تازہ تر ین

باتیں سیاست دانوں کی

خالد محمودرسول(مہمان کالم
گرمیِ بازارِ سیاست ہی کچھ اس قدرہے کہ سیاست دانوں کی باتیں ہی ہرجگہ زیرِ بحث ہیں۔ عوامی تحریک کے سربراہ نے17جنوری کو ایک فیصلہ کن راﺅنڈ کااعلان کیا تو بات سے باتیں نکلتی گئیں۔ ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے والے اورایک دوسرے کو دیکھنے کے روادارنہ ہونے والے دیکھتے ہی دیکھتے ایک نکتے پر جمع ہوگئے۔ لاہور کے جلسے کی ہوا کچھ ایسی باندھی گئی یابندھ گئی کہ جیسے اس جلسے کے ساتھ ہی حکومت لرز جائے گی لیکن جلسے کے شرکاءکی تعداد اور اسٹیج پر آصف علی زرداری اور عمران خان کے علیحدہ علیحدہ آنے نے اس ہوا کازور کچھ کمزور کردیا۔ اب آنے والے دن بتائیں گے کہ یہ تحریک کیا رخ اختیار کرے گی اور سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟۔
آج کے سیاست دانوں کی باتیں سنتے ہی تو اکثر گزرے کل کے سیاستدانوںکی باتیں بھی ذہن میں تازہ ہو جاتی ہیں۔ وہی شعلہ بیانیاں‘ وہی ڈیڈ لائنز‘ وہی جوش وجذبہ۔ چند ہفتے قبل ایک کتاب ہاتھ لگی تو بے اختیار پڑھتے ہی چلے گئے۔ موضوع بھی دلچسپ اورانداز داستان گوئی کی طرح دل نشین۔ کتاب کا عنوان ہی اپنا تعارف آپ بنا‘ باتیں سیاستدانوں کی۔ پاکستان کی تاریخ کے وسطی دور کے ان سیاستدانوںکی باتیں جن کے بغیر ہماری سیاسی کہانی مکمل نہیں ہوسکتی۔ ایوب خان‘ شیخ مجیب الرحمان‘ذوالفقارعلی بھٹو‘ اصغر خان‘ نوابزادہ نصراللہ خان‘ سید مودودی‘ ضیاالحق‘ قاضی حسین احمد‘ملک معراج خالدسمیت بہت سے اورسیاستدانوں کاتذکرہ ہے۔ معروف صحافی ضیاشاہد نے مختلف اوقات میں ان سیاستدانوں کے ساتھ اپنی ملاقاتوں اورانٹرویوز پرمبنی یادداشتیں لکھیں اورقلم فاﺅنڈیشن نے باتیں سیاستدانوںکے عنوان سے ان یادوں اور تاثرات کو چھاپ کر محفوظ کردیا۔
17جنوری کو لاہور کے جلسے کی جوشیلی تقاریر سنتے ہوئے یاد آیا کہ پچھلی چند دہائیوں میں ایسی تقاریرکئی بار سنیں۔ ا ن تقاریر میں نئے سویروں کی امید کے دعوے بھی سنے اوراحتساب کے مطالبے بھی۔ نتیجہ کیا نکلا؟ہمارے سامنے ہے۔ سیاست کے اس خارراز میں ہماری تاریخ کے چند نہایت معتبر سیاستدانوں کی چند حسب حال باتیں اسی کتاب سے پیش ہیں۔
ایوب خان کااقتدارچھوڑنے کے بعد ایک انٹرویومیں سے ایک اقتباس….میں نے اپنی دانست میں ملک کی بڑی خدمت کی۔میرے عہدسے پہلے کا پاکستان دیکھیں اورآج کے ملک کاجائزہ لیں لیکن جب مجھے شیخ مجیب الرحمان جو انڈین ایجنٹ تھا کوپیرول پررہا کرکے اسلام آباد بلانا پڑا اورساری سیاسی جماعتوں کواس لئے لڑتے ہوئے دیکھا تو مجھے سخت پریشانی ہوئی۔انہی دنوں انٹیلی جنس ذرائع نے مجھے ایک رپورٹ بھیجی کہ لاہور میں ایک جلوس میں ایک کتے کے گلے میں ایوب خان لکھ کر اسے مال روڈ پر چلایاگیا اورجلوس میں شامل لوگوں نے مجھے بے ہودہ گالیاں دیں تو میرا دل ڈوب گیا اور میں نے اقتدار چھوڑنے کاخود فیصلہ کیا۔
شیخ مجیب الرحمن نے پاکستان کے بارے میں1970ءکے انتخابات کے انعقاد سے کچھ دیر قبل کیا کہا‘سنئے….اگر آپ لوگ چاہتے ہیں کہ پاکستان قائم رہے تو بنگالیوں کوان کاحق دیناپڑے گا۔ پیرٹی جیسے قانون کہ آبادی میں زیادہ ہونے کے باوجود مگر مغربی پاکستان سے زیادہ نمائندگی نہیں ملے گی‘ اب نہیں چل سکتے۔ اگر ہمیں ہمارا حق نہ ملا تو نتائج کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے۔ یہ بوٹوں والے زبردستی ہمارے علاقے پر اسلام آباد کاقبضہ نہیں رکھ سکتے….وقت تیزی سے گزررہا ہے اور مجھے لگتاہے کہ جو کچھ ہمارے خلاف بیان ہورہا ہے وہ ہمیں دیوار سے لگا دے گا‘ پھر میں بھی کچھ نہ کرسکوں گا اورسب کچھ آپ کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ بزرگ سیاستدان اصغر خان کاحال ہی میں انتقال ہوا۔1977ءکی تحریک میں وہ بھٹو کے سب سے کٹر مخالف کے طورپر نمایاں ہوئے۔ ضیا الحق کے حکومت سنبھالنے کے کچھ دیر بعد ایک انٹرویو میں اس سوال پر کہ آپ تو پی این اے کے دنوں میں یہ تقریر کرچکے تھے کہ بھٹو کوکوہالہ پل پرپھانسی دیں گے‘ اب آپ ان کے ساتھ کیوں کھڑے ہیں؟ اصغر خان نے جواب دیاکہ جمہوریت بچانا ضروری ہے اورفوجی ڈکٹیٹر کی بنائی ہوئی پارٹی کی مخالفت لازم ہے۔ پی این اے کی تحریک اورانتخابات سے قبل ایک دوسرے موقع پر ایک انٹرویوسے اقتباس کچھ یوں ہے…. معصومیت سے بولے بھٹو کی حکومت ختم ہونے والی ہے۔ پوچھا گیا کہ کیسے؟تو کہنے لگے کہ پاکستان جیسے ملکوں میں تبدیلی ووٹ سے نہیں آیا کرتی۔ پھر اپنے ایک ہاتھ کے اوپر کچھ فاصلے پردوسرا ہاتھ رکھا اورکہنے لگے کہ حکومت وقت کی سب سے بڑی اپوزیشن بن جاﺅ اورتبدیلی کا انتظار کرو‘ یہاں جوفورسز تبدیلی لاتی ہیں جب وہ ایسا کریں گی تو انہیںمعلوم ہوناچاہئے کہ نمبر ون کو ہٹا دیاجائے تو نمبرٹو کی باری آنی چاہئے۔
نوابزادہ نصر اللہ خان کے بغیر پاکستان کی سیاسی تاریخ ادھوری ہے۔ گوان کی پارٹی تو بہت مختصر تھی لیکن ان کا کردار پاکستان کی تاریخ میں سیاسی اتحاد بنانے اورحکومتوں کو پچھاڑنے میں بہت نمایاں رہا۔ سیاسی ضرورت کے مطابق ملک دشمنی کے لیبل بھی اس سیاست کاحصہ رہے اور آج تک ہیں۔1977ءکے الیکشن کے بعد ایک پریس کانفرنس کاتذکرہ کچھ یوں ہے….آخر میں نوابزادہ نصراللہ خان نے کہا‘ دیکھیں جی! حد ہوگئی اور ثابت ہوگیا کہ پاکستان اوربھٹو ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ نہیں رہ سکتے جی! پاکستان کو آگے چلنا ہے تو بھٹو سے نجات حال کرنا ہوگی….پھریوں ہواکہ اچانک نوابزادہ صاحب بدل گئے۔ چند برس بعد نوازشریف صاحب کی حکومت تھی۔ ساری عمرکی اپوزیشن کے باوجود یہ پہلا موقع تھاکہ انہوں نے دھڑا تبدیل کرلیاتھا۔ انہوں نے کہا نہیں جی!یہ ثابت ہوگیا کہ نواز شریف اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔
1970ءکے الیکشن میں جماعت اسلامی میدان میں اتری تو کچھ حلقوں کی رائے میں انہیں کافی سیٹیں ملنے کی توقع تھی لیکن نتیجہ برعکس آیا۔ جماعت اسلامی کے بانی اورسربراہ سید ابواعلیٰ مودودی سے الیکشن کے بعد ایک انٹرویوسے اقتباس….اس سوال پر کہ جناب آپ کوتویکسر ناکامی ہوئی‘ سید مودودی صاحب کے چہرے پر کمال کا اطمینان تھا۔ لگتاتھاکہ ان پرکوئی ٹینشن نہیں‘ وہ بولے پہلے یہ سمجھنا پڑے گا کہ ایک لادین یعنی سیکولراورمسلمان کے نزدیک کامیابی کاتصور کیاہے۔ ہمارے نزدیک ہم کامیاب رہے کہ جو کچھ ہمارے بس میں تھا اسے لڑائی میں جھونک کر ہم نے ہر ممکن کوشش کی لہٰذا دنیاوی طورپر ہم ناکام نظر آتے ہیں لیکن دین کے اعتبار سے ہماری جدوجہد میں مکمل یکسوئی تھی‘ حتی المقدور کوشش اورجوممکن ہوسکتاتھا ہم نے کیا۔
سیاست کے مدوجذر کہیں یانیرنگیِ زمانہ‘ لاہور کے جلسے میں مخالف اول کو شیخ مجیب الرحمان کے خطاب سے نوازا گیا۔ اس سے قبل مودی کے یارہونے کاطعنہ سیاسی بیانئے کامرکزی نکتہ بنارہا۔ دائروں میں گھومتی اس سیاست میں80ءکی دہائی میں اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب اورمتحدہ اپوزیشن آئی جے آئی کے لیڈر نوازشریف پی پی پی کی لیڈر اورسابق وزیراعظم بے نظیربھٹو کو سکیورٹی رسک قرار دیتے نہ تھکتے تھے‘ آج وہی لیبل ان کی طرف لوٹ کے آرہا ہے۔ باتیں سیاستدانوں کی پڑھ کر اندازہ ہوا کہ حب الوطنی اورغداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے کا رواج کم ہوا نہ سیاسی مصلحت کے لئے بیانات اورپوزیشن بدلنے کی روش میں تبدیلی آئی۔ رفیع رضا کا ایک حسب ِحال شعر اس المیے کو کچھ یوں بیان کرتا ہے:
عہد شکنی ہو خیانت ہو ریاکاری ہو
کچھ بھی آدابِ سیاست کے منافی نہیں کیا
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)
٭….٭….٭



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv