حج مسلمانوں کے اتحا د کا مظہر, بالآخر ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے ہونا پڑیگا

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ”ضیا شاہد“ نے کہا ہے کہ سعودی عرب دنیا کے تمام مسلمانوں کے لئے قابل احترام ہے۔ مسلمانوں کا قبلہ ہے۔ یہاں دنیا کے مسلمان اکٹھے ہوتے ہیں، اتحاد اور یگانگت کا منفرد انداز یہاں دکھائی دیتا ہے۔ مسلمان ممالک کی حکومتیں مسائل کھڑے کرتی ہیں۔ جبکہ عوام اور شہری کو آپس میں اتحاد کے خواہاں ہوتے ہیں جبکہ حکومتیں اپنے ذاتی مفادات کی خاطر پالیسیاں بناتی ہیں اور دنیا کی بڑی طاقتوں کے ساتھ ان کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں۔ اس لئے وہ اپنے شہریوں کے نظریات کو خاطر میں نہیں لاتیں۔ موجودہ دور میں تعلیم کا شعور بڑھ رہا ہے۔ اور ایسی صورتحال کا برقرار رہنا اب مشکل ہو گا۔ جو مسلمان حکومتیں عوام کے نظریات کے خلاف چلیں گی۔ عوام انہیں اٹھا کر پھینک دیں گے۔ بینظیر بھٹو قتل کیس میں آنے والا فیصلہ نامکمل فیصلہ ہے اس لئے کہ اگر کوئی ملزم اشتہاری قرار پاتا ہے تو اسے ٹرائل کے بغیر سزا نہیں دی جا سکتی۔ عدالت نے پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دیا ہے اور ان کی جائیدادیں ضبط کرنے کا حکم دیا ہے اور کہا ہے کہ ان کی گرفتاری کے بعد علیحدہ سے ٹرائل ہو گا۔ ایسی صورتحال میں جب تک ملزم عدالت میں پیش نہ ہو جائے اور ٹرائل کے بعد جامع فیصلہ نہ آ جائے تو فیصلہ مکمل نہیں ہو گا۔ اس کیس میں چند بیوروکریٹس نرغے میں آئے۔ انہیں 17، سترہ سال سزا دے دی گئی ہے۔ ان دونوں کو موقعہ واردات سے شواہد مٹانے کی سزا دی گئی ہے۔ یعنی وہ اصل ملزموں تک پہنچنے کے راستے میں رکاوٹ بنے۔ انہیں سخت سزا اس لئے دی گئی ہے کہ اتنے بڑے سانحہ کے شواہد کو مٹانے اور وقت سے قبل دھو دیا گیا۔ اور ثبوتوں کو ضائع کر دیا گیا، وہ قتل میں ملوث نہیں تھے۔ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد طالبان کے سربراہ نے قبول کر لیا تھا کہ یہ قتل انہوں نے کروایا ہے۔ ماہرین قانون کے مطابق مقتول کو قتل کے مقدمے سے خارج کر دیا جاتا ہے ملزم کو انٹرپول کے ذریعے واپس بلایا جا سکتا ہے۔ مشرف کو عدالت کا اشتہاری قرار دینا ہی کافی ہے اور وزارت داخلہ اب انہیں متعلقہ ملک سے واپس اٹھوا سکتی ہے۔ عدالت کے اس فیصلے کے بعد کسی بھی چینل کو مشرف کو لائن پر لینا مشکل ہو جائے گا۔ شیخ رشید کی پٹیشن پر نوازشریف کو نااہل قرار دیا گیا ہے۔ اب انہوں نے شاہد خاقان عباسی کے خلاف درخواست دائر کر دی ہے۔ حکومتی سائیڈ یقینا اسے سنجیدگی سے لے گی۔ شیخ رشید کو امید ہے کہ ان کے دلائل سے دوسرا وزیراعظم بھی اڑ جائے گا۔ اس لئے وہ اپنے کیس کی پیروی بھی خود کرتے ہیں۔ شیخ رشید خود صادق اور امین ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ بھی عدالت کو کرنا چاہئے۔ سیاستدان وقت کے ساتھ ساتھ اپنے بیانات بدلنا اپنا حق سمجھتے ہیں وہ مثال کے طور پر قائداعظم کو پیش کرتے ہیں کہ پہلے وہ کانگرس میں تھے پھر مسلم لیگ بنائی۔ شیخ رشید اس بارات کے دولہا ہیں۔ وہ اس کوشش میں ہیں کہ ایک اور وکٹ گرا لیں۔ طاہرالقادری بھی ان حالات میں خود کو ”اسٹینڈ بائی“ رکھنا چاہتے ہیں اسی میں کوئی چندہ وغیرہ یا کھالیں جمع ہو جاتی ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ ملک میں ن لیگ کی حکومت ہے۔ ان کی بیگم این اے 120 سے کامیاب ہو جاتی ہیں تو بھی ان کی ہی حکومت کو تقویت ملے گی۔ مریم نواز اگر اپنی والدہ کی عیادت کیلئے جانا چاہتی ہیں تو جا سکتی ہیں۔ لیکن ان کے بغیر یہاں الیکشن مہم مکمل نہیں ہو سکتی۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے اے آر وائی اور لینڈ مافیا کا ذکر کیا لیکن نام نہیں لیا شاید میاں صاحب اس لئے ملک ریاض کا نام نہیں لے رہے کہ ان کے بنائے ہوئے تین مرلہ سکیم کے ٹھیکیدار انہیں کے بندے تھے۔ بادشاہ، بادشاہوں سے بگاڑتے نہیں ہیں۔ کوئی پتہ نہیں کسی وقت کسی کی ضرورت پڑ جائے۔ اس لئے شاید وہ کسی کا نام منظر عام پر نہیں لانا چاہتے۔ ماہر قانون جسٹس (ر) ناصرہ جاوید نے کہا ہے کہ جو ملزم عدالت میں پیش نہیں ہوتا اسے اشتہاری قرار دے دیا جاتا ہے ویسے ملزم کی عدم موجودگی میں بھی ٹرائل ہو سکتی ہے۔ لیکن جرم ثابت ہونے تھے اسے مجرم نہیں قرار دیا جا سکتا۔ کسی حد تک تو مشرف کا کردار دکھائی دیتا ہے۔ بینظیر بھٹو نے ایک خط میں لکھا تھا کہ مجھے کچھ ہوا تو اس کا قصور وار مشرف ہو گا اس کے علاوہ سانحے کے فوراً بعد وہاں سے شواہد کو دھو دیا گیا اور لائٹیں بھی بند کر دی گئیں۔ ایسے اقدامات حکومت کی مرضی کے بغیر ممکن نہ تھے۔ تو مشرف کی حکومت تھی۔ اس لئے ذمہ داری تو ان پر جائے گی۔ جن دو بیورو کریٹس کو 17,17 سال سزا دی گئی ہے۔ انہوں نے کسی کے احکامات کی بجا آوری میں ایسا کیا۔ قانون میں درج ہے کہ اگر کوئی غیر قانونی حکم دے تو اسے نہ مانو۔ قانون سزا نہیں دے گا۔ سابق صدر سپریم کورٹ بار یٰسین آزاد نے کہا ہے کہ شیخ رشید اور بڑی پارٹی کے سربراہ کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ ملک کے تمام کاموں کو ایک سائیڈ کر کے صرف اور صادق اور امین کی گردان شروع کر دیں اور وزیراعظم کو نااہل کروانے کیلئے ان کے پیچھے پڑ جائیں یہ دونوں کوشش کر رہے ہیں کہ صرف یہ دو ہی صادق اور امین ہیں اور کوئی بھی نہیں رہا۔ یہ سسٹم کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے۔ اگر ان دونوں کے خلاف بھی کوئی صادق اور امین کی پٹیشن کر دے تو وہ خود کو بھی صادق اور امین ثابت نہیں کر سکیں گے۔ پارلیمنٹ کے اجلاس میں جب سب پارٹیاں بڑی طاقت کے بیان کے خلاف متحد بیٹھی ہیں یہ دونوں وہاں گئے ہی نہیں۔ شاید ان کا خیال تھا کہ نوازشریف کے جانے کے بعد (ن) کا تکیہ گول ہو جائے گا اور انہیں چانس مل جائے گا۔ اب ایسا نہیں ہوا۔ تو انہوں نے سوچا اب شاہد خاقان کے خلاف چل پڑیں۔ یہ ملک اور قوم کے وقت کا ضیاع ہے۔ یہ دونوں ملک کے سسٹم کے ساتھ بہت بڑی زیادتی کر رہے ہیں۔ سسٹم کو چلتے رہنا چاہئے۔ بینظیر قتل کیس میں کوئی بھی مشرف کا ٹرائل نہیں کر سکتا۔ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے! یہ تو اس وقت قبول کیا جا سکتا ہے جب وہ پرویز مشرف کو گرفتار کروا کر عدالت میں پیش کریں۔ اپنے صدارت اور چیف آف آرمی سٹاف کے دور میں ملنے والی بین الاقوامی دولت مشرف نے باہر اپنے اکاﺅنٹ میں جمع کروائی باجوہ صاحب وہ دولت بھی ان سے واپس لے کر قومی خزانے میں جمع کروائیں۔ تب رول آف لاءنظر آئے گا۔ آج تک پاکستانی قانون کے مطابق کسی بھی ڈکٹیٹر کو سزا نہیں دی گئی۔ ڈکٹیٹر نے آئین اور قانون کو اپنی ذاتی خواہش اور مفاد کی خاطر توڑا اور حکومت کر کے بھاگ گیا۔ مشرف کو بینظیر قتل کیس، اکبر بگٹی قتل کیس اور غیر ملکی رقوم کی وصولی کی سزا کے طور پر عدالتوں میں پیش کیا جانا چاہئے اور کسی قسم کی رعایت ان کے ساتھ نہ کی جائے۔ اس نے 2007ءمیں عدلیہ کی بے حرمتی کی وہ آئین سے بالاتر کیوں ہے؟ اور کھلم کھلا کہتا ہے کہ آرمی چیف اور دیگر فوجی افسران نے مجھے نکالا۔ اس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔

بے نظیر قتل کیس میں مشرف کے کردار بارے جسٹس(ر) ناصرہ جاوید کا تہلکہ خیز انکشاف

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ”ضیا شاہد“ نے کہا ہے کہ سعودی عرب دنیا کے تمام مسلمانوں کے لئے قابل احترام ہے۔ مسلمانوں کا قبلہ ہے۔ یہاں دنیا کے مسلمان اکٹھے ہوتے ہیں، اتحاد اور یگانگت کا منفرد انداز یہاں دکھائی دیتا ہے۔ مسلمان ممالک کی حکومتیں مسائل کھڑے کرتی ہیں۔ جبکہ عوام اور شہری کو آپس میں اتحاد کے خواہاں ہوتے ہیں جبکہ حکومتیں اپنے ذاتی مفادات کی خاطر پالیسیاں بناتی ہیں اور دنیا کی بڑی طاقتوں کے ساتھ ان کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں۔ اس لئے وہ اپنے شہریوں کے نظریات کو خاطر میں نہیں لاتیں۔ موجودہ دور میں تعلیم کا شعور بڑھ رہا ہے۔ اور ایسی صورتحال کا برقرار رہنا اب مشکل ہو گا۔ جو مسلمان حکومتیں عوام کے نظریات کے خلاف چلیں گی۔ عوام انہیں اٹھا کر پھینک دیں گے۔ بینظیر بھٹو قتل کیس میں آنے والا فیصلہ نامکمل فیصلہ ہے اس لئے کہ اگر کوئی ملزم اشتہاری قرار پاتا ہے تو اسے ٹرائل کے بغیر سزا نہیں دی جا سکتی۔ عدالت نے پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دیا ہے اور ان کی جائیدادیں ضبط کرنے کا حکم دیا ہے اور کہا ہے کہ ان کی گرفتاری کے بعد علیحدہ سے ٹرائل ہو گا۔ ایسی صورتحال میں جب تک ملزم عدالت میں پیش نہ ہو جائے اور ٹرائل کے بعد جامع فیصلہ نہ آ جائے تو فیصلہ مکمل نہیں ہو گا۔ اس کیس میں چند بیوروکریٹس نرغے میں آئے۔ انہیں 17، سترہ سال سزا دے دی گئی ہے۔ ان دونوں کو موقعہ واردات سے شواہد مٹانے کی سزا دی گئی ہے۔ یعنی وہ اصل ملزموں تک پہنچنے کے راستے میں رکاوٹ بنے۔ انہیں سخت سزا اس لئے دی گئی ہے کہ اتنے بڑے سانحہ کے شواہد کو مٹانے اور وقت سے قبل دھو دیا گیا۔ اور ثبوتوں کو ضائع کر دیا گیا، وہ قتل میں ملوث نہیں تھے۔ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد طالبان کے سربراہ نے قبول کر لیا تھا کہ یہ قتل انہوں نے کروایا ہے۔ ماہرین قانون کے مطابق مقتول کو قتل کے مقدمے سے خارج کر دیا جاتا ہے ملزم کو انٹرپول کے ذریعے واپس بلایا جا سکتا ہے۔ مشرف کو عدالت کا اشتہاری قرار دینا ہی کافی ہے اور وزارت داخلہ اب انہیں متعلقہ ملک سے واپس اٹھوا سکتی ہے۔ عدالت کے اس فیصلے کے بعد کسی بھی چینل کو مشرف کو لائن پر لینا مشکل ہو جائے گا۔ شیخ رشید کی پٹیشن پر نوازشریف کو نااہل قرار دیا گیا ہے۔ اب انہوں نے شاہد خاقان عباسی کے خلاف درخواست دائر کر دی ہے۔ حکومتی سائیڈ یقینا اسے سنجیدگی سے لے گی۔ شیخ رشید کو امید ہے کہ ان کے دلائل سے دوسرا وزیراعظم بھی اڑ جائے گا۔ اس لئے وہ اپنے کیس کی پیروی بھی خود کرتے ہیں۔ شیخ رشید خود صادق اور امین ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ بھی عدالت کو کرنا چاہئے۔ سیاستدان وقت کے ساتھ ساتھ اپنے بیانات بدلنا اپنا حق سمجھتے ہیں وہ مثال کے طور پر قائداعظم کو پیش کرتے ہیں کہ پہلے وہ کانگرس میں تھے پھر مسلم لیگ بنائی۔ شیخ رشید اس بارات کے دولہا ہیں۔ وہ اس کوشش میں ہیں کہ ایک اور وکٹ گرا لیں۔ طاہرالقادری بھی ان حالات میں خود کو ”اسٹینڈ بائی“ رکھنا چاہتے ہیں اسی میں کوئی چندہ وغیرہ یا کھالیں جمع ہو جاتی ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ ملک میں ن لیگ کی حکومت ہے۔ ان کی بیگم این اے 120 سے کامیاب ہو جاتی ہیں تو بھی ان کی ہی حکومت کو تقویت ملے گی۔ مریم نواز اگر اپنی والدہ کی عیادت کیلئے جانا چاہتی ہیں تو جا سکتی ہیں۔ لیکن ان کے بغیر یہاں الیکشن مہم مکمل نہیں ہو سکتی۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے اے آر وائی اور لینڈ مافیا کا ذکر کیا لیکن نام نہیں لیا شاید میاں صاحب اس لئے ملک ریاض کا نام نہیں لے رہے کہ ان کے بنائے ہوئے تین مرلہ سکیم کے ٹھیکیدار انہیں کے بندے تھے۔ بادشاہ، بادشاہوں سے بگاڑتے نہیں ہیں۔ کوئی پتہ نہیں کسی وقت کسی کی ضرورت پڑ جائے۔ اس لئے شاید وہ کسی کا نام منظر عام پر نہیں لانا چاہتے۔ ماہر قانون جسٹس (ر) ناصرہ جاوید نے کہا ہے کہ جو ملزم عدالت میں پیش نہیں ہوتا اسے اشتہاری قرار دے دیا جاتا ہے ویسے ملزم کی عدم موجودگی میں بھی ٹرائل ہو سکتی ہے۔ لیکن جرم ثابت ہونے تھے اسے مجرم نہیں قرار دیا جا سکتا۔ کسی حد تک تو مشرف کا کردار دکھائی دیتا ہے۔ بینظیر بھٹو نے ایک خط میں لکھا تھا کہ مجھے کچھ ہوا تو اس کا قصور وار مشرف ہو گا اس کے علاوہ سانحے کے فوراً بعد وہاں سے شواہد کو دھو دیا گیا اور لائٹیں بھی بند کر دی گئیں۔ ایسے اقدامات حکومت کی مرضی کے بغیر ممکن نہ تھے۔ تو مشرف کی حکومت تھی۔ اس لئے ذمہ داری تو ان پر جائے گی۔ جن دو بیورو کریٹس کو 17,17 سال سزا دی گئی ہے۔ انہوں نے کسی کے احکامات کی بجا آوری میں ایسا کیا۔ قانون میں درج ہے کہ اگر کوئی غیر قانونی حکم دے تو اسے نہ مانو۔ قانون سزا نہیں دے گا۔ سابق صدر سپریم کورٹ بار یٰسین آزاد نے کہا ہے کہ شیخ رشید اور بڑی پارٹی کے سربراہ کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ ملک کے تمام کاموں کو ایک سائیڈ کر کے صرف اور صادق اور امین کی گردان شروع کر دیں اور وزیراعظم کو نااہل کروانے کیلئے ان کے پیچھے پڑ جائیں یہ دونوں کوشش کر رہے ہیں کہ صرف یہ دو ہی صادق اور امین ہیں اور کوئی بھی نہیں رہا۔ یہ سسٹم کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے۔ اگر ان دونوں کے خلاف بھی کوئی صادق اور امین کی پٹیشن کر دے تو وہ خود کو بھی صادق اور امین ثابت نہیں کر سکیں گے۔ پارلیمنٹ کے اجلاس میں جب سب پارٹیاں بڑی طاقت کے بیان کے خلاف متحد بیٹھی ہیں یہ دونوں وہاں گئے ہی نہیں۔ شاید ان کا خیال تھا کہ نوازشریف کے جانے کے بعد (ن) کا تکیہ گول ہو جائے گا اور انہیں چانس مل جائے گا۔ اب ایسا نہیں ہوا۔ تو انہوں نے سوچا اب شاہد خاقان کے خلاف چل پڑیں۔ یہ ملک اور قوم کے وقت کا ضیاع ہے۔ یہ دونوں ملک کے سسٹم کے ساتھ بہت بڑی زیادتی کر رہے ہیں۔ سسٹم کو چلتے رہنا چاہئے۔ بینظیر قتل کیس میں کوئی بھی مشرف کا ٹرائل نہیں کر سکتا۔ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے! یہ تو اس وقت قبول کیا جا سکتا ہے جب وہ پرویز مشرف کو گرفتار کروا کر عدالت میں پیش کریں۔ اپنے صدارت اور چیف آف آرمی سٹاف کے دور میں ملنے والی بین الاقوامی دولت مشرف نے باہر اپنے اکاﺅنٹ میں جمع کروائی باجوہ صاحب وہ دولت بھی ان سے واپس لے کر قومی خزانے میں جمع کروائیں۔ تب رول آف لاءنظر آئے گا۔ آج تک پاکستانی قانون کے مطابق کسی بھی ڈکٹیٹر کو سزا نہیں دی گئی۔ ڈکٹیٹر نے آئین اور قانون کو اپنی ذاتی خواہش اور مفاد کی خاطر توڑا اور حکومت کر کے بھاگ گیا۔ مشرف کو بینظیر قتل کیس، اکبر بگٹی قتل کیس اور غیر ملکی رقوم کی وصولی کی سزا کے طور پر عدالتوں میں پیش کیا جانا چاہئے اور کسی قسم کی رعایت ان کے ساتھ نہ کی جائے۔ اس نے 2007ءمیں عدلیہ کی بے حرمتی کی وہ آئین سے بالاتر کیوں ہے؟ اور کھلم کھلا کہتا ہے کہ آرمی چیف اور دیگر فوجی افسران نے مجھے نکالا۔ اس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔

10 پولیس اہلکار وں ،فوجی جوانوں کو قتل کرنیوالے مفتی شاکر بارے (جے آئی ٹی )کی رپورٹ میں سنسنی خیز انکشافات

کراچی)مانیٹرنگ ڈیسک( پولیس اہلکاروں کے قتل اور 2014 میں سی آئی ڈی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) چوہدری اسلم پر خودکش حملہ کرنے کے الزامات پر گرفتار ہونے والا محمد شاکراللہ عرف مفتی شاکر ضمانت پر رہا ہونے کے بعد افغانستان فرار ہوگیا جہاں وہ عسکریت پسندوں کے تربیتی کیمپ کو چلانے میں مصروف ہے۔ رپورٹ کے مطابق مفتی شاکر کی موجودہ سرگرمیوں سے متعلق یہ معلومات بدھ (30 اگست) کے روز سامنے آئی۔واضح رہے کہ مارچ 2014 میں کراچی سینٹرل جیل میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی پوچھ گچھ کے دوران مفتی شاکر نے اعتراف کیا تھا کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ 10 پولیس اہلکاروں اور فوجیوں کو قتل کرچکا ہے۔مفتی شاکر کی جے آئی ٹی رپورٹ کے جائزے میں معلومات حاصل ہوئی کہ وہ خود کو ایس پی چوہدری اسلم پر خودکش حملہ کرنے کے لیے بھی پیش کرچکا تھا تاہم اسے ایسا کرنے سے روک دیا گیا۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مفتی شاکر نے ضمانت حاصل کرنے کے لیے جعلی دستاویزات جمع کروائیں۔رپورٹ کے مطابق شاکر سائٹ کے علاقے میں 1981 میں پیدا ہوا جہاں وہ اپنے 6 بھائیوں اور 9 بہنوں کے ساتھ پلا بڑھا، کے ایم سی اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد شاکر نے کراچی کے تین مشہور مدرسوں سے تعلیم حاصل کی جس میں حفظ قرآن کے ساتھ ساتھ مذہبی عالم کا کورس بھی شامل تھا۔2009 میں شاکر نے سائٹ میں ایک مدرسہ قائم کیا اور وہاں کا پرنسپل بن گیا تاہم یہ مدرسہ حال ہی میں سیل کیا جاچکا ہے۔عسکریت پسندی کی جانب سفرجے آئی ٹی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ شاکر نے 1996 میں ایک مشہور مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ہی جہادی تنظیم حرکات المجاہدین میں شمولیت اختیار کرلی تھی، مگر 2000 میں جب اس گروپ اور جیشِ محمد میں اختلافات شروع ہوئے تو شاکر نے اس تنظیم سے علیحدگی اختیار کرلی۔تاہم 2012 میں جماعت کے کراچی کے سربراہ کی ترغیب پر مفتی شاکر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (خیبر ایجنسی) میں شامل ہوگیا۔شاکر نے 1999 میں مانسہرہ سے عسکریت پسندی کی تربیت حاصل کی اور 2012 کے دوران خیبر ایجنسی میں بم بنانا سیکھا جس کے بعد تجرباتی بنیاد پر تین بم دھماکے بھی کیے۔شاکر نے جے آئی ٹی ارکان کے سامنے اعتراف کیا کہ جولائی 2012 میں اسے ٹی ٹی پی (خیبر ایجنسی) سے 10 ہزار روپے جرمانے کی چِٹ موصول ہوئی، جس میں کہا گیا تھا کہ یہ جرمانہ اس لیے عائد کیا جارہا ہے کہ شاکر کے دو بھائیوں کے سی آئی ڈی اہلکاروں سے رابطے ہیں۔جرمانے کے ساتھ ساتھ شاکر کو ان بھائیوں سے دور رہنے کی ہدایت بھی دی گئی۔اس نے جے آئی ٹی کو مزید بتایا کہ بعد ازاں وہ اپنی والدہ اور دو بھائیوں کے ساتھ خیبر ایجنسی گیا جہاں ٹی ٹی پی سربراہ سے ملاقات کے بعد اپنے خلاف لگائے گئے الزام کو مسترد کیا۔خیبر ایجنسی میں 40 روز قیام کے بعد وہ کراچی واپس آگیا اور کام جاری رکھا، اس دوران اس نے 10 افراد پر مشتمل ایک سیل بنایا جن میں سے 4 کو بعد ازاں اس نے قتل کردیا۔شاکر نے یہ اعتراف بھی کیا تھا 2013 سے لے کر 2014 کے آغاز تک گرفتار ہونے سے قبل ساتھیوں کے ساتھ ساتھ 10 پولیس اہلکاروں اور فوجیوں کو بھی قتل کرچکا تھا، اس عرصے میں اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ 20-25 حملے کیے جن میں پولیس وین پر کیے جانے والے دستی بم حملے بھی شامل ہیں۔ان حملوں کے متاثرین کی شناخت آرمی فوجی عمران، سی آئی ڈی کے ہیڈ محرر، پولیس کانٹیبلز محمد انور، محمد شیر، پرویز اختر، شہزاد رضا، رجب علی، راشد، عامر، شبیر، وقار اور فضل امین کے ناموں سے کی گئی۔قانون نافذ کرنے والے ان تمام اہلکاروں کو 2013 کے دوران سائٹ ایریا میں فائرنگ کرکے قتل کیا گیا۔اسی سال شاکر نے اپنے ساتھیوں فضل الرحمن اورعبداللہ عرف مختار کے ہمراہ ایک فیکٹری کے باہر موجود پولیس وین پر حملہ کیا۔شاکر نے مدرسے کے طالب علم 25 سالہ نعیم اللہ کو دہشت گردی کی جانب مائل کیا جس نے ایس پی اسلم پر 4 جنوری 2014 کو خودکش حملہ کیا۔یہ مبینہ خودکش بمبار ایک مذہبی اسکالر کا بیٹا تھا جو پیرآباد کے علاقے میں مدرسہ چلاتے تھے۔رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ شاکر نے کالعدم لشکر جھنگوی کے ایک دہشت گرد سے رابطہ قائم کیا جس نے دسمبر 2013 میں ایس پی اسلم پر حملے کے لیے خودکش بمبار فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ابتدائی طور پر شاکر نے خود ہی چوہدری اسلم پر حملہ کرنے کی خواہش ظاہر کی تاہم لشکر جھنگوی کے عسکریت پسند نے اسے کہا کہ وہ ایک مذہبی اسکالر ہے جس کی تبلیغ کی مزید ضرورت ہے۔لہذا اس حملے کے لیے دوسرے شخص کو تیار کیا گیا۔شاکر نے نعیم اللہ کو ذہی طور پر تیار کیا اور 7 سے 8 روز تک اسے مسلسل تحریک دیتا رہا۔اس دوران نعیم اللہ نے شاکر کو بتایا کہ وہ ٹی ٹی پی (سوات) سے تعلق رکھتا ہے اور اپنے گروپ کے سربراہ کی اجازت کے بغیر کوئی دہشت گرد سرگرمی سرانجام نہیں دے سکتا۔تاہم جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق مفتی شاکر نے اسے قائل کرنے کی کوشش کی کہ ایس پی اسلم ایک اہم ٹارگٹ ہے اور اس حملے کے لیے اسے اپنے امیر کی رضامندی حاصل کرنے کی ضرورت نہیں۔

ڈاکٹر قدیر کے خلاف مشرف کا انٹرویو،جاوید ہاشمی نے دل کی بات کہہ دی

ملتان(آئی این پی) سینئر سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیرخان کیخلاف پرویزمشرف کا نجی ٹی وی کو دیا جانے والا انٹرویو خطرناک اورتباہ کن ہے ۔ایٹمی پروگرام کے ہیرو ڈاکٹرعبدالقدیرخان کی بے حرمتی کی گئی ، فوج اورسیاستدان پرویزمشرف کے انٹرویو کا نوٹس لیں۔جس نے بے نظیر بھٹو کی سکیورٹی واپس لی وہ ہی ان کا قاتل ہے ،آرمی چیف سے کہتا ہوں کہ پرویزمشرف کو پکڑکرپاکستان لائیں۔ہمارا میزائل پروگرام امریکہ اسرائیل اور یورپ کے ٹارگٹ پر ہے۔ امریکہ دھمکیاں دے رہا ہے،، امریکہ یاد رکھے پاکستان قوم اسے چھٹی کا دودھ یاد دلا دے گی۔پارلیمنٹ میں کوئی ایسا لیڈرنہیں جوامریکا سے بات کرسکے، جو لیڈرتھااس کونکال دیاگیا۔عمران خان کواسمبلی کے اجلاس میں جاناچاہیے تھا ملتان پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے جاویدہاشمی نے کہا کہ پرویز مشرف کے نجی ٹی وی کو دئیے گئے انٹرویو کی ٹائمنگ بہت غلط ہے۔، اسرائیل اورامریکہ کو پاکستان کا میزائل پروگرام ایک آنکھ نہیں بھاتا۔انہوں نے کہا کہ 2003ءمیں اسلام آباد کے مئیریٹ ہوٹل میں سعودی سفارتخانے کی تقریب منعقد ہوئی،اس تقریب میں ایڈمرل عبدالعزیز اور مشاہد حسین موجود تھے جبکہ اس افطار ڈنر میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان دلبرداشتہ تھے۔ڈاکٹرعبدالقدیر نے انہیں پرویز مشرف کی طرف سے دی جانے والی دھمکیوں کے حوالے سے سے آگاہ کیا تھا،، میری بات پر کوئی یقین کرے نہ کرے شک و شبہ کا دور ہے، ڈاکٹر عبدالقدیر، مشاہد حسین، ایڈمرل عبدالعزیز اور میں ابھی زندہ ہیں۔ ایڈمرل عبدالعزیز سے کہتا ہوں وہ بتائیں ڈاکٹر عبدالقدیر نے کیا کہا تھا،جاوید ہاشمی نے کہا کہ پرویز مشرف کی شکل میں ایک لابی آئی جو ایٹمی پروگرام پر کمپرومائز پر تیار تھی، امریکہ ایٹمی پروگرام پر شب خون مارنا چاہتا تھا، پاکستان کا ایٹم بم موجود تھا، انڈیا نے دھماکہ کردیا۔جمہوری حکومتوں نوازشریف اوربے نظیربھٹونے ایٹمی پروگرام کو جاری رکھا، بے نظیر بھٹو نے ایٹمی پروگرام کا سوئچ آف نہیں کیا،بے نظیر بھٹو والد کی طرح پاکستان کے میزائل پروگرام متعارف کرایا، ، نوازشریف نے امریکہ کی کال سننے پر بھی پابندی لگائی ہوئی تھی، جاوید ہاشمی نے کہا کہ ڈاکٹرعبدالقدیر نے انہیں بتایا کہ پاک فوج میں ایسی سوچ والے افراد موجود تھے جو پاکستان کو ایٹمی ادارہ نہیں بننا دیکھنا چاہتے تھے، فوج میں ایک گروہ تھا جو نہیں چاہتا تھا ایٹمی دھماکہ ہو،ایڈمرل عبدالعزیز کو ڈاکٹرقدیرکی گواہی دینی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ جس نے بے نظیربھٹوکی سکیورٹی واپس لی وہ ہی ان کاقاتل ہے ،پرویزمشرف نے ڈاکٹرعبدالقدیرکی بے حرمتی کی۔ آرمی چیف سے کہتا ہوں پرویز مشرف کو پکڑ کر پاکستان لائیں۔جاوید ہاشمی نے کہا کہ امریکہ دھمکیاں دے رہا ہے،ا مریکہ یاد رکھے پاکستان قوم اسے چھٹی لا دودھ یاد دلا دے گی، امریکہ سویت یونین کو بھی بھول جائے گا،انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں اب کوئی قابل ذکر لیڈر شپ نہیں ہے،پارلیمنٹ میں کوئی ایسا لیڈرنہیں جوامریکا سے بات کرسکے، جو لیڈرتھااس کونکال دیاگیا۔عمران خان کواسمبلی کے اجلاس میں جاناچاہیے تھا۔

لندن میں جوان بیٹی کو قتل کرنے والے سفاک والدین،باپ ٹی وی انٹرویو میں ایسا اشارہ کر بیٹھا کہ پول کُھل گیا

لندن (ویب ڈیسک) نوجوان بیٹی کو نافرمان قرار دے کر قتل کرنے والے ایک پاکستانی جوڑے کے بھیانک جرم کا شاید کبھی انکشاف نہ ہو پاتا، مگر ایک حاضر دماغ باڈی لینگوئج ایکسپرٹ نے اس جوڑے کا ایک انٹرویو دیکھتے ہوئے مقتول لڑکی کے باپ کے محض ایک معمولی اشارے سے پتا چلا لیا کہ قاتل وہی ہے۔ میل آن لائن کی رپورٹ کے مطابق 17 سالہ لڑکی شفیلہ کو قتل کرنے والے اس کے والدین افتخار اور فرزانہ نے ڈرامہ رچارکھا تھا کہ ان کی بیٹی لاپتہ ہوگئی ہے اور انہیں اس کے بارے میں کچھ علم نہیں ہے۔ پولیس کو بھی ان پر شک نہ ہوا، لیکن ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران جب افتخار سے پوچھا گیا کہ وہ خود تو اپنی بیٹی کے لاپتہ ہونے میں ملوث نہیں ہے، تو اس کا کہنا تھا ” ہرگز نہیں۔میں کبھی اس کے بارے میں تصور بھی نہیں کرسکتا۔“باڈی لینگوئج ایکسپریٹ کلف لینسلی کا کہنا ہے کہ ”میں یہ انٹرویو دیکھ رہی تھی۔ جواب دیتے ہوئے اس شخص نے اپنے سر کو اثبات میں ہلایاجبکہ منہ سے وہ انکار کر رہا تھا، جس سے مجھے پتہ چل گیا کہ وہ صاف جھوٹ بول رہا ہے۔ا گرچہ وہ اپنی بیٹی کے لاپتہ ہونے سے خود کو لاتعلق ظاہر کررہا تھا لیکن انجانے میں اس کا سر ’ہاں‘ کہنے کے انداز میں جھکا تھا۔ باڈی لینگوئج کے ماہرین جانتے ہیں کہ جب کوئی شخص جھوٹ بول رہا ہو تو عموماً اس کی جسمانی حرکات اس کی زبان سے مطابقت نہیں رکھتی ہیں۔ اس کیس میں بھی یہی ہوا کہ وہ زبان سے انکار کررہا تھا لیکن اس کے سر کی معمولی جنبش ’ہاں‘ کہہ گئی تھی۔“بادی لینگوئج ایکسپرٹ کے توجہ دلانے پر افتخار کو گرفتار کر لیا گیا اور تفتیش کے دوران اس نے اعتراف کر لیا کہ اس نے اپنی بیٹی کی سانس بند کرکے اسے ہلاک کیا تھا، جس کے بعد اس کی لاش کمبریا کے علاقے میں دریائے کینٹ میں پھینک دی تھی۔ مزید تفتیش کے دوران مقتولہ کی بہن الیشہ نے بھی بتایا کہ اس کے والدین شفیلہ کی زبردستی شادی کرنا چاہتے تھے جس پر وہ تیار نہ تھی۔ غالباً اس کے انکار پر برہم ہوکر ہی سفاک باپ نے اسے بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا تھا۔

اگر یہ کام ہوگیا تو پنجاب کے حکمران اور وزراءننگے ہوجائے گے،طاہرالقادری کا دبنگ خطاب

لاہور (وقائع نگار) عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے امید ظاہر کی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ جسٹس باقر نجی کمیشن کی رپورٹ عام کرکے انصاف یقینی بنائے گی،پاکستان کے ادارے کمزور کو انصاف فراہم کرنے کی طاقت نہیں رکھتے لیکن نیب کے پاس اپنی ساکھ بحال کرنے کا موقع ہے ، نیب آرڈیننس کے تحت شریف خاندان کے خلاف نیب کیسز کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہونی چاہیے اور ان کا فیصلہ بھی ایک ماہ میں آنا چاہیے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز لندن سے وطن واپسی پر لاہور ایئرپورٹ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ پاکستان میں ادارے کمزور کو انصاف فراہم کرنےکی طاقت نہیں رکھتے۔ اگر نیب میں کوئی کمزور آدمی پھنس جائے تو اسے جان چھڑانا مشکل ہوجاتا ہے۔شریف خاندان کو تین نوٹسز جاری کیے گئے لیکن طاقتور ہونے کی وجہ سے نیب میں پیش نہیں ہوئے۔ نیب آرڈیننس کے تحت شریف خاندان کے خلاف نیب کیسز کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہونی چاہیے اور ان کا فیصلہ بھی ایک ماہ میں آنا چاہیے۔اب نیب کے پاس شاندار موقع ہے کہ وہ اپنی ساکھ کوبحال کرے ۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 6 ماہ کا وقت دے کر شریف خاندان کیساتھ نرمی برتی ہے ،شریف برادران سر سے پاﺅں تک کرپشن میں ڈوبے ہیں اور یہ اپنے اقتدار اور کرپشن کو بچانے کیلئے کوشاں ہیں ۔دنیا کی پانچوں براعظموں پر شریف برادران کے کاروبار پھیلے ہیں ،ان کی نا اہلیت کے پیچھے صرف اقامہ نہیں بلکہ انکی کرپشن ہے،جو انہوں نے کی ہے ،سپریم کورٹ نے قوانین کے تحت نااہل کیا۔یہ لوگ قانون کا سامنا نہیں کر سکتے اس لئے انصاف سے بھاگ رہے ہیں ،پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے کیس کے والیم ٹین میں سب تفصیلات بتائی ہیں ، اگر والیم ٹین کھل جائے تو ان کے چہرے سے نقاب الٹ جائیں گے۔ ان کا جلد مواخذہ نہ کیا گیا تو یہ ملک کے حالات خراب کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ماڈل ٹاﺅن کے شہدا کے ورثاءکی جانب سے نئی پٹیشن دائر کی گئی ہے، جس پرچیف جسٹس نے نئی پٹیشن کو منظور کرتے ہوئے بارہ ستمبر کو پنجاب حکومت سے جواب طلب کر لیا ہے،میں پرامیدہوں کہ اعلیٰ عدلیہ باقرنجفی کمیشن رپورٹ پبلک کر کے انصاف یقینی بنائے گی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا ہے کہ اگر شریف خاندان کو انجام تک نہ پہنچایا گیا تو پاکستان کو نقصان ہو سکتا ہے۔ انہوں نے پنجاب کے حکمرانوں سے مطالبہ کیا کہ جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ پبلک ہونے دیں یہ حکمران اور ان کے وزراءننگے ہو جائیں گے۔

بچوں کی قاتل گیم بارے والدین میں تشویش، خبریں آفس میں فون کالز کا تانتا بندھا رہا

لاہور(نادر چوہدری سے )نوجوان نسل کو موت کے منہ میں دھکیلنے والی گیم کی خبر کے بعد والدین میں تشویش کی لہر ، دن بھر “روز نامہ خبریں”کے دفتر شہریوں کی فون کالز کا تانتا بندھا رہا، گیم کے متعلق تفصیلات اور حفاظتی تدابیر دریافت کر تے رہے ، ایف آئی اے سمیت حکومت یا کسی بھی ذمہ دار ادارے کی جانب سے اس حوالے سے کوئی آگاہی نہیں دی گئی ، شہریوں کا اعتراض۔ تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز “روز نامہ خبریں”میں بلو وہیل سو سائٹ گیم کے متعلق شائع ہونے والی خبر کے بعد والدین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور دن بھر شہری “رو ز نامہ خبریں” کے دفتر فون کر کر کے گیم کے متعلق دریافت کرتے رہے ۔ شہریوں کا کہنا تھا کہ جو کام ایف آئی اے حکومت یا متعلقہ اداروں کی جانب سے کیا جانا چاہیئے تھا وہ خبریں نے کرکے ہمارے بچوں کی زندگیوں کو لاحق خطرے بارے آگاہ کیا ہے ۔شہریوں کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیئے تھا کہ وہ اس خطرناک گیم کے متعلق کوئی حفاظتی اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ ہم والدین کو بھی اس گیم کے خطرناک نتائج بارے آگاہی دیتے تاکہ ہم اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھتے ہوئے ان کی زندگیوں کی بھرپور حفاظت کر سکتے لیکن حکومتی سطح پر ہمیں اس قسم کی کسی بھی خطرناک گیم اور اس سے ہونے والے ابتک کے جانی نقصانات بارے کچھ علم نہیں تھا تاہم “روز نامہ خبریں” میں اس گیم کے متعلق پڑھ کر گیم کے متعلق علم ہوا ۔ شہری خبریں آفس میں فون کر کے گیم میں مبتلاءبچوں کی حرکات بارے اور گیم میں مبتلاءہونے والے بچوں کی سٹیجز مکمل نہ ہونے پر درمیان میں ہی گیم ختم کروادینے پر گیم کے ایڈمنسٹریٹرز کی جانب سے اہل خانہ سمیت گیم کے پلیئر کو بھی جانی نقصان پہنچانے کے حوالے سے ہیکرز کی پاکستان میں دسترس اور گیم میں مبتلاءبچوں کو چھڑوانے کی صورت میں نقصانات کے حقائق بارے دریافت کرتے رہے ۔ یادرہے کہ بلو وہیل سو سائٹ گیم ایک جان لیوا گیم ہے جو دماغی طور پر کمزور اور بہت جلد کسی بھی چیلنج کو اپنے دماغ پر سوار کرلینے اور دھمکی آمیز پیغام کی صورت میں انتہائی پریشانی میں مبتلاءہونے اور انتہائی ڈر محسوس کرنے والے کم عمر کے بچوں کو موت میں دھکیلنے کیلئے بنائی گئی ہے جس کو کھیلنے والے 150کم عمر لڑکے اور لڑکیاں لقمہ اجل بن چکے ہیں ۔