تازہ تر ین
trump

ٹرمپ نے بعض اہم مسلم ممالک سے مشورہ کے بعد اعلان کیا: اسرائیلی ٹی وی کا دعویٰ

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) خبریں کے چیف ایڈیٹر اور معروف صحافی ضیاشاہد نے انکشاف کیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے سے پہلے کچھ اہم مسلم ممالک سے مشورہ کیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے اس فیصلے کا اعلان کیا۔ چینل ۵ کے پروگرام ”ضیاشاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اسرائیلی ٹی وی کے حوالے سے ان ممالک کے نام بھی بتائے۔ اسرائیلی چینل 10 نے اپنے ایک پروگرام میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر کا نام لیا تاہم فوری طور پر اس کی تصدیق نہیں ہو سکی تاہم یہ صرف اسرائیلی دعویٰ ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ میں 1995ءمیں سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کا قانون منظور ہوا تھا۔ سینٹ اور ایوان نمائندگان کی بھاری اکثریت نے اس کی منظوری دی تھی جس میں دونوں امریکی جماعتوں ری پبلکن اور ڈیموکریٹ کے ارکان نے ووٹ دئیے تھے۔ اس وقت تمام مسلمان ممالک کو اس کا علم تھا مگر کسی نے احتجاج نہیں کیا۔ اس کے بعد یہ چوتھا امریکی صدر ہے جو ہر چھ ماہ بعد اس قانون پرعملدرآمد نہ کرنے کی اجازت دے رہے ہیں۔ صدر اس قسم کے استثنیٰ کے وقت قرار دیتا ہے کہ اس قانون پر عملدرآمد قومی تقاضوں کے منافی ہے۔ یہ استثنیٰ گزشتہ بائیس برس سے دیا جا رہا ہے اور سب مسلمان ملکوں کو اس کا علم تھا مگر انہوں نے خاموشی اختیار کئے رکھی۔ صدر ٹرمپ نے اب اس قانون کے مطابق اعلان کیا ہے جو 1995ءمیں منظور ہوا اور جسے یروشلم ایمبیسی ایکٹ کا نام دیا گیا تھا۔ ضیاشاہد نے پروگرام شروع کرتے ہوئے کہا کہ سیدہ عابدہ حسین نے ہمارے پروگرام میں کہا تھا امریکہ سے اپنے مطالبات منوانے کا صرف ایک طریقہ ہے وہ یہ کہ اسرائیل پر دباﺅ ڈالا جائے یورپ اور دیگر ممالک تو اس فیصلے کے خلاف ہیں۔ ان کے خیال میں سب سے بڑا ہتھیار تیل کی فراہمی معطل کرنا ہے۔ اس کے علاوہ ہر قسم کی تجارت اس کے ساتھ بند کر دی جائے تو امریکہ ایک گھنٹے میں درست ہو جائے گا۔ دوسرے سرتاج عزیز نے کہا ہم اس پر مضبوط لائحہ عمل اختیار کریں گے تاکہ امریکہ کو مجبور کیا جا سکے۔ میں نے پہلے ہی کہا کہ زبانی جمع خرچ سے اب کچھ نہیں بنے گا۔ جماعت اسلامی کے رہنما کا خیال تھا کہ امریکہ کا کہنا ہے کہ اس اعلان سے قبل اس نے مسلمان ممالک سے مشاورت کی ہے۔ اس نقطے پر مجھے حیرت بھی ہوئی۔ جماعت اسلامی کے رہنما عبدالعزیز غفار سے بھی دوبارہ پوچھا۔ اسرائیل کے چینل 10کی نشریات میں کہا گیا ہے کہ امریکہ نے جن مسلمان ممالک کا ذکر کیا ہے ان میں سے پہلے سعودی عرب کا نام آتا ہے۔ چینل نے کہا ہے کہ محمد بن سلمان کچھ عرصہ سے اسرائیل کے ساتھ خفیہ طور پر روابط رکھے ہوئے ہیں بلکہ اپنی بادشاہت کو مستحکم کرنے کےلئے کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اسرائیل کے ساتھ درپردہ مدد حاصل کر سکیں گے۔ محمد بن سلمان کے علاوہ متحدہ عرب امارات یعنی ابودبئی کا بھی نام لیا جا رہا ہے کہ یہ بھی مشاورت کیے جانے والے مسلم ممالک میں شامل ہے تیسرے نمبر پر مصر کا نام اسی چینل نے لیا ہے۔ مصری صدر السیسی اس قدر امریکہ کے مرہون منت ہیں کہ مصر کے صدر کو قید کیا گیا انہیں سزا سنائی گئی۔ امریکہ نے جمہوریت کا ساتھ دینے کی بجائے الٹا السیسی کو بھرپور مالی امداد فراہم کی۔ جنرل السیسی نے ریاست کی طرف سے اپنا سب سے بڑا اعزاز ”ٹرمپ“ کو پیش کیا ہے۔ 6 روزہ مصری جنگ کے سربراہ صدر ناصر تھے۔ انہوں نے نہر سوئیز عبور کر کے اسرائیل پر حملہ کیا تھا۔ لیکن زبردست شکست کھائی۔ بعد ازاں انہوں نے اسرائیل سے صلح کی اور صدر ناصر نے ڈرامہ کرتے ہوئے استعفیٰ بھی دے دیا۔ وہ بھی سیاسی آمر تھے جو فوج کی مدد سے برسراقتدار آئے تھے۔ جنرل نجیب کو رخصت کرنے کے بعد کرنل ناصر سیاہ اور سفید کے مالک بن بیٹھے۔ شکست کے بعد مصر نے اسرائیل کو تسلیم کیا اور آج تک اس کے بہترین تعلقات استوار ہیں۔ اس طرح مصر پہلا اسلامی ملک تھا جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا۔ امریکہ نے مصر کو قبضہ میں رکھنے کےلئے بے پناہ مالی امداد دی۔ طیب اردگان اگرچہ دنیا میں ممتاز مقام ضرور رکھتے ہیں لیکن ترکی نے بہت عرصہ سے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے۔ ایسا دکھائی نہیں دیتا کہ وہ کوئی اہم کردار ادا کر سکے گا۔ روس اور چین، فلسطینیوں کی حمایت کےلئے نہیں بلکہ امریکہ کی مخالفت پر سامنے آ سکتے ہیں اسے یونی لیٹرل کہتے ہیں۔ یقیناً یہ دونوں ممالک امریکہ کو کلین چٹ نہیں دینے دیں گے۔ اور دونوں مدافعت کریں گے۔ لیکن کسی حد تک۔ اگر امت مسلمہ جن کا یہ اصل میں بچہ ہے۔ اگر وہ اپنی بزدلی اپنے مقاصد کےلئے سامنے نہیں آئیں گے تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔ پاکستانی حکومت ماضی کی طرح بھاگ دوڑ کر کے اگر اسلامی ممالک کو اکٹھا کر دیتی ہے جیسا کہ بھٹو دور میں اور کچھ ضیاءالحق کے دور میں ہوا تھا۔ پاکستان کی معاشی قوت بہت زیادہ کمزور ہے۔ سالانہ بجٹ کےلئے 1/3 حصہ ہمیں آئی ایم ایف سے مانگنا پڑتا ہے۔ جب تک ہم خود کو آئی ایم ایف کے چنگل سے نہیں نکال لیتے اس وقت تک ہم اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہو سکتے۔ دفاعی تجزیہ کار، جنرل (ر) غلام مصطفی نے کہا ہے کہ سعودی پرنس سلمان نے نیتن یاہو سے ملاقات بھی کی ہے۔ ٹرمپ جب سعودی عرب آئے تو تاریخ میں پہلی دفعہ کوئی جہاز براہ راست تل ابیب جا کر اترا۔ محمد بن سلمان صاحب نے ٹرمپ کو ایک ارب کے تحفے بھی دئیے تھے۔ اس ملاقات کے دوران یہ بات ہو سکتی تھی۔ لیبیا اس وقت تباہ ہو چکا ہے۔ لیکن وہ روس کی مداخلت کی وجہ سے بچ گیا۔ عراق کے حالات سب کے سامنے ہیں۔ پاکستان کے حالات بھی ہم بخوبی جانتے ہیں۔ اب صرف ایران شاید واحد ملک ہو جو امریکہ کے سامنے کھڑا ہے۔ ایران، عراق، سعودی عرب میں واقع تقسیم ہے۔ ترکی کے بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات ہیں۔ اس لئے ہماری لیڈرشپ شور تو مچا سکتی ہے لیکن اس سے زیادہ نہیں کرسکتی۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ تمام لیڈران کے ذاتی مفادات کسی نہ کسی طرح امریکہ کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔ کچھ ملکوں کی پوری کی پوری دولت وہاں پڑی ہوئی ہے۔ ان کے بچے اور فیملیاں وہاں مقیم ہیں۔ اس سطح پر ایسا دکھائی نہیں دیتا کہ یہ او آئی سی کا اجلاس کامیاب کروا کر امریکہ کو پیچھے دھکیل سکیں گے۔ اسلامی ممالک تیل کی فراہمی روک لیں اور ڈالر میں ہر قسم کی تجارت بند کر دیں تو شاید امریکہ پر دباﺅ ڈالا جا سکے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ روس اور چین کو ساتھ ملایا جائے۔ یہ دونوں ممالک پہلے ہی امریکہ کے فیصلے کو رد کر چکے ہیں تمام اسلامی ممالک ان دونوں طاقتوں کو ساتھ ملائیں تو ہر کام ممکن ہے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ حق اور باطل کا معرکہ ازلی اور ابدی ہے یہ ہمیشہ جاری رہے گا۔ فلسطین حق و باطل کے درمیان ایک میدان رہا ہے۔ پیغمبر صادق نے فرمایا تھا کہ آخری زمانے میں جنگ و جدل ہوں گی۔ یقیناً آپ کا قول پورا ہو کر رہے گا۔ اسرائیلی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ مسلم عوام ہمارے خلاف ہے۔ امت مسلمہ اگر اتحاد اور تعاون کے ساتھ اکٹھے رہیں تو وہ کچھ کر سکتے ہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ساری عوام، قوم، امت مسلمہ ایک طرف ہوں اورحکمران دوسری طرف۔ یقیناً حکمرانوں کو ان کی بات سننی پڑے گی۔ ہمیں اپنے حصے کاکام کرنا ہے۔ فرض ادا کرنا ہے اور دیا جلانا ہے۔ تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ حکومتیں کچھ بھی کر لیں۔ عوام کا ردعمل اہم ہوا کرتا ہے۔ ٹرمپ کے فیصلے کے بعد دنیا بھر میں احتجاج ہوا ہے۔ اسی طرح برطانیہ، یورپین ممالک میں زبردست ایکشن آیا ہے۔ پوپ فرانسس کا ردعمل کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کیا کہ رہے ہیں۔ سب کی ایک رائے ہے کہ یہ بین الاقوامی رائے اور معاہدوں کے خلاف عمل ہے۔ یہ انٹرنیشنل قوانین کے مخالف ہے۔ اس سے مشرق وسطیٰ کے امن کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ حکمران جو بھی چاہیں۔ عوام کا ردعمل شدید ہے۔ 13 دسمبر کو استنبول میں ایک سمٹ ہونے والا ہے جس میں او آئی سی کے سربراہان جمع ہو رہے ہیں۔ پاکستان کو اس میں بھرپور شرکت کرنی چاہیے اور اپنے ماضی کے درست فیصلے یعنی دو قومی نظریے کو تقویت دینی چاہیے۔ اس نظریے کی تجدید کرنی چاہیے۔ انٹرنیشنل ردعمل کےلئے اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے۔ امریکہ پر ڈپلومیٹک پریشر بڑھانا چاہیے تاکہ وہ اپنے فیصلے کو ری ویزٹ کرے۔ مشرق وسطیٰ کی صورتحال مزید بگڑ جائے گی۔ اس فیصلے نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ امریکہ میں ایک قانون ہونے کے باوجود کینیڈا کے صدر نے علیحدہ رہنے کا عمل کیا ہے۔ پاکستان کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ حکومت گزشتہ سالوں میں جو معاشی حالت کی تصویر کشی کرتی رہی ہے صورتحال اس کے برخلاف ہے۔ پاکستان کے مالی حالات بری طرح بگڑ چکے ہیں۔ ہم کب تک آئی ایم ایف کو اپنے اوپر مسلط کیے رکھیں گے؟ ہمیں ہر صورت آئی ایم ایف کے چنگل سے نکلنا ہوگا۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv