ممبئی(ویب ڈیسک) بالی ووڈ کے دبنگ اداکار سلمان خان نے فلموں میں نازیبا مناظر کی عکس بندی نہ کرنے کی وجہ بتا دی۔ بالی ووڈ کے سلطان سلمان خان نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ میں آج بھی فلم میں بوس و کنار اور نازیبا سین کرنے کے حق میں نہیں ہوں کیوں کہ آج بھی مجھے وہ واقعہ یاد ہے جب ہماری تمام فیملی ایک انگریزی فلم دیکھ رہی تھی تو اچانک ہی فلم کے مرکزی کرداروں کے درمیان بوس و کنار کا سین سامنے آگیا تھا۔سلمان خان نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ نازیبا سین کے سامنے آتے ہی تمام افراد نے سر جھکالیا تھا اور سین ختم ہوتے ہیں سب پھر سے فلم دیکھنے میں مشغول ہوگئے تھے لیکن ا±س لمحے تمام افراد کے ہوتے ہوئے ا±س سین کی وجہ سے عجیب صورت حال پیدا ہوگئی تھی اسی وجہ سے میں فلم میں نازیبا سین کو مناسب نہیں سمجھتا۔دبنگ خان نے کہا کہ فلم بنانے کے لیے بوس و کنار اور نازیبا مناظر کو شامل کرنا ضروری نہیں اور میں نہیں سمجھتا کہ جنسی عمل اور جسم دکھا کر کوئی فلم بزنس کر سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ میرے نزدیک یہ عمل مناسب نہیں اور یہ فلم بنانے کا میرا طریقہ بھی نہیں ہے۔
Monthly Archives: October 2018
انڈونیشیا میں زلزلے اور سونامی سے ہلاکتوں پر شاہد آفریدی بھی غمزدہ ہو گئے
کراچی(ویب ڈیسک) پاکستان کے جارح مزاج کھلاڑی شاہد خان آفریدی کے بارے میں تو سب جانتے ہیں لیکن آج انہوں نے ایسی تصویر شیئر کر دی کہ آپ بھی انہیں داد دئیے بغیر رہ نہیں پائیں گے۔سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ٹویٹر پر جارح مزاج کھلاڑی شاہد خان آفریدی نے انڈونیشا میں آنے والے زلزلے کے متاثرین کے حوالے سے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ 28 ستمبر کے زلزلے اور سونامی کے بعد میں انڈونیشی بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ اظہار تعزیت کرتا ہوں میری دعائیں غمزدہ اور مٹاثری کے ساتھ ہیں ،میری خواہش ہے کہ زخمی تیز رفتاری سے رو بصحت ہوں۔ 28 ستمبر کو انڈونیشیا میں آنے والے 7اعشاریہ5 شدت کے زلزلے نے ساحلی شہر پالو اور اس کے نواحی علاقوں میں تباہی مچائی ،سمندری لہریں 10 فٹ تک بلند ہو کر ساحلی علاقوں میں داخل ہوئیں،جس کے باعث832 ہلاکتیں ہو گئیں اور کئی عمارتوں کو نقصان بھی پہنچا۔
دونو ں شر مندہ
لندن (خصوصی رپورٹ) برطانوی میڈیا نے دعوی کیا ہے کہ شہزادہ ہیری نے غلطی سے ملالہ یوسف زئی سے معانقہ کرنے کی کوشش کی تھی جس پر ملالہ کی والدہ نے ان کی سرزنش کی تھی۔ برطانوی میڈیا کے مطابق شہزادہ ہیری سے یہ غلطی 2014ءمیں لندن کے ویمبلے ارینا میں منعقدہ خیراتی تقریب کے دوران ہوئی تھی۔ ڈیوک آف سسکس نے نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی سے معانقہ کرنے کی کوشش کی تو ملالہ کی والدہ بھی وہاں موجود تھیں اور انہوں نے شہزادہ ہیری کو منع کیا تھا۔ اخبار کے مطابق ملالہ کی والدہ کا مطلب تھا کہ جب تک شادی نہ کی جائے لڑکی کو چھوا نہیں جاسکتا، اس صورتحال پر شہزادہ ہیری کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا اور ملالہ بھی شرمندہ سی ہوگئی تھیں۔ شہزادہ ہیری نے ملالہ یوسف زئی کےساتھ بعد میں تصویر بنوائی تھی تاہم یقینی بنایا تھا کہ وہ ملالہ سے کچھ دور رہیں۔
124 ارکان کی خدمت کیلئے 550ملازم
پشاور (خصوصی رپورٹ) خیبر پختونخوا اسمبلی وزیراعظم ہاﺅس پر بھی بازی لے گئی۔ چھوٹے صوبے کی اسمبلی ہونے کے باوجود ملازمین کی تعداد ساڑھے 500سے تجاوز کرگئی۔ بیشتر ملازمین کو غیرضروری آسامیوں پر تعینات کیا گیا۔ اسمبلی میں رپورٹروں کی فوج بھرتی کی گئی جبکہ پوری اسمبلی اور ہاسٹل میں لفٹ نہ ہونے کے باوجود لفٹ آپریٹرز بھرتی کئے گئے ہیں۔ درخت موجود نہیں مگر پلانٹیشن آفیسر موجود ہے۔ ذرائع کے مطابق خیبر پختونخوا اسمبلی میں افسروں سمیت ملازمین کی تعداد ساڑھے 500سے تجاوز کرگئی ہے جو ضرورت سے کئی گنا بڑھ کر ہے۔ وزیراعظم ہاﺅس کی نسبت ایک چھوٹے صوبے کی اسمبلی میں ملازمین کی تعداد بڑھتی چلی آرہی ہے۔ سابق سپیکر صوبائی اسمبلی کی جانب سے اسمبلی میں بے تحاشا بھرتیاں کی گئیں اور 18گریڈ کی پوسٹیں اپنے منظورنظر افراد کیلئے تخلیق کی گئیں۔ اس وقت اسمبلی میں بڑی تعداد افسروں کی موجود ہے جو عموماً ہاتھوں پر ہاتھ رکھ کے بیٹھے نظر آتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اسمبلی میں رپورٹروں کی تعداد 16 ہے جبکہ حال ہی میں سپیشل سیکرٹری کی ایک خصوصی آسامی کارپوریشن سے ڈیپوٹیشن پر لائے گئے ایک ملازم کیلئے تخلیق کی گئی۔ اسمبلی کے احاطے میں درخت نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن پلانٹیشن آفیسر بڑی تنخواہ لے رہا ہے۔ پچھلی دور حکومت میں ملازمین کی بڑی تعداد مختلف سیکشنز میں کھپائی گئی۔ ملازمین کی تعداد کام کے لحاظ سے کئی گنا بڑھ گئی ہے۔
کتا جھولے میں سوئی بچی کوکھا گیا
حویلی کورنگا (خصوصی رپورٹ) حویلی کورنگا میں آوارہ کتے نے جھولے میں سوئی آٹھ ماہ کی کرن شہزادی کو ہمیشہ کی نیند سلا دیا۔ حویلی کورنگا کے موضع ولایت پور کے صابر حسین بھٹی کی آٹھ ماہ کی بچی جھولے میں سو رہی تھی۔ کتے نے منہ پر حملہ کرکے پورا چہرہ بھبھوڑ دیا‘ زخمی کو کبیروالہ ہسپتال لے جایا گیا مگر جانبر نہ ہوسکی۔ ایس ایچ او حویلی کورنگا نے بتایا کہ والدین نے کارروائی نہیں کی‘ کتا آوارہ تھا جسے مار دیا گیا ہے۔
جہاز تڑپ تڑپ کر چل بسا
لاہور (کرائم رپورٹر) لٹن روڈ کے علاقہ میں 30سالہ نوجوان نشہ آور انجکشن لگاتے ہی تڑپ تڑپ کر جاں بحق ہو گیا۔ کاہنہ میں نامعلوم افراد نے 25سالہ نوجوان کو گولی مار دی جبکہ اچھرہ کے علاقہ میں لڑکی کو چھیڑنے کے تنازع پر ڈنڈے سوٹے چل گئے۔ بتایا گیا ہے کہ چوبرجی چوک میں رات گئے نوجوان بے ہوشی کی حالت میں پڑا تھا جسے طبی امداد کیلئے ہسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے موت کی تصدیق کر دی۔ پولیس کے مطابق متوفی حلیہ سے نشئی معلوم ہوتا ہے اور نشہ آور انجکشن لگانے کے باعث اس کی موت واقع ہوئی ہے جبکہ اس کی شناخت نواز کے نام سے ہوئی ہے۔ کاہنہ کے علاقہ میں نامعلوم افراد نے 25سالہ فیروز نامی نوجوان کو گولی مار دی جسے طبی امداد کیلئے ہسپتال پہنچا دیا گیا۔ علاوہ ازیں اچھرہ کے علاقہ شاہ کمال کچی آبادی میں رات گئے لڑکی کو چھیڑنے پر ڈنڈے سوٹے چل گئے جس کے نتیجہ میں 2افراد لہولہان ہو گئے۔ اطلاع ملنے پر پولیس موقع پر پہنچ گئی۔ پولیس نے درخواست موصول ہونے پر آج صبح مقدمہ درج کرلیا۔
چینی کی کتنی مقدار کا روزانہ استعمال صحت کے لیے محفوظ؟
لاہور(ویب ڈیسک)اکثر افراد کاکھانا اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک کچھ میٹھا نہ کھالیں اور ماہرین غذائیت چینی کو لت قرار دیتے ہیں مگر ایک شخص کے لیے روزانہ کتنی چینی استعمال کرنا مددگار ثابت ہوتا ہے؟ہوسکتا ہے کہ ہمیں معلوم نہ ہو کہ کتنا میٹھا بہت زیادہ ہے یعنی کتنی مقدار؟ مگرکیا آپ کو معلوم ہے کہ ہمیں ایک دن میں کتنی چینی کھانی چاہئے اور ہم کتنی کھاتے ہیں؟درحقیقت لوگوں کو اکثر احساس ہی نہیں ہوتا کہ صرف سفید چینی ہی ان کے استعمال میں نہیں آتی، ایسی متعدد چیزیں ہیں، جن میں شکر موجود ہوتی ہے۔مثال کے طور پر ایک چائے کے چمچ کیچپ میں ایک چائے کے چمچ کے برابر چینی ہوتی ہے۔امریکی محکمہ صحت کے مطابق ایک بالغ فرد دن بھر میں استعمال کی جانے والی کیلوریز کے 10 فیصد حصے کے برابر شکر استعمال کرسکتے ہیں۔مگر عالمی ادارہ صحت نے یہ شرح 10 سے کم کرکے 5 فیصد کردی ہے۔عالمی ادارے کے مطابق معمول کے جسمانی وزن کے حامل بالغ فرد دن بھر میں 6 چائے کے چمچ سے زیادہ چینی استعمال نہ کریں یا 25 گرام چینی کافی ہے۔ایڈڈ شوگر اور قدرتی مٹھاس میں کیا فرق ہے؟ایڈڈ شوگر درحقیقت پراسیس شکر ہے جیسے سفید چینی یا شہد، جنھیں آپ مختلف غذاﺅں میں ڈال کر انہیں میٹھا بناتے ہیں، عام طور پر ایڈڈ شوگر ٹافیوں، بسکٹوں اور ایسی ہی اشیاءمیں عام ہوتی ہے۔طبی ماہرین کو مٹھاس کی اس قسم کے حوالے سے کافی خدشات ہیں جو کہ ذیابیطس، موٹاپے اور متعدد امراض کا خطرہ بڑھا سکتی ہے۔اس کے مقابلے میں قدرتی مٹھاس وہ ہے جو پھلوں، سبزیوں، دودھ کی مصنوعات اور اجناس میں پائی جاتی ہے، یعنی مٹھاس میں کم ہونے کے ساتھ یہ صحت کے لیے دیگر فوائد کی حامل غذائیں ہیں۔اگرچہ دونوں اقسام کی شکر جسم کو لگ بھگ ایک جیسے طریقے سے متاثر کرتی ہے مگر ایڈڈ شوگر جسم میں آسانی سے گھل جاتی ہے جس سے بلڈ شوگر لیول بہت تیزی سے اوپر جاتا ہے۔بہت زیادہ ایڈڈ شوگر کے استعمال سے کیا ہوتا ہے؟مٹھاس کی اس قسم کا زیادہ استعمال متعدد مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔ جیسے توجہ مرکوز کرنے میں مشکل، چڑچڑا پن، بلڈ شوگر لیول اچانک گرنا یا بڑھنا، جسمانی ورم، موٹاپا، گردوں کے امراض، امراض قلب اور ذیابیطس وغیرہ۔
میں وزیراعلیٰ نہیں
لاہور( ٹرینڈی ایڈیٹر)پاکستان کی آدھی سے زیادہ آبادی اس کے ایک صوبے یعنی پنجاب میں آباد ہے اور ملک میں کسی بھی سیاسی جماعت کو مرکز میں حکومت بنانی ہو تو اسے پنجاب سے اچھی نمائندگی درکار ہوتی ہے۔یہی نہیں بلکہ پنجاب میں صوبائی سطح پر حکومت مل جائے تو نہ صرف مرکز میں حکومت کرنا آسان ہو جاتا ہے بلکہ ’اگلی باری‘ کے امکانات بھی روشن ہو جاتے ہیں سو پاکستان کے سیاسی نقشے پر پنجاب اس قدر اہم ہے۔مسلسل دس برس اور حقیقی طور پر لگ بھگ 30 برس پنجاب پر پاکستان مسلم لیگ ن کا راج رہنے کے بعد صوبے کی حکومت اس مرتبہ عمران خان کی پاکستان تحریکِ انصاف کو ملی ہے۔حقیقی وزیرِ اعلیٰ کون؟پنجاب کے وزیرِ اعلٰی سردار عثمان بزدار صوبائی سیاست اور خصوصاً پاکستان تحریکِ انصاف میں نسبتاً نئے تصور کیے جاتے ہیں۔ پنجاب جیسے بڑے صوبے کی وزارتِ اعلیٰ کے لیے ان کا انتخاب قدرے غیر متوقع تھا۔ادھر صوبے کے سینیئر وزیر علیم خان کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ وزیرِ اعظم عمران خان کے کافی قریب ہیں اور یہ کہ پنجاب میں حقیقی وزیرِ اعلی وہی ہیں۔بعض سیاسی مبصرین کا بھی خیال ہے کہ عثمان بزدار کو محض سامنے رکھا گیا ہے جبکہ پسِ پردہ حقیقی طور پر تمام تر کام سینیئر وزیر علیم خان کر رہے ہیں۔لاہور کی مال روڈ پر واقع وزیرِ اعلیٰ کے دفتر کے ایک کمرے ہی میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عبدالعلیم خان کا کہنا تھا کہ ’یہ تاثر غلط ہے۔‘ تاہم انھوں نے بتایا کہ ان کے پاس کئی اختیارات ضرور ہیں مگر وہ ’وزیرِ اعلیٰ کی طرف سے مجھے دیے گئے ہیں۔‘اس کی وضاحت انھوں نے ایک مثال سے کی۔ ’اگر میں آپ کو یہ ذمہ داری دے دوں کہ کل آپ وزارتِ بلدیات کے اجلاس کی صدارت کر لیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وزیر آپ بن گئے ہیں۔‘اس لیے ان کا کہنا تھا کہ اگر ’وزیرِ اعلیٰ نے مجھے کہا کہ آپ ہنڈرڈ ڈے پلان (سو دن کا پلان) مانیٹر کر لیں یا آپ یہ جو محکمے ہیں ان کو بلا کر ان کی کارکردگی چیک کر لیں، یا یہ جو بیوٹیفیکیشن پراجیکٹ ہے یہ آپ کر لیں یا صاف ستھرا پنجاب جو ہے اس کی سر پرستی آپ کر لیں، تو یہ اختیارات تو مجھے وزیرِ اعلیٰ نے دیے ہیں، وہ مجھے نہ دیتے کسی اور کو دے دیتے۔‘ان کا کہنا تھا کہ جتنے اختیارات انھیں وزیرِ اعلیٰ کی جانب سے منتقل ہوئے ہیں وہ وہی کر رہے ہیں، اس سے زیادہ نہیں۔عبدالعلیم خان کا کہنا تھا کہ وزیرِاعلیٰ عثمان بزدار اپنا کام کر رہے ہیں اور ’میں سمجھتا ہوں کہ نئے ہونے کے باوجود انھوں نے ایک ماہ کے اندر خود کو ایک اچھا منتظم ثابت کیا ہے۔‘عبدالعلیم خان کے خیال میں عثمان بزدار نے پنجاب میں خود کو ایک اچھا منتظم ثابت کیا ہے نیا بلدیاتی نظام تحریکِ انصاف کی حکومت کارکردگی دکھانے کے لیے بیتاب ہے تاہم حکومت کے ابتدائی دنوں میں زیادہ تر امور پر اس کی پالیسیاں تاحال واضح نہیں ہی۔ ہاں ایک معاملے پر اس کی سوچ کے خدوخال واضح طور پر سامنے آئے ہیں جو صوبہ پنجاب میں نیا بلدیاتی نظام ہے۔بی بی سی کے ساتھ حالیہ انٹرویو میں پنجاب کی کابینہ کے سینیئر وزیر اور وزیرِ بلدیات عبدالعلیم خان نے بتایا کہ ان کی وزارت نے نئے نظام کے حوالے سے سفارشات کا مسودہ تیار کر لیا ہے جو رواں ہفتے منظوری کے لیے وزیرِ اعظم عمران خان کو بھیج دیا جائے گا۔سفارش کردہ طریق? کار کے مطابق نئے بلدیاتی نظام میں شہروں کے میئر مکمل بااختیار ہوں گے۔ دیہاتوں اور محلوں کے سطح پر کونسلیں قائم کی جائیں گی جبکہ ’بلدیاتی نمائندے انتظامی کے ساتھ ساتھ مالیاتی اختیارات بھی رکھیں گے۔‘علیم خان نے بتایا کہ ’صوبائی سالانہ ترقیاتی پروگرام کا 30 فیصد بلدیاتی نظام کے لیے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس کا بھی 33 فیصد دیہاتوں میں ویلج کونسل تو شہروں میں محلے کے سطح کی کونسل کو ملے گا۔‘نئے بلدیاتی نظام کی ضرورت کیوں تھی؟عبدالعلیم خان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں نئے بلدیاتی نظام کی ضرورت اس لیے تھی کہ گذشتہ حکومت نے ایک بلدیاتی نظام لاگو تو کر دیا تھا تاہم وہ خود اس پر یقین نہیں رکھتی تھی۔‘’سابق وزیرِ اعلیٰ نے تمام تر اختیارات اپنے پاس رکھے۔ شہروں کے میئر مکمل طور پر بے اختیار تھے۔‘انھوں نے کہا کہ ان کے بلدیاتی نظام میں ’بلدیاتی نمائندے انتظامی اور معاشی طور پر مکمل با اختیار ہوں گے۔ پہلی مرتبہ دیہات اور شہر میں محلے کی سطح پر کونسلیں قائم کی جائیں گی تا کہ عوام کو اپنے چھوٹے بڑے مسائل کے حل کے لیے دور نہ جانا پڑے۔اس کے علاوہ میئر شہر کے تمام تر معاملات کا انچارج ہو گا اور تمام ادارے اس کے ماتحت کام کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ میئر کو ووٹ کے ذریعے عوام خود منتخب کریں گے یعنی ’لاہور کے لوگ اپنا میئر خود منتخب کریں گے۔‘بعض سیاسی پنڈت مانتے ہیں کہ پنجاب میں پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب سے اسی چال کی توقع کی جا رہی تھی۔پنجاب اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی جماعت ن لیگ اور پی ٹی آئی کی نشستوں میں زیادہ فرق نہیں جو اس بات کا مظہر ہے کہ ن لیگ کو اب بھی کافی حد تک عوامی حمایت حاصل ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ نیا بلدیاتی نظام لا کر اور بلدیاتی نمائندوں کو ترقیاتی فنڈ دے کر تحریکِ انصاف نچلی سطح پر موجود ن لیگ کی اس پر برتری کو ختم کرنا چاہتی ہے۔اس پر عبدالعلیم خان کا کہنا تھا کہ ’اگر چیئرمین یا میئر بااختیار ہوتا ہے تو یہ تو الٹا ان کے فائدے میں جاتا ہے۔ ہم ان سے کوئی اختیارات لینے تو نہیں لگے، ہم تو اپنے اختیارات ان کو دینے لگے ہیں۔ یہ تو ان کے فائدے کی چیز ہے، میرا نہیں خیال اس میں کسی کو بھی اعتراض ہو گا۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’کل کو جو میئر آئے گا وہ ن لیگ کا بھی ہو سکتا ہے۔ ایسا تو نہیں کہ سارے میئر تحریکِ انصاف ہی کے ہوں گے۔‘لاہور میں اورنج لائن ٹرین پر زیادہ تر کام مکمل ہو چکا ہے تاہم جب سے ن لیگ کی حکومت کی مدت پوری ہوئی تب سے یہ منصوبہ جمود کا شکار ہے’اورنج لائن ٹرین چلے گی‘نئے بلدیاتی نظام کے اغراض و مقاصد کیا ہیں اور یہ کب تک لاگو ہو پائے گا، اس حوالے سے حکومتِ پنجاب تیار نظر آتی ہے تاہم کئی چند دیگر زیادہ گمبھیر معاملات ایسے ہیں جن پر کوئی جامع منصوبہ بندی تاحال سامنے نہیں آئی، جیسا کہ گذشتہ حکومت کے شروع کردہ منصوبے۔لاہور میں اورنج لائن میٹرو ٹرین سمیت گذشتہ حکومت نے کئی بڑے منصوبوں کا آغاز کیا تھا جو اس کی مدت ختم ہونے سے قبل مکمل نہ پو پائے، ان کا مستقبل کیا ہو گا؟صوبہ کو درپیش صاف پانی کے فراہمی جیسے دیگر مسائل پر پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کا لائحہ عمل کیا ہو گا؟سابق حکومت کے شروع کیے گئے نامکمل منصوبوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عبدالعلیم خان کا کہنا تھا کہ ’میرا نہیں خیال کہ یہ منصوبے بند کیے جائیں گے۔‘ان کا کہنا تھا کہ یہ منصوبے گذشتہ حکومت نے ’اپنی جیب سے نہیں، پنجاب کے عوام کے پیسوں سے شروع کیے تھے۔‘لاہور میں اورنج لائن ٹرین پر زیادہ تر کام مکمل ہو چکا ہے تاہم جب سے ن لیگ کی حکومت کی مدت پوری ہوئی تب سے یہ منصوبہ جمود کا شکار ہے۔ علیم خان کا کہنا تھا کہ ’اورنج لائن ٹرین ضرور چلے گی‘ اور اس پر سواری کرنے والوں کو کرایے میں سبسڈی بھی دی جائے گی۔’سبسڈی کے بغیر تو یہ چل ہی نہیں سکے گی۔ اب اس کا ٹکٹ اگر 500 روپے بنتا ہے تو عام آدمی تو وہ خریدنے کی طاقت نہیں رکھتا۔‘ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبہ پر حکومت 300 ارب روپے کی مقروض ہے جبکہ دو سے تین ارب ماہانہ اس کو چلانے کا خرچ آئے گا۔’اب مشکل یہ ہے کہ ہم اسے بند بھی نہیں کر سکتے جبکہ دوسری طرف اس کو چلانے کے لیے وسائل بھی نہیں۔ مگر ہم چلانے کے لیے مجبور ہیں۔‘’چھوڑ بھی نہیں سکتے، مکمل کرنا بھی مشکل ہے‘پنجاب کی کابینہ کے سینیئر وزیر کا کہنا تھا کہ گذشتہ حکومت اس قدر منصوبے نامکمل اور قرض میں چھوڑ کر گئی ہے کہ اگر ان کی حکومت کوئی نیا منصوبہ شروع نہ بھی کرے تو صرف ان نامکمل منصوبوں کو مکمل کرنے میں انھیں چار سال لگ جائیں گے۔انھوں نے بھکھی پاور پلانٹ کے منصوبے کی جانب اشارہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ لگ بھگ 100 ارب روپے کے اس منصوبے کے لیے 18 ارب حکومتِ پنجاب نے دینا تھا جبکہ 80 ارب مختلف بینکوں کی شراکت کی طرف سے آنا تھا’60 ارب ہم پر قرض ہے، 14 ارب حکومت دے چکی ہے، چار ارب دینا ہے، مشینری بندرگاہ پر پڑی ہے، سمجھ نہیں آ رہا کیا کریں۔‘علیم خان کا کہنا تھا کہ ان میں زیادہ تر منصوبے غیر ضروری تھے جیسا کہ اورنج لائن ٹرین کا منصوبہ۔ ان کا کہنا ہے کہ لاہور وہی شہر ہے جہاں کی 80 فیصد آبادی کو صاف پانی مہیا نہیں۔’یہ وہی شہر ہے جس میں مریضوں کو ہسپتالوں میں بستر میسر نہیں۔ بچوں کی تعلیم ایک مسئلہ ہے، ایسے میں ہماری ترجیحات اورنج لائن جیسا منصوبہ نہیں ہو سکتا تھا۔‘تاہم علیم خان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت اب مجبور ہے کہ وہ اورنج لائن جیسے منصوبے کو چلائے۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ اس کو کس طرح ممکن بنایا جائے۔ کیا اس کے سٹیشنوں پر کوئی کاروباری سرگرمی کی جائے؟ اس حوالے سے منصوبہ بندی کی جائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کی حکومت اس بات پر یقین نہیں رکھتی کہ صرف گذشتہ حکومت پر سب ڈال دیا جائے تاہم عوام کے سامنے حقائق لانا بھی ضروری ہیں۔ان کا دعوٰی تھا کہ جن معاشی حالات میں صوبہ انہیں دیا گیا ہے اس میں صوبے کی بقا بھی مشکل میں تھی۔ ’ہم جب آئے تو صوبائی حکومت کے 30 سے 36 ارب روپے کے چیک باو¿نس ہوئے پڑے تھے۔ ایسی حالت میں ہمیں یہ صوبہ دیا گیا تھا۔
نیا ” ISI“ چیف کون ؟
اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) کور کمانڈر پشاور سمیت پاک فوج کے چار لیفٹیننٹ جنرلز آج مدت ملازمت مکمل کرکے ریٹائر ہورہے ہیں جبکہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار آئندہ چند روز میں ریٹائرڈ ہوں گے۔ آج ریٹائرڈ ہونے والے دیگر فوجی افسران میں کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل نذیر احمد بٹ‘ کمانڈر آرمی سٹرٹیجک فورس کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل میاں محمد بلال حسین‘ ملٹری سیکرٹری جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) لیفٹیننٹ جنرل غیور محمود اور انسپکٹر جنرل ٹریننگ لیفٹیننٹ جنرل ہدایت الرحمن شامل ہیں۔ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کی بھی آج ریٹائرڈ کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔ تاہم عسکری ذرائع کے مطابق یہ درست نیہں ابھی ان کی ریٹائرمنٹ میں چند دن باقی ہیں۔ عسکری ذرائع نے تصدیق کی کہ وہ اسی ماہ ریٹائرڈ ہوں گے۔ دریں اثنا وزیراعظم عمران خان خفیہ ادارے کے نئے سربراہ کا جلد تقرر کریں گے تو فوج میں ان کی پہلی اعلیٰ سطح کی تقرری ہوگی۔ اگرچہ ابھی نئے ڈی جی آئی ایس آئی کا باضابطہ اعلان نہیں ہوا تاہم حال ہی میں میجر جنرلز سے لیفٹیننٹ جنرلز کے عہدے پر ترقی پانیوالوں سے ہی کسی ایک کے تقرر کا امکان ہے۔ ان میں لیفٹیننٹ جنرل شاہین مظہر‘ لیفٹیننٹ جنرل ندیم ذکی منج‘ لیفٹیننٹ جنرل عبدالعزیز‘ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر‘ لیفٹیننٹ جنرل عدنان اور لیفٹیننٹ جنرل وسیم اشرف شامل ہیں۔ روایتی طور پر ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے پر خفیہ اداروں میں کام کرنیکا تجربہ رکھنے والے تھری سٹار جنرل کو تعینات کیا جاتا ہے اس تناظر میں لیفٹیننٹ جنرل ندیم منج‘ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر اور لیفٹیننٹ جنرل وسیم اشرف میں سے کوئی ایک آئی ایس آئی کا نیا سربراہ ہو سکتا ہے۔ جنرل منج ڈار جنرل منیر ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں جبکہ جنرل اشرف کو آئی ایس آئی میں کام کرنیکا تجربہ ہے۔ دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) امیجد شعیب جن کا ابھی تک سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کیساتھ قریبی رابطہ ہے کے مطابق جنرل منج اور جنرل منیر نئے ڈی جی آئی ایس آئی کیلئے ”ہاٹ فیورٹ“ ہیں انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کو تین جرنیلوں کے نام بھجوائے جائیں گے جن میں سے ایک کا تقرر کیا جائےگا۔ وزیراعظم آرمی چیف کی سفارشات کی بنیاد پر ڈی جی آئی ایس آئی کا تقرر کرینگے۔
