تازہ تر ین

”خبریں “نے جنوبی پنجاب کی محرومیوں کو اجاگر کیا چیئر مین ڈپٹی چیئر مین سینٹ،اپوزیشن لیڈر ہمارا پی پی کے بغیر جنوبی پنجاب صوبہ کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کا ”ضیاشاہد کے ساتھ“ مکالمہ ‘

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ کے نام پر جو لوگ سیاسی کھیل کھیل رہے ہیں نہوں نے کبھی کسی فورم پر جنوبی پنجاب صوبہ کا ذکر تک نہیں کیا۔ اب یہ صرف دس دن یہ راگ الاپ کر گیند تحریک انصاف کے کوٹ میں پھینک چکے ہیں کہ اب عمران خان جانیں اور ان کا کام جانے۔ انہوں نے کہا چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین سینٹ اور اپوزیشن لیڈر ہمارے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی حمایت کے بغیر صوبہ کیسے بن سکتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے چینل ۵ پر ”ضیا شاہد کے ساتھ“ خصوصی مکالمہ میں کیا۔ مکمل گفتگو سوالاً جواباً پیش خدمت ہے۔ضیا شاہد: آپ نے بطور وزیراعظم اپنے علاقے کے مسائل کے حل کے حوالے سے بہت کام کیا ہے۔ ملتان کی تعمیر و ترقی میں بھی بہت دلچسپی لی ہے۔ جب آپ وزیراعظم تھے تو پہلی مرتبہ یہ بات سنائی دی کہ کوشش ہو رہی ہے جنوبی پنجاب میں الگ صوبہ بنانے کے لئے۔ اس زمانے میں یہ بحث تھی کہ بہاولپور بحال کیا جاتا ہے یا یہاں ڈیرہ غازی خان اور ملتان ڈویژن کو ملا کر صوبہ بنایا جاتا ہے۔ میرے دوست تاج محمد لنگاہ صاحب میرے پاس لاہور بھی تشریف لائے اور انہوں نے خاص طور پر آپ کا حوالہ دیا کہ وہ بہت کوشش کر رہے ہیں۔ میں کافی وقت بھی گزار رہا ہوں وزیراعظم ہاﺅس میں انہوں نے اس پر کام بھی شروع کر دیا ہے اور ہمیں امید ہے کہ ہمیں الگ صوبہ مل جائے گا۔ میرا پہلا سوال تو یہ ہے کہ آج جنوبی پنجاب میں جو سیاسی ہلچل نظر آ رہی ہے اور ایک سمت بھی واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے خاص طور پر فاٹا کے انضمام کے بعد اور زیادہ لوگوں کی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں کہ شاید اس ضمن میںبھی کچھ کام ہو سکے۔ لیکن آپ کی اتنی دلچسپی اور تگ و دو کے باوجود کیا وجہ ہوئی تھی جس کے بارے میں ہمارے دوست تاج محمد لنگاہ صاحب بڑے پرامید بھی تھے اور وہ یہ کہہ رہے تھے کہ یہ صوبہ بننے والا ہے اور گیلانی صاحب کے سر سہرا جاتا ہے کہ وہ بہت کوشش کر رہے ہیں۔ کوشش کیوں ناکام ہوئی۔ کیوں یہ کام سرے نہ چڑھ سکا۔
یوسف رضا گیلانی: آپ نے دو پوائنٹس اٹھائے ہیں۔ ایک آپ نے فاٹا کی بات کی اور ایک آپ نے جنوبی پنجاب کی بات کی۔ میں ایک مصرعے سے بات شروع کرنا چاہتا ہوں۔
منزلیں انہیں ملیں جو شریک سفر نہ تھے
ہم جنوبی پنجاب کی بات میڈیا کو چھوڑ کر اگر کسی نے اٹھائی تھی تو بطور وزیراعظم کی حیثیت سے 2009ءمیں بہت بڑے سٹیڈیم میں جلسہ کیا تھا جلال پور پیروالا میں اور میں نے کہا تھا کہ یہ ہم صوبہ بنائیں گے۔ اس کے بعد زرداری صاحب میرے گھر پر ملتان آئے اور انہوں نے بھی اس کی تائید کی کہ ہم صوبہ بنائیں گے۔ اور تاج محمد لنگا جن کا آپ نے دکر کیا کہ خدوخال دیکھنے کے لئے ہم نے اس پر کام کیا ابھھی تک بہت سی کریٹکس ہیں جو کہتے ہیں کہ آپ نے کام تو شروع کیا مگر اس کو مکمل نہ کر پائے۔ میں صرف ااپ کو بتانا چاہ رہا ہوں کہ جس صوبے میں تقسیم ہونا ہو اس کے لئے بہت ضروری ہے کہ سب سے پہلے قرارداد اس صوبے سے بھی آنی چاہئے اور ہم نے ایک متفقہ قرارداد صوبے سے پنجاب سے ہم نے دی اور اس کے ساتھ ایک سپائکر کے طور پر اس وقت کی جو گورنمنٹ تھی انہوں نےبہاولپور صوبے کی بھی ایک قرارداد ساتھ ہی پیش کر دی تا کہ نہ وہ بنے نہ یہ بنے گا۔ لیکن جب اوپر آئی بات تو ادھر ہم نے ریزولوشن موو کیا جنوبی پنجاب کے لئے وہ متفقہ طور پر قومی اسمبلی سے پاس کر دیا۔ اب جو لوگ آپ سے ملیں گے تنقید کریں گے ان سے صرف ایک بات پوچھیں کہ دستی صاحب پوچھ لیں گے یا شاہ محمود صاحب سے پوچھ لیں گے جب قرارداد پیش ہوئی انہوں نے مجھے ووٹ دیا یا نہیں نہ دیا۔ انہوں نے مجھے ووٹ دیا اور اس لحاظ سے میں آپ کو بتانا چاہ رہا ہوں کہ اس کا سیکنڈ سٹیپ کیا تھا۔آپ بتائیں چیئرمین سینٹ کس کا بنا ہے پیپلزپارٹی کا ڈپٹی چیئرمین کس کا بنا پیپلزپارٹیی کا، لیڈر آف اپوزیشن کس کا بنا ہے۔ جو نعرہ آپ لگا رہے ہیں کہ ہم صوبہ بنا کر دیں گے کیا آپ پیپلزپارٹی کے بغیر صوبہ بنا سکتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر بھی ایک ووٹ سے بنایا اور سینٹ میں دو ووٹوں سے بنایا اور ہم ساتھ نہ ہوں تو کیا یہ بن سکتا ہے۔ اس لئے گزارش کر رہا ہوں کہ جو The are piaying to the یہ کہنا چاہتے ہیں انہوں نے تو کچھ نہ کیا ہم کر کے دکھائیں گے۔ میں آپ سے سوال کرنا چاہتا ہوں کہ آج سے پہلے کبھی ان شخصیات کے منہ سے سنا کہ جنوبی پنجاب کا صوبہ ہم بنائیں گے۔ پی ٹی آئی سمیت کسی نے کبھی ذکر نہیں کیا۔ جب ایک سٹرٹیجی بن گئی تو اب کریڈٹ ہم سے لینے کے لئے سب کہہ رہے ہیں گیلانی صاحب نے جھوٹ بولا۔ پیپلزپارٹی نے جھوٹ بولا۔ زرداری نے جھوٹ بولا۔ دو تہائی اکثریت سے ایکٹ بنا ہی نہیں تھا۔ اس لئے میں نے کہا تھا کہ منزلیں انہیں ملیں جو شریک سفر نہ تھے۔
ضیا شاہد: تاریخ کے حقائق سامنے آنے چاہئیں۔ تجزیہ کار کی حیثیت سے ہم نہ کسی پارٹی کے خلاف ہیں نہ کسی کے ساتھ ہیں۔ لیکن بہت اچھا کیا میں نے کئی مرتبہ سوال کئے کہ جتنے چہرے اب سامنے نظر آ رہے ہیں کم از کم مجھے آن ریکارڈ کسی اخبار نے کسی ٹی وی چینل پر میں نے انہیں جنوبی پنجاب کے لئے الگ صوبے کے لئے حتیٰ کہ یہاں کے حقوق کے لئے نعرہ بلند کرتے یا آواز اٹھاتے نہیں دیکھا۔ میں خود اس کی گواہی دیتا ہوں۔
یوسف رضا گیلانی:ہم نے ایک کمیشن بنایا جس کی سرپرستی سنیٹر فرحت اللہ بابر کر رہے تھے۔ انہوں نے پورا پبلک ہیئرنگز کیس انہوں نے میڈیا کے لوگوں سے ملے۔ سیاستدانوں ادیبوں سے ملے۔ اکانومٹس سے بھی ملے اور وسائل اس کے کیسے ہوں گے اس پر جب کام کیا تو اس پر سب متفق ہوئے کہ ایک ہی صوبہ بن سکتا ہے۔ دوصوبے قابل عمل نہیں ہیں۔ اس کے لئے سینٹ میں ہماری اکثریت تھی ہم اس کو سینٹ میں لے گئے بل کے فارم میں۔ لوگ اور میڈیا اکثر تار دیتا ہے کہ ہم نے قرارداد پاس کی وہ قرارداد نہیں تھا جب آپ نے فاٹا کا ذکر کیا تو میں نے اسی وقت کہا کہ میں اس پر بھی بات کروں گا۔ آپ مجھے بتائیں کہ فاٹا کا جو ہم نے بل پاس کیا کتنے ووٹوں سے پاس کیا۔ ووٹ سے پاکستان کی تمام جماعتیں یکجا ہو کر ووٹ دیا مگر دو تہائی اکثریت سے ووٹ پرا۔ پھر اس کو سینٹ میں لے گئے۔ دوسرا سوال ہوا ہو گا کتنے ووٹوں سے پڑا۔ دوووٹوں سے۔ پورے پاکستان کی جماعتیں جنہوں نے اسٹینڈ لیا۔ جمعیت علمائے اسلام تھی یا اچکزئی صاحب اس کے علاوہ تمام متفق تھیں قومی اتفاق رائے تھا، جب میں نے بل کے فارم میں پیش کیا سینٹ میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ وہ میں نے پاس کر دیا بل بن گیا مگر ن لیگ نے ایسٹین کیا واک آﺅٹ کیا۔ پھر بھی دو تہائی اکثریت لے گیا۔ میرے پاس دو تہائی اکثریت نیشنل اسمبلی میں نہیں تھی۔ اگر نیشنل اسمبلی میں ہوتی تو ایک منٹ میں صوبہ بن گیا ہوتا۔ اب یہ جو ساری باتیں ہو رہی ہیں کہ پہلے جنوبی پنجاب کا صوبہ بنا لیں۔ اتحاد بنا لیں پھر پی ٹی آئی میں ضم ہو جائیں تو پھر کہیں کہ ہم صوبہ بنائیں گے اور کوئی نہیں بنا سکتا۔
ضیا شاہد: میرا سوال یہ ہے کہ اب کہا جا رہا ہے 4 یا 5 دن پہلے شہباز شریف نے بھی جو مسلم لیگ (ن) کے موجودہ صدر ہیں۔ انہوں نے یہ کہا کہ ہماری جماعت سے زیادہ جو لوگ جنوبی پنجاب میں الگ ہو رہے ہیں۔ انہوں نے خلائی مخلوق کا ذکر کیا اور کہا کہ کہیں سے انہیں اشارہ ہوتا ہے۔ پہلے اشارہ ہوا کہ جنوبی پنجاب کا ایک موومنٹ بناﺅ پھر اشارہ ہوا تحریک انصاف میں جاﺅ ان کے ان کمنٹس پر آپ کیا رائے دیں گے۔
یوسف رضا گیلانی۔ میاں شہباز شریف کا سپوکس مین نہیں ہوں کہ انہوں نے کہا ہے مگر آن ریکارڈ یہ تسلیم کیا ہے کہ ان لیڈران کرام نے ایک مرتبہ بھی جنوبی پنجاب کا نام نہیں لیا صرف دس لیا ہے اور اب دس دن کے بعد پھر پی ٹی آئی کے کھاتے میں ڈال دیا ہے۔ وہ جانیں ان کا کام جانیں ان کا کام ختم ہو گیا۔ ان کا یہی رول تھا کہ وہ اس وقار کے ساتھ پارٹی چھوڑنے کا اور پھر دوسری جماعت میں ضم ہو گئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ خلائی مخلوق کی تو ان کی اپنی رائے ہو گی مگر یہ اخلاقی طور پر یہ بہت غلط ہے جو ان کا طریق کار تھا۔
ضیا شاہد: آپ کی شائستگی کی وجہ سے ہمیشہ مخالفوں اور حامیوں میں آپ کی عزت اور احترام پایا جاتا ہے بات ختم کر دیں کہ یہ بات شہباز شریف کی بات کی۔ یہ حرف عام میں اکثر تبادلہ خیال ہوتا ہے کہ اچانک جنوبی پنجاب میں ابال کیسے پیدا ہوا۔ یہ کیا اس کے پیچھے واقعی طاقتوں کا ہاتھ ہے یا آپ سمجھتے ہیں کہ جب ان لوگوں سے پوچھا جائے میں چونکہ ان سے ملتا رہتا ہوں۔
ان کا کہنا ہے کہ نہیں جی ہم تو ہمیشہ سے اس علاقے کے عوام کے لیے آواز اٹھاتے تھے۔ اگر ان سوالوں کے جواب میں کوئی ثبوت نہیں دے سکتے موجودہ تبدیلی نظر آئی ہے جسے آپ نے خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔
یوسف رضا گیلانی: جہاں تک جنوبی پنجاب کے عوام کی محرومیوں کا تعلق ہے یا بہاولپور کی محرومیوں کا تعلق ہے ہماری پسماندگی ہماری محرومی باقاعدگی نظر آتی ہے۔
ضیا شاہد: میں سی پی این ای کا صدر رہا۔ ہماری وفد سے ملاقات میں چیف منسٹر پنجاب نے کلیم کیا اور باقاعدہ مجھ سے مخاطب ہو کر کہا آپ جنوبی پنجاب کی بہت بات کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا 1947ءسے لے کر میری موجودہ طور پر 5 پچھلے سالوں میں جتنی ترقی ۔پہلا اور ایجوکیشن میں جتنا کام میں نے کیا پاکستان میں کبھی نہیں کیا کیا واقعی 10 سال میں ترقیاتی کاموں میں اضافہ ہوا ہے۔
یوسف رضا گیلانی: میں نہیں کہتا کہ شہباز شریف کی بات کا جواب دو۔ میں اپنے علاقے کے حوالے سے جواب دوں گا۔ نہیں ہوا دیکھتے ہم نے جو این ایف سی ایوارڈ دیا تھا اور نیشنل فنانس کا جو بہت بڑا حصہ تھا صوبوں کو دے دیا۔ اب ایجوکیشن پہلا ہو۔ یوتھ کے ایشوز ہوں فیملی پلاننگ کے ہم یہ کام صوبوں کا نہیں رہا لہٰذا میری توقع یہ تھی نیشنل فنانس کمیشن جیسے ایوارڈ ہوا تھا اس کے حساب سے صوبوں کو کمیشن ایوارڈ ہوتا اور جو جو علاقے ہیں ضلع میں پسماندہ ہیں ان کی کمی دور کی جاتی تو میں مانتا کہ دس سال میں کام ہوا ہے۔ ہارون آباد، جام پور، راجن پور لیہ یا یہ علاقے پسماندہ ہیں کیا ان کو فنانس کمیشن کے مطابق ان کا حصہ ملایا نہیں ہو۔ دوسرا میں یہ بتانا جا رہا ہوں کہ ایک وہ یہ بجٹ مختص ہو جاتا ہے یہ مختص ہو گیا ایک ارب روپیہ ہارون آباد کو مد کیا۔ ڈسپرس منٹ اتنی ہوتی بجٹ پر تالیاں بج گئیں یہ اتنا بجٹ جنوبی پنجاب کو دیا گیا۔ مجھے زرداری صاحب کہنے لگے کہ میں نے سارا بجٹ چیک کیا ہے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام میں پہلی مرتبہ جتنا 30 فیصد شیئر بنتا تھا اس کے قریب خرچ ہوا۔ اس فنڈ کو آپ نے 4 سال استعمال کیا، آپ کو کریڈٹ دیتا ہوں۔
ضیا شاہد: مشرف دور میں خبریں میں سپرلیڈ چھپی تھی ”پنجاب کے ٹکڑے کرنے والوں کو ہماری لاشوں سے گزرنا پڑے گا:شجاعت حسین“ اب چودھری برادران بھی الگ صوبے کی بات کرتے ہیں کیا واقعی صوبہ بنے گا؟
یوسف رضا گیلانی: شجاعت حسین نے جنوبی پنجاب صوبے کے حق میں مجھے ووٹ دیا تھا۔ اس معاملے پر انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار بھٹو نے آئین دیا، ہم نے اصل آئین کو بحال کیا۔ یہ پیپلزپارٹی کی بڑی کامیابی تھی کہ اس نے تمام جماعتوں کے اتفاق رائے سے ترمیم کی اور بھٹو کا آئین بحال کیا۔ ہم نے ہمیشہ عدلیہ کا احترا م کیا۔ جب مجھے نااہل کیا گیا تو کرپشن کا کوئی الزام نہیں تھا۔ صدر کے خلاف خط نہ لکھنے پر نااہل کیا گیا میں نے ایک لفظ نہیں بولا۔ جس چیف جسٹس نے مجھے نااہل کیا ان کی بیٹی کی شادی میں شریک ہوا۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو نے ہمیشہ عدلیہ کا احترام کیا، محترمہ و زرداری عدالتوں میں پیش ہوتے رہے۔ اگر آئین بنانے والے احترام نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا۔ پیپلزپارٹی ایک جمہوری پارٹی، جنوبی پنجاب کو صوبہ کوئی بھی بنائے ہماری تائید و حمایت و تعاون ساتھ ہو گا۔
ضیا شاہد: ڈسٹرکٹ کی آبادی کی بنیاد پر فنڈز جاری کرنے کا بھی کوئی فارمولا بنا دیا جائے، صرف صوبے کے قیام کا اعلان یقینی فنڈز کی فراہمی و ترقی کا ضامن نہیں ہوتا؟
یوسف رضا گیلانی: میں چیئرمین ڈسٹرکٹ کونسل ملتان بھی رہا ہوں۔ اس وقت لودھراں، خانیوال و ملتان 3 اضلاع تھے، بلدیاتی اداروں کی بڑی اہمیت تھی۔ مشرف دور میں بلدیاتی اداروں کا بجٹ صدر کی طرف سے آتا تھا، میں نے آ کر صوبوں کو اختیارات دیے۔ انصاف نہیں ہوا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ صوبے نہیں ہونے چاہئیں۔ صوبے بنیں یا نہ بنیں، حکومت منصفانہ ہونی چاہئے۔
ضیا شاہد: کیا ڈسٹرکٹ کو آبادی کی بنیاد پر بجٹ نہیں ملنا چاہئے؟
یوسف رضا گیلانی: ہم نے این ایف سی ایوارڈ دیا تھا۔ پھر بھی اگر کسی نے ایک علاقے کو اتنے عرصے سے پسماندہ رکھا ہوا ہے، اب اسے فنڈ دے بھی دیں تو بھی وہ برابری نہیں کر سکے گا۔ میں شجاع آباد سے الیکشن لڑنے جا رہا ہوں، وہاں ہیپاٹائٹس عام بیماری ہے جو ایک ناسور ہے۔ میں کوشش کر رہا ہوں کہ بین الاقوامی ادارے وہاں کوئی پروگرام شروع کریں۔ آپ بھی اس حوالے سے عوام میں شعور اجاگر کریں۔
ضیا شاہد: نوازشریف کے جو بیانیے ہیں۔ کیا آپ کو مستقبل میں اس نقطہ نظر والے لوگ آتے چلتے نظر آتے ہیں؟ ایسا ہی ہے تو کیا اس کو جمہوریت کہہ سکتے ہیں؟
یوسف رضا گیلانی: ملک میں جمہوریت و آئین بہت کمزور ہے۔ اس کو مضبوط کرنے کی کوشش بھی نہیں کی گئی۔ نوازشریف کہتے ہیں ”ووٹ کو عزت دو“ تو سب سے زیادہ عزت تو پارلیمنٹ کو دینی چاہئے۔ اگر میری اسمبلی میں 95 فیصد حاضری ہو تو مطلب کہ میں نے ووٹ کو عزت دی ہے۔ اگر پارلیمنٹ کو مضبوط نہیں کریں گے تو کسی بھی طرح سے مضبوط نہیں رہ سکتے۔ خواہ 25 سال رہیں یا 50 سال رہیں۔ پارلیمنٹ مضبوط ہو گا تو تمام ادارے خود ہی اپنی آئینی حدود میں کام کریں گے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv