Tag Archives: parties

سیاسی جماعتیں اپنے مالی وسائل کا انتظام کس طرح کر تی ہیں

کراچی(خصوصی رپورٹ) شفافیت جمہوریت کی روح ہے جسے حسن حکمرانی کا ممکنہ بہتر ین نظام سمجھا جاتا ہے ۔ سیاسی جماعتوں میں مالی نظم و ضبط اور جمہوریت کے بغیر ہم نظام سے ثمرات سمیٹ نہیں پائیں گے، اگر سیاسی جماعتیں جمہوریت کے بنیادی اصولوں پر نہیں چلیں گی تو یہ نظام نہیں بلکہ اداروں کی خرابی ہوگی۔ سیاسی جماعتیں خود کو کس طرح چلا پاتی ہیں ؟ الیکشن کمیشن ملک میں آزادانہ منصفانہ انتخابات کے انعقاد کا ذمہ دار ہوتا ہے ، اسے بااختیار بنانا سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے ۔ الیکشن کمیشن خود مختار ترین ادارہ ہے اور اس کے ارکان میں مفادات کا تصادم نہیں ہونا چاہئے۔ الیکشن کمیشن کی دیگر ذمہ داریوں میں یہ دیکھنا بھی شامل ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے مالی امور کس طرح جلاتی اور اندرون جماعت انتخابات کراتی ہیں یا نہیں۔ اس وقت ایسے معاملات پر نظر رکھنے کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے جب تک کہ پارٹی رکن اس کی شکایت نہ کرے۔ تحریک انصاف کے اکبر احمد کی جانب سے پارٹی کی پبلک فنڈنگ کو چیلنج کیا جانا ایک منفرد کیس ہے ۔ جس میں انہیں اپنی پارٹی رکنیت سے محروم ہونا پڑا تھا حالانکہ تحریک انصاف کو ان کا خیر مقدم کرتے ہوئے الزام کو جھوٹا ثابت کرنا چاہئے تھا۔ یہ انصاف کا تقاضا بھی ہے جس سے پارٹی کے اندر اور باہر ایک اچھا پیغام جاتا ، بلکہ تحریک انصاف نے کیس کی سماعت کیلئے الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کو ہی چیلنج کر دیا ۔ الیکشن کمیشن کا یہ ضرور دائرہ اختیار بنتا ہے ۔ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کو عطیات اور خصوصا دوران انتخابات اخراجات کی جانچ پڑتال میں ناکام رہا۔ 2013 کے عام انتخابات میں الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں اور امیدوار خصوصی اکاﺅنٹس کے ذریعہ اشتہارات کی مد میں ادائیگیوں کی تفصیلات دیں گے ۔ گزشتہ انتخابات میں اربوں روپے خرچ ہوئے لیکن مشکل ہی سے کسی سیاسی جماعت یا امیدوار نے اخراجات کا حساب دیا، نہ ہی الیکشن نے انہیں نوٹس جاری کئے۔ جماعت اسلامی کے علاوہ میں نے چار بڑی سیاسی جماعتوں سے ان کے مالی امور کے بارے میں استفسار کے حوالے سے رابطہ کیا۔ سوالات ان کے فنڈز اکٹھا کرنے، عطیات اور اندرونی و بیرونی آڈٹ سے متعلق تھے۔ ان میں مسلم لیگ ( ن)، تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی شامل ہیں، جن رہنماﺅں سے بات کی گئی ان میں خواجہ سعد رفیق، فرحت اللہ بابر، ڈاکٹر عارف علوی، فیصل سبزواری، جے یو آئی کے قاری شیر افضل اور امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن شامل تھے۔ جماعت اسلامی کا طریقہ کار انتہائی منظم ہے ، چونکہ رکنیت کیلئے اس کے قواعد و ضوابط نہایت سخت ہیں، اسی لئے اس کا سائز محدود ہے ۔ جماعت اسلامی کے ارکان کی تعداد 31 ہزار ہے ، جو اپنی آمدنی سے حسب استطاعت جماعت کو عطیات دیتے ہیں۔ اسے بیرون ممالک اپنے ارکان اور ہمدر دوں کی جانب سے بھی عطیات ملتے ہیں، جماعت اسلامی ہی اپنے امیدواروں کے انتخابی اخراجات پورے کرتی ہے ، شاید ہی کسی اور جماعت میں ایسا ہوتا ہو۔ حافظ نعیم کے مطابق جماعت اسلامی ایک منظم نظام کے تحت کام کرتی ہے ، لیکن وہ انتخابی سیاست میں کیوں ناکام ہے ، دیگر مذہبی سیاسی جماعتوں کی طرح اس کی اپنی وجوہ ہیں جنہیں حل کرنے کیلئے کام ہو رہا ہے ، تاہم یہ بھی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح آڈٹ رپورٹس اپنے ارکان کو دینے سے گریز کرتی ہے ، جو ارکان عطیات دیتے ہیں ، رپورٹ مانگنا ان کا حق ہے۔ تحریک انصاف نے اب تک بیرون ممالک سے سب سے زیادہ عطیات حاصل کئے ہیں۔شاید اسی وجہ سے پارٹی کے ایک رکن نے 2012 میں پارٹی انتخابات کے دوران یہ معاملہ اٹھایا تھا، پارٹی انتخابات میں دھاندلی کے سنگین الزامات کے بعد اس کے الیکشن کمشنرز جسٹس ( ر) وجیہ الدین احمد اور تسنیم نورانی بد دل ہو کر پارٹی چھوڑ گئے۔ عارف علوی نے کہا کہ ایس ایم ایس سروس کے ذریعہ 2012 میں پارٹی رکنیت 35 لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔ پارٹی میں رکنیت کیلئے کوئی فیس نہیں ہے ۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ مالی امور میں مسائل کا سامنا ہے لیکن پارٹی میں بہترین احتسابی نظام ہونے کا دعوی بھی کیا، خود کو مسلم لیگ ( ن) کا متبادل ثابت کرنے کے بعد 2011 میں تحریک انصاف کی فنڈنگ میں اضافہ ہوا۔ تحریک انصاف نے چند اچھی مثالیں قائم کیں، لیکن پارٹی انتخابات اور مالی امور کا انتظام بھی عام انتخابات میں شرکت کی طرح اہم ہے ۔ مسلم لیگ ( ن) میں بھی مالیاتی نظم کا ڈھیلا ڈھالا نظام ہے ۔ ارکان پارلیمنٹ اور وزرا اپنے طور پر کسی بالائی نگرانی کے بغیر ریلیوں اور جلسوں کا اہتمام کرتے اور انتخابات کے وقت یہی لوگ پھر عطیات بھی جمع کرتے ہیں، خواجہ سعد رفیق کو اعتراف ہے کہ اس عمل کو زیادہ شفاف ہونا چاہئے۔ تینوں بڑی سیاسی جماعتیں اپنی صفوں میں حقیقی جمہوریت لاسکی ہیں اور نہ مالی انتظام کو بہتر بنا سکی ہیں۔ پیپلز پارٹی رواں سال نومبر میں 50 برس کی ہو جائے گی لیکن گزشتہ 30 سے 35برسوں میں پارٹی نے بڑی حد تک اپنا نظام کھو دیا ہے ۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر کے مطابق پارٹی کیلئے عطیات کا بڑا حصہ عام انتخابات کے وقت وصول ہوتا ہے ، جب امیدوار ٹکٹوں کیلئے ناقابل واپسی 25 ہزار سے 30 ہزارروہپے تک ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ سنٹرل کمیٹی کے ارکان کیلئے بھی ایک لاکھ روپے تک فیس ہے ۔ جماعت اسلامی کے بعد ایم کیو ایم کا بھی اپنا منظم طریقہ کار ہے۔ فیصل سبزواری کے مطابق منتخب ارکان اپنی فیس کا 20 فیصد اور دیگر ارکان اپنی آمدنی کا ماہانہ دو فیصد پارٹی کو دیتے ہیں۔ رکنیت کی فیس 20 روپے ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم سمیت مذکورہ کوئی بھی جماعت اپنی اندرونی اور بیرونی آڈٹ رپورٹس عام نہیں کرتیں اور پارٹیوں کی مرکزی کمیٹیوں تک ہی محدود رہتی ہیں۔ جیسا کہ اب ہم آ ئندہ عام انتخابات کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ سیاسی جماعتیں جمہوریت کی جزو یا ت یعنی شفافیت اور اندرون جماعت انتخابی عمل کو تقویت دیں ، الیکشن کمیشن کو واچ ڈاگ کا اختیار ہونا چاہئے۔ فی الحال تو ہم حقیقی جمہوریت سے پرے ہی ہیں۔