Tag Archives: ZSKS

عمران بچ گئے مبارک ،لیکن افسوس کپتان کی ایک بڑی وکٹ گر گئی:ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ جج صاحب قابل انسان ہیں۔ وہ سمجھداری سے فیصلہ کرتے ہیں۔جو بھی فیصلہ کیا قبول کرنا چاہئے۔ انہوں نے عمران خان کو اہل اور جہانگیر ترین کو نااہل قرار دیا۔لوگ کہتے ہیںپاکستان کے موجودہ حالات میں اگر وہ دونوں کو نااہل قرار دے دیتے تو اس وقت تک سڑکوں پر ہنگامے شروع ہو جاتے۔ آج ایک تاریخی دن ہے۔ ہم نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک کو تو جانا پڑے گا۔ تحریک انصاف کے فواد چودھری نے کہا کہ توازن برقرار رکھنے کے لئے انہیں نااہل قرار دیا گیا ہے۔ تاہم فیصلہ درست نہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور بڑا فیصلہ آ گیا کہ شہباز شریف کو کلین چٹ مل گئی ہے ہم تو پہلے ہی کہہ رہے تھے کہ اگر شہباز شریف بھی چلے گئے تو پارٹی کس کے پاس ہو گی بظاہر تو عدالت کا فیصلہ سیاسی فیصلہ نظر آتا ہے۔ لیکن ابھی ماڈل ٹاﺅن کیس کھولنا باقی ہے۔ اسحاق ڈار کے بارے اطلاع آئی ہے کہ وہ لندن میں چہل قدمی کر رہے تھے۔ چلو ہم مان لیتے ہیں۔ وہ بیمار ہوں گے۔ عمران خان کو آج کے فیصلے سے زیادہ خوش نہیں ہونا چاہئے کیونکہ سپریم کورٹ نے آج کے فیصلے کے دوسرے حصے میں گیند اٹھا کر الیکشن کمیشن کی گود میں ڈال دی ہے۔ اور کہا ہے کہ وہ 5 سال تک تحقیقات کر سکتے ہیں۔ لہٰذا عمران خان کو ”آدھی“ کلین چٹ ملی ہے۔ فیصلہ کرنے والے کسی کو کلین چٹ نہیں دیتے۔ شہباز شریف کو یہاں سے کلین چٹ مل گئی ہے۔ وہ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے سلسلے میں جائیں گے۔ پی پی پی والوں کی رسی دراز ہوئی ہے۔ جہانگیر ترین اگرچہ یہاں سے تو آﺅٹ ہو گئے ہیں۔ لیکن اگر تحریک انصاف کامیاب ہوتی ہے تو ان کو حصہ ضرور ملے گا۔ سنیٹرز یا پارلیمنٹرین نہیں بن سکتے۔ لیکن گورنر تو بن سکتے ہیں۔ نادیدہ قوتیں جو پلڑا لئے بیٹھے ہیں وہ ترازو ایک طرف جھکنے نہیں دیتے۔ آج کل حکومت اور میاں صاحبان کے گھر گھل مل گئے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی اصل میں پی آر او بنے ہوئے ہیں۔ ایک خبر یہ عام ہے کہ لندن میٹنگ میں تمام ساتھیوں نے نوازشریف کو پارٹی صدارت چھوڑنے کا مشورہ دیا ہے لیکن انہوں نے اسے مسترد کر دیا۔ (ن) لیگ تو ہے ہی نواز لیگ۔ ان کے بغیر کیسے قائم رہ سکتی ہے۔ میاں شہباز شریف کو ٹیکنیکل بنیادوں پر کلین چٹ ملی ہے۔ عدالت پہلے ہی نیب پر برہم تھی اور کہہ رہی تھی کہ اتنا عرصہ کیوں سوئے رہے۔ اس وجہ سے کیس کو زائد المیعاد قرار دے کر خارج کر دیا گیا ہے۔ یہ شہباز شریف کی پہلی بڑی کامیابی ہے جبکہ شیخ رشید کی پہلی سب سے بڑی ہار ہے۔ ماڈل ٹاﺅن شہباز شریف کیلئے ایک تھریٹ ہے۔ ہاں اگر وہ کسی طرح اس سے نکل پائے تو بالکل کلین ہو جائیں گے۔ پرویز رشید سے استعفیٰ لیا گیا تب بھی وہ ایک وزیر کی طرح ہی تمام سہولیات لے رہے تھے۔ اسی طرح رانا ثناءاللہ بھی استعفیٰ دے دیں اور ماڈل ٹاﺅن دفتر میں ایک کمرہ لے لیں اور کام کرتے رہیں۔ اسی طرح اقتدار، استعفیٰ کے بعد بھی ان ہی کے پاس رہے گا۔ رانا صاحب 187/H میں چیف ایڈوائزر ن کر بیٹھ جائیں۔ ان کے پاس سکیورٹی بھی رہے گی۔ اَنا کا مسئلہ نہ بنائیں۔میں نے اندازے کی بنیاد پر پیشنگوئی کی تھی کہ عدالت عمران خان کو چھوڑ دے گی اور جہانگیر ترین نااہل ہوں گے۔ حالات اور واقعات کے انسان آسانی سے اندازہ لگا سکتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔ تحریک انصاف کے نعیم الحق نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن بہت عرصے سے ہمارے اثاثے کی چھان بین کر رہا ہے۔ 2009ءسے 2017ءتک تمام اثاثوں کی تفاصیل جو 800 صفحوں پر مشتمل ہے انہیں دے دی ہے۔ ان کے دیگر سوالوں کے جواب بھی دے دیئے ہیں۔ قانون کے تحت باہر سے آیا ہوا غیر قانونی پیسہ عدالت ضبط کر لیتی ہے۔ اس کے علاوہ فارن فنڈنگ کی کوئی اور سزا موجود ہی نہیں۔ عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید نے کہا ہے کہ حدیبیہ کیس پر ان کی ملی بھگت ہے۔ یہ ایک قسم کا ”کو“ ہے آپس میں میٹنگ ہو رہی ہے۔ انہوں نے خاور شاہ کو نوٹیفکیشن ہونے نہیں دی۔ میں اس کے خلاف ریویو میں جاﺅں گا۔

کون اہل ،کون نا اہل ،عمران خان ،جہانگیر ترین نا اہلی کیس بارے معروف تجزیہ کا ر،کہنہ مشق صحافی ضیا شاہد کا چینل ۵ کے پروگرام میں دبنگ انکشاف

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار نے کہا ہے کہ ایاز صادق صاحب کو اسمبلیاں جاتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں جبکہ قوم کو تو پورا سسٹم ہی جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ ایاز صادق تو آخری شخص ہونے چاہئے تھے جو یہ کہنا کہ اسمبلیاں مدت پوری کرتی دکھائی نہیں دیتی۔ ضرور انہیں میڈیکل چیک اپ کی ضرورت ہے۔ مخالفین تو ایسا کہہ سکتے ہیں لیکن شاید یہ واحد حکومت ہو جو خود ایسا کہہ رہی ہے وزیراعظم میں اگر ہمت ہو تو سب سے پہلے اس اسپیکر کو ہٹائیں یہ تو پانچ منٹ کا کام ہے۔ عدم اعتماد لائی جا سکتی ہے اور آئینی طریقے سے دوسرا اسپیکر لایا جا سکتا ہے۔ اب اخبارات میں بھی بحث شروع ہو گئی ہے ایک خبر یہ عام ہو گئی ہے کہ نگران حکومت لمبے عرصے کے لئے قائم کی جائے۔ دوسری افواہ یہ ہے کہ جمہوری سسٹم کا اَخیر ہو چکا۔ اسمبلی تحلیل کرنے کے دو طریقے ہوتے ہیں ایک تو وزیراعظم اسمبلی توڑ سکتا ہے دوسرے فوج گھر بھیج سکتی ہے۔ سب سے زیادہ شاہد خاقان عباسی کی پوزیشن خراب ہوئی ہے۔ وہ لندن بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے اسپیکر نے یہاں یہ اعلان کر دیا ہے کہ اسمبلیاں جلتی دکھائی نہیں دیتیں۔ ملک میں بادشاہت ہے۔ شہباز شریف کا او آئی سی میں جانے کا مقصد بنتا ہے مسلم لیگ (ن) کی ساری قیادت لندن میں جمع ہے۔ سابق وزیراعظم موجودہ وزیراعظم میاں شہباز شریف، خواجہ آصف اور دیگر اہم قیادت وہاں موجود ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے اگر تحریک انصاف کے عمران خان یا جہانگیر ترین کی نااہلی کا بھی فیصلہ آیا تو پاکستان میں ایک بڑا سیاسی بھونچال آ جائے گا۔ اندازہ یہ ہے کہ ان دونوں میں سے ایک نااہل ہو جائے گا۔ تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ اسپیکر صاحب کو ایسا بیان نہیں دینا چاہئے تھا۔ اس سے شکوک شبہات بڑھ گئے ہیں تحریک انصاف کو پہلے سے کہہ رہی ہے کہ حکومت کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ جو فیصلے شاہد خاقان نے کرنے ہوتے ہیں وہ نوازشریف کرتے ہیں تمام وزرائ خواجہ آصف کو رپورٹ کرتے ہیں۔ میاں شہباز شریف او آئی سی کانفرنس میں شریک ہو کر انہوں نے لندن جانا تھا۔ لندن میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت جمع ہوئی ہے لگتا ہے کوئی اہم فیصلہ کرنے جا رہے ہیں تمام قیادت وہاں سر جوڑ کر بیٹھ گئی ہے۔ پی پی پی کے اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ میاں نوازشریف اور شہباز شریف بھائی ہونے کے ساتھ ساتھ کاروباری پارٹنر بھی ہیں، اس مقصد کے تحت شہباز شریف چین کے ہر دورے پر موجود تھے۔ اب شاہد خاقان عباسی انہیں لے کر ترکی سے لندن پہنچے ہیں۔ اگر یہ کوئی آفیشل معاملہ ہوتا تو باقی وزرائے اعلیٰ بھی ان کے ساتھ ہوتے۔ شہباز شریف کا مقصد لندن جانا تھا۔ ترکی میں تو واجبی سی تقریر کرنے کے بعد وہ لندن روانہ ہو گئے۔ ویڈیو سے ظاہر ہے کہ شاہد خاقان سے زیادہ شہباز شریف کی اہمیت ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی، اسمبلی تحلیل نہیں کر سکتا یہ استحقاق صرف وزیراعظم کا ہے شاید ایاز صادق نے ”ڈیلی بریٹلی“ ایسا بیان دے دیا ہے۔ اسمبلیاں کہیں نہیں جا رہی۔ یہ اپنی مدت پوری کریں گی۔ وہ حکومت جس کے انڈر میں سارے ادارے ہیں۔ چاروں صوبوں میں اور آزاد کشمیر میں بھی ان کی حکومت ہے۔ یہ تو خود ہی حکومت اور خود ہی اپوزیشن کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان کے خلاف کون سازش کر سکتا ہے۔ اسمبلیوں کا جانا ان کے اپنے مفاد میں بھی نہیں۔ شاید وہ خود کو مظلوم ثابت کرنا چاہتے ہیں یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ پانامہ اور اقامہ کے بہانے ہمارے ساتھ کیا کیا جا رہا ہے۔ اقامہ تو پانامہ سے زیادہ اہم ہے۔ ہمارا وزیراعظم کسی اور ملک کا ملازم ہو۔ ایسا کہیں نہیں ہوتا کہ وفاداری کا حلف یہاں لیا ہوا ہو اور ملازمت کسی اور کی کررہا ہو۔ اسحاق ڈار کی جانب سے غلط اور جھوٹا میڈیکل سرٹیفکیٹ داخل کیا گیا ہے۔ سیاست میں قانون سے آگے بڑھ کر اخلاقیات بھی ہوتی ہیں۔ قوم کے ساتھ جھوٹ پر جھوٹ بولنا مناسب نہیں ہے۔ نمائندہ لندن، وجاہت علی خان نے کہا ہے کہ اس وقت لندن میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت سر جوڑے بیٹھی ہے۔ یہاں یہ پیشنگوئی کی جا رہی ہے۔ اسمبلی توڑنے کا فیصلہ کیا جا رہا ہے اور یہ چاہتے ہیں کہ ہم خود ہی الیکشن کی تاریخ دے دیں۔ میاں نوازشریف نے اس تجویزکو رد کر دیا ہے۔ ہمارے سوال پر میاں نوازشریف نے ایاز صادق کے بیان پر نہ ہاں کی نہ ناں کی۔ میاں صاحب تو ٹال مٹول کر کے چلے گئے۔ لیکن شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اسمبلیاں ہر صورت جولائی میں تحلیل کی جائیں گی۔ ایاز صادق کے بارے انہوں نے کہا ہے کہ ”انہوں نے خدشے کا اظہار کیا ہے“ اسحق ڈار کو سنا ہے کہ علاج کے لئے امریکہ بھیجا جا رہا ہے۔ جتنے لوگ پاکستان سے یہاں علاج کے لئے آتے ہیں آج تک ہم میں سے کسی نے ان کو ڈاکٹر کے پاس نہیں دیکھا۔ صرف بیانات دے دیئے جاتے ہیں کہ علاج ہو رہا ہے۔ یہ لوگ عام ہسپتال میں نہیں جاتے۔ پرائیویٹ ہسپتال میں چیلنگ بہت زیادہ ہوتی ہے۔ گنگا رام اور میوہسپتال جیسا ماحول نہیں ہوتا۔ یہاں تو چڑیا بھی پَر نہیں مار سکتی اور کوئی دوست بھی آ کر اندر سے نہیں بتاتا کہ ہو گیا رہا ہے۔ ہم نے اسحاق ڈار کو نوازشریف کے بیٹے کے ساتھ جاتے ہوئے دیکھا وہ بیمار نہیں دکھائی دے رہے تھے۔

سپیکر کو اسمبلیاں ،قوم کو پورا سسٹم ہی جاتا دکھائی دے رہا ہے :ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار نے کہا ہے کہ ایاز صادق صاحب کو اسمبلیاں جاتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں جبکہ قوم کو تو پورا سسٹم ہی جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ ایاز صادق تو آخری شخص ہونے چاہئے تھے جو یہ کہنا کہ اسمبلیاں مدت پوری کرتی دکھائی نہیں دیتی۔ ضرور انہیں میڈیکل چیک اپ کی ضرورت ہے۔ مخالفین تو ایسا کہہ سکتے ہیں لیکن شاید یہ واحد حکومت ہو جو خود ایسا کہہ رہی ہے وزیراعظم میں اگر ہمت ہو تو سب سے پہلے اس اسپیکر کو ہٹائیں یہ تو پانچ منٹ کا کام ہے۔ عدم اعتماد لائی جا سکتی ہے اور آئینی طریقے سے دوسرا اسپیکر لایا جا سکتا ہے۔ اب اخبارات میں بھی بحث شروع ہو گئی ہے ایک خبر یہ عام ہو گئی ہے کہ نگران حکومت لمبے عرصے کے لئے قائم کی جائے۔ دوسری افواہ یہ ہے کہ جمہوری سسٹم کا اَخیر ہو چکا۔ اسمبلی تحلیل کرنے کے دو طریقے ہوتے ہیں ایک تو وزیراعظم اسمبلی توڑ سکتا ہے دوسرے فوج گھر بھیج سکتی ہے۔ سب سے زیادہ شاہد خاقان عباسی کی پوزیشن خراب ہوئی ہے۔ وہ لندن بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے اسپیکر نے یہاں یہ اعلان کر دیا ہے کہ اسمبلیاں جلتی دکھائی نہیں دیتیں۔ ملک میں بادشاہت ہے۔ شہباز شریف کا او آئی سی میں جانے کا مقصد بنتا ہے مسلم لیگ (ن) کی ساری قیادت لندن میں جمع ہے۔ سابق وزیراعظم موجودہ وزیراعظم میاں شہباز شریف، خواجہ آصف اور دیگر اہم قیادت وہاں موجود ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے اگر تحریک انصاف کے عمران خان یا جہانگیر ترین کی نااہلی کا بھی فیصلہ آیا تو پاکستان میں ایک بڑا سیاسی بھونچال آ جائے گا۔ اندازہ یہ ہے کہ ان دونوں میں سے ایک نااہل ہو جائے گا۔ تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ اسپیکر صاحب کو ایسا بیان نہیں دینا چاہئے تھا۔ اس سے شکوک شبہات بڑھ گئے ہیں تحریک انصاف کو پہلے سے کہہ رہی ہے کہ حکومت کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ جو فیصلے شاہد خاقان نے کرنے ہوتے ہیں وہ نوازشریف کرتے ہیں تمام وزراءخواجہ آصف کو رپورٹ کرتے ہیں۔ میاں شہباز شریف او آئی سی کانفرنس میں شریک ہو کر انہوں نے لندن جانا تھا۔ لندن میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت جمع ہوئی ہے لگتا ہے کوئی اہم فیصلہ کرنے جا رہے ہیں تمام قیادت وہاں سر جوڑ کر بیٹھ گئی ہے۔ پی پی پی کے اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ میاں نوازشریف اور شہباز شریف بھائی ہونے کے ساتھ ساتھ کاروباری پارٹنر بھی ہیں، اس مقصد کے تحت شہباز شریف چین کے ہر دورے پر موجود تھے۔ اب شاہد خاقان عباسی انہیں لے کر ترکی سے لندن پہنچے ہیں۔ اگر یہ کوئی آفیشل معاملہ ہوتا تو باقی وزرائے اعلیٰ بھی ان کے ساتھ ہوتے۔ شہباز شریف کا مقصد لندن جانا تھا۔ ترکی میں تو واجبی سی تقریر کرنے کے بعد وہ لندن روانہ ہو گئے۔ ویڈیو سے ظاہر ہے کہ شاہد خاقان سے زیادہ شہباز شریف کی اہمیت ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی، اسمبلی تحلیل نہیں کر سکتا یہ استحقاق صرف وزیراعظم کا ہے شاید ایاز صادق نے ”ڈیلی بریٹلی“ ایسا بیان دے دیا ہے۔ اسمبلیاں کہیں نہیں جا رہی۔ یہ اپنی مدت پوری کریں گی۔ وہ حکومت جس کے انڈر میں سارے ادارے ہیں۔ چاروں صوبوں میں اور آزاد کشمیر میں بھی ان کی حکومت ہے۔ یہ تو خود ہی حکومت اور خود ہی اپوزیشن کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان کے خلاف کون سازش کر سکتا ہے۔ اسمبلیوں کا جانا ان کے اپنے مفاد میں بھی نہیں۔ شاید وہ خود کو مظلوم ثابت کرنا چاہتے ہیں یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ پانامہ اور اقامہ کے بہانے ہمارے ساتھ کیا کیا جا رہا ہے۔ اقامہ تو پانامہ سے زیادہ اہم ہے۔ ہمارا وزیراعظم کسی اور ملک کا ملازم ہو۔ ایسا کہیں نہیں ہوتا کہ وفاداری کا حلف یہاں لیا ہوا ہو اور ملازمت کسی اور کی کررہا ہو۔ اسحاق ڈار کی جانب سے غلط اور جھوٹا میڈیکل سرٹیفکیٹ داخل کیا گیا ہے۔ سیاست میں قانون سے آگے بڑھ کر اخلاقیات بھی ہوتی ہیں۔ قوم کے ساتھ جھوٹ پر جھوٹ بولنا مناسب نہیں ہے۔ نمائندہ لندن، وجاہت علی خان نے کہا ہے کہ اس وقت لندن میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت سر جوڑے بیٹھی ہے۔ یہاں یہ پیشنگوئی کی جا رہی ہے۔ اسمبلی توڑنے کا فیصلہ کیا جا رہا ہے اور یہ چاہتے ہیں کہ ہم خود ہی الیکشن کی تاریخ دے دیں۔ میاں نوازشریف نے اس تجویزکو رد کر دیا ہے۔ ہمارے سوال پر میاں نوازشریف نے ایاز صادق کے بیان پر نہ ہاں کی نہ ناں کی۔ میاں صاحب تو ٹال مٹول کر کے چلے گئے۔ لیکن شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اسمبلیاں ہر صورت جولائی میں تحلیل کی جائیں گی۔ ایاز صادق کے بارے انہوں نے کہا ہے کہ ”انہوں نے خدشے کا اظہار کیا ہے“ اسحق ڈار کو سنا ہے کہ علاج کے لئے امریکہ بھیجا جا رہا ہے۔ جتنے لوگ پاکستان سے یہاں علاج کے لئے آتے ہیں آج تک ہم میں سے کسی نے ان کو ڈاکٹر کے پاس نہیں دیکھا۔ صرف بیانات دے دیئے جاتے ہیں کہ علاج ہو رہا ہے۔ یہ لوگ عام ہسپتال میں نہیں جاتے۔ پرائیویٹ ہسپتال میں چیلنگ بہت زیادہ ہوتی ہے۔ گنگا رام اور میوہسپتال جیسا ماحول نہیں ہوتا۔ یہاں تو چڑیا بھی پَر نہیں مار سکتی اور کوئی دوست بھی آ کر اندر سے نہیں بتاتا کہ ہو گیا رہا ہے۔ ہم نے اسحاق ڈار کو نوازشریف کے بیٹے کے ساتھ جاتے ہوئے دیکھا وہ بیمار نہیں دکھائی دے رہے تھے۔

شاہد خاقان نے فلسطین کے ساتھ کشمیر کا مسئلہ اٹھایا ،مبارکباد:ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ یہ خوش آئند ہے کہ وزیراعظم پاکستان نے بیت المقدس اور کشمیر پر بہت کھل کر بات کی ہے سابق وزیراعظم نے غالباً امریکہ کے پریشر پر اپنے دورے میں کشمیر کا ذکر تک نہیں کیا تھا۔ شاہد خاقان عباسی نے کھل کر او آئی سی پر زور دیا کہ مقبوصہ کشمیر کے مظلوم کشمیریوں کا مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ ملا کر ذکر کیا ہے۔ ہم اس پر انہیں مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ جرا¿ت مندانہ انداز میں مظلوم مسلمانوں بالخصوص کشمیری اور فلسطینیو ںکے حق میں آواز اٹھائی۔ مظلوموں کے حق میں آواز اٹھانے کے لئے فوج کا کچھ کردار تو بنتا ہے لیکن آج کی فوج پرانے زمانے کی مسلح فوج نہیں ہے جو کسی بھی جگہ پر جہاد کے لئے نکل پڑتے تھے جب سے دنیا میں اسٹیٹ کرافٹ کا دور آیا ہے اس کے تحت ریاست میں ایک حکومت ہوتی ہے۔ جو اس قسم کے مشترکہ فیصلے کرتی ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ ”کنٹروورسی“ کشمیر پر 1948ءمیں شروع ہوئی۔ جسے مذہبی نوعیت کی کہہ سکتے ہیں۔ گلگت بلتستان ہم نے آزاد کروا لیا تھا۔ اس پر مسلمانوں نے قبضہ کر لیا تھا۔ جبکہ کشمیر میں نان ریگولر آرمی نے آزادی کا اعلان کیا تھا۔ اپنے طور پر جہادی نکلے تھے۔ ہندوستان سے علیحدگی کے وقت یہاں انگریز فوج تھی۔ اس وقت انگریز آرمی نے معذرت کر لی تھی کہ ہم ہندوستان کی آرمی کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔صوبہ سرحد کے مجاہدین شمالی علاقوں اور پنجاب کے شمالی حصے کے کچھ لوگ وہاں داخل ہو گئے تھے۔ مقبوضہ کشمیر میں۔ اس وقت مولانا مودودی کا فتویٰ آیا تھا کہ جب تک حکومت اعلان نہ کرے ہم اسے جہاد نہیں کہہ سکتے، فوج ایک منظم ادارہ ہے۔ جو وزارت دفاع کے تحت کام کرتی ہے۔ لہٰذا ہمارے فوجی حکومت کی مرضی کے بغیر خود سے جہاد کےلئے نہیں نکل سکتے۔ اسلامی اتحادی فوج کی ابھی باقاعدہ شکل نہیں بنی۔ اس میں تمام مسلم ممالک سے ہتھیاروں سمیت فوجی دستوںکو اس میں شامل کیا جاتا تھا۔ اس کی باقاعدہ میٹنگ پچھلے ماہ ہونی تھی۔وہ ابھی تک نہیں ہوئی۔ ملک میں اگر دھرنوں کی صورت ”پولرائزیشن“ اگر بڑھتی جاتی ہے تو ہمیںبہت نقصان ہوگا۔ ڈالر جس طرح سے مہنگا ہو رہا ہے۔ اس سے 130اشیاءبہت مہنگی ہو جائیں گی۔ اگلے بجٹ کےلئے ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں اس کےلئے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ اسی طرح چین سے قرضہ لیا جارہا ہے۔ مہنگائی کے ہاتھوں لوگوں کا کچومر نکلتا جا رہا ہے۔ اکنامی صورتحال کے پیش نظر ہم معاشی خود کشی کی طرف جا رہے ہیں۔ دھرنے کے دو فریق تھے۔ ایک ڈاکٹر طاہرالقادری، ان کے لوگ شہید ہوئے۔ بقول ان کے انہیں انصاف نہیں مل سکا۔ دوسرے فریق وزیرقانون پنجاب رانا ثناءاللہ تھے۔ ماڈل ٹاﺅن سانحہ پر وہ قبول کر چکے ہیںکہ رکاوٹیں ہٹانے کا فیصلہ ان کا تھا لیکن وہ کہتے ہیں کہ مار دھاڑ کا انہوں نے حکم نہیںدیا تھا۔ رانا صاحب استعفیٰ پر ڈٹے ہوئے ہیں ہم نہیںچاہتے کہ محاذ آرائی بڑھتی جائے۔ بات پھر دھرنوں، گلیوں اور سڑکوں پر آ جائیگی۔ یہ معاملات عدالتوں تک محدود رہیں تو اچھا ہے۔
کج شہر دے لوک وی ظالم سن
کج سانوں مرن دا شوق وی سی
لگتا ہے سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے دونوں فریق یہی چاہتے ہیںکہ ان کے ساتھ ایک باری ہاتھ ہو ہی جائے۔
فاٹا جو کہ وفاق کے کنٹرول والا علاقہ کہلاتا ہے۔ یہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان میں واقع ہے۔ یہ علاقے کسی صوبے کا حصہ بھی نہیں ہے۔ لہٰدا وہاں ایم پی اے کوئی نہیں ہوتا لیکن سنیٹرز اور ایم این ایز ہوتے ہیں۔ سنیٹرز ملکی قانون کے مطابق ووٹ بینک وہاں کے ایم این ایز ہوتے ہیں۔ یہ ایک اسٹاپ گیپ بندوبست ہے جو گزشتہ (10) سالوں سے چل رہا ہے۔ وہاں کے قانون کو سب ”کالا قانون“ کہتے تھے۔ کیونکہ وہاں عوام کو بنیادی حقوق حاصل نہ تھے۔ وہاں صوبوں کی مانند پولیس اور عدالتیں موجود نہیں تھیں۔ لوگوں کا مطالبہ تھا کہ انہیں بنیادی حقوق دیئے جائیں۔ اب جھگرا یہ ہے کہ کچھ جماعتیں جسے تحریک انصاف جس کی حکومت وہاں موجود ہے کے پی کے کی آبادی تقریباً ساڑھے تین کروڑ ہے جبکہ فاٹا کی آبادی (50) لاکھ تک ہے۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی اسے کے پی کے میں ضم کروانا چاہتے ہیں تا کہ صوبے کا درجہ مل جائے جبکہ مولانا فضل الرحمن اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ فاٹا کو اگر الگ صوبہ بناتے ہیں تو پھر ظاہر ہے آرٹیکل (ون) کے تحت تبدیل کرنا پڑے گی۔ یہ ایک آئینی ترمیم ہو گی جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کے پی کے میں ضم کرنے کے لئے آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔ رائے معلوم کرنے کا بہترین طریقہ ریفرنڈم ہے۔ پچاس لاکھ کی آبادی کا الگ صوبہ بنتا نہیں۔ وکلاءقانون کے محافظ ہوتے ہیں۔ قانون ان کی جیب میں ہوتا ہے۔ وہ جب چاہیں ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔وہ تگڑے ہیں۔ کوئی ان سے ٹکر نہیں لے سکتا، ملتان میں جو کچھ ہوا وہ درست نہیں ہے۔ سابق وزیرخارجہ، خورشید محمود قصوری نے کہا ہے کہ او آئی سی کی میٹنگ ایک خوش آئند عمل ہے۔ بدقسمتی سے یہ ادارہ تنازع کا شکار ہے بالخصوص سعودی عرب اور ایران کے آپس کے تنازعات کی وجہ سے مسلم امہ جس کردار کی اس سے توقع کر رہی تھی۔ وہ ادا نہیں کیا۔ بڑے اسلامی ممالک نے اس میں دلچسپی نہیں لی۔ پاکستان اور ترکی کی پوزیشن ذرا مختلف ہے۔ ہمارے اندر کے مسائل بہت الجھے ہوئے ہیں جس کی بناءپر ہماری حکومت وہ موقف نہیں اپنا رہی جو اسے اپنانا چاہئے۔ ہمارے دور میں ہم نے یورپی یونین کو ساتھ ملا لیا تھا، اس طرح ترکی نے سپین کے ساتھ مل کر ڈائیلاگ شروع کئے۔ ترکی کے مسائل ایسے نہیں جیسے ہمارے ہیں اس لئے اسلامی دنیا کے اتحاد کے لئے ترکی جو رول ادا کر سکتا ہے وہ ہم نہیں کر سکتے۔ مسلم لیگ (ن) کے زعیم قادری نے کہا ہے کہ محترم ضیا شاہد صاحب پورا پاکستان آپ کی محب الوطنی کا شاہد ہے اور یقینا تاریخ میں بھی آپ کے کردار کو یاد رکھا جائے گا۔ لوگ آپ کو جانتے ہیں کہ آپ اپنے اخبار اور جریدوں کے ذریعے پاکستانیت کی حمایت کرتے ہیں موجودہ سیاسی تناظر میں ”میکرو اکنامک اینڈی کنٹینرز“ کو اگر دیکھا جائے جو کہ کسی بھی ملک کے لئے روح کی غذا سمجھی جاتی ہے اس میں سیاسی عنصر کی مضبوطی سب سے اہم ہے۔ آپ کی کاوش پر لوگ معترف بھی ہیں اور شکر گزار بھی۔ ہم عدالتوں کے رخ کو اور ”کورس آف لائ“ کو کبھی بھی ”ڈائیورٹ“ نہیں کر رہے۔ ہم اس پر کلیئر ہیں ہم نے نا چاہتے ہوئے بھی عدالتوں کے فیصلوں کو من و عن تسلیم کیا۔ عدالت سے ہارڈ کاپی ملنے سے قبل ہی میاں نوازشریف استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے۔ سانحہ ماڈل ٹاﺅن پر ہم رپورٹ کو روک سکتے تھے۔ اوراسے لے کر سپریم کورٹ جا سکتے تھے۔ اس سے ہائیکورٹ کا فیصلہ رک جاتا۔ پھر اس میں 30 دن لگتے یا 30 سال اس میں ہماری ذمہ داری نہ تھی۔ لیکن اگر اب یہ رپورٹ چیلنج کی جاتی ہے تو ہم اس کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ طاہر القادری نے کہا کہ میں اسے ”ڈلے“ کرواﺅں گا تا کہ آنے والی حکومت ہمارے حق میں فیصلہ دے دے۔ ہم نے اس فیصلے کو ”کنکلوسوو“ بنانے کے لئے انتہائی ماہر جج صاحب کو متعین کر دیا کہ آپ بتائیں اسے کس طرح کارآمد بنایا جا سکتا ہے۔ طاہر القادری جسٹس نجفی کے سامنے پیش ہی نہیں ہوئے بلکہ وہ اس کے خلاف کورٹ میں چلے گئے۔ لہٰذا جواب الجواب میں ہمیں خود ہی جواب دینا پڑا۔ کیونکہ مدعی موجود ہی نہ تھا۔ جے یو آئی (ف) حافظ حمد اللہ نے کہا ہے کہ فاٹا کے پس منظر پر آپ کی نظر تو ہے ہی۔ 70 سال سے یہاں کالے قانون کا راج ہے اس کالے قانون کو ختم کرنے کے لئے فاٹا اصلاحات کے نام سے ایک جدوجہد جمہوری حکومت نے شروع کی ہے۔ اس کی تین صورتیں تھیں ایک یہ کہ ایف سی آر برقرار رہے۔ یا فاٹا، کے پی کے میں ضم ہو جائے۔تیسری صورت اس کو علیحدہ حیثیت دیتا ہے فاٹا کے عوام کیا چاہتے ہیں یہ کسی نے نہیں پوچھا۔ جے یو آئی (ف) نہیں چاہتی کہ ایف سی آر مسلط رہے۔ علیحدہ صوبے کو بھی عوام پر مسلط کرنا درست نہیں۔ البتہ ہم چاہتے ہیں۔ اتنے بڑے فیصلے سے قبل عوام سے ضرور رائے لی جانی چاہئے۔ فاٹا کے عوام کی رائے ایک نہیں ہے۔ پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کی بھی رائے اس پر ایک نہیں ہے۔ اس صورت میں انضمام کا فیصلہ درست نہیں۔ فاٹا پر فیصلہ مسلط کیا گیا تو انتشار بڑے گا اتفاق رائے سے فیصلہ کیا جائے گا تو امن قائم رہے گا ہم اپنی رائے کسی پر بھی مسلط نہیں کرنا چاہتے۔

بجلی کے بل میں 35روپے جبری فیس کیوں،ہر گھر میں ٹیلی ویژن ہے نہ ہر کوئی پی ٹی وی دیکھتا ہے:ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگوکرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ سی پی این ای کے پروگرام میٹ دی ایڈیٹر میں وفاقی وزیر بجلی و پانی اویس لغاری کو ہم نے آواری ہوٹل میں بلایا تھا۔ اویس لغاری صاحب مشرف دور میں آئی ٹی کے وزیر تھے۔ انہوں نے آئی ٹی میں مہارت رکھنے کے سبب تمام تر بجلی کا سسٹم آئی ٹی پر منتقل کر دیا ہے۔ سیاسی بحث سے قطع نظر انہوں نے یہ اچھا اقدام کیا ہے۔ ایڈیٹرز نے پہلا سوال ان کے سامنے یہ رکھا تھا کہ بل ادائیگی کی تاریخ انتہائی مختصر ہوتی ہے۔ ایک یا دو دن۔ اس دوران کوئی شخص اگر اووربلنگ درست کروانا چاہتا ہے تو وہ نہیں کروا سکتا۔ ہم نے انہیں مور دیا کہ آپ ایگزیکٹو آرڈر دیں اور بلوں کی فراہمی میں دس روز پہلے بھیجنے کا حکم جاری کریں۔ اس میں دو قسم کی بدمعاشیاں ہیں پہلی یہ کہ وقت کی کمی کی وجہ سے اوور بلنگ ٹھیک نہ کروائی جا سکے اور دورے کنزیومر فوری ادائیگی نہ کرنے کے سبب جرمانہ دینے پر مجبور ہو جائے۔ ہم نے اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کروایا کہ بل کی مکمل معلومات آپ کے موبائل پر بھیجی جائیں گی جس میں ریڈنگ، اس کی تاریخ اور رقم تمام معلومات درج ہوں گی۔ وزیر موصوف نے فرمایا کہ پولیس سے بھی زیادہ شکایات بجلی کے بلوں کے حوالے سے کی جاتی ہیں۔ قانون یہ منظور ہو گیا ہے کہ اووربلنگ ثابت ہونے پر ایکسین کو نہ صرف فارغ کر دیا جائے گا بلکہ 3 سال کے لئے اسے قید بھی کر دیا جائے گا۔ اس مسئلہ کے حل کے لئے ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے گی۔ محکمہ ہذا کی شکایت اب محکمے سے ہٹ کر ریگولیٹری اتھارٹی کرے گی۔ میں نے پی ٹی وی کی فیس جو ہر بل پر ڈالتی ہے جس کی رقم 99 کروڑ روپے سالانہ اکٹھی کی جاتی ہے۔ میٹر جھونپڑی پر ہو یا مسجد میں یا مدرسے میں ہو ہر بل میں یہ فیس شامل کی جاتی ہے۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ کابینہ میں اس معاملے کو اٹھاﺅں گا اور جبری وصولی کوضرور رکواﺅں گا۔ نیلم جہلم پروجیکٹ پر ایک عرصہ سے ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔ وہ جب بنے بنے گا عوام پر بوجھ کیوں؟ ہمارا سسٹم اتنا پرانا ہے کہ یہ مقررہ بوجھ اٹھا ہی نہیں سکتا۔ دوسرے ملکوں میں بارش، آندھی، اوس، برف باری کہیں گنا زیادہ ہوتی ہے وہاں بجلی نہیں جاتی۔ یہاں بارش کے پہلے قطرے کے ساتھی ہی بجلی بند ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے مجھے بتایا کہ وزیرقانون پنجاب نے باہر تو سکیورٹی گارڈ رکھے ہوتتے ہیں اب انہوں نے گھر کے اندر پرائیویٹ سکیورٹی گارڈ بھی تعینات کر لئے ہیں۔ کیونکہ انہیں سلیمان تاثیر کی یاد دلا دلا کر ڈرایا گیا ہے۔ وہ صبح میرے پاس آئے تھے اور دوپہر تک ساتھ ہی رہے۔ انہوں نے کہا اصل خبر یہ ہے کہ سکیورٹی کمپنی جس سے گارڈ لئے گئے ہیں۔ اسے اسپیشل کہا گیا ہے کہ میرے لئے غیر مسلم گارڈز بھیجے جائیں۔عوامی تحریک کے خرم نواز گنڈا پور نے کہا ہے کہ تحریک جدوجہد دو محاذوں پر جاری ہے۔ 80/C میں استغاثہ دیا ہوا ہے۔ جس میں فرد جرم عائد ہوئی ہے ان پولیس افسران پر جو سانحہ کے وقت موجود تھے جو تقریباً 125 ہیں۔ آج نہ ہو سکی اس پر پرسوں کی تاریخ ہے۔ نجفی رپورٹ کی کاپی جو ہمیں موصول ہوئی ہے وہ پنجاب حکومت سے تصدیق شدہ ہے۔ اس پر درج ہے کہ افسران نے معنی خیز خاموشی اختیار کئے رکھی ہے ہمیں رپورٹ کی صحت پر یقین نہیں ہے۔ عدالت یہ رپورٹ شائع کرے ہمیں سرکاری افسروں پر اعتبار نہیں ہے۔ ہائیکورٹ میں ایک رٹ درج کروا رکھی ہے ان بارہ افراد کی طلبی کے لئے جو سیاست دان ہیں۔ اس طرح نجفی رپورٹ کو کارروائی کا حصہ بنانے کیلئے سپریم کورٹ میں بھی درخواست پڑی ہوئی ہے۔ زخمیوں کو کسی جے آئی ٹی نے طلب ہی نہیں کیا۔ سیکرٹری نے وزیراعلیٰ پنجاب کے ”بی ہاف“ پر آرڈر دیا تو قصور وار کون بنا؟ شواہد کی بنا پر نئی شفاف تحقیقات کی درخواست بھی جمع کروائیں گے۔ جمعرات کو ایک ہزار وکلاءکو پورے ملک سے مدعو کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ بار اور چاروں صوبوں کی بار قونصل کے 100 ارکان آئیں گے۔ اور 1000 وکلاءکھڑے ہو کر رانا ثناءکے بیان کو چیلنج کریں گے۔ اسی طرح تاجر اور دیگر افراد کو جمع کیا جا رہا ہے۔ پولیٹیکل پریشر ڈالنے کیلئے اپوزیشن ارکان سے مشورے ہو رہے ہیں۔ پبلک پریشر کا بہت اثر ہوتا ہے۔ ابھی زاہد حامد نے اسی پریشر کے تحت استعفیٰ دیا ہے۔
ضیا شاہد کے ساتھ پروگرام میںفون کال کے ذریعے ناظرین نے کہا ہے کہ خبریں اور چینل ۵ نے بھارتی آبی جارحیت جیسے قومی مسئلے کو عوامی اُمنگوں کے مطابق اجاگر کیا اور اب بجلی کا معاملہ اٹھا کر ایک اور مستحسن اقدام کیا ہے۔
ظہیرہ بی بی نے لاہور سے اپنی گفتگو میں کہا جس کی تنخواہ دس ہزار ہے وہ 5 ہزار بجلی کا بل کس طرح دے سکتا ہے۔ نیلم جہلم ٹیکس، پی ٹی وی فیس کے علاوہ اوور بلنگ بھی ہوتی ہے۔
عمر/اسلام آباد: بجلی جیسے اہم موضوع کو اٹھانے پر ضیا شاہد صاحب کے مشکور ہیں۔ بجلی کے بل اوور آ رہے ہیں اور مقررہ وقت سے ایک دن قبل ہی آتے ہیں حکومت اضافی چارجز لے کر غریبوں کا خون نچوڑ رہی ہے۔
غلام حسین/ فیصل آباد: بجلی کے بلوں کی ریڈنگ کچھ اور ہوتی ہے اور بلوں میں زیادہ لکھ دی جاتی ہے ناجائز ٹیکس ڈالے جا رہے ہیں۔
طاہر/بہاولپور: محکمہ نے جان بوجھ کر تیز رفتار میٹر لگا رکھے ہیں۔ بجلی بند رکھنے کے باوجود یہ میٹرز چلتے رہتے ہیں۔ ہزاروں میں بل آ رہے ہیں۔
پرویز/نصیر آباد: میں کرایہ دار ہوں۔ ہر ماہ بجلی کا بل 6 سے 10 ہزار اا رہا ہے اتنا تو ہمارا استعمال ہی نہیں ہے۔
محمد افضل/لاہور: ایڈن ہومز سوسائٹی میں بجلی والے ایک دن پہلے بل دیتے ہیں اور نیلم جہلم پروجیکٹ کب کا مکمل ہو چکا ہے اب بھی اس پر ٹیکس وصول کر رہے ہیں پی ٹی وی کوئی دیکھتا تک نہیں 35 روپے پر بل بھی شامل ہیں۔
اسلم/پاکپتن: یہ اہم مسئلہ اٹھانے پر ضیا شاہد کے شکر گزار ہیں۔ بجلی کی شکایت ہر آدمی کو ہے۔ اس جدید دور میں بھی ٹیکنالوجی سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔ موبائل کی طرح ایزی لوٹ کر دیں تو اس کی چوری ختم ہو سکتی ہے۔

ختم نبوت دھرنے میں داڑھی والے شامل ہیں :طلال چوہدری

لاہور (خصوصی رپورٹر) چینل ۵ کے پروگرام ’ضیاشاہد کے ساتھ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے آئی جی کے پی کے صلاح الدین محسود نے کہا ہے کہ افغان مہاجرین کے باعث سرحد پار سے لوگوں کی آمدورفت سے واقعی سکیورٹی کے مسائل میں اضافہ ہوجاتا ہے اور اگر یہ رکاوٹیں شامل نہ ہوں تو ہم دہشت گردی پر زیادہ مو¿ثر طریقے سے قابو پا سکتے ہیں کیونکہ حملہ آور بالعموم سرحد پار سے یہاں آتے ہیں۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ جمعہ کے دن دہشت گردی کی واردات میں پولیس کے افسروں اور سپاہیوں نے جرا¿ت‘ ہمت اور بے خوفی سے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا اور فوج کے ساتھ مل کر تمام حملہ آوروں کو کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ لندن سے آپ کی خصوصی کارسپانڈنٹ کی یہ رائے درست ہے کہ پولیس افسروں کے تشہیر اور چینل ۵‘ ٹی وی چینلوں کے علاوہ سوشل میڈیا پر ان کی تصاویر ڈالنا سکیورٹی کے اعتبار سے غلط اقدام ہے لیکن آج کل میڈیا کوریج کا دور ہے اور ہم بروقت اس تشہیر کو نہ روک سکے۔ پروگرام میں ضیاشاہد نے کہا کہ یہ امر خوش آئند ہے کہ رائے ونڈ جاتی امرا میں سابق وزیراعظم نوازشریف‘ وزیراعلیٰ شہبازشریف کی طرف سے عید میلادالنبی کے موقع پر خصوصی محفل میلاد منعقد ہوئی جس میں دونوں بھائیوں کے اہل خانہ کے علاوہ وفاقی اور صوبائی وزرائ‘ اہم سیاسی شخصیات نے شرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی طور پر شریف فیملی سے آپ لاکھ اختلاف کریں لیکن خاندانی پس منظر کے اعتبار سے یہ لوگ دینی نکتہ نظر پر سختی سے عمل پیرا رہے ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی شنگھائی تنظیم کے موقع پر چین میں تقریر پر نکتہ چینی کی اور کہا کہ شاہد خاقان عباسی ذہین اور تعلیم یافتہ انسان ہیں۔ معلوم نہیں ان سے یہ کوتاہی کیسے ہوگئی کہ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ پاکستان کو دہشت گردی‘ علیحدگی پسندوں کی تحریکوں اور شدت پسندی سے خطرہ ہے۔ ضیاشاہد نے کہا کہ علیحدگی پسند کی تحریکیں بھارت میں موجود ہیں‘ جیسے تامل ناڈو کی تحریک‘ ایک دور میں خالصتان کی تحریک‘ 1947ءسے اب تک کشمیر میں آزادی اور دلی حکومت سے علیحدگی کی تحریک‘ لیکن پاکستان میں بلوچستان کے کچھ باغیوں کی بیرون ملک بیان بازی کو آپ آزادی کی تحریک نہیں کہہ سکتے اور وزیراعظم پاکستان کے طور پر اعتراف کرنا کہ ہمارے ہاں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں، سفارتی اور بین الاقوامی طور پر انتہائی غلط ہے۔ اس موقع پر ”خبریں“ کے کالم نگار اور معروف صحافی عبدالودود قریشی نے اسلام آباد سے بحث میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ شاہد خاقان عباسی صاحب کی تقریر وزارت خارجہ کے کلرکوں نے لکھی ہے۔ وزیراعظم صاحب کو ایک ایک لفظ سوچ سمجھ کر کہنا چاہیے۔ لندن خبریں کی کالم نگار اور چینل۵ کی کارسپانڈنٹ معروف قانون دان شمع جونیجو نے اس رائے سے اتفاق کیا اور کہا کہ براہمداغ بگٹی اور سلمان داﺅد کے پاکستان دشمن بیانات یا جینوا، لندن کی بسوں پر بھاری معاوضہ دیکر فری بلوچستان کے نعرے لگوانے سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ ہمارے ہاں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ تحریک مقامی افراد گلیوں، سڑکوں اور شہروں میں چلاتے ہیں اور بلوچستان میں ایسی کوئی سرگرمی دکھائی نہیں دیتی۔ بری بھلی جیسی بھی پارٹیاں ہوں الیکشن لڑتی ہیں اور وہاں مسلسل صوبائی حکومت کام کر رہی ہے۔ ضیا شاہد نے وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے پارٹی صدر کو توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ دانیال عزیز کی طرح طلال چودھری بھی سیاسی مخالفین کو گالیاں دینے کے نتیجے میں وفاقی وزیر بنے۔ یہ حضرات غیر محتاط گفتگو کرتے ہیں‘ جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ طلال چودھری نے جمعہ کے دن ختم نبوت کے سلسلہ میں دھرنا دینے والوں کو داڑھی والے دہشت گرد قرار دیا اور اشارتاً کہا کہ عمران خاں کے دھرنے والوں کی داڑھیاں نہیں ہوتی تھیں اور اب دھرنے والے داڑھیاں رکھتے ہیں۔ طلال چودھری نے یہ الزام بھی لگایا کہ موجودہ دھرنے نواز شریف کی پارٹی کی حکومت کیلئے سازش ہے۔ ضیاشاہد نے کہا کہ پاکستانی عوام کی اکثریت کی طرح ہم سب دعا کرتے ہیں کہ جلد لاہور دھرنے کا بھی اختتام ہو اور منتخب حکومت اپنی مدت پوری کرے، لیکن ان کے یہ سیاسی بھونبو حالات بگاڑنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ احسن اقبال کے یہ وزیر مملکت اشتعال انگیز الفاظ استعمال کرتے ہیں جبکہ ہم لوگ دونوں اطراف کے غصے اور انتہا پسندی کو ختم کرکے معاملات مذاکرات سے حل کرانا چاہتے ہیں۔ اسلام آباد میں مفاہمت کے نکتہ نظر کو کامیابی مل چکی ہے اور لاہور میں بھی انشاءاللہ مسئلہ حل کرلیا جائے گا لیکن اگر طلال چودھری جیسے لوگوں نے داڑھی والے لوگوں کو دہشت گرد قرار دینا نہ چھوڑا تو یہ فاصلے مزید بڑھ جائیں گے‘ جو ملک و ملت کیلئے فائدہ مند ثابت نہیں ہوں گے ۔انہوں نے کہا کہ نئے وزیروں کو شائستگی، بردباری اور تحمل کی تلقین دینے کیلئے جو حکمران جماعت کیلئے لازمی ہوتی ہے، دوبارہ پرائمری سکولوں میں داخلہ دلوایا جائے۔

کیا حکومت واقعی فوج کے پشت پر اور فوج حکومت کے پشت پر کھڑی ہے ،دیکھیں ضیا شاہد کی اہم گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیاشاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیاشاہد نے کہا ہے کہ وفاقی وزیر احسن اقبال نے ترجمان ڈی جی، آئی ا یس پی آر کو ان کے بیان پر شٹ اپ کال دی تھی اور کہا کہ معیشت پر اس قسم کے بیانات دینے کا آپ کو کوئی حق حاصل نہیں تھا۔ احسن اقبال نے جواب الجواب کو روکنے کی بات کی۔ چلو اچھا ہے دو پرائمری کے بچوں کی کٹی ختم ہوئی! معاملہ رفع دفع ہو گیا۔ سیاستدانوں کی طرف سے معاملات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا۔ پہلے بیان بازی کر دی جاتی ہے بعدازاں اپنے بیان سے مکر جاتے ہیں۔ کہہ دیتے ہیں کہ بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔ جہاں ان کے الفاظ ہی لکھے جا رہے ہوں وہاں کیا تروڑ مروڑ کیا جا سکتا ہے۔ 2017ءمیں ایسا ممکن نہیں کہ بیانات کو بدل کر یا توڑ مروڑ کر نشر کیا جا رہا ہے۔ ایسے جدید دور میں جبکہ گوگل سے ہر منٹ اور گھنٹے کی فوٹیج تک برآمد ہو جاتی ہوں ایسا ممکن نہیں۔ دوسرے الفاظ میں الیکٹرانک میڈیا کا تمام ریکارڈ محفوظ ہوتا ہے اسے جب چاہیں حاصل کر لیں۔ کیپٹن(ر) صفدر جو کہ سابق وزیراعظم، محترم نوازشریف صاحب کے داماد ہیں۔ ایک طرف تو کہتے تھے کہ مجھے اپنے فادر ان لاءکی طرف سے 1500 پاﺅنڈ وظیفہ ملتا ہے۔ اس سے وہ اپنا گزارہ کرتے تھے۔ کیا وہ اپنے سسر سے پوچھے بغیر ”قادیانیوں“ والی تقریر کر سکتے ہیں؟ کیا کوئی ذی شعور اس بات کو قبول کر سکتا ہے۔ ایسی اہم بات وہ اپنے سسر یا ان کی بیٹی یعنی اپنی بیوی سے پوچھے بغیر کر سکتے ہیں؟ انتہائی حساس معاملہ پر انہوں نے بیان دے ڈالا۔ انہوں نے جوڈیشری اور فوج پر بھی شکوک و شبہات پیدا کردئیے۔ حالانکہ فوج والے بار بار کہتے ہیں۔ ہمیں تو جگہ جگہ اس بات کا حلف دینا پڑتا ہے کہ میں ختم نبوت پر مکمل یقین رکھتا ہوں اور میرا ایمان ہے کہ نبی کریم آخری نبی ہیں۔ دوسری جانب جج حضرات کے متعلق مشہور ہے کہ وہ صرف اپنے فیصلوں میں بولتے ہیں یہ مناسب بھی نہیں کہ وہ ہر کسی کے بیان پر پریس کانفرنس میں وضاحتیں دینا شروع کر دیں۔ کیپٹن(ر) صفدر نے فوج کے ساتھ ساتھ جوڈیشری کے بارے بھی شکوک و شبہات پیدا کیے۔ فوج ایک منظم ادارہ ہے۔ وہ سول معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔ ہمیں اپنی آرمی کی بے قدری نہیں کرنی چاہیے۔ اس کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا نہیں کرنا چاہئیں۔ ہمارے فوجی جوان اور رینجرز کے سپاہی ملک کے اندر آپریشن ہوں یا بارڈر پر جھڑپیں ہوں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے میں دریغ نہیں کرتے۔ میں متفق ہوں کہ فوج کے بس کا کام نہیں ہے کہ وہ حکومتیں چلائیں۔ اسی طرح سیاستدانوں کو کوئی حق حاصل نہیں ہے کہ شہادتیں دینے والے ایسے جرا¿ت مندوں کو جن کی بدولت عوام اپنے گھروں میں سکون کی نیند سوتے ہیں۔ سرحدوں کی حفاظت کی خاطر اپنی جانوں کی پرواہ نہیں کرتے، ان کے متعلق غلط بیان بازی کرنا میں بے رحمی تصور کرتا ہوں بلکہ ایک قسم کی ذلالت ہے، گھٹیا پن ہے کہ آپ ایسی فوج کے متعلق غلط بیان بازی کریں۔ فوج ملک کے اندر آپریشنز میں، بارڈر پر عملی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ ہمسایہ ممالک کی طرف سے آنے والی دھمکیوں کا مناسب جواب دے رہی ہے۔ سرجیکل سٹرائیک کی بار بار دھمکی دینے والی بھارتی فوج کے مقابلے میں تیار بیٹھی ہوئی ہے۔ کنٹرول لائن پر بھارت کی جانب سے گولا باری ہوئی ہے۔ فائر شیلنگ ہوتی ہے تمام معاملات پر فوج کام میں لگی ہوئی ہے۔ بادشاہ سلامت کے داماد کو نہ عقل ہے نہ تمیز ہے، نہ شعور ہے۔ یہ کیا پھیلانا چاہتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بریگیڈئیر اور اس کے اوپر کے لیول میں کوئی بھی قادیانی موجود نہیں ہے۔ میرے اس بیان کی تردید کر دیں، میں مان جاﺅں گا؟ کیپٹن صفدر تھرڈ ڈویژن گریجویٹ ہیں۔ فوج نے ایک خصوصی سکیم شروع کی جس کے تحت سیکنڈ لیفٹیننٹ بھرتی کئے گئے۔ اور انہیں کمیشن مل گیا۔ اس کے بعد انہوں نے شریف خاندان کی خوب خدمت کی اور یہ کیپٹن کے عہدے تک پہنچ گئے۔ داماد بننے کے بعد وہ ماڈل ٹاﺅن کچہری میں اسسٹنٹ کمشنر بھی بنے۔ اس کے علاوہ، سہیل ضیا بٹ صاحب کی جگہ انہوں نے کام کرنا شروع کر دیا۔ انہیں صرف ایک نشہ ہے کہ وہ بادشاہ کے داماد ہیں۔ کیپٹن صفدر نے الزام لگایا ہے کہ جے آئی نے ان کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا۔ وہ اب اسے ثابت کریں کہ انہیں کس نے تھپڑ مارے، زمین پر بٹھایا یا کان پکڑوائے؟ ایک ملزم جو ابھی مجرم ثابت نہیں ہوا۔ اس پر کون زبردستی کر سکتا ہے یا انسانی سوز سلوک کر سکتا ہے۔ وہ بتائیں تو صحیح؟ سیکرٹری الیکشن کمیشن یہ بتائیں کہ انہیں کس چیز کی رکاوٹ ہے جو وہ کہہ رہے ہیں کہ الیکشن 2018ءنئی مردم شماری کے تحت نہیں ہو سکتے۔ اگر انہیں کوئی دقت ہے بھی تو چیف ایگزیکٹو کو خط لکھیں اور اس میں حائل مشکلات کو دور کریں۔ اکاﺅنٹس کے معاملے میں ایک راز داری تو ضرور ہوتی ہے۔ عمران خان کے اکاﺅنٹس میں اگر کہیں کوئی معاملہ پوشیدہ ہے یا ان کی طرف سے بیان ہونا رہ گیا ہے اگر اس میں چیزوں کا ریکارڈ اور شواہد ان کے مخالف کو آپ دے دیں گے تو ایک فساد برپا ہو جائے گا۔ اس کا نتیجہ سوائے لڑائی کے کچھ نہیں نکلے گا۔ اس کا فیصلہ چیف الیکشن کمشنر صاحب کریں گے۔ امید رکھنی چاہئے کہ الیکشن کمیشن سب کے ساتھ ایک معقول اور مناسب رویہ اختیار کرے گا۔ تحریک انصاف والوں کا موقف ہے کہ ہائیکورٹ نے انہیں الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہونے سے بری الذمہ قرار دے دیا تھا۔ لہٰذا الیکشن کمیشن ہمیں نہیں بلا سکتا یہ ایک قانونی مسئلہ ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اپنے عمل سے یہ بات ثابت کرنی چاہئے کہ وہ ایک قومی ادارہ ہے۔ خود مختار ہے۔ اور حکومت یا کسی فرد کی جانب اس کا جھکاﺅ نہیں ہے۔ اس لئے وہ منصفانہ کارروائی کرے گا۔ میں نے اپنے پروگرام کے ذریعے، میسنجر کے ذریعے عمران خان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اداروں کے سامنے پیش ہوں۔ اب انہوں نے 26 اکتوبر کو الیکشن کمیشن میں پیش ہونے کا اعلان کیا ہے میں اس کا کریڈٹ تو نہیں لینا چاہتا۔ لیکن اتنا کہوں گا کہ یہ ان کا فیصلہ مناسب ہے کہ اداروں کے سامنے پیش ہوں۔ آج میری ان سے ملاقات بھی ہوئی۔ اس کے علاوہ ایک اور اہم شخص سے بھی ملاقات ہوئی اور تیسری ملاقات وزیراطلاعات محترمہ اورنگزیب صاحبہ سے ہوئی۔ چودھری نثار علی خان صاحب سے پنجاب ہاﺅس میں ملاقات ہوئی۔ ملاقات کی تفصیل اگلے پروگرام میں دوں گا۔ عمران خان ہوں، کیپٹن صفدر ہوں، مریم نواز ہوں، اسحاق ڈار ہوں یا نوازشریف سب کو عدالتوں میں پیش ہونا چاہئے، عدالتوں کے ساتھ سنجیدہ اور متوازن رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ اگر عدالت کوئی ایسا فیصلہ دیتی ہے جس پر آپ کو تحفظات ہیں تو اپنے وکیل سے کہیں کہ یہ معاملہ اس طرح ہونا چاہئے۔ ہمیں اپنے ملک کو محفوط بنانا ہے۔ عمران خان کی سیاست ہی یہ ہے کہ جب ان کی بات نہ مانی جائے تو وہ جلسے جلوس کرتے ہیں یا جلسوں کی سیریز کرتے ہیں۔ سیاسی پارٹی عوام کو سڑکوں پر لانے کے علاوہ کیا کر سکتی ہے؟ میری کوشش ہے کہ میں اسحاق ڈار سے ملاقات کر کے ہی واپس جاﺅں۔ میں عدم موجودگی میں کسی کے خلاف بیان دینا پسند نہیں کرتا۔ کسی شخص کی بات سنے بغیر کوئی رائے دینا مناسب نہیں۔ میں کوشش کروں گا کہ اسحاق ڈار سے ملاقات ہو جائے اگر نہ بھی ہوئی تو میں انہیں فون کر کے پوچھوں گا کہ پریس کانفرنس میں انہوں نے جو فیکٹس اور فیگر دیئے ہیں۔ ان کا سورس تو بتا دیں۔