Tag Archives: cpne

وزیر آبی وسائل نے میٹ دی ایڈیٹرز میں حقائق سے پردہ اٹھا دیا

لاہور(سپیشل رپورٹر )وفاقی وزیر آبی وسائل کا سید جاوید علی شاہ نے کہاکہ میر ی خوش قسمتی ہے کہ میں اس وزرات کا منسٹر ہوں جس مسئلے کا میں خو دشکا ر ہوں اور جنوبی پنجاب میرا خطہ ہے اور اگر ہم اس کے لیے کچھ نہ کرسکیں تو انتہائی افسوس ناک ہوگا ضیاءشاہد نے جس طرح دریائے ستلج کے حوالے بھارت کی آبی جارحیت کو جس طر یقے سے اجاگر کیا ہے اس سے لگتا ہے زندگی دینے کی کوشیش کی ہے پانی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتاہے جنوبی پنجاب زراعت کے حوالے اہم علاقہ ہے جہاں پرستلج میں پانی نہ ہونے کے وجہ سے نہ صر ف انسان بلکہ حیوان اور نباتات بھی بر ی طرح متاثر ہورہے ہیں جس کے حل کے لیے قلم کی طاقت کا بھر پور ساتھ ضروری ہے اگر اس گھمبیر مسئلے کی جانب توجہ نہ دی گئی تو آنے والے وقت میں پانی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہوگا جس کے لیے ہم سب کو سرجوڑ کو بیٹھنا ہو گا ۔اس حوالے سے موجودہ حکومت نے آبی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے آبی وسائل کے لیے علیحدہ وزات بنائی ہے جس کے لیے رواں سال حکومت نے 36بلین روپے کے فنڈز بھی مختص کیے ہیں جس میں سے 10.7بلین روپے کے خاطر خواہ رقم ریلیز بھی کی جا چکی ہے جبکہ جون میں باقی رقم ملنے کا قوی امکان ہے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان بن توگیا ہے مگر بھارت اب بھی اس کا وجود تسلیم کرنے کو تیا ر نہیں ہے۔موجودہ پانی کی صورت حال میں کالاباغ ڈیم وقت کی اہم ضرورت ہے جس کے لیے قلم کاروں اور تما م صوبوں کو متحد ہوکر اس قومی ایشو پر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا پاکستان میں پہلی دفعہ واٹر پالیسی کونسل آف کامن انٹرسٹ میں منظوری کے لیے بھیجی گئی ہے جو کہ ایک خوش آئند قدم ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سی پی این ای کے زیر اہتمام”میٹ دی ایڈیٹرز“ میں کیاسید جاوید علی شاہ نے کہا کہ ہمارے دور میں آبی مسائل پر بہت زیادہ کام ہوا ہے کالا باغ ڈیم مسئلے پر پیپلز پارٹی تیار نہیں ہے اس مسئلے پر میں نے جب بھی اسمبلی میں آواز اٹھائی تو سندھ والے میرے خلاف ہوجاتے ہیں، کالا باغ ڈیم کے حوالے سے جس خطے کا فائدہ ہونا ہے اس کی کوئی آواز ہی نہیں کالاباغ ڈیم کے حوالے سے حکومت کام کرنا چاہتی ہے لیکن سندھ اور خیبر پختونخواہ اس بارے سنجیدہ نہیں ہے آپ لوگوں کے قلم میں اتنی طاقت ہے کہ اپ اس بارے وہاں کی عوام کو شعور دے سکتے ہیں یہ صوبے اس بارے تیار ہوجائیں تو ہماری حکومت کل اس کی تعمیر شروع کر دے گی اگر تعمیر شروع نہ کی تو میں اپنی وزارت سے استعفیٰ دے دونگا ۔ایک اور سوال کے جواب میں وزیر آبی وسائل نے کہا کہ ہماری حکومت میں جتنا کام آبی وسائل پر کیاجا رہا ہے ہے اورکسی حکومت نے نہیں کیا، بلوچستان میں 100کے قریب چھوٹے چھوٹے ڈیمز بنائیے جارہے ہیں بلوچستان میں 350کلو میٹر کھچی کینال تعمیر ہوچکی ہے۔ 500کلو میٹر بننی باقی ہے۔ جہاں تک اورینج ٹرین کا مسئلہ ہے یہ بھی آج کی ضرورت ہے آنے والے دور میں ہمارے دور حکومت کو یاد رکھا جائےگا ۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ہم واٹر پالیسی پر بہت سنجیدہ ہیں اس مسئلے سے میں خود زیادہ متاثر ہوں کیونکہ میرا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے اور وہاں پانی کی کمی کا اہم مسئلہ ہے۔ لاہور میں بھی پانی کا مسئلہ ہے اس بارے آج ہی پتا چلا ہے جو کہ حیران کن ہے۔ میں ضیا شاہد کا مشکور ہوں جنہوں نے جنوبی پنجاب کے مسائل پر زیادہ توجہ دی اور خاص کر آبی بندش کا مسئلہ ہم ایسی واٹر پالیسی دے رہے ہیں، جس کو عوام ہمیشہ یاد رکھے گی۔جاویدعلی شاہ نے کہا کہ اگرچہ سندھ اسمبلی نے میرے خلاف قرارداد منظور کی ہے تاہم ہمیں کالاباغ ڈیم کیلئے کوشش جاری رکھنی چاہئے کہ اس پر چاروں صوبوں میں اتفاق رائے ہو سکے۔ انہوں نے کہا بھارت کہتا ہے کہ پاکستان کو پانی کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ وہ بہت سا پانی سمندر میں پھینک دیتا ہے۔ انہوں نے کہا ضیا شاہد نے ستلج، بیاس اورراوی کے پانی کا جو مسئلہ اٹھایا ہے اس پر فوری غور کریں گے کہ اس کو کس طرح سے اٹھایا جا سکتا ہے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ 1960میں ہونے والے معاہدہ کے مطابق آج تک عوام کو یہ کہا جاتا رہا کہ ہم نے تین دریا راوی ،ستلج اور بیاس کے دریا فروخت کردئیے تھے حالانکہ معاہدے میں ایسا کچھ نہیں معاہدے میں دریا کا نہیں پانی کا معاہدہ ہوا اس معاہدے کے مطابق صرف زرعی پانی کا استعمال ہے جیسے بھارت نے ہمارے تین دریاﺅں چناب ،سندھ اور جہلم کامعاہدہ کیا تھا اس معاہدے میں بھارت نے پاکستان سے ایک شق پر دستخط کروائے تھے کہ وہ تین دریا جہلم ،چناب اور سندھ جو ہمارے حصے میں آئے تھے وہ بھارت کے جن علاقوں سے گزریں گے بھارت ان پر زرعی پانی کے علاوہ باقی تین استعمال یعنی گھریلو پانی ،آبی حیاتی پانی اور ماحولیاتی پانی پر اختیا ر حاصل ہوگا لیکن پاکستان نے ایسا کچھ بھی نہ کیا ۔میں نے سندھ طاس انڈس واٹر معاہدہ کا مطالعہ کیا اور قانونی ماہرین سے مشورہ کیا تو معلوم ہوا کہ ہم بھی اس حوالے سے عالمی عدالت جاسکتے ہیں اور ستلج ،راوی اور بیاس میں کچھ پانی حاصل کر سکتے ہیں ۔پچھلے دنوں سی پی این ای کے پلیٹ فارم سے ایڈیٹر ز کے ساتھ وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کی ملاقات میں میں نے وزیراعظم سے گزارش کی کہ پانی کی بندش ہمارے ملک کا اہم مسئلہ ہوتا جارہا ہے اس بارے پاکستان کو عالمی عدلت میں جانا چاہیے ۔1960 کے معاہدے کا بغور جائزہ لینے کےلئے کمیٹی بنائی جائے کیونکہ اس معاہدے کے مطابق بھارت ہمارے دریا بند نہیں کر سکتا ۔آخر میں صدر سی پی این ای و چیف ایڈیٹر روزنامہ خبریں نے وزیر آبی وسائل سید جاوید علی شاہ کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اپ اس آبی مسئلے بارے آواز اٹھائیں ہم اپ کی آواز بنیں گے۔

 

سی پی این ای کا ”رائٹ ٹو انفارمیشن سہولت ڈیسک“کے قیام کا اعلان

کراچی (پ ر) کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) نے وفاقی اور صوبائی سطح پر رائٹ ٹو انفارمیشن کے قوانین اور معلومات سے متعلق ایڈیٹروں، صحافیوں اور عام شہریوں کو درپیش مسائل کے پیش نظر سی پی این ای کے مرکزی سیکریٹریٹ میں ”رائٹ ٹو انفارمیشن سہولت ڈیسک“ کے قیام کا اعلان کیاہے تاکہ ایڈیٹروں، صحافیوں اور عام شہریوں کو معلومات کے حصول میں رکاوٹ کی صورت میں رہنمائی اور معاونت فراہم کی جاسکے ۔ سہولت ڈیسک کے قیام کا یہ فیصلہ سی پی این ای کے صدر ضیا شاہد کی صدارت میں منعقدہ اسٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا۔ اجلاس نے وفاقی سطح پر سرکاری اشتہارات کی تقسیم کو غیر منصفانہ اور سیاسی بنیادوں پر مبنی قرار دیتے ہوئے اسے آزادی صحافت کے خلاف ایک دباو¿ قرار دیا ہے۔ اس ضمن میں منظور کی گئی ایک قرارداد میں وفاقی حکومت کے اشتہارات کی تقسیم کی معلومات کو مخفی رکھنے پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے رائٹ ٹو انفارمیشن کی خلاف ورزی قرار دیا ہے، حالانکہ تین چار ماہ قبل اشتہارات کی تقسیم کی تفصیلات کو پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کی ویب سائٹ پر آویزاں کیا جارہا تھا۔ سی پی این ای نے اشتہاری ایجنسیوں کی جانب سے اخبارات کے اشتہارات کے لئے ادائیگی کی منظوری کو متعلقہ اخبارات کی انوائسز کے ساتھ مشروط کرنے کے فیصلے پر بھی وفاقی پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کی جانب سے عملدرآمد نہ کرنے کے عمل کو بد عہدی اور بدعنوانی پر مبنی قرار دیا ہے اس طرح اخبارات اور حکومت کو شدید مالی نقصان کا بھی سامنا کرنا پڑ رہاہے۔ اجلاس میں وفاقی وزارت اطلاعات کی جانب سے آڈٹ بیورو آف سرکولیشن کے مجوزہ خودکار نظام پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ اے بی سی کے نئے نظام کے تحت اخبارات و جرائد کے لئے تو خودکار سافٹ ویئر نظام بنایا گیا ہے لیکن سرکولیشن کی تعداد کے تعین کے لئے خودکار نظام کے بجائے شخصی بنیادوں پر پرانا صوابدیدی نظام برقرار رکھا گیا ہے جس کی بنا پر سرکاری مداخلت، ناانصافیوں اور بدعنوانیوں کو فروغ دینے کا عمل نہ صرف بدستور رائج رہے گا بلکہ مزید تیز ہوگا۔ مزید برآں آڈٹ بیورو آف سرکولیشن کایہ مجوزہ نظام آڈٹ بیورو آف سرکولیشن کی بجائے ایک تھرڈ پارٹی ڈیٹا سینٹر کے تحت چلایا جا رہا ہے جس سے معلومات اور ریکارڈ میں ردوبدل کے خدشات بھی ہیں، لہٰذا غلطیوں، خامیوں اور صوابدیدی اختیارات سے پاک آٹومیشن سافٹ ویئر نظام کی تشکیل تک اسے مو¿خر کیا جائے۔ اجلاس میں سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں کی جانب سے اشتہارات کی غیر منصفانہ تقسیم پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ اجلاس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ صحافیوں اور میڈیا ہاو¿سز کی سیکورٹی کے لئے مناسب اقدامات کئے جائیں۔اجلاس میں سی پی این ای ذیلی کمیٹیوں کی تشکیل کے لئے صدر اور سیکریٹری جنرل کو اختیار دیتے ہوئے فیصلہ کیا گیا کہ کسی بھی ذیلی کمیٹی کے تین ماہ تک کوئی بھی اجلاس طلب نہ کرنے کی صورت میں کمیٹی غیر فعال تصور ہوگی۔صدر ضیا شاہد نے صوبائی صدور کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اپنے علاقے کے مدیران، صحافیوں اور ان کے اداروں کو درپیش مسائل اجاگر کریں۔ قبل ازیں ممتاز صحافی، روزنامہ جہاد اور اتحاد کے چیف ایڈیٹر شریف فاروق کے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی بھی کی گئی۔ اجلاس میں سی پی این ای کے صدر ضیا شاہد، سینئر نائب صدر شاہین قریشی، سیکریٹری جنرل اعجازالحق، نائب صدور عامر محمود، رحمت علی رازی، طاہر فاروق، انور ساجدی، سینئر رکن وامق زبیری، قاضی اسد عابد، اکرام سہگل، غلام نبی چانڈیو، کاظم خان، ڈاکٹر جبار خٹک، امین یوسف، عارف بلوچ، ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی، نصیر ہاشمی، حامد حسین عابدی، عبدالرحمن منگریو، خلیل الرحمن، تنویر شوکت، اسلم خان، محمد یونس مہر، بشیر احمد میمن، سید کامران ممتاز، مبشر میر، ابرار بختیار، عرفان عزیز، شیر محمد کھاوڑ، احمد اقبال بلوچ اور زاہدہ عباسی نے شرکت کی۔

سی پی این ای کا اجلاس کل ،شریف فاروق کی یاد میں تعزیتی ریفرنس بھی ہو گا

کراچی (خصوصی رپورٹ) کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز کی سٹینڈنگ کمیٹی کا اجلاس کل بروز جمعة یڈکوارٹرز کراچی میں زیر صدارت چیئرمین ضیا شاہد منعقد ہوگا۔ تمام ممبران اس اجلاس میں اپنی شمولیت کو یقینی بنائیں اجلاس کے بعد سہ پہر 3بجے سینئر صحافی ممبر سی پی این ای شریف فاروق مرحوم کی یاد میں تعزیتی ریفرنس ہوگا۔