تازہ تر ین
zia shahid.jpg

حدیبیہ کیس ،صرف میڈیا پر پابندی ،سیاستدانوں پر کیوں نہیں جوروزانہ عدالتوں کی ایسی تیسی پھیرتے ہیں:ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ طاہر القادری صاحب کے ساتھ اکٹھے ہونے والے تمام افراد کا مقصد ایک ہے۔ تمام سیاستدانوں کا مقصد یہ ہے کہ سپریم کورٹ سے وزیراعظم کو نااہل کروا دینے کے باوجود وہ پارٹی کے صدر اور ان کے چھوٹے بھائی پنجاب میں وزیراعلیٰ موجود ہیں۔ لہٰذا عملا تو اقتدار میاں نوازشریف کے پاس ہی رہا۔ اب یہ تمام سیاستدان مشترکہ کاوش کے ذریعے انہیں گرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کو طاہر القادری کی صورت میں ایک مضبوط سہارا مل گیا ہے جس کے پیروکار دھرنے سے جاتے بھی نہیں۔ تمام سیاسی پارٹیاں اپنے سیاسی مقاصد کے لئے طاہر القادری کو استعمال کرنا چاہتی ہیں تا کہ حکومت کو نیچا دکھا سکیں۔ طاہر القادری بھی ان افراد کو استعمال کرنا چاہتے ہیں تا کہ اپنے شہداءکے خون کے بدلے کے طور پر حکومت کو گرا سکیں۔ اس مرتبہ ڈاکٹر طاہر القادری بھی اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے دکھائی نہیں دیئے۔ عمران خان، آصف زرداری کے خلاف دھواں دھار تقاریر کر رہے ہیں۔ آصف زرداری عمران خان کے خلاف ہیں۔ یوں اگر ڈاکٹر صاحب دھرنا دیتے ہیں تو ایک دن آصف زرداری کے ساتھ اور ایک دن عمران کے ساتھ دھرنا دینا ہو گا۔ جو ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ مصطفی کی مثال ایک یوسف بے کارواں جیسی ہے۔ انہوں نے فوج پر الزام لگایا کہ ہمیں ایم کیو ایم سے ملوایا۔ ایم کیو ایم اور پی ایس پی میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ عمران خان کے والد اکرام اللہ خاں نیازی کی کرپشن کے بارے کچھ زیادہ معلوم نہیں کسی دن قمرزمان کائرہ سے اس بارے معلومات لیں گے۔ ضیاءالحق اور خود بھٹو کے دور میں دائیں بازو اور بائیں بازو کی دونوں پارٹیاں اکٹھی بیٹھتی رہی ہیں۔ بریلوی مسلک کے لوگ مولانا شاہ احمد نورانی کی قیادت میں اور دیو بند کے پیروکار مفتی محمود کی قیادت میں اکٹھے ہوئے تھے۔ جو ایک دوسرے کے پیچھے نماز تک نہیں پڑھتے تھے۔ وہ لوگوں کو دکھانے کے لئے اکٹھے ہو گئے تھے۔ یہ بات طے ہے کہ جہاں مصطفی کمال ہوں گے وہاں فاروق ستار نہیں ہوں گے۔ مصطفی کمال کو خیال آیا کہ طاہر القادری سے مل کر وہ مین اسٹریم میں آ سکتے ہیں اس لئے وہ یہاں آ گئے۔ بابر غوری کے لئے ایم کیو ایم کو چھوڑ کر مصطفی کمال کے ساتھ ملنا مشکل ہو گا۔ سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپر ملز پر تبصرہ نہ کرنے کا اچھا فیصلہ کیا ہے۔ صحافت کا بھی یہی اصول ہے کہ معاملہ عدالت میں ہو تو اس پر بات نہیں کرنی چاہئے پہلے تو جج صاحبان فوراً ایکشن لے لیتے تھے۔ لیکن آہستہ آہستہ ایسا ہونا بند ہو گیا۔ اور لوگ خوب خوب اپنی رائے ساتھ ساتھ دیتے رہتے ہیں۔ نوازشریف صاحب کو عدالت نے اس وقت بحال کر دیا جب انہیں صدر نے 58/2B استعمال کرتے ہوئے گھر بھیج دیا تھا۔ محترمہ بینظیر کو فارغ کیا گیا تو عدالت نے انہیں بحال نہیں کیا بلخ شیر مزاری اس وقت نگران وزیراعظم بنے تھے۔ بینظیر بھٹو نے عدالت کے بارے لفظ استعمال کیا کہ ان پر ”چمک کا اثر“ ہے۔ چمک سے مراد”پیسہ“ ہے۔ یوسف رضا گیلانی وہ واحد شخص ہے۔ جس نے نااہلی کے بعد عدالت پر ایک لفظ تک نہیں کہا اور خاموشی سے گھر چلا گیا۔ نوازشریف صاحب جب سے نااہل ہوئے ہیں ان کی بیٹی، داماد اور سارے رشتہ داروں نے کابینہ کے تمام ارکان نے عدالت کو وہ بے نقد سنائی ہیں۔ کھلم کھلا جج کو فیصلوں کو عدالتوں کو نشانہ بنایا ہے۔ عدالت نے آج میڈیا پر تو قدغن تو لگا دی ہے۔ لیکن یہ پابندی سیاستدانوں پر کیوں نہیں لگائی۔ حدیبیہ کوئی متبرک کاغذ ہیں جن کے بارے بات نہیں کی جا سکتی؟ قانون دان ہی اس بارے میں اچھی رائے دے سکتے ہیں۔ سی پی این ای کے اجلاس میں ہم ملکی اہم اشخاص کو لے کر ان سے بات کرنے ہی اویس لغاری کے بجلی کے معاملے میں بہت کچھ کہا ہے۔ یہ پہلے مشرف دور میں آئی ٹی کے وزیر بھی ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے کل ہمیں بتایا کہ اوور بلنگ کرنے پر ایکسین کو تین سال سزا سنائی جائے گی۔ قومی اسمبلی نے تو بل پاس کر لیا تھا۔ لیکن سینٹ میں اسے مسترد کر دیا گیا ہے لگتا ہے کہ میٹر ریڈرز حضرات سے لے کر ایکسین حضرات کے نمائندے وہاں تک پہنچ گئے اور بل کو منظور ہونے سے روک دیا ہے۔ تحریک انصاف کے نعیم الحق نے کہا ہے کہ طاہر القادری کے دھرنوں عوامل کو ہمیں دیکھنا ہو گا کہ پی ٹی آئی ان کے ساتھ اس وقت شریک ہو جس وقت اس میں زرداری صاحب نہ ہوں۔ دھرنا ایک نہیں بلکہ کئی ہوں گے۔ طاہر القادری کا ایک ایجنڈا ہے۔ وہ ماڈل ٹاﺅن سانحہ ہے ہم ملکی دیگر مسائل کے ساتھ نکلے ہوئے ہیں۔ عمران خان نے کہا ہے کہ وہ زرداری کو ساتھ ملانے کے لئے اپنے اصولوں کی قربانی نہیں دے سکتے۔ عمران خان زرداری کی کرپشن کے پیچھے کھڑے نہیں ہوں گے۔ لیکن جمہوریت بچانے کے لئے انہیں ساتھ ملایا جا سکتا۔ تحریک انصاف کے عمران سمیت بارہ لیڈران اور 200 کارکنوں کے خلاف ججز صاحبان نے فیصلہ لکھا ہے۔ مینجمنٹ میں لکھا ہے کہ صرف امتیازی سلوک روانہ رکھنے کا وجہ سے آج کی درخواست کو مسترد کیا جاتا ہے۔ آج مشاورت کی ہے کہ اس فیصلے کے خلاف ہائیکورٹ جانا چاہئے کہ نہیں۔ ماہر قانون جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے کہا ہے کہ عدالتی فیصلوں پر بات چیت کرنے سے ذرا پرہیز ہی کرنا چاہئے۔ سیاستدانوں کی طرف آنے والے کئی بیانات ”توہین“ کے زمرے میں آتے ہیں۔ عدالتوں میں آج کل رواداری کا ایک تاثر پایا جاتا ہے جو کہ اچھا عمل ہے۔ حدیبیہ کیس کی بڑی زیادہ اہمیت ہے۔ نیب کورٹ میں معاملات میاں صاحب کے خلاف چل رہے ہیں۔ غلط روش پر چلنے والے دیگر سیاستدانوں پر بھی کیسز چلیں گے۔ ان تمام کیسز میں سب سے اہم حدیبیہ کیس ہے۔ میڈیا کو بھی کہا گیا ہے کہ وہ بھی اس پر بات نہ کرے۔ ہمارے جج صاحبان نے ابھی اس پر مشاہدہ دیا ہے۔ لگتا ہے مزید فیصلہ بھی آئے گا۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv