تازہ تر ین

”نظام عدل پرسوال اُٹھ رہے ہیں اربوں ڈکارنے والے بڑھکیں مارتے ہوئے رہا ہوجاتے ہیں“ نامور تجزیہ کار ضیا شاہد کی چینل ۵ کے مقبول پروگرام میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوںاور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ملک میں جاری عدل و انصاف کی فراہمی کا نظام خود ایک سوالیہ نشان بنتا جا رہا ہے۔ ملزم پکڑے جاتے ہیں اربوں کی کرپشن کا الزام ہوتا ہے، چند لاکھ روپے کے مچلکوں پر ضمانت ہو جاتی ہے۔ جے آئی ٹیز بنائی جاتی ہیں جن میں پولیس حساس اداروں کے افسر شامل ہوتے ہیں جو مکمل تحقیقات کرتے ہیں رپورٹس تیار کرتے ہیں، اعترافی ویڈیوز بنائی جاتی ہیں لیکن یہ رپورٹس سامنے ہی نہیں آتی طرح طرح کی رکاوٹیں بیچ میں آ جاتی ہیں قوم کا وقت ضائع کیا جا رہا ہے۔ عدالتیں یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ حکومتیں کرپٹ ہیں، فلاں ادارے میں کرپشن ہوئی، بھرتیوں میں کرپشن کی گئی تاہم یہ معاملات بھی صرف بیان کی حد تک ہی رہ جاتے ہیں۔ قوم کو سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ کس بات پر یقین کرے کس پر نہ کرے، وقت ضائع کیا جا رہا ہے۔ کروڑوں اربوں کی کرپشن میں پکڑے گئے بڑے بڑے عہدیدار سال دو سال بعد باعزت بری کر دیئے جاتے ہیں۔ قوم کس سے پوچھے کہ کون غلط تھا، جے آئی ٹی والے، عدالتیں یا متعلقہ ادارے آخر خرابی پیدا کرنے والا بیچ میں ہی کہیں موجود ہوتا ہے۔ ان حالات کے باعث نظام عدل و انصاف داغدار ہو رہا ہے۔ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس حضرات سے درخواست کرتا ہوں کہ صورتحال کا سنجیدگی سے نوٹس لیں اور ایک دو کیسز کی تفصیلات منگوا کر خود ٹیسٹ کیس کے طور پر جائزہ لیں کہ خرابی کہاں ہے تا کہ اسے دور کیا جا سکے۔ بار ایسوسی ایشنز بھی ان معاملات میں مکمل معاونت کریں کیونکہ یہی وطیرہ جاری رہا کہ بڑے بڑے ملزمان پکڑے جائیں اور پھر کچھ عرصہ بعد بڑھکیں لگاتے وکٹری کا نشان بناتے باہر آ جائیں تو نظام عدل پر بڑے سنجیدہ سوالات کھرے ہو جاتے ہیں، معاشرے اس طرح سے نہیں چل سکتے۔ ملزمان کی صرف ضمانت ہوئی ہے اور وہ باہر بھااگ جاتے ہیں پھر واپس ہی نہیں آتے۔ حقانی اور ایان علی کیس اس کی مثال ہے۔ وزیر داخلہ چودھری نثار کو بھی چاہئے کہ اپنا ٹریک ریکارڈ سیدھا کریں۔ پریس کانفرنس میں بڑے بڑے دعوے کرنا اور بعد میں کچھ بھی نہ کر پانا ایسا کرنے پر ان کی اپنی ساکھ متتاثر ہوئی ہے۔ اپنے محکمہ میں انہوں نے بہرحال بہتر اصلاحات کی ہیں۔ بڑے کیسز پر کمپنیاں بنائی جاتی ہیں جو تحقیقات کر کے رپورٹس تیار کرتی ہیں تو وہ سامنے نہیں لائی جاتی۔ حکومت یا عدالتیں اس طرح ان رپورٹس کودبا کر یا فیصلہ غیر معینہ مدت کے لئے محفوظ نہیں کر سکتی۔ سینئر صحافی نے کہا کہ ان معاملات پر ہم خود تو کچھ نہیں کر سکتے تاہم قوم کے احساسات تو حکومت یا عدالت تک پہنچا سکتے ہیں کہ اگر کوئی فیصلہ کر لیتا ہے تو اسے کتنی دیر تک محفوظ رکھنا ہے۔ وزارت خارجہ کی ہفتہ وار میڈیا کانفرنس میں صرف ایک دو جملے مزید شامل کر کے پرانا بیان دہرایا جاتا ہے صرف ایک تبدیلی نظر آتی ہے کہ کانفرنس کرنے والے چہرے بدل بدل کر آتے ہیں۔ پاکستان کو بھارت میں جناح ہاﺅس بارے کلیم کرنا چاہئے اور وہاں بنانی پاکستان کی یادگار پر مشتمل چھوٹا میوزم بنانا چاہئے چودھری شجاعت نگران وزیراعظم بنے تو پوچھنے لگے کہ کیا یادگار کام کر جاﺅں تو میں نے کہا کہ لندن میں جناح ہاﺅس کو خرید کر میوزیم بنا دیں، وہ چلے گئے مزید حکومتیں آتی جاتی رہیں، موقف یہ دیا گیا کہ لندن میں جناح ہاﺅس کے مالک پیسے بہت مانگتے ہیں، یہ بات اس ملک کے حکمران کر رہے تھے جو اپنی ذاتی رہائش گاڑی تک سڑکیں لے جانے اور سہولیات پر اس رقم سے ہزاروں گنا زیادہ خرچ کر دیتے ہیں۔ کشمیر میں مقامی طور پر تحریک آزادی ابھری ہے جسے دبایا جانا ممکن نہیں ہے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv