14 سالہ لڑکے سے زیادتی ،پولیس نے تھانے سے دھکے دیکر نکال دیا ، مظلوم خاندان انصاف کیلئے ” خبریں ہیلپ لائن “ پہنچ گیا

لودہراں (رپورٹ:امین چوہدری سے)14سالہ لڑکے سے اغواءکے بعد زیادتی اوباش درندہ صفت 24گھنٹے زیادتی کا نشانہ بناتے رہے مقامی تھانہ صدر کہروڑ پکہ میں درخواست کے باوجود کوئی شنوائی نہ ہوئی ملزمان کو مقامی (ن) لیگی ایم این اے کی پشت پناہی حاصل تھانہ سے دھکے مار کر نکال کھڑا کیا جان سے مار نے جیسی سنگین نتائج کی دھمکیاں ملزمان سے جان کا خطرہ 60سالہ بوڑھی ماں حصول انصاف کیلئے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ”خبریںہیلپ لائن لاہور“فون ’خبریںکے توسط سے اعلیٰ حکام ،آر پی او ملتان،ڈی پی او لودہراں سے ملزمان کیخلاف مقدمہ درج کر کے اور گرفتار کر کے سخت سے سخت سزا کی اپیل اگر انصاف نہ ملا توڈی پی او آفس کے سامنے خود پر تیل چھڑک کر خود سوزی کر لوں گی.تفصیل کے مطابق موضع گول تحصیل کہروڑ پکہ کی رہائشی 60سالہ بوڑھی بشیراں بی بی نے ”خبریں“دفتر آکر دہائی دیتے ہوئے بتایا کہ وہ اور اسکا خاوند نذیر احمد کراچی میں محنت مزدوری کر کے عرصہ 12سال سے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیںاور اسکے سات بچے دو بیٹیاں اور پانچ بیٹے ہیں اور موضع گول میں موجود اپنا مکان اپنے جیٹھ کی نگرانی میں دے دیا مورخہ یکم ستمبر کو چوکی رنگو خان میں مقیم میرے بہنوئی اللہ وسایا کے گھر اسکے بیٹے کی شادی پر اپنے چار بچوں 14سالہ محمد احمد ،12سالہ محمد احمر،7سالہ جڑواں ارسلان ،فیضان کے ہمراہ آئی وہاں پر شادی کے دورانیہ میں ہی اوباش درندہ صفت سانول ،توصیف اور احمد اور ایک کس نا معلوم نے میرے بیٹے 14سالہ محمد احمد پر بری نیت سے نظریں گاڑھ لیں اور اس کے ساتھ میل جول بڑھانے لگے مگر میرے بیٹے نے ان سے کنارہ کئے رکھا ہم شادی سے مورخہ 10ستمبر کو اپنے گھر واقع موضع گول میں آگئے جہاں پر بھی اوباش درندہ صفت افراد نے میرے بیٹے کا پیچھا نہ چھوڑا اور مورخہ 14ستمبر کی شام کو اوباش درندہ صفت سانول،احمد اور توصیف اور ایک کس نامعلوم نے اسکے پھوپھے نذر خان کے گھر کے سامنے والی دوکان پر آئے اور میرے بیٹے کواپنے پاس بلویا اور اسے زبردستی موٹر سائیکل پر بٹھا کر لے گئے اور اسے چاہ رند جادہ میں لے گئے اور وہاں زبردستی چاروں اوباشوں نے میرے بیٹے کو 24گھنٹے زیادتی کا نشانہ بنایا اور نشئی آور ادویات دے کر اسے بے ہوشی کے عالم میں رکھااور اسکی بلیو ویڈیوز بنا لیں تلاش کے دوران ہم انکے گھر گئے جہاں ہمیں کہا گیا کہ سانول وغیرہ گھر ہی نہیں آئے ہیں اگلے روز شام 5بجے ملزمان کی گھر گئے اور اپنے بچے کی بازیابی کی دہائی دی جس صاف انکاری ہوگئے اور دوکاندار کی نشاندہی پر ہمیں ہمارا بیٹا نیم مردہ حالت میں دیا جسکو لے کر ہم تھانہ صدر کہروڑ پکہ میں آگئے ارو اپنے بچے کا ڈاکٹ جاری کروایا مگر چونکہ ملزمان بااثر ہیں اور مقامی (ن) لیگی MNAکی بھی پشت پناہی حاصل ہے جس کی بدولت مقامی تھانہ میں تعینات افسران نے ہماری ایک نہ سنی بلکہ میرے بیٹے کا اصل ڈاکٹ جاری کرنے کی بجائے مقامی MNAکی ایک فون کال پر ASIمہر شکور نے ہمارا اصل ڈاکٹ پھاڑ ڈالا اور اپنی من مرضی کا ڈاکٹ تیار کر کے ہمیں تھانہ سے ہی دھکے مار کر نکال دیا گیا افسر مہتمم تھانہ نے بھی ہماری ایک نہ سنی اور ہمارے ملزمان کیخلاف کسی بھی قسم کی کاروائی کرنے سے صاف انکاری ہوگیا بلکہ ہم سے ملزمان کیخلاف کاروائی کرنے کے عوض 1لاکھ کی ڈیمانڈ بطور رشوت کر دی ملزمان آزادانہ دندناتے پھر رہے ہیں اور ہمیں ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے اور ان اوباش درندوں کی طرف سے قتل اور میرے بیٹے کو اغواءکرکے قتل کی دھمکیاں دی جا رہی ہیںاور ہمیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ اگر کوئی بھی کاروائی کی تو تمہارے بیٹے کی بنائی گئی ویڈیوز وائرل کر دیں گے اور ہماری کہیں کوئی شنوائی نہ ہو رہی ہے میں انصاف کی خاطر روزانہ تھانے کے چکر لگا لگا کر تھک گئی ہوں مگر کہیں سے کوئی امید کی کرن دکھائی نہیں دے رہی ہے60سالہ بوڑھی ماں حصول انصاف کیلئے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور60سالہ بشیراں بی بی کا ”خبریںہیلپ لائن لاہور“فون ”خبریںکے توسط سے اعلیٰ حکام ،RPOملتان،DPOلودہراں سے ملزمان کیخلاف مقدمہ درج کر کے اور گرفتار کر کے سخت سے سخت سزا کی اپیل اگر انصاف نہ ملا توDPOآفس کے سامنے خود پر تیل چھڑک کر خود سوزی کر لوں گی۔

روپے کی قیمت گرتی رہی تو پٹرول کی قیمتیں بڑھیں گی مہنگائی کا طوفان آئیگا : علی جاوید نقوی، پاکستان میں ڈیمز ناگزیر ہیں پانی کے بغیر بقاءممکن نہیں: آغا باقر ، بڑے مگرمچھوں کو پکڑنے کی ضرورت ہے اس معاملہ میں لحاظ نہ کیا جائے: سردا رمحمد ، حکومت چلانے کیلئے ریونیو کا ہونا ضروری ہے اخراجات پر کنٹرول کی کوشش خوش آئند ہے: زاہد عتیق ، چینل ۵ کے پروگرام ” کالم نگار “ میں گفتگو

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک)کالم نگار زاہد عتیق نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت مبارکباد کی مستحق ہے جس نے جمہوری روایات کے مطابق اپنا پہلا بجٹ پیش کر دیا ہے۔وزیر خزانہ نے معاشی صورتحال کی وضاحت کر دی کہ معیشت آئی سی یو میں ہے آج کا بجٹ یکطرفہ ہے۔چینل فائیو کے پروگرام کالم نگار میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں اگر مسائل ہیں تو قدرت نے مواقع بھی بہت عطا کئے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم وقت پر مواقعوں سے استفادہ نہیں کر سکے۔حکومت چلانے کے لئے ریونیو کا ہونا ضروری ہے۔اخراجات پر کنٹرول کرنے کی کوشش خوش آئند ہے۔ملک میںاحتساب کا نظام ہے لیکن کبھی عمل نہیں کیا گیا۔ٹیکس لگنے سے معاشی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں۔ڈیمز ہنگامی بنیادوں پر تعمیر ہونے چاہئیںملکی بقاءاسی میں ہے۔کالم نگار آغا باقر نے کہا کہ دیکھنا یہ ہے کہ پہلے اور اب کے بجٹ میں کیا فرق ہے۔میرے خیال میں بڑے تائیکونز کو پکڑنا آسان نہیں۔اس میں شک نہیں ملکی معیشت بہتر نہیں۔عوام کو موجودہ حکومت سے کافی امیدیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ڈیمبز ناگزیر ہیں پانی کے بغیر بقاءممکن نہیں پانی زندگی ہے۔اس کے لئے کاوشیں خوش آئند ہیں۔وزیراعظم عمران خان کا دورہ سعودی عرب اہم ہے۔پاکستان کو تجارت بڑھانی چاہئے۔ کالم نگارعلی جاوید نقوی نے کہا کہ میں سمجھتا ہوںیہ ایک مکمل بجٹ ہے لیکن اس میں عوام کو ریلیف نہیں دیا گیا۔اگر روپے کی قیمت گرتی رہی تو پیٹرول کی قیمتیں بڑھیں گی جس سے مہنگائی کا طوفان آئے گا۔عمران خان سعودی عرب گئے ہیں ہوسکتا ہے وہاں سے کوئی پیسے مل جائیں سعودی ہمارا دوست ہے۔مشرف دور میں بھی احتساب کرنے کی کوشش کی گئی لیکن کامیابی نہیں ملی۔میرے خیال میں ڈیمز پر پوری قوم متفق ہے۔ کالم نگارسردار محمد حیات نے کہا کہ حکومت کو مشکل فیصلے کرنا پڑیں گے اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔آئی ایم ایف کے پاس جانا بھی مناسب نہیں زائد نوٹ چھاپنے سے بھی اس اس کے نقصانات بعد میں سامنے آتے ہیں۔میرے خیال میں بڑے مگرمچھوں کو پکڑنے کی ضرورت ہے اس معاملے میں بالکل لحاظ نہ کیا جائے۔اگر احتساب ڈھیلا ڈھالا ہونا ہے تو نہ ہی کیا جائے۔ڈیمز پر کسی کو سیاست نہیں کرنی چاہئے ڈیمز کی تعمیر قومی ضرورت ہے۔ وزیراعظم عمران خان میچ دیکھنے یواے ای گئے تو عوام کا جوش بڑھے گا۔

حکومت 50 لاکھ افراد کیلئے گھر بنا دے تو بڑاکام ہو جائیگا : ضیا شاہد، شناخت ” بہاری “کو دیں جو 72 برس سے کیمپوں میں پڑے ہیں : کائرہ ، سعودی عرب کہے گا گیس پائپ لائن بھول جائیں : سردار آصف، بجٹ میں کوئی چیز نہیں آئی جس کی تعریف کر سکیں : عقیل کریم کی چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ بجٹ کی ساری باتیں اپنی جگہ پر لیکن حکومت نے جس طرح اعلان کیا تھا اگر 50 لاکھ افراد کے لئے گھر بنا دیں گے تو میں سجھتا ہوں کہ اگر وہ اور بڑا کام نہ کریں یہ بڑا کام ہو گا۔ جو کچھ بھی ہونا ہے ابھی بہت ساری چیزیں ابتتدائی مراحل میں ہیں۔ آج بھی میں ڈیڑھ دو گھنٹہ وزیراطلاعات کے پاس رہا۔ سی پی این ای کی میٹنگ تھی جس میں میں اور امتنان شاہد گئے ہوئے تھے ان سے بھی کافی بحث مباحثہ جاری رہا اور ان کی بات ہم نے بھی سمجھنے کی کوشش کی۔ بہت ساری باتیں جنہیں ہم ان آفنگ کہتے ہیں کیونکہ دن رات بعض نئی چیزوں پر کام ہو رہا ہے اور وہ کیا کرتا ہے۔ مجھے اس سے مایوسی بھی ہوئی ہے کہ جس طرح سے عام طور پر شیڈو کیبنٹ ہوتی ہے مختلف ملکوں میں معلوم ہوتا ہے ہمارے ہاں زیادہ کام ہوا نہیں اب جب اچانک آن پڑا ہے سر پر تو تقریباً ہر شعبہ، ہر وزارت عجیب مخمصے میں نظر آ رہی ہے۔ کبھی کہتے ہیں یہ کر لیں۔ پھر سوچ آتی ہے وہ کر لیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ بجٹ شاید پرانے بنائے گئے بجٹوں سے لیا گیا۔ مگر میں ایک بات پر یقین رکھتا ہوں کہ میں ذاتی طور پر عمران خان کی ذات کے حوالے سے جو رائے رکھتا ہوں۔ ایک آدھ مہینے یا ایک سال کی نہیں ہے 22 برس سے انہیں جانتا ہوں کہ وہ کوشش بڑے بھرپور طریقے سے کریں گے اور جو کوشش وہ کریں گے اس میں اس بات کے چانسز ہو سکتے ہیں کہ پہلے کی نسبت بہتری نظر آئے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیسے آئے گی یہ اب تلخ حقائق ہیں زندگی کے ٹھوس حقائق ہیں ان کو صرف خوش خیالی سے حل نہیں ہو سکتا۔ میں نے پہلے ہی کہا تھا جس طرح سے 4,3 برس سے شور مچ رہا تھا کہ یہاں گڑ بڑ ہے یہاں گڑ بڑ ہے۔ وہ گڑ بڑ کی نشان دہی تو ضرور ہوئی لیکن ان کو صحیح کرنے کے کام پر کوئی پیپر ورک ہوا ہی نہیں۔ضیا شاہد نے کہا کہ میں دو باتیں کرنا چاہوں گا اپنے دیکھنے والوں کی خدمت میں بھی عرض کروں گا آپ یقین جانیں۔ جب میں پانچویں جماعت کا امتحان پاس کر کے چھٹی جماعت میں داخل ہوا تو پہلی مرتبہ میں نے اس زمانے میں میں نے بجٹ کے سلسلے میں کچھ بحث مباحثہ سنا تھا اور یوں لگتا تھا کہ جو جملے آج کل سنائی دیتے ہیں میں نے 40,35 برس پہلے بھی یہی جملے سنے تھے کہ ملک بہت زیادہ خطرے میں حالات اتنے خراب ہیں کہ پہلے کبھی نہیں ہوئے۔ جو پچھلی حکومت ہے وہ بیڑا غرق کر کے چلی گئی۔ اور ہمیں سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کریں ملک جو ہے وہ بالکل ڈیفالٹر ہونے والا ہے۔ ہمیں پوری دنیا میں ایلسیاں بند ہونے والی ہیں اور ہمارے کاروبار بند ہونے والے ہیں۔ یہ باتتیں میں 40,35 سال سے یہی باتیں سن رہا ہوں۔ ایک شعر بڑا اچھا ہے بہت بوجھل گفتگو کر رہی ہیں مجھے بھی بڑی پریشانی ہونے لگی ہے۔ اس لئے میں ایک شعر تلاش کر کے لاتا ہوں۔ تا کہ ماحول تھوڑا سا صحیح ہو۔ وہ شعر یہ ہے کہ جب دیکھا ہے تجھے عالم نو دیکھا ہےمرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کالگتا ہے جو سن رہا ہوں آئندہ پچاس برس بھی یہی رہے گا۔ دُعا ہی کر سکتا ہوں کہ یا اللہ بہت ہی ہو گیا ہمارے ساتھ۔ اے اللہ پاک ہم نے بڑی آزمائشیں دیکھ لی ہیں۔ بڑے مرحلے ہم نے دیکھ لئے ہیں۔ اور عوام ہیں کہ کولہو کے بیل کی طرح آنکھوں پر پٹی باندھے گول دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ضیا شاہد نے کہا کہ یہ بڑی افسوسناک بات ہے کہ تسی سانوں پنبھل پوسہ وچ پایا ایہہ“ لوگ بیچارے کب تک اسی چکر میں پھنسے رہے۔ اب ایک بڑی بات اور بھی ذہن میں آ رہی ہے جب آپ حکومت میں نہیں ہوتے تو کہتے ہیں کہ اگر ہمارے پاس آ جائے تو ہم ٹھیک کر دیں گے اب آ گئی ہے اب کرو۔آج تو ہمارے آصف علی زرداری صاحب نے بڑی زبردست منطق بھگاری ہے کہ اگر آپ کو مجھ سے پوچھنا چاہتے ہیں دراصل آپ مجھ سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ شہید بی بی کی قبر کا ٹرائل کرا لوں۔ اس کا مطلب ہے اس سب کچھ کو ٹھپ ہی پڑا رہنا چاہئے۔ دیکھیں جی دمی اپنے آپ کو بچانے کے لئے اگلے پچھلوں کا سہارا تو لیتا ہے۔ تو انہوں نے بھی لے لیا۔ اب شہید بی بی اپنے معاملات دیکھ رہی ہوں گی جو اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان جو ہوتے ہیں۔ معروف صنعتکار عقیل کریم ڈھیڈی نے بجٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے لوگوں کو توقعات اور امیدوں میں ووٹ ڈالا ہوا تھا لوگوں کو اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ صاحب کوئی ایسے فیصلے کریں گے کہ ملک کی اکانومی شاید بہتر ہو۔ بہر حال انہوں نے دو تین چیزیں ایسی کی ہیں جس کی وجہ سے اکانومی جو بالکل مردہ ہو چکی تھی اس میں تھوڑا بہت کرنٹ آ سکتا ہے جیسے انہوں نے کہا کہ نان فائلر گاڑی نہیں خرید سکتا تھا، نان فائلر مکان نہیں خرید سکتا تھا۔ ایک مخصوص سے اوپر انہوں نے اس کو ختم کر دیا۔ یہ آٹو سیکٹر والوں کی بہت بڑی ڈیمانڈ تھی۔ لیکن یہ میرا ہر ایک اور راستہ نکالتے تو زیادہ بہتر ہوتا چونکہ اب جو حکومت نے جو کوشش کی تھی کہ فائلر اور نان فائلر کے درمیان فرق ہٹ گیا۔ میرا خیال ہے کہ بہت سے لوگ اس چیز کو پسند نہ کریں گے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ چونکہ پراپرٹی اوور ہاﺅسنگ سیکٹر میں ٹریڈ بہت کم ہو رہی تھی شاید انہوں نے سوچا یہ کہ ہم اسے اگلے بجٹ میں متعارف کرائیں۔ پھر انہوں نے پٹرولیم لیوی ختم کر دی۔ پٹرولیم لیوی وفاق کو جاتی ہے صوبوں کو نہیں جاتی۔ اس کے علاوہ پنشنرز کو فائدہ پہنچا ہے۔ لیکن یہ درست ہے کہ لوگوں کی توقعات بہت زیادہ ہیں۔ اس منی بجٹ میں ایسی کوئی چیز نہیں نظر آ رہی جس کی ہم زیادہ تعریف کر سکیں۔ ہم یہی دیکھ رہے ہیں کہ ایک چیز ایک جگہ رکی تھی وہ اٹھا کر دوسری جگہ رکھ دی گئی ہے۔ماہر قانون خالد رانجھا نے کہا کہ عدالت سے جس طرح نیب کو جرمانہ ہوا اس سے لگتا ہے کہ اپیل کی سماعت شروع ہو جائے گی اور پھر بات لمبی ہو جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ سزا معطلی کیس میں ہو سکتا ہے کہ مریم نواز کو ضمانت مل جائے۔ وہ خاتون ہونے کے حوالے سے دعویٰ کر سکتی ہیں۔ شاید مریم نواز کو آج آنے والے فیصلے میں کچھ ریلیف مل جائے، نوازشریف کا کیس اور ہے ان کو ریلیف ملنے کا امکان نہیں۔پی پی رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ افغان، بنگالیوں کو حقوق دینے کی جو باتیں کی جا رہی ہیں، اس سے ان کی اور تعداد آ سکتی ہے۔ ملک کا ماحول بدلے گا جس پر صوبوں اور قومیتوں کو اعتراضات ہوں گے۔ اگر کسی کو شناخت دینا ہے تو ”بہاری“ کو دیں جو 72 سال سے کیمپوں میں پڑے ہیں ان کو بنگلہ دیش یا پاکستان کوئی قبول نہیں کرتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان نے کہا تھا کہ 3 ماہ تک کوئی غیر ملکی دورہ نہیں کروں گا، جہاز استعمال نہیں کروں گا۔ قرضہ نہیں لوں گا۔ وہ سب کچھ کر رہے ہیں جو کہتے رہے کہ نہیں کروں گا۔ جس جہاز میں سعودی عرب گئے اس کے بارے کہا جاتا تھا کہ یہ وزیراعظم استعمال نہیں کریں گے۔ کمرشل فلائٹ سے جائیں گے۔ حکومت کا المیہ یہ ہے کہ وہ بھڑکیں مار رہی ہے جو ترقی پذیر ممالک میں اپوزیشن کرتی ہے۔ ریلیف کی باتیں کرتے ہیں دے نہیں سکتے۔ جس میں ٹیکس لگے وہ ریلیف دینے والا بجٹ نہیں ہوتا۔ اپوزیشن ان ساری چیزوں پر بھرپور آواز اٹھائے گی۔ سابق وزیرخارجہ سردار آصف احمد علی نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان پاک سعودیہ تعلقات میں ایشوز پر بات کریں گے۔ اقتصادی، سعودی عرب میں کام کرنے والے کے مسائل سمیت دیگر امور پر بات چیت ہو گی۔ میرے خیال میں سعودی عرب کہے گا کہ ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبہ بھول جائیں۔ یمن کے بارے میں دباﺅ ڈال سکتے ہیں کہ ہم پاکستان کو 4 ارب ڈالر دیتے ہیں اور یہ توقع رکھتے ہیں۔ اس وقت ملک کی حالت بہت بری ہے، 12 ارب ڈالر کا خسارہ ہے۔ ساری صورتحال دیکھ کر اس کے مطابق چلنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے شروع میں ہی بہت کچھ بدلا ہے۔ وزیراعظم ہاﺅس میں قیام نہیں کیا، گورنر ہاﺅسز عوام کیلئے کھول دیئے یہ ایک اشارہ ہے کہ اب پاکستان کو بدلنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج تک کسی حکومت یا میڈیا نے خسارے کے بارے میں نہیں بتایا تھا، عمران خان کو ابہام نہیں ہوا تھا کہ اتنا خسارہ ہے۔یہ برداشت نہیں کر سکتا لیکن کیا مرنے والوں کے بعد سارا حساب کتاب ٹھپ کردینا چاہئے؟ عقیل کریم نے کہا کہ اس حوالے سے معلومات نہیں کہ انہوں نے کس زمرے میں یہ بات کی۔ منی بجٹ پر کاروباری حضرات کی بہت زیادہ بعد میں تھیں، حکومتکا ٹیکس نہ بڑھانا خوش آئند ہے۔ضیا شاہد نے مزید کہا کہ آج آنے والے عدالتی فیصلے میں نوازشریف کو کلین چٹ ملنے کے امکانات نہیں البتہ مریم نواز اور ان کے شوہر کو کچھ سہولتیں مل سکتی ہیں۔ قانون میں خواتین کے لئے ہمیشہ ایک سافٹ کارنر ہوتا ہے اور کیپٹن (ر) صفدر بھی نوازشریف کی طرح براہ راست ملزم نہیں۔