تازہ تر ین

اقتدارکی کشتی

سعید چودھری صاحب ہمارے دوست اورسینئر صحافی ہیں ۔سیاست پر اپنی منفرد رائے اورتجزیے کا ملکہ بھی رکھتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ الیکشن ایک ایسی ایکٹویٹی ہے جس میں دولت کا ارتکازٹوٹتا ہے۔دولت اوپر سے نیچے کی طرف آتی ہے اور بے تحاشا آتی ہے۔الیکشن میں غریب کو روزگارملتا ہے۔پرنٹنگ پریس آباد ہوتے ہیں۔ اشتہار چھاپنے سے لگانے والا ہر کوئی نوٹ چھاپتا ہے۔ووٹر کی کلاس کوئی بھی ہو۔چاہے کلاس برگرہویا بریانی۔پیزاہویا قیمے والا نان،امیدوار کو کھلانا ہی پڑتاہے۔ایک ایک حلقے میں کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور یہ دولت امیدواروں کے گھروں۔تہہ خانوں اور بینک کھاتوں سے نکل کر گلی محلوں میں آجاتی ہے۔یہ دولت پاکستان کی معیشت کا حصہ بن جاتی ہے۔الیکشن ایک ایساایونٹ ہوتا ہے کہ اس میں ووٹر سپورٹرچاہے جیسے بھی ہوں۔ جتنے بھی ہوں لیکن خرچا امیدوارکا ہی ہونا ہوتا ہے۔اور امیدوار بھی ہاتھ نہیں روکتا ۔اس کو الیکشن کا نتیجہ پہلے سے معلوم ہوتا ہے اس کے باوجود وہ الیکشن لڑتا ہے ۔اس کے لیے بجٹ مختص کرتا ہے ۔الیکشن میں حصہ لینے والے ہر امیدوار کا اپنا ٹارگٹ ہوتا ہے۔کوئی اسمبلی پہنچ جاتا ہے اور باقی رہ جانے والے حلقے میں اپنا نام بنانے اور نام چلانے کے لیے یہ رقم خرچ کرتے ہیں۔
ملک میں اس بار ایسی بے یقینی ہے کہ الیکشن کا شیڈول آئے چار روز ہوگئے اوراب تو کاغذات نامزدگی داخل کیے جانے کا مرحلہ بھی چل نکا ہے لیکن حلقوں میں الیکشن نامی سرگرمی چنداں دکھائی نہیں دے رہی۔پتہ نہیں الیکشن کروانے والوں کو ابھی یقین نہیں ہے یا لڑنے والوں کو کنفرم نہیں کہ اب کی بار واقعی چناؤ8فروری کوہونے جارہا ہے۔اس ساری دھنداورسموگ کی کیفیت میں ایک چیز واضح دکھائی دینے کے اقدمات پاکستان کی سپریم کورٹ کیے جارہی ہے اوریقین ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے الیکشن کے لیے پتھرپر جو لکیر کھینچی تھی وہ اس کی حفاظت کا مکمل سامان کیے ہوئے ہیں ۔لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کے بعد سپریم کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس جناب طارق مسعود صاحب بھی تندہی سے اپنی ذمہ داری نبھارہے ہیں ۔انہوں نے الیکشن کے راستے کے پتھرصاف کرنے کی ذمہ داری اٹھالی ہے۔سپریم کورٹ گزشتہ دو دن سے حلقہ بندیوں پراعتراضات کے مقدمات کے فیصلے سنارہی ہے ۔سپریم کورٹ نے بنیادی فیصلہ کردیا ہے کہ الیکشن شیڈول آنے کے بعد حلقہ بندیوں سمیت کوئی ایسا اعتراض نہیں اٹھایا جاسکتا جس سے الیکشن میں تاخیر کے امکانات کا دخل ہو۔یہ تو طے ہوچکا ہے کہ یہ اور آئندہ ،جو بھی الیکشن ہوں گے وہ سپریم کورٹ کی ہی ذمہ داری لینے سے ممکن ہوں گے کیونکہ اس ملک میں اقتدار کسی دوسرے کے حوالے کرنا زندگی موت کا مسئلہ بن گیا ہے اور یہ مسئلہ ہمارے ساتھ ہی چلے گا۔
ایک طرف یہ صورتحال ہے اور دوسری طرف سیاسی جماعتیں ہیں جنہوں نے یہ الیکشن لڑنا ہے ۔پی ٹی آئی ابھی تک عدالتوں اور الیکشن کمیشن کی خاک چھان رہی ہے تا کہ اپنا انتخابی نشان بچاسکے۔پی ٹی آئی کو انتخابی نشان ابھی تو ملتا دکھائی نہیں دے رہا ۔مجھے لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن سے انکار کے بعد یہ مسئلہ بھی کسی عدالت میں ہی حل ہوگا۔پی ٹی آئی کو انتخابی نشان بلا ملنے کا امکان ہے لیکن اس معاملے میں بے یقینی آخری لمحے تک موجود رہنے کا خدشہ ہے۔ابھی تک جو صورتحال ہے اس میں تو لگ رہا ہے کہ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی الیکشن کو سندجواز دینے کے موڈ میں نہیں ہے۔پی ٹی آئی کے ساتھ انتخابی نشان یا انٹراپارٹی الیکشن ہی اکیلا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس جماعت کے لیے امیدوار سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ابھی تک تو امیدوار کہیں بھی نہیں ہیں اور یہ بھی نظر نہیں آرہا کہ کوئی ایسی آندھی چل جائے گی جو سب رکاوٹوں کو بہاکرلے جائے ۔سانحہ نومئی پی ٹی آئی کے گلے کا پھندا بنادیا گیا ہے اور اس پھندے سے نکلنے کا راستہ فی الحال الیکشن سے پہلے تک تو کوئی بھی میسر نہیں ہوگا۔سانحہ نومئی میں ملوث افراد کو سزائیں ہرحال میں ملیں گی۔یہ سزائیں فوجی عدالتوں سے بھی ہوں گی اور انسداد دہشتگردی کی عدالتوں سے بھی فیصلے آئیں گے۔اس بار الیکشن میں کسی کے لاڈلے سے زیادہ کسی کا راندہ درگاہ ہونازیادہ اہمیت رکھتا ہے اوراس کو عبرت کا نشان بنانا بھی لازمی ٹھہرے گا۔مرکزی نقطہ یہ ہے باقی سب زیب داستان ہے۔
پیپلزپارٹی کے لیے کل بھی سندھ کا اقتدار اہم تھا آج بھی وہی اہم ہے۔اس کی نظر میں ان کا سندھ محفوظ ہے اس لیے وہ باقی صوبوں میں مسلسل شرارت نما خطابات اور اجتماعات میں مصروف ہیں۔پیپلزپارٹی جانتی ہے کہ پنجاب میں ن لیگ کو جتنا زیادہ تنگ کریں گے اتنا ہی ان کو فائدہ مل سکتا ہے۔ویسے یہ بات بھی حقیقت ہے کہ الیکشن کا ماحول اگر بنانے کی کوشش کوئی کررہا ہے تو وہ بھی پیپلزپارٹی ہی ہے۔زرداری صاحب تو آگے کے منظر نامے میں کھوئے ہوئے ہیں لیکن بلاول کی کمان سے نکلنے والے تیروں کا رخ میاں نوازشریف کی طرف ہی ہے۔وہ نوازشریف پر چروکے لگاتے ہیں تاکہ پنجاب میں ووٹرکی توجہ پاسکیں لیکن اس بار ن لیگ جانتی ہے کہ بلاول ان کو الجھانے کے مشن پر ہیں ۔اگر ن لیگ الجھ گئی تو بلاول کا کچھ بگڑے گا نہیں اورن لیگ کا کچھ بچے گا نہیں اس لیے ن لیگ کی طرف سے بلاول کی کسی بات کاکوئی جواب نہیں دیا جارہا۔ن لیگ ویسے پہلی بار ایسی حکمت عملی اپنا رہی ہے جو بظاہر تو حیران کن ہے لیکن عقل مندی پر مبنی ہے۔ن لیگ جانتی ہے کہ پنجاب میں نہ پیپلزپارٹی اس کے لیے کوئی چیلنج ہے اور نہ ہی ان کی دشمن۔ پنجاب میں ن لیگ کا مقابلہ پی ٹی آئی کے ووٹراوراستحکام پاکستان کے الیکٹیبلز سے ہے اس لیے وہ فوکسڈ ہیں اور یہی وقت کی ضرورت ہے۔پیپلزپارٹی سے الجھنے سے فائدہ پیپلزپارٹی کا ہی ہوگا کیونکہ جنوبی پنجاب کے ایک آدھ ضلع کو چھوڑ کر باقی پنجاب میں تو راجا پرویز اشرف، قمر زمان کائرہ اور ندیم افضل چن کے علاوہ چوتھاکوئی ایسا نام نہیں جو الیکشن کے لیے امیدوار ہواورتگڑامقابلہ بھی کرسکے ۔
رہی بات مسلم لیگ ن کی تو وہ اس وقت ایک ایسی پارٹی کی طرح خود کو پیش کررہی ہے جس کے اقتدا ر کے راستے میں صرف آٹھ فروی کی تاریخ ہی حائل ہے باقی بندوبست ہوچکا ہے۔نوازشریف گزشتہ دوہفتوں سے امیدواروں کو ٹکٹیں دینے کی مشق میں مصروف ہیں۔صرف ن لیگ ہی ایسی پارٹی ہے جس میں ٹکٹیں دینے کا کام اس تیزی اور تفصیل سے کیا جارہا ہے۔نوازشریف قانونی جنگ جیت چکے ہیں۔ ان کی سزائیں ختم کردی گئی ہیں اورتاحیات نااہلی کا پتہ بھی جنوری کی کسی تاریخ تک صاف کردیا جائے گا۔ن لیگ کے قانونی حلقے جو مرضی کہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ آج کی تاریخ تک سپریم کورٹ کا فیصلہ باقی ہے اور نوازشریف تاحیات نااہل ہیں۔کاغذات نامزدگی کا مرحلہ آیا چاہتا ہے اوریونہی نوازشریف اورجہانگیرترین کے کاغذات جمع ہوں گے ان پراعتراض کردیاجائے گا۔ریٹرننگ افسر ان کاغذات کو منظورکرے یا رد کرے دونوں صورتوں میں فیصلہ اوپر کی عدالتوں میں ہی ہونا ہے۔سپریم کورٹ تاحیات نااہلی کے مقدمے کو دوبارہ سن کر فیصلہ دینے کا کہہ چکی ہے اورجنوری میں اس کیس کا فیصلہ تاحیات نااہلی کا قانون ختم کیے جانے کی صورت میں سامنے آئے گا۔وقت کم اورکٹھن ہے ۔سپریم کورٹ کا فیصلہ اگرکاغذات نامزدگی کے منظورکیے جانے کے وقت کے اندر اندرآگیا تو نوازشریف الیکشن کے میدان میں کودیں گے اور وزیراعظم بھی بن جائیں گے لیکن اگراس فیصلے میں ذرا سی بھی تاخیر ہوتی ہے تو نوازشریف میدان سے باہر رہیں گے جس کے امکانات زیادہ ہیں۔ویسے تو اس الیکشن میں نوازشریف خود کو سادہ اکثریت کے ساتھ وزیراعظم دیکھنے کے خواہشمند ہیں لیکن اقتدار کی اس کشتی میں وہ اکیلے سوارہوں،کشتی کی کپتانی اور پتوار مکمل ان کے ہاتھ میں ہو ایسا شاید ممکن نہ ہو۔نہ ہی دوسرے سیاسی کھلاڑیوں کی موجودگی میں یہ ممکن ہوگا اور نہ ہی فی الحال اس سسٹم کو سوٹ کرتا ہے۔اس لیے نوازشریف کو اگر اقتدار لینا ہے تو ایسا ہی ملے گاجس میں وہ اکیلے نہیں ہوں گے ۔اقتدار کی کشتی کا کنٹرول دکھانے کی حدتک ان کے پاس ہوگا لیکن اصل کنٹرول وہیں ہوگا یہاں آج کل ہے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



آج کی خبریں



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv