کراچی (صباح نیوز) کراچی کے علاقے لیاری میں پولیس نے لے پالک بچی پر تشدد کی ویڈیو سوشل میڈیا پر ڈالنے والے شخص کو گرفتار کرلیا۔ لیاری کے علاقے کلاکوٹ کے رہائشی جاوید نے اپنی لے پالک بچی سے پیر چٹوانے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی تھی۔ ویڈیو میں ملزم کو بچی پر تشدد کرتے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ بچی کی ویڈیو وائرل ہونے پر علاقہ مکینوں نے ملزم کو پکڑ کر اس پر تشدد کیا، تاہم پولیس نے موقع پر پہنچ کر ملزم کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ دوسری جانب علاقے میں جمع ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے ہوائی فائرنگ بھی کی، اسی دوران گولی کا خول لگنے سے ایک شخص معمولی زخمی ہوگیا۔ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کلاکوٹ رستم خان نے بتایا کہ ہجوم کافی مشتعل تھا اور پولیس نے ملزم کو بہت مشکل سے ان سے چھڑوایا۔ ملزم کے خلاف بچوں کے استحصال کی دفعات کے تحت کلا کوٹ تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق ملزم نے اپنے بچے نہ ہونے پر سالی کی بیٹی کو گود لیا تھا۔
Monthly Archives: June 2018
سیالکوٹ میں لرزہ خیز اقدام ،نا بالغ طالبہ 65سالہ بوڑھے کیساتھ ونی زبردستی نکاح ”خبریں ہیلپ لائن“میں چونکا دینے والا انکشاف
سیالکوٹ(بیورورپورٹ)با اثر افراد نے پنچاےت لگا کر مدرسہ کی نابالغ طالبہ 65سالہ چودھری کے ساتھ ونی کر دی ۔ کم سن طالبہ سرپنچ کے قدموں میں گرکر اللہ رسول کے واسطے دیتی رہی مگر با اثر چودھریوںنے لڑکی کو روزہ کی حالت میں چودھری کے حوالے کر دیا ۔ تفصیلات کے مطابق محنت کش اصغر کا بائےس سالہ بیٹا بابر موضع وڈیانوالہ کے کونسلر و با اثرچودھری کے ڈےرہ پرنوکر تھا ۔ چودھری کی جواںسالہ بیٹی ماہ جبیں نے نوکر بابر کے ساتھ پسند کی شادی کر لی جس پر بااثر چودھریوںنے لڑکی ماہ جبیں کے اغواءکا مقدمہ تھانہ صدر سیالکوٹ میں بابر کے والد اصغر ، والدہ اور تین بہنوں کے خلاف درج کروا دیا ۔ با اثرچودھری محنت کش اصغر کی بیوی اور بیٹیوںکو تشدد کا نشانہ بھی بنا رہا تھا ۔ گزشتہ روزعلاقہ کے با اثر چودھریوں نے پنچائےت لگا کر فیصلہ کیا کہ محنت کش محمد اصغر کے بےٹے بابر نے با اثر چودھری کی بیٹی کے ساتھ شادی کر لی ہے جس کے بدلے میں محنت کش اپنی بیٹی نبیلہ کی شادی چودھری کے ساتھ کر دے ۔ دوسری صورت میں تینوں بیٹیوں اور بیوی کو پولیس کے حوالے کر دیا جائے گا ۔ اس دوران مدرسہ کی کمسن طالبہ لڑکی نبیلہ با اثر چودھریوں کو اللہ رسول کے واسطے دیتی رہی مگر پنچایت میں شامل کسی کو لڑکی کی فریاد پر رحم نہ آیا اور کمسن لڑکی نبیلہ کو 65سالہ چودھری کے حوالے کر دیا ۔دو روز قبل چودھری نے لڑکی کے ساتھ زبردستی نکاح کر لیا ہے۔
مردہ جانوروں کی آلائشوں سے گھی ،کوکنگ آئل کی تیاری ،کیمیکل ملے دودھ کی فروخت پر عوام سراپا احتجاج چینل ۵ کے پروگرام ”ہاٹ لنچ میں انتظامیہ کے خلاف پھٹ پڑے
لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان میں کئی دہائیوں سے خوراک کے معیار کی جانب توجہ نہیں دی گئی چینل ۵پروگرام ہاٹ لنچ میں اس حوالے سے ایک رپورٹ تیا رکی گئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ نمک، مرچ، ائے، گھی، سمیت تمام ایشیاءہی ملاوٹ شدہ ہیں۔ مردہ جانوروں کی آلائشیوں کو پگھلا کر گھی اور کوکنگ آئل تیار کیا جارہا ہے، دودھ کیمیکل سے تیار کیا جارہاہے۔ آئس کریم دہی کے لیے استعمال ہونے والا دودھ ناقص ہوتا ہے۔ نمائندہ کراچی صبا خان نے بتایا ہوٹلوں کے باہر جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر ہیں، دکاندار صفائی کا خیال نہیں رکھتے ایشائے خورونوش میں ملاوٹ بھی عام ہے۔ جس کے باعث شہری بیمار ہورہے ہیں شہریوں نے کہا اس سب کی ذمہ دار حکومت ہے۔ جو ایکشن نہیں لیتی۔ نمائندہ حیدر آباد، حشام شیخ نے بتایا فوڈ اتھارٹی چھاپے تو مارتی ہے ایکشن بھی ہوتے ہے۔ لیکن جیسے ہی چھاپہ مار ٹیم واپس جاتی ہے دکاندار پھر واہی روش اپنا لیتے ہے۔ فوڈ اتھارٹی کے پاس لیبارٹری بھی نہیںفوڈ اینالسٹ محسن بھٹی نے بتایا کہ کھانے میں ملاوٹ اور دو نمبر مافیا کے خلاف انٹیلی جنس فعال کرنے کی ضرورت ہے پہلے کی نسبت بہتری آئی ہے۔ لیکن ابھی اور کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح کے مافیا کے خلاف سخت کارروائی کی ضرورت ہے۔ نمائندہ پنڈی گھیب آصف صابری نے بتایا کہ ریڑھی والے غیر معیاری اشیا فروخت کرتے ہیں۔ فوڈ انسپکٹر اپنی ناکامی کے ذمہ دار ہ شعبہ انفورسمنٹ کو ٹھرایا ہے۔ لیکن کارروائی کوئی نہیں کرتا جس کے باعث عوام کو شدید مسائل کا سامنا ہے۔ نمائندہ جیکب آباد، رشید سولنگی نے بتایا کہ یہاں پر غیر معیاری کھانوں کی تیاری عروج پر ہے میدے کو گندے فرش پر گوندہ جاتا ہے۔ ملازمین بھی صفائی کا خیال نہیں رکھتے۔ نمائندہ ملتان مکرم خان نے بتایا کہ اشیاءخورونوش کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ معیار کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا جس باعث امراض پھیل رہے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کی الیکشن کے لیے تیاری مکمل نہیں چینل ۵ کے پروگرام ”کالم نگار“میں طارق ممتاز ،توصیف احمد خان ،سعدیہ سہیل اور امجد وڑائچ کی گفتگو
لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) کالم نگار طارق ممتاز نے کہا ہے کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کا اتنا ہوم ورک تھا ہی نہیں کہ الیکشن کا اعلان ہوگیا لیکن نگران وزرائے کا معاملہ طے نہیں پاسکا چینل ۵ کے پروگرام کالم نگار میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہر معاملے کو اس قد لٹکا
دیا گیا۔ دنیا سوچ رہی ہے ہم اس چھوٹے مسائل سے باہر نہیں آپا رہا ہے جو لوگ باصلاحیت ہیں ان کو آگے لانا چاہیے ورنہ مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ میرے خیال میں توہین عدالت کے مرتکب افراد کو سزا ملنی چاہیے کچھ بھی ہو پیسہ بھی واپس آناچاہیے لیکن قوم کا کوئی نہیں سوچ رہا سب کو اپنی پڑی ہے۔ کالم نگار توصیف احمد خان نے کہا جس کی جو ذمہ داری ہے وہ اس کو پوری کرنی چاہیے اگر وہ ذمہ داری پوری نہیں کرتا تو یہ نالائقی اس کی ہے اور اسے شرم آنی چاہیے ماضی میں چیزیں چھپی رہتی تھیں لیکن اب سب کچھ کھل کر سامنے آرہا ہے انہوں نے کہا عوام میں ن لیگ کا ووٹ بنک اس طرح سے کم نہیں ہوا جس طرح ہونا چاہیے تھا خطاب کے دوران وزیراعظم کا رویہ کافی جارحانہ رہا مجھے ان سے اس قسم کے رویے کی توقع نہیں تھی۔ کالم نگار سعدیہ سہیل نے کہا اس میں شک نہیں ساری سیاسی جماعتوں میں صلاحیت کی کمی ہے جو شخص جس قابل ہو اسے وہی کام کرنا چاہیے نگران وزیراعظم ایسا ہونا چاہیے جو کسی کے دباﺅ میں نہ آئے بہتر لوگوں کو آگے لانے کی ضرورت ہے عوام کو بھی اپنی سوچ بدلنا ہوگا عمران خان کو ہمملک سے محبت میں اور ایمانداری میں کم نہیں پائیں گے۔ لیکن وہ حکومت میں آگے بھی کچھ کرسکیں گے لہذا انہیں موقع ملنا چاہیے عمران خان نے ن لیگ کی کرپشن بے نقاب کی۔ کالم نگار امجد وڑائچ نے کہا بڑی مایوسی کی بات ہے کسی ایک جماعت نے بھی ہوم ورک نہیں کیا ساٹھ روز میں الیکشن ہونے چاہیئں لیکن سیاسی جماعتیں سستی کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ اس قسم کے سیاستدان ملک کو کیسے چلائیں گے شاید ان لوگوں کی صلاحیت ہی نہیںمیرے خیال میں عوام دکھاوے کی سیاست کو مسترد کریں۔
ڑ
نبی کریم نے حضرت حسنؓ اور حسینؓ کو جنت کے نو جوانوں کا سردار قرار دیا،علامہ ضیاءاللہ بخاری سخاوت میں بھی مثالیں قائم کی ،علامہ رشید ترابی کی چینل ۵کی خصوصی نشریات ”مرحبا رمضان “میں گفتگو
لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے پروگرام مرحبا رمضان میں حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے یوم ولادت کے حوالے سے گفتگو کی گئی۔ علامہ ضیاءاللہ خاری نے بتایا کہ حضرت امام حسن حضور پاک کے نواسے تھے لیکن آپ انہیں اپنے بیٹے کی طرح سمجھتے تھے۔ ایک مرتبہ جمعے کے خطبے کے موقع پر آپ نے حضرت امام حسن کو اپنے منبر پر بٹھایا۔ نبی کریم حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین سے بہت محبت کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ دونوں میرے بیٹے ہیں اور جنت کے نوجونواں کے سردار ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ نے فرمایا کہ جب امام حسن اور امام حسین پیدا ہوئے تو میں نے ان کے نام جعفر اور حمزہ رکھے لیکن نبی کریم نے مجھے اپنے پاس بلایا اور بتایا کہ اللہ نے مجھے حکم دیا ہے میں ان دونوں کے نام بدلنے لگا ہوں۔ اللہ کے حکم سے نبی کریم نے حضرت علی کے صاحبزادوں کا نام حسن اور حسین رکھا۔ تاریخ اسلام میں پہلی بار حسن اور حسین نام رکھا گیا اس طرح اللہ نے انہیں بہت عزت اور مقام عطا فرمایا۔ نبی کریم نے دو دنبے لا کر ذبح کرا کر حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین کا عقیقہ کیا۔ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین کو گھٹی کے طور پر کھجور اپنے لعاب مبارک میں بھگو کر دی۔ امام حسن اور امام حسین نبی کریم سے بہت زیادہ مشابہت رکھتے تھے۔ سیدہ فاطمہ کا بولنے اور چلنے کا انداز بھی بالکل نبی کریم کی طرح تھا۔ عام طور پر نبی کریم حضرت امام حسن اور امام حسین کو اپنے کاندھوں پر بٹھا لیتے تھے۔ امام حسن تو اپنے نانا حضرت محمد کی تصویر تھے۔ نبی کریم نے امت میں سے کسی کو کبھی امتحان میں نہیں ڈالا اپنے فرزندان کو امتحان کے لئے پیش کیا اپنے دل کے ٹکڑے حضرت فاطمة الزہرہ کو امتحان کے لئے پیش کیا۔ علامہ رشید ترابی نے بتایا کہ سخاوت اللہ کی ذات کو بہت پسند ہے انہوں نے بتایا کہ حضرت امام حسن اور امام حسین بچپن سے ہی روزے رکھتے تھے اور افطاری کے وقت اگر کوئی سوالی آجاتا تو سارا کھانا اٹھا کر اس کو دے دیتے اور بہت سخاوت کا مظاہرہ کرتے۔ تمام مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ دل کھول کر اللہ کی راہ میں دیں اور خوب سخاوت کریں خاص طور پر رمضان میں ہر نیکی کا اجر اس قدر بڑھا دیا جاتا ہے ہم سوچ نہیں سکتے۔ کوشش کی جائے صدقہ خیرات کی جائے۔ ایک مرتبہ نبی کریم سجدے کی حالت میں تھے کہ امام حسین آپ کی پیٹھ پر چڑھ گئے آپ نے سجدہ طویل کر دیا کہ کہیں امام حسین گر نہ جائیں اور ان کو چوٹ نہ لگ جائے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے نبی کریم حضرت امام حسن اور امام حسین سے کس قدر محبت کرتے تھے۔ نبی کریم فرمایا کرتے تھے حسن حسین مجھ سے ہیں اور میں حسن حسین سے ہوں۔
”خبریں “نے جنوبی پنجاب کی محرومیوں کو اجاگر کیا چیئر مین ڈپٹی چیئر مین سینٹ،اپوزیشن لیڈر ہمارا پی پی کے بغیر جنوبی پنجاب صوبہ کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کا ”ضیاشاہد کے ساتھ“ مکالمہ ‘
لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ کے نام پر جو لوگ سیاسی کھیل کھیل رہے ہیں نہوں نے کبھی کسی فورم پر جنوبی پنجاب صوبہ کا ذکر تک نہیں کیا۔ اب یہ صرف دس دن یہ راگ الاپ کر گیند تحریک انصاف کے کوٹ میں پھینک چکے ہیں کہ اب عمران خان جانیں اور ان کا کام جانے۔ انہوں نے کہا چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین سینٹ اور اپوزیشن لیڈر ہمارے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی حمایت کے بغیر صوبہ کیسے بن سکتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے چینل ۵ پر ”ضیا شاہد کے ساتھ“ خصوصی مکالمہ میں کیا۔ مکمل گفتگو سوالاً جواباً پیش خدمت ہے۔ضیا شاہد: آپ نے بطور وزیراعظم اپنے علاقے کے مسائل کے حل کے حوالے سے بہت کام کیا ہے۔ ملتان کی تعمیر و ترقی میں بھی بہت دلچسپی لی ہے۔ جب آپ وزیراعظم تھے تو پہلی مرتبہ یہ بات سنائی دی کہ کوشش ہو رہی ہے جنوبی پنجاب میں الگ صوبہ بنانے کے لئے۔ اس زمانے میں یہ بحث تھی کہ بہاولپور بحال کیا جاتا ہے یا یہاں ڈیرہ غازی خان اور ملتان ڈویژن کو ملا کر صوبہ بنایا جاتا ہے۔ میرے دوست تاج محمد لنگاہ صاحب میرے پاس لاہور بھی تشریف لائے اور انہوں نے خاص طور پر آپ کا حوالہ دیا کہ وہ بہت کوشش کر رہے ہیں۔ میں کافی وقت بھی گزار رہا ہوں وزیراعظم ہاﺅس میں انہوں نے اس پر کام بھی شروع کر دیا ہے اور ہمیں امید ہے کہ ہمیں الگ صوبہ مل جائے گا۔ میرا پہلا سوال تو یہ ہے کہ آج جنوبی پنجاب میں جو سیاسی ہلچل نظر آ رہی ہے اور ایک سمت بھی واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے خاص طور پر فاٹا کے انضمام کے بعد اور زیادہ لوگوں کی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں کہ شاید اس ضمن میںبھی کچھ کام ہو سکے۔ لیکن آپ کی اتنی دلچسپی اور تگ و دو کے باوجود کیا وجہ ہوئی تھی جس کے بارے میں ہمارے دوست تاج محمد لنگاہ صاحب بڑے پرامید بھی تھے اور وہ یہ کہہ رہے تھے کہ یہ صوبہ بننے والا ہے اور گیلانی صاحب کے سر سہرا جاتا ہے کہ وہ بہت کوشش کر رہے ہیں۔ کوشش کیوں ناکام ہوئی۔ کیوں یہ کام سرے نہ چڑھ سکا۔
یوسف رضا گیلانی: آپ نے دو پوائنٹس اٹھائے ہیں۔ ایک آپ نے فاٹا کی بات کی اور ایک آپ نے جنوبی پنجاب کی بات کی۔ میں ایک مصرعے سے بات شروع کرنا چاہتا ہوں۔
منزلیں انہیں ملیں جو شریک سفر نہ تھے
ہم جنوبی پنجاب کی بات میڈیا کو چھوڑ کر اگر کسی نے اٹھائی تھی تو بطور وزیراعظم کی حیثیت سے 2009ءمیں بہت بڑے سٹیڈیم میں جلسہ کیا تھا جلال پور پیروالا میں اور میں نے کہا تھا کہ یہ ہم صوبہ بنائیں گے۔ اس کے بعد زرداری صاحب میرے گھر پر ملتان آئے اور انہوں نے بھی اس کی تائید کی کہ ہم صوبہ بنائیں گے۔ اور تاج محمد لنگا جن کا آپ نے دکر کیا کہ خدوخال دیکھنے کے لئے ہم نے اس پر کام کیا ابھھی تک بہت سی کریٹکس ہیں جو کہتے ہیں کہ آپ نے کام تو شروع کیا مگر اس کو مکمل نہ کر پائے۔ میں صرف ااپ کو بتانا چاہ رہا ہوں کہ جس صوبے میں تقسیم ہونا ہو اس کے لئے بہت ضروری ہے کہ سب سے پہلے قرارداد اس صوبے سے بھی آنی چاہئے اور ہم نے ایک متفقہ قرارداد صوبے سے پنجاب سے ہم نے دی اور اس کے ساتھ ایک سپائکر کے طور پر اس وقت کی جو گورنمنٹ تھی انہوں نےبہاولپور صوبے کی بھی ایک قرارداد ساتھ ہی پیش کر دی تا کہ نہ وہ بنے نہ یہ بنے گا۔ لیکن جب اوپر آئی بات تو ادھر ہم نے ریزولوشن موو کیا جنوبی پنجاب کے لئے وہ متفقہ طور پر قومی اسمبلی سے پاس کر دیا۔ اب جو لوگ آپ سے ملیں گے تنقید کریں گے ان سے صرف ایک بات پوچھیں کہ دستی صاحب پوچھ لیں گے یا شاہ محمود صاحب سے پوچھ لیں گے جب قرارداد پیش ہوئی انہوں نے مجھے ووٹ دیا یا نہیں نہ دیا۔ انہوں نے مجھے ووٹ دیا اور اس لحاظ سے میں آپ کو بتانا چاہ رہا ہوں کہ اس کا سیکنڈ سٹیپ کیا تھا۔آپ بتائیں چیئرمین سینٹ کس کا بنا ہے پیپلزپارٹی کا ڈپٹی چیئرمین کس کا بنا پیپلزپارٹیی کا، لیڈر آف اپوزیشن کس کا بنا ہے۔ جو نعرہ آپ لگا رہے ہیں کہ ہم صوبہ بنا کر دیں گے کیا آپ پیپلزپارٹی کے بغیر صوبہ بنا سکتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر بھی ایک ووٹ سے بنایا اور سینٹ میں دو ووٹوں سے بنایا اور ہم ساتھ نہ ہوں تو کیا یہ بن سکتا ہے۔ اس لئے گزارش کر رہا ہوں کہ جو The are piaying to the یہ کہنا چاہتے ہیں انہوں نے تو کچھ نہ کیا ہم کر کے دکھائیں گے۔ میں آپ سے سوال کرنا چاہتا ہوں کہ آج سے پہلے کبھی ان شخصیات کے منہ سے سنا کہ جنوبی پنجاب کا صوبہ ہم بنائیں گے۔ پی ٹی آئی سمیت کسی نے کبھی ذکر نہیں کیا۔ جب ایک سٹرٹیجی بن گئی تو اب کریڈٹ ہم سے لینے کے لئے سب کہہ رہے ہیں گیلانی صاحب نے جھوٹ بولا۔ پیپلزپارٹی نے جھوٹ بولا۔ زرداری نے جھوٹ بولا۔ دو تہائی اکثریت سے ایکٹ بنا ہی نہیں تھا۔ اس لئے میں نے کہا تھا کہ منزلیں انہیں ملیں جو شریک سفر نہ تھے۔
ضیا شاہد: تاریخ کے حقائق سامنے آنے چاہئیں۔ تجزیہ کار کی حیثیت سے ہم نہ کسی پارٹی کے خلاف ہیں نہ کسی کے ساتھ ہیں۔ لیکن بہت اچھا کیا میں نے کئی مرتبہ سوال کئے کہ جتنے چہرے اب سامنے نظر آ رہے ہیں کم از کم مجھے آن ریکارڈ کسی اخبار نے کسی ٹی وی چینل پر میں نے انہیں جنوبی پنجاب کے لئے الگ صوبے کے لئے حتیٰ کہ یہاں کے حقوق کے لئے نعرہ بلند کرتے یا آواز اٹھاتے نہیں دیکھا۔ میں خود اس کی گواہی دیتا ہوں۔
یوسف رضا گیلانی:ہم نے ایک کمیشن بنایا جس کی سرپرستی سنیٹر فرحت اللہ بابر کر رہے تھے۔ انہوں نے پورا پبلک ہیئرنگز کیس انہوں نے میڈیا کے لوگوں سے ملے۔ سیاستدانوں ادیبوں سے ملے۔ اکانومٹس سے بھی ملے اور وسائل اس کے کیسے ہوں گے اس پر جب کام کیا تو اس پر سب متفق ہوئے کہ ایک ہی صوبہ بن سکتا ہے۔ دوصوبے قابل عمل نہیں ہیں۔ اس کے لئے سینٹ میں ہماری اکثریت تھی ہم اس کو سینٹ میں لے گئے بل کے فارم میں۔ لوگ اور میڈیا اکثر تار دیتا ہے کہ ہم نے قرارداد پاس کی وہ قرارداد نہیں تھا جب آپ نے فاٹا کا ذکر کیا تو میں نے اسی وقت کہا کہ میں اس پر بھی بات کروں گا۔ آپ مجھے بتائیں کہ فاٹا کا جو ہم نے بل پاس کیا کتنے ووٹوں سے پاس کیا۔ ووٹ سے پاکستان کی تمام جماعتیں یکجا ہو کر ووٹ دیا مگر دو تہائی اکثریت سے ووٹ پرا۔ پھر اس کو سینٹ میں لے گئے۔ دوسرا سوال ہوا ہو گا کتنے ووٹوں سے پڑا۔ دوووٹوں سے۔ پورے پاکستان کی جماعتیں جنہوں نے اسٹینڈ لیا۔ جمعیت علمائے اسلام تھی یا اچکزئی صاحب اس کے علاوہ تمام متفق تھیں قومی اتفاق رائے تھا، جب میں نے بل کے فارم میں پیش کیا سینٹ میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ وہ میں نے پاس کر دیا بل بن گیا مگر ن لیگ نے ایسٹین کیا واک آﺅٹ کیا۔ پھر بھی دو تہائی اکثریت لے گیا۔ میرے پاس دو تہائی اکثریت نیشنل اسمبلی میں نہیں تھی۔ اگر نیشنل اسمبلی میں ہوتی تو ایک منٹ میں صوبہ بن گیا ہوتا۔ اب یہ جو ساری باتیں ہو رہی ہیں کہ پہلے جنوبی پنجاب کا صوبہ بنا لیں۔ اتحاد بنا لیں پھر پی ٹی آئی میں ضم ہو جائیں تو پھر کہیں کہ ہم صوبہ بنائیں گے اور کوئی نہیں بنا سکتا۔
ضیا شاہد: میرا سوال یہ ہے کہ اب کہا جا رہا ہے 4 یا 5 دن پہلے شہباز شریف نے بھی جو مسلم لیگ (ن) کے موجودہ صدر ہیں۔ انہوں نے یہ کہا کہ ہماری جماعت سے زیادہ جو لوگ جنوبی پنجاب میں الگ ہو رہے ہیں۔ انہوں نے خلائی مخلوق کا ذکر کیا اور کہا کہ کہیں سے انہیں اشارہ ہوتا ہے۔ پہلے اشارہ ہوا کہ جنوبی پنجاب کا ایک موومنٹ بناﺅ پھر اشارہ ہوا تحریک انصاف میں جاﺅ ان کے ان کمنٹس پر آپ کیا رائے دیں گے۔
یوسف رضا گیلانی۔ میاں شہباز شریف کا سپوکس مین نہیں ہوں کہ انہوں نے کہا ہے مگر آن ریکارڈ یہ تسلیم کیا ہے کہ ان لیڈران کرام نے ایک مرتبہ بھی جنوبی پنجاب کا نام نہیں لیا صرف دس لیا ہے اور اب دس دن کے بعد پھر پی ٹی آئی کے کھاتے میں ڈال دیا ہے۔ وہ جانیں ان کا کام جانیں ان کا کام ختم ہو گیا۔ ان کا یہی رول تھا کہ وہ اس وقار کے ساتھ پارٹی چھوڑنے کا اور پھر دوسری جماعت میں ضم ہو گئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ خلائی مخلوق کی تو ان کی اپنی رائے ہو گی مگر یہ اخلاقی طور پر یہ بہت غلط ہے جو ان کا طریق کار تھا۔
ضیا شاہد: آپ کی شائستگی کی وجہ سے ہمیشہ مخالفوں اور حامیوں میں آپ کی عزت اور احترام پایا جاتا ہے بات ختم کر دیں کہ یہ بات شہباز شریف کی بات کی۔ یہ حرف عام میں اکثر تبادلہ خیال ہوتا ہے کہ اچانک جنوبی پنجاب میں ابال کیسے پیدا ہوا۔ یہ کیا اس کے پیچھے واقعی طاقتوں کا ہاتھ ہے یا آپ سمجھتے ہیں کہ جب ان لوگوں سے پوچھا جائے میں چونکہ ان سے ملتا رہتا ہوں۔
ان کا کہنا ہے کہ نہیں جی ہم تو ہمیشہ سے اس علاقے کے عوام کے لیے آواز اٹھاتے تھے۔ اگر ان سوالوں کے جواب میں کوئی ثبوت نہیں دے سکتے موجودہ تبدیلی نظر آئی ہے جسے آپ نے خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔
یوسف رضا گیلانی: جہاں تک جنوبی پنجاب کے عوام کی محرومیوں کا تعلق ہے یا بہاولپور کی محرومیوں کا تعلق ہے ہماری پسماندگی ہماری محرومی باقاعدگی نظر آتی ہے۔
ضیا شاہد: میں سی پی این ای کا صدر رہا۔ ہماری وفد سے ملاقات میں چیف منسٹر پنجاب نے کلیم کیا اور باقاعدہ مجھ سے مخاطب ہو کر کہا آپ جنوبی پنجاب کی بہت بات کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا 1947ءسے لے کر میری موجودہ طور پر 5 پچھلے سالوں میں جتنی ترقی ۔پہلا اور ایجوکیشن میں جتنا کام میں نے کیا پاکستان میں کبھی نہیں کیا کیا واقعی 10 سال میں ترقیاتی کاموں میں اضافہ ہوا ہے۔
یوسف رضا گیلانی: میں نہیں کہتا کہ شہباز شریف کی بات کا جواب دو۔ میں اپنے علاقے کے حوالے سے جواب دوں گا۔ نہیں ہوا دیکھتے ہم نے جو این ایف سی ایوارڈ دیا تھا اور نیشنل فنانس کا جو بہت بڑا حصہ تھا صوبوں کو دے دیا۔ اب ایجوکیشن پہلا ہو۔ یوتھ کے ایشوز ہوں فیملی پلاننگ کے ہم یہ کام صوبوں کا نہیں رہا لہٰذا میری توقع یہ تھی نیشنل فنانس کمیشن جیسے ایوارڈ ہوا تھا اس کے حساب سے صوبوں کو کمیشن ایوارڈ ہوتا اور جو جو علاقے ہیں ضلع میں پسماندہ ہیں ان کی کمی دور کی جاتی تو میں مانتا کہ دس سال میں کام ہوا ہے۔ ہارون آباد، جام پور، راجن پور لیہ یا یہ علاقے پسماندہ ہیں کیا ان کو فنانس کمیشن کے مطابق ان کا حصہ ملایا نہیں ہو۔ دوسرا میں یہ بتانا جا رہا ہوں کہ ایک وہ یہ بجٹ مختص ہو جاتا ہے یہ مختص ہو گیا ایک ارب روپیہ ہارون آباد کو مد کیا۔ ڈسپرس منٹ اتنی ہوتی بجٹ پر تالیاں بج گئیں یہ اتنا بجٹ جنوبی پنجاب کو دیا گیا۔ مجھے زرداری صاحب کہنے لگے کہ میں نے سارا بجٹ چیک کیا ہے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام میں پہلی مرتبہ جتنا 30 فیصد شیئر بنتا تھا اس کے قریب خرچ ہوا۔ اس فنڈ کو آپ نے 4 سال استعمال کیا، آپ کو کریڈٹ دیتا ہوں۔
ضیا شاہد: مشرف دور میں خبریں میں سپرلیڈ چھپی تھی ”پنجاب کے ٹکڑے کرنے والوں کو ہماری لاشوں سے گزرنا پڑے گا:شجاعت حسین“ اب چودھری برادران بھی الگ صوبے کی بات کرتے ہیں کیا واقعی صوبہ بنے گا؟
یوسف رضا گیلانی: شجاعت حسین نے جنوبی پنجاب صوبے کے حق میں مجھے ووٹ دیا تھا۔ اس معاملے پر انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار بھٹو نے آئین دیا، ہم نے اصل آئین کو بحال کیا۔ یہ پیپلزپارٹی کی بڑی کامیابی تھی کہ اس نے تمام جماعتوں کے اتفاق رائے سے ترمیم کی اور بھٹو کا آئین بحال کیا۔ ہم نے ہمیشہ عدلیہ کا احترا م کیا۔ جب مجھے نااہل کیا گیا تو کرپشن کا کوئی الزام نہیں تھا۔ صدر کے خلاف خط نہ لکھنے پر نااہل کیا گیا میں نے ایک لفظ نہیں بولا۔ جس چیف جسٹس نے مجھے نااہل کیا ان کی بیٹی کی شادی میں شریک ہوا۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو نے ہمیشہ عدلیہ کا احترام کیا، محترمہ و زرداری عدالتوں میں پیش ہوتے رہے۔ اگر آئین بنانے والے احترام نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا۔ پیپلزپارٹی ایک جمہوری پارٹی، جنوبی پنجاب کو صوبہ کوئی بھی بنائے ہماری تائید و حمایت و تعاون ساتھ ہو گا۔
ضیا شاہد: ڈسٹرکٹ کی آبادی کی بنیاد پر فنڈز جاری کرنے کا بھی کوئی فارمولا بنا دیا جائے، صرف صوبے کے قیام کا اعلان یقینی فنڈز کی فراہمی و ترقی کا ضامن نہیں ہوتا؟
یوسف رضا گیلانی: میں چیئرمین ڈسٹرکٹ کونسل ملتان بھی رہا ہوں۔ اس وقت لودھراں، خانیوال و ملتان 3 اضلاع تھے، بلدیاتی اداروں کی بڑی اہمیت تھی۔ مشرف دور میں بلدیاتی اداروں کا بجٹ صدر کی طرف سے آتا تھا، میں نے آ کر صوبوں کو اختیارات دیے۔ انصاف نہیں ہوا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ صوبے نہیں ہونے چاہئیں۔ صوبے بنیں یا نہ بنیں، حکومت منصفانہ ہونی چاہئے۔
ضیا شاہد: کیا ڈسٹرکٹ کو آبادی کی بنیاد پر بجٹ نہیں ملنا چاہئے؟
یوسف رضا گیلانی: ہم نے این ایف سی ایوارڈ دیا تھا۔ پھر بھی اگر کسی نے ایک علاقے کو اتنے عرصے سے پسماندہ رکھا ہوا ہے، اب اسے فنڈ دے بھی دیں تو بھی وہ برابری نہیں کر سکے گا۔ میں شجاع آباد سے الیکشن لڑنے جا رہا ہوں، وہاں ہیپاٹائٹس عام بیماری ہے جو ایک ناسور ہے۔ میں کوشش کر رہا ہوں کہ بین الاقوامی ادارے وہاں کوئی پروگرام شروع کریں۔ آپ بھی اس حوالے سے عوام میں شعور اجاگر کریں۔
ضیا شاہد: نوازشریف کے جو بیانیے ہیں۔ کیا آپ کو مستقبل میں اس نقطہ نظر والے لوگ آتے چلتے نظر آتے ہیں؟ ایسا ہی ہے تو کیا اس کو جمہوریت کہہ سکتے ہیں؟
یوسف رضا گیلانی: ملک میں جمہوریت و آئین بہت کمزور ہے۔ اس کو مضبوط کرنے کی کوشش بھی نہیں کی گئی۔ نوازشریف کہتے ہیں ”ووٹ کو عزت دو“ تو سب سے زیادہ عزت تو پارلیمنٹ کو دینی چاہئے۔ اگر میری اسمبلی میں 95 فیصد حاضری ہو تو مطلب کہ میں نے ووٹ کو عزت دی ہے۔ اگر پارلیمنٹ کو مضبوط نہیں کریں گے تو کسی بھی طرح سے مضبوط نہیں رہ سکتے۔ خواہ 25 سال رہیں یا 50 سال رہیں۔ پارلیمنٹ مضبوط ہو گا تو تمام ادارے خود ہی اپنی آئینی حدود میں کام کریں گے۔
”سچا اور کھرا لیڈر“انتخابی امیدواروں کے لیے مشعل راہ ہے،شہباز شریف چیف ایڈیٹر ”خبریں“گروپ کی سابق وزیر اعلی سے ایڈیٹر امتنان شاہد کے ہمراہ ملاقات ،اپنی کتاب بھی پیش کی
لاہور (اپنے نمائندے سے) خبریں گروپ کے چیف ایگزیکٹو ضیاشاہد نے اپنی نئی کتاب ”سچا اور کھرا لیڈر“ پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کو آج ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کے دوران پیش کی۔ اس موقع پر ایڈیٹر خبریں گروپ و سی او چینل ۵ امتنان شاہد بھی موجود تھے۔ اس موقع پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبازشریف نے ضیاشاہد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بانی پاکستان قائداعظمؒ محمد علی جناح کی زندگی پر مبنی یہ خوبصورت اور تحقیقی تصنیف آیندہ الیکشن میں حصہ لینے والے تمام امیدواران کو پڑھنی چاہئے کیونکہ یہ کتاب ان کے لئے مشعل راہ ہے۔ اس موقع پر سابق سیکرٹری اطلاعات پنجاب راجہ جہانگیر انور بھی موجود تھے۔