہتے ہیں کہ یہاں کے نظارے ترکی، سوئٹزرلینڈ اور دیگر خوبصورت ممالک سے کم نہیں۔ہال اسٹیٹ میں تاریخی مقام اسکائے واک بھی ہے جو مقامی گھروں سے 350 میٹر اونچائی پر واقع ہے۔

سٹیو جابز پاکستان میں: سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصویر دراصل کہاں کی ہے؟

دبئی(ویب ڈیسک)کچھ روز سے سوشل میڈیا پر لوگ ایک ایسے شخص کی تصویر شیئر کر رہے ہیں جنھیں گزرے ہوئے کئی برس بیت گئے ہیں۔لیکن اس کے باوجود کئی صارفین بضد ہیں کہ شلوار قمیض پہنے، سڑک کے کنارے پلاسٹک کی کرسی پر بیٹھا یہ شخص اصل میں آئی فون بنانے والی کمپنی ایپل کے بانی سٹیو جابز ہیں!یہ تصویر تب وائرل ہوئی جب لوگوں نے اسے ’سٹیو جابز کراچی کے بوٹ بیسن پر نظر آئے‘ یا ’دیکھو سٹیو جابز ایف-10 میں بیٹھے چائے پی رہے ہیں‘ جیسی سرخیوں کے ساتھ شیئر کیا۔لیکن اس سے پہلے یہی تصویر مشرقِ وسطیٰ میں وائرل ہو چکی تھی۔ فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام اور ریڈیٹ سمیت دیگر سوشل میڈیا ویب سائٹس پر یہ تصویر سنیچر کے روز ہی گردش کرنا شوع ہوئی تھی اور تقریباً تین دن بعد پاکستانی صارفین کے ہتھے چڑھی۔بالکل نہیں۔ کچھ اشارے اس تصویر میں ہی موجود ہیں۔غور سے دیکھا جائے تو اس شخص کا لباس پاکستانی نہیں، عربی ہے۔ انھوں نے شلوار قمیض نہیں بلکہ عربی توب زیب تن کیا ہوا ہے۔بی بی سی عربی کے مطابق یہ تصویر مصر کے دارالحکومت قاہرہ کے ایک مشہور کیفے کے باہر کھینچی ست?ف جوبز ماماتش و موجود ف? مصر و د صور ل عل القو ف لحظة ت?مل مع?ن? و ش?ل? ندمان!!!امریکی کمپنی ایپل کے سابق چیف ایگزیکیٹو اور اس کے شریک بانی سٹیو جابز چھپن سال کی عمر میں 6 اکتوبر 2011 کو انتقال کر گئے تھے۔سٹیو جابز اور سٹیو ووزنیاک نے پہلی مرتبہ سلیکون ویلی میں ایپل کا آغاز کیا۔ سٹیو جابز نے اس کے لیے اپنی گاڑی بیچ دی۔ ان کا پہلا کمپیوٹر انیس سو چھہتر میں فروخت کے لیے پیش کیا گیا۔ ایپل انیس سو اسی میں مقبول ہوا اور اس نے سٹیو جابز کو کروڑ پتی بنا دیا۔ دو برس بعد ایپل کی فروخت ایک ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔انیس سو چھیاسی میں انھوں نے NeXT کے نام سے نئی کمپنی بنائی۔ اس کا پہلا کمپیوٹر تین سال بعد ساڑھے چھ ہزار ڈالر میں فروخت کے لیے پیش کیا گیا۔ جابز نے انیس سو ستانوے میں ایک مرتبہ پھراس وقت ایپل میں شمولیت اختیار کی جب ایپل نےNeXT کمپنی کو ہی چار سو تیس ملین ڈالر میں خرید لیا۔