تازہ تر ین

سنی اتحاد کونسل کااچھا فیصلہ

یہ 2018میں جولائی کی 25تاریخ تھی۔پاکستان میں عام انتخابات کی پولنگ ہوچکی تھی اور ملک بھرمیں ووٹوں کی گنتی کا عمل جاری تھا۔ میں ان دنوںٹی وی چینل 92نیوز میں ایگزیکٹوپروڈیوسرتھا۔ نیوزروم میں الیکشن ٹرانسمیشن کے آپریشن کوسپروائز کرنے کے ساتھ ساتھ الیکشن سیل سے انتخابی نتائج لے کر ان کو آن ایئر کرنے کاسلسلہ جاری تھا۔ابھی ابتدائی نتائج ہی آنا شروع ہوئے تھے ۔الیکشن کے مواقع پرہمیں علم ہوتا ہے کہ الیکشن کی پوری رات ہی جگراتے کی رات ہوتی ہے ۔جب تک نتائج مکمل اور کسی جماعت کی حکومت بننے کی طرف صورتحال واضح نہ ہوجائے سارااسٹاف ہی دفتر میں موجود رہتاہے۔اس رات بھی شروع میں تو نتائج بڑی تیزی سے آئے لیکن رات دس بجے کے بعد نتائج آنے کی رفتار سست ہوگئی۔ہم نے ایک گھنٹہ انتطار کیا لیکن نتائج آنے کی رفتار بہتر ہونے کی بجائے مزید سست ہونے لگی۔اس صورت حال میں نتائج کی سست رفتار کسی کی ہار جیت سے زیادہ بڑی خبر بن گئی ۔رات بارہ بجے کے بعد نتائج مکمل رک گئے ۔خبر یہ آئی کہ الیکشن کمیشن نے نتائج کی ترسیل کے لیے جو رزلٹ مینجمنٹ سسٹم( آر ٹی ایس )بنایا تھا وہ خود ’’مینج‘‘ کیا جاچکا ہے ۔
سب پارٹیوں کی طرح مسلم لیگ ن بھی الیکشن کے نتائج کا انتظار کررہی تھی ۔میاں نوازشریف اور مریم نوازجیل میں تھے اور شہبازشریف ماڈل ٹاؤن میں ن لیگ کی قیادت کررہے تھے۔الیکشن سے پہلے پارٹی کی توڑ پھوڑ اور مقدمات کے باوجود ن لیگ کو یقین تھا کہ پانچ سال میں ان کی حکومت نے جو کام کیے ہیں اس کے بدلے انہیں ووٹ ضرور ملیں گے۔دوہزار تیرہ میں نتائج آنے کا یہ عالم تھا کہ نوازشریف نے رات 11بجے ہی وکٹری اسپیچ کرکے اپنی حکومت بنانے کا اعلان کردیا تھا۔ن لیگ اسی حساب میں بیٹھی تھی کہ آر ٹی ایس ہی بیٹھ گیا۔ پاکستان میں نتائج آنا بندہوجائیں تو یہی سمجھا جاتا ہے کہ ان کی مینجمنٹ ہونا شروع ہوگئی ہے ۔یہ پیغام ن لیگ تک پہنچ گیا کہ اب ان کی خواہش اورامید کے مطابق نتائج نہیں ہوں گے ۔
وکٹری اسپیچ کے انتظار میں بیٹھے شہبازشریف رات دوبجے کے قریب ٹی وی پر نمودار ہوگئے ۔ان کے ساتھ ان کے باقی کے قائدین بھی تھے۔اسی رات شہبازشریف نے پریس کانفرنس میں انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکارکرتے ہوئے الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگادیا۔رات گزر گئی اور ساتھ ہی آر ٹی ایس بھی اٹھنا شروع ہوگیا۔اگلے دن جب نتائج آئے تو پی ٹی آئی کو سادہ اکثریت تو نہ مل سکی لیکن وہ ایک مخلوط حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی ۔ان نتائج کو دیکھ کر مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور مولانا فضل الرحمان ایک دوسرے کے قریب آگئے۔ ان جماعتوں نے رابطے کیے اور ن لیگ کے بعد باقی جماعتوں نے بھی الیکشن نتائج کو مستردکرکے دھاندلی کے الزام لگادیے اور دوہزار اٹھارہ کو آرٹی ایس الیکشن کانام دے دیا گیا۔
ایک طرف عمران خان حکومت بنانے کے لیے کام کررہے تھے تو دوسری طرف اپوزیشن کی جماعتیں دھاندلی کے خلاف احتجاج کی منصوبہ بندی کررہی تھیں۔ ان سب جماعتوں نے الیکشن کے دو ہفتے بعد8اگست کو اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے باہر احتجاج کی کال دے دی۔احتجاج کا دن آیا تو مولانا الیکشن کمیشن کے باہر خود موجود تھے لیکن شہبازشریف ویسے ہی اس احتجاج میں نہ پہنچ سکے جیسے وہ نوازشریف کو لینے ایئرپورٹ نہیں پہنچے تھے۔ن لیگ کی طرف سے راجا ظفرالحق شریک ہوئے۔اسی طرح پیپلزپارٹی کی طرف سے بھی نہ بلاول شریک ہوئے اور نہ ہی آصف زرداری وہاں پہنچے۔اس کے بعد مولانا نے سب جماعتوں کو مینڈیٹ واپس ملنے تک قومی اسمبلی میں نہ جانے کا مشورہ دیالیکن باقی جماعتوں نے سسٹم اور پراسس کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔انہوں نے پی ٹی آئی کی حکومت اور عمران خان کے خلاف سلیکٹڈ کا بیانیہ بنایا جس نے آخرتک عمران خان کا پیچھا کیا۔انہوں نے مولانا کو بھی منایا کہ سب دھاندلی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے قومی اسمبلی جائیں گے اور بائیکاٹ کرکے سسٹم کو ڈی ریل نہیں کریں گے۔اُس وقت ان جماعتوں نے نتائج کو قبول کرکے سسٹم کے ساتھ چلنے کا بہترین فیصلہ کیا اور ملک کو ہیجان اور عدم استحکام کی نظر کرنے سے گریز کیا۔
اب ان جماعتوں کی جگہ پی ٹی آئی المعروف سنی اتحاد کونسل کھڑی ہے۔نتائج کی رات وہی کچھ ہوا جو کچھ اٹھارہ میں ہوا تھا۔پی ٹی آئی نے مخصوص نشستوں کے لیے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی اور ساتھ ہی دھاندلی کے خلاف احتجاج بھی شروع کردیا۔ہمیں لگتا تھا کہ سنی اتحاد کونسل بہت سخت احتجاج کرے گی اور دھاندلی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے شاید اسمبلیوں کے بائیکاٹ کی طرف جائے گی لیکن اچھی بات یہ ہے کہ انہوں نے بھی پی ڈی ایم کی جماعتوں کی طرح اس جمہوری سسٹم کاحصہ بننے کا فیصلہ کیا ہے۔پنجاب میں سنی اتحاد کونسل نے حلف اٹھایا۔ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا الیکشن بھی لڑاصرف وزیراعلیٰ کے انتخاب کے موقع پر واک آؤٹ کیا جو پارلیمان میں ایک معمول کی کارروائی ہوتی ہے۔اس کے بعد خیبرپختوا میں تو ان کی اپنی پارٹی کی اکثریت تھی اس لیے انہوں نے کے پی میں حکومت بنالی ۔وہاں وہ کسی قسم کے احتجاج کی طرف نہیں گئے حالانکہ وہاں تو ان کی اپنی اکثریت تھی۔کسی کے مرہون منت بھی نہیں تھے۔ وہ چاہتے تو بطور احتجاج حکومت سازی کو طول دے سکتے تھے ۔اسپیکر ان کا اپنا تھا ۔ لیکن انہوں نے سسٹم کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا ہے جو ایک اچھی بات ہے۔
قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں سنی اتحاد کونسل نے احتجاج کیا ۔لیکن وہ سب ایوان میں بھی آئے اور سب نے حلف بھی اٹھالیا۔ یہ ایک بار پھر پیغام تھا کہ احتجاج اپنی جگہ لیکن وہ مینڈیٹ کو تسلیم اور قبول کررہے ہیں۔ اسی طرح اسپیکر کے انتخاب کے وقت بھی احتجاج کیا۔بلکہ اس قدر احتجاج کہ ایک مرحلے پر جب عمرایوب تقریرکررہے تھے وہ اس قدر جذباتی اور غصے میں بول رہے تھے کہ لگ رہا تھا کہ وہ آج کسی صورت اجلاس نہیں چلنے دیں گے اور شاید اسپیکر کا انتخاب ہی رک جائے لیکن دس منٹ بعد اسپیکر کے انتخاب کا اعلا ن ہو اتو ۔سنی اتحاد کونسل کی طرف سے عامر ڈوگر الیکشن لڑنے کے لیے موجود تھے اور ایک پولنگ ایجنٹ بھی انہوں نے مقررکیا۔سب نے آرام اور سکون نے خود بھی ووٹ کاسٹ کیے اور دوسری سائیڈ کو بھی کاسٹ کرنے دیے۔اسپیکر اور ڈپٹی کا جس طرح انتخاب ہوا آج اسی طرح قائد ایوان یعنی وزیراعظم کا الیکشن بھی ہوجائے گا۔آج پھر احتجاج ہوگا ۔نعرے لگیں گے۔ سنی اتحاد کونسل والے ان کو چور کہیں گے اور جواب میں وہ اپنی گھڑیاں اتار کر سنی اتحاد کونسل والوں کو دکھائیں گے ۔اسی طرح یہ ایوان چلے گا اور وقت کی گرد جس طرح دوہزا ر اٹھارہ کی دھاندلی پر پڑی تھی اسی طرح وقت کی گرد کے نیچے دھاندلی کے خلاف جذبات اور احتجاج اب بھی دب جائے گا۔کچھ دنوں بعد الیکشن ٹریبونلز کام شروع کریں گے پھر جیتنے والے ایوان میں مصروف ہوجائیں گے اور ہارنے والے عدالتوں میں ثبوت دیتے پھریں گے ۔اسی کشمکش میں کچھ فیصلے آئیں گے جو آگے جاکر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں چیلنج ہوجائیں گے وہاں سے اسٹے ملیں گے اور اسی طرح جیتنے والے ارکان اپنی مدت پوری کرجائیں گے جس طرح گزشتہ اسمبلی میں ڈپٹی اسپپکرقاسم سوری نے اسٹے لے کر کرلی تھی۔میں سنی اتحاد کے جمہوری پراسس میں شامل ہونے کی تعریف کرتا ہوں کہ کم ازکم اس بارانہوں نے جذباتی فیصلہ نہیں کیا ۔شاید انہوں نے پہلے اسمبلیوں سے استعفوں اور دوصوبوں کی حکومتیں تحلیل کرنے سے کوئی سبق سیکھا ہو۔جو بھی ہوان کا یہ اقدام ملک کے لیے اچھا ہے ۔جمہوریت کے لیے اچھا ہے۔جتنا بھی احتجاج کرنا ہے ایوان کے اندرکریں۔یہ ملک چلے ۔ ملک میں سیاسی استحکام آئے اور ہمارا پیچھے کی طرف جانے والا سفر رک جائے۔
ایک بات اور کہ مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کا حق ہے اس کو مل ہی جانی ہیں ۔بہتر ہے کہ الیکشن کمیشن خود فیصلہ کرلے یہ سیٹیں ان کے حوالے کردے نہیں تو عدالت نے فیصلہ کردینا ہے۔مجھے یقین ہے کہ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کا جو طے شدہ پراسس سنی اتحاد کونسل فالو نہیں کرپائی اس کو ایک طرف رکھ کر خصوصی حالات کے تحت ان کو رعایت دیتے ہوئے الیکشن کمیشن یہ سیٹیں ان کو دے دے گا۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv