تازہ تر ین

پاکستان سے محبت ہمارا ایمان

انور قریشی …. بحث و نظر
مورخہ 7 جنوری خبریں میں ظہور دھریجہ کا کالم بعنوان ”بھارت کی مخالفت ایمان کا حصہ“ شائع ہوا۔ دھریجہ جی سمجھتے ہیں کہ وہ عقل کل ہیں‘ صرف انہی کی بات ہی حرف آخر ہے۔ اختلاف رائے برداشت کرنا ان کے خون اور مزاج میں شامل نہیں۔ دلائل و حقائق کے پہاڑ کھڑے کردیئے جائیں ”اعتراف حقیقت کی دولت و نعمت قدرت نے اس کے مقدر میں لکھی ہی نہیں۔ کسی کے گھر پر جاکر کسی پر سنگ باری کرنے والے دھریجہ جی پھر یہ امید بھی رکھتے ہیں کہ اس کی طعنہ زنی‘ بدگوئی کے جواب میں لوگ اسے ”موتیے“ اور ”گل داﺅدی“ کے گجرے پیش کریں۔
کچھ لوگ بچھا کر کانٹوں کو گلشن کی توقع رکھتے ہیں
شعلوں کو ہوائیں دے دے کر ساون کی توقع رکھتے ہیں
قارئین کرام ہمارا صاف ستھرا اور واضح مو¿قف یہ ہے کہ زبان رنگ نسل کی بجائے انتظامی بنیادوں پر صوبہ ملتان بنایا جائے۔ تاریخی طور پر 712ءسے 2 جون 1818ءتک صوبہ ملتان کی صوبائی حیثیت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ پوری دنیا میں نئے صوبے انتظامی طور پر بنائے جاتے ہیں۔ افغانستان جیسے پسماندہ ملک میں بجائے زبان‘ رنگ نسل کے انتظامی طور پر 34 اضلاع کے نئے 34 صوبے بنائے گئے۔ بھارت میں مشرقی پنجاب کے تین صوبے بنائے گئے۔
دھریجہ جی پاکستان میں بھی ”گلگت بلتستان“ کا صوبہ شہر کے نام پر ہی بنایا گیا ہے۔ ملتان میں ”خبریں مشاورت“ کا ریفرنڈم آپ نے بنفس نفیس بچشم خود ملاحظہ کیا۔ پورے ملتان کے تمام مکتبہ فکر کے لوگوں کا اظہار خیال چینل ۵ کی ویڈیو میں محفوظ ہے۔ سرائیکستان کے نمائندہ حق میں صرف چھ لوگ جبکہ انتظامی بنیادوں پر صوبے کے قیام کے حق میں 22 لوگوں نے بات کی۔ جذب پذیری کے فطری اصول کو بخوبی سمجھتے ہوئے دہلی اور لکھنو¿ ”روہتک حصار“ کو بھلا کر صرف اور صرف ”صوبہ ملتان“ کی بات کرنا سرزمین پاکستان اور جنم دھرتی ملتان سے محبت وفاداری کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہوگی۔
دھریجہ جی ثواب اور گناہ کی اپنی اپنی جگہ پر اہمیت برقرار ہے۔ دنیا کے 150 ممالک میں ہر سال کہیں نہ کہیں اردو کانفرنس اور صد سالہ جشن کی تقریبات منعقد ہوتی رہتی ہیں۔ ترکی‘ استنبول یونیورسٹی میں سو سال سے زیادہ اردو پڑھائی جارہی ہے۔ اکتوبر 15 میں صد سالہ جشن منایا گیا۔ پوری دنیا سے لوگ جمع ہوئے۔ ان کانفرنس صد سالہ جشن تقریبات کے مقاصد سیاسی نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کا تعلق دنیا کی علیحدگی پسند تنظیموں سے ہیں۔ ان کا مقصد اردو زبان کی ترقی و ترویج کے سوا اور کچھ نہیں۔بھارت میں ”سرائیکی کانفرنس“ کا تواتر اور باقاعدگی کے ساتھ انعقاد اور ان کے سیاسی مقاصد ”اظہرمن الشمس“ ہیں۔ آپ کہتے ہیں 2 کانفرنسیں ہوئیں اور عبدالجبار عباسی کہتے ہیں کانفرنسیںہوئیں۔ کل کوئی اور بتا دے گا اتنی کانفرنسیں ہوئیں۔
(تاج لنگاہ کی جمہوری جدوجہد از اکبر انصاری روزنامہ خبریں ملتان 7 اپریل 2017ئ)
دھریجہ جی ہمیں ایسے لوگوں سے حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں‘ جن کا اپنا دامن صاف نہیں‘ جن کی اپنی نظریاتی عمارت‘ بنگلہ دیش سندھو دیش کے ”بودے“ دلائل پر قائم ہو۔
سقوط ڈھاکہ کا سارا ملبہ اردو پر ڈالنا انتہائی بدیانتی اور علمی خیانت ہے۔ ماں بولی کے نام پر بنگالیوں کو زبان کا حق نہ دینے کا ”ڈھنڈورا“ پیٹنا دھریجہ کا محبوب مشغلہ ہے۔
آیئے دھریجہ جی 1956ءکا آئین ملاحظہ فرمائیں NATIONAL LANGUAGE UNDER CONSTITUTION OF 1956, URDU AND BENGALI WERE MADE NATIONAL LANGUAGES (CONSTITUTIONAL 1956)
جب آئین پاکستان 1956ءمیں قومی زبان کے طور پر اردو اور بنگالی زبان کو تسلیم کرکے بنگالیوں کو ان کا حق دے دیا جاتا ہے تو پھر اردو کو سقوط ڈھاکہ کا ذمہ دار قرار دینا اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ نہیں تو اور کیا ہے۔ بنگالی زبان کا حق تسلیم کرانے کے بعد شیخ مجیب الرحمن نے اپنے چھ نکات میں کہیں بھی بنگالی زبان کا ذکر نہیں کیا۔ دھریجہ سمیت کوئی سرائیکی دانشور اس بات کو غلط ثابت کردے خدائے وحدہ لاشریک کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ قلم و قرطاس سے تعلق ختم کرکے ”شہید مینار“ کے سائے تلے ظہور دھریجہ کی جوتیاں سر پر اٹھاﺅں گا۔
سقوط ڈھاکہ کی وجوہات میں مشرقی پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع‘ بھارت کا 65ءکی شکست کا بدلہ لینا قوم پرستوں کے صوبائی تعصبات کو ابھارنا ملک دشمن لوگوں سے روابط‘ بڑی طاقتوں کی سازشیں بھارت کی فوجی اور نیم فوجی مداخلت‘ اقتصادی بدحالی قومی سیاسی و فوجی قیادت کی نااہلی سمیت بہت سی وجوہات تھیں۔ عوامی لیگ اکثریتی پارٹی ہونے کے باوجود بھٹو کی طرف سے شیخ مجیب کو اقتدار منتقل نہ کرنے دینا‘ ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس نہ منعقد کرنے دینا ڈھاکہ جانے والے ایم این ایز کی ٹانگیں توڑنے کی بات کرنے والے بھٹو کا ”ادھر ہم‘ ادھر تم“ کا نعرہ لگانے والے سانحہ مشرقی پاکستان کے ذمہ دار ہیں۔ سقوط ڈھاکہ کی تکون (مجیب اندراگاندھی بھٹو) کے تینوں بڑے کرداروں کا ایک جیسا بھیانک انجام سامنے ہے۔ ریاست بہاولپورکے قیام ہی سے عوام الناس اور سرکاری زبان اردو ہونا ملتان سے 1852ءسے اردو اخبار ”ریاض نور“ سمیت قریباً 120 اردو اخبارات کی اشاعت لاہور‘ سیالکوٹ علامہ اقبال فیض احمد‘ مولانا ظفرعلی خان کی اردو شاعری کی دھوم ہونے کے باوجود صرف بھارت کی زبان کہنا کم علمی اور کج فہمی ہے۔
اردو کا جبری نفاذ انور قریشی یا اشرف قریشی نے نہیں کیا اور نہ ہی یہ جبری نفاذ الطاف حسین یا پرویز مشرف نے کیا بلکہ یہ جبری نفاذ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے کیا ہے۔ دھریجہ جی چھ کروڑ سرائیکیوں کے ساتھ مزار قائد پر جایئے اور دہائی دیجئے‘ اتنا احتجاج کیجئے کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اردو کو ختم کرکے سرائیکی کو قومی زبان بنانے پر مجبور ہوجائےں۔
دوسری مرتبہ بھی جبر ”تخت لاہور“ یا ”تخت کراچی“ نے نہیں کیا بلکہ دھریجہ جی کے ”ہیرو“ اور ممدوح ذوالفقار علی بھٹو اور منتخب قومی اسمبلی نے یہ جبر کیا۔ چھ کروڑ سرائیکیوں کے ساتھ قومی اسمبلی اسلام آباد میں دھرنا دیجئے اتنا شور مچایئے کہ قومی اسمبلی آرٹیکل 251 واپس لینے پر مجبور ہوجائے۔
(کالم نگار کا تعلق تحریک صوبہ ملتان سے ہے)
٭….٭….٭



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv