لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) ضیا شاہد مرحوم بہت بڑے صحافی ہونے کے باوجود عاجزی پائی جاتی تھی۔ میں ایک ریڈیو پاکستان کا پروگرام کرتا تھا نقطہ نظر کے نام سے۔ ضیا شاہد صاحب آتے تھے ۔ انہوں نے کبھی انکار نہیں کیا تھا ان میں ایک کمال یہ تھا کہ جسے خبر کہتے ہیں خبریت کو سمجھتے تھے۔ انہوں نے ہمیں خبریت سکھائی کہ خبر کیا ہوتی ہے۔ مثلاً میں جنگ فورم ڈیسک کا انچارج تھا ہمارے پاس ڈیلی ٹیلیگراف میں سے معمولی خبر آئی جس میں اس طرح کی بات کی کہوٹہ پر حملے کا خطرہ ہے میں نے وہ خبر چیف ایڈیٹرکو بھیج دی تو ضیا شاہد صاحب کو پتہ چلا تو انہوںنے مجھے کمرے میں بلایا میں ان کے کمرے میں گیا تو ضیا شاہد صاحب نے کہا کہ سیف صاحب آپ کو اندازہ ہی نہیں کہ یہ کتنی بڑی خبر ہے میںنے کہا اندازہ تو ہے ۔ انہوں نے کا کہ یہ خبر ہیڈلائن ہے پھر وہ خبر8 کالمی شائع ہوئی۔ یعنی وہ خبریت کو بہت سمجھتے تھے۔ ضیا صاحب صاحب اور میں شاہد سو مرتبہ وزراءاعظم‘ فوجی حکمرانوں کو ملتے رہے وہ ببانگ دہل بات کرتے تھے۔ وہ ناشائستہ کبھی نہیں ہوتے تھے۔ مثال کے طور پر اگر جنرل مشرف بھی سامنے بیٹھے ہیں تو صاف کہہ دیتے تھے کہ جنرل صاحب آپ نے فلاں وقت بات ایسی کہی یعنی وہ صاف بات منہ پر کہہ دیتے تھے۔ نڈر اور بے باک صحافی تھے ۔ 2021ءمیں ہم سے جدا ہوئے خدا ان کے درجات بلند کرے۔ان خیالات کا اظہار معروف تجزیہ کار میاں سیف الرحمن نے چینل ۵ کے پروگرام ’ناشتہ کے ساتھ‘ گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
اسی طرح معروف صحافی مجیب الرحمن شامی نے کہا ہے کہ ضیا شاہد ایسی شحصیت تھے جنہیں بھلایا نہیں جا سکتا، پاکستان کی صحافت میں ان کا کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، وہ ایک ورکنگ جرنلسٹ تھے جو پبلشر بنے، منتظم بنے، ایڈیٹر بنے، مالک بنے، کئی ادارے قائم کئے۔ روزنامہ پاکستان کا اجرا، خبریں کی بنیاد رکھی، چینل ۵ بھی ان کے ذہن کی پیداوار تھا، وہ بڑے محنتی اور ہمت والے آدمی تھے، ان جیسی محنت لگن اور جستجو بہت کم اخبار نویس کر سکے ہیں۔ ضیا شاہد کا اپنا اسلوب تھا، عوام کی شکایات اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کو شائع کیا اور بڑی بہادری کے ساتھ ان کے حق میں آواز بلند کرتے رہے، ان کا عوام کے ساتھ گہرا رابطہ تھا، عوام کیلئے سوچتے لکھتے تھے عوام کیلئے ہی اخبار نکالا ضیا شاہد کا اپنا ایک خاصا سٹائل تھا جس سے اتفاق یا اختلاف کا آپ حق رکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے ایک منفرد اسلوب کی بنیاد رکھی ان کی تحریر میں اپنا ہی ایک بانکپن اور انداز تھا۔ 2021ءمیں وزیراعظم عمران خان اپنی حکومت کو بچانے میں کامیاب رہے اپوزیشن نے دباﺅ بہت بڑھایا، حکومت کے قدم ڈگمگاتے رہے پر اکھڑے نہیں، کے پی میں بلدیاتی انتخابات کرا کر ایک ایسی بنیاد رکھی جو اپنی طرز کی پہلی کوشش ہے حالانکہ تحریک انصاف کو اس میں نقصان بھی اٹھانا پرا۔ ہمارے سیاستدان بلدیاتی اداروں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ عمران خان نے بلدیاتی اداروں کو طاقت دی ہے۔