لاہور(شوبزڈیسک)فلمسٹار لیلیٰ اور کامیڈین ساجن عباس آج سے گوجرانوالہ کے راکسی تھیٹر میں فل مزاحیہ اور میوزیکل ڈرامہ” حسن دیا کلیاں“ میں جلوہ گر ہونگے ۔اس کھیل کے پروڈیوسر افضل بٹ ہیں جبکہ آرگنائزر فہد علی جبکہ ڈائریکٹر اور رائٹر آغا ساجد ہیں۔پروڈیوسر افضل بٹ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا یہ کھیل مدتوں یاد رہے گا۔اس میں میں نے اداکارہ لیلیٰ اور ساجن عباس کو اکٹھے کر دیا ہے اور لیلیٰ کے گوجرانوالہ میں مداح ان کو برسوں سے دیکھنا چاہتے تھے جن کی فرمائش کو مدنظر بھی رکھا گیا ہے۔ اداکارہ لیلیٰ نے کہا کہ میں نے اپنے آئیٹم سانگز اور ڈرامہ کی ریہرسل کر لی ہے گوجرانوالہ کے مداح میری پرفارمنس کو مدتوں یاد رکھیں گے۔
Monthly Archives: November 2018
بالی وڈ میں شادیوں کا سیزن‘ راکھی ساونت کی شادی کی تاریخ مقرر
ممبئی (شوبزڈیسک) بالی ووڈ میں ان دنوں شادی کا سیزن عروج پر ہے، دپیکا پڈوکون اور رنویر سنگھ کی کی شادی کے بعد ابھی لوگوں کی نظریں دسمبر میں پریانکا چوپڑا اور نک جونس کی شادی پر لگی تھیں کہ بالی ووڈ کی ایک اور سٹار راکھی ساونت کی شادی کی تاریخ بھی مقرر ہوگئی ۔ بھارتی اخبار کے مطابق راکھی ساونت اور سوشل میڈیا پر اپنی ویڈیوز کے ذریعے مشہور دیپک کلال کی 31دسمبر کو شادی کے لئے تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔ شادی سے متعلق خبروں کی تصدیق کرتے ہوئے راکھی ساونت کا کہنا ہے کہ شادی رواں سال 31دسمبر کو لاس اینجلس میں ہوگی۔
جبکہ کچھ تقریبات بھارت میں ہوں گی۔بھارتی اداکارہ کا کہنا ہے کہ وہ بالی ووڈ سے سب کو دعوت دے رہی ہیں لیکن معلوم نہیں کون آئے گا کون نہیں؟ لیکن شاہ رخ خان، کرن جوہر اور کھلی نے شادی میں شرکت کی تصدیق کردی ہے۔
دیپکا اوررنویر کے دوسرے استقبالیے کی شاندار تقریب
ممبئی(شوبزڈیسک) بالی ووڈ کی خوبرو اداکارہ دپیکا پڈوکون اور رنویر سنگھ کے دوسرے استقبالیے کی تقریب گزشتہ روز ممبئی میں منعقد ہوئی تاہم اس بار بھی تقریب میں بالی ووڈ اسٹارز شریک نہیں ہوئے۔رواں ماہ 14 اور 15 نومبر کو اٹلی کے خوبصورت مقام لیک کومو میں شادی کے بندھن میں بندھنے والی اسٹار جوڑی دپیکا پڈوکون اور رنویر سنگھ کے دوسرے استقبالیے کی تقریب گزشتہ روز ممبئی کے گرینڈ ہائٹ ہوٹل میں منعقد کی گئی۔تاہم پہلے استقبالیے کی طرح دوسری تقریب میں بھی اسٹار جوڑی کی جانب سے بالی ووڈاسٹارز کو مدعو نہیں کیاگیا پہلے استقبالیے کی تقریب 21 نومبر کو بنگلورو میں منعقد کی گئی ۔ تیسرے استقبالیے کی تقریب یکم دسمبرکو منعقد ہوگی جس میں تمام بالی ووڈ اسٹارز شرکت کریں گے اور یہ تقریب بالی ووڈ اسٹارز کی شرکت کی وجہ سے گزشتہ دونوں تقاریب سے زیادہ رنگارنگ اور شاندار ہوگی۔
ہاکی ورلڈ کپ اولمپک چیمپئن ارجنٹائن کی سپین کیخلاف 4-3سے فتح
بھوبنیشور(سپورٹس ڈیسک)14ویں ہاکی ورلڈکپ میںاولمپک چمپئن ارجنٹائن نے سخت مقابلے کے بعد سپین کیخلاف4-3سے کامیابی حاصل کی جبکہ نیوزی لینڈنے فرانس کو 2-1سے قابوکیا۔بھارت کے شہر بھوبنیشورمیں جاری میگا ایونٹ کے دوسرے روزگروپ اے میں ارجنٹائن اورسپین کے درمیان کانٹے دارمقابلہ دیکھنے میں آیا۔اینریکے گونزالزنے سپین کو تیسرے منٹ میں سبقت دلائی۔ایک منٹ بعد میزالی نے حساب برابرکردیا۔پہلے کوارٹرکے 13ویں منٹ میں رومیونے گول کرکے سپین کو ایک بارپھر سبقت دلادی جسے اگلے ہی منٹ میںمیزالی نے ختم کردی۔پہلے کوارٹرکے آخری لمحات میں گونزالوپیلٹ نے گول داغ کر ارجنٹائن کو برتری دلائی۔ تیسرے کوارٹرمیں روئزنے میچ 3-3سے برابرکردیا۔آخری کوارٹرمیںگونزالوپیلٹ نے پینلٹی کارنرپر گول کرکے ارجنٹائن کو 4-3کی برتری دلائی جوکھیل کے اختتام تک برقراررہی۔گروپ اے کے ایک اورمیچ میں نیوزی لینڈنے فرانس کو2-1سے شکست دی۔فاتح ٹیم کےلئے رسل اورجینس نے گول کیے۔ٹورنامنٹ میںآج پول بی کے دو میچ کھیلے جائینگے۔ اس سلسلے میں پہلا میچ دفاعی چیمپئن آسٹریلیا اور آئرلینڈ کی ٹیموں کے درمیان کھیلا جائیگا جبکہ دوسرا میچ انگلینڈ اور چین کی ٹیموں کے درمیان کھیلا جائیگا۔ پاکستان ٹیم اپنا پہلا میچ کل جرمنی کے خلاف کھیلے گی جس کے لئے گرین شرٹس بھرپور پریکٹس کر رہی ہے۔
کوہلی سابق سٹار سچن ٹنڈولکر کا ریکارڈ توڑنے کے قریب
سڈنی(بی این پی ) سچن ٹنڈولکر کا ایک اور ریکارڈ ویرات کوہلی کی دسترس میں آگیا۔بھارتی کپتان ویرات کوہلی آنےوالی چار ٹیسٹ میچز کی سیریز میں مزید 2 سنچریاں اسکور کرکے آسٹریلوی سرزمین پر سب سے زیادہ ٹیسٹ تھری فیگراننگز کا بھارتی اعزازاپنے نام کر سکتے ہیں۔ویرات کوہلی نے سنیل گاوسکر کی طرح کینگروز کے دیس میں 11 میچز میں 5 سنچریاں اسکور کی ہیں، ٹنڈولکر یہاں 20 میچز میں 6 مرتبہ تہرے ہندسے میں داخل ہوچکے ہیں۔
پی ایس ایل فرنچائزز کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ
اسلام آباد (این این آئی)پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے ابتدائی تین ایڈیشنز میں کوئی بھی فرنچائز ایک دھیلا منافع کمانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے اگر صورتحال میں اگلے چند برسوں میں بہتری نہ آئی تو اس بات کے امکانات ہیں کہ پی ایس ایل فرنچائزز دیوالیہ ہوسکتی ہیںتاہم فرنچائز مالکان کو امید ہے کہ چوتھے سال نشریاتی حقوق سے ہونے والی آمدنی کا معقول حصہ فرنچائز کو ملے گا، حکومت سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس میں بھی چھوٹ دے گی جس کے بعد ان کے نقصان میں کچھ کمی ہوسکے گی۔ نجی ٹی وی کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے ٹیکس معاملات کیلئے ایک کمیٹی بنائی ہے جس نے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور وفاقی وزیر خزانہ اسد عمرسے مذاکرات کئے ¾ انہیں امید ہے کہ ٹیکس میں اگر چھوٹ مل جاتی ہے تو ان کے نقصان میں کمی آئے گی اور نئے فنانشل ماڈل سے فرنچائز مالکان کے مسائل کم ہوں گے۔اگر ٹیکس سے چھوٹ نہیں ملتی تو فرنچائز دیوالیہ ہوسکتی ہیں۔ پی ایس ایل کی تاریخ میں پہلی بار نشریاتی حقوق فروخت کرنے کیلئے ٹینڈر جمعے کو طلب کئے جارہے ہیں۔ ابتدائی تین سالوں میں پی سی بی نے مختلف چینلز سے ایئر ٹائم خرید کرٹورنامنٹ کے میچ دکھائے تھے۔پی سی بی ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ نشریاتی حقوق فروخت کرنے کیلئے ٹینڈر کھولے جائیں گے۔ چند ماہ قبل پاکستان کرکٹ بورڈ نے ایک بڑی اسپورٹس پراپرٹی کمپنی سے سروے کرایا تھا۔سروے کے مطابق تین سال کیلئے نشریاتی حقوق تقریباً 39 ملین ڈالرز میں فروخت ہونے چاہئیں ¾پاکستان کیلئے ٹی وی رائٹس کی ممکنہ قیمت 33 ملین ڈالرز اور بیرون ملک 6 ملین ڈالرز میں فروخت ہوسکتے ہیں۔ذرائع کے مطابق پی سی بی نے ابتدائی تین سال آمدنی کی رقم سینٹرل پول میں رکھی جس میں سے اخراجات نکال کر آمدنی کا حصہ ٹیموں میں تقسیم کیا گیا۔ اس سال ٹیموں کو تقریباً 11 لاکھ ڈالرز شیئر ملا ہے جبکہ ٹیموں نے اپنے طور پر اسپانسرشپ اور دیگر ذرائع سے بھی رقم کمائی لیکن ان کے نقصان کا تخمینہ آمدنی سے کئی گنا زیادہ ہے چونکہ اخراجات بہت زیادہ ہیں اس لیے ٹورنامنٹ کے موجودہ ماڈل میں ٹیکس کی مد میں26فیصد ادائیگی سے فرنچائزز کا بھاری نقصان بڑھ رہا ہے۔پاکستان کرکٹ بورڈ کے مطابق انڈین پریمیر لیگ کی طرح 10 سال بعد فرنچائز کو منافع آنا شروع ہوجائے گا۔ اس وقت بورڈ نے فرنچائزوں سے 10 سال کیلئے معاہدے کر رکھے ہیں۔ دس سال بعد مارکیٹ ویلیو دیکھ کر فرنچائزوں کے ساتھ نئے معاہدے کئے جائیں گے۔ اس لیے فرنچائزوں کیلئے دس سال بعد بھی صورتحال آسان نہیں ہوگی۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے حال ہی میں ایک بینک کو تین سال کیلئے ٹائٹل اسپانسر شپ 14اعشاریہ تین ملین ڈالرز میں فروخت کیے ہیں۔ یہ رقم پہلی ڈیل سے تین گنا زیادہ ہے۔ اسی طرح نئے چیئرمین احسان مانی کو امید ہے کہ ٹی وی رائٹس سے پی سی بی کواچھی ڈیل ملے گی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے 2015 میں پاکستان سپر لیگ شروع کرتے وقت پانچ فرنچائز سے دس سال کیلئے 93 ملین ڈالرز کا معاہدہ کیا تھا۔
ایمرجنگ ایشیا کپ کیلئے قومی سکواڈ کا اعلان ،کپتانی رضوان کے سپرد
اسلام آباد (این این آئی)پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے ابتدائی تین ایڈیشنز میں کوئی بھی فرنچائز ایک دھیلا منافع کمانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے اگر صورتحال میں اگلے چند برسوں میں بہتری نہ آئی تو اس بات کے امکانات ہیں کہ پی ایس ایل فرنچائزز دیوالیہ ہوسکتی ہیںتاہم فرنچائز مالکان کو امید ہے کہ چوتھے سال نشریاتی حقوق سے ہونے والی آمدنی کا معقول حصہ فرنچائز کو ملے گا، حکومت سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس میں بھی چھوٹ دے گی جس کے بعد ان کے نقصان میں کچھ کمی ہوسکے گی۔ نجی ٹی وی کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے ٹیکس معاملات کیلئے ایک کمیٹی بنائی ہے جس نے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور وفاقی وزیر خزانہ اسد عمرسے مذاکرات کئے ¾ انہیں امید ہے کہ ٹیکس میں اگر چھوٹ مل جاتی ہے تو ان کے نقصان میں کمی آئے گی اور نئے فنانشل ماڈل سے فرنچائز مالکان کے مسائل کم ہوں گے۔اگر ٹیکس سے چھوٹ نہیں ملتی تو فرنچائز دیوالیہ ہوسکتی ہیں۔ پی ایس ایل کی تاریخ میں پہلی بار نشریاتی حقوق فروخت کرنے کیلئے ٹینڈر جمعے کو طلب کئے جارہے ہیں۔ ابتدائی تین سالوں میں پی سی بی نے مختلف چینلز سے ایئر ٹائم خرید کرٹورنامنٹ کے میچ دکھائے تھے۔پی سی بی ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ نشریاتی حقوق فروخت کرنے کیلئے ٹینڈر کھولے جائیں گے۔ چند ماہ قبل پاکستان کرکٹ بورڈ نے ایک بڑی اسپورٹس پراپرٹی کمپنی سے سروے کرایا تھا۔سروے کے مطابق تین سال کیلئے نشریاتی حقوق تقریباً 39 ملین ڈالرز میں فروخت ہونے چاہئیں ¾پاکستان کیلئے ٹی وی رائٹس کی ممکنہ قیمت 33 ملین ڈالرز اور بیرون ملک 6 ملین ڈالرز میں فروخت ہوسکتے ہیں۔ذرائع کے مطابق پی سی بی نے ابتدائی تین سال آمدنی کی رقم سینٹرل پول میں رکھی جس میں سے اخراجات نکال کر آمدنی کا حصہ ٹیموں میں تقسیم کیا گیا۔ اس سال ٹیموں کو تقریباً 11 لاکھ ڈالرز شیئر ملا ہے جبکہ ٹیموں نے اپنے طور پر اسپانسرشپ اور دیگر ذرائع سے بھی رقم کمائی لیکن ان کے نقصان کا تخمینہ آمدنی سے کئی گنا زیادہ ہے چونکہ اخراجات بہت زیادہ ہیں اس لیے ٹورنامنٹ کے موجودہ ماڈل میں ٹیکس کی مد میں26فیصد ادائیگی سے فرنچائزز کا بھاری نقصان بڑھ رہا ہے۔پاکستان کرکٹ بورڈ کے مطابق انڈین پریمیر لیگ کی طرح 10 سال بعد فرنچائز کو منافع آنا شروع ہوجائے گا۔ اس وقت بورڈ نے فرنچائزوں سے 10 سال کیلئے معاہدے کر رکھے ہیں۔ دس سال بعد مارکیٹ ویلیو دیکھ کر فرنچائزوں کے ساتھ نئے معاہدے کئے جائیں گے۔ اس لیے فرنچائزوں کیلئے دس سال بعد بھی صورتحال آسان نہیں ہوگی۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے حال ہی میں ایک بینک کو تین سال کیلئے ٹائٹل اسپانسر شپ 14اعشاریہ تین ملین ڈالرز میں فروخت کیے ہیں۔ یہ رقم پہلی ڈیل سے تین گنا زیادہ ہے۔ اسی طرح نئے چیئرمین احسان مانی کو امید ہے کہ ٹی وی رائٹس سے پی سی بی کواچھی ڈیل ملے گی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے 2015 میں پاکستان سپر لیگ شروع کرتے وقت پانچ فرنچائز سے دس سال کیلئے 93 ملین ڈالرز کا معاہدہ کیا تھا۔
حکومت 100دن پہلے جہاں تھی وہیں کھڑی ہے، محمد زبیر وزیراعظم نے اچھے عزائم کا اعلان کیا مگر فائدہ عملدرآمد سے ہوگا، ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کرتارپور بارڈر کھولنا خوش آئند، مذاکرات جاری رکھے جائیں، سرتاج عزیز، نیوز ایٹ 7میں گفتگو
لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) مسلم لیگ ن کے رہنماءمحمد زبیر نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی آج بھی وہی پوزیشن تھی جو سو دن قبل تھی یعنی حکومت جہاں تھی وہیں کھڑی ہے عمل ے بجائے صرف باتیں ہی کی گئیں۔چینل فائیو کے پروگرام نیوز ایٹ7میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے خود تسلیم کیا مہنگائی بڑھ گئی ہے تقریر میں یوں لگا انہوں نے اپنی ناکامی تسلیم کی۔صرف عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی حکومت سو روز میں کچھ بھی نہیں کر سکی۔ عوام کی امیدیں بھی بڑھا دی گئیں لیکن رزلٹ کچھ نہیں نکلا۔ عوام موجودہ حکومت سے مایوس ہو چکے ہیں۔ ماہر معاشیات ڈاکٹر شاہد حسین صدیقی نے کہا کہ وزیراعظم نے اچھے عزائم کا اعلان کیا لیکن اب عمل کرنے سے ہی فائدہ ہو گا لیکن یہ بات طے ہے حکومت کے عزائم درست سمت میں ہیں۔اس وقت ٹیکسوں کا بھی مسئلہ ہے ۔ٹیکسیشن کا نظام در ست کرنا ہو گا۔بیس مئی کی تقریر میں عمران نے کہا تھا ٹیکس کی پالیسی سو دن میں لاگو کریں گے لیکن ابھی ایسا نہیں ہو سکا۔جی ایس ٹی بڑھ گیا ہے جس کی وجہ ٹیکسوں کی چوری ہے۔بنگلہ دیش اور بھارت ،پاکستان کی نسبت زیادہ تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔ سابق سفیرسرتاج عزیز نے کہا کہ بھارت کی کوشش ہے پاکستان کو تنہاءکیا جائے۔بارڈر پر بھی وہ پاکستان کو دباﺅ میں لانے کے لئے مصروف رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔انہوں نے کہا پاکستان کو ڈائیلانگ کی پالیسی جاری رکھنی چاہئے تاکہ دنیا کو مثبت پیغام ملے۔کرتارپور بارڈر کھولنے کا فیصلہ خوش آئند ہے۔
حکومت ملک کو درست سمت لے جا رہی ہے
لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک)کالم نگار ناصر اقبال نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان ایک نیک نیت آدمی ہیں اس میں شک والی کوئی بات نہیں۔حکومت ملک کو درست سمت میں لے کر جا ر ہی ہے۔ چینل فائیو کے پروگرام کالم نگار میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کرپشن کے خلاف حکومت پرعزم ہے کرپشن نہیں ہو گی تو ملک ترقی کرے گاآئی ایم ایف سے جان چھوٹے گی۔بدقسمتی سے جو یہاں کام کرتا ہے اس پر انگلیاں اٹھتی ہیں فوج بہترین ادارہ ہے لیکن انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔گزشتہ حکومت کے دور میں انتہاءکی کرپشن کی گئی ۔ترقیاتی منصوبوں کے نام پر جس طرح کرپشن ہوئی ایسی بدترین مثال نہیں ملتی صرف کاغذوں میں کام ہوا۔کرتارپور بارڈر کا معاملہ انتہائی مثبت اقدام ہے سکھوں نے بتا دیا وہ پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔کالم نگار ضمیر آفاقی نے کہا کہ سو دن کا ایجنڈا دینا ہی حکومت کا غیر دانشمندانہ فیصلہ تھا ہر چیز میں وقت لگتا ہے۔عوام خوش فہمی میں مبتلا ہو گئے تھے لیکن اب عوامی کی خوش فہمیاں باہر آ رہی ہیں۔حکومت نے اپنی پالیسوں اور وعدوں پر عمل نہیں کیا۔ناقدین کہتے ہیں حکومتی کارکردگی صفر ہے۔انہوں نے کہا کرتارپور بارڈر مثبت اقدام ہے لیکن ملک صرف باتوں سے نہیں چلتے۔انہوں نے کہا حکومت کو چاہئے عوام کو ریلیف دے۔کالم نگارآغا باقر نے کہا کہ یہ نہیں کہا جا سکتا حکومت نے کچھ نہیں کیا۔حکومت کے مثبت اقدام کی تعریف بھی کرنی چاہئے ابھی تو صرف سو دن ہوئے ہیں خارجہ پالیسی بہتر سمت میں گامزن ہے۔تہہ در تہہ کرپشن کے جرائم کا انکشاف ہو رہا ہے جس کے خلاف حکومت ایکشن لے رہی ہے۔پبلک سیکٹر پرفارم نہیں کرتا ۔انہوں نے کہا کہ بھارت کو کور ایشوز پر بات کرنی چاہئے۔کالم نگار میاں افضل نے کہا کہ سو دن میں ساری سمتیں ٹھیک نہیں ہو سکتے کسی کے پاس کوئی چراغ تو ہے نہیں کو رگڑا اور مسائل حل ہو جائیں۔پالیسیاں اور ہوم ورک کرنا پڑتا ہے۔ مثبت پہلو یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس ابھی تک نہ جانا کامیابی ہے۔سعودی سے بھی تعلقات مزید بہتر ہو گئے جو بہتر خارجہ پالیسی کی کامیابی ہے۔انہوں نے کہا کرپشن کے خلاف کارروائی بلاامتیاز ہونی چاہئے۔ مقبوضہ کشمیر میں دو جوانوں کا قتل کرتارپور بارڈر کا ردعمل ہے۔
عمران خان کی تقریر گائیڈ لائن ہے کہ غریب اور کمزور کو کیسے اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنا ہے
لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ عمران خان کی پہلی تقریر بھی سنی تھی اور 100 روز مکمل ہونے پر تقریر بھی سنی ہے اس بات کی بہت خوشی ہوئی ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ایک مرتبہ ملک میں عوام کو مشکلات ہیں غربت، مہنگائی کے سبب اس کی ذمہ داری انہوں نے پچھلی حکومت پر ڈالی خود کو بری الذمہ قرار نہیں دیا بلکہ انہوں نے ذمہ داری قبول کی کہ ہاں اس وقت یہ مسائل ہیں۔ انہوں نے سب سے زیادہ زور دیا کہ غریب آدمی کو کمزور آدمی کو کس طرح اٹھانا اور اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنا ہے۔ ان کی تقریر زبردست قسم کی گائیڈ بک تھی میرے بس میں ہو تو میں اس میں سے نکات نکال کر اسے نئے طریقے سے اسے چھاپ کر اس کو جس طرح سے ایک زمانے میں مختلف لیڈروں نے مثال کے طور قذافی نے اپنی اپنی ایک بک بنائی تھی۔ قائداعظم کی تقریروں میں سے لے کر بھی ایک بک بنائی گئی تھی کہ کیا کام کرنا ہے کیا نہیں کرنا۔ اسی طرح سے میں سمجھتا ہوں کہ ان کی گفتگو کی روشنی میں جو کام کرنے والے ہیں اس کے بارے میں پوائنٹس بنا کر ایک گائیڈ بک بنانی چاہئے وہ ہر وقت وہ شخص جو سوچنا چاہتا ہے اس کے پاس گیٹ تھرو گائیڈ جس طرح سے ہوتی ہے جب آدمی پورا پرچہ تیار نہیں کر سکتا تو وہ گیٹ تھرو گائیڈ لیتا ہے کہ ضروری ضروری سوال کم از کم تیار کر لے تا کہ امتحان میں پاس ہو جائے۔ اس امتحان میں جو اس ملک کو اور غریبوں کو درپیش ہے یا اس کے محتاجوں کو درپیش ہے۔ جو زندگی کی اس دور میں پس گئے ہیں بہت رہ گئے ہیں مسلے گئے ہیں پیچھے رہ گئے ہیں۔ جب وہ بات کر رہے تھے تو میری آنکھوں میں آنسو آ رہے تھے کہ جب خاص طور پر کہ جو بچے ہیں پہلے 3,4 برس میں ان کی خوراک وہ اتنی غیر مناسب ہوتی ہے کہ ان کی جسمانی اور دہنی نشوونما نہیں پاتی اور کتنے بچے جو ہیں پیدائش کے ساتھ بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ کتنے بچے بڑے ہونے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں۔ میس سوچ رہا تھا کہ کتنے بڑے ہسپتال دانش سکول بنائے گئے، پڑھا لکھا پنجاب کے ڈھنڈورے پیٹے گئے۔کیسے کیا کیا اصلاحات آ رہی ہیں میں سمجھتا ہو ںکہ ہمیں کسی بڑی ٹرین کی ضرورت نہیں کسی ہوائی سروس کی ضرورت نہیں۔ اصل چیز یہ ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ غریب اور کمزور بندوں کو، جس طرح سے یہ صرف دعوے نہیں ہیں۔ میں نے خود فیچر چھاپے ہیں میں نے خود اپنے اخبار میں 2,2 صفحات کے رنگین فیچر شائع کئے ہیں کہ لاہور میں یہ جو سڑکوں کے درمیان گرین بیلٹ پر راتوں کو کتنے مزدور سوتے ہیں اور اب جبکہ سردی آ رہی ہے تو کتنے ایسے لوگ ہیں وہاں باہر جب سوتے ہیں تو دکانوں کے باہر پھٹوں کے نیچے گھس کر سوتے ہیں کہ سردی سے بچ سکیں۔ ان لوگوں کے لئے لاہور میں بہت تھوڑے ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ شاید بہت زیادہ کی ضرورت ہے لیکن جو رپورٹر بھیجے تھے ان لوگوں نے آ کر کہا کہ لوگ بہت سہولت میں ہیں اتنا گرم کمبل ہے کہ بڑی آسانی سے گزارا ہو سکتا ہے۔
ضیا شاہد نے کہا وزیراعظم اگر 25 فیصد باتوں پر عمل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ملک میں بڑی تبدیلی آ سکتی ہے۔ بلوچ صاحب نے کہا ہے کہ ہر حکومت جب آتی ہے تو اس قسم کی باتیں کرتی ہے۔ حالانکہ میں نے بڑے تقریریں سنی ہیں میں نے نوازشریف کو اپنی پہلی تقریر میں ایسی باتیں کرتے نہیں دیکھا۔ انہوں نے غریب آدمی کی حالت بدلنے کی کبھی بات نہیں کی۔ انہوں نے کبھی ایک سے زیادہ نظام ہائے تعلیم بدلنے کی، ایک نظام تعلیم لانے کی بات نہیں کی۔ کبھی یوسف رضا گیلانی نے اس قسم کی بات نہیں کی۔ کبھی مشرف نے بھی کبھی ایسی باتیں نہیں کی تھیں۔ کم از کم 100 دنوں کے بعد اپنی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیتے وقت عمران خان نے کچھ ایشوز کو چھیڑا بھی ہے تو وہ اس میں سو فیصد نہیں کامیاب ہوتے 25 فیصد بھی کامیاب ہو گئے تو بڑی بات ہو گی۔ ہمارے ہاں سیاستدان دوقسم کے ہیں ایک وہ ہیں جو کسی وجہ سے حکومت میں پہنچ سکے ان کی رائے اور ہو گی اور جو اس قسم کے ساتھ ان کی رائے او ہو گی۔
ضیا شاہد نے کہا کہ مجھے کتنے مہینوں میں قیصر امین بٹ نے طے کیا ہے کہ وہ وعدہ معاف گواہ بن گئے ہیں اور وہ اقبالی بیان دیں گے۔ کم از کم پیراگون نام سنتے ایک عرصہ گزر گیا اس طرح سے لوگوں کا اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔ نیب کو چاہئے کہ ٹھیک فیصلہ دینا ہے کہ آپ چاہے نامکمل چالان پیش کریں چالان تو پیش کریں جن لوگوں کے وعدہ معاف گواہ بنا لئے ہیں جس نے معلومات دے دی ہیں۔
قائرہ صاحب! آصف زرداری صاحب جتنا مرضی کہہ رہے ہیں اومنی گروپ سے ان کا کوئی تعلق نہیں مگر کوئی ماننے کو تیار نہیں ہو گا۔
پیپلزپارٹی وسطی پنجاب کے صدر قمرزمان کائرہ نے کہا کہ بھٹو دور میں جو نیشنلائزیشن ہوئی وہ اس وقتکی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے منشور میں شامل تھی۔ مسلم لیگ، عوامی لیگ، نیپ، جماعت اسلامی کے منشور میں بھی شامل تھی۔ اس دور میں دنیا بھر میں ادارے قومیائے جا رہے تھے بھٹو صاحب نے بھی زمانے کے ساتھ چلتے ہوئے وہی کام کیا۔ اسی دور میں یہ اقدام اٹھانے کا مقصد تھا کہ سرمایہ کاروں کے رویے کو درست رکھنے کیلئے اس پر مانیٹر مقرر کیا جائے تا کہ وہ غریب مزدور کا استحصالنہ کر سکے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے مزدور طبقے کو تحفظ فراہم کر کے اس وقت کے معاشرے کی ہئیت ہی بدل دی تھی غریب کو روزگار فراہم کیا، بیرون ممالک میں روزگار کے مواقع، زراعت ترقی، لینڈ ریفارمز سب انقلابی کام تھے جن سے عوام کو روزگار اور عزت نفس ملی جو روٹی کپڑا اور مکان سے بھی بڑھ کر تھی۔ عمران خان آج بھی وہی تقریر کی جو انہوں نے کنٹینر، قومی اسمبلی، عوام سے خطاب، سعودی عرب، ملائیشیا، چین میں کی۔ وزیراعظم کو بتانا تو یہ چاہئے تھا کہ 100 دن میں ہم نے یہ کام کیا، مستقبل کے صیغے میں ”کر دیں گے، ہو گا“ میں بات نہیں کرنی چاہئے تھی۔ نظام تعلیم میں بڑا تیر یہ مارا کہ 100 دن میں دس بارہ بندوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی ہے۔ اب خارجہ پالیسی میں بھی یو ٹرن لینے لگے کہتے ہیں کہ گلگلی چلا دی یعنی بھارت کی نیت پر شک کر رہے ہیں ایک جانب ان سے تعاون بڑھا رہے ہیں دوسری جانب یہ دفاع میں کہہ رہے ہیں۔
جماعت اسلامی کے سینئر رہنما لیاقت بلوچ نے کہا کہ وزیراعظم نے جو تقریر کی اس کے کئی پہلو ہیں، حکومت نے 100 دن کے حوالے سے بڑے بڑے عزائم کا دعویٰ کیا، عوام کی توقعات برھا دیں جو مسائل کا باعث بن رہی ہیں کچھ اچھے کام بھی کئے گئے تاہم مہنگائی بڑھی عام آدمی کے مسائل میں اضافہ ہوا جو حقیقت ہے۔ امید کرنی چاہئے کہ حکومت ان 100 دن کے بعد سنبھل جائے گی۔ وزیراعظم نے جن عزائم کا اظہار کیا، ایگری کلچر، ڈیری فارم، برآمدات، پانی کی بچت تو یہ سب باتیں تو پہلے بھی حکمران کرتے آئے ہیں اصل بات تو یہ ہے کہ ان سب باتوں پر عملدرآمد کیسے ہوتا ہے کیسے حکومت عملدرآمد کرانے میں کامیاب ہو گی۔ 100 دن میں صوبائی اسمبلیوں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ عمران خان نے جن عزائم کا اظہار کیا ان پر عملدرآمد کرا سکے تو ملکی حالات میں بہتری آ سکتی ہے اگر یہ سب کچھ محض اعلانات تک محدود رہا تو عوام کے ساتھ ساتھ حکومت بھی مشکلات کا شکار ہو جائے گی۔
معروف ماہر معیشت شاہد حسن صدیقی نے کہا کہ وزیراعظم نے جو باتیں کی ہیں ان میں سے 25 فیصد یہ بھی عملدرآمد کرنے میں کامیاب رہے تو بڑی کامیابی ہو گی معیشت بہتر ہو گی روزگار کے مواقع بڑھیں گے غربت کم ہو جائے گی۔ ملک کو بیرونی وسائل پر انحصار کم کرنا ہو گا وزیراعلیٰ نے جن عزائم کا اظہار کیا اس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت بحیثیت مجموعی درست سمت میں ہے۔ حکومت نے 20 مئی کو 10 نکاتی ایجنڈا دیا جس میں کہا گیا کہ بیرونی قرضوں پر انحصار کم کر کے عدل پر مبنی ٹیکس نظام لایا جائے گا اگر حکومت ایسی پالیسی بنانے میں کامیاب رہتی ہے جس سے ٹیکس نظام میں بہتری آئے تو اس سے اسے 4 ہزار ارب کی اضافی آمدنی ہو سکتی ہے جسے تعلیم صحت روزگار کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے تاہم آج بھی وزیراعظم نے ایسی کسی پالیسی کا اعلان نہ کیا بلکہ پھر کہہ دیا کہ پالیسی لائیں گے۔ حکومت کا موقف ہے کہ جاری حسابات کا خسارہ سنگین ہے جسے کنٹرول کرنا ہے تاہم میرے نزدیک یہ سوچ غلط ہے اصل مسئلہ تجارتی خسارہ ہے، دوسرا برآمد میں فرق ہے بیرون ممالک سے آنے والے پیسے سے سرمایہ کاری کے بجائے تجارتی خسارہ پورا کیا جائے گا تو اس سے معیشت بہتر نہیں ہو گی۔ ایف اے ٹی ایف بھی پاکستان پر دباﺅ ڈال رہا ہے اگر امریکہ ہم سے ناراض ہو کر یو اے ای، سعودیہ پر پابندی لگا دے کہ منی لانڈرنگ ہو رہی ہے کہ ہم کہاں جائیں گے۔ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو ستمبر تک کا وقت دیا ہے یہ فیصلہ ہو گا کہ نام گرے لسٹ سے نکالا جائے یا نہیں۔
ریذیڈنٹ ایڈیٹر خبریں اسلام آباد منظور ملک نے کہا کہ ملکی تاریخ میں پہلی حکومت ہے جس نے 100 دن کے بعد خود کو احتساب کیلئے پیش کر دیا۔ اسلام آباد میں منعقدہ تقریب بڑی متاثر کن تھی اس میں غیر ملکی سفراءسمیت ہر طبقہ فکر کے لوگوں نے شرکت کی۔ وزیراعظم نے بڑی حوصلہ افزا تقریر کی ان کی باتوں میں عزم نظر آتا تھا کہ وہ جو کہہ رہے ہیں اسے کر گزریں گے۔ کرپشن کے حوالے سے اعداد و شمار بتائے گئے جو حوصلہ افزا ہیں۔ قبضہ مافیا سے لاکھوں ایکڑ زمین واگزار کرانا بھی حکومت کا بڑا اقدام ہے۔ وزیراعظم اپنے عزائم کو پورا کرنے کیلئے ہر حد تک جانے کو تیار ہیں وہ اداروں کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کے حوالے سے بھی پرعزم ہیں ہمیں اُمید کرنی چاہئے کہ وہ کامیاب ہوں گے۔
چند مشیر ،وزیر اور بیورو کریسی میں موجود لوگ کپتان کو بولڈکر نے کیلئے کوشاں اطلاعات ہیں وزیر اعظم کچھ وزراءسے خوش نہیں ،چینی حکومت نے بھی کارکردگی بہتر بنانے کا کہا ہمیں وزیر اعظم کی نیت پر شک نہیں سوال یہ ہے کہ انہیں بریفنگ دینے والے آخر کر کیا رہے ہیں
+حکومت پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے 100 دن مکمل ہونے پر جس تقریب کا اہتمام کیا اس میں
وزیراعظم عمران خان اپنے 100 دن کا پروگرام بتاتے ہوئے یہ ضرور کہتے رہے کہ ان کی حکومت نے گزشتہ 100 دنوں میں کرپشن کے خاتمے‘ اداروں کی مضبوطی اور غریب اور متوسط طبقے کی بہتری کے لئے خاطر خواہ اقدامات کئے۔ وزیراعظم عمران خان اس پروقار تقریب جس میں حکومت پاکستان کے کروڑوں روپے خرچ ہوئے اور جس میں جناح کنونشن سنٹر کا ہال بھی مکمل طور پر بھر نہ سکا‘ میں اپنی حکومت کی کارکردگی بیان کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سفارتی خوبیوں کو گنوانے کی کوشش میں لگے نظر آئے۔ ایک غیرجانبدار تجزیہ کار کی حیثیت سے گزشتہ 100 دنوں میں وزیراعظم عمران خان کی سب سے بڑی کاوش ملک میں سڑکوں پر سونے والے افراد کےلئے پناہ گاہوں کا قیام اور مفت علاج کےلئے ہیلتھ کارڈ کی سہولت ہے۔ وزیراعظم عمران خان جن سے قوم کو بہت زیادہ توقعات ہیں ‘ تاحال اپنی حکومت کی سمت بتانے میں کامیاب نہیں ہو پائے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بلاشبہ عمران خان کے ذاتی کردار کی وجہ سے وجود میں آئی ہے لیکن ہرحکومت کی طرح اس حکومت کا بھی سب سے بڑا مسئلہ اس کے چند ایک مشیر جو وفاقی وزراءکی حیثیت اور بیوروکریسی میں موجود افراد کی حیثیت سے کچن کیبنٹ کا حصہ ہیں۔ وہ کپتان عمران خان کو ”گگلی “ کا جھاکہ دےکر بولڈ یا ایل بی ڈبلیو کرنے کے درپہ ہیں۔ اندر کی چند ایک رپورٹوں کے مطابق وزیراعظم اپنی موجودہ کابینہ کے کچھ وزراءسے خوش نہیں۔ مثلاً نیا پاکستان ہاﺅسنگ سکیم‘ پٹرولیم اور اسی طرح کی کچھ وزارتوں سے وہ سخت ناخوش ہیں بلکہ ان کو تین ماہ کا مزید وقت دیا گیا ہے کہ وہ اپنی کارکردگی بہتر کریں۔ اس کی بہت بڑی وجہ وزیراعظم کے دورہ چین کے بعد سامنے آئی جب چینی حکومت نے پاکستانی وفد کو یہ پیغام دیا کہ آپ مختلف شعبہ جات میں اپنی کارکردگی بہتر کریں‘ مختلف وزارتوں کی آﺅٹ پٹ مفید بنائیں تاکہ پاکستان سے چین میں ہونےوالی درآمدات میں اضافہ کیا جاسکے۔ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز اس تقریب میں بہت سارے ایم این ایز‘ ایم پی ایز کو اکٹھا تو ضرور کرلیا لیکن یہ بتانے میں کامیاب نہ ہوئے کہ صوبہ جنوبی پنجاب پر اب تک کیا پیش رفت ہوئی؟ پاکستان کا خسارہ کتنا ہے؟ بیورو کریسی میں موجود افراد وزیراعظم کے من پسند وزیراعلیٰ پنجاب کے دورہ ڈی جی خان پر ملتان سے لائی گئی بسیں چلانے پر کیوں مجبور ہیں؟ آخر پاکستان ہی بھارت کو ہردوسرے روز صلح کی دعوتیں اور پیشکشیں کیوں کررہا ہے؟ کہاں ہے شہر کراچی کے لئے منی پیکیج جس شہر نے پی ٹی آئی کی حکومت کو سب سے زیادہ سیٹیں دلوائیں؟ وزیراعظم کو یہ بتانا چاہئے تھا کہ PIA میں کیا بہتر آئی؟ کرپشن پر تو بات کی گئی لیکن کیا پاکستان کا جھنڈا مختلف ملکوں میں لے کرجانےوالی ائیرلائن جس کا وعدہ اور بات بطور اپوزیشن وہ بار بار کرتے رہے‘ کیا وہ ٹھیک ہوگئی؟ کیا اس کی پروازیں بروقت جاتی رہیں؟ یہی تھے وہ سوال جن کو وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اس پروقار اور مہنگی تقریب میں اپنی عوام کے سامنے لانا تھا۔ اس پوری تقریب میں ماسوائے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کوئی بھی وزیر اپنے محکمے کی کارکردگی پر خاطر خواہ بات کرنے میں یکسر ناکام رہا۔ 100 روز کی کارکردگی کو اس طرز پر بیان کرنا بلاشبہ پہلی بار ہے کہ کوئی وزیراعظم اس طرح فرنٹ فٹ پر آکر کھیلا ہو اور قوم کو بتانے کی کوشش کی ہو کہ حالات کیاتھے اور اب کیا ہیں۔ لیکن رائے یہ ہے کہ جن باتوں پر روشنی ڈالی گئی وہ مائیکرو پرابلم (Micro Problems) نچلی سطح کے چھوٹے مسائل/ دعوے) ہیں لیکن میکرو پرابلم ( Macro Problems) بڑے مسائل/ وعدے) پر بات گول کردی گئی۔ قوم عمران خان سے یہ کہنا چاہتی ہے کہ اپنی 100دن کی کارکردگی پر اپنے بڑے وعدوں پر بڑے اعلان کریں کیونکہ وہ ہمیشہ کہتے رہے ہیں کہ بڑی سوچ رکھنے والا اور بڑی سوچ کا حامل شخص ہی آگے چلتا ہے۔ ان کی نیک نیتی پر شک کئے بغیر وزیراعظم کو یہ دیکھنا ہوگا کہ ان کو بریفنگ دینے والے کون ہیں؟ اور آخر کرکیا کررہے ہیں؟
تجزیہ امتنان شاہد
امریکی سینیٹ کی یمن جنگ میں سعودی عرب کی امداد ختم کرنے کی حمایت
واشنگٹن(ویب ڈیسک) امریکی سینیٹرز نے یمن جنگ میں سعودی اتحاد کی حمایت ختم کرنے کیلئے ایوان میں قرارداد لانے کی حمایت کردی۔یمن جنگ میں سعودی عرب کی امداد روکنے کے حوالے سے قرارداد پیش کرنے اور اس پر بحث کیلئے امریکی سینیٹ میں ووٹنگ ہوئی۔ 63 سینیٹرز نے بحث کے حق میں جبکہ 37 نے مخالفت میں ووٹ کاسٹ کیا۔اب اس حوالے سے سینیٹ میں ایک حتمی قرارداد پیش کیے جانے کا امکان ہے۔ دوسری جانب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی ہے اگر کانگریس نے یمن جنگ کی حمایت ختم کرنے کی حتمی قرارداد منظور کی تو وہ اسے ویٹو کردیں گے۔امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ قرارداد لانے کیلئے یہ مناسب وقت نہیں، کیونکہ اس سے خطے میں ہماری امن کی کوششیں متاثر ہوں گی، جبکہ حوثی باغیوں اور ایرانیوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ترکی میں سعودی قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سے امریکا سمیت دنیا بھر میں سعودی حکومت اور ولی عہد محمد بن سلمان کی مخالفت میں شدید اضافہ ہوا ہے اور امریکا پر سعودی عرب کی غیر مشروط حمایت سے دستبردار ہونے کے لیے کافی دباﺅ ہے۔دوسری طرف ٹرمپ انتظامیہ نے دو ٹوک الفاظ میں موجودہ سعودی حکومت کی حمایت سے دست بردار ہونے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا ذمہ دار ولی عہد محمد بن سلمان کو قرار نہیں دیا جاسکتا۔
جارجیا کی تاریخ میں پہلی بار خاتون صدر منتخب
تبلسی(ویب ڈیسک) جارجیا کے عوام نے صدارتی انتخابات میں پہلی بار ایک خاتون سالومے زور بیشویلی کو صدر منتخب کرلیا ہے جن کا تعلق حکمراں جماعت سے ہے۔بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق جارجیا کے الیکشن کمیشن نے بدھ کے روز ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی مکمل کرنے کے بعد اعلان کیا کہ سالومے زور بیشویلی قریباً 59 فیصد ووٹ حاصل کرکے صدارتی انتخاب جیت گئی ہیں جب کہ ان کے مدمقابل حزب اختلاف کے امیدوار قریباً 40 فیصد ووٹ حاصل کرسکے۔صدارتی انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے والی سالومے زور بیشویلی نے ملک کی پہلی خاتون صدر بننے کا اعزاز بھی حاصل کرلیا ہے وہ 16 دسمبر کو منصب کا حلف اٹھائیں گی۔سالومے زور بیشویلی بطور سفارت کار بھی ذمہ داریاں ادا کرچکی ہیں اور حکمران جماعت نے ان کی ذہانت اور صلاحیتوں کے سبب ملک کے اہم ترین عہدے کے لیے اپنا امیدوار نامزد کیا تھا۔دوسری جانب ہارنے والے امیدوار نے الیکشن میں بے ضابطگیوں کا الزام عائد کیا ہے اور حزب اختلاف کی 11 جماعتوں پر مشتمل اتحاد نے نتائج پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