اسلام آباد(ویب ڈیسک) قومی اسمبلی میں قبائلی نشستوں میں اضافے کیلئے 26 ویں آئینی ترمیم کا بل پیش کردیا گیا۔اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا تو پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما اور شمالی وزیرستان سے رکن اسمبلی محسن داوڑ نے سابقہ فاٹا کے علاقے میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں اضافے سے متعلق 26 ویں آئینی ترمیمی بل بحث کیلئے ایوان زیریں میں پیش کردیا۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں نے اس بل کی حمایت کی۔26 ویں آئینی ترمیم بل پر اظہار خیال کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ فاٹا میں ترقیاتی کاموں کے مکمل ہونے تک خصوصی مراعات دی جائیں، جب تک امن قائم نہیں ہوتا وہاں کے عوام کوخصوصی سہولیات دی جائیں، میں اس ایوان کی طرف سے آئینی ترمیم پر قوم کو مبارک باد دیتا ہوں۔پرویز خٹک نے کہا کہ جن علاقوں کو علاقہ غیرکہا جاتا تھا اب وہ اپنا علاقہ بن گیا ہے، کاش ستر سال پہلے ہم ایسا فیصلہ کر لیتے، ہم کوشش کررہے ہیں کہ فاٹا میں بنیادی سہولیات اور روزگار کا بندوبست کیا جائے۔نورالحق قادری نے کہا کہ آئین میں ترمیم و اصلاح کے پیچھے عوامی مفاد کارفرما ہوتا ہے، آج فاٹا کی 12 نشستیں بحال کرنے پرمبارکباد پیش کرتا ہوں۔عبدالقادر پٹیل نے بھارتی جیلوں میں قید پاکستانی ماہی گیروں کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ کچھ دن پہلے بھارتی جیل میں قید ایک پاکستانی ماہی گیر کی لاش واپس آئی، میں اس کے جنازے میں گیا تو اسکی انکھیں نکالی ہوئی تھیں، کیا ہم نے صرف یکطرفہ خیر سگالی دکھانی ہے۔شاہ محمود قریشی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان پرامن طریقے سے بھارت سے معاملات حل کرنا چاہتا ہے، ہم نے بھارت پر اخلاقی دباؤ ڈالنے کے لیے بھارتی قیدی رہا کیے، بھارت اشتعال انگیزی چاہتا ہے اور ہم کشیدگی ختم کرنا چاہتے ہیں، پاکستان نے اپریل میں 360 بھارتی ماہی گیر رہا کئے، ہم نے بھارتی حکومت سے متعلقہ فورمز پر معاملہ اٹھایا ہے، عبدالقادر پٹیل سے اتفاق کرتا ہوں، آپ آئیں، ہم ماہی گیروں کی واپسی کے لئے مشترکہ لائحہ عمل بنائیں گے۔
Tag Archives: national assembly
(ن) لیگ نے قومی اسمبلی میں بہاولپوراورجنوبی پنجاب صوبہ کیلیے آئینی ترمیمی بل جمع کرادیا
اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی میں بہاولپور اور جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے لئے آئینی ترمیمی بل جمع کرادیا۔مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں احسن اقبال، رانا تنویر، رانا ثناءاللہ، عبدالرحمن کانجو کی جانب سے قومی اسمبلی میں بہاولپور اور جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے لئے آئینی ترمیمی بل جمع کرایا گیا۔ صوبوں کی تشکیل کے لئے آئینی ترمیم کا عنوان ’آئینی (ترمیمی) ایکٹ مجریہ 2019 ‘ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل ایک میں ترمیم سے بہاولپور، جنوبی پنجاب کے صوبوں کی تشکیل کے الفاظ شامل کئے جائیں۔آئینی ترمیمی بل کے مطابق بہاولپور صوبہ وہاں کے موجودہ انتظامی ڈویژن پر مشتمل ہوگا، جنوبی پنجاب صوبہ موجودہ ڈیرہ غازی خان اور ملتان ڈویژنز پر مشتمل ہوگا اور ترمیم کے بعد ڈیرہ غازی خان اور ملتان ڈویژنز صوبہ پنجاب کی حد سے نکل جائیں گے۔آئینی ترمیمی بل میں کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 51 میں ترمیم سے صوبائی نشستوں میں ردوبدل کی جائے، ترمیم کے بعد بہاولپور صوبہ کی 15 جنرل ، خواتین کی 3 نشستیں ملا کر قومی اسمبلی میں کل 18 نشستیں ہوجائیں گی، جنوبی پنجاب صوبہ کی 38، صوبہ پنجاب کی 117، خیبرپختونخوا کی 55، صوبہ سندھ کی 75، بلوچستان کی 20 اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی قومی اسمبلی میں 3 نشستیں ہوں گی۔ترمیم کے نتیجے میں قومی اسمبلی کی کل نشستوں کی تعداد 326 ہوگی جس میں 266 جنرل نشستیں اور 60 خواتین کی نشستیں ہوں گی، جنرل الیکشن 2018 میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات سے منتخب شدہ ارکان قومی اسمبلی اور پنجاب سے خواتین کی مخصوص نشست پر کامیاب ہونے والی خواتین موجودہ اسمبلی کی مدت مکمل ہونے تک اپنی ذمہ داریاں انجام دیتی رہیں گی، موجودہ اسمبلی کی مدت کی تکمیل کے ساتھ یہ کلاز ختم ہوجائے گا۔آئینی ترمیمی بل میں آئین کے آرٹیکل 59 میں بھی ترمیم کی بات کی گئی جس کے نتیجے میں بہاولپور صوبہ کی صوبائی اسمبلی میں نشستوں کی کل تعداد 39 ہوگی جس میں سے 31جنرل، 7خواتین اور ایک غیرمسلم کی نشست ہوگی، جنوبی پنجاب صوبہ کی صوبائی اسمبلی کی کل نشستیں 80 ہوں گی جن میں سے 64 جنرل، 14 خواتین اور 2 غیرمسلموں کے لئے ہوں گی، بلوچستان اسمبلی کی نشستوں کی کل تعداد65، خیبرپختونخوا کی 145، پنجاب کی 252، سندھ کی 168 ہوں گی۔بل کے مطابق آئین کے آرٹیکل 154 میں ترمیم کی جائے جس کے ذریعے نیشنل کمیشن برائے نئے صوبہ جات تشکیل دیا جائے تاکہ حدود اور دیگر امور کا تعین ہوسکے، آئین کے آرٹیکل 175 اے میں ترمیم کرکے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی ان نئے صوبہ جات میں پرنسپل سیٹس قائم کی جائیں۔آئینی ترمیمی بل میں کہا گیا کہ 9 مئی 2012 کو پنجاب اسمبلی اپنی اپنی الگ قراردادوں متفقہ طورپر بہاولپور صوبہ اور جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کی منظوری دے چکی ہے، ان خطوں کے عوام اپنے صوبوں کے قیام کے لئے ایک عرصے سے اپنے مطالبے کے حق میں جدوجہد کررہے ہیں۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان قائمہ کمیٹیوں کے فارمولے پر اتفاق
اسلام آباد(ویب ڈیسک ) حکومت اور اپوزیشن کے درمیان قائمہ کمیٹیوں کے فارمولے پراتفاق ہوگیا حکومت اور اپوزیشن کے درمیان قائمہ کمیٹیوں کے فارمولے پراتفاق ہوگیا، ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت اوراتحادیوں کو 20 کمیٹیوں کی چیئرمین شپ ملے گی جب کہ اپوزیشن جماعتوں کو 18 کمیٹیوں کی سربراہی دی جائے گی۔قانون و انصاف کی قائمہ کمیٹی کی سربراہی حکومت کو دینے پر اتفاق ہوا ہے، ریاض فتیانہ قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کے چیئرمین ہوں گے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا تھا کہ قائمہ کمیٹیوں کے معاملے پر حزبِ اختلاف سے اب کوئی ڈیڈ لاک نہیں ہے، جو اپوزیشن کے پاس کمیٹیاں تھیں وہ ان کے پاس رہیں گی اور جو حکومت کے پاس تھیں وہ موجودہ حکومت کے پاس جائیں گی۔ انہوں نے کہا تھا کہ اچھا لیڈر قوم کے حالات دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے کہ بہتر کیا ہو سکتا ہے، حکومت کی ساکھ اس پر منحصر ہے کہ ہم کتنی قانون سازی کرتے ہیں۔
314سیاسی جماعتیں پھنس گئیں ۔۔۔ انتخابی عمل سے باہر ہونے کا امکان
اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) انتخابات ایکٹ 2017ءکی منظوری کے بعد الیکشن کمیشن کی طرف سے سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اہلیت کیلئے درکار سخت قانونی تقاضوں کی بدولت سیاسی جماعتیں مشکل میں پھنس گئیں۔ الیکشن کمیشن میں جمعیت علمائے اسلام (ف) ‘ بلوچستان نیشنل پارٹی‘ جے یو آئی (س) سمیت 314 سیاسی جماعتیں تاحال آئندہ انتخابات لڑنے کی اہل نہیں ہوئیں اور صرف گیارہ فیصد سیاسی جماعتیں مطلوبہ معیار پر پورا اتریں۔ الیکشن کمیشن کی دستاویز کے مطابق الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ملک کی 352 سیاسی جماعتوں میں سے اب تک صرف 38 سیاسی جماعتوں نے دو ہزار پارٹی ممبران اور دو لاکھ روپے کی رجسٹریشن فیس سمیت تمام قانونی تفصیلات الیکشن کمیشن میں جمع کروائیں۔ دستیاب الیکشن کمیشن کی دستاویزات کے مطابق الیکشن کمیشن میں اس وقت 352 سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں موجودہ حکومت کی اہم اتحادی جمعیت علمائے اسلام (ف) اور دوسری مذہبی جماعت جے یو آئی (س) نے تاحال الیکشن کمیشن میں اپنے دو ہزار پارٹی کارکنوں کی تصدیق شدہ تفصیلات اور پارٹی رجسٹریشن کی مد میں سٹیٹ بینک میں دو لاکھ روپے جمع نہیں کرائے۔ ان میں سے پاکستان مسلم لیگ ن‘ پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز‘ تحریک انصاف‘ جماعت اسلامی‘ متحدہ قومی موومنٹ‘ عوامی نیشنل پارٹی سمیت صرف 38 سیاسی جماعتوں نے الیکشن کمیشن کی طرف سے نافذ کردہ قانونی تقاضے پورے کئے۔ الیکشن کمیشن ذرائع نے بتایا کہ انتخابات ایکٹ کی منظوری کے بعد ملک کی 89 فیصد سیاسی جماعتیں انتخابی عمل سے باہر ہوتی نظر آرہی ہیں کیونکہ اب تک بیشتر سیاسی جماعتیں مطلوبہ قانونی تقاضے پورے کرنے میں ناکام ہیں کیونکہ یہ ایسی سیاسی جماعتیں ہیں جن کا ڈھانچہ مکمل نہیں ہے اور ان کے پارٹی عہدیدار بھی نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ چند ماہ قبل پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے انتخابات ایکٹ کے تحت اب ہر رجسٹرڈ سیاسی جماعت کو انتخابات میں حصہ لینے کی اہلیت کے لئے دو ہزار کارکنوں کی فہرست اور دو لاکھ روپے پارٹی رجسٹریشن فیس کی مد میں جمع کرانے ہوں گے۔
قومی اسمبلی، سینیٹ میں کوئی وزیر خزانہ بننے کا اہل نہیں، وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی سی پی این ای کے وفد سے کھری کھری باتیں
اسلام آباد (اپنے نمائندے سے) شاہد خاقان عباسی نے عمران خان کو لیڈر تسلیم کرلیا، کہتے ہیں ملک میں صرف دو لیڈر ہیں ایک نواز شریف دوسرے عمران خان“ آصف زرداری کو لیڈر نہیں مانتا“ ان کے نام پر ووٹ نہیں پڑتا، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کوئی شخص ایسا نہیں جو وزیر خزانہ بن سکے“ جس دن مل گیا فوری وزیر خزانہ بنادونگا“ وہ وزیراعظم ہاو¿س میں سی پی این ای کے وفد سے بات چیت کررہے تھے، وفد کی قیادت سی پی این ای کے صدر اور خبریں کے چیف ایڈیٹر ضیا شاہد نے کی، وزیراعظم نے کہا قائداعظم کے بعد صرف چار لیڈر آئے جن میں ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو، نواز شریف اور عمران خان شامل ہیں، ان میں دو لیڈر اس وقت موجود ہیں، ایک نواز شریف اور دوسرے عمران خان ہیں، انہوں نے کہا کسی کو آئین کیخلاف ورزی نہیں کرنے دونگا چاہے وہ نواز شریف ہی کیوں نہ ہوں، نواز شریف کو عدالت نے وزارت عظمیٰ سے نااہل کیا ہے سیاست سے نہیں، ابھی تک نواز شریف نے کوئی خلاف آئین کام نہیں کیا“ وفد میں شامل اخبارات کے ایڈیٹروں سے گفتگو میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ملک میں الیکشن وقت پر ہونگے“ 15 مارچ کو الیکشن کمیشن کی تشکیل مکمل ہوجائے گی“ 15 جولائی کو الیکشن ہوگا جبکہ نئی حکومت یکم اگست سے کام شروع کردے گی“ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنے ساڑھے چار سالہ دور حکومت میں اتنے پراجیکٹ مکمل کئے جو گزشتہ 25 برسوں میں مکمل نہ ہوسکے تھے، انہوں نے کہا نواز شریف نے کبھی میرے کام میں مداخلت نہیں کی ہاں پارٹی سربراہ کے طور پر مشورہ ضرور دیتے ہیں“۔ وزیراعظم نے اے پی این ایس کے وفد سے بھی ملاقات کی اس موقع پر بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا ملک کے بہترین مفاد میں حکومت چلتی رہنی چاہیے بطور وزیراعظم انہیں کسی اندر یا باہر کے پریشر کی پرواہ نہیں اور وہ کسی قیمت پر اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں ملک میں کہیں سیاسی عدم استحکام نظر نہیں آتا اگر کسی کو وہ پسند نہیں ہیں تو بے شک ان کے خلاف عدم اعتماد لے آئے۔ انہوں نے کہا کہ سول اور ملٹری تعلقات اچھی ڈگر پر چل رہے ہیں اور ہر بڑے مسئلے پر سول اور ملٹری قیادت سر جوڑ کر بیٹھتی ہے اور فیصلے کرتی ہے انہوں نے کہا کہ وزارت خزانہ نظام درست انداز میں چل رہا ہے خزانے کی چابیاں ان کے پاس ہیں اور معاملات ٹھیک ہیں۔ وزیراعظم نے کہا نیب کا قانون ایک بُرا قانون ہے اور اس قانون کو ایک آمر نے سیاسی جماعتوں کو توڑنے کیلئے بنایا تھا۔ قوم نے میاں نوازشریف کو ووٹ دیا نوازشریف نے ملک کو ایک صحیح ڈگر پر ڈالا اور اب ان کی حکومت عوام سے کئے گئے وعدے پورے کررہی ہے انہوں نے کہا کہ جس ریفرنس کا وجود نہیں اس پر ایک ہفتے میں دو دو پیشیاں ہوتی ہیں ایسا تو تب بھی نہیں ہوا تھا جب نوازشریف کے خلاف طیارہ کیس بنا تب بھی ہفتے میں ایک سے زیادہ پیشی نہیں ہوتی تھی۔ دوسری جانب عالم یہ ہے 22 ماہ گزرنے کے باوجود ڈاکٹر عاصم کے خلاف 450 ارب کی کرپشن کے مقدمہ کا چارج فریم نہیں ہوسکا۔ وزیراعظم نے کہا کسی کو حکومت میں مداخلت کا حق نہیں سیاسی جماعتیں ایک دن میں بنتی ہیں نہ ہی لیڈر۔ اس کے لئے ایک وقت لگتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو ایک سال سے عدم استحکام کا شکار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہ عوام خود فیصلہ کرے کہ 28 جولائی کے فیصلے سے ملک کو فائدہ ہوا یا نقصان۔ عدالتوں کو بھی اپنے فیصلے کے اثرات دیکھنے چاہئیں اور ایسے فیصلے نہیں کرنے چاہئیں جس سے ملک عدم استحکام کا شکار ہو۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملکوں کے لئے سب سے اہم چیز معیشت ہوتی ہے اور تمام سٹیک ہولڈرز کو ملک کی معیشت کے مفاد میں پالیسیز بنانی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ روپے کی قدر کو مصنوعی طریقے سے کنٹرول کرنا نہیں چاہتے اور ان کا ذاتی خیال ہے کہ ڈالر کی قدر 110 روپے کے قریب رہنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ روپے کی قدر میں مزید کمی نہیں ہوگی اور مہنگائی قابو میں رہے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ سٹیل مل کا فیصلہ حکومت کو 200 ارب روپے میں پڑا جبکہ کار کے فیصلے کی وجہ سے عالمی عدالت میں حکومت کو 765 ملین ڈالر دینے پڑے۔ انہوں نے کہا کہ سیاست کے فیصلے ڈرائنگ روم کے بجائے پولنگ اسٹیشنوں پر ہوتے ہیں۔ وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ بیرونی خسارے کے حوالے سے قیامت کا منظر پیش کرنے والے معاشی حقائق سے واقف نہیں۔ پچھلے سال یہ خسارہ مشینری اور انڈسٹری کی بھاری درآمد سے بڑھا تھا ہم نے معیشت کی ترقی کی شرح میں اضافہ کیا اور اسی طرح ٹیکس ریونیو کی مد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں چیلنج کرتا ہوں ان چار سالوں میں جتنے ترقیاتی منصوبے مکمل ہوئے اس کی نظیر پاکستان میں کبھی نہیں ملتی۔ آج بجلی کے بحران کا خاتمہ ہوگیا ہے تاہم اب بھی بجلی کی سیل اور لاگت میں 130 ارب کا خسارہ ہے۔ اس کی ایک وجہ بجلی کے بلوں کی وصولی ہے ہمیں ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے صوبوں کو بھی اپنے ذمہ داری ادا کرنا چاہیے اور بجلی کے بلوں کی ریکوری میں وفاقی حکومت سے تعاون کرنا چاہیے۔ آج بجلی کے بل میں 3 روپے تو ہائیڈر پراجیکٹس کی مد میں وصول کئے جا رہے ہیں۔ وفد سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کی تکلیف آج سامنے آرہی ہے سوچے سمجھے بغیر کئے گئے اقدامات کے اثرات آج سب کے سامنے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ایک جماعت کے طور پر میچور ہوچکی ہے اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ نوازشریف کے بطور وزیراعظم ہٹتے ہی تین دن میں نیا وزیراعظم منتخب کر لیا گیا۔ خاقان عباسی نے کہا کہ حکومت وہ اور ان کی کابینہ چلا رہے ہیں تمام فیصلے مشاورت سے کئے جاتے ہیں نوازشریف نے آج تک ان کے کام میں مداخلت کی نہ ہی کسی حوالے سے ہدایات دیں۔ انہوں نے کہا کہ حلقہ بندیوں کے قانون کی سینٹ سے منظوری کے لئے انہوں نے تمام پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہوں سے ملاقات کی ہے اور ان کے خدشات دور کر دیئے ہیں۔ جس کے بعد اب اس بل کا سینٹ سے پاس ہونے میں کسی رکاوٹ کا جواز باقی نہیں رہتا۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے نگران حکومت کے دور میں 45 ہزار اسلحہ لائسنس بیچے گئے اس سے بڑی کرپشن اور کیا ہو سکتی ہے تاہم اس حوالے سے ایک مربوط پالیسی سامنے لا رہے ہیں۔
اور اب تک کی سب سے بڑی خبر ،38ارکان اسمبلی تحریک ختم نبوت پر قربان ہونے کیلئے تیار
لاہور (نیا اخبار رپوٹ) پیر آف سیال شریف کو ساتھیوں نے ختم نبوت تحریک کیلئے پنجاب سے حکومتی پارٹی کے 38 ممبران قومی اسمبلی کی حمایت کا سگنل دیدیا جبکہ پنجاب اسمبلی سے بھی 20 فیصد سے زائد حمایت کی یقین دہانی کرادی ہے۔ خفیہ اداروں کی ملنے والی رپورٹس سے انکشاف ہوا حمایت کی یقین دہانی کرانے والوں میں سرگودھا، جھنگ اور چنیوٹ کے تقریباً تمام ممبران قومی اسمبلی شامل ہیں۔ پیر بف سیال شریف کو اس حمایت کا یقین انکے مختلف نے جو پنجاب کے بڑے گدی نشین ہیں کرایا ساتھی۔ سرگودھا سے تمام 5، جھنگ سے تمام 4، چنیوٹ سے 2، اٹک سے 1، راولپنڈی سے 2، جہلم سے 1، کوشاب سے 2، میانوالی سے 1، فیصل آباد سے 2، گوجرانوالہ سے 2، حافظ آباد سے 1، شیخوپورہ سے 1، اوکاڑہ سے 2، ملتان سے 2 ، خانیوال سے 3، ساہیوال سے 1، پاکپتن سے 1، وہاڑی سے 1، مظفر گڑھ سے 1، لیہ سے 2، پہاولپور سے 2، بہاولنگر سے 1، اور رحیم یار خان سے 1ممبر اسمبلی کی حمایت کا سگنل پیر آف سیال شریف کو دیا گیا ہے ۔ پنجاب کے مختلف اضلاع جن میں سرگودھا، چنیوٹ، جھنگ، خوشاب، بھکر، میانوالی، چکوال، اٹک ، جہلم، گجرات، منڈی بہاوالدین بہاولپور، بہاولنگر، ملتان، پاکپتن، راولپنڈی، مظفر گڑھ خانیوال، حافظ آباد رحیم یار خان، ٹوبہ ٹیک سنگھ، نارووال سیالکوٹ، اوکاڑہ، شیخوپورہ اور گوجرانوالہ سے 20 فیصد سے زائد ممبران صوبائی اسمبلی پنجاب کی حمایت کا یقین پیر آف سیال شریف کو دلایا گیا ہے۔ قومی امکان ہے کہ پیر آف سیال شریف اور انکے ساتھی اپنی حمایت کے پہلے حصے کا اعلان گوجرانوالہ میں کریں گے۔ سول خفیہ اداروں کے مطابق اگر ختم نبوت تحریک کا بھر پور آغاز اور ممبران اسمبلی کی استعفوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تو حکومتی جماعت کا اقتداد میں ٹھہرنا مشکل ہوجائے گا۔
فاٹا کے 95 فیصد لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ انہیں پاکستان میں جانا چاہیئے،خورشید شاہ کا قو می اسمبلی بیان ،اپو زیشن کا پھر واک آﺅٹ
اسلام آباد(ویب ڈیسک)اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے فاٹا اصلاحات کے معاملے پر آج بھی ایوان سے واک آو¿ٹ کردیا۔ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی مرتضیٰ جاوید عباسی کی سربراہی میں قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں اظہار خیال کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا کہ یہ پارلیمنٹ پاکستان کی ہے کسی گورے انگریز یا کالے کی نہیں، یہ لوگوں کا مینڈیٹ لے کر آئی ہے، ہم پر کوئی گوروں کا ایکٹ لاگو نہیں ہوتا، ہم نے اپنا قانون بنایا اور اس کو لاگو کیا، حکومت کا مطلب ہے محمود اچکزئی، مولانا فضل الرحمان اور اتحادی۔
اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا ہم چاہتے ہیں کہ فاٹا کے لوگوں کو قانون و آئین کا حصہ دیں، ہم ان کو پاکستان کا حصہ سمجھتے ہیں، ہم انگریز کے کسی بوسیدہ قانون کو ماننے کو تیار نہیں، آئین کے اندر ہوتے ہوئے پارلیمنٹ کی اتھارٹی ختم نہیں ہونے دیں گے، یہی فیصلہ ہے اس سے سب متفق ہوں گے، فاٹا کے 95 فیصد لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ انہیں پاکستان میں جانا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس پارلیمنٹ کو چیلنج دیا گیا ہے اور اسے ربڑ اسٹیمپ بنانے کی کوشش کی گئی لیکن ہم پارلیمنٹ کو کسی کی جاگیر نہیں بننے دیں گے کہ جب چاہو لے ا?و¿ اور جب چاہو واپس لے جاو¿، جب بھی کوئی ایجنڈ ا?تا ہے اس پارلیمنٹ کا حصہ بنتا ہے۔خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ فاٹا سے متعلقہ کے پی کے کا گورنر بنایا گیا، یہ ایک علامت تھی کہ فاٹا پاکستان کا حصہ ہے، اس سے فاٹا کے عوام کا اعتماد بحال ہوا ہے، اب ہم فاٹا کے لوگوں کو قانون و ا?ئینی حیثیت دینا چاہتے ہیں، ہم اپنی طاقت سے چلنا چاہتے ہیں، کسی گورے کے قانون کو نہیں مانتے، فاٹا کے لوگ قانونی و آئینی حق مانگ رہے ہیں، جب تک انہیں حق نہیں دیا جاتا ہم ہاو¿س میں نہیں بیٹھیں گے۔اپوزیشن لیڈر نے مزید کہا کہ صحیح غلط جو بھی بولے ممبر کاحق ہے، پارلیمنٹ میں جب تک یہ فیصلہ نہیں ہوگا اور بل ایجنڈے پر نہیں آئے گا، ووٹ نہیں ہوگا، اپوزیشن پارلیمنٹ میں نہیں بیٹھے گی، ہم اس ایوان کا واک آو¿ٹ کرتے ہیں۔
قومی اسمبلی اجلاس کے بعد غیر حاضر ارکان کیلئے بُری خبر آگئی
لاہور،ملتان ‘ کوٹ ادو ‘مظفرگڑھ(خصوصی رپورٹ) قومی اسمبلی کے اہم اجلاس میں حکمران جماعت کے 22غیر حاضر اراکین میں سے 10کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے جن میں وفاقی وزیر سکندر بوسن ‘ این اے 156 خانیوال سے رضا حیات ہراج‘این اے 153ملتان سے رانا قاسم نون ‘ این اے 169وہاڑی سے چودھری طاہر اقبال‘این اے 174راجن پورسے جعفر لغاری ‘ بہاولنگر کے دونوں اراکین قومی اسمبلی طاہر بشیر چیمہ اور عالم داد لالیکا ‘این اے 194رحیم یار خان سے مخدوم خسرو بختیار اور مظفر گڑھ سے باسط سلطان بخاری اور سلطان محمود ہنجرا شامل ہیں۔کوٹ ادو سے منتخب ہونے والے لیگی ایم این اے سلطان محمود ہنجرا نے پریس ریلیز میں بتایا کہ اچانک طبیعت خراب ہونے کے باعث اسمبلی اجلاس میں شامل نہیں ہو سکا۔ مجھے مسلم لیگ (ن) اور پارٹی قیادت پر مکمل اعتماد ہے۔ ذرائع کے مطابق لیگی قیادت ارکان اسمبلی کی اجلاس سے غیر حاضری کے معاملے کو سنجیدہ لے رہی ہے اور غیر حاضر ارکان کو شو کاز نوٹس بھی جاری کیے جا سکتے ہیں۔ادھر معروف صحافی اور اینکر حامد میر نے دعویٰ کیا ہے کہ قومی اسمبلی کے اجلاس کے بعد ن لیگ کی پریشانیوں میں کمی نہیں مزید اضافہ ہوگیا۔ حکمران جماعت کا بے چین گروپ باقاعدہ باغی گروپ میں تبدیل ہوگیا۔ اجلاس کے دوران اسی گروپ کے اراکین نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ اس گروپ میں 25 سے 30 اراکین اسمبلی شامل ہیں۔جبکہ انکا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر ایک ایوان سے بل منظور اور دوسرے سے مسترد ہوتا ہے تو پھر معاملہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں چلا جاتا ہےجبکہ قومی اسمبلی اجلاس میں غیرحاضر ہونے والے ارکان کیخلاف ن لیگی قیادت نے ایکشن پلان بنالیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ ارکان اسمبلی کے فنڈز بند کرنے کے علاوہ ترقیاتی کاموں کا آڈٹ کرایاجائے گا۔ اس سلسلے میں ان سے وضاحت مانگ لی گئی ہے۔باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ میٹنگ میں آنے والے بہت سے ارکان یہ بھی کہتے رہے کہ کتنا پریشر اور ڈالیں گے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق 20سے زائد حکومتی ارکان اسمبلی جو اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ انہوں نے واضح طور پر فارورڈ بلاک کی بنیاد رکھ دی۔ آئندہ چند روز میں جیسے ہی دیگر مقدمات سامنے آئیں گے اور حدیبیہ سمیت اہم کیسز کھلیں گے تو فارورڈ بلاک میں مزید ارکان کی تعداد کھل کر سامنے آجائے گی۔
50غیر قانو نی ارکان ،ترمیم کے حق میں 98,مخالفت میں 163ووٹ ،منظر نامہ کیسے تبدیل ہوا ؟
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان پیپلز پارٹی کا نااہل شخص کے پارٹی سربراہ بننے پر پابندی کا بل قومی اسمبلی میں کثرت رائے سے مستر دکر دیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سپیکر قومی اسمبلی نے بل کو مسترد ہونے کا اعلان کیا تو نوید قمر اپنی کرسی پر کھڑے ہوئے اور انہوں نے ووٹنگ کے عمل کو چیلنج کیا جس کے بعد سپیکر نے ووٹنگ کی گنتی کا عمل شروع کروایا جس کے بعد صورتحال مکمل طور پر واضح ہو گئی۔ نمبر گیم میں ن لیگ نے بازی ماری اور بل کو کثرت رائے سے مسترد کر دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے پیش کیے جانے والے بل کے حق میں 98 ممبر نے اپنی رائے کا اظہار کیا جبکہ اس بل کی مخالفت میں 163ممبرز نے ووٹ دیا۔ سپیکر ایاز صادق کی سربراہی میں قومی اسمبلی کا اجلاس جاری ہے، اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے 167 ارکان موجود ہیں جب کہ حکومتی اتحادیوں جے یو آئی (ف)کے 13، فنکشنل لیگ کے 5 اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے 3 ارکان بھی اجلاس میں شریک ہیں۔ دوسری جانب اپوزیشن میں شامل پیپلز پارٹی کے 45، تحریک انصاف کے 33، ایم کیو ایم کے 24، جماعت اسلامی کے 4 جب کہ مسلم لیگ (ق) اور اے این پی کے 2 ارکان شریک ہیں۔ الیکشن ایکٹ 2017 کے آرٹیکل 203 میں ترمیم کا بل پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما سید نوید قمر نے پیش کیا۔ وزیر قانون زاہد حامد نے کہا ہے کہ پولیٹکل پارٹیز ایکٹ نیا نہیں ہے بلکہ یہ ایکٹ1962میں نافذ کیا گیا ، بھٹودورمیں ایوب خان دورکی پولیٹیکل پارٹیزایکٹ شق 1975میں نکال دی گئی اور سابق صدر پرویز مشرف نے نا اہلی والی شق آئین میں شامل کی، کیونکہ وہ سابق صدر بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو سیاست سے باہر رکھنا چاہتے تھے، پولیٹیکل پارٹیز آرڈیننس ہاﺅس میں پیش ہوا لیکن کسی نے اس پر اعتراص نہیں کیا، تمام سیاسی جماعتوں کے ممبران نے اس بل کی حمایت کی تھی، بل ایوان میں منظورہواسینیٹ سے منظورہواتوکسی نے اعتراض نہ کیا اور جب یہ دیکھا گیا کہ اس کا فائدہ نواز شریف کو ہوگا تو انہوں نے اس کے خلاف ترمیم جمع کرادی۔ قومی اسمبلی میں پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے بل پیش کیا گیا، اس بل پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر قانون زاہد حامد کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف نے نواز شریف اور بینظیر بھٹو کوپارٹی کی سربراہی سے باہر رکھنے کے لئے پولیٹکل پارٹی ایکٹ میں نا اہلی کی شق شامل کی جبکہ پارلیمنٹ کی سب کمیٹی نے 17نومبر 2014کو اس شق کو نکالنے کی منظوری دی تھی۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ قانون میں شرط تھی کہ نا اہل شخص سیاسی جماعت کا سربراہ نہیں بن سکتا لیکن اس شرط کو الیکشن ایکٹ کے ذریعے ختم کردیا گیا۔ شق 203 میں جو ترمیم کی گئی وہ آئین کی رو کے خلاف ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری نے کہا ہے کہ مجھے خدشہ تھا کہ دستاویز میں کچھ گڑ بڑ ہوئی ہوگی، اس لیے میں نے آخری والی دستاویز پر دست خط نہیں کیے۔شازیہ مری مخالفین پر برس پڑیں اور کہا کہ ہمیں جمہوریت کا درس نہ دیا جائے، اندھیروں میں ملاقاتیں کرنیوالے جمہوریت کا درس دے رہے ہیں۔ جلسوں میں کہا جا رہا ہے کہ ہم نظریاتی ہیں جبکہ ذوالفقار بھٹو کا نام لے کر آپ جمہوری نہیں ہوسکتے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف اس پارلیمنٹ میں کتنی بار آئے؟ جب شق نکالی اس وقت پانامہ کا کچھ پتا نہیں تھا لیکن پانامہ کے بعد یہ صورت حال شدت پکڑ گئی۔قومی اسمبلی میں نا اہل شخص کے پارٹی سربراہ بننے کے خلاف پیپلز پارٹی کے بل کے دوران مسلم لیگ (ن) کے ظفر اللہ جمالی نے اپنی پارٹی سے اختلاف کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی حمایت میں ووٹ دیا۔ الیکشن ترمیمی بل2017ءقومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے نوید قمر نے پیش کیا، ان کے بل پر سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے ووٹنگ کرائی جس میں بل کی حمایت میں98ممبران نے رائے دی جبکہ 163ممبران نے بل کی مخالفت کی ، یوں بل کو ممبران اسمبلی نے کثرت رائے سے مسترد کردیا۔ بل کی ووٹنگ کے دوران مسلم لیگ (ن) کے رہنمائ ظفر اللہ خان جمالی نے حکومت کا ساتھ دینے کی بجائے پیپلز پارٹی کے بل کی حمایت میں ووٹ دیا۔ ظفر اللہ جمالی گذشتہ انتخابات میں آزاد امیدوار کی حیثیت میں ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور بعد ازاں مسلم لیگ(ن) میں شمولیت اختیار کی۔
پرویزمشرف نے بینظیر بھٹو‘ نوازشریف کو سیاست سے باہر رکھنے کیلئے نااہلی کی شق آئین میں
شامل کی: زاہدحامد‘ ترمیم آئین کی خلاف ورزی ہے: شاہ محمود قریشی‘ گڑبڑ ہوئی: شازیہ مری
50غیر قانو نی ارکان ،ترمیم کے حق میں 98,مخالفت میں 163ووٹ ،منظر نامہ کیسے تبدیل ہوا ؟
”نااہل شخص “پر بڑی پابندی ۔۔؟ قومی اسمبلی میں میدان سج گیا
اسلام آباد (نیااخبار رپورٹ) اپوزیشن کا نااہل شخص کے پارٹی سربراہ بننے پر پابندی کا بل آج قومی اسمبلی میں پیش ہوگا۔ نوازشریف نے لیگی ارکان کو آج ایوان میں حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کر دی ہے تاکہ بل کو ناکام بنایا جا سکے۔ دوسری طرف اپوزیشن بل منظور کرانے کیلئے متحرک ہو گئی ہے۔ الیکشن بل 2017ءکی شق 203میں ترمیم کا یہ بل سینٹ سے پہلے ہی منظور ہو چکا ہے اور آج قومی اسمبلی میں پرائیویٹ ممبر ڈے کے موقع پر منظوری کیلئے پیش کیا جائے گا۔ مجوزہ بل کے تحت کوئی بھی نااہل شخص سیاسی جماعت کا سربراہ نہیں بن سکتا۔ ذرائع کے مطابق حکومت کو قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل ہونے کے باوجود مشکلات کا سامنا ہے جس کی وجہ 70سے زائد ناراض حکومتی ارکان بتائے جا رہے ہیں۔ ایک اہم حکومتی رہنما نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ یہ بل قومی اسمبلی سے کثرت رائے سے مسترد کر دیا جائے گا۔ حکومت نے اس حوالے سے مکمل تیاری کر لی ہے۔ ناراض ارکان کے ایوان میں نہ آنے کی باتیں صرف افواہیں ہیں۔ مسلم لیگ (ن) میں کوئی رکن ناراض نہیں ہاں البتہ ان کی رائے میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے تمام ارکان نوازشریف کی قیادت میں متحد ہیں۔ دریں اثنا سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نوازشریف نے سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا اور مذکورہ بل سمیت مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا اور انہیں ن لیگ کے ارکان قومی اسمبلی کی آج کے اجلاس میں حاضری یقینی بنانے کا ٹاسک دیا۔ ذرائع کے مطابق سابق وزیراعظم نے ہدایت کی کہ لیگی ارکان کی حاضری یقینی بنائی جائے اور پارٹی صدارت پر پابندی کا بل مسترد کروانے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں نے بھی اپنے تمام ارکان کو آج کے اجلاس میں شرکت کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔ تمام اپوزیشن جماعتوں کے پارلیمانی رہنماﺅں نے ہر صورت اپوزیشن ارکان کی ایوان میں حاضری کو یقینی بنانے کیلئے اہم رہنماﺅں کو متحرک کر دیا ہے۔ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے پیپلزپارٹی کی پارلیمانی پارٹی کا ہنگامی اجلاس آج سہ پہر تین بجے طلب کر لیا۔ اجلاس میں مذکورہ بل کی منظوری کیلئے حکمت عملی طے کی جائے گی۔
بل آج پیش
ارکان اسمبلی کوبڑی خوشخبری مل گئی
اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور نے سیکرٹری مذہبی امور خالد مسعود چودھری کی مزاحمت کے باوجود سرکاری خرچ پر کمیٹی کا 10رکنی وفد ربیع الاول کو روضہ رسول پر حاضری کے لیے سعودی عرب بھجوانے کی منظوری دیدی، وزارت مذہبی امور کو آئندہ دس روز کے اندر وفد کے دورے کے تمام انتظامات مکمل کرنے کی ہدایت، وزیر مملکت مذہبی امور نے ہدایت پر عمل کیلئے تحریری حکم کے مطالبے پر وفد کے تمام تر اخراجات اٹھانے کی حامی بھرلی۔ کمیٹی کے تمام ارکان وزارت مذہبی امور کے سرکاری خرچے پر سعودی عرب جانے کیلئے یک زبان ہوگئے اوراپنے نام وفد میں شامل کرانے کیلئے ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کرتے رہے، پیپلزپارٹی کے اقلیتی رکن رمیش لال کی جانب سے سرکاری خرچے کی بجائے ذاتی خرچے پر دورے کی تجویز پر کسی بھی رکن نے کان نہ دھرے۔ کمیٹی کی چیئرپرسن سمیت جماعت اسلامی کے صاحبزادہ یعقوب، جے یو آئی کے مولوی آغا محمد سمیت تمام ارکان وفد کا دورہ سرکاری خرچے پر کرنے پر زور دیتے رہے۔
75ارکان اسمبلی کیخلاف نواز شریف نے ایکشن لے لیا ،سنگین صورتحال
لاہور (خصوصی رپورٹ) مسلم لیگ ن میں فارورڈ بلاک بننے کی صورت میں شریف خاندان کا سینٹ کے الیکشن سے پہلے اسمبلیاں توڑ دینے پر غور شروع کردیا۔ سینٹ انتخابات میں اسی صورت میں جایا جائے گا اگر پارٹی کے اندر بڑا فارورڈ بلاک نہ بنا۔ فارورڈ بلاک بننے کی صورت میں سینٹ انتخابات سے پہلے ہی اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں گی۔ باوثوق ذرائع کے مطابق دو حکومتی خفیہ اداروں نے اپنی رپورٹ میں یہ کہا کہ حدیبیہ کیس کھلنے کی صورت میں ارکان قومی اسمبلی کی طرح پنجاب کے اندر بھی پنجاب اسمبلی کے بہت زیادہ ارکان حکومت کا ساتھ چھوڑ سکتے ہیں اور وہ کسی اور پارٹی میں جانے کی بجائے بڑا فارورڈ بلاک بناسکتے ہیں اور یہ فارورڈ بلاک بناسکتے ہیں اور یہ فاروڈ بلاک سینٹ انتخابات میں حکومتی امیدوار کو ووٹ نہیں دے گا۔ جس سے سینٹ میں (ن) لیگ کی اکثریت نہیں بن سکے گی۔ رپورٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ صرف پنجاب ہی نہیں اس حوالے سے بلوچستان کے اندر بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ اسی وجہ سے ارکان پنجاب اور قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں حکومتی ہدایات کے باوجود حصہ نہیں لے رہے۔ رپورٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے جلد فارورڈ بلاک کی صورتحال سامنے آ جائے گی اور بہت سے ارکان نپجاب اسمبلی جن کی تعداد 100 سے زائد ہو چکی ہے، کھل کر سامنے آ سکتے ہیں اور وہ پارٹی چھوڑنے کی بجائے پارٹی کے اندر ہی نئی قیادت کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ اور ایسی صورت بننا شروع ہو جائے گی کہ سینٹ انتخابات کی صورت میں حکمران جماعت کو سب سے زیادہ مخالفت کا سامنا اپنے ہی ارکان کا کرنا پڑے گا۔ رپورٹ میں یہ بھی خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اچانک اتنے زیادہ استعفے بھی آ سکتے ہیں کہ جس سے غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق ن لیگ نئی حکمت عملی کے تحت ان رپورٹس اور موجودہ صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے اس تجویز پر عملدرآمد کا فیصلہ حالات کو دیکھ کرے گی۔ ذرائع کے مطابق بلوچستان کے اندر بھی اس پر کام ہو چکا ہے اور بہت سے ارکان اسمبلی جو بظاہر ن لیگ کے حمایتی نظر آتے ہیں وہ کسی بھی وقت کھل کر مخالفت میں جاسکتے ہیں۔ باوثوق ذرائع کے مطابق ایک اہم لیگی رہنما نے ایک نجی محفل میں اس بات کا اظہار بھی کیا کہ اگر پنجاب میں ارکان کی زیادہ تعداد ہمارا ساتھ چھوڑ گئی تو پھر فوری اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں گی۔ دریں اثناءمسلم لیگ (ن) میں فارورڈ بلاک کی تیاری کے شواہد منظر عام پر آنے لگے ہیں اور پارٹی میں توڑ پھوڑ شروع ہوگئی ہے جبکہ ارکان کی ناراضی عروج پر پہنچ چکی ہے۔ وزیراعظم، وفاقی وزراءاور پارٹی رہنماﺅں کی جمعرات کو اسمبلی پہنچنے کی کالز، ضلعی انتظامیہ کی طرف سے دباﺅ،اعلیٰ سطح کے رابطوں اور منت سماجت کے باوجود گزشتہ روز 78 ارکان قومی اسمبلی نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں شرکت نہیں کی ، بعد میں انتظامیہ کے دباﺅ اور پارٹی رہنماﺅں کی منت سماجت کے بعد بھی صرف مزید 16ارکان قومی اسمبلی میں آئے اور ووٹنگ میں حصہ لیا۔ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں 110اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں 126 لیگی ارکان آئے۔ ذرائع کے مطابق نوازشریف کی نااہلی کے باوجود پارٹی صدر بننے کیخلاف سینیٹ سے پاس ہونیوالی ترمیم کے قومی اسمبلی میں پیش ہونے کے وقت بھی (ن) لیگ کے 70 سے زائد ارکان اسمبلی حاضر نہیں ہونگے کیونکہ ان ارکان کا ماننا ہے کہ نوازشریف کو اب پارٹی کی سربراہی چھوڑ دینی چاہئے۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ اس صورتحال کو پارٹی کے اندر ایمرجنسی کے طور پر لیا جارہا ہے ، کچھ ارکان کا کہنا ہے کہ خطرے کی گھنٹی بج چکی، ن لیگ کو اندر سے ہی مزاحمت کا سامنا ہے۔ ارکان وزیر خزانہ اور گزشتہ 4سال میں رکھے گئے رویے سے نالاں ہیں۔ کچھ کا ماننا ہے کہ پارٹی کو شدت پسند نہیں بلکہ مفاہمتی اور مصالحتی پالیسی کی ضرورت ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ حکمران جماعت کے پاس قومی اسمبلی میں 188 ارکان ہیں لیکن پارلیمانی پارٹی میں صرف 110 نے شرکت کی۔ وزیراعظم نے غیر حاضر ارکان کی حاضری یقینی بنانے کیلئے وزراءکی ڈیوٹی لگائی کہ وہ ان کو فون کریں، زیادہ تر غیر حاضرارکان کے فون بند پائے گئے جبکہ جن سے رابطہ ہوا انہوں نے بتایا کہ وہ راولپنڈی آئے تھے دھرنے کی وجہ سے پہنچنے میں تاخیر ہوگئی۔کچھ نے کہا وہ ضروری کام سے شہر سے باہر ہیں، جبکہ کچھ کا کہنا تھا کہ وہ اپنے حلقہ میں ہیں۔ وزیراعظم نے پارلیمانی امور کے وزیر مملکت آفتاب شیخ کو ارکان سے رابطہ کرنے اور ان کی غیر حاضری کی وجہ جاننے کیلئے ہدایت جاری کردی۔ اجلاس میں ن لیگ کے ارکان کل اتنی بڑی تعداد میں اہم بل پاس ہونے کے دن ایوان سے غیر حاضری پر کئی سوالات اٹھائے گئے۔ ن لیگ کے غیر حاضر رہنے والے ارکان قومی اسمبلی سے وزیر کھیل ریاض پیزادہ، خسروبختیار، وزیر صحت سائرہ افضل تارڑ، وزیر خارجہ آصف، وزیر تجارت پرویز ملک، وزیر دفاع خرم دستگیر،شائستہ پرویز، نجف سیال، اظہر شاہ گیلانی، محمد خان ڈاھا، جعفر لغاری، حفیظ الرحمن خان دریشک، مخدوم علی حسن گیلانی، سیدایازعلی شاہ، طاہر چیمہ، ممتاز ٹمن، خادم حسین سمیت دیگر کئی ارکان کو خفت اٹھانی پڑی۔ دوسری جانب ن لیگی ارکان کے علاوہ کئی اہم ترین سینئر ارکان اسمبلی جن میں اپوزیشن لیڈر خورشیدشاہ ، سابق وزیراعظم ظفراللہ جمالی، جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی غیر حاضر رہے۔
انہیں راضی کرو، نواز شریف نے اسپیکر قومی اسمبلی کو اھم ٹاسک سونپ دیا
اسلام آباد (خبر نگار خصوصی) نئی مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیوں کی آئینی ترمیم پر سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی صدارت میں پارلیمانی جماعتوں کا اجلاس نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکا، پارلیمانی جماعتوں کے قائدین سے حتمی جواب مانگ لیا گیا، پاکستان پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم نے مردم شماری کے عبوری نتائج پر تحفظات دور کئے بغیر آئینی ترمیم کی حمایت سے انکار کر دیا، اپوزیشن کی بعض جماعتوں نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ پارلیمنٹ کو دونوں بڑی جماعتوں کی غفلت کا بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے جبکہ سپیکر سردار ایاز صادق نے توقع ظاہر کی ہے کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں نہیں جائے گا اور پارلیمنٹ میں اسے حل کر لیا جائے گا۔ پارلیمانی جماعتوں کے رہنما¶ں کا اجلاس منگل کو سپیکر سردار ایاز صادق کی صدارت میں پارلیمنٹ ہا¶س میں ہوا۔ مردم شماری کے عبوری نتائج پر تحفظات ظاہر کرنے والی جماعتیں اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے مسئلہ مشترکہ مفادات کونسل میں حل کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ اجلاس کی کارروائی کے دوران سپیکر اور حکومتی جماعت نے آئینی ترمیم پر سابقہ اتفاق رائے سے پیچھے ہٹنے پر متعلقہ جماعتوں سے گلے شکوے کئے۔ ذرائع کے مطابق اس حوالے سے یہ جماعتیں کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکیں۔ اجلاس ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہا، پارلیمانی جماعتوں میں اختلافات برقرار ہیں تاہم ان تمام جماعتوں نے دوٹوک الفاظ میں واضح کر دیا ہے کہ عام انتخابات بروقت ہونے چاہئیں۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا کہ تمام ارکان اپنی اپنی پارلیمانی جماعتوں کی قیادت سے رابطہ کریں گے۔ ان سے مشاورت کے بعد بدھ کو (آج) اپنے حتمی جواب سے یہ اراکین آگاہ کریں گے۔ ایک سوال کے جواب میں سپیکر نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ پارلیمنٹ اس معاملے کو حل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی اور یہ معاملہ سپریم کورٹ میں نہیں جائے گا۔ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما سید نوید قمر نے کہا کہ حکومت کی طرف سے ہمیں یہ تاثر دیا گیا تھا کہ مشترکہ مفادات کونسل میں یہ بات ہوئی تھی جس پر اس معاملے کو بین الصوبائی رابطہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا اور وہاں یہ معاملہ طے پا گیا تھا جبکہ سندھ حکومت نے ہمیں آگاہ کیا ہے کہ سی سی آئی میں قطعاً یہ معاملہ نہیں اٹھا تھا۔ بین الصوبائی رابطہ کمیٹی میں جب اس پر بات ہوئی تو سندھ نے موقف اختیار کیا کہ اسے پہلے مشترکہ مفادات کونسل میں لے جائیں۔ سید نوید قمر نے کہا کہ میں اپنے ساتھیوں پر اس طرح کی بات کر کے بار بار کیچڑ نہیں اچھالنا چاہتا۔ مسئلے کو سی سی آئی میں لے جائیں وہاں جو فیصلہ ہو جائے ہمیں قبول ہو گا۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ میں حل ہو اس کا کوئی راستہ نکلنا چاہئے لیکن یہ بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ کسی بھی موقع پر حکومت یہ معاملہ مشترکہ مفادات کونسل کے سامنے نہیں لائی۔ انہوں نے کہا کہ کوئی سیاسی جماعت، کوئی ادارہ انفرادی طور پر بھی سپریم کورٹ جا سکتا ہے کسی پر قدغن تو نہیں لگائی جا سکتی۔ عبوری نتائج پر ہمارے تحفظات موجود ہیں۔ آئین پر بات کریں۔ سید نوید قمر نے واضح کیا کہ نااہل شخص پر سیاسی جماعت کا سربراہ بننے کی پابندی کے بل کے معاملے پر حکومتی شکست کو دیکھ کر گذشتہ روز قومی اسمبلی کا اجلاس غیرمعینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا گیا۔ حکومت اس معاملے میں ملوث ہے اور سمری بھجوا کر صدارتیفرمان منگوا لیا۔ حکومت کے پاس دوتہائی اکثریت ہے اور نہ کورم پورا کرنے کے لئے مطلوبہ تعداد میں ارکان ایوان میں موجود ہوتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ دوبارہ بات چیت ہوئی ہے ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی نے اپنا موقف بیان کیا۔ پاکستان تحریک انصاف واضح کر دینا چاہتی ہے کہ ہم جمہوریت کے تسلسل اور بروقت انتخابات چاہتے ہیں۔ قبل ازوقت انتخابات کا مطالبہ بھی آئینی اور جمہوری ہے۔ جب حکومتیں غیرفعال ہو جائیں تو قبل ازوقت انتخابات میں کوئی قباحت نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ہمیں مورد الزام ٹھہرا رہی تھی کہ اپوزیشن آئینی ترمیم میں رخنہ نہ ڈالے۔ تاخیر سے معاملات الجھ جائیں گے۔ اب حکومت نے قومی اسمبلی کا اجلاس اچانک ملتوی کرا کے ثابت کر دیا ہے کہ اس کے پاس مطلوبہ ارکان ہی نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 228 ارکان آئینی ترمیم کی منظوری کے لئے چاہئیں۔ ہمارے تو 30 ارکان اگر ہم اپنے سارے ارکان لے آئیں تو کیا حکومت ترمیم منظور کرا لے گی۔ بات یہ ہے کہ نہ دوتہائی اکثریت نے کے پاس ہے اور نہ کورم پورا کرنے کے لئے حکومت کے پاس مطلوبہ ارکان موجود ہوتے ہیں۔ حکومت کے 10 فیصد ارکان بھی قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کرتے اور ہماری اطلاعات کے مطابق پاکستان مسلم لیگ کے اکثریتی ارکان حکومتی پالیسی سے متفق نہیں ہیں وہ نہیں چاہتے کہ اداروں کے درمیان کسی بھی قسم کی محاذ آرائی ہو اور یہ بہت بڑا گروپ ہے جو کہ حکومتی طرز عمل سے نالاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ روز ہم پرائیویٹ ممبر ڈے کے موقع پر پارلیمنٹ کے لئے نااہل شخص پر سیاسی جماعت کا سربراہ بننے کے بل جو کہ سینیٹ سے منظور ہو چکا ہے لانا چاہتے تھے۔ حکومت شکست کے خوف سے دوچار ہے اور اجلاس ہی ملتوی کروا دیا۔ ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ 2008ءمیں مردم شماری ہونا تھی پیپلزپارٹی کے دور میں مردم شماری ہو سکی نہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت آغاز ہی میں اس حوالے سے کوئی اقدام کر سکی۔ دونوں بڑی جماعتوں کی غفلت کا بوجھ پارلیمنٹ کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ بالخصوص کراچی کی آبادی کم ظاہر کرنے پر تمام سٹیک ہولڈرز میں مشاورت ہوئی ہے انہوں نے عبوری نتائج کو مسترد کر دیا ہے، ہمارے تحفظات موجود ہیں جب نتائج کے حوالے سے تحفظات دور نہیں کئے جا رہے تو حلقہ بندیاں کیسے ہو سکیں گی۔ تاہم انتخابات بروقت ہونے چاہئیں۔ گذشتہ روز اجلاس میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلزپارٹی، پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی، اے این پی، ایم کیو ایم، جے یو آئی(ف)، عوامی مسلم لیگ، مسلم لیگ (زیڈ) اور دیگر جماعتوں کے ارکان شریک تھے۔ شیخ رشید نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سارے پارلیمانی رہنماﺅں کا سپیکر سے مطالبہ تھا کہ انہوں نے گزشتہ روز اجلاس کیوں منسوخ کیا اس لئے کیونکہ منگل کو نا اہلی کا بل اسمبلی میں آنا تھا، جس پر سپیکر قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے صدارتی احکام کی روشنی میں اجلاس منسوخ کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ الیکشن تاخیر سے ہونے کا خدشہ ہے، سپیکر نے الیکشن کمیشن کو کہا ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں جائیں، کیونکہ 10نومبر تک حلقہ بندیاں مکمل نہیں ہو سکتیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پنجاب کی 11سیٹیں متاثر ہو رہی ہیں، جس کا مقصد 33قومی اسمبلی کے حلقے متاثر ہوں گے، اگر الیکشن کمیشن سپریم کورٹ گیا تو الیکشن بروقت نہ ہو سکیں گے۔ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے کہا کہ بنیادی طور پر ہمیں مردم شماری پر اعتراض ہے، ہم اس معاملے میں ہائی کورٹ گئے ہوئے ہیں اور سپریم کورٹ میں بھی جائیں گے کیونکہ سندھ کی تعداد کم کرنے کا مطلب سیٹیں کم کرنا ہے، جتنی آبادی ہو گی، اتنے ہی فنڈز ملیں گے۔ انہوں نے کہا کہ افغانیوں کو مردم شماری میں شمار کرنے سے اس حلقے کی تعداد میں اضافہ تو ہو جائے گا لیکن کیا یہ منصفانہ تقسیم ہو گی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا موقف تھا کہ بروقت حلقہ بندیاں نہ ہوئیں تو وقت پر الیکشن نہیں ہو سکیں گے، بروقت الیکشن کرنا مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی ذمہ داری ہے، انہوں نے 9سال کی تاخیر سے کیوں مردم شماری کرائی۔ پیپلز پارٹی کے رہنما سید نوید قمر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے نئی حلقہ بندیوں سے متعلق مشترکہ مفادات کونسل سے اجازت نہیں لی، نمبرز میں فرق ہونے کی وجہ سے سیٹوں کی تعداد میں بھی فرق آئے گا، انہوں نے الیکشن کمیشن کی جانب سے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کے بارے میں کہا کہ وہ ایک ادارہ ہے، سپریم کورٹ کو جانے سے کوئی کسی کو نہیں روک سکتا۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے گزشتہ روز قومی اسمبلی کا اجلاس اس لئے منسوخ کیا کیونکہ نا اہل شخص کو پارٹی سربراہ کے روکنے کا بل اسمبلی میں آتاتھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنی پارٹی سے اجلاس کے حوالے سے معاملہ رکھیں گے اور آج اس بارے میں اجلاس میں دیکھیں گے۔ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے سابق وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی ہے، ملاقات پنجاب ہاو¿س میں کی گئی، جس میں ایاز صادق نے نواز شریف کو حلقہ بندیوں پر ہونے والے پارلیمانی رہنماوں کے اجلاس سے متعلق بریف کیا۔ ملاقات میں ایاز صادق نے آئینی ترمیم کے معاملے پر پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کے موقف سے پیدا ہونے والے ڈیڈلاک سے آگاہ کیا ،اس موقع پر نواز شریف نے اکثریتی جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے ایاز صادق کو ہدایت جاری کیں کہ دیگر سیاسی جماعتوں سے معاملات طے کرنے اور مردم شماری کے عبوری نتائج پر رائے عامہ ہموار کی جائے۔اس سے قبل سابق وزیراعظم نوازشریف سے نیشنل پارٹی کے میر حاصل بزنجواورڈاکٹرعبدالمالک پر مشتمل وفد نے پنجاب ہاس میں ملاقات کی ، جس میں ملکی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا، اس کے علاوہ نئی حلقہ بندیوں اورمجوزہ آئینی ترمیم پربھی مشاورت ہوئی ،ملاقات میں بلوچستان حکومت کی کارکردگی پربھی بات چیت کی گئی۔ سابق وزیراعظم نوازشریف سے وزرائے مملکت جنید انوار چودھری،ارشد لغاری اورسینیٹر سعود مجید نے بھی ملاقات کی جس میں ملکی سیاسی صورتحال پر بات چیت کی گئی تھی۔