مایہ ناز فلم ہدایت کار ریاض شاہد کی 46ویں برسی
ریاض شاہد کی زندگی تصاویر کی قید میں آج بھی زندہ ہے
لازوال ادکارراج کپور کی اہلیہ کرشنا راج کپور انتقال کر گئیں
ممبئی(ویب ڈیسک)بالی ووڈ میں اپنی شانداراداکاری سے نام بنانے والے کپور خاندان کے ا?نجہانی اداکارراج کپورکی اہلیہ کرشنا راج کپورچل بسیں۔ بالی ووڈ کے آنجہانی اداکارراج کپورکی اہلیہ کرشنا راج کپورآج 88 سال کی عمرمیں چل بسیں، جس کی تصدیق ان کی پوتی ریدھیما کپورنے انسٹاگرام پوسٹ سے کی۔کرشنا کپورنے راج کپورسے شادی 1946 میں کی تھی اوران کے 5 بچے ہیں جن میں رندھیرکپور، رشی کپور، ریتو کپورنندا، ریما کپوراورراجیوکپورہیں جب کہ ان کے پوتے پوتیوں میں اداکارہ کرینہ کپور، کرشمہ کپوراوراداکاررنبیرکپورشامل ہیں۔ بالی ووڈ میں کپورخاندان وہ واحد خاندان ہے جس کی چوتھی نسل آج سنیما کی زینت بنی ہوئی ہے اوریہ ہی خاندان بھارتی فلم انڈسٹری کا سب سے پرانا خاندان مانا جاتا ہے۔
خواتین کاناانصافی کے خلاف آواز اٹھانا مثبت قدم ہے:آشا بھوسلے
ممبئی(شوبزڈیسک) بالی وڈ لیجنڈری گلو کارہ آشا بھوسلے کا کہنا ہے کہ خواتین کا نا انصافی کے خلاف کھل کر سامنے آنا مثبت قدم ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق لیجنڈری گلو کارہ نے خواتین کے ساتھ ہو نے والی نا انصافی کے پوچھے گئے سوال پر میڈیا سے گفتگو کر تے ہو ئے کہا ہے کہ یہ ایک مثبت قدم ہے اور انہیں خو شی ہے کہ عورتیں اپنے ساتھ ہو نے والی نا انصافی اور مسائل کے خلاف پرکھل کر سامنے آ کر بات کررہی ہیں، ورنہ عورتوں کا استحصال کر نے والے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہو گی۔انہوں نے کہا کہ اس لئے یہ ایک مثبت قدم ہے کہ خواتین درپیش مسائل پر کھل بیان کر رہی ہیں۔
شاہدہ منی کے ہاتھوںماڈل اقرا کے میک اپ سٹوڈیو کا افتتاح
لاہور(شوبزڈیسک)ماڈل اقرا اور رباب حفیظ نے گلبرگ کے علاقہ میں میک اپ سٹو ڈیو کھول لیا۔ گزشتہ روز اس کا افتتاح میلوڈی کوئین شاہدہ منی کے ہاتھوں سے ہوا۔ تقریب میں اقرا ‘ رباب حفیظ اور ان کی والدہ ‘ ڈائریکٹر اور پروڈیوسر جرار رضوی‘ عمران شہزادہ‘ رضوان زیور بھی موجود تھے ۔اس کے علاوہ بہت سی سلیبرٹیز نے شرکت کی بیوٹیشن روبی شہزاد‘ شہلا چودھری ‘ گلوکار مظہر راہی‘ ناصر بیراج اور دیگر موجود تھے اس تقریب کو اے ایم پروڈکشنز کے سی ای او اویس ملک نے آرگنائز کیا۔مہمان خصوصی شاہدہ منی نے کہا کہ شہر میں ایسے بہت سے میک اپ سٹوڈیوز کی ضرورت ہے اور میں نے اس کا وزٹ کیا ہے یہ ایک جدید اور معیاری سٹوڈیو ہے۔میں اس کی کامیابی کیلئے دعا گو ہوں۔سٹوڈیو کی اونر اقرا نے بتایا کہ اس میں ہئیر ایکسپرٹس ‘ میک اپ ایکسپرٹس ‘ مساج ایکسپرٹس اور نیل ایکسپرٹس کو اکٹھا کر دیا ہے ۔